بدلے کی آگ - اردو کہانی ۔ چوتھا حصہ

 

بدلے کی آگ - اردو کہانی

چوتھا حصہ: تحریر حنا سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 صبح پلوشہ کی آنکھ خود پر بوجھ سا محسوس کر کے کھلی جب پلوشہ نے دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔
زیان نے اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا اور سکون سے سو رہا تھا۔۔۔
سوتے ہوئے کتنا دلکش لگ رہا تھا وہ ماتھے پر بکھرے سے بال معصوم سا چہرہ لیکن حقیقت میں تو کسی جلاد سے کم نہیں لگتا تھا اور بلکل ویسا ہی تو تھا جیسا پلوشہ اپنے خوابوں میں دیکھا کرتی تھی لیکن اس کے خوابوں کا شہزادہ اسے یوں ملے گا یہ تو اس نے کبھی خوابوں میں بھی نہ سوچا تھا۔۔۔
پلوشہ دل ہی دل میں یہی سوچ رہی تھی اسے پتا ہی نہیں چلا کب زیان کی آنکھ خلی اور زیان پلوشہ کو ہی دیکھ رہا تھا لیکن پلوشہ تو یک ٹک اسے دیکھ کر دل ہی دل میں پتا نہیں کیا سوچے جا رہی تھی۔۔۔
پھر زیان نے ہی اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔
ہےئی جنگلی شیرنی ایسے کیا گھور رہی ہو مجھے ہاں مانا کے خوبصورت ہوں اب کیا نظر لگاؤ گی۔۔۔
پلوشہ ہربرا کر حوش میں آئی۔۔۔
میں تمہیں کیوں گھور کر دیکھوں گی ہاں اور میں یہاں کیسے آئی اور ہمت بھی کیسی ہوئی تمہاری میرے پاس آنے کی اور اٹھاؤ یہ اپنا ڈھائی کلو کا ہاتھ پلوشہ نے اپنی خفت مٹانے کو جلدی سے بات بدلی۔۔۔
زیان اس کی چلاکی دیکھ کر اندر تک سرشار ہو گیا۔۔
میری جان رات تم میری بانہوں میں تھی اور میں ہی تمہیں یہاں لایا تھا اور تو کسی کی جرات نہیں ہے یہاں کے کوئی تمہیں ہاتھ لگا سکے۔۔
اور رہی بات تمہارے پاس آنے کی تو وہ تو اب تک میں آیا ہی نہیں ہوں میری جان۔۔
اور رات مینے تم سے کہا تھا کہ یہ کمرہ مجھے صاف چاہیئے تو تم نے میری بات مانی کیوں نہیں اور کھانا کس خوشی میں نہیں کھایا تھا۔۔۔؟
میں تمہاری نوکر نہیں ہوں جو یہ کمرہ صاف کروں یہاں ملازم بھی موجود ہیں جا کر ان سے کہہ دو اور تم جیسا جنگلی انسان میری زندگی میں زبردستی آگیا بس اسی خوشی میں کھانا نہیں کھایا۔۔۔
بس اگر اب تمہارے سوالوں کے جواب ختم ہو گئے ہوں تو میں جاؤں ناشتہ کرنے کیونکہ مجھے بہت بھوک لگی ہے تمہاری وجہ سے مینے رات بھی کھانا نہیں کھایا اب میں مزید بھوکی نہیں رہ سکتی۔۔
پلوشہ نے کہا اور بیڈ سے اٹھی پلوشہ نے وہی شادی والا جوڑا پہنا ہوا تھا بہت زیادہ ہیوی ڈریس تھا پلوشہ نے سوچا اس کے پاس تو کپڑے ہی نہیں ہے اب کیا کرے۔۔
زیان لیٹا ہوا پلوشہ کی ہر ایک حرکت دیکھ رہا تھا۔۔۔!!!
پلوشہ کچھ سوچتے ہوئے اگے بڑھی اور کبرڈ اوپین کیا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔۔۔!!
پورا کبرڈ کپروں سے بھرا ہوا تھا پلوشہ حیران سی کھڑی تھی اس کے سائز کے اتنے سارے کپڑے اور ضرورت کا ہر سامان موجود تھا۔۔۔
لیکن پلوشہ نے کچھ کہا نہیں وہاں سے شاکنگ پنک کلر کی فراک نکالی اور واشروم گھس گئی۔۔۔!!
پیچھے سے زیان شاہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی کچھ پل بعد پھر وہ سنجیدہ ہوا۔۔۔۔
اور سوچنے لگا کہ یہ کون سی نئی مصیبت اس نے اپنے سر پر مسلت کرلی ہے۔۔
زیان نا جانے کیوں پلوشہ کے بارے میں نا چاہتے ہوئے بھی سوچ رہا تھا وہ جس لیے پلوشہ کو یہاں لایا تھا وہ نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔!!!

یوسف کچھ پتا چلا میری بیٹی کا کتنے دن ہو گئے ہیں پتا نہیں کس حال میں ہو گی میری بچی۔۔
عشرت بیگم پھر رونے لگی تھی۔۔
کچھ نہیں ہوگا ہماری بیٹی کو تم ٹینشن نا لو میرے آدمی ڈھونڈ رہے ہیں اسے ایک بار میری بیٹی مل جائے چھوڑوں گا نہیں میں اس انسان کو۔۔
پریشے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی ہوئی یوسف دورانی اور عشرت بیگم کی گفتگو بھی سن رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ انھیں بتائے یا نہیں کے رات اس نے پلوشہ سے بات کی پھر پلوشہ کی دی ہوئی قسم یاد آگئی۔۔
بیٹا کن خیالوں میں کھوئی ہوئی ہو آپ۔۔
یوسف دورانی نے پیار سے پوچھا۔۔
کچھ نہیں بابا بس ایسے ہی۔۔
اچھا تو پھر آج میں خود اپنی بیٹی کو یونی چھوڑنے جاؤں گا۔۔
بابا سچی۔۔پریشے نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔۔
یوسف دورانی جانتے تھے پریشے کچھ پریشان سی ہے تو اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے یوسف دورانی نے یہ بات کہی اور پھر کامیاب بھی ہو گیا۔۔
جی میرا بچہ سچی اب جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔
اوکے بابا۔۔

عائیشہ بیگم اور حریم بھٹکتی ہوئی آتماؤں کی طرح گھر میں بار بار چکر لگا رہی تھی۔۔
کیونکہ میر شاہ نے انہیں بتا دیا تھا کہ آج آیان آنے والا ہے اور بس پھر ان دونوں نے پورے گھر کو سر پر اٹھا رکھا تھا۔۔۔
اور میر شاہ تو یہی سوچ رہے تھے کے آیان نے اس سے ناراض ہو جانا ہے کیونکہ میر شاہ نے آیان کا سرپرائز خراب کر دیا تھا۔۔
میر شاہ بھی کیا کرتے عائیشہ بیگم کی باتوں میں آکر بتا دیا انھیں سچ اب پریشان سے لان میں بیٹھے ہوئے تھے.۔۔
اور عائیشہ بیگم اور حریم کو دیکھ رہے تھے جو کہ بار بار گیٹ تک چکر لگا رہی تھیں۔۔۔

سر ہم نے بہت کوشش کی ہے مگر کوئی کلو نہیں مل رہا ہے ہم جو کام کرنے والے ہوتے ہیں انھیں پتا نہیں کیسے سب پتا چل جاتا ہے۔۔
وسیم نے یوسف دورانی سے کہا۔۔
جو کوئی بھی ہے کچھ بھی کرو پتا لگواؤ ان دونوں کا آخر یہ دونوں ہیں کون پہلے میری بیٹی کو کسی نے کڈنیپ کر لیا ہے اور اب یہ ایک نئی مصیبت۔۔
جی سر ہم پوری کوشش کر رہے ہیں بہت جلد پتا لگوا لیں گے ہم آپ ٹینشن نہ لیں سر۔۔
یار وسیم کیسے نا لوں میں ٹینشن تمہیں پتا بھی ہے کہ کڑوروں کا نقصان ہو گیا ہے میرا ابھی بھی تم کہہ رہے ہو کہ میں ٹینشن نا لوں۔۔
وسیم اور یوسف دورانی ایک پرانی سی فیکٹری میں بیٹھے تھے اور اب اپنے نئے مشن کے لیے منصوبہ بنا رہے تھے.۔۔

گاڑی ایک خوبصورت سے بنگلے میں داخل ہوتی ہے اور اس کی کار کو دیکھ کر کسی کی آنکھیں خوشی سے چمکتی ہیں۔۔
بھائی۔۔۔
کار سے نکلتے ہی وہ اپنے بھائی کے گلے لگتی ہے بھائی آپ آگئے۔۔
حیا نے پوچھا۔۔
نہیں ابھی راستے میں ہوں آیان نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جس سے اس کے ڈمپل بھی نمایا ہوئے۔۔۔
تمہارے سامنا کھڑا ہوں میری گڑیا لگتا ہے میری گڑیا کی آنکھیں کمزور ہو گئی ہیں میری ڈول کو چشمے کی ضرورت ہے۔۔
آیان نے کہا اور بول کر مسکرائے بنا نا رہ سکا
بھائییییییی حیا نے غصے سے دانت بھینچے۔۔۔
بھائی آپ بھی نا آتے ہی شروع ہو گئے میں ڈیڈ سے آپ کی شکایت کروں گی ابھی ان کی اور بہیس چلتی کے پیچھے سے عائیشہ بیگم کی آواز نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔۔
ارے بھئی میرے بیٹے کو باہر کیوں روک کے رکھا ہوا ہے اندر تو آنے دو حیا۔۔
عائیشہ بیگم نے پیار سے کہا۔۔
آیان عائیشہ بیگم سے ملا انھوں نے پیار سے اپنے بیٹے کا ماتھا چوما اور رونے لگی۔۔
Oh cam on mom..
اب تو آگیا ہوں نہ میں اب کیوں رو رہی ہیں اچھا ٹھیک ہے آپ روتی رہیں میں جا رہا ہوں۔۔
آیان نے کہہ کر حیا کو آنکھ ونک کی۔۔
ارے نہیں بیٹا میں کہاں رو رہی ہوں یہ تو خوشی کے آنسوں ہیں اتنے سالوں بعد اپنے بیٹے کو دیکھ رہی ہوں کتنا بڑا ہو گیا ہے میرا بیٹا۔۔
اتنے میں میر شاہ کی آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔
برخوردار اپنے باپ سے نہیں ملو گے کیا۔۔
جی بلکل ایسا ہی ہے آیان نے گھوریوں سے نوازتے ہوئے کہا۔۔
یار تمہیں پتا تو ہے تمہای ماں کا ایموشنل بلیک میل کرتی ہیں مجھے یہ پھر کیا بس بتا دیا مینے اب بیچارہ تمہارا باپ بھی کیا کرے۔۔
اچھا نا سوری بابا اب بھی نہیں ملو گے کیا۔۔
آیان شاہ پھر میر شاہ کے گلے لگا ان سے ملا چلیں کیا یاد رکھیں گیں آپ بھی کر دیا معاف۔۔
عائیشہ بیگم میر شاہ کو اپنی گھوریوں سے نواز رہی تھی۔۔
آجاؤ اب جلدی سے فریش ہو جاؤ مینے تمہاری پسند کا کھانا بنایا ہے عائشہ بیگم نے پیار سے کہا۔۔
Ok mom..
آیان نے کہا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔

یار آج تم یونی کیوں نہیں آئی تھی تمہیں پتا ہے میں کتنی بور ہوئی ہوں تمہارے علاوہ میری کوئی دوست بھی نہیں۔۔
پریشے نے حیا کو کال کی تھی اور نان سٹاپ بولے جا رہی تھی.
حیا اور پریشے کی کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔۔
یار سوری نا میں تمہیں کال کر کے بتانا ہی بھول گئی وہ نا آج میرے بھائی آئیں ہیں لندن سے اس لیے آج مینے یونی سے آف کیا تھا۔۔
اچھا اچھا سہی۔۔
اور کل تو آرہی ہو نا یونی۔۔؟
ہاں ہاں کل تو آؤں گی میں۔۔
پھر دونوں باتوں میں مصروف ہو گئیں۔۔۔

پلوشہ باتھ لے کر باہر آئی شاکنگ پنک کلر کی فراک اور فٹ پاجامہ پہنے اور گلے میں ڈوپٹہ ڈالے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔۔!!!
ڈریسنگ پر ہر ضرورت کا سامان تھا وہ دیکھ کر پہلے تو تھوڑا حیران ہوئی پھر بنا جھجکتے ڈرائیر سے اپنے بال سکھانے لگی۔۔۔
پلوشہ کے گھنے لمبے بال اس کے چہرے کا طواف کر رہے تھے اس کے بالوں کی لمبی لٹیں اس کے رخسار پر بکھر رہی تھی۔۔
زیان شاہ تو یک ٹک پلوشہ کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
لیکن پلوشہ اپنے کام میں مگن تھی۔۔
زیان اٹھا اور پلوشہ کے قریب گیا پلوشہ کو پیچھے سے اپنے حصار میں لیتے ہوئے سر پلوشہ کے کندھوں پر رکھا۔۔
پلوشہ ہربرا کر حوش میں آئی جنگلی انسان چھوڑو مجھے یہ کیا پاگل پن ہے پلوشہ خود کو آزاد کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔۔۔
زیان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔۔!!!
میری جان تمہیں نہیں پتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔۔
زیان نے پلوشہ کے کان کی لو کو اپنے لبو سے ٹچ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
پلوشہ کو تو جیسے کرنٹ سا لگ گیا تھا۔۔
ہٹو مجھ سے دور گھٹیا انسان اسی سب کے لیے تم نے مجھ سے شادی کی نا ہاں بتاؤ میری زندگی خراب کرنا چاہتے ہو تم۔۔!!!
پہلے مجھے کڈنیپ کیا پھر زبردستی نکاح اور اب میرے قریب کتنے گھٹیا انسان ہو تم۔۔!!
چاہتے کیا ہو تم بتاؤ مجھے ہاں مجھے بے آبرو کرنا چاہتے ہو نا میری۔۔
اور بس یہاں زیان کی برداشت ختم ہوئی اور اس نے ایک زور دار تھپڑ سے پلوشہ کے گال کو سرخ کر دیا اور غصے سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے باہر کی جانب چل پڑا۔۔۔
زیان فاسٹ ڈرائیونگ کر رہا تھا۔۔
یہ کیا ہو جاتا ہے مجھے کیوں میں اس کے قریب چلا جاتا ہوں جس مقصد لے لیے اسے میں یہاں لایا تھا وہ کیوں نہیں کر پارہا۔۔۔۔۔
زیان نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے زیان خود سے ہی باتیں کر رہا تھا کوئی اسے اس وقت ایسی حالت میں دیکھتا تو یقیناً پاگل کہتا۔۔۔
*------------------*
پلوشہ ویسے ہی خاموش بیٹھی ہوئی تھی اس کے چہرے پر زیان کی انگلیوں کے نشان چھپے ہوئے تھے۔۔۔
وہ شدت سے سب کو یاد کر رہی تھی خاص طور پر حرم اور پریشے کو۔۔۔
یاد کرنے کے علاوہ اور کچھ کر بھی کیا سکتی تھی۔۔۔

رات کے تقریباََ 10 بجے کا وقت تھا سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔۔
زیان گھر میں داخل ہوا اور سیدھا آیان شاہ کے کمرے میں داخل ہوا۔۔
آیان جو لیپٹاپ لیے حارث سے باتیں کر رہا تھا دروازے کی آہٹ سے چونک کر دیکھا تو سامنے زیان کھڑا تھا۔۔۔
اب کیوں آئے ہیں آپ یہاں جائیں جہاں رہتے ہیں رات کے اس وقت جناب کو اپنے بھائی سے ملنا یاد آیا ہے۔۔
یہ نہیں کہ اتنی دور سے اتنے سالوں بعد میرا چھوٹا بھائی آرہا ہے میں ہی ائیرپورٹ سے پک کر لوں لیکن نہیں جناب تو بہت بڑے بزنس مین بن گئیں ہیں نا اب اپنے بھائی کے لیے کہاں سے ٹائم ہوگا۔۔
ایان بنا رکے بولے جا رہا تھا۔۔
زیان نے آخر میں کہا ہو گیا تمہارا؟؟ یا ابھی کچھ کہنا باقی ہے۔۔؟
آیان نے اسے تیکھی نظروں سے گھورا۔۔
زیان مسکرا کر آیان کے گلے ملا یار میرے بھائی کے لیے تو جان بھی حاضر ہے اسی لیے تو آگیا تم سے ملنے۔۔
ہاں ہاں بس رہنے دیں پتا ہے مجھے کہ کتنا ٹائم ہے آپ کے پاس آیان نے الگ ہوتے ہوئے کہا۔۔
اچھا نا بس بھی کرو اب اور سناؤ کیسے ہو۔۔
بھائی دیکھ نہیں رہے کتنا ہینڈسم ہوں ابھی بھی پوچھ رہے ہیں آپ کے کیسا ہوں میں۔۔
ایک تو تمہاری نوٹنکی کبھی ختم نہیں ہوگی۔۔
کبھی کسی بات کا سیدھی طرح بھی جواب دے دیا کرو۔۔۔۔
کیا یار بھائی خود تو کھڑوس ہو اور ہمیں بھی کھڑوس بننے کی ٹپس دے رہے ہو۔۔۔
ہاہاہا اچھا بابا اب تم آرام کرو کل ملاقات ہوگی۔۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی۔۔
اور سنو۔۔
جی بھائی۔۔
یہ جو تم الٹی سیدھی حرکتیں کرتے پھرتے ہو نا باز آجاؤ یہ مت بھولنا کے میں بزی ہوں تو تم پر دھیان نہیں ہے۔۔
میری نظر ہر وقت تم پر رہتی ہے نوٹنکی باز۔۔
اوففوو بھائی کیا ہے آپ کو اب بندے کی پرائیویسی بھی ہوتی ہے۔۔
اچھا اچھا بس بس آرام کرو اب زیان مسکراتا ہوا باہر کی جانب چلا گیا۔۔
حیا اور میر شاہ سے ملنے کا ارادہ صبح کا تھا۔۔۔

بھائی اٹھو نا بھائیییییی۔۔۔
اففوو پتا نہیں کیا پی کر سوئے ہیں جو اٹھ ہی نہیں رہے۔۔
حیا آدھے گھنٹے سے آیان کو اٹھا رہی تھی اور آیان کو کوئی حوش ہی نہیں تھا۔۔
آیان نے حیا سے کہا تھا کے صبح وہ اسے یونی چھوڑنے جائے گا مگر اب جناب نیند میں مشغول تھے۔۔۔
بھائیییی اٹھ بھی جائیں اب مجھے دیر ہو رہی ہے اوکے میں اکیلے ہی چلی جاتی ہوں پھر بات بھی مت کریے گا مجھ سے۔۔۔
اچھا نا بابا دیکھو اٹھ گیا میں تم تیار ہو کر آؤ میں آتا ہوں فریش ہو کر۔۔۔!!!
میں کب سے تیار ہی کھڑی ہوں اب اٹھے بھی کہیں نشا وشا تو نہیں کر کے سوئے نا ہاں جو اٹھ نہیں رہے تھے۔۔۔
آیان نے سائیڈ میں پڑا ہوا پلو اٹھا کر حیا کو مارا۔۔
رکو تمہیں تو بتاتا ہوں میں کہ۔۔
آیان کے کہنے کی دیر تھی حیا اگلے ہی پل کمرے سے غائب ہوئی۔۔
پیچھے سے آیان کا قہقہہ بلند ہوا اور پھر فریش ہونے کے لیے واشروم گھس گیا۔۔

بابا کیا ہماری کسی سے دشمنی ہے۔۔
یوسف دورانی ڈرائیو کر رہے تھے اتنے میں پلوشہ نے انھیں مخاطب کیا۔۔
نہیں بیٹا لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ایسا یوسف دورانی نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
بس ایسے ہی بابا۔۔
اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو پلوشہ کہاں ہے بابا آپ کچھ کریں نا کتنے دن ہو گئے ہیں پلوشہ کا کچھ پتا ہی نہیں ہے۔۔۔۔
میرا بچہ پریشان نا ہوں بہت جلد پلوشہ ہمارے ساتھ ہو گی۔۔
چلو اب موڈ ٹھیک کرو شاباش مائے گڈ گرل اور یہ آگئی آپ کی یونی۔۔۔
پریشے نا چاہتے ہوئی بھی مسکرائ اوکے بابا خدا حافظ۔۔
خدا حافظ میرا بچہ یوسف دورانی نے پیار سے کہا اور روانہ ہو گئے۔۔
پریشے یونی میں جانے ہی لگی تھی کہ کار سے حیا اترتے ہوئے نظر آئی۔۔
تو پریشے وہی رک کر حیا کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
حیا نے جب پریشے کو دیکھا تو اسے ہاتھ کے اشارے سے ہائے کیا۔۔
او میڈم کون سے لڑکے کو چھیڑ رہی ہو۔۔
آیان نے آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا۔۔
توبہ ہے بھائی آپ بھی نا فرینڈ ہے میری۔۔
ہاہاہا اوکے اوکے۔۔
پریشے نے دور کھڑے آیان کو دیکھا تو دیکھتی چلی گئی۔۔۔
وائیٹ کلر کی پینٹ پر بلیک کلر کی شرٹ پہنے ہوئے کلائی میں برینڈیڈ واچ ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے دوسرے ہاتھ میں موبائیل بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے پریشے کو وہ کسی شہزادے سے کم نا لگا۔۔۔
اتنے میں حیا نے اس کے اگے چٹکی بجائی کس کے خیالوں میں کھوئی ہوئ ہوں ہاں۔۔
حیا نے شرارت سے کہا۔۔۔
پریشے جلدی سے ہوش میں آئی نہیں و۔۔ہ می۔۔ں پریشے کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔۔
کیا نہیں وہ میں ہاں بتاؤ بتاؤ حیا نے آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا۔۔
پریشے نے اسے گھوری سے نوازا اب یونی بھی چلنا ہے یا یہی کھڑے ہو کر باتیں کرنی ہیں۔۔
پریشے نے بات کو بدلتے ہوئے کہا ۔۔
ہاہاہا چلو چلو۔۔
حیا نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
پریشے نے واپس مڑ کر دیکھا تو آیان واپس جا چکا تھا۔۔
پھر وہ دونوں بھی یونی میں چلی گئی۔۔

اسلام علیکم۔۔
زیان نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔
وعلیکم اسلام۔۔
آؤ آؤ برخوردار آگئ یاد تمہیں ہماری۔۔
رات کو لیٹ آتے ہو صبح پتا نہیں کس ٹائم روانہ ہو جاتے ہو کبھی تو ایک ایک ہفتہ گھر نہیں آتے۔۔
میر شاہ نے نراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔۔
ڈیڈ بس آپ کو پتا تو ہے ہی بس آفس میں بزی ہوتا ہوں بس اسی لیے۔۔۔
مطلب اب اپنے گھر والوں سے زیادہ تمہیں اپنے بزنس کی فکر ہے۔۔۔!!!
میر شاہ نے کہا۔۔
نہیں ڈیڈ ایسی بات ہوتی تو ابھی آپ کے سامنے نا بیٹھا ہوتا۔۔۔
اچھا چلیں چھوڑیں نا یہ سب کچھ اور سنائیں کیسے ہیں آپ طبیعت کیسی ہے آپ کی۔۔
تم گھر میں رہو تو پتا بھی چلے بہرال ٹھیک ہوں تم سناؤ۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں ڈیڈ۔۔
اچھا اور آیان سے بات کی تم نے اس کا کیا ارادہ ہے اب تمہارے ساتھ بزنس جوائن کرے گا یا نہیں۔۔۔
ڈیڈ ابھی تو وہ آیا ہے تھوڑا انجوائے کرنے دیں پھر بات کرتا ہوں میں اس سے۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔
اتنے میں عائیشہ بیگم ناشتہ لے کر آئی۔۔
زیان بیٹا کیسے ہو۔۔۔
ٹھیک ہوں زیان نے مختصر سا جواب دیا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔
عائیشہ بیگم کی آنکھوں میں صاف نمی نظر آرہی تھی۔۔لیکن زیان سنگ دل بنا اگنور کر گیا۔۔۔
اور میر شاہ پھر سے ایک سرد سی آہ بھر کر رہ گئے۔۔

پلوشہ کل سے ہی اپنے کمرے میں بند تھی۔۔۔
اور زیان جب سے گیا تھا واپس گھر نہیں لوٹا تھا۔۔۔۔
اتنے میں درازہ نوک ہوا۔۔
پلوشہ کی دل کی دھڑکنے تیز ہوئی۔۔
ڈرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کو۔۔و۔۔ن۔۔
بیٹا میں ہوں صوفیہ آپا۔۔
پلوشہ نے سکون کا سانس لیا اور دروازہ کھولا۔۔
بیٹا آپ کل سے باہر ہی نہیں آئی یہ کھانا کھا لیجیے گا۔۔
صوفیہ آپا اندر ٹیبل پر کھانا رکھ کر جانے لگی تو ان کی نظر پلوشہ کے سرخ گال پر گئی۔۔۔
لیکن وہ کچھ نہیں بولیں اور واپس چلی گئیں۔۔۔
پلوشہ نے کل سے کچھ نہیں کھایا تھا اس لیے جلدی سے اٹھی اور کھانا کھانے لگی۔۔۔

حیا یونی سے وآپس آئی اور زیان کو دیکھ کر پہلے تو خوش ہوئی پھر بنا ملے ہی اپنے کمرے کی جانب روانہ ہو گئی۔۔
حیا فریش ہوکر نیچے آئی۔۔
عائیشہ بیگم کھانا لگا رہی تھیں۔۔
حیا چپ چاپ آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی اور کھانا کھانے لگی۔۔
سب ہی حیران تھے کہ حیا کو ہوا کیا ہے۔۔
کیا ہوا حیا کہیں تمہاری دوست مر ور تو نہیں گئی نا جو ایسی شکل بنائی ہوئی ہے تم نے۔۔
آیان نے بول کر آنکھ ونک کی۔۔
توبہ ہے بھائی کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ایک ہی تو دوست ہے میری بہت عزیز ہے مجھے۔۔
ڈیڈ دیکھیں نا بھائی کو۔۔
سب ہی مسکرانے لگے۔۔
اسی نوک جھونک میں سب نے کھانا کھایا۔۔
حیا واپس اپنے روم میں آئی اور اپنا موبائیل اٹھا کر پریشے کو کال کرنے ہی والی تھی کے زیان روم میں داخل ہوا۔۔
حیا نے کوئی رئیکٹ نہیں کیا اور موبائیل یوز کرنے لگی۔۔۔
میری پرنسیز ناراض ہے مجھ سے۔۔
زیان نے حیا کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
Yes..
حیا نے منہ پھلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
او اچھا تو پھر اب کیا کِیا جائے۔۔!!
حیا نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
چلو تمہاری مرضی نا کرو بات میں تو بس یہ بتانے آیا تھا کہ رات کو ہم سب باہر ڈنر کرنے جائیں گیں۔۔۔
لیکن تم نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔۔
زیان اٹھ کر جانے لگا۔۔۔
بھائیییییی۔۔
ہاہاہاہا زیان کا قہقہہ بلند ہوا۔۔
اسے پہلے ہی پتا تھا کہ حیا کو کیسے منانا ہے۔۔
لاسٹ ٹائیم بھی زیان نے حیا کو کہا تھا پھر ضروری میٹینگ کی وجہ سے چلا گیا تھا اور اب واپس لوٹا تھا اور
اب اس کا ارادہ رات تک یہیں رکنے کا۔۔۔۔۔

کل مصروفیات کی وجہ سے ایپی نہیں دے پائی تھی اس لیے آج لانگ ایپی دی ہے۔۔۔
.............................
قسط نمبر 5 پڑھنے کے لیے کلک کریں
............................ 
............................
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں