بدلے کی آگ - اردو کہانی ۔ تیسرا حصہ

بدلے کی آگ - اردو کہانی

تیسرا حصہ: تحریر حنا سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

او کم ان مام آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں آجاؤں گا بہت جلد آپ کے پاس۔۔
آیان شاہ نے عائیشہ بیگم سے کہا۔۔
ہاں ہاں یہی سنتی آرہی ہوں کے آجاؤ گے تم مگر بس کہتے ہو لگتا ہے وہاں جا کر بھول گئے ہو ہمیں ہاں ایسا ہی تو ہے اسی لیے تو ہم سب تمہیں یاد نہیں آتے۔۔
کیوں پریشان کر رہی ہیں آپ میرے بیٹے کو لائیے مجھے دیں فون۔۔
میر شاہ نے پیار سے کہا۔۔

ڈیڈ آپ ہی سمجھائیں نا ماما کو۔۔
ہاں بابا کب سے سمجھا ہی تو رہا ہوں ان جناب کو۔۔
ہاں کہہ دیجیئے اپنے بیٹے کو اب اس بار جب تک نہیں آئے گا یہ تب تک مجھ سے بات نا کرے عائیشہ بیگم کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔
پیچھے سے میر شاہ سرد سی آہ بھر کر رہ گیا۔۔تو پھر کیا خیال ہے جناب آنے کا۔۔
جی ڈیڈ اب تو آنا ہی پڑے گا پر آپ ماما اور حیا کو مت بتائیے گا پلیز۔۔۔
اوکے بابا نہیں بتاتا اور پھر دونوں باپ بیٹے گفتگو میں مگن ہو گئے۔۔۔

کچھ دیر بعد کمرے میں ایک بزرگ نما خاتون داخل ہوئیں ان کے ہاتھ میں شادی کا جوڑا اور دیگر سامان تھا۔۔


صوفیہ آپا آگے بڑھیں اور کہا بچے جلدی سے تیار ہو جاؤ زیان بابا اتے ہی ہونگے۔۔
پلوشہ ان کے قریب گئی دیکھیں آپ جو بھی ہیں پلیز میری یہاں سے نکلنے میں مدد کریں آپ جو چاہیں گی بدلے میں آپ کو دوں گی پلیز میری مدد کریں پلیز میں آپ کی احسان مند رہوں گی۔۔۔
اور صوفیہ آپا بھی کیا کر سکتی تھی ایک سرد سی آہ بھر کر رہ گئیں۔۔
دیکھو بیٹھا جلدی سے تیار ہو جاؤ زیادہ ٹائیم نہیں ہے اگر زیان بابا آگئے تو بہت غصہ کریں گے۔۔
زیان کا نام سن کر ہی پھر سے پلوشہ کو زیان کی کیگئی حرکت یاد آئی اور وہ ڈر کے مارے جلدی سے جوڑا اٹھا کر واشروم گھس گئی اور کر بھی کیا سکتی تھی۔
زیان شاہ کمرے میں داخل ہوا تو ایک پل کے لیے تو وہ بھی ٹھٹنک کر رک گیا۔۔

سرخ لال لہنگا گولڈن ہیروں سے بھری چولی تین مالا والا رانی ہار بالوں کو جوڑے میں قید میکپ کیے اور سرخ لب اففف غضب ڈھا رہی تھی پلوشہ اپنے ہی خیالوں میں گم سم سی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
زیان واپس اپنے ہوش میں آیا اور پھر اپنے پہلے والے روپ میں اگیا۔۔۔
رؤب دار آواز میں کہا گیا کہ تیار ہو تم مگر کوئی جواب نہ ملا۔۔۔
زیان کو پلوشہ پر تھوڑا ترس آیا کہ وہ جو کر رہا ہے کیا وہ سہی ہے۔۔۔
لیکن خود کو کمپوز کرتا پلوشہ کے تھوڑا قریب گیا۔۔
پلوشہ آہٹ سے ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور زیان کو غصے بھری نظر سے نوازا۔۔
زیان نے آئبرو اچکائی میں نے پوچھا کہ تیار ہو تم۔۔۔
اور پلوشہ جو کب سے بھری بیٹھی تھی پھٹ پڑی۔۔
اندھے ہو تم ہاں آنکھیں خراب ہو گئی ہیں نظر نہیں آتا کیا کہ تیار بیٹھی ہوئی ہوں پھر بھی پوچھ رہے ہو تیار ہو تیار ہو حد ہے مطلب مجھے تو۔۔۔
پلوشہ کے آواز منہ میں ہی رہ گئے.۔۔
زیان پوری طرح سے اس کی سانسوں میں قابض ہو گیا تھا پلوشہ نے سختی سے اس کے کالر کو مٹھیوں میں جکڑا ہوا تھا۔۔۔
اور آخر زیان کو اس پر رحم آہی گیا اور اس کے لبوں کو آزاد کیا۔۔
پلوشہ شرم کے مارے سرخ ہو چکی تھی لیکن اپنی خفت مٹانے کو جلدی سے بولی یہ کیا بتمیزی تھی جنگلی انسان۔۔
اگر ابھی بھی نہیں پتا چلا تو دوبارہ سے کر کے دکھاؤں کیا جانے من۔۔
پلوشہ پھر گڑبڑا گئی اور زیان کو گھورنے لگی۔۔
اگر اب تمہارا گھورنا ہوگیا ہو تو چلیں۔۔
زیان شاہ نے کہا۔۔
لیکن میری بھی ایک شرط ہے پلوشہ نے کہا۔۔۔
تم میرے لیے اتنی بھی اہمیت نہیں رکتھی کے تم میرے سامنے شرط رکھو،،، خیر بولو کیا شرط ہے۔۔
وہ مجھے نکاح سے پہلے اپنی بہن سے بات کرنی ہے۔۔
اچھا تو تم اپنی بہن کو سب بتادو گی اور تمہیں لگتا ہے وہ سب تمہیں بچانے آئیں گے ہاں ایسا ہی ہے نا؟
بھول گئی تم کہ مینے کیا کہا تھا تم سے اب بھی سمجھ نہيں آئی تو۔۔
نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہے پلوشہ جلدی سے بولی۔۔
میں اسے کچھ نہیں بتاؤں گی پلیز بس ایک بار میری بات کروادو۔۔۔
ٹھیک ہے لیکن تم میرے سامنے ہی بات کرو گی زیان شاہ نے اپنا موبائیل پلوشہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔
اوکے اوکے پلوشہ نے جلدی سے موبائیل لیا اور نمبر ڈائل کرنے لگی۔۔

ادھر پریشے یونی سے آکر سیدھا اپنے روم میں بند ہو گئ تھی۔۔۔
عشرت بیگم بھی بہت پریشان تھیں لیکن انھیں حوسلہ تھا کہ بہت جلد یوسف دورانی پلوشہ کو ڈھونڈ لیں گے آخر بہت پہنچ تھی یوسف دورانی کی۔۔۔
اور یہاں تو بات یوسف دورانی کی بیٹی کی تھی تو وہ کیوں نہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے۔۔۔
پریشے کمرے میں بیٹھی پلوشہ کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کے موبائیل کی بیل بجنے لگی۔۔
پریشے نے دیکھا کوئی اننون نمبر تھا تو واپس موبائیل رکھ دیا لیکن مسلسل بیل بجتے دیکھ آخر پریشے نے کال اٹھائی اور پلوشہ کی آواز سن کر چونک پڑی۔۔
پلوشہ تم کہاں ہو تم کیسی ہو پتا ہے ہم سب کتنا پریشان تھے شکر ہے تم ٹھیک ہو پریشے نان سٹاپ بولے ہی جا رہی تھی۔۔
آپو آپو میری بات تو سن لیں میں جہاں بھی ہوں بلکل ٹھیک ہوں اور میرا نکاح ہو رہا ہے اور آپ ماما بابا کو کچھ نہیں بتائیں گی آپ کو میری قسم ورنا میں دوبارہ آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی اور آپ ٹینشن نا لیں میں ٹھیک ہوں بلکل آپنا اور ماما بابا کا خیال رکھیے گا خدا حافظ۔۔۔
پلوشہ نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ کر کال کٹ کر دی کیونکہ اس کے پاس فلحال پریشے کو دینے کے لیے کوئی جواب نا تھا۔۔۔
اس نے زیان کو موبائیل واپس دیا۔۔
گڈ گرل یہی امید تھی تم سے
تھوڑی دیر تک صوفیہ آپا آئیں گی تمہیں لینے ان کے ساتھ آجانا زیان بول کر کمرے سے نکل گیا۔۔
زیان کے جانے کے بعد پلوشہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کیونکہ وہ زیان کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔۔۔
پھر جلدی سے اٹھی پھیلی ہوئی لپسٹک اور اور اپنا میکپ صاف کیا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑایا جنگلی انسان تمہیں نہیں چھوڑوں گی میں تمہاری زندگی جہنم بنادوں گی۔۔
لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کے اب کیا ہونے والا ہے سب کی زندگیوں میں نیا طوفان آنے والا ہے جس سے سب بے خبر تھے۔۔۔

پریشے حیران سی موبائیل کانوں پر ویسے ہی لگائے ہوئی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ پلوشہ نے اسے کیا کیا بول دیا۔۔
نکاح کس سے اور کیوں پریشے سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی لیکن تھوڑا پرسکون ہو چکی تھی کہ پلوشہ جہاں بھی ہے ٹھیک ہے۔۔۔
وہ سب دوست مل کر کلب میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہاتھوں میں وائن کے گلاسیز تھے۔۔
آیان نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ وہ واپس پاکستان جا رہا ہے تو اسی لیے سب فرینڈز نے آج کلب میں جانے کا پلین بنایا تھا۔۔۔
وہاں سب لڑکیاں ہی آیان پر فدا ہو رہی تھی اور ہوتی بھی کیوں نا بلیک پینٹ کے اوپر سکائے کلر کی شرٹ پہنے بالوں کا خوبصورت سا سٹائل بنائے ہوئے گہری کالی آنکھیں اور سب سے پرکشش اس کے ڈمپلز۔۔۔
لڑکیاں تو اس پر فدا ہو رہی تھی۔۔۔
یار یہ لڑکیاں تو دیکھو کیسے گھور گھور کر دیکھ رہی ہیں آیان کو جیسے ابھی کھا جائیں گی۔۔
ہانیہ نے جلتے ہوئے کہا۔۔
ہاہاہا سب نے کہکہا لگایا یار چھوڑوں نا تم بھی تم کیوں جل رہی ہو۔۔
حارث نے کہا۔۔
اونہہ جلتی ہے میری جوتی میں تو بس ویسے ہی کہہ رہی تھی۔۔
سب دوستوں کو ہی پتا تھا کی ہانیہ آیان کو پسند کرتی ہے لیکن آیان اسے صرف اپنی اچھی دوست سمجھتا تھا۔۔۔۔
ہانیہ بھی ایک امیر گھرانے کی لڑکی تھی اس لیے کلب پارٹیز میں جانا اس کے لیے عام سی بات تھی۔۔
پھر ایک خوبصورت سی لڑکی آیان شاہ کے قریب آٰئی گھنٹوں تک آتا سکرٹ اور شارٹ ٹاپ پہنا ہوا تھا اور مسکرا کر آیان شاہ سے مخاطب ہوئی۔۔
Hey I'm Aleshy..
Have a dance please..
آیان شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
Yeah sure..
اور پھر اپنے دوستوں کو آنکھ ونک کر کے چلا گیا..آیان شاہ علیشے کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا اور علیشے اس کے بہت قریب آرہی تھی بار بار علیشے اپنے لب آیان کے لبوں سے مس کر رہی تھی اور باقی لڑکیاں تو دیکھ کر جل بھن رہی تھی وہ دونوں ڈانس میں مصروف تھے۔۔
ہانیہ دیکھ کر اندر تک جل رہی تھی لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھی کیونکہ اس نے ابھی تک آیان کے سامنے اپنی فیلنگز شو نہیں کی تھی لیکن اس کے عمل سے ہر کوئی محسوس کر سکتا تھا کہ وہ آیان میں انٹرسٹڈ ہے مگر آیان انجان بنا ہوا تھا شاید جان بوجھ کر ہی۔۔
اور پھر سب دوست آپس کی باوتوں میں مشغول ہو گئے۔۔

زیان اور پلوشہ کا نکاح ہو چکا تھا نکاح میں زیان کا سب سے قریبی اور خاص دوست کم بھائی علی اور صوفیہ آپا ہی شریک ہوئی تھیں۔۔
صوفیہ آپا اس گھر کی ملازمہ تھیں لیکن زیان نے ان کی ہمیشہ عزت کی تھی اور انھیں سب صوفیہ آپا ہی کہتے تھے۔۔
نکاح کے بعد پلوشہ روم میں گئی اور سب چیزیں اُتار کر پھینکتی جارہی تھی بالوں کو جوڑے سے آزاد کر دیا چوڑیاں سب اتار اتار کر پھینکتی جا رہی تھی اور کافی چوڑیوں کے کانچ نے اس کی کلائیوں کو زخمی کر دیا تھا لیکن اسے حوش ہی کہاں تھی وہ اپنے حواسوں میں بلکل نہیں لگ رہی تھی
زیان جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو پورے کمرے کا نقشہ بگڑا ہوا تھا سب چیزیں ادھر ادھر پڑی ہوئی تھیں کہیں سے بھی یہ پہلے جیسا خوبصورت کمرہ نہیں لگ رہا تھا۔۔
زیان نے روم میں اکر روم کا ڈور لاک کیا اور پلوشہ پر چلایا یہ کیا بتیمیزی ہے۔۔؟
پریشے اخاموش سی گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
زیان نے جب اس کی کلائیاں دیکھیں تو شوکڈ رہ گیا ان میں سے خون نکل رہا تھا بہت زیادہ زخمی ہو چکی تھی لیکن پلوشہ کو تو جیسے کچھ پتا ہی نہیں تھا۔۔
زیان شاہ نے دل میں خود کو کوسا وہ کیا کرنے جا رہا تھا اس معصوم کے ساتھ بدلے کی آگ میں اسے بھی بے آبرو کرنا چاہتا تھا مگر اتنا خود غرض نہیں بن سکا۔۔
لیکن پھر ماضی یاد کر کے پھر سے اس کی رگیں تن گئیں آنکھیں لال آنگارہ بن گئیں وہ پھر اپنے روپ میں واپس آیا۔۔
اور پلوشہ کو بازوں سے اتنی سختی سے پکڑا کہ پلوشہ کراہ کر رہ گئی۔۔۔
پلوشہ کو اٹھا کر بیڈ پر بٹھایا اور پھر اس کے بازوؤں پر دوا لگا کر پٹی باندھی پلوشہ خاموش سی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
پھر زیان شاہ اتنی زور سے چلایا کہ ایک پل کو تو پلوشہ بھی ڈر گئی۔۔
یہ کیا کِیا تم نے ہاں کیا سمجھتی ہو تم خود کو کہ جو تمہارا دل کرے گا وہ کرو گی تم ہاں یہ کیا تمہارے باپ کا گھر ہے جو دل چاہے تم کرو اور تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔۔
1یک گھٹنے تک واپس آرہا ہوں میں یہ کمرہ مجھے پہلے جیسا چائیے بلکل ورنہ تمہیں پتا ہی ہے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔
زیان غصے میں کہتا روم سے باہر نکل گیا اور صوفیہ آپا کو کہا کہ پلوشہ کے روم میں کھانا رکھ دیجیے گا۔۔۔
زیان نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کال ملائی۔۔
علی جلدی پہنچو صرف اتنا کہا اور کال کاٹ دی اور گاڑی ہوا کی طرح غائب ہوتی چلی گئی۔۔

ادھر عشرت بیگم اور یوسف دورانی پریشان سے بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
میری بچی پتا نہیں کس حال میں ہو گی یوسف کچھ کریں نہ آپ عشرت بیگم بیٹھی رو رہی تھیں۔۔
ٹینشن نا لو تم بہت جلد ہی میں اپنی بیٹی کو ڈھونڈ لوں گا ابھی کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ کوئی یوسف دورانی کی بیٹی کو تکلیف پہنچا سکے۔۔
تم آرام کرو ورنہ طبیعت خراب ہو جائے گی یوسف نے عشرت بیگم کو کہا تو وہ ہاں میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔۔
اور پریشے بھی پلوشہ سے بات کر کے پرسکون ہو گئی تھی اور اب سو رہی تھی۔۔
اتنے میں یوسف دورانی کی موبائیل کی بیل بجی اور نمبر دیکھ کر ان کے ماتھے پر ڈھیروں بل آئے۔۔

 
یوسف دورانی نے کال اٹینڈ کی۔۔
وسیم اب پہلے کی طرح بیڈ نیوز مت دینا.۔
سر جیسا آپ سوچ رہے ہیں وہسا ہی ہوا ہے سر ہم نے بہت حفاظت سے مال کو رکھا ہوا تھا لیکن وہ پھر ایک بار سب کچھ ختم کر کے چلے گئے.۔۔
کون تھے وہ لوگ پتا کرواؤ ان لوگوں کا کون ہے جو ہمارے کام میں ٹانگ اڑا رہا ہے دیکھ لونگا اسے میں۔۔
سر بس دو ہی لوگ تھے اور دونوں کے چہرے رومال سے ڈھکے ہوئے تھے۔۔۔
ٹھیک ہے کوشش کرو جلدازجلد پتا چلے ان لوگوں کا ورنا ہمارے لیے مسئلہ بن جائے گا۔۔
جی سر۔۔۔
میں پتا لگواتا ہوں۔۔
پھر یوسف دورانی نے کال کٹ کی اور گہری سوچ میں پڑ گئے۔۔


ادھر جب زیان واپس گھر لوٹا تو اسے رات کے 1 بج چکے تھے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا اور ڈور لاک کیا۔۔
جیسے ہی زیان کمرے کو چھوڑ کر گیا تھا ویسا ہی حال تھا کمرے کا اور کھانا بھی ٹیبل پر رکھا ہوا تھا اور وہ بھی بیڈ کے کنارے گھٹنوں میں سر دیے روتے ہوئے ہی جانے کب سو چکی تھی۔۔

زیان شاہ نے ایک سرد سی آہ بھری اور کہا یہ تو مجھ سے بھی زیادہ زدی ہے خود سے ہی بڑبڑاتے ہوئے زیان پلوشہ کے قریب گیا۔۔
اور اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹایا پر پلوشہ ٹس سے مس نہ ہوئی اس کی اتنی پکی اور گہری نیند دیکھ کر زیان کی لبوں پر نا چاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ آئی جسے وہ اگلے ہی پل چھپا گیا۔۔
اور زیان بھی بہت تھک چکا تھا بنا کھانا کھائے ہی پلوشہ کی دوسری سائیڈ نیم دراز ہوا اور کچھ سوچتے ہوئے نا جانے کب نیند کی وادیوں میں چلا گیا۔۔

.............................
............................ 
............................ 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں