بدلے کی آگ - اردو کہانی ۔ دوسرا حصہ

 

بدلے کی آگ - اردو کہانی

دوسرا حصہ: تحریر حنا سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
پریشے کا آج پہلا دن تھا یونی میں تو وہ تھوڑا گھبرا رہی تھی۔۔
وہ جیسے ہی کلاس میں انٹر ہوئی سب کی توجہ کا مرکز وہی تھی۔۔
اور ہوتی بھی کیوں نہ اتنی پیاری اور دکھنے میں بلکل معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔
سب کی نظروں کی تاب نا لاتے ہوئے جو کرسی خالی نظر آئی اس پر بیٹھ گئی۔۔
ہائے ایم حیا۔۔
حیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
پریشے نے اپنی دوسری جانب مڑ کر آواز کی تاعقب میں دیکھا تو ایک خوبصورت سی لڑکی مسکرا کر ہاتھ اگے بڑھا رہی تھی۔۔
جسے پریشے نے تھوڑا جھجھکتے مسکرا کر تھام لیا۔۔
ایم پریشے یوسف۔۔
Ohh beautiful name pareshy like uh beautiful doll..
حیا نے پیار سے کہا۔۔
پریشے کو حیا بہت اچھی لگی تھی اسی دوران کلاس سٹارٹ ہوئی اور سب اس طرف متوجہ ہو گئے۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
ڈرائیور کے ساتھ صرف پریشے ہی وآپس لوٹی تھی۔۔۔
گھر پہنچتے ہی پریشے نے عشرت بیگم سے پوچھا۔۔۔
ماما پلوشہ آگئی ہے کیا۔۔؟؟
ہم نے اس کا بہت انتظار کیا پر وہ نہیں آئی مجھے لگا اپنی فرینڈ کے ساتھ نہ آگئ ہو واپس۔۔۔
کیونکہ کافی دفعہ پلوشہ حریم کے ساتھ واپس آجاتی تھی۔۔
پر جب پلوشہ گھر نہیں پہنچی تو واقعی سب کو ٹینشن ہوئی۔۔
اور عشرت بیگم نے یوسف دورانی کو کال کی۔۔
جو کہ دوسری بیل پر ریسیو بھی ہوگئی تو انھوں نے یوسف دورانی کو پلوشہ کے بارے میں اگاہ کیا۔۔۔
تو وہ آفس سے سیدھا گھر کی طرف روانہ ہوئے۔۔
جیسے ہی یوسف دورانی نے گھر میں قدم رکھا سب سیکرٹی نظریں جھکائے کھڑے تھے۔۔۔
کہاں گئی میری بیٹی اگر اسے خروچ بھی آئی تو میں تم سب کو جان سے مار دوں گا کہاں تھے تم سب ہاں۔۔۔۔
گدھوں کی فوج پال رکھی ہے مینے جاؤ اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو سب۔۔۔
جا کر پتا لگواؤں میری بیٹی کا نہیں تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا تم سب کو۔۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
گاڑی اپنی منزل تک پہنچی اور زیان شاہ کسی بے جان وجود کو اپنی بانہوں میں اٹھاے اندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔
اور وہ بے جان وجود کسی اور کا نہیں بلکہ پلوشہ تھی۔۔۔
زیان حویلی میں داخل ہوا اور پلوشہ کو ایک روم میں لے جا کر کرسی پر باندھ دیا۔۔
اور ڈور لاک کر کے واپس کی جانب چل پڑا اور سیکرٹی کو ہدایت دینا نہیں بھولا کہ۔۔
اس روم میں کوئی بھی نہیں جائے گا اور نہ ہی یہ ڈور کوئی اوپین کرے گا۔۔
اور اگر کوئی اس روم کے آس پاس بھٹکتا ہوا دکھائی دیا تو زندہ گاڑھ دوں گا۔۔
ملازم اور سیکرٹی خوف کے مارے نظریں نیچے کی طرف جکھائے چت پڑ چکے تھے۔۔
اور زیان لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر سے نکل گیا۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
تقریباََ ایک گھنٹے کے قریب جا کر پلوشہ کو ہوش آیا اور صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
جب ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو خود کو ایک بڑے سے خوبصورت سے کمرے میں بندھا ہوا پایا۔۔۔
پلوشہ چلائی کوئی ہے کھولو مجھے یہاں سے ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے یہاں لانے کی وہ بھوکی شیرنی بنی غرارہی تھی۔۔۔
اور زیان شاہ اطمینان سے بیٹھا پلوشہ کی ہر اک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔
پریشے کا رو رو کر برا ہال تھا عشرت بیگم کا بھی یہی حال تھا وہ پریشے کو پرسکون کر رہی تھی کہ پلوشہ جہاں بھی ہو گی ٹھیک ہوگی۔۔۔
اور تمہارے بابا بہت جلد اسے ڈھونڈ لیں گے مجھے پورا یقین ہے۔۔
اچھا اب تم یونی کے لیے تیار ہو جاؤ یونی جاؤ گی مائینڈ فریش ہو جائے گا میری بچی کا۔۔
چلو شاباش اٹھو تیار ہو جاؤ۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی پریشے یونی چلی گئی۔۔
♥️♥️♥️♥️♥️
Hey! Pretty girl..?
پریشے نے مڑ کر دیکھا تو حیا اس سے مخاطب تھی۔۔
جی پریشے نے مختصر سا جواب دیا۔۔
Hey pretty girl are uh sad..?
حیا نے پوچھا۔۔
نہیں بس یونہی۔۔اب پریشے کسی پر اتنی جلدی کیسے یقین کر لیتی کہ اسے بتا دے کہ اس کہ بہن کل سے غائب ہے اور اسی وجہ سے وہ خود بھی پریشان ہے۔۔
دل ہی دل میں پریشے نے پلوشہ کے لیے دعا کی کہ پلوشہ جہاں بھی ہو ٹھیک ہو۔۔
یار کہاں کھو گئی ہو۔۔
حیا نے پریشے کو پھر سے بلایا پریشے اپنے ہی خیالوں میں گم تھی کہ حیا کی آواز سن کر حوش میں آئی۔۔
نہیں کچھ نہیں۔۔
اور پھر دونوں کلاس کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔ ادھر پلوشہ چلائے جا رہی تھی۔۔
اتنے میں دروازے کے کھلنے کی آواز آئی۔۔
اور زیان شاہ اندر داخل ہوا۔۔
کون ہو تم اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے یہاں لانے کی تم جانتے نہیں ہو کہ میں کون ہوں میرے بابا جلد ہی تمہیں ڈھونڈ لیں گیں اور ایسا حشر کرے گیں تمہارا کہ تم یاد رکھو گے۔۔
پلوشہ بنا رکے بولی جا رہی تھی اتنے میں ہی زیان اس کے قریب آیا اور گھنٹوں کے بل اس کے مقابل بیٹھ گیا۔۔
ہمت تو میری جان تم نے ابھی دیکھی ہی کہاں ہیں میری اور رہی بات تمہارے بابا کی تو دیکھتے ہیں وہ تمہیں کب تک ڈھونڈ پاتے ہیں۔۔
پلوشہ ڈرنے والوں میں سے تو تھی نہیں پھر سے شروع ہو گئی تھی۔۔
جنگلی انسان کھولو مجھے میں تمہارا منہ نوچ لوں گی۔۔

زیان غصّے سے اٹھا اور اس کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔
آئندہ مجھ سے اونچی آواز میں بات کرنے کی غلطی بھی مت کرنا ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔۔

پلوشہ کہاں باز آنے والی تھی بول پڑی پھر۔۔
کیوں ہاں کیوں نہ بات کروں تم سے اونچی آواز میں خدا ہو تم ہاں اور تم کون ہوتے ہو مجھ پر حکم چلانے والے ہاں بولو۔۔
تمہارا ہونے والا مجازی خدا میری جان۔۔
زیان شاہ نے اطمینان سے کہا۔۔پلوشہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے کچھ غلط سن لیا ہو۔۔
میری جان ایسے مت دیکھو معلوم ہے مجھے کے بہت ہینڈسم ہوں میں اب نظر لگاؤ گی کیا۔۔۔
پلوشہ نے ایک پل کے لیے اسے دیکھا وائیٹ پینٹ پر بلو شرٹ پہنے سفید رنگت چہرے پر بکھرے بال گہری بھوری آنکھیں جیسے بہت ہی راز چھپے ہوں ان میں ہلکی بڑھی ہوئی شیو سرخ لب کلائی میں مہنگی واچ سنجیدہ سا چہرہ پھر گڑبڑا کر ہوش میں آئی
تم اور ہینڈسم۔۔۔
Joke of the day...
شکل دیکھی ہے اپنی جنگلی انسان اور کس نے کہا کے میں تم سے شادی کروں گی ہاں۔۔۔
سوچ بھی کیسے لیا تم نے جانتے نہیں ہو تم مجھے کے میں کس کی بیٹی ہوں۔۔
زیان شاہ طنزیہ سا مسکرایا۔۔
اچھے سے جانتا ہوں میری جان تمہیں بھی اور تمہارے باپ کو بھی۔۔
یہ کیا تم نے میری جان میری جان لگا رکھا ہے زبان سمنبھال کر بات کرو اور کھولو مجھے یہاں سے۔۔
زیان اطمینان سے کھڑا رہا اور پھر پلوشہ کے بندھے ہوئے ہاتھ پاؤں کھولے۔۔
اور کہا کہ صرف آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس پھر ہمارا نکاح ہے اچھے سے سوچ لو مجھے کوئی تماشہ نہیں چاہیے۔۔
اور تمہیں کیوں لگتا ہے کہ میں تمہاری بات مانوں گی اور نکاح کر لوں گی تم سے پاگل بیوقوف سمجھا ہے مجھے پلوشہ زیان کے قریب آتی بولتی جا رہی تھی۔۔۔۔

زیان نے پلوشہ کے دونوں بازوؤں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔
درد کی انتہا سے پلوشہ تڑپ اٹھی،، جنگلی انسان چھوڑو مجھے۔۔
ویسے حسین تو بہت ہو تم پھر کیا خیال ہے میری جان نکاح نہیں کرنا چاہتی تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں میری جان۔۔
زیان یہ کہتے ہی پلوشہ کے قریب گیا اور اس کے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا اور اتنی شدت پلوشہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔۔
یہ پلوشہ کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی اس کے اتنا قریب آیا تھا۔۔
زیان نے اسے لیے بیڈ کی طرف آیا اور اس پر جکھا لیکن اپنے لب پلوشہ کے لبوں سے جدا نہ کیے اور پلوشہ کو لگا جیسے آج اس کی سانسیں ہی رک جائیں گی اس کے دونوں ہاتھوں کو مظبوطی سے اپنی گرفت میں لیا اور اس کی شرٹ کندھے سے کھسکا دی اور وہاں اپنے لب رکھ دیے اور جابجا اپنا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔
پلوشہ کی روہ فنا ہوئی پلوشہ نے سختی سے اپنی بند کی ہوئی آنکھوں کو کھولا اور اپنی پوری طاقت لگا کر زیان شاہ کو پیچھے دھکیلا۔۔۔
می۔۔۔م۔۔میں تیار ہوں نکاح کے لیے،، پلوشہ کی بولتے ہوئے زبان لڑکھڑا رہی تھی لفظ ساتھ نہیں دے رہے تھے،۔۔
زیان شاہ مسکرایا۔۔

Ahaan Gud girl..
بلکل ایسے ہی شرافت سے میری باتیں مان لیا کرو ورنہ انجام کا تو پتا چل ہی گیا ہو گیا میری جان۔۔۔
صرف آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس ضرورت کا سب سامان تم تک پہنچ جائے گا تیار رہنا۔۔
ادھے گھنٹے بعد ملتے ہیں،، اور بھاگنے کی کوشش بھی مت کرنا ورنا پھر جو میں تمہارے ساتھ کروں گا تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔۔۔
زیان شاہ کہہ کر باہر کی جانب روانہ ہو گیا اور ڈور لاک کرنا نہیں بھولا۔۔
اکرم مولوی کا بندوبست کرو جلدی۔۔
زیان نے اکرم سے کہا اور روانہ ہو گیا۔۔

ادھر یوسف دورانی نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی پلوشہ کو ڈھونڈنے میں۔۔
یوسف دورانی سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر پلوشہ گئی کہاں۔۔
اتنے میں یوسف دورانی کا موبائیل بجا،، جو کہ انھوں نے پہلی ہی بیل پر ریسیو کر لیا،،
بولو وسیم،، کیا ہوا
اچھا ٹھیک ہے وسیم میں بات کر لوں گا ان کی پارٹی سے اور ہاں احتیاط سے کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے۔۔
یوسف دورانی نے کہا۔۔۔
اوکے سر،، وسیم نے مختصر سا جواب دیا اور فون کاٹ دیا۔۔
ادھر یوسف دورانی آفس کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔  
 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں