بدلے کی آگ - اردو کہانی ۔ پہلا حصہ

بدلے کی آگ - اردو کہانی

پہلا حصہ: تحریر حنا سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت بڑی اور خوبصورت حویلی ہر طرف روشنیاں ہی روشنیاں جگمارہی تھیں بہت خوبصورتی کے ساتھ سجایا ہوا تھا حویلی کو باہر پھولوں سے بھرا باغیچہ ہر طرف خوبصورت سے پھول سہانہ موسم ایک دلکش سا منظر پیش کر رہے تھے اتنے میں گاڑی کا شور سنائ دیا اور گاڑھی کا دروازہ کھلا اور ایک خوبصورت نوجوان گاڑی سے اترا لمبی 5 فٹ سے زیادہ کی ہائیٹ کسرتی جسم سفید رنگ کالے کپڑوں میں مبلوس لباس آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اس خوبصورت نما حویلی کی طرف قدم بڑھا رہا تھا چہرہ دندھلا سا سہی سے نظروں کی تاب میں نہیں آرہا تھا کہ۔۔۔۔
 
پلوشہ اٹھو پلوشہ کالج کے لیے دیر ہو رہی ہے اگر اب تم نہیں اٹھی نا تو اچھا نہیں ہوگا پلوشہ آخری بار کہہ رہی ہوں میں اٹھ رہی ہو یا نہیں پریشے تقریباً 15 منٹ سے پلوشہ کو جگا رہی تھی اور وہ ڈھیٹ بن کر سوئ ہوئ تھی اور یہ کیا۔۔
اچانک ہی پلوشہ ہربرا کر اٹھی جب برف کی طرح ٹھنڈا پانی اپنے اوپر محسوس کیا اور پھر کیا پلوشہ کا میلو ڈرامہ شروع۔۔
 
اُوفففووو پریشے آپو یہ کیا کِیا آپ نے آپ کو پتا ہے کتنا اچھا خواب دیکھ رہی تھی میں اتنی پیاری بڑی سی حویلی پھول باغ ہائے اور میرا ہینڈسم شہزادہ۔۔
پریشے اپو آپ بھی نا تھوڑی دیر اور رک جاتی میں نے اپنے شہزادے کو دیکھا بھی نہیں وہ معصوم سا منہ بنا کر بولی۔۔
 
اور پریشے سامنے کھڑی اپنی معصوم پاگل سی بہن کی ڈرامے بازیاں دیکھ کر اسے گھور رہی تھی اچھا چلو بس اب ورنہ کالج کی دیر ہو جاے گی تمہیں اور مجھے یونی کی اور میرا پہلا دن ہے یونی کا میں نہیں چاہتی کہ تمہاری وجہ سے میں بھی لیٹ ہو جاؤں اب جلدی سے اٹھو اور تیار ہو کر باہر آجاؤ باہر سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں تمہیں پتا بھی ہے سب مل کر ناشتہ کرتے ہیں پھر بھی ایک تو تم اور تمہارے خوابوں کے شہزادوں نے ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔۔
 
اچھا نا پریشے آپو ارہی ہوں نا تیار ہو کر میرے شہزادے کو تو کچھ نا کہیں اب آپ جائیں بھی خود ہی مجھے باتوں میں لگا رہی ہیں پھر مجھے کہیں گی کہ مینے دیر کروادی۔۔
اوفووو یہ لڑکی بھی نہ۔۔
10 منٹ کے اندر اندر تیار ہو کر اجاؤ جلدی جاتے جاتے پریشے ٹائم کا بتانا نہیں بھولیں۔۔
ایک تو پریشے اپو بھی نہ پلوشہ اب جلدی سے تیار ہو جاؤ ورنہ پھر سے اپو نے آجانا ہے پلوشہ خود سے ہی بڑبڑاتے ہوئے ڈریسنگ سے کپڑے نکال کر واش روم میں گھس گئی۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
اسلام علیکم ماما بابا جان پلوشہ اور پریشے نے ایک ساتھ کہا اور پھر دونوں ہی مسکرا کر کرسی پر بیٹھ گئی اور ناشتہ کرنے لگی۔۔
عشرت بیگم اتنی دیر کردی آج تم دونوں نے پتا بھی ہے کہ آج پروشے کا یونی میں پہلا دن ہے اور تم نے کالج بھی جانا ہے پھر بھی اتنی دیر تیار ہونے میں۔۔
اور پھر کیا بھئی پلوشہ میڈم کا میلو ڈرامہ شروع 
 
ماما دیکھیں نا پریشے آپو نے کتنا لیٹ کروادیا ہے مینے کہا بھی کے جلدی آٹھ جائیں پر بھئ یہ میڈ تو پتا نہیں کون سے گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھیں۔۔۔
اور پریشے کا اطمینان قابلِ دید تھا وہ سکون سے بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی اسے اپنی چھوٹی نوٹنکی بہن کا پتا تھا۔۔
اور پھر یوسف دورانی عشرت بیگم ان دونوں کی نوک جھونک دیکھ کر مسکرا دی۔۔
پھر وہ ناشتے سے فارغ ہو کر ڈرائیور کے ساتھ چلی گئی اور گارڈز تو بروقت ان کے ساتھ ہی ہوتے تھے۔۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
یوسف دورانی ایک بہت بڑے بزنس مین تھے دنیا کی نظر میں تو وہ ایک اچھے بزنس میںن تھے لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔۔اور ان کی بس دو ہی اولادیں تھیں پروشے اور پلوشہ.۔۔
 
پروشے 20 سال کی تھی اور پلوشہ 18 کی دونوں بہنوں کو ہی قدرتی خوبصورتی سے نوازا گیا تھا پلوشہ کی بڑی بڑی بڑاؤن گہری آنکھیں چھوٹی سی ناک دودھ کی طرح سفید رنگت سرخ چھوٹے لب لمبے کمر سے نیچے تک آتے بال اور جتنی دکھنے میں معصوم تھی کوئی نہیں جانتا تھا کے یہ سیدھی سادھی معصوم سی دکھنے والی پلوشہ کتنی شرارتی ہے۔۔
اور پریشے بھی کوئی کم خوبصورت نہیں تھی تیکھیں نین و نقش سفید دودھیا رنگت اور لمبے بال لیکن وہ پلوشہ کی نسبت تھوڑا ڈرپوک تھی۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
حویلی سے نکلتا ہوا ایک نفوس سنجیدہ انداز بلو جینس کے اوپر وائیٹ شرٹ پہنے مخصوص سے انداز میں پینٹ کی پاکیٹوں میں ہاتھ ڈالے قدم بڑھا کر آگے کی طرف بڑھ رہا تھا
اپنی پرسنلاٹی سے وہ کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتا تھا سارے ملازم نگاھ نیچے کیے کھڑے ہوئے تھے۔۔
وہ گاڑی کے قریب پہنچا تو اکرم نے گاڑی کا دروازہ کھولا ۔۔
ایک واحد اکرم ہی تھا جس سے وہ بات کرتا تھا اور اکرم بھی بنا جھجک اس سے کوئ بھی بات پوچھ سکتا تھا
اکرم زیان شاہ کا خاص سیکرٹی تھا ورنا کسی سیکرٹی یا ملازم میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ زیان شاہ سے الجھ سکے۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
میر شاہ کب آئے گا میرا بیٹا اب تو اس کی پڑھائی بھی مکمل ہو چکی ہے اسے کہیں جلدی آئے اسے تو کوئی حوش ہی نہیں ہے جوان اولاد ہے کہیں بیرونی ملک رہ کر میرے بچے کی عادتیں خراب ہی نا ہو جائیں۔۔۔
عائیشہ بیگم نے کہا۔۔
آپ کیوں ٹینشن لیتی ہیں جناب جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہے یقین رکھیں اپنے بچوں پر میر شاہ نے عائیشہ بیگم کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
اور میری شہزادی کہاں ہیں بھئی۔۔
میر شاہ نے پوچھا۔۔
پتا تو ہے آپ کو اس افلاتون کا آج جلدی ہی روانہ ہوگئی یونی کے لیے اور پھر میر شاہ اور عشرت بیگم ناشتہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔۔
میر شاہ نے دو شادیاں کی تھیں ان کی پہلی بیوی آسیہ شاہ ان میں سے 1 اولاد دی جو کہ زیان شاہ تھا۔۔۔
پھر کسی حادثے کے تحت وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں۔۔
اور میر شاہ کی دوسری بیوی یعنی عائیشہ بیگم وہ میر شاہ کی کزن بھی تھیں ان میں سے 2 اولاد تھیں۔۔
آیان شاہ
حیا شاہ۔۔
سب سے بڑا زیان شاہ 25 سالہ خوبصورت نوجوان 6 فٹ سے نکلتا ہوا قد کسرتی جسم چوڑا سینہ بڑی بڑی بھوری آنکھیں ماتھے پر بکھرے ہوئے بال جو کہ اسے اور پرکشش بناتے تھے اور بہت سنجیدہ قسم کا انداز نا زیادہ کسی سے بات کرنا اور گھر بھی رات کو لیٹ آنا تاکہ زیادہ کسی سے بات نہ ہو وجہ عائشہ بیگم تھی۔۔
زیان شاہ نے پڑھائ مکمل کرنے کے بعد اپنے بابا کا بزنس سمنبھالا تھا جو کہ اب ٹوپ پر تھا آفس میں سب لڑکیاں ہی زیان شاہ پر فدا تھی پر وہ کسی کو منہ نہیں لگاتا تھا بس اپنے کام سے کام رکھنا۔۔
اور زیان سے چھوٹا آیان شاہ جو کہ 23 سال کا تھا اور تھا تو وہ بھی بہت خوبصورت 5فٹ 4انچ نکلتا ہوا قد کسرتی جسم سفید رنگت گہری کالی آنکھیں اور سب سے زیادہ پرکشش چیز جو اسے مزید خوبصورت بناتی تھی وہ تھے اس کے ڈمپلز جو کہ اس نے عائشہ بیگم سے چرائے تھے اور وہ زیان کی نسبت تھوڑا چلبلا باتونی اور شرارتی تھا۔۔
آیان شاہ اپنی پڑھائی کے لیے بیرونی ملک لندن گیا ہوا تھا اب اس کی پڑھائی مکمل ہو چکی تھی اس لیے عائیشہ بیگم میر شاہ سے اسرار کر رہی تھی کے آیان کو واپس پاکستان بلائیں۔۔
اور سب سے چھوٹی اور ان دونوں بھائیوں کی جان حیا۔۔
حیا بھی 20 سال کی تھی اور خوبصورتی میں تو اپنے بھائیوں سے بھی آگے تھی اور حیا کے بس ایک سائیڈ ڈمپل نما ہوتا تھا اور حیا بھی یونی میں پڑھتی تھی۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
حسبِ معمول روز کی نسبت پلوشہ اپنی دوست حریم کے ساتھ کینٹین میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔۔۔
اور ساتھ ساتھ حریم کو پریشان بھی یار حریم تم کتنا کھاتی ہو بس بھی کر دو کھا کھا کر موٹی بھینس بن جاؤں گی۔۔۔
پلوشہ نے حریم کو چھیڑتے ہوئے کہا۔۔
پلوشہ نا کرو یار کھانے پر نا ٹوکا کرو حریم نے سموسا کھاتے ہوئے کہا۔۔۔
یار حریم توبہ کرو کتنا کھاؤں گی 4 سموسے کھا چکی ہو تم اچھا تم کھاؤ میں زرا واشروم سے ہو کر آتی ہوں۔۔۔
پلوشہ اپنے ہاتھ دھو رہی تھی کہ کسی کی آہٹ پا کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو۔۔
کسی نقاب پوش نے پلوشہ کے منہ پر رومال رکھا وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتی۔۔
اتنے میں بے جان ہو کر نقاب پوش کی باہوں میں جھول گئی۔۔
اور نقاب پوش اسے باہوں میں بھرتا جیسے آیا تھا ویسے ہی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
پلوشہ کو گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئی۔۔۔ 
.............................
............................ 
............................ 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں