پراسرار لڑکی - پارٹ 10

  mysterious-girl


 پراسرار لڑکی - پارٹ 10

سادیہ ڈاکٹر کی بات سن کر خود کو پاگل محسوس کررہی تھی ۔ اُس کا جسم لرز رہا تھا ۔ دوسروں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی ۔ پریشانی کا سمندر اُن سب کو اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا اور وہ سب کسی طرح بھی خود کو سنبھال نہیں پارہے تھے ۔ دوسری طرف کلینک کے باہر وہ لڑکی زہریلے انداز میں مسکرا رہی تھی۔
یہ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ سادیہ کا دماغ آب نارمل نہیں ہو سکتا ‘‘ شہباز احمد تھرتھرا اُٹھے۔

ڈاکٹر۔۔۔ کیا اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے ‘‘ عرفان پریشان ہو کر بولا۔
علاج تو ضرور ہے لیکن کافی سست روی سے علاج کیا جاسکے گا۔۔۔جو بھی دوائی دی جائے گی اس کا دماغ پر کیا اثرہوتا ہے ۔۔۔ بہتری آتی ہے یا خدانخوستہ حالت اور بگڑ جاتی ہے ۔۔۔ یہ دیکھ کر ہی آگلی دوائی منتخب کی جائے گی ۔۔۔ علاج کے ان عوامل میں کافی وقت درپیش ہوگا۔۔۔مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں‘‘ ڈاکٹر نے وضاحت کی۔

جی ڈاکٹر۔۔۔ ہم سمجھ گئے ‘‘ سلطان نے مریل انداز میں کہا۔
آپ سب ہمت مت ہارئیے ۔۔۔ خاص طور پرتم سادیہ ۔۔۔ تم اپنے اندر اس بیماری سے لڑنے کا جذبہ پیدا کرو۔۔۔ جب تک تم اس لڑائی کے لئے پرعزم نہ ہوگی دوائیاں کچھ نہیں کر سکیں گی ۔۔۔ فلحال میں کچھ دوائیاں دے رہی ہوں ۔۔۔ یہ میرے کلینک میں ہی رکھی ہوئی تھیں ۔۔۔ باقی ان دوائیوں کے اثرات دیکھ کر آگلی بارکے چیک اپ کے بعد آگے کی دوائیاں دی جائیں گی‘‘ ڈاکٹر نے اپنی میز کی دراز سے کچھ دوائیاں نکالتے ہوئے کہا۔ شہباز احمد نے وہ دوائیاں پکڑی۔ ڈاکٹر نے اپنا کارڈ بھی شہباز احمد کو تھما دیا۔ کارڈ جیب میں ڈال کرشہباز احمد ان سب کے ساتھ کھوئے کھوئے انداز میں کلینک سے باہر نکل گئے ۔ اس وقت سادیہ بالکل خاموش تھی۔ دوسروں کو بھی جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ ریسٹ ہاؤس پہنچ کر وہ سب باہر ہال میں آکر بیٹھ گئے۔ آخر سلطان نے ہی زبان کھولی:۔

سادیہ کے دماغ کی حالت اِس طرح کیسے بگڑ سکتی ہے۔۔۔شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں۔۔۔ بس اب عمران مجھے آکر جگا ہی دو۔۔۔اگر نہ جاگوں تو بے شک پانی چھڑک دینا ‘‘ سلطان نے کھلے دل سے اجازت دے دی۔
لیکن تم تو پانی چھڑک کر بھی نہیں اُٹھتے ۔۔۔ تمہاری نیند بہت پکی ہے یار‘‘ عمران منہ بنا کر بولا۔

جس طرح پودوں پر پانی چھڑکتے ہیں اس طرح پانی چھڑکوگے تو کیا خاک اُٹھوں گا‘‘ سلطان جھلا کر بولا۔
تو کیا پانی کی پوری بالٹی چہرے پر ڈال دوں‘‘ عمران مسکرایا۔
یہ تم لوگوں نے کیا شروع کر دیا۔۔۔ تھوڑی دیر خاموش بیٹھنے سے زبان بے کار نہیں ہو جاتی‘‘ عرفان جھنجھلا کر بولا۔

اچھا۔۔۔ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔۔۔ بہت مفید معلومات ہے ‘‘ سلطان نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔

میں پانی پی کر آتی ہوں‘‘ سادیہ اُٹھتے ہوئے بولی۔ اس وقت سادیہ کا چہرہ اُس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ وہاں موجود ہر انسان کی حالت سادیہ کی حالت سے کچھ مختلف نہ تھی۔ اس سنجیدہ ماحول کو خوشگوار کرنے کے لئے ہی سلطان اور عمران نے مذاق شروع کیا تھا لیکن ان کی مسکراہٹیں بھی ماحول کی پراسراریت کو کچھ کم نہیں کرپائی تھیں۔تبھی وہ سب اُچھل پڑے اور پھر ہڑبڑا کر اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ باورچی خانے سے سادیہ کی ایک لرزادینے والی چیخ سنائی دی تھی۔ سادیہ کی چیخ نے ان سب کے اوسان خطا کر دئیے۔ وہ تیزی سے باورچی خانے میں داخل ہوئے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب دنگ رہ گئے ۔ سادیہ باورچی خانے کے ایک کونے میں خوف زدہ ہوئی کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف کا سمندر موجھیں مار رہا تھا۔ وہ سب حیرانگی کے عالم میں اس کے قریب آئے ۔سادیہ نے بنا کچھ کہے سامنے کی طرف اشارہ کیا ۔ اُن سب کی نگاہیں سادیہ کے اشارے کی سمت گئی لیکن پھر خالی واپس لوٹیں اور سادیہ کو ایک مرتبہ پھر سوالیہ انداز میں دیکھنے لگیں کیونکہ سادیہ نے جس سمت اشارہ کیا تھا وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ سب تعجب سے سادیہ کو دیکھنے لگے:۔

کیا ہوا ۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ہے وہاں‘‘ عرفان نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔
نہیں !۔۔۔ وہ لڑکی مجھے مارنے کے لئے میر ی طرف بڑھ رہی ہے ‘‘ سادیہ خوف سے کانپ کر بولی۔ وہ سب ہکا بکا رہ گئے ۔ پھر شہباز احمد نے ان سب کو اشارہ کیا اور سادیہ کو تسلی دینے کے لئے آگے بڑھے:۔
سادیہ اپنے دماغ پر زیادہ دباؤ نہ ڈالو۔۔۔ آرام کرو۔۔۔ کیونکہ تمہیں آرام کی بہت زیادہ ضرورت ہے ‘‘ شہباز احمد نے شفقت بھرے انداز میں کہا۔ یہاں وہ شیطانی لڑکی سادیہ کے پاس کھڑی تمسخرانہ انداز میں ان سب کو دیکھ رہی تھی۔

نہیں ابا جان ۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔ وہ آسیبی لڑکی مجھے مارنے والی ہے ۔۔۔ مجھے بچا لیجئے اباجان ‘‘ سادیہ سسک کر بولی۔ وہ سب پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ سادیہ دماغی بیماری کی وجہ سے یہ سب کچھ کہہ رہی ہے۔ اب وہ پریشان تھے کہ سادیہ کو کس طرح سنبھالیں اور اُسے اس صورت حال سے باہر لے کر آئیں۔ دوسری طرف سادیہ ڈرے ڈرے انداز میں باورچی خانے کی دیوار کی طرف ہٹنے لگی۔ اس وقت اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔ تبھی سادیہ کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیاہو۔ وہ خوف کے مارے چلا اُٹھی۔ وہ سب فوراً سادیہ کی طرف بڑھے۔لیکن تبھی !!!۔۔۔ سادیہ باورچی خانے کے ایک طرف رکھے پھل کاٹنے کے چاقو کی طرف تیزی سے بڑھی اور پھر اُس نے چاقو اُٹھا لیا۔ یہ سب کچھ صرف چند لمحات میں ہوا تھا۔ وہ سب کھڑے کے کھڑے رہ گئے تھے۔

اباجان ۔۔۔ یہ چاقو میں نے نہیں اُٹھایا۔۔۔ اس لڑکی نے میرا ہاتھ پکڑ کر زبردستی مجھے چاقوتھما دیا ہے ‘‘ سادیہ کی آواز میں کپکپی تھی۔ وہ سب بتوں کی مانند سادیہ کو دیکھ رہے تھے ۔ پھر !!!۔۔۔آگلے لمحے نے ان سب کے دل دہلا کر رکھ دئیے۔ سادیہ کا چاقو والا ہاتھ اس کے پیٹ کی طرف آرہا تھا۔ سادیہ اپنی پوری طاقت صرف کر رہی تھی کہ اپنے ہاتھ کو پیٹ کی طرف جانے سے روک سکے لیکن اس کی ساری طاقت بھی اس کے ہاتھ میں پکڑے چاقو کو پیٹ کی طرف بڑھنے سے نہیں روک پا رہی تھی۔ سادیہ کے چہرے سے صاف نظر آرہا تھا کہ اب اس کا ہاتھ اس کے قابو میں نہیں ہے۔ اور پھر!!!۔۔۔چاقو تیز رفتاری کے ساتھ سادیہ کے پیٹ کی طرف گیا۔ سادیہ نے آنکھیں بند کرلیں اورخوف سے پوری قوت سے چلائی لیکن اُسی وقت سلطان بجلی کی تیزی سے آگے بڑھا اور سادیہ کے چاقو والے ہاتھ کو پیٹ سے چند انچ کے فاصلے پر مضبوطی سے پکڑ لیا۔ سادیہ کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔سلطان نے چاقو سادیہ کے ہاتھ سے نکالا اور ایک طرف پھینک دیا۔ سادیہ نے آنکھیں کھولیں۔ آنکھ کھول کر اس نے یہ سارا منظردیکھا۔ وہ چکر ا گئی۔ پھر اس کی آنکھوں کے مناظر دھندلے ہونے لگے۔ دوسرے ہی لمحے وہ زمین کی طرف آئی۔ سلطان نے فوراً آگے بڑھ کر اُسے تھام لیا۔ سادیہ اس وقت مکمل طور پر بے ہوش ہو چکی تھی۔
٭٭٭٭٭
سادیہ اس وقت اپنے کمرے میں بستر پر بے ہوش پڑی تھی۔ اُس کے آس پاس گھر والے اُسے پریشان نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔تین دن میں سادیہ کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی تھی۔وہ کئی مرتبہ خوف سے بے ہوش ہو چکی تھی۔
مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ سادیہ نے آج خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے ‘‘ شہباز احمد کانپ اُٹھے۔

لیکن ابا جان!۔۔۔سادیہ تو کہہ رہی تھی کہ وہ لڑکی اس کے ہاتھ میں زبردستی چاقو تھما کر اسے مارنے کی کوشش کررہی ہے ‘‘ سلطان الجھن میں مبتلا تھا۔
تم نے ڈاکٹر کی بات نہیں سنی۔۔۔ ڈاکٹر نے صاف کہا تھا کہ اِس دماغی بیماری میں سادیہ مختلف فرضی کہانیاں سنائی گی۔۔۔وہ جھوٹ نہیں بول رہی ہوگی لیکن اصل میں اُس کے دماغ کی من گھڑت کہانی اس کے سامنے آجائے گی ۔۔۔اور وہ اُسے سچ سمجھ کر ہمیں سنائے گی۔۔۔ آج باورچی خانے میں بھی یہی ہوا ہے ‘‘ عرفان کہتا چلا گیا۔
اور ویسے بھی ۔۔۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اس لڑکی نے آخری سانسیں لی تھیں۔۔۔ وہ بھلا واپس کیسے آسکتی ہے ۔۔۔ اور پھر مولوی صاحب نے بھی کہا تھا کہ اب اس گھر میں کوئی شیطانی سایہ نہیں ہے ۔۔۔اس کے بعد اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ سادیہ نے گزشتہ دنوں کا دباؤ اپنے ذہن پر لے لیا ہے ۔۔۔ اور اُس کے سر پر لگی چوٹ نے اس کے دماغ پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔۔۔ ہمیں یہ باتیں ذہن میں رکھ کر سادیہ کی دیکھ بھال کرنی ہے ‘‘ شہباز احمد روانگی کے عالم میں بولے۔تبھی سادیہ نے کروٹ بدلی اور پھر گنودنگی کے عالم میں چلی گئی۔

میرا خیال ہے ہمیں سادیہ کے پاس بیٹھ کر باتیں نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔ اس طرح وہ آرام نہیں کر پائے گی ‘‘ سلطان نے فکرمندی کے عالم میں سادیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ ان سب نے اثبات میں سر ہلا دیا اور کمرے سے باہر نکل گئے ۔ سلطان بھی باہر ہال میں آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ دوسری طرف کمرے میں، سادیہ اب ہوش میں آ چکی تھی۔ اس نے کمزوری سے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بستر سے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ تبھی اُسے باہر ہال سے شہزاد کی آواز سنائی دینے لگی:۔
سر۔۔۔ میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا تھا۔۔۔ سادیہ کو اب گھر میں رکھنے میں بہت خطرہ ہے ۔۔۔ آج اُس نے اپنی جان لینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ کل کو ہمیں بھی نقصان پہنچا سکتی ہے ۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ اُسے پاگل خانے بھیج دینا چاہیے ‘‘ شہزاد تجویز پیش کر رہا تھا۔ یہ سن کر شہباز احمد غضب ناک انداز میں اُٹھے اور شہزاد کے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔تھپڑ کی زور دار آواز وہاں گونج اُٹھی اور پھر موت کا سا سناٹا چھا گیا۔وہ سب شہزاد کو غصیلے انداز میں دیکھ رہے تھے۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی کے بارے میں ایسی گھٹیا بات بولنے کی ‘‘ شہباز احمد گرج کر بولے۔

لل۔۔۔ لیکن مم۔۔۔ میں تو ‘‘ شہزاد ہکلا کر کہنے لگا لیکن سلطان نے اس کی بات کاٹ دی۔
آج آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ ہمارے بھائی نہیں بلکہ صرف ابا جان کے اسسٹنٹ ہیں۔۔۔ آپ نے اس گھر کو کبھی اپنا سمجھا ہی نہیں ‘‘ سلطان کرخت لہجے میں بولا۔
اب آپ اس گھر میں صرف اباجان کے اسسٹنٹ کے طور پر ہی رہ سکتے ہیں ۔۔۔ اس گھرکا حصہ کبھی نہیں بن سکتے ‘‘ عرفان کے لہجے میں شدید کاٹ تھی۔
سادیہ ہمارے گھر میں رہے گی یا نہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں ۔۔۔ وہ ہماری بہن ہے ۔۔۔ ہم مرتے دم تک اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ عمران سخت لہجے میں بولا۔ شہزاد بنا کچھ بولے وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اورپھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ یہاں سادیہ اپنے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی یہ سب کچھ سن رہی تھی ۔ اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں بہ رہی تھیں۔
شہزاد بھائی نے کچھ غلط نہیں کہا ۔۔۔ میں واقعی اس گھر میں رہنے کے لائق نہیں ہوں ‘‘ سادیہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور پھر اپنے بستر پر لیٹ کر زور وقطار رونے لگی۔ کافی دیر تک اُس کی سسکیاں کمرے میں گونجتی رہیں۔ دوسری طرف وہ شیطانی لڑکی سادیہ کے کمرے کے باہر کھڑی اسے طنزیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

تم روتے ہوئے کس قدر خوبصورت لگتی ہو سادیہ ۔۔۔ بس اِسی طرح روتی رہا کرو۔۔۔ اور اب تو صرف تم نہیں یہ پورا گھرانہ روئے گا۔۔۔ مجھ سے دشمنی لے کر تم لوگوں نے خود کو بہت بڑی مشکل میں ڈال لیا ہے ۔۔۔ تمہارے گھروالے تمہیں چھوڑنے کو کسی صورت تیار نہیں ہیں ۔۔۔وہ تمہیں خود سے جدا کر کے پاگل خانے نہیں بھیجنا چاہتے ۔۔۔ لیکن !!۔۔۔ بہت جلد تم اس دنیا کو ہی چھوڑ نے والی ہو پھر تمہارے گھر والے کیا کریں گے ۔۔۔ پھر تو اُنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمہیں چھوڑنا ہی پڑے گا‘‘ یہ کہتے ہوئے اس لڑکی ایک زبردست قہقہہ لگایا۔ اس وقت اس کے چہرے پر بدلے کی نہ بجھنے والی آگ تھی۔ ا س وقت وہ واقعی شیطانوں کی رانی لگ رہی تھی۔کچھ دیر تک رونے کے بعد سادیہ آنسو صاف کرتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے پر ہمت اور عزم کی بجلیاں نظر آنے لگیں:۔

نہیں !۔۔۔ میں اتنی آسانی سے ہار نہیں مانگ سکتی ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ میں کسی بھی بیماری میں مبتلا نہیں ہوں ۔۔۔و ہ لڑکی مجھے صاف طور پر نظر آئی تھی اور مجھے زبردستی چاقو پکڑنے پر مجبور کر رہی تھی ۔۔۔ وہ لڑکی واپس آگئی ہے ۔۔۔ میں اسے اتنی آسانی سے جیتنے نہیں دوں گی ۔۔۔ میں خود کو اور اپنے گھر والوں کو اس کے شیطانی جال سے نجات دلا کر رہوں گی ۔۔۔ چاہے اس سب میں میری خود کی جان کیوں نہ چلی جائے ‘‘ سادیہ کا لہجہ مضبوط تھا۔ اس کے آنکھوں میں جوش کا سمندر نظر آرہا تھا۔ پھر وہ اُٹھی اور اپنے کمر ے سے باہر نکل گئی۔ باہر ہال میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔دوپہر کا وقت تھا اور سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے تھے ۔ سادیہ ہال عبور کرتے ہوئے ریسٹ ہاؤس سے نکلتی چلی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ ڈاکٹر رخسانہ پروین کے کلینک کے باہر کھڑی تھی۔ سادیہ جیسے ہی کلینک میں داخل ہوئی ڈاکٹر رخسانہ بری طرح چونکیں۔ سادیہ کو یہاں دیکھنے کی امید اُنہیں قطعاً نہیں تھی۔ سادیہ ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ پھر انہیں تیز نظروں سے دیکھنے لگی۔

کیا بات ہے ۔۔۔ آپ یہاں کیسے ۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نہ ‘‘ ڈاکٹر بوکھلا کربولیں۔
آپ تو ٹھیک ہے نہ ڈاکٹر۔۔۔ کیونکہ میں تو بالکل ٹھیک ہوں لیکن آپ کا کہنا ہے کہ میں ٹھیک نہیں ہوں ۔۔۔ اس لیے آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہیں‘‘ سادیہ ایک ہی سانس میں کہتی چلی گئی۔ پھر وہ چونک اُٹھی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سلطان کی طرح بات کرنے لگی تھی۔ ڈاکٹر اُسے حیران ہو کر دیکھ رہی تھیں۔سادیہ نے انہیں چاقو والا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ پھر کہنے لگی:۔

مجھے یقین ہے کہ مجھے کوئی دماغی بیماری نہیں ۔۔۔ مجھ سے زبردستی چاقو اُٹھوایا گیا تھا ۔۔۔ اور پھر میرے ہی ہاتھ سے مجھے مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔۔۔ وہ لڑکی میرے آنکھوں کے سامنے باورچی خانے میں تھی ۔۔۔ اس کی ایک ایک حرکت میں نے دیکھی ہے کہ وہ کس طرح مجھے مجبور کر کے چاقو زبردستی تھما رہی تھی۔۔۔اب آپ کو کیا لگتا ہے ۔۔۔ میں آپ کی اس بات پر یقین کروں گی کہ یہ سب میرے دماغ کی من گھڑت کہانی ہے ۔۔۔ جبکہ میں خود اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ دیکھ چکی ہوں ۔۔۔ اگر آپ سچی ہیں تو مجھے وہ رپورٹ دکھائیں جس میں میری بیماری لکھی ہوئی ہے ‘‘ سادیہ سرد لہجے میں کہتی چلی گئی۔ ڈاکٹر نے ایک پل کے لئے اُسے دیکھا اورپھر ایک کاغذ لیا۔ قلم سنبھالا اور کچھ لکھنے لگیں۔ سادیہ حیرت سے اُنہیں دیکھ رہی تھی۔ اپنی تحریر مکمل کرنے کے بعد انہوں نے میز کی دراز سے کچھ اور کاغذات نکالے اور پھر اس تحریر والے صفحے کو کاغذات کے اوپر رکھ کر کاغذات سمیت وہ صفحہ سادیہ کو دے دیا۔ سادیہ کی نظریں صفحہ پر لکھی تحریر پر اٹک کر رہ گئیں۔ لکھا تھا:۔

میں جانتی ہوں کہ تم بالکل ٹھیک ہو ۔۔۔ تمہیں کوئی دماغی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔ لیکن میں مجبور ہوں ۔۔۔ یہ بات کسی کو نہیں کہہ سکتی کیونکہ مجھے اس لڑکی نے موت کی دھمکی دی ہے ۔۔۔مجھے معاف کر دینا سادیہ۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ جناتی مخلوقات پڑھنا لکھنا نہیں جانتی۔۔۔ اس لئے تمہیں یہ سب کچھ لکھ کر دے رہی ہوں ۔۔۔ اور ساتھ میں یہ رپورٹ بھی دیکھ لو جو اس تحریر سے دو صفحہ چھوڑ کر رکھی ہوئی ہے‘‘ ۔

پوری تحریر پڑھ کر سادیہ دنگ رہ گئی۔ اُس نے فوراً تحریر والے صفحے کو پیچھا کیا اور ساتھ میں دو صفحے اور پیچھے ہٹائے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ دھک سی رہ گئی۔ رپورٹ اُس کے سامنے تھی جس میں صاف لکھا ہوا تھا کہ سادیہ کا دماغ بالکل نارمل ہے۔ اسے کوئی بھی بیماری نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے بے بسی سے وہ رپورٹ واپس مانگنے کا اشارہ کیا کیونکہ اگر سادیہ گھر والوں کو رپورٹ دکھا دیتی تو ڈاکٹر کی جان خطرے میں پڑ جاتی۔ سادیہ نے بے چارگی کے عالم میں وہ تحریر اورساتھ میں رپورٹ بھی ڈاکٹر کے حوالے کر دی۔پھر وہ چپ چاپ اُٹھی اور کلینک سے باہر نکل گئی۔ کلینک میں ڈاکٹر اب اپنے سر سے بھاری بوجھ ہٹتا محسوس کررہی تھیں۔ انہوں نے سچ سادیہ کو بتا دیا تھا۔ اس وقت دوپہر کے چڑچڑاتی ہوئی دھوپ تھی ۔گرمی کی وجہ سے کلینک بالکل خالی پڑا تھا۔ 

ڈاکٹر نے اپنا سر کرسی سے ٹکا دیا اور ٹھنڈی سانس لی لیکن تبھی !!!۔۔۔ ایک رسی دیوار سے نکل کر ڈاکٹر کے گلے کی طرف آئی اور پھر گلے میں پھندے کی طرح پھنس گر رہی گئی۔ ڈاکٹر کے منہ سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ دوسری طرف اس رسی کا دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ وہ ہاتھ پاؤں چلانے لگیں۔ کافی دیر تک وہ تڑپتی رہیں اور پھر ان کا دم گھنٹے لگا۔ سانس اکھڑنے لگا۔ ان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔رسی نے ان کے گلے کو دبوچ رکھا تھا اور وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود رسی گلے سے نکال نہیں پارہی تھیں۔ آخر ڈاکٹر کے منہ سے ایک خراش زدہ چیخ نکلی اور پھر انہوں نے دم توڑ دیا۔کچھ دیر بعد وہ آنکھوں میں زندگی کی حسرت لیے کرسی پر بے سد پڑی تھیں۔ اُس شیطانی لڑکی کے ہاتھوں سے مرنے والوں کی فہرست میں مولوی عبدالرحمن کے بعد اب وہ بھی شامل ہو چکی تھیں۔

پراسرار لڑکی (قسط نمبر 11)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں