زلفت زہرا جانی مانی انا پرست سخت گیر ایک بڑی عمر کی خاتون تھی جس کی شادی خوب سے خوب تر کی تلاش میں نہ ہو سکی اس کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا وہ گھر میں سب سے بڑی تھی اب وہ اپنی محرومیوں کا بدلہ اپنے بہن بھائیوں پر حکمرانی کر کے لے رہی تھی
اس کا رعب کچھ اس طرح تھا کہ سبھی اس سے ڈرتے تھے تب سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا ذیادہ تر گھروں میں جوائنٹ فیملی سسٹم تھا سارے بھائیوں کی کمائی زلفت زہرا کے ھاتھ پر رکھی جاتی وہی گھر کو چلاتی اس کے شادی شدہ بھائی بھی اس سے ڈرتے بھابھیوں پر بھی اس کا کنٹرول تھا ابھی اس کے دو بھائی کنوارے تھے ایک کا نام ظہیراور دوسرے کا نام شکیل تھا ظہیر تو ایک نارمل آدمی تھا مگر شکیل کو شدید قسم کے نفسیاتی دورے پڑتے تھے وہ اپنے حواس کھو بیٹھتا ایک طرح سے وہ ذہنی مریض تھا زلفت زہرا اس کی شادی کروانا چاہتی تھی رشتیدار اور جاننے والے تو اس کو رشتہ دینے سے رہے کوئی بھی شخص جانتے بوجھتے اپنی بیٹی کو اس جھنم میں بھیجنے کو تیار نہ تھا۔
شکیل کے مرض اور زلفت زہرا کی انا پرستی سے سب واقف تھے زلفت زہرا نے ایک رشتے کرانے والی خاتون سے رابطہ کیا وہ عورت تیزی سے شکیل کے لیے رشتہ تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگ گئی آخرکار رشتہ تلاش کر ہی لیا ایک بیوہ عورت کے ہاں جس کی چار بیٹیاں تھیں بیٹا نہیں تھا اور وہ اپنے بیٹیوں کے رشتے کے لیے فکر مند تھی وہ لوگ دور کے ایک گاؤں کے تھے لڑکی کا نام شبانہ تھا زلفت زہرا نے لڑکی دیکھ کر پسند کر لی اب اس نے اور رشتے والی عورت نے کام یہ کیا ان کو دکھانے ظہیر کو لے گئیں یہ انکی ایک چال تھی ظہیر اور شکیل کی شکل اتنی ملتی تھی کہ دیکھنے والے دھوکہ کھا جاتا انہوں نے ظہیر کو پسند کر لیا ظہیر کو یہ بات بہت بری لگی مگر بہن کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ تھی منگنی بہت دھوم دھام سے کی گئی وہ بیوہ عورت خوش تھی چلو ایک لڑکی کا بوجھ تو ہلکا ہوا زلفت زہرا بہت جلد اپنے بھائی کی شادی کرنا چاہتی تھی ایک ماہ کے اندر اندر ان کو شادی کا عندیہ دے دیا جہیز وغیرہ سے بھی منع کردیا وہ خود بھی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی گھر میں کوئی بھی اس شادی کے حق میں نہ تھا وہ بیوہ ایک سلیقہ مند عورت تھی اس عورت نے پھر بھی کچھ نہ کچھ اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے جوڑ رکھا تھا ایک مہینہ بھی گزر گیا شادی کا دن بھی آپنہچا شادی کے دن ۔بارات آئی سب نے دولھا کو دیکھا۔
جن لوگوں نے ظہیر کو دیکھا تھا شادی والے دن شکیل کو دیکھا تو انہیں لگا کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہےشکل تو ملتی تھی مگر اٹھنے بیٹھنے میں فرق تھا دولہا والوں سے سوال کیا تو یہی بتایا گیا کہ یہ وہی ہے جو منگنی والے دن آیا تھا اب نکاح کے وقت انکار بھی نہیں کیا جاسکتا تھا نہ ہی کوئی شبانہ کا بھائی تھا جو اس معاملے پر بات کرتا شبانہ بیاہ کر سسرال چلی گئی شبانہ کو پہلے ہی دن اندازہ ہو گیا وہ ایک نارمل آدمی نہیں ہے اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا یہ ایک بے رحم حقیقت تھی جو شبانہ کو ہر صورت قبول کرنی تھی زلفت زہرا نے اسے پہلے ہی دن اپنا روپ دکھا دیا اسے ناں سننا نہیں آتا شبانہ بہت ڈری سہمی ہوئی تھی اس کی جٹھانیوں پر بھی زلفت زہرا کا دبدبہ تھا۔
ان کے شوہر پھر بھی نارمل تھےشبانہ مکمل نند کے کنٹرول میں تھی عجیب ماحول عجیب لوگ تھے شبانہ کے چھپانے کے باوجود اسکی ماں کو پتا چل گیا وہ رو دھوکر چپ ہو گئی شکیل کو جب نفسیاتی دوری پڑتے وہ شبانہ کو ظالموں کی طرح مارتا بہکی بہکی باتیں کرتا نارمل ہوتا تو کبھی پیار بھی کرتا نند اسے غریبی کےطعنوں سے مار دیتی کبھی ہاتھ بھی اٹھا دیتی گھر میں اس کی حیثیت نوکروں سے بھی بدتر تھی اب اس ماحول میں شبانہ خود نفسیاتی مریض بن گئی بہکی بہکی باتیں کرنے لگی اس کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر تھی اس کے تین بچے ہوگئے پڑا بیٹا باپ کی طرح نارمل نہیں تھا باقی دو بچے نارمل تھے اس دوران ظہیر کی شادی بہن نے اپنی ایک کزن سے کروادی ایسے حالاتِ میں شبانہ کو ماں پاس لے آئی وہ اپنی بیٹی کی حالت دیکھ دیکھ کر روتی اس وقت کو کوستی جب اس نے رشتے کے لیے ہاں کی تھی
شبانہ ماں اور بہنوں کی پوری توجہ سےاب واپس زندگی کی طرف لوٹنے لگی تھی یہاں اس کے بچوں کو بھی پوری توجہ حاصل تھی وہ جو ماں کی طرح سہمے سہمے رہتے تھے یہاں آکر خوش تھے شبانہ واپس اس جہنم میں نہیں جانا چاہتی تھی اسے نند اور شوہر کے نام سے خوف آنے لگا اس نے طلاق حاصل کرلی پڑہی لکھی وہ تھی نہیں ہنر اس کے پاس تھا اس نے سلائی مشین سنبھال لی اس کے ہاتھ میں صفائی بھی تھی اس کا کام خوب چلنے لگا وقت ایسے ہی گزرنے لگا بچے بھی اب سمجھدار ہوچکے تھے ماں کے حالات کو سمجھنے لگے تھے ادہر زلفت زہرا کا دور اب ختم ہو رہا تھا اب اس کے اپنے بھائیوں کے بچے اس کےمد مقابل آنے لگے بچے جو حالات بچپن سے دیکھتے آرہے تھے ۔
انہیں زلفت زہرا کے مزاج کا خوب اندازہ تھا شبانہ کی بیٹی بڑی بڑی ہوتی تو اس کے سسرالیوں نےاس کی بیٹی کارشتہ لینا چاہا شبانہ نے صاف انکار کردیا وہ ان سے بد دل ہو چکی تھی اب جو اس کی بہن نے رشتہ مانگا تو اس نے بیٹی کا رشتہ اپنے بھانجے سے طئہ کردیا جسے وہ بچپن سے جانتی تھی جانتی تو وہ سسرالی بچوں کو بھی اچھی طرح تھی مگر اس کے ساتھ جو سسرال والوں نے سلوک روا رکھا تھا اس کا دل نہ مانتا وہ ان سے رشتہ جوڑے حالات نے اسے بولنا سکھا دیا تھا لہذا اسے انکار کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی اور بیٹی تو تھی ہی ماں کی خوشی میں خوش بیٹے کی بھی شادی کروادی اب وہ مطمئن تھی وہ اپنے سسرال سے مکمل طور پر لاتعلق تھی بڑے دنوں بعد اس کے سسرال سے خبر آئی کہ زلفت زہرا کسی میت والے گھر گئی ہوئی تھی وہاں سیڑہیوں سے اترتے ہوئے اس کاپائوں پھسل گیا اور چوٹ اتنی شدید آئی تھی کہ وہ موقعہ پر ہی جاں بحق ہو گئی شبانہ کو یہ سن کر خوشی تو نہ ہوئی مگراسے دکھ بھی نہ ہوا۔
Urdu Stories Tags:
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
0 تبصرے