سیاہ رات ایک سچی کہانی - تیرواں حصہ

 

 - سیاہ رات ایک سچی کہانی - تیرواں حصہ

سات کپ چائے پینے کے بعد روحان کی آنکھوں میں نیند آنا ناممکن سا ہو گیا تھا، عنائزہ سو چکی تھی اور وہ ابھی تک جاگ رہا تھا،،،
اس نے سونے کی کئی بار کوشش کی لیکن نیند آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، ایک تو عنائزہ اس سے لپٹ کر سو رہی تھی جس وجہ سے وہ حرکت بھی نہیں کر پا رہا تھا،،،

عنائزہ نے نیند میں کروٹ بدلی، روحان کو جیسے ہی آزادی ملی اس نے کھل کے سانس لیا،،،
اس نے عنائزہ کی طرف دیکھا وہ گہری نیند میں تھی،،،
آہستہ سے اٹھ کر اس نے فرش پر قدم رکھے،،،
بار بار عنائزہ کی طرف بھی دیکھتا کہ اگر وہ جاگ گئی تو اسے پھر سے لیٹا لے گی اور سونے کا کہے گی،،،

کھڑے ہو کر اس نے دروازے کی طرف قدم بڑھائے، آہستگی سے دروازہ کھولا اور آخری نظر عنائزہ پر ڈالتا ہوا باہر چلا گیا،،،
اس کا دل چہل قدمی کو کر رہا تھا پہلے اس نے باہر لان میں جانے کا سوچا لیکن عنائزہ اندرونی دروازے کو بھی لاک لگا کر سوتی تھی اس لیے وہ باہر نہیں جا سکتا تھا،،،

کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد اسے چھت کا خیال آیا خوشی سے اس نے سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھائے،،،
آج پورے چاند کی رات تھی، چاند پورے شوق سے آسمان پر چمک رہا تھا ٹھنڈی ہواؤں نے روحان کو گھیرے میں لیا،،،
رات کے وقت ایک وسیع اور سنسان چھت کا منظر ایک نارمل انسان کو شاید خوف دلاتا لیکن روحان اگر کسی چیز سے ڈرتا تھا تو وہ صرف انسان تھا،،،
پل میں ہی ہوا نے اس کے سنہری بالوں کو چھیڑا اور وہ ماتھے پر بکھر گئے،،،
مسکراتے ہوئے روحان اس منظر کو انجوائے کر رہا تھا جو وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا،،،

وہ چلتے ہوئے کنارے کی طرف آیا دور دور تک پھیلا ہوا گھنا جنگل جو اس وقت کافی حد تک خوفناک لگ رہا تھا،،،
روحان اس جنگل کو غور سے دیکھنے لگا،،،
کتنی خاموشی ہے یہاں،،، وہ خود کلام ہوا
کافی بھیانک دکھ رہا ہے،،، وہ ایک بار پھر بولا
شکر ہے عنائزہ سو رہی ہے اگر مجھے یہاں دیکھ لیتی تو اچھی خاصی کلاس لگ جانی تھی،،،

دیکھوں تو صحیح یہ کتنا گہرا ہے،،، روحان نے دو قدم مزید کنارے کی طرف کی طرف بڑھائے،،،
گہرائی میں دیکھتے دیکھتے اس کا سر چکرانے لگا اس نے خود کو سمبھالنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو گیا،،،
روحان نیچے گرنے ہی والا تھا جب کسی نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا،،،
عنائزہ،،،اچانک روحان کے منہ سے نکلا
سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ اپنے چکراتے ہوئے خود کو کنٹرول کر رہا تھا جب اس کی نظریں اپنے سامنے کھڑے انسان پر اٹھیں،،،
روحان کے پاؤں تلے سے زمین نکلی وہ آنکھیں پھاڑتے ہوئے اس شخص کو دیکھتا رہا،،،
بلیک لباس میں ملبوس وہ شخص چہرے پر ہڈی لیے ہوئے تھا،،،
ک۔۔کون ہو تم،،، روحان کو اپنا جسم کانپتا ہوا محسوس ہونے لگا،،،
اس شخص کی طرف سے مکمل خاموشی تھی،،،
روحان لمبے لمبے سانس لینے لگا اس کا دل اپنی رفتار سے تیز دھڑک رہا تھا،،،
اس شخص نے روحان کی طرف ہاتھ بڑھایا، روحان خوف سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا،،،
ر۔۔و۔۔حا۔۔ن،،،

اس شخص نے لمبی سانس چھوڑتے ہوئے سرگوشی میں اس کا نام پکارا،،،
روحان کے لیے یہ جھٹکے سے کم نہ تھا وہ اس کا نام کیسے جانتا تھا روحان خوف سے زمین پر بیٹھا کیوں کہ بھاگنے کی تو اس میں ہمت نہ تھی،،،
ک۔۔کون،،، معصوم سبز آنکھیں پھیلاتے ہوئے اس نے ایک بار پھر سے دیکھا
وہ شخص روحان کے بلکل پاس کھڑا تھا اپنا چہرہ نیچے کی طرف جھکائے وہ روحان کو ہی دیکھ رہا تھا،،،
روحان کے ہاتھ کی ہتھیلی پر ایک قطرہ گرا جس نے روحان کی توجہ لی،،،
اس نے اپنی ہتھیلی کی طرف دیکھا جب اس کی سماعت میں عنائزہ کی آواز پڑی،،،
روحان یہاں کیا کر رہے ہو تم،،، وہ غصے سے بولی
روحان نے اسے دیکھ کر ہاتھ کو مٹھی میں تبدیل کیا اور تیزی سے کھڑا ہوا،،،
عنائزہ،،، کھڑے ہو کر اس نے عنائزہ کا نام پکارا
عنائزہ تیز قدموں سے اس کے پاس آئی،،،
یہاں کیا کر رہے ہو اس وقت،،، وہ غصے سے بولی
وہ مجھے نیند نہیں آرہی تھی اس لیے سوچا چہل قدمی،،، روحان خاموش ہوا
چلو نیچے اور آئندہ اس وقت اکیلے بلکل بھی باہر نہیں نکلو گے،،، وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئے نیچے لے گئی،،،
سیڑھیوں کے دروازے کو اس کے لاک لگایا اور اسے لیے کمرے میں آئی،،،
اتنی رات کو یوں اکیلا نکلنا ٹھیک نہیں ہے روحان اگر تمہیں نیند نہیں آرہی تھی تو مجھے جگا لیتے،،،

آئم سوری،،،روحان نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا
اب سونا ہے یا نہیں،،،عنائزہ نے پوچھا
سونا ہے،،، روحان نے کہا
اوکے،، وہ بستر پر لیٹی
روحان بھی اپنی جگہ پر لیٹا اس نے ابھی تک مٹھی کو بند کیا ہوا تھا،،،
عنائزہ کا رخ دوسری طرف تھا روحان نے مٹھی کو کھول کر دیکھا تو وہ پانی کا قطرہ تھا،،،
کیا یہ اس شخص کا آنسو ہے،،، روحان نے سوچتے ہوئے مٹھی بند کی
لیٹ جاؤ پھر لائٹ آف کروں گی میں،،، عنائزہ بولی
روحان لیٹ گیا اور کمرے کی لائٹ آف ہو گئی،،،


صبح روحان سارا دن یہی سوچتا رہا کہ وہ شخص کون تھا اور اس کی آنکھ سے نکلنے والے آنسو کا کیا مقصد تھا،،،
وہ آج صبح سے ہی خاموش تھا عنائزہ کو اس پہ شک ہونے لگا جیسے وہ اس سے کچھ چھپا رہا ہو،،،
روحان،،، عنائزہ نے پکارا
جی،،،
کیا ہوا آج چپ چپ ہو،،، اس نے اندر کی بات ٹوٹلنی چاہی
ن۔۔نہیں تو،،، نہایت آرام سے وہ جھوٹ بول گیا مگر اس کی لڑکھڑاتی زبان نے عنائزہ کو سچ بتایا
کل رات چھت پر تم چہل قدمی کے لیے گئے تھے نا،،، عنائزہ بول
ہاں،،،
تو جب میں نے تمہیں دیکھا تم نیچے بیٹھے تھے،،، عنائزہ کی بات پر روحان سوچنے لگا کہ اب اسے کیا جواب دے،،،
بتاؤ،،، وہ پھر بولی
میں تھک گیا تھا اس لیے نیچے بیٹھ گیا،،، آخر اس نے بہانہ گھڑا
ٹھیک ہے،،، عنائزہ نے سر ہلایا
چلو تمہاری پریکٹس کرواؤں،،،
روحان اٹھ کر اس کے ساتھ چلنے لگا،،،
ایک گھنٹہ پریکٹس کے بعد وہ فریش ہو کر بستر پر گرا،،،
عنائزہ کا آج خود کھانا پکانے کا موڈ ہو رہا تھا اس لیے وہ کچن میں گھس گئی،،،
کھانا پکانے سے فری ہونے کے بعد وہ کمرے میں گئی اور روحان کو سوتا دیکھا،،،
آج اتنی جلدی سو گیا،،، عنائزہ خود کلام لائی
ہمم کل رات لیٹ سویا اسی لیے،،، اس نے پھر سے خود کلامی کی اور اپنی سائیڈ پر بیٹھتے ہوئے ڈائری نکالی،،،


ماضی
آج مریم کی گود بھرائی کی رسم رکھی گئی تھی،،،
گاؤں سے سبھی رشتہ داروں کو بلایا گیا کچھ محلے کے لوگ انوائیٹڈ تھے،،،
ڈارک پنک کلر کا سوٹ پہنے اور سر پر ییلو دوپٹہ اوڑھے نہایت خوبصورت لگ رہی تھی،،،
پورے گھر میں خوشی کا سماں تھا ایک ایک کر کے عورتیں آتیں اور مریم کی گود میں مختلف قسم کے فروٹس وغیرہ رکھتیں،،،
مریم کے چہرے سے بے حد خوشی چھلک رہی تھی،،،
ارسم کے پاؤں زمین پر لگنے کا نام نہیں لے رہے تھے،،،
رات دس بجے تک جب سب مہمان کھانا کھانے لگے تب مریم کا بھی تھکاوٹ سے برا حال ہونے لگا،،،
امی جان میں آرام کرنا چاہتی ہوں،،، مریم نے صفیہ بیگم سے کہا
ہاں ہاں چلو آؤ تمہیں کمرے میں چھوڑ آؤں،،، صفیہ بیگم اسے کمرے میں چھوڑ آئیں،،،
مریم کو نیند آ رہی تھی اس نے کمرے کی لائٹ آف کی اور بستر پر لیٹ گئی،،،
وہ گہری نیند سو رہی تھی جب کھڑکی سے ایک شخص کمرے میں داخل ہوا،،،
کون ہو سکتا تھا وہ شخص سوائے ڈیوِل کے،،،
مریم کے کمرے کی کھڑکی پچھلی دیوار کی طرف کھلتی تھی جہاں کسی کا آنا جانا نہ تھا،،،
کچھ دیر تک ڈیوِل چاند کی روشنی میں مریم کا بے داغ اور خوبصورت چہرہ دیکھتا رہا،،،

اس نے دھیرے دھیرے سے اپنے قدم مریم کی طرف بڑھائے،،،
وہ مریم کے ساتھ بستر پر لیٹا اور اس کی سانسوں کو سننے لگا،،،
میرّی،،، وہ سرگوشی سے بولا
اس نے مریم کے چہرے پر آتی سنہری لٹوں کو ہاتھوں سے پیچھے کیا اور اس کی رخسار پر ہاتھ رکھا،،،
کتنا ترسا ہوں تمہیں دیکھنے کے لیے،،، وہ مریم کے ایک ایک نقش کو آنکھوں کے راستے دل میں اتار رہا تھا
مریم کی نیند میں خلل پڑا،،،
ارسم،،، مریم غنودگی میں ڈیوِل کے سینے سے لگی یہ سوچ کر کے ارسم اس کے ساتھ لیٹا ہے
مریم کی اس قدر قربت ڈیوِل کو سکون بخش رہی تھی اس کا ہاتھ مریم کی کمر پر رینگنے لگا،،،

اس کی کمر پر دباؤ ڈالتے ہوئے جیسے وہ خود کو اس میں سمو دینا چاہتا تھا،،،
دھیرے دھیرے وہ مریم کی گردن پر لمس چھوڑنے لگا،،
ارسم پلیز آج نہیں کرو میں بہت تھکی ہوئی ہوں،،، مریم کی نیند سے چور آواز ڈیوِل کی سماعت میں پڑی
ڈیوِل اپنے کام میں جاری رہا،،،
وہ مریم کو سیدھا کر کے اس پر ہاوی ہوا،،،
شدید نیند کے باعث مریم کی آنکھیں کھل نہیں پا رہی تھیں وہ بس سونا چاہتی تھی،،،
ڈیول نے اس کی شہ رگ پر ہونٹ رکھے،،،
ا۔۔ارس،،،
مریم کی آواز اس کے منہ میں ہی رہ گئی جب ڈیوِل نے اس کے لفظوں کو گرفت میں لیا،،،
مریم نے غنودگی میں آہستگی سے اس کے گرد بازو حائل کیے،،،
ڈیوِل کو اور کیا چائیے تھا آج مریم بھی اس کی قربت حاصل کرنے کے لیے اس کا ساتھ دے رہی تھی،،،
دس منٹ تک وہ ایک دوسرے میں گم رہے جب ڈیوِل کو باہر سے کسی کے قدموں کی آواز آنے لگی اور وہ مریم سے الگ ہوا،،،
مریم ابھی بھی غنودگی کی حالت میں تھی اس نے ڈیوِل کی جیکٹ کو ہاتھ سے جکڑ لیا جیسے اسے اچھا نہ لگا ہو اس کا الگ ہونا،،،

تائی جان مریم کہاں ہے،،، ارسم نے دردانہ بیگم سے پوچھا
وہ تھک گئی تھی اس لیے سونے کے لیے کمرے میں آگئی،،، دردانہ بیگم نے جواب دیا
ٹھیک ہے،،، ارسم نے کہتے ہوئے کچھ قدم مزید کمرے کی طرف بڑھائے اور آہستہ سے دروازہ کھولا
مریم سوئی ہوئی تھی ارسم دروازہ بند کرتا ہوا بیڈ پر آکر بیٹھا اور لیٹ گیا،،،


صبح مریم کی آنکھیں کھلیں تو ارسم اس کے پیٹ پہ ہاتھ رکھے سو رہا تھا،،،
مریم مسکرائی اور آہستہ سے اس کا ہاتھ پیچھے ہٹانے لگی جب ارسم کی آنکھ کھلی،،،
امم کہاں جا رہی ہو اتنی صبح،،، اس نے مریم کو سینے سے لگایا
اففف ارسم چھوڑیں آپ کا کوئی ٹائم نہیں ہے رومانس کرنے کا،،،
اس کی بات سن کر ارسم مسکرایا،،،
یہ کوئی ٹائم ہے ہسبینڈ کو اکیلے چھوڑ کر جانے کا،،، وہ آنکھیں بند کیے بول رہا تھا
ارسم جانے دیں مجھے باہر لان میں چہل قدمی کرنی ہے،،،
نہیں جانا کہیں چپ کر کے لیٹی رہو،،، ارسم نے ضد کی
کل رات بھی آپ کتنا تنگ کرتے رہے ہیں مجھے اتنی نیند آئی ہوئی تھی،،،
لگتا ہے اب میں تمہیں خوابوں میں بھی تنگ کرنے لگا ہوں،،، ارسم نے ہنستے ہوئے کہا
کیا مطلب ہے آپ کا،،، مریم حیران ہوئی
ملطب یہ میری پیاری بیوی کہ کل رات میں آرام سے سو گیا تھا ٹچ بھی نہیں کیا تمہیں،،،
ارسم کی بات سن کر مریم کے ہوش اڑے،،،

ارسم آ۔۔آپ مذاق کر رہے ہیں نا،،،
اب اتنی صبح صبح میں مذاق کروں گا بھلا،،،
کل رات آپ آئے تھے ا۔۔اور مجھے تنگ بھی کیا تھا آپ نے،،، مریم پریشان ہونے لگی کہ اگر وہ ارسم نہیں تھا تو کون تھا
ہاہاہا وہی تو کہہ رہا ہوں اب میں تمہیں خوابوں میں بھی تنگ کرنے لگ گیا ہوں،،، ارسم نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا
ارسم م۔۔۔مذاق مت مریں پلیز،،، مریم کو فکر ہونے لگی
مجھے نیند آئی ہے سونے دو مریم،،، ارسم نے کمفرٹر چہرے پر لیا
لیکن ارسم،،،
ارسم کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو وہ پریشانی ست سوچتے ہوئے اٹھی،،،


ناشتے کے بعد ارسم آفس چلا گیا تھا اور مریم ابھی تک اپنے بستر پر بیٹھی رات والے واقع کے بارے میں سوچ رہی تھی،،،
کیا وہ میرا خواب تھا،،،
نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ارسم میرے پاس تھا اس نے مجھے چھوا تھا،،، وہ اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوچنے لگی جن پر ڈیوِل نے اپنی شدت لٹائی تھی
وہ اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی جب اس کی نظر بستر پر پڑے ایک بلیک بٹن پر پڑی،،،
مریم نے وہ بٹن اٹھایا اور حیرت سے دیکھنے لگی،،،
اسے یہ بٹن ارسم کی شرٹ کا تو نہ لگ رہا تھا وہ تیزی سے اٹھی اور وارڈ ڈروب سے ارسم کی شرٹس نکالنے لگی،،،
ایک ایک شرٹ کو وہ بٹن میچ کرتی ہوئی دعا کر رہی تھی کہ یہ بٹن ارسم کا ہی ہو لیکن وہ بٹن شرٹ کے بٹنز سے سائز میں بڑا تھا،،،
مریم پریشانی سے بیڈ پر بیٹھی جب رات کا ایک منظر اس کی آنکھوں کے گرد گھومنے لگا،،،
جب ڈیوِل اس سے الگ ہوا تھا تو مریم نے اس کو اس کی جیکٹ سے پکڑ لیا تھا ڈیوِل نے جب اپنی جیکٹ چھڑوانی چاہی تو مریم نے گرفت کو سخت کیا،،،
کیا تب ہی یہ بٹن بستر پر گرا،،، یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
کیا وہ ڈ۔۔ڈیوِل تھا،،، ڈیوِل کے نام سے مریم کا حلق خشک ہونے لگا اسے معلوم ہو گیا تھا اب وہ واپس آچکا ہے اور خالی ہاتھ کبھی نہیں جائے گا
کیوں کہ وہ راحیل تو ان کی دنیا کا تھا لیکن اپنی دنیا کا وہ ڈیوِل تھا ڈیوِل،،،


روحان کی آنکھ کھلی تو عنائزہ نے ڈائری تکیہ تلے چھپائی،،،
اٹھ گئے تم،،، عنائزہ نے اس کے سہری بالوں میں ہاتھ پھیرا
بھوک لگی ہے،،، روحان نے عنائزہ کی طرف دیکھ کر کہا
عنائزہ اس کی بات پر مسکرائی کہ اٹھتے ہی اسے بھوک لگ گئی
تم کھانا کھائے بغیر ہی سو گئے تھے تو میں نے بھی نہیں کھایا اٹھو منہ ہاتھ دھو لو تو دونوں مل کر کھاتے ہیں ٹھیک ہے،،،
روحان نے اثبات میں سر ہلایا اور اٹھ کر واش روم میں گھس گیا
نیچے ٹیبل پر آجانا،،، عنائزہ اونچی آواز میں کہتے ہوئے نیچے چلی گئی
دس منٹ بعد روحان فریش ہو کر نیچے آیا تو عنائزہ نے کھانا ٹیبل پر لگا دیا تھا،،،
کیا بنا ہے آج،،، روحان کرسی کھینچ کر بیٹھا
کڑھی پکوڑا،،، عنائزہ نے پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بتایا
واؤ یہ تو دادو کا فیوریٹ ہے،،، اس نے مسکراتے ہوئے کہا
اور تمہیں نہیں پسند،،، عنائزہ نے پوچھا
مجھے بھی بہت پسند ہے،،، روحان نے نوالا منہ میں رکھا اسے یہ عقیلہ کے بنائے ہوئے کڑھی پکوڑا سے زیادہ مزے کا لگ رہا تھا،،،
کیسا بنا ہے،،، عنائزہ نے خوش ہو کر پوچھا
بہت ہی ٹیسٹی ہے،،، وہ ایک کے بعد ایک نوالا کھاتا گیا
پندرہ منٹ تک دونوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا،،،
روحان نے برتن سمیٹنے میں عنائزہ کی ہیلپ کی پھر وہ دونوں لان میں چہل قدمی کے لیے آئے تا کہ کھانا ہضم ہو سکے،،،
کافی دن ہو گئے ہیں ہم باہر نہیں گئے کل صبح تمہیں باہر لے چلوں،،، گھاس پر چلتے ہوئے عنائزہ نے پوچھا

ٹھیک ہے چلیں گے،،، روحان بھی باہر جانا چاہتا تھا اس بیماری سے نکلنا چاہتا تھا
کہاں جانا چاہتے ہو،،،
جہاں تم جاؤ گی وہاں،،،
روحان کی بات ہر وہ مسکرائی
اممممم،،، کونسی جگہ لے کر جاؤں جہاں زیادہ کراؤڈ نہ ہو،، وہ سوچنے لگی
یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ،،، روحان نے کہا
اچھا کل میں سرچ کروں گی پھر دیکھوں گی کہ کونسی جگہ پر جائیں گے اوکے،،،
اوکے،،، روحان نے معصومیت سے اس کی بات کا جواب دیا
روحان،،،
جی،،،
ایک بات آئی ہے میرے ذہن میں،،،
وہ کیا،،،روحان نے پوچھا
تمہاری کوالیفیکیشن کیا ہے،،،
ایم ایس سی کیا ہے،،،
کیاااا،،، روحان کے جواب پر عنائزہ کا حیرت سے منہ کھلا
لیکن کیسے تم گھر سے باہر تو کبھی نکلے نہیں تھے اور نہ ہی کسی کو اپنے نزدیک آنے دیتے تھے پھر کیسے کیا ایم ایس سی،،،
ایگزامز تو سبھی آنلائن ہوئے تھے میٹرک تک دادو نے پڑھایا پھر میں خود نیٹ سے انفارمیشن لے کر پڑھتا رہا ہوں،،،
کیا واقع ہی آئی کانٹ بیلیو تم اتنے انٹیلیجینٹ ہو،،، عنائزہ کے لیے یہ حیرت کا ایک بڑا جھٹکا تھا
روحان اس کے ری ایکشن پر مسکرانے لگا،،،
کون سے سبجیکٹ میں کی ہے،،،
کیمسٹری میں،،، روحان نے بتایا

واؤ اٹس امیزنگ،،، عنائزہ نے داد کے ساتھ کلپنگ کی تو روحان ہنسنے لگا
تمہاری کوالیفیکیشن کیا ہے،،، اب کی بار روحان نے اس سے پوچھا
بی ایس بائیو،، ابھی تھرڈ سمیسیٹر ہی تھا،،، اس نے افسوس کے ساتھ سر جھکایا
تو تم یہاں بھی اپنی سٹڈی جاری رکھ سکتی ہو،،، روحان نے مشورہ دیا
یہاں لیکن کیسے،،، عنائزہ نے حیرت سے کہا
یونی میں ایڈمیشن لو اور شفیق روز تمہیں چھوڑ آئے گا اور لے بھی آئے گا،،،
کیا و۔۔واقع ایسا ہو سکتا ہے کیا میں اپنی سٹڈیز کملیٹ کر سکتی ہوں،،، عنائزہ کو یقین نہیں آرہا تھا وہ تو سمجھ رہی تھی اب گیا وقت ہاتھ نہیں آنے والا
ہاں بلکل ہو سکتا ہے،،، روحان نے کہا
لیکن تم میرے بغیر کیسے رہو گے،،، عنائزہ پریشان ہوئی
کوئی بات نہیں چار پانچ گھنٹوں کی تو بات ہو گی میں رہ لوں گا لیکن تمہاری سٹڈی زیادہ اہم ہے،،،
اوہ روحان تم نہیں جانتے تم نے آج مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے،،، وہ خوشی سے اس کے گلے لگی
روحان نے مسکراتے ہوئے اس کے گرد بازو پھیلائے


نیو یارک یونیورسٹی کے باہر عنائزہ نے گاڑی سے قدم باہر نکالا،،،
Oh my God…
بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا کیوں کہ یونی کی بلڈنگ کافی خوبصورت اور وسیع تھی،،،
اس نے گارڈ کو اپنا آئی ڈی کارڈ دکھایا اور اندر داخل ہو گئی،،،
زیادہ تر سٹوڈینٹس اپنی کلاسز لینے میں مصروف تھے اور کچھ گراؤنڈ میں بیٹھے گپیں لگاتے اور کچھ بکس لیے بیٹھے دکھائی دے رہے تھے،،،
عنائزہ نے اپنا ایڈمیشن فارم فل کیا اور بائیو بلاک میں اپنی کلاس ڈھونڈنے لگی،،،
Welcome to the class Anayza ansari.
ایک ٹیچر نے اسے مخاطب کیا عنائزہ حیران ہوئی کہ اسے کیسے معلوم پھر سوچا کہ شاید پرنسپل نے میم کو انفارم کر دیا ہو گا،،،
Thanks madam.
وہ مسکراتے ہوئے کلاس میں انٹر ہوئی آج اس نے وائٹ پینٹ کے ساتھ بلیک شرٹ جو کہ اس کے گھٹنوں تک آرہی تھی پہنی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہ نیو یارک کی یونیورسٹی ہے اس لیے قمیض شلوار اسے پہننا خود بھی مناسب نہ لگا،،،
گردن میں وائٹ سکارف سیٹ کیے ہوئے بالوں کی پونی باندھے وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی،،،
وہ بیٹھنے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہی تھی ایک جگہ ایک لڑکا بیٹھا دکھائی دیا جو کہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن عنائزہ نے وہاں بیٹھنا مناسب نہ سمجھا،،،
وہ اسی کشمکش میں تھی جب ایک لڑکی کی آواز اس کی سماعت میں پڑی،،،
Come and sit here.
وہ اپنی ساتھ والی چئیر کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی،،،
عنائزہ کو وہ لڑکی پاکستانی لگی لیکن ابھی وہ خاموشی سے اس سیٹ پر بیٹھ گئی،،،
ٹیچر نے دس منٹ مزید لیکچر لیا اور ٹائم اوور ہونے پر وہ کلاس سے باہر نکل گئی،،،
ہائے مجھے لیلہ کہتے ہیں،،، عنائزہ ادھر ادھر کلاس میں دیکھ رہی تھی جب وہ لڑکی بولی،،،
عنائزہ کی جان میں جان آئی کہ شکر ہے اسے پہلے ہی دن ایک پاکستانی لڑکی مل گئی ورنہ ان گوروں میں وہ سارا دن کیسے گزارتی،،،
ہائے میں عنائزہ،،، عنائزہ نے مسکراتے ہوئے ہینڈ شیک کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس لڑکی نے پکڑ کر چھوڑا،،،
تھینک گاڈ مجھے پاکستانی لڑکی مل گئی ورنہ میں بہت نروس تھی،،، عنائزہ نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا
اس کی بات پر لیلہ مسکرانے لگی،،،
پریشان نہیں ہو کچھ دن میں آپ نروس فیل نہیں کرو گی ویسے میں بھی کافی خوش ہوئی ہوں کہ مجھے بھی پاکستانی لڑکی ملی جس سے میں دوستی کر سکتی ہوں،،،
اس کی فرینڈشپ کی آفر پر عنائزہ نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا،،،
تو آج سے فرینڈز،،، لیلہ نے ہاتھ بڑھایا جسے عنائزہ نے پکڑ لیا
تو تم پاکستان میں کہاں سے ہو،،، لیلہ نے بکس سمیٹتے ہوئے کہا
کراچی سے اور تم،،، عنائزہ نے پوچھا
میں لاہور سے،،، لیلہ مسکرائی
نائس،،، عنائزہ مسکرائی
گراؤنڈ میں چلیں،،، لیلہ نے کہا تو عنائزہ نے اثبات میں سر ہلایا
وہ دونوں اٹھیں اور کلاس سے باہر نکل گئیں،،،
نیکسٹ لیکچر کب ہے،،، عنائزہ آس پاس سٹوڈینٹس کو دیکھتی ہوئی بولی
ایک گھنٹہ بعد،،، لیلہ ایک بینچ پر بیٹھی تو عنائزہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی
تم نے اتنی لیٹ ایڈمیشن کیوں کروایا،،، لیلہ نے پوچھا
ایکچولی میں یہاں اپنے ہسبینڈ کے ساتھ رہتی ہوں اچانک شادی ہوئی سو میرے مائنڈ میں نہیں تھا اسی نے کہا کہ سٹڈی کانٹینو رکھو،،،
اوہ تم میریڈ ہو ویسے ابھی ایج تو نہیں تمہاری بہت جلدی شادی ہو گئی ہے،،، لیلہ عنائزہ کی بات سن کر حیران ہوئی
بس اچانک ہی پاپا نے شادی کا فیصلہ کر دیا اس لیے کصھ کہنے کا موقع نہیں ملا،،،
وہ اس سے باتیں کر رہی تھی جب ایک شور نے اس کی توجہ کھینچی،،،
ریڈ کلر کی مہنگی ترین گاڑی جو کہ بغیر چھت کے تھی تیز رفتار سے بھاگتی ہوئی یونی کے چکر لگانے لگی تو لڑکیوں نے شور مچایا،،،
دو سے تین چکر کاٹنے کے بعد وہ گاڑی رکی اور اس میں سے ایک لڑکا باہر نکلا،،،
بلیک پینٹ وائٹ شرٹ اور بلیک اپر پہنے اس کے بال ایک طرف کو ڈھلے ہوئے تھے اور کچھ اس کی پیشانی کی ایک سائیڈ سے سامنے آرہے تھے،،،
چہرے کے باریک دلکش نقوش آنکھوں پر بلیک سن گلاسز لگائے وہ گاڑی سے نکلا تو ایک لڑکی اس کے پاس بھاگی،،،
Oh Edward my baby.
اگلے ہی پل وہ ایڈورڈ کو فرینچ کس کرنے میں مصروف تھی،،،
عنائزہ کھلے منہ کے ساتھ ان دونوں کو دیکھنے لگ گئی کیوں کہ جس طرح سے اس نے انٹری ماری تھی پوری یونی کا دھیان ان پر تھا،،،
ہاہا ان سب کی عادت ڈال کو یہ یہاں روز کا معمول ہے،،، لیلہ عنائزہ کا کھلا منہ دیکھ کر ہنسنے لگی
یہ کون ہے،،، عنائزہ کی نظریں ابھی بھی اسی پر تھیں
یہ ایڈورڈ ہے یہاں کے پرنسپل کا بیٹا،،،
کافی ہینڈسم ہے،،، عنائزہ نے کہا تو لیلہ نے نفی میں سر ہلایا
ہینڈسم تو ہے لیکن اس سے بچ کر رہنا،،، لیلہ نے اسے وارن کیا
کیوں ایسا کیا ہے،،، عنائزہ حیران ہوئی
کیوں کہ یہ جس لڑکی کو ایک بار پسند کر لے اس کی جان تب تک نییں چھوڑتا جب تک اسے یوز نہ کر لے،،،
کیا،،، اس کی بات پر عنائزہ کا حیرت سے منہ کھلا
اگر کوئی لڑکی رضامند نہ ہو تو،،، عنائزہ نے سوال کیا
اس پوری یونی میں ایسی کوئی لڑکی نہیں جو ایڈورڈ کو پسند نہ کرتی ہو،،، لیلہ نے بیگ سے واٹر بوٹل نکال کر منہ کو لگائی
اس یونی میں تو تم بھی شامل یو لیلہ،،،
میں بھی ان لڑکیوں میں ہی ہوں،،، لیلہ نے اس کی بات کا جواب دیا
کیاااا،،، حیرت سے عنائزہ کا ایک بار پھر سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیوں کہ لیلہ ایک پاکستانی لڑکی تھی عنائزہ کو اس سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی،،،
کالم ڈاؤن میری جان میں ان لڑکیوں میں سے ضرور ہوں جو ایڈورڈ کو لائک کرتی ہیں لیکن ان لڑکیوں میں سے نہیں جو اس کی راتوں کو رنگین بناتی ہیں،،، لیلہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
تھینک گاڈ،،، عنائزہ نے لمبا سانس لیا تو لیلہ مسکرا کر رہ گئی
مجھے یہاں کی لائبریری دیکھنی ہے کیا تم مجھے لے چلو گی،،، عنائزہ کو لائبری دیکھنے کا شوق ہوا تو اس نے کہا
ہاں ضرور چلو لے چلتی ہوں،،،
اب ان دونوں کا رخ لائبریری کی طرف تھا،،،
لائبریری میں داخل ہوتے ہی عنائزہ حیرت سے کبھی دائیں سائیڈ کبھی بائیں سائیڈ اور کبھی چھت کی طرف دیکھتی اتنی بڑی اور بکس سے فل لائبریری اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی،،،
واؤ یہ تو بہت خوبصورت ہے،،، اچانک عنائزہ کے منہ سے نکلا جب لیلہ نے اس کی کہنی پر چٹکی کاٹی
افف کیا ہے،،، عنائزہ ایک بار پھر سے بولی
جب اس کی نظر سامنے بیٹھے سٹوڈینٹس پر پڑی جو اسے ہی گھور رہے تھے تو عنائزہ کو اپنی علطی کا احساس ہوا،،،
وہ شرمندہ سی نظریں جھکاتی ہوئی لیلہ کے ساتھ ایک چئیر پر جا کر بیٹھی گئی،،،
روحان صبح سے اداس سا پورے گھر کے چکر لگا رہا تھا عنائزہ کے بغیر اسے ایک پل بھی سکون نہیں آرہا تھا لیکن وہ اپنے دل کو سمجھاتا ہوا اپنے آپ پر کنٹرول کرنے لگا،،،
دو گھنٹے بوریت میں گزارنے کے بعد اس کے ذہن میں باکسنگ پریکٹس کا آیا تو اس روم کی طرف چلنے لگا جہاں عنائزہ نے باکسنگ لگوائی تھی،،،
اس نے ہاتھوں پر گلوز پہنے اور باکسنگ شروع کی،،،
عنائزہ کی دوری کو برداشت کرنے کے لیے وہ اپنی پوری قوت سے پنچ مار رہا تھا،،،
آدھے گھنٹے تک وہ تھک کر سائیڈ چئیر پر بیٹھا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا،،،
کیسے رہوں گا میں تمہارے بغیر عنائزہ،،، اس نے آنکھیں بند کر کے درد سے کہا
تمہیں دیکھنے بھی نہیں جا سکتا،،، اس نے شدت سے اپنی مٹھیاں بھینچیں
تمہیں مظبوت بننا ہو گا روحان یہ جو اب ہے یہ تم نہیں ہو تمہیں اپنے اندر کا سٹرونگ روحان باہر لانا ہو گا تا کہ کسی بھی وقت تمہارا جب دل چاہے تم باہر جا سکو انسانوں کا سامنا کر سکو اور اپنی عنائزہ سے مل سکو اسے دیکھ سکو،،،
وہ خوف کلام ہوا اور ایک بار پھر ہمت کرتے ہوئے اٹھا اور باکسنگ شروع کی،،،
عنائزہ نیو یارک ہسٹری کی بک لے کر بیٹھی اور دلچسپی سے پڑھنے لگی،،،
جبکہ لیلہ بائیو کی بک لیے بیٹھی تھی،،،
تبھی لائبریری میں ایڈورڈ ساتھ ساتھ ایک لڑکی ( جو گراؤنڈ میں اسے کس کر رہی تھی) کو لیے اندر داخل ہوا
وہ دونوں خاموشی سے ایک ٹیبل پر بیٹھے،،،
یہ یہاں کیا کر رہا ہے،،، عنائزہ کی نظر ایڈورڈ پر پڑی تو وہ سرگوشی سے لیلہ سے پوچھنے لگی
لائبریری کس لیے ہوتی ہے ظاہری بات ہے بکس ریڈ کرنے آیا ہے،،، لیلہ عنائزہ کے سوال پر آنکھیں گھما کر رہ گئی
لیکن دکھنے میں لگتا تو نہیں کہ یہ بھی سٹڈی پر دھیان دیتا ہو گا،،،
عنائزہ کے دوارے بے تکے سوال پر لیلہ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا،،،
اس کے فیس پر کہیں لکھا ہے کیا کہ وہ ان پڑھ ہے وہ ہر سال یونی کا ٹاپر ہوتا ہے،،، لیلہ نے سرگوشی سے کہا
کیاااا،،، عنائزہ کا پھر سے منہ کھلا کیوں کہ اسے اس امیر زادے سے سٹڈی میں اتنی قابلیت کی امید نہ تھی،،،
چپ کر جاؤ ورنہ ہم لائبریری سے نکال دیے جائیں گے،،، عنائزہ نے ایک اور سوال کے لیے ابھی منہ کھولا ہی تھا جب لیلہ جلدی سے بولی
عنائزہ نے بک پر سر جھکایا اور پڑھنے لگی،،،
ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے جب کسی نے انگلی سے ٹیبل پر اس کی سائیڈ آکر ٹک ٹوک کیا،،،
عنائزہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ ایڈورڈ کے ساتھ والی لڑکی تھی،،،
ییلو بال ایکسٹرا وائٹ کلر چھوٹی آنکھیں وہ دکھنے میں عنائزہ کو کافی تیز اور مکار لگی،،،
What?
عنائزہ نے حیرت سے کہا
Give me this book.
اس نے عنائزہ کے ہاتھ میں موجود بک کی طرف اشارہ کیا،،،
But why,,,
عنائزہ نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے پوچھا
Don't ask too much i want this book.
وہ عنائزہ کے ہاتھ سے بک چھیننے لگی جب عنائزہ نے بک کو اس کی پکڑ سے دور کیا،،،
Go and find the duplicate of it.
عنائزہ بھی اپنی ضد کی پکی تھی،،،
ان دونوں کی آواز سے سبھی سٹوڈینٹس ڈسٹرب ہونے لگے،،،
عنائزہ اسے بک دے دو ایڈورڈ کی نظر میں مت آؤ پلیز،،، لیلہ نے پریشانی سے کہا جس کا عنائزہ پر کوئی اثر نہ ہوا
Stupid girl, Edward asked to bring this book.
اس کے "سٹوپڈ گرل" والے لفظ پر عنائزہ نے ہونٹ بھینچے،،
I will not give you, go and tell you Edward to come and get it.
عنائزہ نے ہر لفظ چبا چبا کر کہا،،،
اس کی بات سن کر اس لڑکی کا منہ کھلا اور وہ غصے سے واپس مڑی،،،
اس نے ایڈورڈ کے پاس جا کر ابھی اپنا منہ کھولا ہی تھا جب ایڈورڈ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ رہنے کہا اور کولڈ آئیز سے عنائزہ کی طرف دیکھنے لگا،،،
عنائزہ بھی چیلنج کرتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی،،،
وہ عنائزہ سے دس بارہ فیٹ کے فاصلے پر تھا عنائزہ نے اس کی براؤن آنکھوں کو نوٹ کیا کیوں نہ ہوتیں آخر نیویارک کی پیدائش تھا،،،
ایک منٹ تک وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے جب لیلہ کی نظر ان دونوں پر پڑی اس نے جلدی سے اپنے ہاتھ سے عنائزہ کا رخ اپنی طرف کیا،،،
ابھی چلو یہاں سے،،، وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی لائبریری سے باہر لے آئی
ایڈورڈ عنائزہ کی پشت کو دیکھتا رہا جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی،،،
عنائزہ تم پاگل تو نہیں ہو میں نے تمہیں کہا تھا ایڈورڈ کی نظروں کا مرکز مت بننا تم نے الٹا اس سے پنگا لے لیا،،، لیلہ پریشانی سے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولی
تو کیا میں اس کو ایسے ہی بک دے دیتی میں نے اتنی مشکل سے ڈھونڈی تھی،،، عنائزہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی
یار عزت سے بڑھ کر تو نہیں تھی وہ بک اب دعا کرو کہ تم اسے پسند نہ آئی ہو ایک تو تم ہو بھی خوبصورت اوہ گاڈ،،، لیلہ بینچ پر بیٹھی
لیلہ کو اتنا پریشان دیکھ کر اب عنائزہ کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہو رہا تھا کیا واقع ہی ایڈورڈ اس کے لیے خطرے کا باعث تھا،،،
تمام لیکچرز ختم ہو چکے تھے لیکن ایڈورڈ دوبارہ عنائزہ کے سامنے نہیں آیا تھا اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور گیٹ پر گئی،،،
شفیق ٹائم سے پہلے ہی اسے لینے کے لیے پہنچا ہوا تھا عنائزہ گاڑی میں بیٹھی اور شفیق نے گاڑی سٹارٹ کی،،،
بیس منٹ میں وہ گھر کے باہر تھی،،،
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو روحان باکسنگ سے تھک کر فریش ہونے کے بعد بیڈ پر آنکھیں بند کر کے لیٹا تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ عنائزہ گھر میں داخل ہو چکی ہے،،،
روحان میری جااان،،، عنائزہ بکس رکھتے ہی اس پر ہاوی ہوئی
روحان نے جلدی سے اپنی آنکھیں کھولیں اور عنائزہ کے خون چہرے کو دیکھنے لگا،،،
عنائزہ کو وہ یوں دیکھتا ہوا کیوٹ لگا تو اس نے آگے بڑھ کر اس کی تھوڑی کو چوم لیا،،،
کیسا ہے میرا شائے ہبی،،، روحان کے بلش کرنے پر عنائزہ بولی
ٹھیک ہوں تمہارا دن کیسا رہا،،،
دن تو بہت اچھا تھا لیکن اپنے ہبی کو بہت مس کیا،،، اس نے روحان کے سینے پر سر رکھا اور اس کے گرد بازو تنگ کیے،،،
تمہارا دن کیسا گزرا،،، عنائزہ نے پوچھا
ہاں بہت اچھا تھا،،، وہ عنائزہ کو نہیں بتانا چاہتا تھا تا کہ وہ یونی میں اپنا دھیان سٹڈی پر رکھ سکے
اور ریئلی،،، عنائزہ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو روحان نظریں جھکا گیا
میں جانتی ہوں تم نے مجھے مس کیا جھوٹ بولنے کی ضروت نہیں،،، اس نے روحان کے نرم رخسار کو چومتے ہوئے کہا
روحان کے دل نے ایک بیٹ مس کی اور وہ اسے بنا آنکھ جھپکے دیکھنے لگا،،،
عنائزہ نے اس کی پیشانی پر لب رکھے،،،
مجھے ایک پاکستانی لڑکی ملی جسے میں نے دوست بھی بنا لیا ہے اب میں ایزیلی وہاں ایڈجیسٹ ہو سکتی ہوں،،،
اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے،،، روحان مسکرایا
اور پتہ ہے آج یونی میں کیا ہوا،،، عنائزہ شرارت سے بولی
کیا ہوا،،، روحان نے پوچھا
ایک لڑکا اور لڑکی نے پوری یونی کے سامنے کس کیا،،،
اس کی بات سن کر روحان نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں،،،
اور ایک تم ہو کہ اکیلے میں بھی مجھے کس نہیں کر سکتے،،، وہ اپنے چہرے پر نقلی اداسی لاتے ہوئے بولی
اس کی بات پر روحان نے آنکھیں جھپکیں،،،
کِس می روحان،،، وہ شرارت سے بولی
روحان نے اس کے چہرے پر غور کیا تو اسے معلوم ہو گیا وہ اپنی ہنسی دبا رہی ہے،،،،
اٹھو فریش ہو جاؤ،،، وہ اسے اپنے اوپر سے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا
عنائزہ کھلکھلا کر ہنسی اور اس کی پیشانی پر لب رکھے،،،
بہت بھوک لگی ہے ساتھ مل کر لنچ کریں گے،،، اس نے کھڑے ہو کر کہا
وہ وارڈ ڈروب سے سادہ سا ڈریس نکال کر واش روم گھس گئی،،،
لنچ کرنے کے بعد شام ہونے کو تھی جب وہ روم میں صوفے پر بیٹھی سٹڈی کر رہی تھی جب روحان دروازہ کھولے اندر داخل ہوا،،،
وہ اسے سٹڈی کرتا دیکھ کر اداس ہوا کہ اب بھی وہ اسے وقت نہیں دے پا رہی لیکن اس کی سٹڈی جاری رکھنے کا مشورہ روحان کا ہی تھا جس وجہ سے وہ عنائزہ سے کوئی شکوہ بھی نہیں کر سکتا تھا،،،
وہ صوفے پر آکر بیٹھا اور لیٹتے ہوئے عنائزہ کی گود میں سر رکھا،،،
ارے ارے،،، عنائزہ مسکرانے لگی
تم ایسے لیٹے رہے تو میں سٹڈی کیسے کروں گی،،، وہ اس کی طرف دیکھتی بولی
جیسے بھی کرو میں اب یہیں لیٹوں گا،،، اس نے عنائزہ کے بالوں کی ایک لٹ پکڑی اور انگلیوں میں گھمانے لگا
عنائزہ نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا اور پھر سے بکس پر دھیان دیا،،،
روحان کبھی اس کے بالوں سے کھیلتا کبھی اس کی تھوڑی کو پکڑتا اور کبھی اس کی گردن پر انگلی چلاتا،،،
عنائزہ اس کی شرارتیں برداشت کرتی رہی کیوں کہ اسے صبح کے لیے لیسن لازمی پریپئر کرنا تھا،،،
روحان اسے دیکھ دیکھ کر سکون حاصل کر رہا تھا باقی پورے دن کی کثر بھی ابھی نکال رہا تھا جب عنائزہ یونی تھی اور وہ اسے دیکھ نہیں سکا تھا،،،
ایک گھنٹہ وہ یوں ہی اپنے کام میں مصروف رہی اور روحان اپنے کام میں،،،
سام کا اندھیرا چھا چکا تھا جب عنائزہ نے بکس ٹیبل پر رکھیں اور روحان کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی،،،
کب سے چھیڑ رہے ہو مجھے تمہیں معلوم تو ہے جب میں موڈ میں ہوتی ہوں تو کتنا تنگ کرتی ہوں تمہیں،،، عنائزہ نے اسے آنکھ مارتے ہوئے کہا
عنائزہ کے موڈ میں آنے والی بات ہر روحان تیزی سے اٹھ کر بیٹھا،،،
اب کہاں بھاگ رہے ہو چپ چاپ واپس لیٹو،،، عنائزہ نے حکمیہ کہا
روحان نے نفی میں سر ہلایا کیوں کہ وہ جانتا تھا عنائزہ اب کیا کرے گی،،،
لیٹو واپس نہیں تو میں خود بھی تم تک آ سکتی ہوں،،،
روحان نے چپ چاپ واپس اس کی گود میں سر رکھا کیوں کہ وہ جانتا تھا غلطی اسی کی ہے جو اتنی دیر اسے تنگ کرتا رہا،،،
اس کے بچوں کی طرح بات ماننے پر عنائزہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری،،،
Can i kiss u?
عنائزہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
روحان کچھ دیر تک اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر اثبات میں سر ہلایا،،،
اس کے پہلی بار رضامند ہونے ہر عنائزہ کو اچھا لگا اور اس کے ہونٹوں پر جھکی،،،
روحان کا چہرہ اس کے بالوں سے چھپ گیا وہ آنکھیں بند کیے عنائزہ کی قربت کو محسوس کرنے لگا،،،

ڈیوِل کو جب معلوم ہوا کہ مریم ماں بننے والی ہے تو وہ طیش میں آکر چیزوں کی توڑ پھوڑ کر رہا تھا،،،
نہیییییں۔۔ اس نے ڈریسنگ کے آگے سے قیمتی پرفیومز پر ہاتھ مارا جو اگلے ہی پل زمین پر کرچی کرچی ہو کر پورے کمرے لو خوشبو سے نہلا گئے،،،
تم صرف میری یو میرّی تمہیں کوئی بھی طاقت مجھ سے نہیں چھین سکتی،،،
آج تک میں گھر والوں کا لیحاظ کرتا آیا ہوں لیکن اب بس بہت ہو گیا لیحاظ اب مجھے تمہیں حاصل کر کے رہنا ہے چاہے اس کے لیے مجھے کسی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے،،،
اس کی آنکھوں میں آگ بھڑک رہی تھی جیسے کسی بہت بڑے خطرے کی آمد کا بتا رہی ہو،،،
مریم اس دن سے بہت پریشان تھی لیکن سب کو لگا کہ طبعیت خراب ہونے کہ وجہ سے وہ خاموش ہے،،،
ارسم ایک بات پوچھوں،،، ارسم آفس کی کچھ فائلز دیکھ رہا تھا جب مریم بولی
ہاں پوچھو،،،
ا۔۔اگر مطلب فرض کرو اگر ر۔۔راحیل ہماری زندگی میں پھر سے لوٹ آئے تو تم کیا کرو گے،،، اس نے جھچکتے ہوئے پوچھا
راحیل کا نام سن کر ارسم کے چہرے کا سکون غائب ہوا وہ سرد نظروں سے مریم کی طرف دیکھنے لگا جسے دیکھ کر مریم کو لگا کہ اس نے غلط سوال کر دیا ہے،،،
میں اسے جان سے مار دوں گا،،، وہ سرخ آنکھوں سے کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
مریم کا حلق خشک ہونے لگا کہ اگر ارسم کو معلوم ہق جائے کہ راحیل واقع ہی واپس آچکا ہے تو کیا ہو گا،،، پریشانی سے اس نے ماتھے پہ آئے پسینے کے قطرے صاف کیے،،،
چچی جان آج کیا بن رہا یے کھانے میں،،، مریم نے کچن کے دروازے پر کھڑے ہو کر پوچھا
آج میں ساگ بنا رہی ہوں ساتھ مکئی کی روٹی بھی بناؤں گی جب سے شہر آئے ہیں یہ چیزیں کھانے کو ہی نہیں ملتیں،،، دردانہ بیگم مکئی کا آٹا گوندتے ہوئے بولیں
عقیلہ کہاں ہے آپ کیوں آٹا گوند رہی ہیں،،،
تمہیں پتہ تو ہے عقیلہ کو مکئی کا آٹا صحیح طرح سے گوندنا نہیں آتا اس لیے سوچا خود گوند لوں،،،
ٹھیک ہے چچی جان میں لاؤنج میں بیٹھی ہوں بہت بھوک لگی ہے مجھے جلدی کھانا بھیج دیجیے گا،،،
بس ابھی بھیجتی ہوں میری بچی فکر ہی نہیں کرو،،، دردانہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تو مریم لاؤنج میں آکر بیٹھ گئی
رات کے آٹھ بج رہے تھے اور اسم ابھی تک واپس نہیں آیا تھا مریم کو اپنے سوال پر پچھتاوا ہو رہا تھا،،،
کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آکر لیٹی،،،
اسے لیٹے ہوئے ابھی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے جب مریم کے کانوں میں دروازے کا لاک لگنے کی آواز پڑی،،،
ارسم کے آجانے کی خوشی میں وہ مسکراتے ہوئے اٹھی لیکن سامنے کا منظر اس کے پاؤں تلے سے زمین کھنچ لے گیا،،،
ت۔۔تم،،، ڈیوِل کو دیکھ کر مریم کی آواز لڑکھڑانے لگی اس نے تیزی سے کھڑکی کی طرف دیکھا جو کہ کھلی تھی
کیوں میں نہیں آسکتا اپنی جان کے پاس،،، ڈیوِل نے آہستہ سے اس کی طرف قدم بڑھائے
ر۔۔رک جاؤ نہیں تو میں شور مچا دوں گی،،،
اچھا تو چلو مچاؤ شور،،، ڈیوِل کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ بکھری
مریم نے چینخنے کے لیے ابھی لب کھولے ہی تھے جب ڈیوِل بجلی کی تیزی سے اس کے قریب آیا اور اسے پکڑ کر دیوار سے لگایا،،،
ششششش،،، اس نے مریم کے ہونٹوں پر انگلی رکھی
خوف سے مریم کو اپنی ٹانگیں کانپتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں،،، وہ آنکھیں پھاڑے ڈیوِل کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی
اس رات بہت سکون ملا تمہاری قربت میں،،، اس نے مریم کی گردن میں منہ چھپاتے ہوئے لمبا سانس کھینچا
د۔۔۔دور ہو جاؤ پلیز،،، مریم کی رخساروں پر آنسو پھسلنے لگے تھے
اس رات تم نے بھی میرا پورا ساتھ دیا تھا میرّی،،، اس نے مریم کی گردن سے بال ہٹائے ابھی اس کے ہونٹ مریم کی گردن کو چھو نہ پائے تھے جب مریم نے اسکے سینے کو دونوں ہاتھوں سے دھکیلا
دور رہو مجھ سے اپنے ناپاک وجود کو مجھ سے دور رکھو،،، وہ ہانپتی ہوئی بول رہی تھی
اپنے دھتکارے جانے پر ڈیوِل سرد آنکھوں سے مریم کی طرف دیکھنے لگا جس سے مریم پھر سے خوفزدہ ہوئی،،،
میرّی،،، وہ سرگوشی نما چلاتا ہوا مریم کے قریب آیا اور اسے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا
آئندہ مجھے دھتکارنے کی جرأت مت کرنا ورنہ تمہارے ساتھ وہ کروں گا جس پہ تمہیں پوری زندگی پچھتانا پڑے گا، اور میری ایک بات کان کھول کر سن لو تم صرف اور صرف میری ہو صرف ڈیوِل کی اور تمہارا وہ ارسم چند دنوں کا مہمان ہے میری بات یاد رکھنا تم بہت جلد میرے پاس آنے والی ہو،،، وہ ایک ایک لفظ دانست پیستے ہوئے بول رہا تھا
ک۔۔۔کبھی نہیں میں م۔۔مر جاؤں گی لیکن تمہارے س۔۔ساتھ رہنا قبول نہیں کروں گی چاہے مجھے اس کے لیے م۔۔۔مرنا ہی کیوں نہ پڑے،،، رخساروں پر بہتے آنسوؤں سے وہ تکلیف زدہ سا بول رہی تھی
مر لو گی تم اس بچے کے ساتھ جو تمہارے پیٹ میں ہے،،، وہ مریم کے پیٹ پر انگلیاں گھمانے لگا لیکن اس کے بالوں پر گرفت ابھی بھی ڈھیلی نہ چھوڑی تھی
خوف سے مریم کی آنکھیں پھیلنے لگیں کہ ڈیوِل کو اس کے بچے کا کیسے معلوم ہوا کہیں وہ اس کے بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے،،،
ہممم بولو اس حالت میں تم مرنا پسند کرو گی میرّی،،،
ن۔۔۔نہیں پلیز چلے جاؤ میری زندگی سے مجھے میری زندگی میں خوش رہنے دو،،، وہ سسکیوں سے اس کے سامنے یاتھ جوڑتے ہوئے بولی
ڈیوِل نے اس کے بالوں کو گرفت سے آزاد کیا اور اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا،،،
تم چاہے جتنا بھی رو لو گڑگڑا لو لیکن تمہیں میرا ہونا ہی پڑے گا وہ بھی بہت جلد،،، وہ مریم کے دونوں ہاتھوں کو چومتا ہوا واپس مڑا
اور ہاں کل صبح ہی تمہیں ایک گڈ نیوز ملے گی،،، وہ شیطانی مسکراہٹ سے کھڑکی سے نکل گیا
مریم ٹوٹے ہوئے وجود کے ساتھ زمین پر بیٹھی اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونے لگی،،،
اگلے دن مریم نے پریشانی سے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا کہ آخر ڈیوِل آج کیا کرنے والا ہے یہ سوچ سوچ کر اس کی ہتھیلیاں بھیگ رہی تھیں وہ گھر والوں کو ڈیوِل کے بارے میں نہیں بتانا چاہتی تھی کیوں کہ بہت مشکل سے سب راحیل کو بھلا ہائے تھے اور اب مریم کی طرف سے سب کو جو خوشی ملی تھی وہ اسے برباد نہیں کرنا چاہتی تھی،،،
ارسم ڈریسنگ کے آگے کھڑا آفس کے لیے تیار ہو رہا تھا مریم کے ذہن میں آیا کہ وہ ارسم کو آفس جانے سے کیسے بھی کر کے روک لے،،،
ارسم،،، وہ ہاتھوں کی انگلیاں مسلتے ہوئے بولی
جی جانِ من،،، ارسم ریڈی ہو کر اس کی طرف مڑا اور اسے کمر سے پکڑ کر خود کے قریب کیا
ارسم میں چاہتی ہوں آج آپ آفس نہ جاؤ،،، وہ نظریں جھکائے بولی کیوں کہ اگر وہ ارسم کی طرف دیکھتی تو ارسم ضرور پہچان لیتا کہ وہ پریشان ہے
میری پیاری بیوی میں ضرور رک جاتا لیکن آج بہت ضروری میٹنگ ہے اس لیے جانا ضروری ہے،،، اس نے محبت سے مریم کی پیشانی پر لب رکھے جس سے سکون مریم کے اندر تک اترا
ل۔۔لیکن میرا دل چاہ رہا تھا کہ آپ آج میرے پاس رہو،،،
او ہو کیا بات ہے میری بیوی کو آج مجھ پر بہت پیار آرہا ہے،،، اس نے مریم کی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا
پلیز بس آپ مت جائیں میں کہہ رہی ہوں نا،،، اس کی آنکھیں بھرنے لگیں
مریم کیا ہوا کوئی پریشانی ہے کیا مجھے بتاؤ کیا بات ہے،،، مریم کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ پریشان ہونے لگا
نہیں کوئی بات نہیں ہے بس میرا دل چاہ رہا ہے آپ میرے ساتھ رہو آج پلیز مان جائیں،،، مریم نے روتے ہوئے کہا
اوکے جیسے میری پیاری بیوی کہے نہیں جاؤں گا اب خوش چلو اب مسکرا کر دکھاو،،،
اس نے مریم کے رخساروں کو صاف کرتے ہوئے کہا تو مریم کی جان میں جان آئی اور وہ ارسم کی طرف دیکھتی ہوئی مسکرائی
یہ ہوئی نا بات ایسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونا شروع کر دیتی ہو،،، ارسم نے اس کی ناک کو کھینچتے ہوئے کہا تو مریم ہنستے ہوئے اس کے سینے پر سر رکھ گئی
ارسم اور مریم باقی فیملی کے ساتھ لنچ کرنے میں مصروف تھے جب گھر کا ٹیلی فون رنگ ہوا،،،
درانہ بیگم فون سننے کے لیے اٹھی جب ارسم بولا،،،
رکیے امی جان میں سنتا ہوں،،، وہ ٹشو سے ہاتھ صاف کرتا ہوا اٹھا
ہیلو،،، اس نے فون کان کو لگا کر کہا لیکن اگلے ہی پل اس کے چہرے کے تاثرات بدلتے ہوئے دکھائی دینے لگے،،،
مریم جو ارسم کی طرف ہی دیکھ رہی تھی اس کے دماغ میں کسی ان ہونی کی گھنٹیاں بجنے لگیں
کیا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کب اور کہاں،،، وہ سکتے ہی حالت میں چلایا
یا اللہ رحم،،، دردانہ اور صفیہ دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا
رات جلدی سونے کی وجہ سے مریم آج معمول سے جلدی جاگ گئی تھی جس وجہ سے وہ ڈائری اٹھائے پڑھنے لگی تھی،،،
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جو صبح کے سات بجا رہی تھی وہ اٹھی اور فریش ہونے کے لیے واش روم چلی گئی،،،
دس منٹ بعد وہ باہر نکلی تو روحان آنکھیں مسلتا ہوا بیٹھا تھا،،،
اٹھ گئے چلو فریش ہو جائے مل کے ناشتہ کرتے ہیں پھر مجھے جانا بھی ہے،،، وہ ٹاول سے اپنے گیلے بالوں کو صاف کرتے ہوئے بولی
عنائزہ کے جانے والی بات پر روحان کے چہرے پر اداسی کے اثرات چھائے جنہیں چھپانے کے لیے وہ تیزی سے اٹھ کر واش روم گھس گیا،،،
ناشتہ کرنے کے بعد مریم جانے لگی جب روحان بولا،،،
میں بھی جاؤں گا تمہیں چھوڑنے،،،
لیکن تمہیں تو ڈرائیونگ نہیں آتی،،، عنائزہ حیران ہوئی
شفیق ڈرائیو کرے گا میں بس ویسے ہی جاؤں گا دیکھ بھی لوں گا کہاں ہے یونی اور کیسی ہے،،،
سوچ لو روحان یونی کے باہر کافی رش ہوتا ہے،،،
کوئی بات نہیں میں ہینڈل کر لوں گا،،، وہ بس عنائزہ کے ساتھ کچھ وقت اور گزارنا چاہتا تھا چاہے اس کے لیے اسے انسانوں کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑتا،،،
اوکے آؤ پھر،،، عنائزہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے بولی
وہ روحان کے ساتھ بیک سیٹ پر بیٹھی اور شفیق ڈرائیو کرنے لگا،،،
راستے میں وہ دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے وہ بیس منٹ کا سفر روحان کو دو منگ منٹ کا لگ رہا تھا،،،
جیسے ہی گاڑی مین سڑک پر چھڑی تو روحان نے ادھر ادھر نظر دوڑائی جہاں ٹریفک سے انسانوں کا رش لگا ہوا تھا،،،
کالم ڈاؤن روحان کالم ڈاؤن،،، وہ اپنے آپ کو دل ہی دل میں کہہ رہا تھا
عنائزہ نے روحان کے چہرے پر چھائے خوف کو دیکھا لیکن یہ بھی نوٹ کیا کہ وہ خود پر قابو پانے کی کوشش رہا ہے،،،
روحان آر یو اوکے،،،
آئم اوکے،،، عنائزہ کے پوچھنے پر روحان نے جواب دیا
یونی کے باہر گاڑی کی بریک لگی روحان نے مختلف قسم کی مہنگی گاڑیوں سے نکلتے ہوئے فیشن ایبل لڑکوں کو دیکھا پھر اپنے آپ پر ایک نظر ڈالی،،،
اوکے روحان میں جا رہی ہوں اپنا بہت سارا خیال رکھنا اوکے میری جان،،، وہ روحان کی رخسار چومتے ہوئے باہر نکل گئی،،،
شفیق نے گاڑی واپس لی اور سارے راستے روحان سیٹ سے ٹیک لگائے یہی سوچتا رہا کہ اس نے اپنی آدھی زندگی گھر میں قید رہ کر گزار دی نہ دنیا کے رنگ دیکھے نہ کبھی انجوائے کیا، کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی مرضی سے باہر آجا سکتے ہیں،،، اداسی نے اس کے دل کو گھیرے میں لیا
عنائزہ ٹائم پر پہنچ چکی تھی وہ کلاس میں انٹر ہوئی تو لیلہ اسی کا ویٹ کرتی دکھائی دی،،،
ہائے لیلہ، تم کافی جلدی آجاتی ہو یونی،،، عنائزہ چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولی
ہاں ہوسٹل رہتی ہوں اس لیے جلدی آجاتی ہوں تم بتاؤ کوئی پریشانی تو نہیں ہوتی آنے میں،،،
نہیں بیس منٹ لگتے ہیں بس نکال لیتی ہوں کیسے کر کے،،، اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور کلاس میں میم انٹر ہوئی
کلاس لیتے وقت عنائزہ کو اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی اس نے گردن گھما کر آس پاس دیکھا لیکن کوئی نہ تھا،،،
پورا گھنٹہ اس نے بے چینی سے گزارا اور ٹائم اوور ہوتے ہی سکون کا سانس لیا کہ اب وہ کلاس سے باہر جا سکے گی،،،
جیسے ہی وہ باہر نکلی اس نے کھل کر سانس لیا،،،
لیلہ مجھے نیکسٹ لیکچر کے بارے میں تم سے ڈسکس کرنی ہے ایک جگہ سے مجھے سمجھ نہیں آہا ہے،،، وہ گراؤنڈ کی طرف چلتی ہوئی بول رہی تھی جب اسے لیلہ کا جواب نہ آیا تو مڑ کر پیچھے دیکھا،،،
پیچھے تو لیلہ تھی ہی نہیں، کہاں چلی گئی میرے ساتھ ہی تو باہر نکلی تھی،،، عنائزہ پریشانی سے واپس کلاس کی طرف مڑی پوری کلاس کا جائزہ لینے کے بعد بھی اسے لیلہ وہاں دکھائی نہ دی،،،
ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابھی تو میرے ساتھ تھی،،، وہ پریشانی سے کھڑی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ شاید اسے کہیں دکھائی دے جب ایک لڑکی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا،،،
Hey Laila is calling you she is in English block room no 10.
عنائزہ حیران ہوئی کہ ابھی تو وہ اس کے ساتھ تھی پھر یوں اچانک وہ کسی اور جگہ جا کر کسی لڑکی کو بھیج رہی ہے مجھے بلوانے کے لیے وہ مجھے خود بھی تو لے جا سکتی تھی،،،
وہ پریشان سی اس کے بتائے ہوئے بلاک کی طرف چلنے لگی،،،
شفیق انکل،،، شفیق لان میں بیٹھا پودوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا جب روحان اس کے پاس آیا
جی روحان بابا،،، شفیق نے خوشی سے جواب دیا
مجھے ڈرائیونگ سیکھا دو گے،،، روحان کی بات سن کر شفیق حیران ہوا
روحان بابا لیکن آپ تو کہیں جاتے نہیں پھر ڈرائیونگ کس لیے،،،
میں سیکھنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں عنائزہ کو خود یونی چھوڑنے اور لینے جایا کروں،،،
ماشاءاللّٰه‎ روحان بابا یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے چلیں پھر آپ کی ٹریننگ کب سے سٹارٹ کروں،،،
آج سے ہی،،، روحان نے بنا سوچے جواب دیا
آئیں پھر آپ کو سیکھاتا ہوں،،،
وہ روحان کو لیے گاڑی میں بیٹھا اور گیٹ سے باہر لے گیا، ایک ایک چیز کے بارے میں بتانے لگا پھر کچھ دیر گاڑی چلا کر دکھائی اور ساتھ ساتھ بتاتا گیا،،،
آدھے گھنٹے بعد وہ واپس گھر آئے تو روحان بہت اچھا محسوس کر رہا تھا اب اس کے اندر پیدا ہونے والا جذبہ بڑھتا جا رہا تھا،،،
شفیق انکل آپ عنائزہ کو اس بارے میں مت بتائیے گا،،، روحان نے سوچ لیا تھا کہ وہ فل ڈرائیونگ سیکھنے کے بعد اسے سرپرائیز دے گا،،،
ٹھیک ہے روحان بابا جیسے آپ کی مرضی،،،
وہ انگلش بلاک میں پہنچی جہاں سٹوڈینٹس نہ ہونے کے برابر تھے،،،
روم نمبر دیکھتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا جہاں لیلہ چئیر پر بیٹھی دکھائی دی،،،
اففف لیلہ تم یوں اچانک آگئی مجھے ساتھ لے آتی یوں کسی کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی اور یہ کونسی جگہ ہے یہاں کیوں آئی ہو ہم تو فری پیرید میں گراؤنڈ میں بیٹھتے ہیں نا،،، وہ بنا لیلہ کے چہرے کے تاثرات نوٹ کیے نان سٹاپ بول رہی تھی
کیا ہوا تم نے جواب نہیں دیا،،، عنائزہ کی نظر اب لیلہ کے پریشان چہرے پر پڑی تھی
لیلہ نے اسے پیچھے مڑنے کا اشارہ کیا تو عنائزہ پیچھے مڑی اگلے ہی پل عنائزہ کے چہرے کے تاثرات بدل گئے،،،
ایڈورڈ دروازے کے ساتھ والی چئیر پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ دو لڑکیاں چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے عنائزہ کو دیکھ رہی تھیں،،،
ایڈورڈ نے ہاتھ کے اشارے سے ان دونوں کو لیلہ کو لے کر باہر جانے کا اشارہ کیا،،،
تو وہ دونوں لڑکیاں جن میں سے ایک ییلو بالوں والی لڑکی تھی لیلہ کو پکڑے باہر لے جانے لگی،،،
اپنا خیال رکھنا،،، لیلہ عنائزہ کے کان میں کہتی ہوئی باہر نکل گئی،،،
ایڈورڈ سرد نظروں سے عنائزہ کی طرف دیکھ رہا تھا جب عنائزہ نے سینے پر ہاتھ باندھے اور چیلینج کرتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی،،،
عنائزہ کی اس جرأت پر ایڈورڈ کے باریک ہونٹ ہلکے سے مسکرائے اور وہ اٹھ کر عنائزہ کی طرف بڑھنے لگا،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 14)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں