سیاہ رات ایک سچی کہانی - بارواں حصہ

 

 - سیاہ رات ایک سچی کہانی - بارواں حصہ

گہری کالی رات تھی جب ایک نفس بے آواز قدموں سے چلتا ہوا ارسم کے کمرے تک پہنچا،،،
اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اندر سے لاکڈ تھا پھر وہ کھڑکی کی طرف آیا، اس نے کھڑکی کھولنے کی کوشش کی مگر وہ بھی اندر سے لاکڈ تھی،،،
اسے شدید غصہ آرہا تھا مریم دن کے وقت سارا دن ارسم کے کمرے سے نہ نکلتی تھی اور رات کے وقت وہ ہر چیز لاک کر کے سوتی،،،
اپنے شوہر کو جتنا بچانا ہے بچا لو لیکن میں اپنا کام کر کے رہوں گا میرّی،،، راحیل اپنے کمرے کی طرف چل دیا

پرندوں کی چہچہاہٹ سے مریم کی آنکھیں کھلیں اس نے اپنے ساتھ لیٹے ارسم کو دیکھا پھر کچھ فاصلے پر چارپائی پر لیٹی شہزادی کو دیکھا سکون سے اس نے پھر سے آنکھیں موند لیں،،،
مریم،،،
صفیہ بیگم دروازہ کھکھٹاتی ہوئی بولی،،،
جی امی جان،،، مریم نے غنودگی سے دبی آواز میں کہا
آجاؤ ناشتہ کر لو اور شہزادی کو بھی اٹھا دو
ٹھیک ہے امی جان آتی ہوں،،، کہتے ہوئے اس نے پھر سے کمبل اوڑھ لیا،،،


دوپہر کے وقت مریم ارسم کی حفاظت کے لیے کمرے میں بیٹھی تھی جب راحیل کمرے میں داخل ہوا،،،
تم کیوں آئے ہو یہاں،،، مریم غصے سے بولی
بھابھی میں تو بس بھائی کو دیکھنے آیا تھا،،، راحیل نے معصوم شکل بنا کر کہا
بلکل ٹھیک ہے میرا شوہر دیکھ لیا چلو جاؤ اب،،،
بھابھی آپ کیوں ہر وقت مجھ سے ناراض رہتی ہیں،،، راحیل نے قدم آگے بڑھائے
میں نے کہا نا تم جاؤ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی،،، وہ چلّائی
پلیز آہستہ بولیں خالا جان نے سن لیا تو پریشان ہو جائیں گی،،،
زیادہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے راحیل میں جانتی ہوں تم ہی ڈیوِل ہو،،، وہ اٹھ کر اس کے مقابل کھڑی ہوئی
آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں،،، راحیل دو قدم مزید آگے بڑھا
تمہاری یہ شیطانی آنکھیں جو مجھے حقیقت بتاتی ہیں میں ان کو جھٹلا نہیں سکتی تم ہی ڈیوِل ہو،،، مریم نے اچانک ایک ہاتھ آگے بڑھا کر راحیل کی رخسار پر ناخن سے کھروچ ڈالی

راحیل ایک دم سے پیچھے ہٹا اور آئینے میں اپنا عکس دیکھا اس کی رخسار پر کانچ کا نشان واضح ہو رہا تھا،،،
اب بھی کوئی ثبوت چاہیے تمہیں،،، مریم تنز سے بولی
آنکھوں میں وحشت لیے وہ پیچھے مڑا اور مریم کو کمر سے پکڑ کر دیوار سے لگایا،،،
مریم نے چلّانے کے لیے جیسے ہی منہ کھولا ڈیوِل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا،،،
اگر یہ حقیقت تمہیں معلوم ہو ہی چکی ہے تو اس حقیقت کو بھی مان لو کہ تم صرف اور صرف ڈیوِل کی ہو،،، وہ اس کے کان میں سرگوشی نما بولا تھا
کبھی نہیں مریم صرف ارسم کی ہے،،، مریم نے منہ سے اس کا ہاتھ ہٹایا اور اونچی آواز میں کہا
ڈیوِل نے غصے سے اس کی کمر میں گرفت کو سخت کیا تو مریم کے منہ سے سسکی نکلی،،،
تمہیں میں اتنا مجبور کر دوں گا کہ ایک دن تم خود چل کر میرے پاس آؤ گی میری ملکیت میں،،، ڈیوِل نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون کس کے پاس آئے گا ملکیت میں نہیں معافی مانگنے،،، مریم نے پر عزم لہجے میں کہا
راحیل،،،

کمال صاحب کی آواز آنے پر راحیل نے مریم کو آزاد کیا اور آخری نظر اس پر ڈالتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا،،،
اس کے جانے کے بعد مریم ارسم کے پاس بیٹھی اور رونے لگی،،،
یا اللہ میری مدد کرنا مجھے اس شیطان سے بچا لینا میرے اللہ،،، وہ روتے ہوئے دعا مانگ رہی تھی


جمال مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے،،، جمال صاحب کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے جب صفیہ بیگم بولی
ہاں کہو کیا بات ہے،،،
کیوں نا ہم گاؤں سے اپنی ساری زمین بیچ کر شہر شفٹ ہو جائیں،،، انہوں نے گھبراتے ہوئے کہا
صفیہ کیا تم جانتی ہو تم نے کتنی بڑی بات کی ہے،،، جمال صاحب اخبار ایک سائیڈ پر رکھ کر بولے
میں جانتی ہوں جمال لیکن یہاں جو حالات ہیں مجھے نہیں لگتا کبھی ٹھیک ہوں گے مریم کا اغواہ ہونا بھی تو کوئی چھوٹی بات نہیں تھی اوپر سے وہ اپنا دماغی توازن ہی کھونے لگی ہے ہم تو اپنی زندگی گزار چکے ہیں اب ہمیں صرف اپنی اولاد کے بارے میں سوچنا چاہیے،،، وہ ایک ہی بار میں اپنے دل میں چھپی تمام بات کہہ گئیں
جمال صاحب کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے،،،
اور ارسم کا کیا وہ اس کا شوہر ہے اسے چھوڑ کر مریم ہمارے ساتھ کیسے چلی جائے گی،،،
آپ۔۔آپ کمال بھائی کو منا لیں وہ بھی سب بیچ کر ہمارے ساتھ شہر چلے ہم سب کی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی،،،
اور اگر اس شخص نے وہاں بھی مریم کا پیچھا نہ چھوڑا تو،،، جمال صاحب نے سوال کیا
اللہ سب کرم کرے گا مجھے پورا یقین ہے رب پر کہ وہ ہمارے دن پہلے جیسے کر دے گا،،،
آمین،،، جمال صاحب نے کہا
یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے پھر بھی میں کمال سے بات کروں گا اگر وہ مان گیا تو میں بھی اس بات سے متفق ہوں گا اگر اس نے انکار کیا تو تم دوبارہ اس بات کا زکر نہیں کرو گی،،،
ٹھیک ہے آپ کمال بھائی سے بات کر کے دیکھیں،،، صفیہ نے جواب دیا
کمال میری بات سنو،،، کمال صاحب دردانہ بیگم کے ساتھ بیٹھے تھے جب جمال صاحب نے آواز لگائی
بھائی جان بلا رہے ہیں،،، دردانہ بیگم کو کہتے ہوئے وہ اٹھ کر باہر آئے
جی بھائی جان،،،
یہاں میرے پاس بیٹھو،،، انہوں نے اپنی ساتھ والی کرسی کا اشارہ کیا
کمال صاحب وہاں بیٹھے،،،
بولیں بھائی جان کیا بات ہے آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں،،،
بات رداصل یہ ہے کہ یہاں اب ہمارا رہنا مشکل سا ہوتا جا رہا ہے مریم اور ارسم پر جو مصیبتیں آن پڑی ہیں وہ اب بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہیں اور پچھلے دنوں شہزادی کا سیڑھیوں سے گر جانا بھی محض حادثا نہ تھا،،، وہ خاموش ہوئے
جی جی بھائی جان بات مکمل کریں،،،
صفیہ کہہ رہی تھی کہ اگر ہم اپنی زمینیں بیچ پر شہر میں شفٹ ہو جائیں تو کیا پتہ ہم پر سے یہ مصیبتیں ٹل جائیں،،،
کیا لیکن بھائی جان ہم اپنے آباؤ اجداد کی جگہ چھوڑ کر کیسے کہیں اور چلے جائیں،،، کمال صاحب کو حیرت کا جھٹکا لگا
یہی بات میں نے اس سے کی ہے لیکن اگر یہاں رہنے سے ہمارے بچوں کا مستقبل تباہ ہوتا ہے تو کیا فائدہ یہاں رہنے کا،،،
ایک وہ شخص ہے جو نہ جانے کیوں ہمارے بچوں کی خوشیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر لگ پڑا ہے،،، جمال صاحب نے شدید پریشانی سے کہا
بھائی جان ہم یہاں پیدا ہوئے یہاں ہوش سمبھالا جوان ہوئے ساری عمر ہم نے یہام گزاری ہے اس گاؤں کو چھوڑنا جسم سے روح نکالنے کے برابر ہو گا لیکن اگر ہماری اولاد کے مستقبل کی بات کرتے ہیں تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں،،،
مطلب تم راضی ہو،،، جمال صاحب نے حیرت سے پوچھا
ابھی میرا دل مطمئن نہیں ہے میں آپ کو سوچ کر جواب دوں گا،،، کمال صاحب نے پریشانی سے ماتھے پر ہاتھ رکھا
ٹھیک ہے سوچ لو،،، جمال صاحب وہاں سے اٹھ گئے
راحیل پچھلے ایک ہفتے سے تاک میں تھا کہ کب مریم ارسم کو اکیلا چھوڑے اور وہ ارسم کا کام تمام کرے لیکن اسے موقع نہیں مل رہا تھا،،،
خالا جان،،، شام کے وقت اس نے صحن میں کھڑے ہو کر دردانہ بیگم کو اونچی آواز میں پکارا
ہاں راحیل بولو،،، وہ اپنے کمرے سے نکل کر بولیں
خالا جان میں شہر جا رہا ہوں کچھ منگوانا ہے تو بتا دیں،،،
وہ جان بوجھ کر اونچا بول رہا تھا تا کہ اس کی آواز مریم تک پہنچ سکے
نہیں ابھی تو کچھ نہیں منگوانا جب منگوانا ہوا تو کہہ دوں گی،،،
ٹھیک ہے میں رات تک گھر آجاؤں گا،،،
ٹھیک ہے اللہ نگہبان،،، دردانہ بیگم بول کر واپس کمرے میں آگئیں،،،
مریم نے کھڑکی سے راحیل کو باہر جاتے ہوئے دیکھا اب وہ بے فکر ہو چکی تھی جب راحیل گھر نہیں ہوتا تھا تب مریم اپنے کام وغیرہ کر لیتی تھی،،،
مریم کمرے سے باہر آئی اور بے فکری سے پھرنے لگی،،،
راحیل گاڑی گاؤں میں ہی پھر رہا تھا وہ بس اندھیرا ہونے کا انتظار کر رہا تھا تا کہ اپنا کام آسانی سے کر سکے،،،
ایک گھنٹے تک اندھیرا چھا چکا تھا راحیل گاڑی کو ہویلی سے کافی دور کھڑا کر کے ہویلی کی طرف چلنے لگا،،،
ہویلی کی باہری چھوٹی دیواروں سے وہ چھت پر چڑھا،،،
چپکے سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے آیا، مریم کچن میں کھانے کے برتن سمیٹ رہی تھی،،،
وہ سیڑھیوں کے ساتھ والے کمرے میں داخل ہوا اور بجلی کا سوئچ اٹھایا،،،
اچانک پورے گھر کی لائٹ چلی جانے پر مریم حیران ہوئی،،،
چچی جان،،، وہ کچن سے باہر نکلی
چچی جان مجھے کوئی ٹارچ دیں میں نے ارسم کے کمرے میں جانا ہے،،،
میرے کمرے میں جو الماری ہے اس کے نیچے والے دراز میں پڑی ہے ٹارچ،،، دردانہ بیگم اور صفیہ بیگم صحن میں نکل آئی تھیں،،،
راحیل تیزی سے ارسم کے کمرے کی طرف بڑھا ادھر مریم ماچس سے روشنی کرتی ہوئی دراز سے ٹارچ ڈھونڈ رہی تھی،،،
راحیل نے ارسم کے کمرے میں داخل ہو کر لائٹر آن کیا وہ پیچھے دیکھتا ہوا آگے بڑھا،،،
اس نے ارسم کے بازو میں لگی ڈرپ کی بوتل میں زہر کا انجیکشن ملایا اور ادھر مریم کمرے میں داخل ہوئی،،،،
راحیل اس کے قدموں کی چانپ سن کر ہی تیزی سے پردے کے پیچھے چھپ گیا مگر انجیکش بوتل میں رہ گیا،،،
مریم نے آس پاس ٹارچ گھما کر دیکھا کمرے میں کوئی نہ تھا،،،
وہ ارسم کے پاس بیٹھ گئی اب راحیل کو فکر ہونے لگی کہ کب مریم اٹھے گی اور کب وہ باہر نکلے گا،،،
مریم کی کمر راحیل کی طرف تھی وہ پردوں کے پیچھے سے ہوتا ہوا کھڑکی تک پہنچا اور بغیر آواز کیے باہر نکل گیا،،،
اس نے کمرے میں جا کر لائٹ آن کی اور چھت پر سے بھاگ گیا،،،
مریم کی نظر ڈرپ والی بوتل میں لگے انجیکشن پر پڑی اس نے تیزی سے اٹھ کر وہ انجیکشن اتارا اور پھر راحیل کے بازو کی طرف دیکھا لیکن ارسم کے بازو سے سوئی نکلی ہوئی تھی مطلب اسے ڈرپ لگی ہی نہیں تھی،،،
مریم یاد کرنے لگی کہ میں نے خود ارسم کو ڈرپ لگائی تھی پھر اس کے بازو سے سوئی کس نے نکالی،،،
وہ یہ سوچ ہی رہی تھی جب اسے آواز آئی،،،
مریم،،،
مریم کی نظریں تیزی سے ارسم کی طرف اٹھیں وہ آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہا تھا،،،
آہ ارسم،،، حیرت سے اس کے منہ سے چینخ نکلی اور وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی
مریم،،، ارسم نے ایک بار پھر سے اسے پکارا اس کی پکار میں ایک درد چھپا تھا
ارسم،،، مریم اونچی آواز میں روتے ہوئے ارسم کے سینے سے لگی
ارسم آپ کو ہوش آگیا،،، وہ اونچی آواز میں روتے ہوئے بول رہی تھی
مریم کی رونے کی آواز سن کر باقی گھر والے اس کے کمرے کی طرف بھاگے
مریم کیا ہوا،،، صفیہ بیگم کمرے میں داخل ہو کر بولیں لیکن آگے کا منظر دیکھ کر ان کا جسم ساکت ہو گیا،،،
دردانہ بیگم درازے تک پہنچی تو ان میں بھی چلنے کی ہمت نہ رہی،،،
امی جان،،، ارسم نے دردانہ بیگم کو پکارا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے پچھلے دو ماہ سے وہ کومہ میں تھا،،،
ارسم میرا بچا،،، دردانہ بیگم روتے ہوئے اس کے پاس آئیں اور اس کا منہ ماتھا چومنے لگیں
یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہم پر کرم کر دیا،،، انہوں نے روتے ہوئے کہا
ارسم بمشکل اٹھ کر بیٹھا،،،
جمال اور کمال صاحب دونوں باری باری ارسم کو ملے سب کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے نم تھیں
ایک گھنٹے بعد راحیل گیٹ سے گاڑی اندر کر کے گھر داخل ہوا تو ارسم کے کمرے میں سب کو بیٹھا ہوا دیکھا،،،
وہ خوش ہوا کہ ارسم کا کام تمام ہو گیا ہے اسی لیے سب اس کے کمرے میں رونے دھونے لے کیے اکٹھا ہیں،،،
وہ بھی اپنی شکل پر نقلی دکھ لائے کمرے میں داخل ہوا لیکن آگے کا منظر اس کے لیے ناقابلِ یقین تھا،،،
ارسم بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا راحیل ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہا وہ تو خود اسے زہر کا انجیکشن لگا کر گیا تھا پھر یوں اچانک ارسم کو ہوش کیسے آگیا،،،
دردانہ بیگم کی نظر راحیل پر پڑی وہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور ایک زور دار تھپڑ اس کی گال پر رسید کیا،،،
دس سال کے تھے تم جب تمہارے ماں باپ یہ دنیا چھوڑ کر چلے گئے تھے کیا میں نے تمہیں ماں کا پیار نہیں دیا تھا کیا کمال نے تمہارے سر پر باپ بن کر ہاتھ نہیں رکھا تھا،،،
کیسے کیسے تم ہی ہماری خوشیوں کے قاتل نکل سکتے ہو راحیل،،، وہ روتی ہوئی مسلسل بول رہی تھیں
راحیل ہکا بکا ان کی باتیں سن رہا تھا،،،
اس سے اچھا تھا کہ تم بھی اس ایکسیڈنٹ میں مر جاتے کم از کام آج مجھے یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا،،،
خالا جان،،،
اپنی گندی زبان سے مت کہو مجھے خالا جان تم میرے بھانجے ہو ہی نہیں سکتے تم تو کوئی شیطان ہو شیطان،،، وہ چلائیں
خالا جان آپ نے مریم بھابھی کی باتوں کا یقین کر لیا ان کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے،،، ارسم کو لگا کہ مریم نے پھر سے اس کے بارے میں کچھ کہا ہے
مریم نے کچھ نہیں کہا راحیل،،، ارسم بولا
میں نے تمہاری حقیقت سب کو بتائی ہے،،، ارسم کے چہرے سے دکھ چھلک رہا تھا
مجھے آج نہیں کل ہی ہوش آگیا تھا جب تم میرے کمرے میں مریم سے باتیں کر رہے تھے،،،
راحیل آنکھیں پھاڑے ارسم کی باتیں سن رہا تھا
لیکن میں ویسے ہی ساکت لیٹا رہا تا کہ تم دونوں کی باتیں سن سکوں،،،
اور تب مجھے معلوم ہوا وہ شخص جسے میں بچپن سے اپنا چھوٹا بھائی مانتا آیا تھا ہمیشہ پیار اور شفقت سے پیش آتا تھا اسی شخص نے میری شادی کی رات میری بیوی کو اغوای کیا اور مجھے موت کے منہ میں دھکیل دیا،،،
کیا کوئی اتنا خود غرض ہو سکتا ہے راحیل،،، ارسم کی آنکھوں سے آنسو آنے لگے
میں نے تمہیں کبھی بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ تم میرے سگے بھائی نہیں ہو بچپن سے تمہیں ہر وہ چیز دی جو مجھے بھلے ہی پسند تھی لیکن میں نے ہمیشہ تمہاری خوشی کو آگے رکھا،،،
اور اب جب تم میری ڈرپ میں زہر کا انجیکشن ملانے آئے تھے میں ہوش میں تھا میں اپنی آنکھوں سے اپنے بھائی کو میری جان لینے کی کوشش کرتے دیکھا کیا تم سوچ سکتے ہو اس وقت میرے دل پر کیا گزری ہو گی،،،
تمہیں مریم پسند تھی تو مجھ سے کہتے میں تمہارے لیے اپنی محبت کی قربانی دے دیتا لیکن کبھی بھی تمہارا دل توڑ کر خود خوش نہ رہتا،،،
راحیل نے نظریں جھکائیں اس کے پاس بولنے کے لیے الفاظ نہ تھے،،،
لیکن اب تمہیں ہماری دنیا سے دور جانا ہو گا کیوں کہ تم نہ بیٹے بننے کے لائق ہو نہ ہی بھائی،،،
گھر میں پولیس داخل ہوئی اور راحیل کو گھیرے میں لیا،،،
راحیل بے یقینی سے ارسم کی طرف دیکھنے لگا،،،
میں نے ان کو بلایا تا کہ تمہیں سزا ملے اس سب کی جو تم نے ہمارے ساتھ کیا،،،
چلو بھئی تم نے ہی ہمارے جوان انسپکٹر کا قتل کیا تھا نا اب تمہیں میں سبق سیکھاؤں گا،،، انسپکٹر نے راحیل کو ہتھ کڑی لگائی
مریم نے کال پر انسپکٹر کو راحیل کے لڑکیاں اغواہ کرنے کے بارے میں بھی بتا دیا تھا،،،
راحیل خاموشی سے چلتا ہوا پولیس کی وین میں بیٹھ گیا،،،
عنائزہ نے جمائی لیتے ہوئے ڈائری رکھی اور روحان کو ہگ کیے سو گئی
صبح ان دونوں نے ٹیبل پر ناشتہ کیا اور اب لان میں چہل قدمی کرنے لگے
روحان نے عنائزہ کی نظروں کو اپنے اوپر محسوس کیا تو اس نے عنائزہ کی طرف دیکھا،،،
عنائزہ روحان کی طرف غور سے دیکھ رہی تھی،،،
کیا دیکھ رہی ہو،،، روحان نے پوچھا
دیکھ رہی ہوں تمہارا جسم کافی ڈھیلا ڈھالا سا ہے تمہیں جِم کرواؤں،،، عنائزہ اس کو سر سے پاؤں تک دیکھتی ہوئی بولی
جِم وہ کیا ہوتا ہے،،، روحان نے معصومیت سے پوچھا
تم پوچھنے کو رہنے دو میں کوئی نہ کوئی بندوبست کرتی ہوں جب جِم کرو گے تب خود ہی پتہ چل جائے گا کس چیز کا نام ہے،،، عنائزہ نے اپنی ہنسی دبائی
ٹھیک ہے میں کر لوں گا،،، روحان نے بے فکری سے کہا
پکا نا،،، عنائزہ کو معلوم تھا جِم کرنا کتنا مشکل ہے اس لیے وہ روحان کو بات پر قائم رہنے کا کہنے لگی
ہاں تمہارے لیے،،، روحان نے مسکراتے ہوئے کہا
عنائزہ نے بھی مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر سر رکھا
عنائزہ نے آن لائن باکسنگ آرڈر کی جو دوپہر کے وقت گھر پہنچ چکا تھا،،،
اس نے شفیق سے ایک کمرہ خالی کروا کے باکسنگ سیٹ کروائی،،،
روحان،،، وہ روحان کو کمرے میں بلانے کے لیے آئی
چلو آج تمہاری پریکٹس ہے،،، وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگی
پریکٹس لیکن کس چیز کی،،، روحان نے حیرت سے پوچھا
تمہاری باڈی واڈی بنے کوئی میرے شوہر میں بھی دم آئے،،، وہ ہنستے ہوئے بول رہی تھی
روحان خوشی سے اٹھا اور اس کے ساتھ چلنے لگا،،،
عنائزہ اسے کمرے میں لے کر آئی،،،
یہ کیا ہے،،، روحان نے دیکھ کر پوچھا
یہ باکسنگ ہے،،، عنائزہ نے جواب دیا
اس سے کیا کرتے ہیں،،،
ابھی بتاتی ہوں تم اس پر پنچ مارو گے،،،
اچھا اتنا آسان یہ تو ابھی کر لیتا ہوں،،،
ہاں ہاں کرو،،، عنائزہ اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے بولی
روحان نے باکسنگ پر ایک پنچ جس کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا،،،
روحان سر کھجاتے ہوئے اس عجیب چیز کو دیکھنے لگا،،،
اس کو یوں دیکھ کر عنائزہ کا قہقہ لگا،،،
میں نہیں کروں گا،،، روحان عنائزہ کے ہنسنے پر خفا ہوا
ارے ارے اچھا اب نہیں ہنستی اوکے یہ گلوز پہنو اور پھر سے ٹرائی کرو،،،،
روحان نے وہ ریڈ کلر کے گلوز عنائزہ سے پکڑ کر پہنے اس بار روحان نے زور دار پنچ مارا تو باکسنگ نے کافی حد تک حرکت کی،،،
بلکل ٹھیک چلو اب پھر سے کرو،،،
عنائزہ نے کچھ دیر تک اس کی پریکٹس کروائی جب روحان تھک گیا تو اسے کمرے میں لے آئی،،،
رات کے وقت روحان کے بازووں میں شدید درد تھی،،،
عنائزہ ہلدی والا دودھ لے کر کمرے میں آئی،،،
اٹھو یہ دودھ پیو،،،
اب یہ کیا ہے،،، روحان نے برا سا منہ بنا کر پوچھا اسے کیا معلوم تھا کہ اس کا یہ حال ہو جائے گا
ہمت پکڑو شیر بنو شروع شروع میں جسم ایسے ہی درد کرتا ہے جب عادت ہو جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا،،،
نہیں میں اب نہیں کروں گا،،، روحان نے اٹھتے ہوئے کہا
میری جان وہ تو کرنی پڑے گی میرے لیے،،، عنائزہ نے اسے دودھ کا گلاس پکڑایا
روحان نے منہ پھلاتے ہوئے دودھ کا گلاس پکڑا،،،
پیو تمہاری پین میں کمی ہو گی،،،،
روحان نے جیسے ہی ایک بڑا سا سِپ لیا وہ ویسے ہی باہر نکلنے والا تھا جب عنائزہ نے کہا،،،
پیو اسے خبردار جو باہر نکالا تو،،، وہ آنکھیں دکھاتے ہوئے بولی
روحان نے بمشکل اس ایک سِپ کو حلق سے نیچے اتارا،،،
میں نہیں پیوں گا اتنا برا ذائقہ سے اس کا،،، وہ منہ کے زاویے بگاڑتا ہوا بولا
روحان تم اسے پیو گے ابھی چلو جلدی کرو،،،
نہیں پیوں گا،،،
روحان میں ناراض ہو جاؤں گی،،،
عنائزہ کے ناراض ہونے کے ڈر سے اس نے گلاس منہ کو لگایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا،،،
عنائزہ کو اس وقت روحان پر بہت پیار آرہا تھا وہ اس کی خاطر کیا کچھ کرنے کو تیار تھا،،،
عنائزہ اور روحان سکون کی نیند سو رہے تھے جب آہستہ سے ان کے کمرے کا دروازہ کھلا،،،
گلاس وال سے آتی چاند کی روشنی میں اس شخص کا سایہ عنائزہ کے جسم پر پڑ رہا تھا،،،
سیاہ لباس، چہرے پر سیاہ ہڈی لیے اس کے صرف ہونٹ ہی دکھائی دے رہے تھے،،،
سیاہ جیکٹ کی پاکٹ سے اس نے تیز دھار والا خنجر نکال کر دونوں ہاتھوں میں مظبوتی سے پکڑا،،،
عنائزہ نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور اسی وقت اس شخص نے اس کے پیٹ میں خنجر گاڑھ دیا،،،
آہ،،،
وہ ایک چینخ کے ساتھ اٹھی تھی،،،
عنائزہ کیا ہوا،،، اس کی چینخ سے روحان کی آنکھ کھلی اس نے جلدی سے لائٹ آن کی،،
عنائزہ نے یقینی سے اپنے پیٹ کو ہاتھوں سے ٹٹول رہی تھی کبھی وہ آس پاس دیکھتی،،،
عنائزہ بتاؤ کیا ہوا ہے،،، روحان نے ایک بار پھر پریشانی سے پوچھا
رو۔۔روحان،،، وہ شدید گھبرائی ہوئی تھی
ہاں بولو کیا ہوا،،، روحان نے اس کا رخ اپنی طرف کیا
روحان م۔۔مجھے بہت برا خواب آیا،،، اس کے چہرے پر خوف روحان دیکھ سکتا تھ
روحان نے اسے سینے سے لگایا اور پریشان ہونے لگا،،،
کچھ نہیں ہوا وہ خواب تھا بھول جاؤ،،، اس نے تسلی دی
عنائزہ نے روحان کا کندھا مظبوتی سے پکڑا ہوا تھا جیسے اسے ابھی بھی ڈیوِل کے آجانے کا خوف تھا،،،
چلو سو جاؤ اب،،، روحان نے نرمی سے اسے لیٹایا اور خود بھی اس کے کمفرٹر میں لیٹ گیا،،،
عنائزہ نے روحان کے سینے میں چہرہ چھپا لیا لیکن خوف ابھی بھی اس پر طاری تھا،،،
صبح عنائزہ نے پریشانی سے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا وہ لان میں بیٹھی پھولوں کو دیکھ رہی تھی جب روحان اس کے پاس آیا،،،
کچھ دیر وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا جب عنائزہ نے اس سے کوئی بات نہ کی تو روحان خود بول پڑا،،،
خاموش کیوں ہو،،، روحان نے آہستگی سے پوچھا
عنائزہ خاموش رہی،،،
روحان کو بے چینی ہو رہی تھی عنائزہ کے اس رویے سے وہ اسے ہمیشہ خوش ہی دیکھتا آیا تھا،،،
روحان،،، کچھ دیر بعد وہ بولی
جی،،، روحان نے جواب دیا
تمہاری ماما کیسی تھیں،،،
عنائزہ کے اچانک سوال پر روحان حیران ہوا اور سوال بھی ایسا تھا جس نے اسے پریشان کر دیا
بولو روحان،،، عنائزہ نے اس کی طرف دیکھا
ن۔۔نہیں،،، روحان نے نظریں جھکائیں
تمہاری دادو نے کبھی تمہیں تمہاری ماما اور پاپا کے بارے میں نہیں بتایا،،،
دادو نے کہا کہ۔۔۔ ایک ایکسیڈنٹ میں ماما پاپا دونوں دنیا سے چلے گئے،،،
عنائزہ اس کے جواب میں خاموش رہی،،،
لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو،،، روحان کے دماغ میں سوال آیا
کچھ نہیں،،، وہ کہہ کر گھر کے اندرونی حصے میں داخل ہو گئی،،،
ماضی
راحیل کا سچ جاننے کے بعد کسی میں بھی اتنی ہمت نہ تھی کہ پہلے کی طرح ہنسی خوشی گاؤں میں اپنی زندگی گزارتے،،،
سب کچھ بھول جانے کے لیے سب نے مل کر گاؤں چھوڑ کر شہر جانے کا فیصلہ کیا،،،
گاؤں کی آدھی سے زیادہ زمین کمال اور جمال صاحب کے نام تھی،،،
زمین اور دونوں ہویلیاں دس کروڑ کی جائیداد تھیں جنہیں بیچ کر انہوں نے شہر میں میں دو اچھے گھر خریدے،،،
ارسم، جمال اور کمال صاحب نے مل کر بزنس سٹارٹ کیا جس میں انہیں کافی ترقی حاصل ہوئی،،،
ان کا اٹھنا بیٹھنا شہر کے بڑے بزنس مینز مین ہونے لگا،،،
دو سال بعد انہوں نے اپنے سٹیٹس کے مطابق مہنگا ترین بنگلہ خریدا،،،
آج ان کا اس گھر میں پہلا دن تھا،،،
ارسم،،
سنیں آپ اپنی واچ بھول رہے ہیں،،،
ارسم آفس جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھنے والا تھا جب مریم گھر کے اندرونی دروازے سے باہر نکلی،،،
آپ روز اپنی واچ بھول جاتے ہیں کتنی بار کہا ہے سب تیار ہوتے ہیں اسی وقت پہن لیا کریں،،،
مریم شکوہ کرتے ہوئے اس کی کلائی میں واچ باندھ رہی تھی،،،
ارسم کو اس کے یوں شکوہ کرنے پر پیار آیا تو اس نے مریم کو کمر سے پکڑ کر خود سے لگایا،،،
ی۔۔یہ کیا کر رہے ہیں کوئی دیکھ لے گا،،، وہ گھبرائی
کوئی دیکھتا ہے تو دیکھے اپنی بیوی کو پکڑا ہے کسی غیر کو تھوڑی،،، ارسم نے بھی خوب شرم کے پردے اتار پھینکے
خدا کا خوف کریں چچی جان آجائیں گی،،، مریم کو اس کی ڈھیٹائی پر حیرت ہوئی
چھوڑ دوں گا پہلے میرا منہ میٹھا کرو،،، ارسم کو اسے تنگ کرنے میں مزہ آرہا تھا
ن۔۔نہیں بلکل نہیں،،،
میں تو منہ میٹھا کیے بغیر آفس نہیں جاؤں گا،،، ارسم نے چہرہ اس کے قریب کیا
ارسم پلیز چھوڑیں مجھے آج چچا جان نے بھی آفس جانا ہے وہ آتے ہی ہوں گے،،، اس نے گردن پیچھے موڑ کر دیکھتے ہوئے کہا
تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں چھوڑ دوں تو وہ دو جو میں چاہتا ہوں،،، ارسم نے اس کے نازک ہونٹوں کی طرف دیکھا
ب۔۔بلکل نہیں آپ کو پتہ ہے نا مجھے آپ کی مونچھیں چبھتی ہیں،،،
مریم کی بات پر ارسم نے قہقہ لگایا،،،
ارسم تم ابھی تک نہیں گئے تو رکو میں بھی آتا ہوں دنوں ساتھ چلتے ہیں،،، اندر سے کمال صاحب کی آواز آئی
چچا جان آرہے ہیں چھوڑ دیں ارسم،،، مریم کو جان کے لالے پڑے
ٹھیک ہے ابو جان آجائیں،،، ارسم نے جان بوجھ کر کمال صاحب کو آواز دی تا کہ مریم اس کی بات مان لے
کمال صاحب کے قدموں کی آواز آنے لگی اور ارسم ابھی تک مریم کی کمر کو کس کے پکڑے کھڑا تھا،،،
ان کے قدموں کی آواز مریم نے سبز آنکھیں پھاڑیں ارسم ابھی بھی چھچھورے انداز میں مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا،،،
مریم کو معلوم ہو چکا تھا وہ تو بے شرم بن گیا ہے اب ایسے اسے چھوڑنے والا نہیں ہے اس لیے بہتر ہے کہ وہ اس کی بات مان لے،،،
اس نے ارسم کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور اس کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے اپنی کمر سے اس کے ہاتھ ہٹائے اور پیچھے مڑ کر بھاگی،،،
دروازے پر پہنچتے ہی وہ کمال صاحب سے ٹکرا گئی،،،
کیا ہوا مریم بیٹا خیر تو ہے،،، کمال صاحب نے اس کے چہرے کے اڑے ہوئے رنگ دیکھ کر پوچھا
ج۔۔۔جی چچا جان سب ٹھیک ہے،،، وہ کہہ کر بھاگ نکلی
کمال صاحب باہر آئے تو ارسم ٹشو پیپر سے اپنے ہونٹوں سے مریم کی لپ سٹک صاف کر رہا تھا،،،
کمال صاحب نے اس کے نزدیک آئے اور سرگوشی نما بولے،،،
"بلکل اپنے باپ پہ گیا ہے میرا پتر"
کمال صاحب کی بات سے ارسم نے ہنستے ہوئے شرمندگی ٹالی
رات کھانے کی ٹیبل پر سبھی گھر والے جمع تھے،،،
عقیلہ نے ٹیبل پر کھانا رکھ رہی تھی اور شہزادی سب کی پلیٹوں میں کھانا ڈال رہی تھی،،،
سب راحیل کو بھلا چکے تھے سوائے شہزادی کے،،،
بھلے ہی راحیل کا سچ اس کے سامنے کھل چکا تھا لیکن وہ اس کج پہلی محبت تھا وہ بھی کم عمری کی محبت،،،
اس دن سے آج تک شہزادی کے چہرے پر وہ ہنسی نہ آئی تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی،،،
وہ قسمت سے یہی گلہ کرتی تھی کہ اسے راحیل سے ہی محبت کیوں ہوئی یا پھر راحیل ہی کیوں ان کا دشمن نکلا،،،
شہزادی تم بہت کمزور ہو گئی ہو کھانا بہت کم کھاتی ہو تم،،، صفیہ بیگم نے اسے ڈانٹا
نہیں امی جان اتنا تو کھاتی ہوں اور نہیں کھایا جاتا،،،، شہزادی نے برا سا منہ بنایا
کھانا کھاتے وقت مریم کا دل خراب ہونے لگا اور وہ اٹھ کر واش روم کی طرف بھاگی،،،
مریم کیا ہوا،،، ارسم اس کے پیچھے گیا
مریم کو بیسن ہر جھکا دیکھ کر وہ پریشان ہونے لگا،،،
صفیہ بیگم اور دردانہ بیگم کو مریم کے ماں بننے کا شک ہوا تو ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے،،،
دو سال سے ان کے ہاں اولاد کی خوشخبری نہیں آئی تھی اور آج یوں اچانک اللہ نے ان کو یہ خوشی عطا کر دی،،،
ارسم مریم کو پکڑ کر واپس ٹیبل کی طرف لایا،،،
صفیہ بیگم مریم کے پاس آئیں اور اسے کرسی پر بیٹھایا،،،
کیا محسوس ہو رہا ہے،،، صفیہ بیگم نے پوچھا
امی جان سر چکرا رہا ہے اور دل خراب سا ہو رہا،،، مریم نے سر پکڑتے ہوئے کہا
سب کو مبارک ہو ہمارے گھر ننھا مہمان آنے والا ہے،،، صفیہ بیگم نے اونچی آواز میں کہا تو سب کے چہروں پر حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات نمایا ہوئے
کیا کیا واقع ہی،،، ارسم نے بے یقینی سے کہا
ہاں انشاءاللّٰه‎‎،،، صفیہ بیگم نے جواب دیا
جہاں خوشی سے ارسم کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ناچے گائے وہاں شرم سے مریم پانی پانی ہو رہی تھی،،،
اس نے ارسم کو گھوری سے نوازا جس کا مطلب تھا کہ چپ کر کے بیٹھ جاؤ،،،
ارسم قہقہ لگاتے ہوئے کرسی پر بیٹھا،،،
صبح ارسم مریم کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تو اس کی ریپورٹس پازیٹو آئیں،،،
انہوں نے پورے محلے میں میٹھائی بانٹی اور مریم کا صدقہ دیا،،،
آج کا دن سب کے لیے خوشی کا دن تھا ارسم نے آفس سے چھٹی کر لی تھی،،،
مریم ڈریسنگ کے آگے کھڑی اپنے سنہری بالوں میں کنگھی کر رہی تھی جب ارسم نے آکر اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا،،،
ہمارے بیبی کا نام کیا ہو گا،،، ارسم نے اس کی گردن پر ہونٹ رکھے
ارسم،،، مریم شرمائی
بتاؤ نا کچھ سوچا تم نے،،، ارسم نے اپنا چہرہ دوسری طرف کیا اور اس کی گردن کے دوسری طرف ہونٹ رکھے،،،
ارسم نہ تنگ کریں مجھے،،،
ارسم نے اس کا رخ اپنی طرف کیا اور اسے ڈریسنگ ٹیبل کے اوپر بیٹھایا،،،
جب سے معلوم ہوا ہے تب سے زیادہ پیار آرہا ہے،،، اس نے مریم کی پیشانی پر ہونٹ رکھے
مریم نے سکون سے آنکھیں بند کیں،،،
تم نے نام نہیں بتایا،،، اس نے مریم کے رخسار پر ہونٹ رکھے
آ۔۔آپ بتانے دیں گے تب ہی نا،،،
اچھا اب بتاؤ،،، وہ مریم کی دوسری رخسار کو چومتا ہوا پیچھے ہوا
امممم فرحان،،، مریم نے سوچ کر بتایا
نہیں روحان،،، ارسم نے مریم کے ہونٹوں کو چوم کر کہا
ایک پل کے لیے مریم شرم سے لال ہوئی پھر ساتھ ہی روحان نام سننے پر بولی،،،
اپنی مرضی کرنی تھی تو مجھ سے کیوں پوچھا،،، اس نے ارسم کے کندھے پر پنچ مارا
ہاہاہا بس میری مرضی،،، ارسم نے ہنستے ہوئے کہا
ہر بار آپ مجھے تنگ کرتے ہیں،،، مریم مسلسل اس کے کندھوں پر پنچ مار رہی تھی،،،
ارسم نے اس کی دونوں نازک کلائیوں کو اپنے مظبوت ہاتھوں میں لیا اور باری باری چوم لیا،،،
مریم نے شرم سے نظریں جھکائیں،،،
شام ہو چکی تھی عنائزہ کا موڈ بہتر ہو چکا تھا اس نے ڈائری رکھی اور کمرے سے باہر نکل گئی،،،
سیڑھیاں اتر کر لاؤنج میں داخل ہوئی تو روحان پر نظر پڑی جو لاؤنج کے صوفے پر منہ لٹکائے بیٹھا تھا،،،
عنائزہ اس کے ساتھ صوفے پر آکر بیٹھی اس نے ٹیبل پر پڑے سات چائے کے کپ دیکھے،،،
کوئی آیا تھا کیا،،، کپ دیکھ کر اس نے سوچا کہ کوئی آیا ہو گا لیکن حیران تھی کہ روحان کیسے کسی کو فیس کر سکتا ہے
روحان نے نفی میں سر ہلایا،،، اب اس کا منہ لٹکنے کے ساتھ پھول بھی چکا تھا
تو یہ سات کپ،،، عنائزہ بے پوچھا
روحان خاموش رہا،،،
عقیلہ ٹیبل سے کپ اٹھانے آئی،،،
عقیلہ یہ اتنے چائے کے کپ کس کے لیے،،، عنائزہ نے پوچھا
بیگم صاحبہ یہ سارے کپ روحان بابا کے لیے تھے،،،
کیا،،، عنائزہ کا حیرت سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا،،،
لیکن اتنی چائے روحان کیوں پی تم نے،،،
عنائزہ کے پوچھنے پر وہ ابھی بھی نہیں بولا تھا،،،
تم بتاؤ عقیلہ کیوں دی اسے اتنی چائے بنا کر،،،
بیگم صاحبہ روحان بابا کب سے پریشان بیٹھے تھے آپ بھی کمرے میں تھیں تو وہ بار بار چائے کا کہتے رہے اور میں دیتی رہی،،،
اتنی چائے پی لی ہے اب اسے نیند نہیں آئے گی،،، عنائزہ نے کہا تو عقیلہ کچن کی جانب چل دی
روحان کیوں پی تم نے اتنی چائے،،،
میں جو مرضی کروں تم سے مطلب،،، روحان نے منہ پھولاتے ہوئے کہا
اوہ غصہ،،، عنائزہ کو اس کے کیوٹ سے غصے پر ہنسی آنے لگی
چلی جاؤ اب بھی بیٹھ جاؤ کمرے میں دروازہ بند کر کے،،،
روحان کی دروازہ بند کرنے والی بات پر عنائزہ کو دکھ ہوا وہ واقع ہی دروازہ بند کر کے بیٹھی تھی روحان نہ جانے کتنے چکر لگا چکا ہو گا،،،
سوری،،، عنائزہ نے اپنے کان پکڑتے ہوئے کہا
روحان نظریں جھکائے بیٹھا تھا،،،
اچھا اب میری طرف کیا دیکھو گے بھی نہیں،،،
روحان نے اب بھی اس کی بات کا جواب نہ دیا،،،
عنائزہ نے اس کی نرم رخسار پر ہاتھ رکھ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا،،،
میری جان ناراض ہے مجھ سے،،، عنائزہ نے نہایت پیار بھرے لہجے میں کہا
روحان کی سبز آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو امڈنے لگی جس سے عنائزہ کو حیرت کا جھٹکا لگا،،،
جب دل چاہتا ہے ساتھ رہتی ہو جب دل چاہتا ہے چھوڑ دیتی ہو تمہیں پتہ ہے نا تمہارے سوا میرا کوئی نہیں ہے پھر کیوں کرتی ہو ایسے میرے ساتھ،،، اب وہ صحیح میں رونے لگا تھا
روحان،،، عنائزہ کو اس کا دکھ دیکھ کر اپنے دل سے اٹھتی تکلیف محسوس ہوئی
صبح سے اکیلا ہوں سو بار کمرے کے چکر لگائے لیکن دروازہ بند تھا ایسے بھی کوئی کرتا ہے کیا،،، وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا،،،
آج ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسا دادو کے چلے جانے کے بعد محسوس ہو رہا تھا میں اب بھی اکیلا ہوں،،،
نہیں روحان تم اکیلے نہیں ہو،،، عنائزہ اس کے گلے سے لگی اسے اب احساس ہو رہا تھا کہ وہ واقع ہی اپنی مرضی کی مالک ہے جب موڈ اچھا ہوتا ہے تو روحان کے ساتھ اچھے سے رہتی ہے اور جب موڈ خراب ہوتا ہے تو کمرے میں بند رہتی ہے،،،
روحان آئم سوری آئندہ کبھی ایسے نہیں کروں گی کبھی تمہیں دکھ نہیں دوں گی میرا وعدہ ہے تم سے،،، عنائزہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے
پھر بھی تم کرو گی ایسے تم ہر بار کرتی ہو،،،
نہیں کروں گی میں نے تم سے وعدہ کیا ہے،،،،
میں اکیلے پن سے تنگ آگیا ہوں عنائزہ مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا،،،
نہیں کبھی نہیں جاؤں گی نہ کبھی اکیلا چھوڑوں گی بس آخری بار معاف کر دو،،، عنائزہ نے پیچھے ہو کر اس کی تر آنکھوں کو صاف کیا
کر دیا معاف،،، روحان نے نہایت معصومیت سے کہا
وہ عنائزہ کے رخساروں کو صاف کرنے لگا،،،
رات کے کھانے سے فارغ ہو کر وہ دونوں کمرے میں آئے،،،
عنائزہ نے گلاس وال کے آگے کرٹینز کیے اور بیڈ پر آکر بیٹھی،،،
روحان بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا جب عنائزہ نے پوچھا،،،
روحان ایک بات پوچھوں،،،
جی،،،
تمہیں بچے پسند ہیں کیا،،،
عنائزہ کے سوال پر روحان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ،،،
کیا دیکھ رہے ہو،،، عنائزہ بولی
پسند ہیں شاید،،، اس نے سوچ کر کہا
شاید کا کیا مطلب،،،
میں نے کبھی کسی بچے کو اٹھایا نہیں نہ ہی اس کے ساتھ کھیلا اس لیے مجھے پتہ نہیں بچے کیسے ہوتے ہیں دادو نے بتایا تھا بہت پیارے ہوتے ہیں،،،
اچھا اور کیا کیا بتایا تھا دادو نے،،، عنائزہ کو وہ بولتا ہوا کیوٹ لگ رہا ہے،،،
اور یہ کہ بچے کیوٹ ہوتے ہیں،،، اس نے سوچ کر کہا
اچھا اب یہ بتاؤ کیوٹ کیسا ہوتا ہے،،، عنائزہ اس کے قریب ہو کر بیٹھی
کیوٹ پیارا ہی ہوتا ہو گا،،، روحان نے سر سوچ کر سر کجایا
تم نے کبھی کسی کیوٹ انسان کو دیکھا ہے،،،
نہیں،،، روحان نے جواب دیا
آج تمہیں ایک کیوٹ انسان دکھاتی ہوں،،،
لیکن کہاں،،، روحان حیران ہوا
ادھر آؤ میرے ساتھ،،، عنائزہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل پر لے آئی
روحان نے مرر سے سوالیہ نظروں سے عنائزہ کو دیکھا،،،
یہ ہے میرا کیوٹ لڑکا،،، عنائزہ نے اس کی چیکس کو کھینچا
روحان شرمانے لگا تو عنائزہ ہنس دی،،،
چلو واپس بستر پر،،، وہ دونوں بستر پر آکر بیٹھے
اچھا ہم بچوں کی بات کر رہے تھے نا،،، عنائزہ نے کہا
تو کیوٹ لڑکا تو تم نے دیکھ لیا اب بتاؤ کیوٹ بچے کیسے لگتے ہوں گے،،،
وہ تو بہت ہی پیارے لگتے ہوں گے،،، روحان نے کہا
تمہیں بچے چاہیے،،، عنائزہ اس کی آنکھوں میں دیکھا
کیا مطلب،،، روحان کو عقل میں کچھ نہ پڑا
بدھو مطلب تم باپ بننا چاہتے ہو کہ نہیں،،، عنائزہ کے ڈائریکٹ وہ بھی اس انداز میں کہنے کی وجہ سے روحان آنکھوں کو مٹکاتا اس کو دیکھتا ہی رہ گیا
ہیلو کیا دیکھ رہے ہو ایسا بھی کیا کہہ دیا بھئی شادی کے بعد سب ماں باپ بنتے ہیں ہم کؤئی انوکھے تھوڑی ہیں،،،
عنائزہ کی یہ ہمت تھی یا بے شرمی یہ صرف وہی جانتی تھی،،،
روحان شرم کا مارا بنا کچھ کہ کمفرٹر میں گھس گیا،،،
عنائزہ حیرت سے اسے لیٹے ہوئے دیکھ رہی تھی،،،
لگتا ہے اس کمفرٹر کو آگ لگانی پڑے گی،،، وہ بڑبڑاتی ہوئی لیٹ گئی
روحان نے اس کی بات سنی تو اس کے کان کھڑے ہو گئے،،،
روحان یہ سوچ رہا تھا کہ عنائزہ میں شرم نام کا مادہ بلکل نہیں پایا جاتا اسی وقت عنائزہ نے اس کو کمفرٹر سمیت ہگ کر لیا،،،
زیادہ سوچو مت سو جاؤ کل صبح تمہاری پریکٹس بھی کروانی ہے باکسنگ کی اس لیے جلدی سو جاؤ،،،
باکسنگ کا سوچ کر روحان نے آنکھیں مزید کھولیں،،،
کیا صبح پھر سے،،، اس بے کمفرٹر سے منہ نکالا
اور نہیں تو کیا ذرا دیکھو اپنی طرف تم سے زیادہ طاقت تو مجھ میں ہو گی،،، عنائزہ نے اسے گھوری سے نوازتے ہوئے کہا،،،
روحان نے اس کی بات پر غور کیا عنائزہ واقع ہی صحت میں روحان سے زیادہ تھی،،،
آنکھیں بند کرو،،، عنائزہ کی آواز آنے پر اس نے آنکھیں بند کیں عنائزہ نے اس کی رخسار پر لب رکھے اور کندھے پر سر رکھے سونے لگی،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 13)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں