انوکھا ایڈوانچر (دوسرا حصہ)



درخت کے نیچے ہم تینوں نے مل کر گڑھا کھودا، اور یوں اس ریگستان میں پہلی قبر تیار ہو گئی یہ قبر ہماری موٹر سائیکل ( بائیک ) کی تھی۔

 ہم نے بائیک کو یہ سوچ کر زمین میں دفن کر دیا تھا کہ ہم میں سے کوئی بھی زندہ سلامت گھر چلا گیا تو وہ واپس یہاں پر آ کر اسے لے جائے گا، ہنڈا کمپنی کی 125 cc بائیک کافی اچھی حالت میں تھی، بیس منٹ بعد ہم بائیک کو زمین کے حوالے کر کے فارغ ہو چکے تھے، وسیم اور ناصر نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ ضد چھوڑ دو، ہماری بات مانو، آؤ اکھٹے چلتے ہیں، کوئی نا کوئی مدد مل جائے گی، لیکن میں واپس جانا چاہتا تھا، مجھے آگے موت نظر آ رہی تھی، اور پھر وہ دونوں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے، میری آنکھوں میں پہلی بار آنسو آئے تھے، میں بھیگی آنکھوں سے دیر تک ان دونوں کو دیکھتا رہا، اور پھر وہ دونوں اونچے نیچے ٹیلوں میں گم ہو گئے،

 میں کچھ دیر وہیں کھڑا صورت حال کا جائزہ لیتا رہا کہ اس حالت میں آٹھ دس گھنٹے کا سفر کر پاؤں گا یا راستے میں ہی ہمت ہار جاؤں گا؟ جو بھی تھا یہاں پر بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے سے بہتر تھا کہ قدموں کو گھسیٹتے ہوئے واپسی کے لیے نکل جاؤں، اور پھر میں بھی چل پڑا، جدھر سے ہم آئے تھے، اس طرح چل پڑا، مغرب کی جانب سورج تھوڑا سا مزید جھک چکا تھا لیکن ابھی تک گرم لو کے تھپیڑے چہرے کو جھلسا رہے تھے، مجھے امید تھی کہ اگر میں صحیح سمت میں چلتا رہا تو مکمل اندھیرا ہونے تک اپنے گاؤں کے کافی قریب پہنچ جاؤں گا، اور پھر کسی اونچی ٹیکری یا درخت پر چڑھ کر روشنیاں تلاش کرنے کی کوشش کروں گا، رات کے اندھیرے میں جس طرف سے روشنی آئے گی وہاں پر یقیناً آبادی ہو گی اور مجھے مدد مل جائے گا،

 یہ سوچ کر میرے اندر ایک نیا حوصلہ پیدا ہوا اور میرے بے جان قدموں میں تیزی آ گئی، گرم ہوا کئی بار بگولوں کی شکل اختیار کر کے چھوٹے سی اندھی کی شکل اختیار کر لیتی تھی اور گرم ریت کے ذرے چہرے سے ٹکراتے تو یوں لگتا کہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں لگ رہی ہوں، تھوڑا آگے جا کر مجھ پر انکشاف ہوا کہ جس راستے سے ہم آئے تھے وہاں پر ہمارے قدموں اور بائیک کے ٹائر کے نشانات سرے سے ہی مٹ گئے تھے، یہ تشویشناک صورت حال تھی، میں ان نشانات کو دیکھ کر آسانی سے واپس جا سکتا تھا، لیکن اب صورت حال بدل چکی تھی اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ ریگستان میں ریت ہر وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتی ہے، نئے نشان بناتی ہے اور پرانے نشانات مٹا دیتی ہے، اور یہ عمل مسلسل چلتا رہتا ہے، پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری اور اندازے سے واپس چلتا رہا، میری نظریں تیزی سے آس پاس گھومتی رہتی تھیں، میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی زہریلے سانپ یا بچھو کا نشانہ بنو، اگر ایسا ہو گیا تو پھر میری موت یقینی تھی،

 جسم سے قوت برداشت تو پہلے ہی ختم ہو چکی تھی، اس لیے زہر کا اثر سیدھا دل پر ہو سکتا تھا اور پھر چند قدم بھی چلنا محال ہو جاتا، اور اسی جگہ گر کر موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا پڑتا، ریگستان کے اس حصے میں ابھی تک مجھے کوئی درندہ یا بڑا جانور نظر نہیں آیا تھا، بس کبھی کبھار کوئی جنگلی بلی یا نیولا ایک جھاڑی سے دوسری میں جاتا دکھائی دے دیتا تھا، ہو سکتا ہے رات ہونے پر بڑے جانور بھی نکل آتے، کیونکہ میں نے سنا تھا کہ گیدڑ، صحرائی لومڑیاں اور جنگلی سو٘ر اس حصے میں بکثرت پائے جاتے ہیں، اب مجھے چلتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا تھا اس دوران میں نے کئی بار موبائل فون نکال کر دیکھا کہ شاید کوئی سگنل مل جائے لیکن ہر بار ناکامی ہی مقدر ٹھہری تھی، اب سورج غروب ہونے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھی، گرمی کی شدت تھوڑی سی کم پڑ گئی تھی، لیکن دوسری جانب میری حالت ایسی ہو گئی تھی کہ آنکھوں کے آگے بار بار اندھیرا سا چھانے لگتا تھا، دو تین مرتبہ تو میں گرتے گرتے بھی بچا تھا، مجھے صرف چند گھونٹ پانی کی ضرورت تھی اگر وہ کہیں سے مل جاتے تو میں دس گھنٹے بھی مزید پیدل چل سکتا تھا، بلکہ جان بچانے کے لیے دوڑ سکتا تھا لیکن پانی کہاں سے آتا ؟

 میں نے اوپر آسمان کی جانب دیکھا کہ شاید بارش کا کوئی امکان ہو، لیکن اوپر سوائے اللہ کی ذات کے اور کچھ نہیں تھا، پھر میری نظر بہت اونچائی سے گزرتے ہوائی جہاز پر پڑی، میرے دل میں خیال آیا کہ اس جہاز میں بہت سارا ٹھنڈا پانی ہو گا، طرح طرح کے مشروبات ہوں گے، کتنے خوش قسمت ہوں گے وہ مسافر جو جہاز میں سفر کر رہے ہوں گے، غرض یہ کہ مجھے بس پانی کی ضرورت تھی اور پانی کے علاوہ کوئی اور چیز میرے ذہن میں آتی ہی نہیں تھی، میں یہ سوچتے ہوئے چلتا جا رہا تھا کہ ایک بار گھر پہنچ جاؤں، تو اتنا زیادہ پانی پیوں گا کہ پھر کئی دن مجھے پیاس نا لگے، اچانک میرا پاؤں ایک چھوٹی سی جھاڑی سے ٹکرایا، اور میں منہ کے بل زمین پر آن گرا، اور اگلے کئی منٹ اسی طرح پڑا رہا، اٹھنے کی ہمت ہی نہیں تھی اگر نیچے نرم ریت نا ہوتی تو شاید مجھے اچھی خاصی چوٹ لگ جاتی، پھر میں نے ہمت جمع کی اور اٹھ کھڑا ہوا، یہاں لیٹ کر موت کا انتظار کرنے سے بہتر تھا کہ مزید کوشش کر لوں، تھوڑا آگے جا کر وہی پریشانی آ گئی، جو جاتے وقت سامنے آئی تھی، لیکن ایک پگڈنڈی تین یا چار سمتوں میں مڑ جاتی تھی اور وہاں پر کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کہاں جانا ہے،

 اب تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ کوئی معجزہ ہی مجھے ان بھول بھلیوں سے نکال سکتا ہے ورنہ کل شام کا ڈھلتا ہوا سورج مشکل سے ہی دیکھ پاؤں گا، پھر میرے دل میں خیال آیا کہ کاش ناصر اور وسیم کی بات مان لیتا، تو شاید اچھا ہوتا، تینوں مل کر کوئی نا کوئی حل نکال ہی لیتے، یہ بھی ممکن تھا کہ وہ دونوں کسی منزل پر پہنچ چکے ہوں اور میں ابھی تک موت کی وادی میں گھوم رہا ہوں، یہ خیال آتے ہی میرا دل مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب گیا، کبھی کبھی دل کرتا کہ کلمہ پڑھ کر اسی جگہ لیٹ جاؤں اور پھر خود کو موت کے حوالے کر دوں، لیکن موت کو سامنے دیکھ کر زندگی کی خواہش اتنی زیادہ بڑھ چکی تھی کہ میں چاروں میں سے ایک پگڈنڈی پر چل پڑا، مجھے زندگی بچانے کے لیے چلتے جانا تھا کم سے کم جب تک میں چل سکتا تھا، راستے میں کئی بار میرے سامنے مختلف پگڈنڈیاں آئیں اور میں کسی ایک پر چل پڑتا تھا، اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنے گھر کی جانب نہیں جا رہا، جی ہاں۔۔ اپنے گھر کی طرف جانے والا راستہ تو معلوم نہیں میں کہاں پہ چھوڑ آیا تھا، اور اب تک چار یا پانچ بار تو غلط موڑ مڑ چکا تھا، اگر واقعی میں نے ایسا کیا تھا تو پھر اب میں کہاں جا رہا تھا؟ میں نے ایک ایسی جگہ پر رک کر خود سے سوال کیا جہاں پر راستہ مزید تین سمتوں کو نکل رہا تھا،

 میرے اندر سے آواز اٹھی کہ تم اپنے گھر نہیں جا رہے بلکہ اپنی زندگی بچانے کے لیے موت کی اس وادی سے کہیں دور نکلنا چاہتے ہو بس، جہاں پر پانی کے چند گھونٹ مل جائیں، مجھے اسی جگہ پر پہنچنا تھا، فقط حلق تھوڑا سا تر ہو جائے تو پھر گھر واپس جانے والا راستہ بھی ڈھونڈ لوں گا، اپنے اندر کی یہ آواز سن کر میرے دل سے ایک بوجھ سا اتر گیا، اب مجھے گھر واپس نہیں جانا تھا، نا ہی میں اپنے گھر پہنچ سکتا تھا، مجھے اس جگہ جانا تھا جہاں پر پانی مل جائے، یہ بات واضح ہوتے ہی میں ایک پگڈنڈی پر چل پڑا، اب اندھیرا مکمل طور پر اتر چکا تھا، جو لمحہ بہ لمحہ گہرا ہوتا جا رہا تھا میرے قدم ایک ایک من وزنی ہو چکے تھے جن کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنا میرے لیے مشکل ہو چکا تھا، اپنے دونوں ساتھیوں کو رخصت کرنے کے بعد مجھے وہاں سے چلتے لگ بھگ چار گھنٹے ہو چکے تھے اور اب میں کسی بھی وقت گرنے والا تھا، پیاس کی شدت سے آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میں انسان نہیں ہوں فقط ہڈیوں کا ڈھانچا ہوں جو کسی ان دیکھی طاقت کے زیر اثر خود بہ خود چلتا جا رہا ہوں، اور پھر مزید کچھ دیر چلنے کے بعد میں ہمت ہار گیا، ہاں اب مجھے مر ہی جانا چاہیے، اس حالت سے، موت کی آغوش میں سو جانا زیادہ بہتر اور آرام دہ ہو گا، میں نے دل میں سوچا اور پھر نیچے گرنے ہی والا تھا کچھ دور مجھے درخت کا ہیولا سا نظر آیا، میں نے ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی پلکوں کو اوپر اٹھایا اور غور سے دیکھا تو میرا شک صحیح نکلا،

 وہ درخت ہی تھا، میرے دل میں ایک مرتبہ پھر امید جاگی کہ ہو سکتا ہے یہ درخت کسی آبادی کے قریب ہو اور اگر میں کسی طرح درخت پر چڑھ گیا تو پھر یقیناً مجھے کسی قریبی آبادی کی روشنیاں نظر آ ہی جائیں گی، یہ خیال خاصا خوش کن تھا اور پھر میں آہستہ آہستہ اس درخت کی جانب بڑھنے لگا، اسی وقت مجھے گیدڑوں کے غرانے اور صحرائی لومڑی کے بین کرنے کی آوازیں سنائی دیں، میرا اندازہ درست نکلا تھا، یہاں پر ایسے درندہ نما جانور وافر تھے جو رات ہوتے ہی جھاڑیوں اور بلوں سے باہر نکل آئے تھے، اور پانچ منٹ کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے کر کے میں درخت کے نیچے پہنچ گیا، امید کی کرن دوبارہ سے پھوٹ پڑی تھی، میں اتنا بے بس اور لاچار تھا کہ درخت کے اوپر چڑھنے کی ہمت نہیں تھی اس کے لیے مجھے کچھ دیر زمین پر لیٹ کر ہمت جمع کرنی تھی اور پھر میں درخت کے نیچے ریت پر لیٹ گیا، اب زمین بھی قدرے ٹھنڈی تھی اس لیے لیٹنے سے سکون سا محسوس ہو رہا تھا، میرا ایک ہاتھ بلاوجہ ہی ریت کو کھوجنے میں مصروف تھا، جیسے جیسے میں ریت کو ہاتھ سے ہٹاتا، نیچے سے ریت مزید ٹھنڈی نکل آتی اور اسے چھو کر مجھے راحت کا احساس ہوتا تھا، پھر اچانک میرے ہاتھ میں ایک سخت سی چیز آ گئی، جیسے لوہے کا پائپ ہو، میں نے اسے پکڑ کر باہر نکالنے کی کوشش کی تو میں ناکام رہا، یہ کیا چیز ہو سکتی ہے؟

میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہر کر اٹھ بیٹھا، جیب سے موبائل نکال کر اس کی ٹارچ روشن کی اور اس جگہ سے زمین کھودنے لگا، ایک منٹ سے بھی کم وقت لگا اور وہ چیز میرے سامنے آ گئی، وہ بائیک تھی جسے چار پانچ گھنٹے پہلے ہم تینوں نے زمین کے نیچے دفن کیا تھا، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، میں نے اوپر درخت کی جانب غور سے دیکھا تو مجھے ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہوئی، یوں لگا جیسے آسمان میرے اوپر گر رہا ہو، میں پانچ گھنٹے مسلسل چلنے کے بعد پھر اسی جگہ آ گیا تھا جہاں سے چلا تھا، میرا دل کیا کہ دھاڑیں مار مار کر روؤں، میں نے کوشش بھی کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکا، کیونکہ حلق پھاڑ کر رونے کے لیے بھی طاقت چاہیے تھی جو میرے اندر نہیں تھی، میری موت اسی طرح لکھی تھی تو مجھے اس کو قبول کر لینا چاہیے تھا، میں نے موبائل فون کی ٹارچ بند کی اور اسے اپنے قریب یہ سوچ کر رکھ دیا کہ اگر کسی مسافر کو میری لاش یہاں پڑی نظر آئی تو وہ موبائل سے میرے گھر والوں کا نمبر لے کر ان سے رابطہ تو کر لے گا نا، پھر میں نے بمشکل سے کلمہ پڑھا اور خود کو موت کے حوالے کر دیا، مجھے جو آخری چیز یاد تھا وہ گیدڑوں کی وحشت ناک آوازیں تھیں، آج رات ان کو گوشت ملنے والا تھا، تازہ انسانی گوشت ۔۔

میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوب چکا تھا، لیکن گیدڑوں کی آوازیں ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی تھیں پھر ان آوازوں میں صحرائی لومڑیوں کی دردناک آوازیں بھی شامل ہو گئیں، یہ آوازیں لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جا رہی تھیں، پھر مجھے محسوس ہوا کہ وہ دونوں آوازیں آپس میں گڈمڈ ہو گئی ہیں، یا شاید وہ آپس میں لڑ رہے تھے ظاہری بات ہے ہر کوئی چاہتا ہو گا کہ تازہ گوشت پہلے اسے ملے، میں اس اذیت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لیے میں خود کو نوچے جانے سے پہلے ہی مر جانا چاہتا تھا اور پھر میں شاید مر گیا۔۔۔۔

دوبارہ جس وقت میری آنکھ کھلی دن کا اجالا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا، میں خالی دماغ سے آنکھیں کھول کر اوپر دیکھنے لگا، درخت کی ہری بھری شاخیں میرے سامنے تھیں میرے ذہن میں پہلا سوال یہ آیا کہ شاید میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہوں، پھر میں نے اپنا جسم اچھی طرح ہلا کر دیکھا، ہاتھ پیر اور ہر چیز سلامت تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ گیدڑ اور صحرائی لومڑیوں نے مجھے نہیں کھایا تھا، لیکن کیوں؟ شاید وہ مجھے زندہ دیکھ کر واپس مڑ گئے تھے، ان کو مردار کھانا زیادہ پسند ہو گا۔۔۔ اس کا مطلب ہے میں ابھی تک زندہ ہوں؟ یہ سوچ کر میرا دل خوشی سے بھر گیا، ساری رات میں بے ہوشی کی کیفیت میں رہا تھا اور صبح مجھے ہوش آ گئی تھی میرے زندہ بچنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابھی تک مجھے پانی نا ملے صرف چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے اور میں نے سنا تھا کہ انسان پانی کے بغیر تین دن تک زندہ رہ لیتا ہے،

 پھر میری حالت اتنی جلدی کیوں خراب ہو گئی تھی؟ ہاں۔۔۔ یقیناً میں صحرا میں پیدل چلنے کی وجہ سے پانی کی کمی کا شکار ہو گیا تھا اور اب جسم کا کافی زیادہ ریسٹ ملا تو طبیعت تھوڑی سی بہتر ہو گئی تھی، پھر میں اٹھ بیٹھا، دیکھا تو موبائل بھی پاس ہی پڑا ہوا تھا، لوگ کہتے ہیں موبائل فون کے بہت سے فائدے ہیں لیکن میرے تو کسی بھی کام نہیں آیا تھا پھر میں لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ایک بار آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا اور پھر میں سنبھل گیا، میں زندہ تو بچ گیا تھا لیکن کب تک؟؟ پانی بہت ضروری تھا، میری حالت پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں تھی
تو کیا مجھے اسی جگہ بیٹھ کر مدد کا انتظار کرنا چاہیے، ہو سکتا ہے ناصر اور وسیم گھر پہنچ گئے ہوں اور مجھے تلاش کرنے وہ لازمی اسی جگہ پر واپس آئیں گے، یہ واحد امید تھی جو اب میرے دل میں بچی تھی میرا حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہا تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ درخت کے کچھ پتے چبا کر ان کے رس سے اپنا حلق تر کر لوں، یہ ٹاہلی کا درخت تھا جس کے پتے میٹھے نہیں تو کڑوے بھی نہیں ہوتے، اگر میں زیادہ پتے چباتا تو تھوڑا سا رس مل سکتا تھا، لیکن اس کے لیے تھوڑا سا اوپر چڑھنا ضروری تھی زمین پر کھڑے ہو کر یہ کام ممکن نہیں تھا،

 اوپر چڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ میں آس پاس کے علاقے کا جائزہ لے سکتا تھا شاید کہیں پر کوئی انسانی آبادی یا پانی کا وسائل دکھائی دے جائے، یہ سوچ کر میں نے اپنے اندر ہمت جمع کی اور درخت پر چڑھنا شروع کر دیا، عام حالات میں ایسے درخت پر چڑھنا میرے لیے بائیں ہاتھ کا کام تھا لیکن اس وقت اتنی کمزوری ہو رہی تھی کہ میرے ہاتھ اور پاؤں کانپ رہے تھے کئی بار نیچے گرتے گرتے بچا، اور بالآخر اوپر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا، ایک جگہ پر سر سبز پتوں کو گچھا کو ہاتھ ڈالا تو میری آنکھیں چمک اٹھیں، زندگی کی ایک امید میرے سامنے تھی، شہد کا ایک چھتا میرے ہاتھ سے فقط دو فٹ کی دوری پر موجود تھا، جیسے ہی میں نے پتے توڑنے کے لیے شاخ پر ہاتھ ڈالا تو کچھ مکھیوں نے اڑنا اور میرے ارد گرد منڈلانا شروع کر دیا تھا، شاید ان کو توقع نہیں تھی کہ اس ویران جگہ پر کوئی ان کو ستانے کے لیے آ جائے گا، میں نے موقع کو غنیمت جانا، اور خالی ہاتھ اور بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے چھتے سے شہد حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس میں مجھے مکھیوں کے کاٹنے کا خدشہ تھا لیکن یہ غیبی مدد میں کسی طور پر گنوانا نہیں چاہتا تھا،

شہد کے چند گھونٹ مجھے نئی زندگی دے سکتے تھے، اور پھر میں نے اس شاخ کو پکڑ کر زور سے ہلایا اور کھینچ کر توڑ لیا، مکھیوں کی بھنبھناہٹ نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کچھ تو مجھ پر حملہ آور بھی ہوئیں لیکن میں اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا تھا، چھتہ ہاتھ میں پکڑ کر میں نے اپنی جگہ بدل لی اب میں مکھیوں کے زہریلے ڈنک سے محفوظ تھا، چھتے میں اچھا خاصا شہد تھا، میں ندیدوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا، اور چند منٹوں میں ہی سارا چٹ کر لیا، گو کہ شدید پیاس میں شہد اس کا متبادل نہیں تھا لیکن مجھے یوں لگا کہ میرے جسم میں نئی طاقت آ گئی ہو، پیاس میں بھی تھوڑی سی کمی آ چکی تھی، میں کچھ دیر وہیں پر بیٹھا رہا اور پھر مزید اوپر چڑھنا شروع کر دیا، اب میرے ہاتھوں میں قوت اور پیروں میں پھرتی تھی یہ شہد کا کمال تھا، اس سے بھوک بھی کافی حد تک مٹ گئی تھی جب میں درخت کے کافی اوپر چڑھ گیا تو پھر چاروں جانب نگاہ دوڑائی، میری نظریں گھوم کر واپس آ گئیں لیکن کہیں پر بھی کوئی انسانی آبادی یا اس کے آثار نظر نہیں آئے، ہر جانب ریت کے اونچے نیچے ٹیلے حد نگاہ پھیلے ہوئے تھے، میرا دل ایک بار پھر مایوسی میں ڈوب گیا، میں واپس زمین پر جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ بہت دور ایک سیاہ دھبے نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی، شروع میں وہ مجھے چھوٹا سا سیاہ رنگ کا دھبہ ہی لگ رہا تھا لیکن جیسے جیسے میں غور کرتا گیا، منظر واضح ہونے لگا، وہ کافی بڑا درختوں کا ایک جھنڈ تھا،

 اس کے آس پاس ہریالی بھی نظر آ رہی تھی، لیکن یہ سب ایک دھندلا سا خاکہ تھا جو بہت غور سے دیکھنے پر واضح ہوتا تھا، مجھے لگا کہ ضرور اس جگہ پر زندگی کے آثار ہوں گے، اگر سبزہ تھا تو پانی بھی ہو گا، مجھے ہر صورت وہاں تک پہنچنا ہو گا، پھر آگے میری قسمت۔۔ میں نے وہیں پر بیٹھ کر اس جگہ کا نقشہ اور راستہ ذہن میں محفوظ کرنا شروع کر دیا، میں اس بار کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا، شاید یہ میرے پاس آخری موقع تھا، میں کل والا قصہ دہرانا نہیں چاہتا تھا جب پانچ گھنٹے پیدل چلنے کے بعد واپس اسی جگہ پہنچ گیا تھا نا ہی میں بھٹک کر درد ناک موت مرنے کا خواہش مند تھا، مجھے اچھی طرح سبق حاصل ہو چکا تھا کہ ریگستان ہوتا ہے بھول بھلیوں کا نام ہے، اس میں ہر چیز سراسر دھوکا ہوتا ہے، انسان کا دماغ منٹوں میں ہی گھوم جاتا ہے اور پھر وہ جتنا بھی چلتا جائے، منزل تک مشکل ہی پہنچتا تھا بلکہ مزید گم ہوتا جاتا ہے، یہ میرے پاس آخری موقع تھا لیکن سفر کتنا تھا؟ شاید پانچ کلومیٹر یا دس ؟؟ اتنی دور سے اندازہ نہیں ہو رہا تھا، پھر بھی مجھے یقین تھا کہ اگر وہ جگہ آنکھ سے نظر آ رہی تھی تو دس کلومیڑ سے زیادہ دور نہیں تھی، میں نے وہیں سے سورج کی سمت کا تعین بھی کر لیا، جس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں نے سورج سے کس سمت میں سفر کرنا ہے، صحرا میں سفر کرنے والوں کے لیے سورج ایک طرح کا مددگار بھی ہوتا ہے،

اور پھر میں درخت سے نیچے اتر آیا، اس بار میرے قدموں میں لڑکھڑاہٹ نہیں تھی، اب میں نے اس جانب سفر شروع کر دیا تھا جس طرف مجھے پانی ملنے کی امید تھی، مسئلہ صرف ایک تھا کہ اس جانب کوئی بھی راستہ یا پگڈنڈی نہیں جاتی تھی، صرف چھوٹے بڑے ٹیلوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ تھا جو ایک کے بعد دوسرا شروع ہو جاتا تھا، میرا رخ اب دونوں راستوں سے ہٹ کر انڈیا کی جانب جانے والے راستے پر تھا، لیکن انڈیا کا بارڈر تو خاصا دور تھا، میں سست قدموں سے چلتا جا رہا تھا یہاں تک کہ دوپہر سر پر آ گئی ، سورج ایک مرتبہ پھر آگ برسا رہا تھا، اور پیاس کی شدت دوبارہ سے بھڑک اٹھی تھی، شہد کھانے سے جو وقتی توانائی ملی تھی وہ تقریباً ختم ہو چکی تھی، اگر صحرا کی بجائے یہ عام راستہ ہوتا تو مجھے چلنے میں اتنی دشواری نا ہوتی، لیکن یہاں پر تو بار بار اوپر نیچے چڑھنے سے ٹانگیں بے جان ہو گئی تھیں، اور پھر اچانک سے میری نظروں کے سامنے ہرنوں کا ایک جوڑا آ گیا، 

معلوم نہیں کہاں سے چرتے ہوئے آ نکلے تھے، میں نے سنا تھا کہ اس علاقے میں لوگ ہرنوں کا شکار کرتے ہیں لیکن آج پہلی بار اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا تھا کہ واقعی یہاں پر ہرن ہوتے ہیں، وہ دونوں بھی رک کر حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے، شاید ان کو بھی امید نہیں تھی کہ یہاں پر بھی کوئی انسان آ سکتا ہے، پھر وہ چوکڑیاں بھرتے ہوئے ایک جانب بھاگ گئے، میں کچھ دیر وہیں کھڑا ان کے بارے میں سوچتا رہا، ایک بار دل میں خیال آیا کہ ان کے پیچھے جاؤں، یہ بھی تو کہیں سے پانی پیتے ہوں گے، لیکن دماغ نے سمجھایا کہ اپنے راستے سے ہٹنے کی غلطی نا کروں تو بہتر ہے، دوسری جانب چلنا بھی دشوار ہو گیا تھا، اب میں تھوڑی دیر رک کر لیٹ جاتا اور پھر چل پڑتا تھا، کئی بار میں گھٹنوں کے بل بھی رینگا تھا، زندگی بچانے کے لیے میں ہر لمحہ موت کے قریب ہوتا جا رہا تھا، اور پھر شام ڈھلنے گئی، سورج کافی نیچے چلا گیا اور ساتھ ہی مجھے چکر سے آنے لگے، اب بس ہو گئی تھی مزید آگے جانا ممکن نہیں تھا، سامنے والا ٹیلہ بہت اونچا تھا، وہاں پر عام انسان سے چڑھنا بھی مشکل ہو جاتا، میرے جسم میں تو جان بھی نہیں تھی، پیاس کی شدت سے میرا منہ کھلا ہوا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ سست پڑتی دھڑکن کسی بھی پل رک جائے گی، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کئی بار رک کر دوبارہ چلی تھی، معلوم نہیں وہ نخلستان نما درختوں کا جھنڈ مزید کتنا آگے تھا، لیکن میں نے ہمت ہار دی تھی، پھر میرے اندر سے آواز گونجی کے صرف ایک بار اپنی زندگی بچانے کی کوشش کر لو، صرف ایک بار اس اونچے ٹیلے پر چڑھ کر دیکھ لو، شاید کوئی معجزہ ہو جائے، معجزے بھی تو انسانوں کے ساتھ ہی ہوتے ہیں نا، کیا پتا اونچے ٹیلے پر چڑھ کر آگے امید کی کوئی کرن نظر آ جائے، یہ سوچ کر میں نے مدد طلب نظروں سے اوپر آسمان کی جانب دیکھا اور پھر ٹیلے پر چڑھنا شروع کر دیا، لیکن گھٹنوں کے بل،

کیونکہ پیروں نے مزید میرا بوجھ اٹھانے سے معزرت کر لی تھی، اور پھر میں دھیرے دھیرے اوپر چھڑھتا گیا، کئی بار یوں بھی ہوا کہ میں لڑھک کر پیچھے گرا اور چند میٹر تک نیچے چلا گیا، لیکن میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے سے پہلے یہ آخری کوشش لازمی کرنی ہے، جس وقت میں ٹیلے کی چوٹی پر پہنچا، سورج زرد ہو کر مدہم سا ہو گیا تھا اور میری زندگی کی طرح چند گھڑیوں کا مہمان لگ رہا تھا، اوپر پہنچ کر میں نے سامنے نظریں اٹھائیں تو مجھے کچھ دکھائی نا دیا، کیونکہ آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا تھا، میں چاہ کر اپنی آنکھیں کھول نہیں پایا، یہاں سے نیچے کی جانب ڈھلوان شاید بہت زیادہ تھی، اس لیے جب میں نیچے گرا تو کتنے ہی پل لڑھکتا ہوا نیچے کو جاتا رہا، اور پھر ایک زور دار آواز کے ساتھ کسی سخت چیز سے ٹکرا کر رک گیا، اے کومل۔۔۔ بھاگ کر آؤ یہ کون لڑکا نیچے گرا ہے ؟ میرے کانوں میں جو آخری آواز پڑی وہ یہ تھی اور پھر مجھے کچھ یاد نا رہا۔۔۔۔

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں