پراسرار لڑکی - پارٹ 8

 mysterious-girl


 پراسرار لڑکی - پارٹ 8

ایل ایل بی شہباز احمد ، شہزاد اور اپنے پانچوں بچوں کے ساتھ ریسٹ ہاوس پہنچ چکے تھے۔ انہیں نے گاڑی اُٹھانے والی کمپنی کو فون کرکے خراب گاڑی ٹھیک کرانے کے لیے بھیج دی تھی۔ اس وقت رات ہوچکی تھی اور وہ ریسٹ ہاؤس کے ہال میں بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے:۔

خدا شکر ہے کہ ہم صحیح سلامت یہاں پہنچ گئے ہیں‘‘ عرفان کہہ رہا تھا۔
ہاں!۔۔۔ ورنہ تو اُس آسیبی لڑکی نے ہمیں اپنا شکار بنا ہی لیا تھا۔۔۔اگر مولوی عبدالرحمن ہماری مدد نہ کرتے تو یقیناً آج ہم یہاں نہ ہوتے‘‘ شہزاد کانپ کر بولا۔
شہزاد بھائی ۔۔۔ آپ تو ایسے کانپ رہے ہیں جیسے وہ لڑکی اب بھی زندہ ہے ۔۔۔ اور آدھی رات کے وقت آپ کو اپنے ساتھ لے جائے گی‘‘ سلطان ہنس کر بولا۔
نہیں!۔۔۔ہوسکتا ہے وہ شہزاد بھائی کی بجائے تمہیں اپنے ساتھ لے جائے ‘‘ عمران نے مسکرا کر سلطان کی طرف دیکھا۔

اچھا۔۔۔ پھر تو میں تمہیں چھوڑ کر کسی صورت اُس کے ساتھ جانا پسند نہیں کروں گا‘‘ سلطان شوخ انداز میں مسکرایا۔
اوہ !۔۔۔تو یہ بات ہے ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم دونوں آپس میں مقابلہ کرلیں گے ۔۔۔جو ہار جائے گا ۔۔۔وہی اُس لڑکی کے ساتھ جائے گا‘‘ عمران نے نئی کہی۔
تو یہ مقابلہ ابھی ہی کیوں نہ ہو جائے‘‘ سلطان مکا لہراتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
ارے بھئی۔۔۔ اب اس گھر کو لڑائی کا میدان نہ بنا دینا‘‘ شہباز احمد گھبرا کر بولے۔ انہیں گھبراتے دیکھ کر دونوں شرمندہ نظر آنے لگے۔
اوہ!۔۔۔ مجھے افسوس ہے اباجان۔۔۔ میں نے اپنے بڑے بھائی سے لڑائی کرنے کاسوچا‘‘ عمران ندامت سے بولا۔

ہاں !۔۔۔ ہمیں یہ بات کسی صورت نہیں بھولنی چاہیے کہ ۔۔۔ عرفان ہمارا کھلا دشمن ہے‘‘ سلطان نظریں جھکا کر بولا جس پر عرفان چونک کر اسے پھاڑ کھانے والے انداز میں دیکھنے لگا۔ دوسرے ہنس پڑے۔
مم۔۔۔ میرامطلب ہے ۔۔۔ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے ‘‘ سلطان نے مصنوعی بوکھلاہٹ ظاہرکی۔اتنے میں سادیہ اکتا کر ان کے پاس سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور ریسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں چلی گئی۔ اسے جاتے دیکھ کر سلطان کا منہ بن گیا :۔
ہمارے ساتھ بیٹھ جاتی تو ہم اسے کھا نہیں جاتے ‘‘ سلطان تلملا کر بولا۔
یہ چھوڑو۔۔۔ اس بات پر غور کرو کہ اُس مہارانی نے اپنا کمرہ پہلے ہی منتخب کر لیا۔۔۔ اب ہمیں باقی بچے ہوئے کمرے میں گزارا کرنا پڑے گا‘‘ عدنان جل بھن کر بولا۔

میں ہاری ہوئی بازی جیت جانے میں ماہر ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان نے شرار ت بھرے انداز میں سادیہ کے کمرے کی جانب دوڑا۔ باقی بھی اُس کے پیچھے پیچھے بھاگے البتہ شہزاد اور شہباز احمد مسکرا کر وہیں بیٹھے رہ گئے ۔ وہ چاروں آگے پیچھے بھاگتے ہوئے سادیہ کے کمرے میں داخل ہوئے۔ دوسرے ہی لمحے اُن سب کے منہ ایک زبردست چیخ نکل گئی۔ مارے حیرت کے ان کا برا حال ہوگیا۔ سادیہ زخمی حالت میں کمرے کے فرش پر بے ہوش پڑی تھی اوراس کے ماتھے سے بہتا ہوا خون اس کے گالوں کو سرخ کر رہا تھا۔
ان چاروں کی چیخ سن کر شہباز احمد اور شہزاد بدحواسی کے عالم میں دوڑتے ہوئے سادیہ کے کمرے میں آئے۔ اگلے ہی پل ان کا بھی منہ حیرت اور خوف سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ شہباز احمد نے آگے بڑھ کر سادیہ کو گود میں اُٹھایا اور پلنگ پر ڈال دیا۔ شہزاد ڈاکٹر کو فون کرنے چلا گیا۔ ڈاکٹر کو آنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا کیونکہ وہ شہر سے یہاں آیا تھا۔ ڈاکٹر نے فوراً سادیہ کا علاج شروع کر دیا۔ اپنے میڈیکل سوٹ کیس سے اُس نے مرہم پٹی کا سامان نکالا اور ماتھے پر موجود گہرہ زخم صاف کر کے اُس پر پٹی باندھ دی۔ سادیہ اس وقت مکمل طور پر بے ہوش تھی۔ ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ دوائیاں بھی بتا دیں جس سے اس کا زخم جلدی بھر جائے ‘‘ شہباز احمد فکرمندی کے عالم میں بولے۔

جی ہاں ۔۔۔ میں دوائی ساتھ ہی لے آیا ہوں۔۔۔ آپ کے اسسٹنٹ کے فون سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ کس قسم کی دوائی کی ضرورت ہوگی۔۔۔ میں فلحال کچھ درد کم کرنے کی اور زخم بھرنے کی دوائیاں دے رہا ہوں۔۔۔ باقی اگر کوئی اور مسئلہ ہو تو مجھے فوراً فون کر لیجئے گا‘‘ ڈاکٹر دوائیاں دیتے ہوئے بولا ۔شہباز احمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ سو روپے کا نوٹ ڈاکٹر کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ ڈاکٹر نے تین سو رکھ کر دو سو واپس کر دئیے۔ پھر عرفان ڈاکٹر کو باہر چھوڑنے کے لیے کمرے سے نکل گیا۔ ابھی وہ کمرے سے گیا ہی تھا کہ سادیہ نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ سب پریشانی کے عالم میں سادیہ کی طرف بڑھے:۔
آہ!!! ۔۔۔ ‘‘ سادیہ کراہتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ سکی۔

تمہیں ہوا کیا تھا۔۔۔آخر تم بے ہوش کیسے ہوگئی تھی‘‘ سلطان نے پر زور لہجے میں پوچھا۔تبھی عرفان بھی کمرے میں داخل ہوگیا اور سادیہ کی طرف دیکھنے لگا:۔
مم۔۔۔ میں بے ہوش کیسے ہوئی تھی ۔۔۔ مجھے کچھ یاد نہیں‘‘ سادیہ نے پریشانی سے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔ اُن سب نے حیرت سے سادیہ کی طرف دیکھا۔ پھر شہباز احمد شفقت بھرے لہجے میں آگے بڑھے:۔
کوئی بات نہیں بیٹی ۔۔۔ تم ابھی آرام کرو۔۔۔ جب کچھ یاد آجائے تو ہمیں بتا دینا۔۔۔ چلو بھئی!۔۔۔سادیہ کو آرام کرنے دو‘‘ شہباز احمد سادیہ کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہتے چلے گئے اور پھر کمرے سے باہر کا رخ کیا۔ دوسرے بھی اس کی طرف ہمدردی کے ساتھ دیکھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ سادیہ کھوئے کھوئے انداز میں لیٹی سوچنے لگی کہ آخر وہ بے ہوش کیسے ہوگئی تھی؟ اسے یہ گہرا زخم کس طرح لگا؟لی کن اپناپورا زور دماغ پر ڈالنے کے باوجود اسے کچھ بھی یاد نہ آیا۔ اسے لگا جیسے اُس کی کچھ دیر پہلے کی یاداشت کی پلیٹ کسی نے مکمل طور پر صاف کر دی ہو۔اسے صرف اتنا یاد تھا کہ وہ باہر ہال میں بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر اُن سب کی باتوں سے اکتا کر کمرے میں آگئی تھی۔ کمرے میں آنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا ؟ اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ اس لمحے سادیہ نے خود کو بالکل بے بس محسوس کیا اور وہ سسک کر سرد آہیں بھرنے لگی۔ پھر وہ لیٹ کر کچھ دیر تک کروٹیں بدلتی رہی۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے لیکن نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ کچھ دیر تک سونے کی کوشش کرنے پر بھی جب اسے نیند نہ آئی تو وہ جھلا گئی۔
ایک کام کرتی ہوں ۔۔۔ امی جان کو فون کرتی ہوں ۔۔۔ وہ بھی اس وقت جاگ ہی رہی ہونگی۔۔۔ ان سے بات کرلوں گی تو کچھ تسلی بھی ہو جائے گی اور نیند بھی آجائے گی‘‘ سادیہ نے سوچ کر فیصلہ کیا اور پھر سراہنے رکھے اپنے موبائل فون کو اُٹھایا اورپھر اپنی امی جان کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ دوسرے ہی لمحے سلسلہ مل گیا۔
السلام علیکم امی جان‘‘ سادیہ نے کراہتے ہوئے کہا لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہ ملا ۔سادیہ نے پھر سلام کیا لیکن اب بھی دوسری طرف سے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ سادیہ بلند آواز سے کہنے لگی:۔

امی جان !۔۔۔ آپ کو میری آواز تو آرہی ہے۔۔۔امی جان ۔۔۔ آپ لائن پر ہیں ‘‘ سادیہ اونچی آواز میں بولی۔ تبھی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ سادیہ بے چینی کے عالم میں دوبارہ کال ملانے لگی لیکن تبھی کمزوری کی وجہ سے اس کا فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے فرش پر گر گیا۔ وہ فون اُٹھانے کے لیے جھکی۔ اُسی وقت موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اس نے موبائل کی سکرین پر دیکھا۔ کال اُس کی آمی جان کی ہی تھی۔ اس نے خوشی کے عالم میں فون اُٹھا لیا لیکن دوسری طرف سے سوائے گڑ گڑ کی آواز کے اور کچھ سنائی نہ دیا۔ سادیہ زور زور سے ہیلوہیلو کرتی رہی۔ یہاں تک کہ اُس کی آواز کمرے سے باہر جانے لگی۔تبھی سلطان حیرانگی کے عالم میں کمرے میں داخل ہوا۔ سادیہ کو فون پر بات کرتے دیکھ کر چونک کراُسے دیکھنے لگا:۔
کس سے بات کر رہی ہو۔۔۔ اورگلا پھاڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔ میں اچھا بھلا سو گیا تھا‘‘ سلطان جھنجھلا کر بولا۔
امی جان سے بات کر رہی ہوں۔۔۔ دیکھو نہ ۔۔۔ امی جان آگے سے کوئی جواب ہی نہیں دے رہیں‘‘ سادیہ نے معصومیت سے کہا۔ اس کی معصوم آنکھیں دیکھ سلطان کو اپنی بھولی بھالی بہن پر بہت پیار آیا۔

اچھا۔۔۔ دکھاؤ۔۔۔ میں دیکھتا ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان اس کی طرف بڑھا۔ تبھی سلطان کے پاؤں میں کوئی چیز آئی۔ وہ چونک اُٹھا ۔ پھرپاؤں میں موجود چیز کو دیکھنے کے لئے نیچے جھکا تو اس پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔سادیہ کے فون کی بیٹری تو نیچے پڑی ہوئی تھی اور اس کا ڈھکنا یعنی کور بھی ایک طرف پڑا ہوا تھا۔ اس نے بیٹری اُٹھا کر سادیہ کو دکھائی۔ دوسرے ہی لمحے سادیہ بھی ہڑبڑا گئی۔اس نے بوکھلا کرموبائل کی سکرین پر دیکھا۔ موبائل کی سکرین کالی تھی اور وہ مکمل طور پر بند پڑا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس کا فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا تھا اس وقت ہی فون کی بیٹری فو ن سے نکل گئی ہوگی اور موبائل فون بند ہوگیا ہو گا۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی سادیہ کے چہرے پر خوف ہی خوف دوڑ گیا۔ وہ مارے خوف کے کانپنے لگی کیونکہ بند موبائل فون سے اسے اپنی امی جان کی کال کیسے آسکتی تھی ؟ کال اُٹھانے پر دوسری طرف سے گڑگڑ کی آواز بھی آرہی تھی۔ یہ سب باتیں کسی صورت ممکن نہیں تھیں۔ یہ سب سوچ کر سادیہ کے چہرے کا رنگ خوف کے مارے زرد پڑنے لگا۔

تمہارے فون کی بیٹری تو نیچے پڑی ہے ۔۔۔ پھر تم فون پر کون سی امی جان سے بات کر رہی تھی‘‘ سلطان مذاق اُڑانے والے انداز میں بولا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘ سادیہ کی خوف سے ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی۔ سلطان اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ وہ مذاق نہیں کررہی ہے۔ سلطان کے چہرے پر بھی سنجیدگی نظر آنے لگی۔وہ حیران تھا کہ سادیہ بندموبائل میں امی جان سے کیسے بات کررہی تھی اور اس کی بیٹری کا ڈھکنا نیچے گر گیا تب بھی اسے پتا کیوں نہ چلا؟ یہ سوال اس کے ذہن میں کھلبلی مچانے لگااور اسے اپنا دماغ سُن ہوتا محسوس ہوا۔
چھپکلیوں کا حملہ
رات کا ایک بج چکا تھا۔ سادیہ اپنے کمرے میں آرام سے سو رہی تھی۔ بند موبائل سے کال آنے والے حادثے کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ سلطان بھی آخر میں بنا کچھ کہے حیرت میں ڈوبا ہوا اس کے کمرے سے نکل گیا تھا۔ اس وقت وہ سب اپنے اپنے کمروں میں نیند کے مزے لے رہے تھے ۔ عرفان ، عدنان ،سلطان اور عمران کو ایک کمرہ ملا تھا اور سادیہ نے اپنا علیحدہ کمرہ خود ہی منتخب کر لیا تھا۔ شہزاد مہمان خانے والے کمرے میں سو گیا تھا جبکہ شہباز احمد سامنے والے چھوٹے سے کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ اس طرح انہوں نے رات بسر کرنے کی ٹھانی تھی۔ تبھی اچانک سادیہ کی آنکھ کھل گئی۔ جاگنے کے بعد کچھ دیر تک وہ سوچتی رہی کہ اس کی آنکھ کس وجہ سے کھلی ہے کیونکہ آس پاس تو بالکل پرسکون ماحول تھا۔ کسی قسم کا کوئی شور بھی سنائی نہیں دیا تھا۔ آخر سوچنے سے تنگ آکر سادیہ نے اپنے دماغ کو آرام دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اسے پیاس لگی تو وہ اُٹھ کر بیٹھی ۔سراہنے رکھی میز پر پانی کے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور گلاس ابھی ہونٹوں کے قریب لائی ہی تھی کہ تبھی اس کے منہ سے ایک خوفناک چیخ نکلی ۔ اس نے فوراً سوئچ بورڈ سے لائٹ جلائی۔ آگلا لمحہ اس کی زندگی کا سب سے خوفناک ترین لمحہ تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ خوف کے مارے سفید پڑ گیا۔ ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور آنکھیں خوف کے عالم میں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پورے کمرے کی دیوار پر چھپکلیاں ہی چھپکلیاں تھیں۔ وہ ان گنت تعداد میں دیوار پر رینگ رہی تھیں۔ سادیہ وحشت زدہ انہیں دیکھنے لگی۔ تبھی اسے اپنے پاؤں پر کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے اوپر لی ہوئی چادر ہٹائی۔ ایک بار پھر اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ اس کے پورے بستر پر بھی چھپکلیاں ہی نظر آرہی تھیں۔ یہاں تک کہ اس کی چادر بھی چھپکلی سے بھر گئی تھیں۔ یہ چھپکلیاں لاتعداد تھیں اور پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ سادیہ نے ہڑبڑاہٹ کے عالم میں چادر ایک طرف پھینکی اور چلاتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی۔ کمرے کے باہر دوسری طرف سے اس کے بھائی بوکھلائے ہوئے اس کی طرف دوڑے چلے آرہے تھے۔ اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ کر سادیہ گہری گہری سانسیں لینے لگی:۔

کیا ہوا ہے ۔۔۔ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو‘‘ عرفان نے حیران ہو کر کہا۔
مم۔۔۔ میرے کمرے میں‘‘ سادیہ بس اتنا ہی کہہ پائی اور پھر عرفان کا ہاتھ پکڑکر اسے اپنے کمرے کی طرف لے جانے لگی۔ باقی تینوں بھی ہکا بکا اس کے پیچھے آئے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سادیہ دھک سی رہ گئی۔ اب وہاں ایک بھی چھپکلی نہیں تھی۔ وہ تو ایسے غائب ہوگئی تھی جیسے کبھی وہاں موجود ہی نہ ہوں۔ اس کے بھائیوں نے اسے حیرانگی کے عالم میں دیکھا:۔
کچھ بھی تو نہیں ہے یہاں ۔۔۔ پھرتم اتنی خوف زدہ کیوں ہو‘‘ سلطان نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔

اس کمرے میں۔۔۔ اس کمرے میں چھپکلیاں ہی چھپکلیاں تھیں ۔۔۔ دیوار پر ۔۔۔میرے بستر پر ۔۔۔میری چادر پر ۔۔۔ ہر جگہ ۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں ‘‘ سادیہ خوف کے عالم میں بولی۔
اوہ ! ۔۔۔تم نے ضرور کوئی خواب دیکھا ہوگا۔۔۔ شیطانی خواب تھا۔۔۔ تعوذ پڑھ کر تین بار بائیں طرف تھوک دو۔۔۔ شیطانی خواب کا اثر ذائل ہو جائے گا‘‘ عرفان نے نصیحت اموز لہجے میں کہا۔
نہیں وہ کوئی خواب نہیں تھا ۔۔۔ میں نے خود یہاں چھپکلیاں دیکھی ہیں ‘‘ سادیہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
کیا!۔۔۔ اوہ ہو!۔۔۔ تمہیں منع بھی کیا تھا کہ سلطان کے چہرے کو اس قدر غور سے نہ دیکھاکرو۔۔۔ لیکن تم نے میری باتنہیں مانی ۔۔۔ اب دیکھ لیا نہ نتیجہ ۔۔۔ رات کو خواب میں چھپکلیاں نظر آرہی ہیں‘‘ عمران مذاق اُڑانے والے لہجے میں کہتا چلا گیا جس پر سلطان اسے کھا جانے والے انداز میں دیکھنے لگا۔
تم لوگ میرا مذاق اُڑا لو ۔۔۔ لیکن میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔ میں نے یہاں چھپکلیاں دیکھی ہیں ‘‘ یہ کہتے ہوئے سادیہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کے آنسو آنکھوں میں اٹک کر رہ گئے ۔

اب کسی نے مذاق کیا نہ تو میں اس کا وہ حشر کروں گا کہ یاد کرے گا‘‘ عرفا ن نے سخت لہجے میں کہا۔
سادیہ ۔۔۔ ہم تمہارا مذاق نہیں اُڑا رہے ۔۔۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہیں ضرور وہم ہوا ہے ۔۔۔ کیونکہ دیکھو نہ ۔۔۔ کمرے میں تو ایک چھپکلی بھی نہیں ہے ۔۔۔ تم اللہ کا نام لو اور سو جاؤ۔۔۔ٹھیک ہے ‘‘ عدنان نے نرم انداز میں اُسے سمجھایا۔ سادیہ پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھتی رہی اور وہ سب اسے دلاسا دیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ ان کے باہر جانے کے بعد سادیہ سوچ میں ڈوب گئی۔ ایک رات میں اس کے ساتھ کتنے واقعات ہوگئے تھے۔ سب سے پہلا اس کی پراسرار بے ہوشی جس کے بارے میں اسے خود بھی کچھ یاد نہیں تھا اور پھر اس کا بند موبائل فون میں کال آتے دیکھنا اور کال اُٹھانا تو دوسری طرف سے گڑ گڑ کی آواز آنا اور اب تیسرا واقعہ یہ چھپکلی والا۔ جہاں اسے کمرے میں ہر جگہ چھپکلیاں نظر آرہی تھیں لیکن جب وہ اپنے بھائیوں کو اپنے کمرے میں لے کر آئی تو کمرے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ سب سوچتے ہوئے وہ واپس اپنے بستر کی طرف مڑی۔ وہ پریشانی کے عالم سوچ رہی تھی کہ آخر اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ؟ تبھی ایک بار پھر وہ دھک سی رہ گئی۔ اس بار اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ آنکھیں خوف کے مارے باہر کو اُبل آئیں۔ اس کے بستر پر وہی آسیبی وشیطانی لڑکی آرام سے پاؤں پھیلائے لیٹی ہوئی تھی۔ اس لڑکی کو وہ اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ اس لڑکی کے آخری چیخ بھی ان سب نے سنی تھے لیکن اب وہی لڑکی زندہ سلامت اس کے بستر پر آرام سے لیٹی ہوئی تھی۔ اس لڑکی کے چہرے پر ایک بھیانک مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر سادیہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔اس کے چہرے کا رنگ اُڑنے لگا ۔دوسری طرف اس شیطانی لڑکی کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوتی جارہی تھی۔
سادیہ کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی۔ آنکھیں خوف کے مارے باہر کو اُبل آئیں۔ اس کے بستر پر وہی آسیبی وشیطانی لڑکی آرام سے پاؤں پھیلائے لیٹی ہوئی تھی جسے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ اس لڑکی کے آخری چیخ بھی اُن سب نے سنی تھے لیکن اب وہی لڑکی زندہ سلامت اس کے بستر پر آرام سے لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک بھیانک مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر سادیہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑنے لگا۔ دوسری طرف اس شیطانی لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوتی جارہی تھی۔
تت۔۔۔ تم ۔۔۔تم یہاں کیسے ؟۔۔۔ تم تو مر چکی تھی ‘‘ سادیہ خوف کے عالم میں ہکلانے لگی۔

تم لوگوں کو کیا لگا ۔۔۔ اتنی آسانی سے مجھ سے پیچھا چھڑا لو گے ۔۔۔ میری نظر جس پر پڑ جائے وہ کبھی بھی زندہ نہیں بچتا۔۔۔ اپنے بھائی سلطان کو میرے چنگل سے بچا کر تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے ۔۔۔اب اس کی سزا تو تمہیں ملے گی ۔۔۔ تم تڑپ تڑپ کر مرو گی لیکن تمہارے گھر والے تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکیں گے ‘‘ لڑکی سانپ کی طرح پھنکاری۔ اس لمحے سادیہ کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی۔ وہ وہشت ناک انداز میں چلاتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی۔ ایک بار پھر اس کے چاروں بھائی جھنجھلائے ہوئے انداز میں اس کی طرف آرہے تھے۔ نزدیک پہنچ کر سلطان شرارت بھرے انداز میں کہنے لگا:۔

اب تم نے ضرور کمرے میں کوئی ڈریکولا دیکھی ہوگی۔۔۔ وہ تمہاراخون تو نہیں چوسنے لگی تھی ‘‘ سلطان کا لہجہ تمسخرانہ ہوگیا۔
نہیں !۔۔۔ میں نے کمرے میں وہی آسیبی لڑکی دیکھی ہے جس سے ہم لڑکر یہاں پہنچے ہیں ‘‘ سادیہ ڈرے ڈرے انداز میں بولی۔وہ سب چونک اُٹھے۔
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ اس لڑکی کی آخری چیخ تو ہم سب نے اپنے کانوں سے سنی تھی ‘‘ عرفان سوچ کر بولا۔

تم یہ سب باتیں چھوڑو ۔۔۔ اور میرے ساتھ کمرے میں چلو‘‘ سادیہ نے یہ کہتے ہوئے عرفان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ ااور اسے اپنے ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوگئی۔ دوسروں نے بھی ان کے ساتھ کمرے کی چوکھٹ پر قدم رکھ دیا۔ دوسرے ہی لمحے ایک بار پھر سادیہ کو منہ کی کھانی پڑی کیونکہ اب وہ لڑکی اس کے پلنگ پر نہیں تھی۔ اُس کے بھائی اسے کھا جانے والے انداز میں دیکھنے لگے۔ سادیہ چکراتی ہوئی پلنگ پر جابیٹھی۔ وہ اس وقت اپنے دماغ کو خالی ہوتا محسوس کر رہی تھی۔
اب تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے ۔۔۔ بلکہ نہیں ۔۔۔ان حالات میں یہ کہنا ٹھیک ہے کہ۔۔۔ تمہارا دماغ کافی تیز رفتار میں دوڑ گیا ہے ۔۔۔ یار عمران !۔۔۔ اب یہ لڑکی ہمارے ہاتھ میں نہیں رہی ‘‘ سلطان شوخ انداز میں کہتا چلا گیا۔
تو کیا پہلے ہمارے ہاتھ میں تھی‘‘ عمران نے مصنوعی حیرت سے کہا۔
نہیں !۔۔۔ یہ پہلے ہمارے سر پر تھی۔۔۔ کیونکہ ہمارا سر کھاتی تھی۔۔۔ اب سر پر بھی نہیں رہی‘‘سلطان نے شریر لہجے میں کہا۔

اس وقت تویہ پلنگ پر ہے اور ہم اس سے بات کر رہے ہیں‘‘عدنان نے جھلا کر کہا۔
تم لوگ میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتے ۔۔۔ آخر مجھے جھوٹ بول کر کیا ملے گا‘‘ یہ کہتے ہوئے سادیہ کے آنسولڑھک کر رخساروں پر بہنے لگے۔ وہ سب ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گئے۔ اپنی بہن کو انہوں نے ساری زندگی سچ بولتے دیکھا تھا۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں سادیہ نے سچ کا دامن کبھی نہیں چھوڑا تھا۔ وہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتی تھی۔ یہ سب سوچ کر اُنہیں لگا کہ اُن کی بہن اُن سب سے اس طرح کا بے معنی مذاق نہیں کر سکتی۔

ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم تمہاری بات پریقین کر لیتے ہیں ۔۔۔ کل صبح ہم اباجان سے اس بارے میں بات کریں گے ۔۔۔ اب وہی اس مسئلے کا حل بتا سکتے ہیں ‘‘ عرفان نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ دوسروں نے اس کی تائید میں سر ہلا دیا۔ سادیہ کچھ لمحے پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھتی رہی۔ عرفان نے آگے بڑھ کر پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے دلاسا دیتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ باقی بھی اس کی طرف شفقت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے ۔ سادیہ ان سب سے چھوٹی تھی اور ان سب کی لاڈلی بہن تھی۔ وہ بھلا اپنی بہن کو پریشان کیسے دیکھ سکتے تھے۔ ان سب کے اپنے کمرے میں چلے جانے کے بعد سادیہ بھی ڈرتے ڈرتے اپنے کمرے میں داخل ہوگئی۔ اس نے ایک مرتبہ آیت الکرسی پڑھی اور اپنے اوپر پھونک کر اپنے بستر پر بھی پھونک دی۔ اب اُسے قدرے اطمینان محسوس ہوا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ اللہ کے کلام میں ہر مرض کی دوا اور شفا موجود ہے ۔لہٰذا اپنی ہر پریشانی کا حل قرآن پاک سے تلاش کیا جاسکتاہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے نہ جانے کب اُس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح اس کی آنکھ کھلی تو وہ حیران رہ گئی۔ سادیہ کے بستر کے آس پاس اُس کے اباجان شہباز احمد، شہزاد اور اُس کے چاروں بھائی فکر مندکھڑے تھے۔

کیا ہوا آپ سب کو ۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نہ ‘‘ سادیہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔
ہاں!۔۔۔ہمارے ساتھ توسب ٹھیک ہے لیکن تمہارے ساتھ کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔۔ گھڑ ی پر بھی نظر ڈال لو۔۔۔ صبح کے ساڑھے دس بج چکے ہیں اور تم اب تک سو رہی ہو‘‘ سلطان طنزیہ انداز میں بولا۔ سادیہ نے فوراً گھڑی کی طرف دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے اسے حیرت کے ایک زبردست جھٹکا لگا کیونکہ وہ تو گھر میں سب سے پہلے اُٹھنے کی عادی تھی۔ زیادہ سے زیادہ آٹھ بجے تک وہ ہر حال میں جاگ جاتی تھی لیکن آج ساڑھے دس بجے تک بھی اُس کی آنکھ نہیں کھلی تھی۔

ہم جانتے ہیں تم اتنی دیر تک کیوں سوتی رہی ہو ۔۔۔ ہم نے رات والا سارا واقعہ اباجان کو بتا دیا ہے کہ پہلے تم نے اپنے کمرے میں چھپکلیاں دیکھیں اور پھر وہ شیطانی لڑکی دیکھی ۔۔۔ میں نے اس میں وہ موبائل والا واقعہ بھی شامل کر کے سنا دیا تھا ‘‘ سلطان روانگی کے عالم میں کہتا چلا گیا۔


پراسرار لڑکی (قسط نمبر 9)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں