پُراسرار حویلی - پارٹ 10

  

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 10


بدروح سلطانہ کی گفتگو سننے کے بعد میں اب غصہ کھانے یا جھنجلانے کی بجاۓ بڑی سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ مجھے بدروح سلطانہ کی باتوں پر غور کرنا چاہئے اور جس مصیبت میں ، میں پھنس چکا ہوں اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے سلطانہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے کیونکہ سلطانہ کی بدروح کو مرتبان سے آزاد کر نے کے بعد پجاری رگھو میری جان کا دشمن بن چکا تھا اور وہ تین چار مرتبہ مجھے موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش بھی کر چکا تھا مگر عین وقت پر سلطانہ کی بدروح نے مجھے بچا لیا تھا۔ میں نے اپنے دل میں اپنی زندگی کی خاطر سلطانہ کے آگے اپنی ہار تسلیم کر لی تھی۔

میں نے سلطانہ کی بدروح سے کہا۔ " سلطانہ ! تم نے جو کچھ کہا ہے میں اسے تسلیم کرتا ہوں ۔ آج سے میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ تم جو کہو گی میں وہی کروں گا۔“ سلطانہ کی بدروح نے اطمینان کا گہرا سانس لیا۔ میں نے اس کے چہرے پر مسرت کی ایک لہر سی نمودار ہوتے دیکھی۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کہنے لگی ۔ ’’ تم نے یہ بات کہہ کر میرے سینے پر پڑے ہوۓ ایک ایسے پتھر کو ہٹا دیا ہے جسے میں اکیلی کبھی نہیں ہٹا سکتی تھی۔ تم نے اپنی اور میری ہم دونوں کی مشکل آسان بنا دی ہے ۔
مجھے مرتبان کی قید سے آزاد کرنے اور میرے آزاد ہو جانے کے بعد ہم دونوں تقدیر کے جس چکر میں پھنس گئے تھے اب ہم دونوں مل کر اس کا مقابلہ کر کے اس میں سے نکل سکیں گے ۔“

میں نے سلطانہ کی بدروح سے کہا۔ " تمہارا تعلق روحوں کی دنیا سے ہے۔ میں زندہ انسانوں کی دنیا میں رہتا ہوں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چل سکیں گے ؟“
اس کے جواب میں بدروح سلطانہ نے ایک لمحے کی خاموشی کے بعد کہا۔ ” ہو سکتا ہے تمہیں بھی میرے ساتھ میری دنیا میں جانا پڑ جاۓ ۔ کیا تم اس کے لئے تیار ہو ؟" میں نے سوچا کہ روز روز کی مصیبت سے یہی بہتر ہے کہ ایک ہی بار اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر لیا جاۓ ۔ کم از کم ان بدروحوں سے ہمیشہ کے لئے نجات تو مل جاۓ گی۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں تھا۔ اگر اس وقت مجھے علم ہو جا تا کہ میں کس جہنم میں کودنے والا ہوں اور میرے ساتھ کیا گزرنے والی ہے تو میں بدروح سے تعاون کرنے کی کبھی حامی نہ بھرتا اور ملک چھوڑ کر ہی بھاگ جاتا لیکن میرے ساتھ جو کچھ ہونے والا تھا اسے تو ہو کر ہی رہنا تھا۔ میں نے سلطانہ کی بدروح سے کہہ دیا۔ ’’جب میں نے تمہیں کہہ دیا ہے کہ تم جو کہو گی میں وہی کروں گا تو مجھے تمہارے ساتھ تمہاری بدروحوں کی دنیا میں جانے پر کیا اعتراض ہو سکتا۔۔۔

بد روح سلطانہ یہ سن کر بڑی خوش ہو گئی۔ اس نے میرا ہاتھ چوم لیا۔ اس کے ہونٹ برف کی طرح ٹھنڈے تھے۔ میرے بدن میں خوف کی سرد لہر دوڑ گئی۔ کہنے لگی کیا تم ابھی میرے ساتھ چل سکتے ہو ؟‘‘
میں نے کہا۔ ”لیکن پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کالی مند ر والے سونے کے بت کا راز کیا ہے۔ کیا اسی بت نے میرے دوست انور کا خون کیا تھا ؟‘‘ بدروح سلطانہ نے کہا۔ ”جب میں نے اس سے پہلے تمہیں پجاری رگھو کے بھیجے ہوۓ دشمنوں سے بچایا تھا تو میں نے تمہیں بتایا تھا کہ جب سے تم نے مجھے مرتبان سے باہر نکال کر اس کی قید سے آزاد کیا ہے پجاری رگھو کی بری آتما لینی بدروح تمہاری اور میری جان کی دشمن بن گئی ہے۔ پجاری رگھو ایک تو مجھے دوبارہ اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے ، دوسرے وہ تمہیں بھی قتل کرنا چاہتا ہے۔ میں اس کے قابو اس لئے نہیں آرہی کہ مجھے اس کی سازش کا پہلے سے علم ہو جاتا ہے اور میں اپنا بچاؤ کر لیتی ہوں ۔ تمہاری جان کو وہ اس لئے کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتا کہ عین وقت پر میں تمہاری مدد کو پہنچ جاتی ہوں۔

لیکن میں جانتی ہوں کہ چوہے بلی کا یہ کھیل زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ میں پجاری رگھو کے قابو آؤں چاہے نہ آؤں لیکن ایک نہ ایک دن وہ تمہیں قتل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جاۓ گا اور ایسا میں کبھی نہیں چاہتی کہ ہو ، اس لئے کہ مجھے رگھو کی قید سے آزاد کر کے تم نے مجھ پر وہ احسان کیا ہے جس کا تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے اور تمہاری جان کی حفاظت کرنا میرا فرض بن گیا ہے۔ میں چاہتی تھی کہ کسی طرح تمہیں اپنے ساتھ چلنے پر راضی کر کے اس خونی کھیل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دوں مگر میں جانتی تھی کہ انسانوں کی دنیا میں رہنے والا کوئی بھی انسان بدروحوں اور چڑیلوں کی دنیا میں جانے پر راضی نہیں ہو گا۔
میں نے کئی بار سوچا کہ تمہیں اٹھا کر لے جاؤں میں ایسا بڑی آسانی سے کر سکتی تھی لیکن میں چاہتی تھی کہ تم اپنی مرضی سے میرے ساتھ چلو۔ تمہارا اپنی مرضی سے میرے ساتھ بدروحوں کی دنیا میں جانا بڑا ضروری تھا بلکہ بدروحوں کی دنیا میں جانے کے لئے یہ ایک لازمی شرط تھی . . . . . . اب جبکہ تم نے اس کی حامی بھر لی ہے اور میرے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے ہو تو میں تمہیں بتا نہیں سکتی کہ مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے۔

اب تمہیں بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تمہارے دوست انور کو کالی مندر کے سونے کی مورتی نے ہی قتل کیا تھا اور وہ تمہیں قتل کرنے والی تھی کہ میں نے عین وقت پر پہنچ کر تمہیں بچا لیا۔ وہ کالی مندر کی مورتی اصل میں ہمارے دشمن پجاری رگھو کی بھیجی ہوئی ایک انتہائی خطرناک قاتل کی بدروح تھی جو ہزاروں انسانوں کو قتل کر چکا تھا اور مرنے کے بعد اس کی بھٹکتی ہوئی گناہگار روح کو پجاری رگھو نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔
میں بدروح سلطانہ سے ایک اور سوال کرنا چاہتا تھا کہ اس نے مجھے ٹوک دیا اور بولی۔" تم اپنے دل میں مجھے بدروح سلطانہ نہ کہا کرو۔ میں نے زندگی میں اسلام قبول کر لیا تھا اور یاد رکھو ایک مسلمان کی روح گناہ گار ہو سکتی ہے مگر بدروح نہیں ہو سکتی۔۔۔۔
اس لئے تم آئندہ سے مجھے یا تو سلطانہ کہہ کر مخاطب کیا کرو اور اگر مجھے بدروح کہنا ہو تو روہنی کی بدروح کہہ دیا کرو۔ میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ صو بیدار شہزادہ شیروان سے شادی کرنے کے بعد میں مسلمان ہو گئی تھی اور اپنا ہندو نام روہنی ترک کر کے سلطانہ رکھ لیا تھا۔

میں نے کہا۔ ” ٹھیک ہے میں آئندہ ایسا ہی کروں گا۔ اب یہ بتاؤ کہ وہ پر اسرار عورت کون تھی جو مجھے بادامی باغ قبرستان کے پاس ملی تھی اور جس نے مجھے اپنی اکلوتی بیٹی کی موت کی جھوٹی کہانی سنا کر بے ہوش کر کے خون پینے والی اور مردوں کو کھانے والی سیاہ پوش چڑیلیوں کے حوالے کر دیا تھا۔ “
میں اپنی داستان سناتے ہوۓ سلطانہ کو بدروح روہنی ہی کہوں گا لیکن اس کو مخاطب کرتے ہوئے اگر کبھی مجھے اس کا نام لینا پڑ جاتا تھا تو میں اسے سلطانہ کے نام سے بلاتا تھا۔ چنانچہ میرے سوال کے جواب میں بدروح روہنی نے کہا۔’’وہ عورت بھی ہمارے دشمن رگھو کی بھیجی ہوئی ایک بدروح تھی جو ایک عورت کا روپ لے کر تمہیں سیاہ پوش چڑیلوں کے جال میں پھنسانے کے لئے بھیجی گئی تھی اور وہ سیاہ پوش چڑیلیں بھی پاتال کی اپسراؤں کی بدروحیں تھی جو بھوپال اور جھانسی کے جنگلوں میں رات کے وقت بھولے بھٹکے مسافروں کو اٹھا کر لے جاتی ہیں اور ان کا خون چوس لیتی ہیں اور گوشت کھا جاتی ہیں۔
میں تمہیں بدروحوں کی جس دنیا میں لے کر جار ہی ہوں وہ تمام کی تمام بتوں کی پوجا کرنے والے مردوں اور عورتوں کی بدروحیں ہیں۔ان میں دو قسم کی بدروحیں ہیں ۔ ایک گناہ گار بدروحیں اور دوسری سراپ یعنی بددعا پائی ہوئی روحیں یعنی ایسے مردوں اور عورتوں کی بدروحیں جنہیں کسی کی بد دعا لگ گئی اور مرنے کے بعد اس کی روح بدروح بن کر زمین پر بھٹکتی پھرتی ہے ۔ ان میں ایسے بت پرستوں کی روحیں آ سیب اور چڑیلیں بن جاتی ہیں جنہوں نے دنیا میں بہت بڑے گناہ کئے ہوتے ہیں ۔ ایسے گھناؤنے گناہ کرنے والے مردوں کی روحیں بھوت بن جاتی ہیں اور لوگوں کو چمٹ جاتی ہیں اور اکثر انہیں موت کی گود میں پہنچا دیتی ہیں مگر میری ایک بات یاد رکھو کوئی بدروح ، کوئی آسیب، کوئی جن بھوت اور چڑیل کبھی ایسے شخص کا کچھ بگاڑنا تو کیا اس کے قریب بھی نہیں جاتی جس کو اپنے خدا پر مکمل یقین ہو اور جس کا سینہ ایمان کی شمع سے روشن ہو ۔
اللہ کے نور کی روشنی میں چلنے والے انسان کو دور ہی سے دیکھ کر بدروحیں اس کا راستہ چھوڑ کر بھاگ جاتی ہیں ۔ یہ چڑیلیں اور بھوت عام طور پر بت پرستوں یعنی کافروں کو چمٹتے ہیں یا پھر کسی ایسے مسلمان کو بھی چمٹ جاتے ہیں جس کا خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان پختہ نہ ہو۔ بہرحال یہ ساری باتیں تمہیں آہستہ آہستہ اپنے آپ معلوم ہو جائیں گے ۔“ میں نے بدروح روہنی سے ایک سوال کیا جس کی اسے شاید مجھ سے امید نہیں تھی۔ میں نے اس سے پوچھا ۔ سلطانہ تم تو اسلام قبول کر کے مسلمان ہو گئی تھیں ۔ پھر تمہاری روح بدروح بن کر کیوں بھٹک رہی ہے۔
میرے اس سوال پر بدروح روہنی نے پلکیں جھپکاتے ہوۓ مجھے کچھ دیر تک بڑے غور سے دیکھا۔ پھر کہنے لگی۔ میں جب ہندو تھی تو مندروں میں جا کر اور گھر میں بھی مختلف دیوی دیوتاؤں کے بتوں کی پوجا کرتی تھی ۔ یاد رکھو شرک خدا کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ خدا اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔
میں نے بھی مورتیوں کی پو جا کر کے بہت بڑا گناہ کیا تھا اور جوان ہونے تک یہ گناہ کرتی رہی تھی۔ چنانچہ میرے مرنے کے بعد میں اس بڑے گناہ کی سزا اس طرح بھگت رہی ہوں کہ بدروح بن کر زمین پر بھٹکتی پھر رہی ہوں ۔ شادی کے بعد اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے میری اتنی بخشش ضرور ہو گئی ہے کہ میں کوئی چڑیل نہیں بنی اور دوسری بدروحیں سواۓ ان بدروحوں کے بڑے پجاریوں اور منتری کی بدروح کے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں . . . . . اب جو باتیں میں تمہیں بتانے چلی ہوں ان کو بڑے غور سے سننا۔
بدروحوں کی دنیا میں لے جانے سے پہلے میں تمہیں کچھ ہدایات دینا چاہوں گی جن پر تمہیں سختی سے عمل کرنا ہوگا ورنہ تمہیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوگا۔ کیا تم سن رہے ہو ؟“ میں بدروح روہنی کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا۔ میں نے کہا۔ میں سن رہا ہوں سلطانہ !‘‘ سلطانہ نے بے اختیار ہو کر میرا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگی۔ جب تم میرا نام لے کر مجھے بلاتے ہو یا مخاطب کرتے ہو تو مجھے بہت سی باتیں یاد آ جاتی ہیں ۔
“ میں نے کہا۔ ” تمہارا میرا ساتھ تو بہت ہی تھوڑا ہے بلکہ تم مجھے تین چار مرتبہ ہی ملی ہو پھر تمہیں میری باتیں کہاں سے یاد آنے لگی ہیں ؟“ بدروح روہنی نے آہ بھر کر کہا۔ میں تمہیں یہی بتانا چاہتی ہوں کہ تمہاری کون سی باتیں مجھے یاد آتی ہیں اور کیوں یاد آتی ہیں اور تمہارے میرے درمیان کیا رشتہ تھا؟“
ہمارے درمیان کوئی رشتہ بھی تھا؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔“
میں نے تعجب کے ساتھ پوچھا۔ ” کیا تمہارے اور میرے درمیان کوئی رشتہ تھا ؟
بدروح روہنی نے اپنے لمبے بالوں کو آہستہ سے پیچھے جھٹلتے ہوئے کہا۔ "سب سے پہلے میں اس راز پر سے پردہ اٹھاؤں گی کہ تمہارا میرا رشتہ کیا تھا۔ اب میں تمہیں وہ ایک دو باتیں بتانا ضروری سمجھتی ہوں جن کا تمہیں بدروحوں کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد خیال رکھنا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم میرے ساتھ غیبی حالت میں ہو گئے ۔ یعنی تم سب کو دیکھ سکو گے تمہیں سوائے بڑے پجاریوں اور بڑے منتریوں کی بدروحوں کے دوسرا کوئی نہیں دیکھ سکے گا لیکن میں تمہیں بڑے پجاریوں اور بڑے منتریوں کی بدروحوں سے دور رکھوں گی کیونکہ اگر ان کی تم پر نظر پڑ گئی تو وہ تمہیں اپنے قبضے میں کر کے تمہیں مار ڈالیں گے اور تمہیں بھی ایک بدروح بنا کر اپنے ناپاک گروہ میں شامل کر لیں گے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ میری اجازت کے بغیر تمہیں کوئی لفظ زبان سے نہیں بولنا ہوگا۔‘‘ میں نے بدروح روہنی سے سوال کیا۔ ’’ یہ بدروحوں کی دنیا کس جگہ پر ہے ؟ کیا زمین کے اندر ہے یا زمین کے اوپر کسی ویران جگہ پر ہے؟
اس نے جواب دیا۔’’اس سوال کا پورا جواب دینے کی مجھے اجازت نہیں ہے۔ تم یوں سمجھ لو کہ جہاں میں تمہیں لے جارہی ہوں وہ جگہ نہ زمین کے اندر ہے نہ زمین کے اوپر ہے ، نہ دنیا کے کسی جنگل میں ہے نہ ہی دنیا کے کسی ویرانے میں ہے۔ وہ ایک ایسا جنگل ہے ، ایسا ویرانہ ہے ، زندہ انسانوں کی نگاہوں سے چھپا ہوا ہے جہاں نہ کبھی کوئی زندہ انسان گیا ہے اور نہ کوئی زندہ انسان کبھی جاسکتا ہے۔ وہاں صرف بدروحیں رہتی ہیں لیکن سب سے پہلے میں تمہیں جھانسی اور بھوپال کے درمیان واقع جنگل کے اس پرانے قلعے کی ویران حویلی میں لے جارہی ہوں جہاں تم نے مجھے پجاری رگھو کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
میں نے پوچھا۔ ”جھانسی بھوپال تو یہاں سے بہت دور ہے اور اب تو دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان میں ویزے پاسپورٹ کے بغیر کوئی بھی سفر نہیں کر سکتا۔“ روہنی کی بدروح نے کہا۔ ”تم یہ کیوں بھول گئے ہو کہ میں تمہاری طرح زندہ انسان نہیں ہوں۔ میرے لئے وقت اور فاصلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ آؤ اپنے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔“
ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہمیں باتیں کرتے کرتے کافی وقت گزر گیا تھا اور رات ڈھلنا شروع ہو گئی تھی۔ روہنی بدروح نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہنے لگی۔ مجھے معلوم ہے کہ تم گھبراؤ گے نہیں کیونکہ ایک بار پہلے بھی میں تمہیں اپنے ساتھ ہوا میں اٹھا کر لے جاچکی ہوں۔“
میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے ہوا میں پرواز کرتے ہوۓ لاہور سے جھانسی کے پرانے قلعے میں لے جاۓ گی۔ میں نے کہا۔ ”میر اگرم کوٹ میرے پاس نہیں ہے صرف سویٹر میں نے پہن رکھا ہے۔ ہوا میں اڑتے ہوۓ مجھے سردی لگے گی۔“ روہنی بدروح نے کہا۔ ’’جب تک تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں رہے گا تمہیں سردی نہیں لگے گی۔ تیار ہو جاؤ۔“ روہنی بدروح نے میرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا مجھے ایک ہلکا سا جھٹکا لگا اور میرے پاؤں اپنے آپ کامران کی بارہ دری کے فرش سے دو تین فٹ اونچے اٹھ گئے۔ روہنی بھی اتنا ہی بلند ہو گئی تھی۔ پھر کسی غیبی طاقت نے ہمیں آگے دھکیل دیا ۔۔۔۔
اب ہم غروب ہوتے چاند کی پھکی روشنی میں دریائے راوی کی سطح پر سات آٹھ فٹ کی بلندی پر اڑنے لگے تھے۔ ہمارا رخ لاہور ریلوے سٹیشن کی طرف تھا۔ دریاۓ راوی کے اوپر سے گزر جانے کے بعد ہم آہستہ آہستہ اور بلند ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم سامنے سے آنے والے درختوں سے بھی دس بارہ فٹ کی بلندی پر آگئے۔ ہماری رفتار ابھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ ہم ریلوے لائن کے اوپر پرواز کر رہے تھے۔ ہمارے دائیں بائیں لاہور شہر کی روشنیاں نظر آرہی تھیں ۔
میں بغیر کسی حرکت اور کوشش کے اپنے آپ روہنی بدروح کے ساتھ پرواز کر رہا تھا۔ ہم لاہور ریلوے سٹیشن کے اوپر سے نکل گئے۔ جب سٹیشن کی روشنیاں کافی پیچھے رہ گئیں تو میں نے روہنی سے پوچھا۔ ’’اگر ہم اسی رفتار سے اڑتے رہے تو دو دن میں جھانسی بھوپال کے جنگل میں پہنچیں گے۔“ روہنی نے کہا۔ ’’ہم سورج نکلنے سے پہلے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے ۔
“ اس کے فور أبعد مجھے ایک ہلکا سا دھچکا لگا اور فضا میں ایک دم سے ہماری رفتار اتنی تیز ہو گئی کہ لاہور شہر کی روشنیاں دیکھتے دیکھتے ہمارے نیچے سے گزر گئیں۔ ہماری بلندی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ اب ہمیں نیچے اگر کوئی روشنی دکھائی دیتی تو وہ ایک نقطے کی طرح جھلملاتی نظر آتی اور کچھ ہی دیر بعد پیچھے رہ جاتی ۔
تیز ہوا میں روہنی کے لمبے سیاہ بال اڑ رہے تھے۔ ٹھنڈی ہوا میرے سارے جسم سے ٹکرا رہی تھی مگر مجھے ایک لمحے کے لئے بھی سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔
روہنی بدروح نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ پھر مجھے نہیں معلوم کہ کب پاکستان اور انڈیا کے بارڈر آۓ اور کب گزر گئے اور کب ہم ہندوستان کے ملک میں داخل ہو گئے۔اب ہم اتنی بلندی پر فضا میں پرواز کر رہے تھے کہ مجھے نیچے رات کے اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آتا تھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اپنے پاؤں کے نیچے اندھیرے کا ایک خلا ہی نظر آرہا تھا۔
پھر کسی شہر کی روشنیاں جو ایک چھوٹی سی روشنی کی ڈھیری کی طرح تھی بڑی تیزی سے پیچھے کی طرف نکل گئیں۔ اس کے کچھ دیر بعد کچھ اور جھلملاتی روشنیوں کے نقطے نیچے سے گزر گئے۔ اب آسمان پر سحر کا نور جھلکنا شروع ہو گیا تھا اور ستاروں کے فانوس آہستہ آہستہ بجھنے لگے تھے۔ ہم ایک دوسرے سے کوئی بات کئے بغیر بڑی تیز رفتاری سے فضا میں پرواز کر رہے تھے ۔ ایک بار ہمارے نیچے جھلملاتی روشنیوں کے کئی چھوٹے چھوٹے ڈھیر ادھر ادھر بکھرے ہوۓ دکھائی دیئے تو روہنی بدروح نے پرواز کے دوران پہلی بار زبان کھولی اور کہا۔ ’’ہم بھارت کی راجدھانی دلی کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔‘‘
“ ہم چونکہ سطح زمین سے کافی بلندی پر پرواز کر رہے تھے اس لئے ہمیں مشرقی آسمان کے افقی کناروں پر سب سے پہلے طلوع ہوتے سورج کی گلابی روشنی نظر آنے لگی تھی۔ آسمان پر سحر کا اجالا نمودار ہو چکا تھا۔ مجھے ایک بار پھر روہنی کی آواز سنائی دی۔’’ہم جھانسی کے اوپر سے گزر چکے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم قلعہ روہت گڑھ کے اوپر اترنے والے ہیں۔“
میں نے نیچے زمین کی طرف دیکھا۔ دن کے ہلکے ہلکے اجالے میں مجھے سواۓ اونچی نیچی پہاڑیوں اور درختوں کے سیاہ دھبوں کے اور کچھ نظر نہ آیا۔ اچانک میرا جسم ہلکا ہو کر نیچے کی طرف جیسے گرتا ہی چلا گیا۔ روہنی نے کہا۔’’گھبرانا مت۔ جب تک تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ ہم روہت گڑھ کے قلعے کی چھت پر اتر رہے ہیں۔ پھر ہماری رفتار اپنے آپ مدھم ہو گئی۔اب نیچے جنگل کے درخت صاف نظر آ رہے تھے۔ ہم نیچے جارہے تھے اور درخت اوپر ہماری طرف آ رہے تھے۔ پھر ان درختوں کے جھنڈوں کے درمیان ایک شکستہ پرانے قلعے کی چھت نمودار ہو گئی۔ یہ روہت گڑھ کا قلعہ ہی ہو سکتا تھا۔ ہم قلعے کی چھت پر اتر گئے ۔ چھت کی تین منڈیریں مسمار ہو چکی تھیں صرف ایک منڈیر کا آدھا حصہ باقی رہ گیا تھا۔ یہ وہی منحوس قلعہ تھا۔۔۔
اس قلعے میں واپس آنے پر میرا دل خوف سے ایک لمحے کے لئے بوجھل ضرور ہو گیا تھا مگر یہ سوچ کر میں نے اپنے آپ کو حوصلہ دیا کہ ایک بار جو کچھ ہونا ہے ہو جاۓ اس کے بعد تو مجھے ہمیشہ کے لئے اس مصیبت سے نجات مل جاۓ گی۔ روہنی کی بدروح مجھے قلعے کی تاریک سیڑھیوں میں سے لے کر نیچے ایک ایسے کمرے میں لے آئی جس پر ویرانی برس رہی تھی ۔ دیواروں کا پلستر اکھڑ چکا تھا۔ اس کمرے میں سے ایک تاریک راستہ دوسرے کمرے میں جاتا تھا۔ روہنی کی بدروح میرے آگے چل رہی تھی۔ تاریک راہ داری میں آکر وہ رک گئی۔ میری طرف دیکھ کر بولی۔
’’اس وقت قلعے میں ہم دونوں اکیلے ہیں۔ پجاری رگھو کی بدروحیں اور راکھشس ہمارے آس پاس کہیں نہیں ہیں۔ پھر بھی تمہیں بڑی احتیاط کرنی ہوگی۔ میرے ساتھ ہی رہنا اور کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا۔‘‘


ہم تاریک راہداری میں سے گزر گئے ۔ دوسری طرف ایک اور کمرہ تھا جو نہ چھوٹا تھا نہ زیادہ بڑا تھا۔ اس کی دیواروں کا پلستر بھی اکھڑ چکا تھا۔ کمرے کے درمیان میں ایک چبوترہ تھا جس میں سے سیڑھیاں نیچے کسی تہہ خانے میں اترتا تھا۔ روہنی کی بدروح تہہ خانے کی سیڑھیاں اترنے لگی۔ میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ دس بارہ سیڑھیاں اترنے کے بعد ہی مجھے نیچے سے ایک خوشبو سی آنا شروع ہو گئی۔ یہ خوشبو بڑی پراسرار تھی مگر اس میں ایک عجیب قسم کی اداسی کا احساس تھا۔ ہم ایک تہہ خانے میں آگئے۔
تہہ خانے کی ایک لمبی محرابی کھڑکی کی جالیوں میں سے گلابی رنگ کی روشنی اندر آ رہی تھی ۔ اس روشنی میں میں نے تہہ خانے کا جائزہ لیا۔ میں نے دیکھا کہ تہہ خانے کے وسط میں ایک تخت بچھا ہوا تھا جس کے اوپر ایک چھتری بنی ہوئی تھی۔ اس چھتری پر ہیرے موتی جڑے ہوۓ تھے جو کھڑکی سے آتی گلابی روشنی میں چمک رہے تھے ۔ تخت پر سرخ رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا اور سبز رنگ کے گاؤ تکیے لگے ہوۓ تھے ۔ کمرے کہ کونے میں بھی ایک چھوٹا سا چبوترہ تھا جس کی تین سنگ مرمر کی سیڑھیاں تھیں۔
اس چبوترے کے اوپر ایک تابوت پڑا تھا جس کے اوپر بھی ایک ہیرے جواہرات سے جڑی ہوئی چھتری نے سایہ کر رکھا تھا۔ اس چبوترے کے عقب میں دیوار پر سرخ رنگ کا پردہ گرا ہوا تھا ۔ اس پر اسرار کمرے کی فضا اداس کر دینے والی خوشبو سے بوجھل ہو رہی تھی۔
روہنی کی بدروح آہستہ آہستہ چل کر تابوت والے چبوترے کے پیچھے دیوار پر گرے ہوۓ سرخ پردے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ میں چبوترے کے پاس ہی کھڑا رہا۔ روہنی کی بدروح نے مجھے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ میں اس کے پاس چلا گیا اس آسیبی قسم کے تہہ خانے کی فضا میں میرے اعصاب پر ایک عجیب سا دباؤ محسوس ہونے لگا تھا۔ روہنی کی بدروح نے سرگوشی سی آواز میں کہا۔ ’’اب میں تمہیں ایسی شے دکھانے والی ہوں جسے دیکھ کر تمہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آۓ گا۔“ یہ کہہ کر اس نے دیوار پر گرے ہوئے پردے کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹا دیا۔
کھڑکی کی جالیوں میں سے آتی روشنی سیدھی دیوار پر آکر پڑی۔ میں نے اس کی روشنی میں دیوار پر سنہری فریم والی روغنی رنگوں سے بنائی ہوئی ایک تصویر لگی دیکھی جس پر پھولوں کے ہار پڑے تھے۔ یہ تصویر مغل زمانے کے کسی شہزادے کی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے سر پر کلغی دار سنہری پکڑی تھی ۔ پگڑی کی ایک پٹی جواہرات اور ہیروں سے مرصع تھی۔ شہزادے کے ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا جس طرح کہ عام طور پر مغل بادشاہوں کی تصویروں میں ہوا کرتا ہے ۔ اس تصویر پر نظر پڑتے ہی مجھے جو پہلا احساس ہو اوہ یہ تھا کہ جس شخص کی یہ تصویر ہے میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ،
روہنی بدروح بھی میرے بائیں جانب کھڑی تصویر کو بڑی محویت کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ’’ یہ میرے خاوند مغل صوبیدار شہزادہ شیروان کی تصویر ہے۔ آج سے تین سو برس پہلے اس قلعے میں ہماری بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی تھی۔ کیا تم اس تصویر کو دیکھ رہے ہو ؟ -
میں نے کہا۔ ’’ہاں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
روہنی نے کہا۔’’اسے اور قریب ہو کر غور سے دیکھو۔“ میں تصویر کے اور قریب ہو گیا اور تصویر کو غور سے دیکھنے لگا۔ جیسے جیسے میں تصویر کو دیکھ رہا تھا ایک عجیب سا احساس میری رگوں پر مسلط ہو رہا تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس تصویر نے مجھے کس قدر حیرت زدہ کر دیا تھا۔ روہنی نے شکستہ سی آواز میں کہا۔ ” کیا تم نے ابھی تک اپنی تصویر کو نہیں پہچانا؟ میں نے تو پہلی نظر میں ہی تمہیں پہچان لیا تھا کہ یہی میرا شہزادہ شیروان ہے ۔"
وہ تصویر ہو بہو میری شکل تھی ۔ میری ہی آنکھیں ، میری ہی ناک اور میرے ہی ہونٹ اور میری ہی پیشانی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میں نے مغل بادشاہوں کے زمانے کا لباس پہن رکھا تھا۔ میں بت بنا اپنی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔ ذرا سی بھی گنجائش نہیں تھی کہ میں روہنی سے کہتا کہ یہ میری تصویر نہیں ہے ۔ روہنی کی بدروح نے میراہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بولی ۔’’اس طرف آؤ۔ میں تمہیں ایک اور تصویر دکھاتی ہوں۔“
وه چند قدم چلا کر ساتھ والی دیوار کے پاس لے گئی۔ اس دیوار کے پاس سنگ مر مر کی میز پر ایک شمع دان پڑا تھا۔ روہنی کی بدروح نے اس شمع کو ایک انگلی سے چھوا۔ انگلی کے چھوتے ہی شمع دان ایک دم سے روشن ہو گیا۔ میں نے بائیں ہاتھ میں شمع دان اٹھا لیا اور آگے بڑھ کر دائیں ہاتھ سے دیوار پر گرے ہوئے سرخ مخمل کے پر دے کو ایک طرف ہٹا دیا۔ پردے کے پیچھے دیوار پر فرش سے اوپر تک گئی ہوئی ایک قد آدم تصویر لگی تھی۔ یہ بھی روغنی رنگوں سے بنی ہوئی تصویر یعنی آئل پینٹنگ تھی۔ اس تصویر میں ایک خوبصورت عورت شاہانہ لباس میں مرصع کرسی پر بیٹھی تھی اور ایک شاہانہ لباس والا نوجوان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے قریب کھڑا تھا۔
اس نوجوان کے بھی سر پر ہیرے موتی جڑے ہوۓ تھے۔ روہنی کی آواز آئی۔ اس تصویر کو دیکھ رہے ہو شیروان ! یہ تمہاری اور میری . . . . . ہم دونوں کی اکٹھی تصویر ہے ۔“ میں چونک اٹھا۔ روہنی کی بدروح نے پہلی بار مجھے اپنے مردہ خاوند شیروان کے نام سے بلایا تھا۔ اس میں کوئی شک شبے کی گنجائش نہیں تھی کی اس تصویر میں جو عورت کرسی پر بیٹھی تھی وہ روہنی ہی تھی اور جو نوجوان اس کے پہلو میں شاہانہ لباس میں کھڑا تھاوہ میں تھا۔ _
لیکن مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ آج سے تین سو سال پہلے بھی میں اس دنیا میں ایک مغل شہزادے کے روپ میں موجود تھا اور اس عورت کا خاوند رہ چکا تھا۔ میں نے روہنی سے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے میری شکل اس آدمی سے جو تمہارا خاوند تھا ملتی جلتی ہو۔ یہ میں نہیں ہوں میری شکل و صورت کا آدمی ہے .....‘‘ روہنی کی بدروح نے ایک آہ بھری اور کہنے لگی۔’’ایسا تم اس لئے کہہ رہے ہو کہ تم نے ایک مسلمان گھرانے میں جنم لیا تھا۔ تمہارے مذہب میں انسان کا کوئی دوسرا جنم نہیں ہوتا بلکہ مرنے کے بعد وہ صرف حشر کے دن ہی اللہ کے حکم سے اٹھایا جاۓ گا۔
میں نے اگر چہ اسلام قبول کر لیا تھا مگر میری پیدائش ایک ہندو گھرانے میں ہوئی تھی اور یہ عقیدہ میرے خون میں رچ بس چکا تھا کہ ایک ہندو عورت یا مرد مرنے کے بعد اپنے کرموں کے مطابق دوسرا جنم لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمہیں اپنی شکل دیکھ کر بھی یقین نہیں آرہا کہ یہ حقیقت میں تم ہی ہو . . . . . لیکن اب میں تمہیں ایک اور چیز دکھاتی ہوں۔ ہو سکتا ہے اسے دیکھ کر تمہیں یقین آ جاۓ کہ تم آج سے تین سو سال پہلے میرے خاوند تھے ۔‘‘
اب وہ مجھے اس تابوت کے پاس لے گئی جو کمرے کے وسط میں چبوترے پر رکھا ہوا تھا اور جس پر ایک زر نگار چھتری نے سایہ ڈالا ہوا تھا۔ اس نے مجھے تابوت کے پاس اپنے ساتھ کھڑا کر لیا اور تابوت کے ڈھکن کو دونوں ہاتھوں سے ایک طرف سر کا دیا۔ ایک عجیب ڈراؤنی آواز کے ساتھ ڈھکن ایک طرف کو ہٹ گیا۔ روہنی کی بدروح نے شمع دان اٹھا کر آگے کر دیا۔ شمع کی روشنی میں ، میں نے دیکھا کہ تابوت کے اندر کسی شہزادے کی لاش پڑی تھی۔ یہ شہزادہ میں ہی تھا۔ یہ میری ہی لاش تھی۔ میری ہی شکل تھی۔ میری شکل کے ہی نقش و نگار تھے ۔ کوئی بھی دیکھ کر کہہ سکتا تھا کہ یہ میری ہی لاش ہے ۔ مجھ پر دہشت طاری ہو گئی۔ کبھی کسی انسان نے اپنی لاش سامنے پڑی ہوئی نہیں دیکھی ہو گی۔ میں پہلا انسان تھا کہ تابوت میں پڑی ہوئی اپنی ہی لاش کو دیکھ رہا تھا پھر بھی مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ یہ بات میرے عقیدے اور عقل کے خلاف تھی۔ بالکل خلاف تھی۔
روہنی کہنے لگی۔ ’’شیروان! کیا تم اپنی لاش کو بھی پہچاننے سے انکار کرو گے ؟‘‘ خوف کے مارے میر اگلا خشک ہو گیا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے کہا۔ ” میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ ایک اتفاق کی بات ہو گئی ہے کہ اس آدمی کی شکل میری شکل سے ملتی جلتی ہے ۔‘‘
روہنی نے آہ بھر کر کہا۔ ”میں تمہیں ایک ایسی نشانی دکھاتی ہوں جسے دیکھ کر تمہیں یقین آجائے گا کہ یہ تمہاری ہی لاش ہے ۔ اس نے شمع دان تابوت کے کنارے پر رکھ دیا اور جھک کر شہزادے کی لاش کی گردن کے گرد لپٹا ہوا کفن ایک طرف ہٹا دیا اور کہا۔’’ یہ دیکھو۔‘‘ تمہارے داہنے کان کی لو کے نیچے گردن پر سورج گرہن کا ایک سیاہ نشان تھا انسانی انگوٹھے کے نشان کے برابر سورج گرہن کا یہ نشان پیدائشی تھا۔
روہنی نے مغل شہزادے کی لاش کا کفن ایک طرف ہٹا کر مجھے اس کی گردن پر کان کے نیچے دیکھنے کے لئے کہا تو یہ دیکھ کر میں دنگ رہ گیا کہ میرے ہم شکل شہزادے کی لاش کے کان کے نیچے بھی سورج گرہن کا وہی نشان موجود تھا۔ روہنی نے کہا۔’’اسے ہاتھ لگا کر اپنی تسلی کر لو۔ یہ تمہارا ہی نشان ہے اور اصلی ہے ۔ اسے کسی نے اپنے ہاتھ سے نہیں بنایا۔ ایسا ہی نشان تمہارے کان کی لو کے نیچے بھی گردن پر موجود ہے جو تم نے ضرور آئینے میں کئی بار دیکھا ہو گا۔ کیا اب بھی تم یقین نہیں کرو گے کہ تم ہی میرے خاوند شہرزادہ شیروان ہو . . . . ؟‘‘
میں نے کہا۔ میں اسے نہیں مانتا۔ یہ سب کچھ طلسم ، جادوگری اور نظر کا فریب ہے۔ ورنہ یہ لاش اب تک گل سڑ چکی ہوتی۔ کوئی انسانی لاش تین سو سال تک صحیح حالت میں نہیں رہ سکتی۔‘‘
روہنی کی بدروح نے کہا۔ " تم ٹھیک کہتے ہو ۔ کوئی انسانی لاش اتنے برس کی حالت میں نہیں رہ سکتی۔ یہ بھی اب تک گل سڑ چکی ہوتی لیکن میں نے اسے اپنی علمی طاقت سے صحیح حالت میں رکھا ہوا ہے صرف اس لئے کہ اگر کبھی کسی جنم میں تم مجھے مل گئے اور تمہیں میری باتوں کا یقین نہ آیا تو میں تمہیں تمہاری لاش دکھا کر یقین دلانے کی کوشش کروں گی کہ تم ہی میرے خاوند مغل شہزادہ شیروان ہو جس نے میری خاطر تین سو برس بعد ایک بار پھر شہزادے شیروان کے روپ میں جنم لیا ہے ۔“
’’ یہ سب بکواس ہے۔‘‘ میں نے غصے میں آکر کہا۔ ” میں ایسی باتوں کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ میں حیران ہوں کہ تم جو مسلمان ہو چکی ہو کس طرح ان خرافات پر یقین کرتی ہو ؟“
روہنی نے ایک گہرا سانس لیا اور بولی۔”میں کیسے یقین نہ کروں جبکہ میں یہ سب کچھ حقیقت کے روپ میں اپنے سامنے دیکھ رہی ہوں اور اس حقیقت کو تم بھی دیکھ رہے ہو۔
میں نے کہا۔ ’’ یہ حقیقت نہیں ہے ۔ یہ طلسم ہے ۔ کالا جادو ہے ۔ نظر کا فریب ہے ۔ تم نے مجھے نظر کے فریب میں مبتلا کر دیا ہوا ہے۔ روہنی نے کہا۔ ” تمہارے لئے ہو سکتا ہے کہ یہ نظر کا فریب ہو مگر میرے لئے یہ میری گزری ہوئی زندگی اور آنے والے جنموں کی بہت بڑی حقیقت ہے اور اب جبکہ تم کو اس بات کا خود تجربہ ہو چکا ہے کہ تم اس جال میں پھنس چکے ہو اور تمہاری جان کو ہر لمحے خطرہ ہے اس وجہ سے بھی تم اس کو محض نظر کا فریب کہہ کر اس سے الگ نہیں ہو سکتے۔“
روہنی نے بالکل صحیح کہا تھا۔ اگر وہ سب کچھ خرافات اور توہمات کا کھیل ہی تھا تب بھی میں اس کھیل کا ایک اہم کردار بن چکا تھا اور روہنی کی مدد کے بغیر میں اس دلدل سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ میں نے اسے کہا۔ ”اگر تم یہی چاہتی ہو کہ میں یہی سمجھوں کہ تمہارے پچھلے جنم میں ، میں تمہارا خاوند رہ چکا ہوں اور میر انام شیروان تھا تو ٹھیک ہے میں اسے مان لیتا ہوں ۔
اب مجھے یہ بتاؤ کہ مجھے کیا کرنا ہوگا ؟‘‘ روہنی نے تابوت میں پڑی ہوئی اپنے خاوند مغل شہزادے شیروان کی لاش کو ایک نظر دیکھا اور تابوت کے اوپر ڈھکن ڈال دیا۔ شمع دان اس نے پہلے ہی اٹھا کر تابوت کے سرہانے کی جانب چبوترے پر رکھ دیا تھا۔ پھر اس نے بڑی محبت سے میرا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگی۔ ’’ میں تمہیں یہاں صرف یہ یقین دلانے کے لئے لائی تھی کہ تم میرے خاوند کی آتما ہو جو تمہارا روپ دھار کر اس زندہ انسانوں کی دنیا میں صرف میری تلاش میں واپس آگئی ہے۔ اب میں تمہیں یہ بتاؤں گی کہ ہم اور تم ..... ہم دونوں اپنے دشمن پجاری رگھو کی بدروح کے انتقام سے کیسے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے ساتھ اوپر آجاؤ۔“

پُراسرار حویلی - پارٹ 11

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں