انوکھا ایڈوانچر (پہلا حصہ)

moral stories in urdu
 

بائیک نے دو منٹ کے دوران تیسرا جھٹکا لیا تھا، شاید ریزرو پر جا رہی تھی، میں نے ایک ہاتھ سے بمشکل ہینڈل سنبھالا، کیونکہ ریگستان میں بائیک چلانا یوں بھی آسان کام نہیں تھا، اور دوسرے سے پیٹرول والی چوک اوپر کرنے کی کوشش کی تو اگلا جھٹکا مجھے لگا،

 چوک تو پہلے سے ہی اوپر تھی، مطلب پیٹرول بالکل ختم ہو چکا تھا، یار یہ کیا مذاق ہے، اسی وقت بائیک آخری جھٹکا کھا کر رک چکی تھی، وسیم اور ناصر بھی میرے ساتھ ہی نیچے اتر چکے تھے، میں نے ٹینک کھول کر دیکھا تو خالی ٹینک میرا منہ چڑا رہا تھا، یار تم تو کہہ رہے تھے کہ پیٹرول کافی ہے ہم آرام سے منزل تک پہنچ جائیں گے؟ میں نے طنزیہ اور قدرے غصیلی نظروں سے ناصر کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ سر کجھا کر بولا کہ شاید چوک خراب ہو گئی ہے، اس نے پیٹرول کم ہونے کا سگنل ہی نہیں دیا، وسیم بھی منہ بنا کر کھڑا تھا، اب کیا کرنا ہے ؟ وسیم نے پوچھا, تو میں نے کہا کہ اب باری باری بائیک کو دھکا لگاؤ اور کسی بھی طرح قریبی آبادی تک جانے کی کوشش کرتے ہیں،

 اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، مسئلہ تو یہ تھا کہ قریبی آبادی کتنی دور تھی یہ بھی معلوم نہیں تھا، ہم تینوں دوستوں نے مفت میں یہ " انوکھا ایڈونچر " شروع تو کر دیا تھا، اب منہ پھلا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے، ریگستان میں بائیک کو گھسیٹنا آسان نہیں تھا، اوپر سے گرمی بھی بڑھتی جا رہی تھی، گو کہ صبح کے گیارہ بجے کا وقت تھا، لیکن ریگستان کا یہ حصہ ابھی سے گرم ہو چکا تھا، ہم صادق آباد کے صحرائی حصے میں کسی جگہ پر تھے، یہاں سے جنوب کی جانب جائیں تو انڈیا کی ریاست راجستھان بمشکل تیس چالیس کلومیٹر دور تھی، اور آگے کی جانب سندھ کا تھرپارکر کا حصہ اور پیچھے بہاولپور کا چولستان تھا، صحرا کا یہ خطہ بہت بڑا ہے جو سندھ میں حیدر آباد سے لے کر پنجاب میں بہاولپور تک اور صادق آباد سے جنوب میں انڈیا تک پھیلا ہوا ہے، یہاں سے واپس گھر کی طرف جانا ممکن نہیں تھا کیونکہ ہم تقریباً پندرہ کلومیٹر کا فاصلہ بائیک پر کر کے یہاں تک پہنچے تھے، 

اب واپس جانے کا مطلب یہ تھا کہ بائیک کو گھسیٹتے ہوئے پندرہ کلومیٹر ریت میں چلا جاتا، اور یہ ممکن نہیں تھا، آج صبح کی بات تھی جب ہم تینوں دوستوں، میں یعنی شکیل، ناصر اور وسیم نے ساتھ مل کر وسیم کے چچا زاد سے ملنے دوسرے گاؤں جانے کا پروگرام بنایا تھا، لیکن ہم نے سیدھا راستہ چھوڑ کر شارٹ کٹ اپنایا تھا جو اسی ریگستان سے ہو کر گزرتا تھا، صحیح سے راستہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا،۔ بس اندازہ تھا کہ یہاں سے ہم کم وقت میں منزل پر پہنچ جائیں گے، لیکن بائیک نے عین اس وقت دھوکہ دیا جب ہم ریگستان کے بیچوں بیچ پتلی سی پگڈنڈی پر کافی آگے نکل آئے تھے، خیر اب جو بھی تھا آگے بڑھتے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھے، دس منٹ پیدل چلنے سے ہی پسینہ پھوٹ پڑا تھا،

 اور پھر آگے جا کر یہ کچی پگڈنڈی تین سمتوں میں مڑ گئی، یہاں پر رک کر ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، ہاں جی اب کس طرف کو جانا ہے ؟ میں نے بائیک کو سٹینڈ پر لگایا اور ناصر کی جانب رخ موڑ کر پوچھا تو وہ کہنے لگا میرا خیال ہے ہمیں بالکل سیدھے چلنا چاہیے، یہاں پر تھوڑا سا آگے ہمیں آبادی مل جائے گی، اس نے اندازے کی بنا پر کہا تھا لیکن وسیم اس بات پر راضی نہیں تھا، اس کا کہنا تھا کہ ہمیں الٹے ہاتھ والے راستے پر مڑنا ہے، یہی راستہ ہمیں منزل تک لے جائے گا، وہ دونوں آپس میں بحث کر رہے تھے مجھے تو بالکل بھی آئیڈیا نہیں تھا، گرمی اور تھکاوٹ نے دماغ خراب کر دیا تھا، خیر ناصر کی بتائی سمت میں جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور پھر ہم ادھر کو چل پڑے، ریت کا سمندر چاروں طرف پھیلا ہوا تھا جو سورج کی تیز شعاؤں سے چمک کر تانبے کی مانند دکھائی دے رہا تھا، کچھ دیر پہلے فراٹے بھرتی بائیک پر یہ منظر خاصا حسین لگ رہا تھا لیکن پندرہ منٹ پیدل چلنے سے راستے کی ساری خوبصورتی کہیں پیچھے ہی رہ گئی تھی، اب صرف تھکاوٹ اور بے چینی بچی تھی، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی، آگے جا کر یہ پگڈنڈی مزید دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی، یہاں پر دوبارہ کچھ دیر کی گرما گرم بحث کے بعد ایک راستے پر اتفاق ہوا اور اب ہم اسی پر چلتے جا رہے تھے، لیکن اب قدم مزید سست ہو چکے تھے،

 یار تم لوگ ساتھ پانی نہیں لائے؟ وسیم نے ہانپتے ہوئے پوچھا تو میں نے ناصر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ بے وقوف پیٹرول نہیں بھروا کر آیا، پانی کہاں سے لائے گا، سچی بات تو یہ تھی کہ اس وقت پیاس سے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے، اور چکر سے آ رہے تھے، میں نے آس پاس نگاہ دوڑائی تو کوئی سایہ دار درخت نظر نہیں آیا، چھوٹی چھوٹی صحرائی جھاڑیاں اس قابل نہیں تھیں کہ ہم کو سایہ فراہم کر سکتیں، اچانک وسیم کی چیخ نے ہماری توجہ اس کی جانب کھینچ لی

ایک تو پیاس بہت لگ رہی تھی اوپر سے کوئی سایہ دار درخت بھی نہیں تھا جہاں چند گھڑیاں آرام سے گزار لیتے، چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اس قابل نہیں تھیں کہ ہم کو سایہ فراہم کر سکتیں، اسی دوران وسیم کی چیخ سن کر ہم اچھل پڑے، سنہرے رنگ کا ایک چھوٹا سا صحرائی سانپ اس کی شلوار سے چمٹا ہوا تھا، وسیم نے جلدی سے شلوار کو جھاڑ کر سانپ کو نیچے گرایا تو ہم نے سکون کا سانس لیا، سانپ نے اپنا سارا غصہ اور زہر شلوار میں اتار دیا تھا، شکر تھا کہ وسیم اس کے ڈسنے سے بچ گیا تھا، میں نے سنا تھا کہ صحرائی سانپ بہت زہریلے ہوتے ہیں، اب ہم کچھ ڈر سے گئے تھے اور ہمارے قدموں میں تیزی آ گئی تھی، سب سے بڑا مسئلہ بائیک کو گھسیٹنے کا تھا، ریت میں اس کے ٹائر دھنس جاتے تھے پھر بھی ہم تینوں باری باری اس کو کسی نا کسی طرح ساتھ لے کر جا رہے تھے، مزید کافی دیر چلنے کے بعد بھی کسی طرف انسانی آبادی کا نشان نہیں آیا تھا،

 جس جگہ جا کر رکتے تو چاروں طرف گول گول ریتلے ٹیلے ہی نظر آتے تھے، اس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، جتنا بھی آگے جاتے، یوں لگتا کہ اسی جگہ پر موجود ہیں جہاں پر بائیک کا پیٹرول ختم ہوا تھا، اب تو پریشانی کافی بڑھ گئی تھی دل میں عجیب عجیب سے وسوسے آ رہے تھے، کہ اگر کوئی مدد نا ملی تو کیا کریں گے، پھر ہم نے ایک جگہ پر بائیک کھڑی کر دی، اب مزید پیدل چلنا ممکن نہیں رہا تھا، سورج اب اوپر آ گیا تھا اور اس کی تپش ہر چیز کو جھلسا رہی تھی، پھر ہم زمین پر ہی بیٹھ گئے تھے، مقصد یہ تھا کہ کچھ دیر آرام کر لیں اور پھر آگے کا پلان کریں، اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ موبائل فون تو ہم تینوں کے پاس ہیں، کیوں نا کسی کو فون کر کے اپنی صورت حال بتا کر اس سے مدد طلب کریں، یہ خیال خاصا حوصلہ دینے والا تھا، میں نے دونوں ساتھیوں کو بتایا تو وہ کہنے لگے کہ یار چھوڑو، خوامخواہ گھر والوں کو بتا کر پریشان نا کرو، ہم جلد ہی کسی ٹھکانے پر پہنچ جائیں گے، لیکن میں نے ان سے کہا کہ ایسا کرنا ضروری ہو گیا ہے، پھر میں نے جیب سے موبائل فون نکالا اور لاک کھول کر دیکھا تو میرا منہ لٹک گیا، دونوں سم کے سگنل غائب تھے، ناصر اور وسیم نے بھی اپنے موبائل نکال کر دیکھے تو وہاں بھی صورت حال یہی تھی، یہ ایک نئی پریشانی تھی جس کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا، میں نے موبائل ہاتھ میں پکڑا اور سگنل کی تلاش میں ایک اونچے ٹیلے کی جانب چل پڑا، 

مجھے امید تھی کہ تھوڑی اونچائی پر ایک آدھ سگنل مل جائے گا، لیکن میری یہ کوشش بھی بیکار گئی، الٹا تھکاوٹ ہی ملی تھی، اب تو یوں لگ رہا تھا کہ قدموں میں جان ہی نہیں ہے، صحرا میں جب انسان بھٹک جاتا ہے تو اس کا دماغ تیزی سے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ہر جانب ایک ہی طرح کے گول گول سے گھومتے ہوئے ٹیلے دماغ کو چکرا کر رکھ دیتے ہیں، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کافی لمبا چکر کاٹ کر پھر اسی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے، ایک بار پھر ہم نے ہمت کی اور سفر شروع کر دیا، ناصر کہنے لگا کہ ریگستان میں یہ پتلی پگڈنڈیاں انسانوں کی بنائی ہوتی ہیں، ہمارے علاوہ بھی کوئی نا کوئی یہاں سے گزرتا ہو گا، ہو سکتا ہے آج بھی ہم کو کوئی مسافر مل جائے، اور ہمیں منزل تک رہنمائی کر دے، صحرائی لوگوں کی یاداشت بہت تیز ہوتی ہے اور وہ راستہ نہیں بھولتے، بچپن سے ہی وہ ایسی جگہوں پر رہنے کے عادی ہوتے ہیں، اب ہمیں ایک امید یہ تھی کہ کوئی صحرائی یا مسافر ہمیں مل جائے اور ہمیں کچھ مدد حاصل ہو جائے،

 لیکن جب چلتے چلتے مزید ایک گھنٹہ گزر گیا تو وہ امید بھی دم توڑتی نظر آئی، اب سورج پوری طرح سر پر آ گیا تھا موبائل سے وقت دیکھ کر پتا چلا کہ دوپہر کے دو بج چکے ہیں اور ہمیں پیدل چلتے تقریباً چار گھنٹے ہو چکے تھے، کئی بار ایسا ہوتا کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا جاتا تھا، اور ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہوتی، ہم اتنے موڑ مڑ چکے تھے کہ اب اگر واپس جانے کی کوشش کرتے تو یقیناً واپس بھی نا جا پاتے، اور پھر اچانک کچھ فاصلے پر ایک صحرائی درخت نظر آ گیا، یہ بہت زیادہ پھیلا ہوا تو نہیں تھا، لیکن اتنا بڑا ضرور تھا کہ ہم دوپہر کے دو تین گھنٹے اس کے نیچے آرام کر سکتے تھے، اس وقت تک ہماری حالت ایسی ہو چکی تھی، تھی کہ درخت کا سایہ بھی غنیمت لگا اور ہم اپنے قدموں کو گھسیٹتے ہوتے درخت کے نیچے پہنچ گئے، بائیک کو سٹینڈ پر کھڑا کرنے کی ہمت نہیں تھی، اسے زمین پر پھینک کر ہم تینوں بھی گر سے گئے، چھاؤں نے کافی زیادہ سکون دیا تھا، لیکن پیاس کا علاج پانی کے سوا کون کرے؟ وہ یہاں پر میسر نہیں تھا، پیاس جب زیادہ لگتی ہے تو انسان کا جسم سست پڑ جاتا ہے، اور اس پر تھکاوٹ اور نیند کا غلبہ طاری ہونے لگتا ہے، 

رمضان المبارک میں اس کا تجربہ اکثر لوگوں کو ہوتا ہو گا کہ جب روزے کی وجہ سے پیاس لگتی ہے تو نیند بھی بہت آتی ہے، ہمارے ساتھ بھی اس وقت یہی صورت حال تھی، ہمارا روزہ تو نہیں تھا نا ہی رمضان کا مہینہ تھا لیکن حالت روزے دار سے بھی زیادہ خراب تھی اور سب سے بڑھ کر پانی ملنے کی کوئی امید بھی نہیں تھی، کوئی معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے، اور وہ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا، پیاس اور تھکاوٹ نے ہم پر نیند طاری کر دی تھی اور ہم تینوں بے سدھ ہو کر سو گئے، جس وقت میری آنکھ کھلی،

 سورج مغرب کی جانب ڈھل رہا تھا، ناصر اور وسیم دونوں ابھی تک سوئے ہوئے تھے، میں ان کے پیاس سے سفید ہوتے ہونٹ دیکھ سکتا تھا میری بھی یہی حالت تھی سچ تو یہ تھا کہ کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ کس طرف جانا ہے اور مدد کہاں سے حاصل ہو گی، جس سفر کو ہم نے ایڈونچر کے لیے شروع کیا تھا وہ ہمارے گلے پڑ چکا تھا، اٹھو یار، اب کیا کرنا ہے؟ میں نے ناصر کو ہلاتے ہوئے پکارا، لیکن اس نے کوئی حرکت نا کی، پھر میں نے وسیم کو پکارا، لیکن اس کی طرف سے بھی کوئی جواب نا آیا، میرا دل دہل کر رہ گیا۔۔۔۔ ان دونوں پر ایک طرح کی غشی طاری تھی، میں نے ان کی نبض دیکھی تو وہ سست رفتار سے چل رہی تھی، پھر میں نے کوشش کر کے دونوں کو جگایا تو وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے، اور مجھے ایسے دیکھنے لگے جیسے میں کوئی بھوت ہوں، ہاں اب بتاؤ کیا کرنا ہے؟ میں نے تم دونوں کو شروع میں مشورہ دیا تھا کہ واپس جانے کی کوشش کرتے ہیں، بھلے سفر لمبا تھا لیکن ہم کسی نا کسی طرح پہنچ ہی جاتے، لیکن اب نا آگے کا پتا نا پیچھے کا، بولتے بولتے میرا لہجہ خاصا سخت ہو گیا تھا، 

ان دونوں نے کہا کہ اب تو واپس جانا بیکار ہے، ہم راستے میں ہی پیاس اور تھکاوٹ سے مر کھپ جائیں گے، آگے چلتے رہنے سے یہ امید تو ہو گی کہ کوئی آبادی مل ہی جائے گی، کیونکہ پیچھے تو ہم دیکھ آئے ہیں، وہاں کچھ بھی نہیں ہے، ان کی بات سن کر مجھے شدید غصہ آ گیا اور میں نے کہا کہ پہلے بھی تم دونوں کی بات مان کر ہم مصیبت میں پھنسے ہیں، اب آگے بھی تم دونوں اپنی مرضی کر رہے ہو، میں مزید آگے نہیں جاؤں گا، تم دونوں نے جانا ہے تو جاؤ، مجھے مرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، میں یہاں سے واپس جانا چاہتا ہوں، ابھی سورج غروب ہونے میں تین گھنٹے باقی ہیں، اللہ نے چاہا تو میں واپس گھر پہنچ ہی جاؤں گا، بھلے واپسی کا راستہ لمبا ہے، لیکن یہ تو امید ہے نا کہ میں گھر پہنچ جاؤں گا، آگے جانے کی کیا گارنٹی ہے کہ ہم اپنی منزل پر یا کسی انسانی آبادی میں پہنچ جائیں گے؟ یہ ریگستان بہت خطرناک ہے، ہماری ہڈیاں بھی کسی کو نہیں ملیں گی، اگر واپس جاتے ہوئے اپنے گاؤں کے قریب پہنچ کر میں مر بھی گیا تو کم سے کم کسی کو میری لاش تو مل ہی جائے گی، کم سے کم صحرائی لومڑیوں اور کوؤں کی خوراک تو نہیں بنوں گا،

میں نے اس جگہ سے واپس مڑنے کا اٹل فیصلہ کر لیا تھا، وسیم اور ناصر نے میری بات ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ جسم میں اب اتنی طاقت بچی ہے کہ پیچھے ہم پہنچ نہیں سکتے، آگے جانے میں کسی معجزے کی امید تو ہے نا۔۔ بات بہت آگے بڑھ چکی تھی، ہم تینوں باقاعدہ لڑنے اور مرنے مارنے پر اتر آئے تھے، میں نے ناصر سے کہا کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے اگر تم وہاں سے روانہ ہونے سے پہلے بائیک میں پیٹرول چیک کر لیتے تو کم سے کم ہمارے ساتھ یہ سب تو نا ہوتا، ناصر کا کہنا تھا کہ وسیم کے کہنے پر ہم نے ریگستان والا شارٹ کٹ اختیار کیا تھا، اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے، جب تکرار حد سے بڑھ گئی تو میں نے دونوں سے کہا کہ بس فیصلہ ہو چکا ہے تم دونوں اپنی بائیک اٹھاؤ اور آگے نکل جاؤ، میں تو اب واپسی کی کوشش کروں گا، اگر قسمت میں ہوا تو پھر ملیں گے، ورنہ ہم سے کوئی بھی زندہ بچ گیا تو اس کی ذمہ داری ہو گی کہ گاؤں کے لوگوں کو ساتھ لے کر دوسرے ساتھی کی لاش تلاش کر کے اسے عزت سے دفن کر دیا جائے،


 ان دونوں نے بھی میری اس بات سے اتفاق کر لیا تھا، لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ زندہ کون بچے گا اور کون اس خونی صحرا کا شکار بن جائے گا، ان دونوں نے اٹھ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور بولے کہ ہم آگے کی جانب نکل رہے ہیں، اگر ہم کو کوئی مدد مل گئی تو فوراً تمہاری خبر لینے کے لیے واپس آئیں گے، اور اگر تم کو کوئی مدد ملی تو ہمارے پیچھے آنا، شاید کہیں سے ہمارا کوئی نشان مل جائے، لیکن بائیک ہم ساتھ لے کر نہیں جائیں گے، اگر ہم نے زندہ رہنا ہے تو پھر بائیک سے چھٹکارا پانا ضروری ہے، کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اسے مزید گھسیٹ سکے، پھر ہم تینوں نے اسی درخت کے نیچے گڑھا کھودنا شروع کر دیا، ریت کی وجہ سے زمین بالکل نرم تھی، جلد ہی پہلی قبر تیار ہو گئی ، یہ قبر ہماری موٹر سائیکل کی تھی.
.............................
............................ 
............................ 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں