پراسرار لڑکی - پارٹ 9

  mysterious-girl


 پراسرار لڑکی - پارٹ 9

اوہ!!!‘‘ سادیہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
تم منہ ہاتھ دھو لو بیٹی ۔۔۔ پھر ہم ا س بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے ۔۔۔ ہم تمہیں اس طرح پریشان نہیں ہونے دیں گے ‘‘ شہباز احمد نے دلاسا دیتے ہوئے کہا اور پھر وہ سب کمرے سے باہر نکل گئے۔ سادیہ نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھویا۔ آج اس کی فجرکی نماز بھی قضا ہوگئی تھی۔ وضو کرکے اس نے فوراً قضا نماز ادا کی اور ناشتے کی میز پر جابیٹھی۔ وہ سب تو پہلے ہی ناشتہ کر چکے تھے۔ سادیہ کو تنہا ہی ناشتہ کرنا پڑا۔

میں نے سوچا ہے کہ مولوی عبدالرحمن صاحب کو بلا کر یہ ساری تفصیل سنائی جائے ۔۔۔ اب وہی ہماری مدد کر سکتے ہیں ۔۔۔ لیکن اس میں مشکل یہ ہے کہ میرے پاس ا ن کا نمبر نہیں ہے ۔۔۔ تم میں سے کسی کو وہاں جا کر انہیں لے کر آنا پڑے گا ‘‘ شہباز احمد کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔تبھی ایک آواز نے انہیں اچھل پڑنے پر مجبورکر دیا۔

میں آگیاہوں شہباز صاحب ‘‘ یہ آواز مولوی عبدالرحمن کی تھی۔ ان سب نے حیرانگی کے عالم میں آواز کی سمت نظریں اُٹھائیں۔ دروازے پر مولوی عبدالرحمن کھڑے مسکرا رہے تھے۔ شہباز احمد نے انہیں ابھی بلانے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے اور وہ خود ہی ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔ اس بات کی توقع بھلا وہ سب کیسے کر سکتے تھے ؟ لہٰذا مارے حیرت کے ان کا برا حال تھا۔
حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ مجھے کس سلسلے میں بلانا چاہتے تھے ۔۔۔ میں یہ بات بھی جانتا تھا کہ آپ مجھے آج صبح یہاں بلائیں گے ۔۔۔ لہٰذا میں خودہی آپ کی طرف نکل پڑا‘‘ مولوی عبدالرحمن کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔

بیٹھئے مولوی صاحب ‘‘ شہباز احمد نے حیرت میں ڈوبے ہوئے انداز میں انہیں صوفے پر بیٹھایا۔
میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ آپ جو سوال مجھ سے کرنا چاہتے تھے میں اس سوال کا جواب خودہی لے کر آیا ہوں۔۔۔ وہ شیطانی لڑکی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مر چکی ہے ۔۔۔اب آپ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔۔۔ کل والے سارے واقعات سادیہ بیٹی کو وہم کی بنا پر ہوئے ہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن بتاتے چلے گئے۔
اوہ !۔۔۔ یعنی اِس گھر پر اب کوئی شیطانی سایہ نہیں ہے ‘‘ شہزاد نے تصدیق کے لیے پوچھا۔

جی ہاں !۔۔۔ اب یہ گھر ہر طرح کی شیطانی اور آسیبی مخلوق سے محفوظ ہے ۔۔۔اب آپ سب کو نماز پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن نے عجیب بات کہی۔ وہ سب چونک کر انہیں دیکھنے لگے:۔
مم۔۔۔ میرا مطلب ہے نفل عبادات کرنے کی اب زیادہ ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ نفلی نماز بھی اب آپ سب چھوڑ سکتے ہیں ۔۔۔ فرض نماز تو بہر حال ہر مسلمان پر فرض ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے اپنے حواس پر قابو پا کر بات کو سمیٹا۔

ٹھیک ہے مولوی صاحب ۔۔۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ‘‘ شہباز احمد کی آنکھوں میں ممنوعیت جاگ اُٹھی۔ مولوی عبدالرحمن مسکراتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
اب میں چلتا ہوں ۔۔۔ مجھے کسی ضروری کام سے کہیں اور بھی جانا تھا۔۔۔ سادیہ بیٹی !۔۔۔آپ کے ذہن میں اس لڑکی کا خیال اس حد تک گھر کر گیا ہے کہ آپ کو ہر وقت بس وہی لڑکی نظر آرہی ہے ۔۔۔اُس لڑکی کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیجئے ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بہت جلد دوبارہ نارمل ہو جائیں گی‘‘ مولوی عبدالرحمن نصیحت اموز لہجے میں کہتے چلے گئے اور پھر صوفے سے اُٹھ کر گرم جوشی سے شہباز احمد اور باقیوں سے ہاتھ ملایا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ریسٹ ہاؤس کے دروازے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد سب کے چہروں پر اطمینان اور سکون نظر آنے لگا۔ سادیہ بھی خود کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اب تک ہونے والے سارے واقعات اُس کے وہم کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ دوسری طرف مولوی عبدالرحمن گھر کے صدر دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ اِس وقت مولوی عبدالرحمن کے چہرے پر ایک بھیانک مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
مولوی عبدالرحمن کے جانے کے بعد سادیہ ریسٹ ہاؤس کے باغ میں جا بیٹھی تھی۔ باغ میں موسم کافی خوشگوار تھا اور وہ کرسی پر بیٹھے اس موسم کالطف اُٹھا رہی تھی۔ تبھی اس کے موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اس نے دیکھا۔ کال اس کی سہیلی کائنات کی تھی۔

السلام علیکم کائنات ۔۔۔ کیسی ہو‘‘ سادیہ چہک کر بولی۔
سادیہ تم اِسی وقت میرے پاس پہنچو۔۔۔ میں ایک حادثے کا شکار ہوگئی ہوں ۔۔۔ میں اس وقت شہر سے باہر والے جنگل کے کنارے پر زخمی پڑی ہوں ۔۔۔ میرے ساتھ میرے والدین بھی نہیں ہیں ۔۔۔تم فوراً یہاں پہنچ جاؤ‘‘ دوسری طرف سے کائنات کی کپکپاتی ہوئی آواز سنائی دی اور پھر لائن منقطع ہوگئی ۔ فون سن کر سادیہ کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ وہ فوراً صدر دروازے سے باہر کی طرف بھاگی۔ صدر دراوازے پر کھڑا سیکورٹی گارڈ اسے دیکھ کر بوکھلا گیا۔

کہاں جارہی ہیں میڈم‘‘ سیکورٹی گارڈ گلاپھاڑ کر چیخا۔
کائنات کے ساتھ حادثے ہوگیا ہے ۔۔۔ اسے دیکھنے جنگل کے کنارے کی طرف جارہی ہوں ‘‘سادیہ بھاگتے بھاگتے چلائی اور پھر ایک ٹیکسی روک کر اُس میں سوار ہوگئی۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی ۔ جنگل کے کنارے پہنچ کر سادیہ نے کرایہ ادا کیا اورٹیکسی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔ سادیہ نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائیں لیکن وہاں تو کائنا ت کا نام و نشان تک موجود نہیں تھا۔ وہ حیرانگی کے عالم میں آس پاس دیکھنے لگی۔ پھر اس نے چند قدم جنگل کی طرف طے کئے۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ خود کلامی کرنے لگی:۔

کمال ہے ۔۔۔ یہاں تو کائنات کہیں بھی نہیں ہے ‘‘سادیہ کھوئے کھوئے انداز میں بڑبڑائی۔ پھر اس نے اپنا موبائل نکالا تاکہ کائنات کو فون کرے۔ موبائل میں وہ پچھلی آنے والی کال کی فہرست کی طرف گئی۔ تبھی اسے ایک زبردست جھٹکا لگا۔ اُس کے موبائل میں گزشتہ آنے والی کال میں کائنات کا کہیں بھی نام نہیں تھا۔ مارے حیرت کے اُ س کے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ میں نے خود کائنات کی کال اُٹھائی تھی لیکن میرے موبائل کی گزشتہ کال کی فہرست میں اس کانام ہی نہیں ہے ‘‘سادیہ کی آواز میں تھرتھری تھی۔ خوف کے مارے اس کا حلق خشک ہونے لگا۔ تبھی اسے خنجر کھلنے کی سنسناہٹ سنائی دی۔ وہ سنسناہٹ سن کر کانپ اُٹھی۔ دوسرے ہی لمحے اسے اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔ وہ ہڑبڑا کر پیچھے کی طرف پلٹی۔ اور پھر !!!۔۔۔ وہ دھک سی رہ گئی۔ سامنے سلطان خنجر ہاتھ میں لیے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سلطان کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ خنجر سادیہ کے پیٹ میں اتار دینا چاہتا ہے۔ اس وقت سلطان کے ہونٹوں پر سفاک مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور وہ خوفناک انداز میں خنجر لے کر سادیہ کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ سادیہ کے دل و دماغ میں سنسنی خیز لہریں دوڑ گئیں۔ اس کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس وقت سادیہ کے قدم اس کا وزن برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ دوسری طرف سلطان بے رحم مسکراہٹ کے ساتھ خنجر لے کر اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔
سلطان خنجر ہاتھ میں لیے سادیہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ خنجر سادیہ کے پیٹ میں اتار دینا چاہتا ہے۔ اس وقت سلطان کے ہونٹوں پر سفاک مسکراہٹ نظر آرہی تھی اور وہ خوفناک انداز میں خنجر لے کر سادیہ کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ سادیہ کے دل و دماغ میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس وقت سادیہ کے قدم اس کا وزن برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ دوسری طرف سلطان بے رحم مسکراہٹ کے ساتھ خنجر لے کر اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سادیہ کے پاس اب بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ آگلے ہی لمحے وہ موت کے خوف سے جنگل کے کنارے کی جانب تیز رفتاری کے ساتھ دوڑ پڑی۔ یہ دیکھ کر سلطان نے ایک قہقہہ لگایا۔ اور پھر !!! ۔۔۔ وہ بھی تمسخرانہ انداز میں سادیہ کی طرف دوڑا۔ کچھ دیر تک سادیہ بھاگتی رہی۔ آخر اس کی سانس پھول گئی۔ قدم تھکنے لگے۔ حلق خشک ہونے لگا۔ کچھ ہی پل میں اسے کمزوری نے آگھیرا۔ اب اس کے لئے ایک قدم بھی چلنا ممکن نہ رہا۔ نتیجہ کے طور پر وہ رک گئی اور گہری گہری سانسیں لینے لگی۔ تبھی سلطان بھی اُس کے پاس پہنچ گیا۔ سلطان کے چہرے پر ایک ظالمانہ مسکراہٹ ناچ رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں موجود خنجر کی چمک تیزہوتی جارہی تھی۔ سادیہ کو اِس لمحے اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ تبھی اچانک وہ اچھل پڑی۔اُس کے جسم میں تھرتھری دوڑ گئی۔ دل کانپ اُٹھا۔ دوسری طرف سے ایک اور سلطان اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دوسرے والے سلطان کے چہرے پر بوکھلاہٹ نظرآرہی تھی اوروہ فکرمندی کے عالم میں اس کی طرف تیز تیز قدم بڑھا رہا تھا۔

کیا ہوا سادیہ ۔۔۔ تم اس جنگل میں کیا کر رہی ہو‘‘ دوسرے سلطان نے پریشانی کے عالم میں تیز آواز میں کہا۔تبھی پہلا سلطان شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا:۔
اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے ‘‘ پہلے سلطان نے خوفناک انداز میں مسکرا کر خنجر لہرایا۔ سادیہ کبھی خنجر ہاتھ میں پکڑے، بھیانک مسکراہٹ کے ساتھ ایک طرف کھڑے سلطان کو دیکھنے لگی تو کبھی چہرے پر فکرمندی کے آثا ر لیے دوسری طرف سے آتے ہوئے سلطان کو دیکھنے لگی۔ اس لمحے اس نے اپنا دماغ خالی ہوتے محسوس کیا۔ اُسے ایک زبردست چکر آیااور پھر آگلے ہی پل وہ کٹے ہوئے تنے کی مانند زمین پر گری۔ پھر کچھ ہی لمحوں میں اُس کی آنکھوں کے آگے آندھیرا چھا گیا اور اس کا ذہن گہری تاریکی میں ڈوب گیا۔
٭٭٭٭٭

سادیہ کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ اُس کے آس پاس شہباز احمد اور دوسرے جمع تھے ۔وہ سب اُسے پریشانی کے عالم میں دیکھ رہے تھے۔
مم۔۔۔ مجھے کیا ہوا ہے ‘‘ سادیہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
یہ کہو کہ مجھے کیا نہیں ہوا ۔۔۔تم مجھے جنگل میں خوف زدہ حالت میں ملی ہو ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی تم بے ہوش ہو گئی تھی ۔۔۔اب میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم جنگل کے اندر کیا کر رہی تھی‘‘ سلطان طنزیہ لہجے میں کہتا چلا گیا۔
مجھے تو کائنات کا فون آیا تھا۔۔۔ وہ کسی حادثے کا شکار ہوگئی تھی‘‘ سادیہ بوکھلا کر بولی۔

ایک اور جھوٹ ۔۔۔ کیونکہ میں نے کائنات کو خود فون کیا ہے ۔۔۔ وہ بالکل صحیح سلامت گھر میں آرام کر رہی ہے ‘‘ سلطان نے اُسے بری طرح گھور کر دیکھا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ فون پر تو کائنات کی ہی آواز تھی ‘‘ سادیہ نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
یار کتنے جھوٹ بولو گی ۔۔۔ میں نے تمہارے موبائل کی تمام آنے والے کال کی فہرست بھی دیکھی ہے ۔۔۔ اُس میں کائنات کا نام تک نہیں ہے ‘‘ سلطان نے جھنجھلا کر کہا۔

اوہ !۔۔۔میں نے بھی موبائل کی فہرست دیکھی تھی ۔۔۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات نے مجھے کال کی ہو لیکن کال کا کوئی ریکارڈ ہی نہ ہو‘‘ سادیہ کا لہجہ خوف میں ڈوبا ہوا تھا۔

ہاں !۔۔۔میں بھی یہی کہہ رہا ہوں۔۔۔ میں تھوڑی دیر پہلے تمہیں کھانے کے میز پر بلانا آیا تھا۔۔۔تم مجھے اپنے کمرے میں نہ ملی۔۔۔ میں نے پورا گھر تلاش کیا ۔۔۔آخر سیکورٹی گارڈ کے پاس پہنچا تو اس نے بتایا کہ تم کائنات سے ملنے جنگل کے کنارے گئی ہو۔۔۔ اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا ہے ۔۔۔ میں نے فوراً کائنات کو فون کیا لیکن وہ تو بالکل ٹھیک ٹھاک گھر میں آرام کر رہی تھی ۔۔۔ میں فوراً جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔۔۔ وہاں پہنچا تو تم مجھے دیکھ کر بے ہوش ہوگئی۔۔۔ تمہیں گود میں اُٹھا کر یہاں ریسٹ ہاؤس تک پہنچایا ۔۔۔ جب تم بے ہوش تھی تو میں نے تمہارا موبائل بھی چیک کیالیکن اس میں کائنات کی کال فہرست میں موجود ہی نہیں تھی ۔۔۔ اب تم بتاؤ۔۔۔ جھوٹ کیوں بول رہی ہو‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان نے اُسے تیز نظروں سے دیکھا۔

میں جھوٹ نہیں کہہ رہی ہوں ۔۔۔ مجھے واقعی کائنات کا فون آیا تھا‘‘ سادیہ تقریباً رو کر بولی۔
کائنات ۔۔۔ کائنات ۔۔۔ کائنات۔۔۔ ایک ہی نام کی رٹ لگانے سے جھوٹ سچ میں نہیں بدل جائے گا۔۔۔ آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے ‘‘ عرفان گرج کر بولا۔
عرفان اور سلطان !۔۔۔ تم دونوں ٹھنڈے ہو جاؤ ۔۔۔ غصے سے مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔۔۔ میرا خیال ہے ہمارے ساتھ گزشتہ جو حالات جنگل میں پیش آئے تھے اُن حالات نے سادیہ کے دماغ پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔۔۔ میں یہاں سے کچھ فاصلے پرموجود ایک مشہور ڈاکٹر کو جانتا ہوں ۔۔۔اُن کے کلینک کا بھی بہت نام سنا ہے کہ وہاں ہر بیماری کا علاج ہو جاتا ہے۔۔۔اُس کلینک میں ڈاکٹر رخسانہ پروین بیٹھتی ہیں ۔۔۔ میں سادیہ کو ان کے پاس چیک اپ کے لیے لے جاؤں گا ‘‘ شہبازاحمدپختہ لہجے میں بولے۔

ٹھیک ہے اباجان !۔۔۔ ہم تیار ہو جاتے ہیں ۔۔۔ پھر ان ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ‘‘ عرفان نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ پھر وہ سب ایک ایک کر کے سادیہ کے کمرے سے باہر نکل گئے۔ سادیہ اُن کے جانے کے بعد خالی خالی نظروں سے چھت کودیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں کے آنسو رخساروں سے بہنے کے بعد تکیے کو تر کر رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد وہ سب تیار ہو چکے تھے۔ سادیہ نے بھی کپڑے بدل لیے تھے۔ اب وہ سب کلینک کے لیے نکلنے کو تیار تھے۔ شہباز احمد نے سیکورٹی گارڈ کو ٹیکسی لانے کے لئے بھیجا۔ ٹیکسی کے آنے کے بعد وہ سب اُس میں سوار ہوئے اور پھر ڈاکٹر رخسانہ پروین کے کلینک کی طرف روانہ ہوگئے۔ کلینک کے باہر پہنچ کر ان سب کی نظریں کلینک کے ٹھیک اوپر لگے بڑے سے بورڈ پر پڑی جہاں بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا ۔’’ ہر بیماری کا علاج سو فیصد ممکن ہے‘‘ ۔ اُنہیں نے ٹیکسی ڈرائیورکو انتظار کرنے کا کہا اور خود کلینک میں داخل ہوگئے۔ یہاں کچھ اور بھی مریض بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد ہی ان کی باری آگئی۔ ڈاکٹر رخسانہ پروین نے خود اُٹھ کر گرم جوشی سے اُن کا استقبال کیا۔ ٹی وی پر وہ کئی بار ایل ایل بی شہباز احمد کو انٹرویہ دیتے دیکھ چکی تھیں اور اُن کے بچوں کو بھی وہ جانتی تھیں لہٰذا وہ ان سب کو اچھی طرح پہچان گئی تھیں۔ ڈاکٹر رخسانہ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگیں:۔

بتائیے ۔۔۔ میرے چھوٹے سے کلینک میں آپ کا کیسے آنا ہوا‘‘ ڈاکٹر رخسانہ پروین اُن کے آگے بچھی جارہی تھیں۔ شہباز احمد نے وقت ضائع کیے بغیر ساری تفصیل کہہ سنائی۔ انہیں نے تفصیل وہاں سے شروع کی جب وہ گھرسے ریسٹ ہاؤس کیلئے نکلے تھے اور پھر راستے میں ہونے والے سارے واقعات بھی وہ بتاتے چلے گئے کہ کس طرح وہ اس لڑکی کے جال میں پھنس گئے تھے اورپھر آخر میں انہیں کس طرح اُس لڑکی سے نجات ملی۔ پھر انہوں نے ریسٹ ہاؤس پہنچ کر ہونے والے سارے واقعات بھی بتا دئیے کہ سادیہ کس طرح سر پر چوٹ کھا کر بے ہوش ہوئی اور پھر بند موبائل سے فون ،کمرے میں چھپکلیاں اور اب جنگل میں کائنات کے فون کا وہم ہونے والا قصہ بھی کہہ سنایا۔ ساری بات سن کر ڈاکٹر رخسانہ سوچ میں پڑ گئیں۔

میرا خیال ہے کہ سادیہ نے جنگل میں ہونے والے واقعات کا بہت زیادہ دباؤ لے لیا ہے ۔۔۔ لیکن میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتی ۔۔۔ ہمیں سادیہ کے دماغ کا مکمل ٹیسٹ کرنا ہوگا۔۔۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد ہی ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں‘‘ ڈاکٹر رخسانہ نے پر خیال انداز میں کہا۔ ان سب نے صر ف سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر رخسانہ اُٹھیں اور سادیہ کو ساتھ لے کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ کچھ دیر تک وہ سب بے صبری سے انتظا ر کرتے رہے۔ آخر ڈاکٹر رخسانہ اور سادیہ کی واپسی ہوئی۔ڈاکٹر دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر کہنے لگیں:۔
میں نے سادیہ کے دماغ کا مکمل ٹیسٹ کر لیا ہے ۔۔۔ کل صبح تک رپورٹ آپ کو مل جائے گی ۔۔۔ کل صبح آپ میرے پاس آجائیں ۔۔۔ پھر ہم رپورٹ کے نتائج دیکھ کر ہی علاج کرنا شروع کریں گے ‘‘ ڈاکٹر رخسانہ نے پرسکون انداز میں کہا۔ شہباز احمد نے فکرمندی کے عالم میں ان کی طرف دیکھا اور پھر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جلد ہی وہ سب کلینک سے باہر نکل گئے۔ باہر اُن کی ٹیکسی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ اپنے ریسٹ ہاؤس میں داخل ہورہے تھے۔ اب انہیں انتظار تھا تو صرف کل کی رپورٹ آنے کا جس سے ساری بات واضح ہو جانی تھی۔
٭٭٭٭٭
رات کے دس بج رہے تھے۔ ڈاکٹر رخسانہ کے کلینک کے تمام مریض رخصت ہو چکے تھے اور وہ خود بھی بس کلینک بند کر کے نکلنے ہی والی تھیں۔تبھی اُن کا اسسٹنٹ کلینک میں داخل ہوا:۔

میڈم ۔۔۔ وہ جو لڑکی آج شام کوآئی تھی ۔۔۔ اُس کی ٹیسٹ کی رپورٹ آگئی ہے ۔۔۔یہ رہی ‘‘ ان کے اسسٹنٹ نے سادیہ کی رپورٹ اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر رخسانہ نے رپورٹ ہاتھ میں پکڑی اور کہنے لگیں:۔
تم اپنے گھر جاؤ۔۔۔ میں رپورٹ دیکھ کر خود ہی کلینک بند کر دوں گی ‘‘ ڈاکٹر رخسانہ نے لاپروائی سے کہا۔ ان کا اسسٹنٹ سر ہلاتا ہوا کلینک سے باہر نکل گیا۔ ڈاکٹر رخسانہ نے رپورٹ کے اوپری کاغذ کو ہٹایا اور پھر رپورٹ کولفافہ میں سے نکال کر دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ حیران رہ گئیں۔ رپورٹ بالکل نارمل تھی۔ سادیہ کا ذہن بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا۔ وہ حیران رہ گئیں۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ اگر سادیہ کا دماغ بالکل ٹھیک ہے تو اس کے ساتھ وہ سارے عجیب وغریب واقعات کیسے پیش آسکتے ہیں‘‘ ڈاکٹر الجھ کر بولیں۔تبھی وہ بری طرح اچھل پڑیں۔ ان کے کلینک کا بلب خود بخود جلنے اور بجھنے لگا۔ وہ خوف کے مارے اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔ تبھی کلینک میں ایک قہقہہ کی آواز گونج اُٹھی۔ ڈاکٹر قہقہہ سن کر کانپ گئیں۔اور پھر !!!۔۔۔ انہیں لگا جیسے کسی کے ہاتھ نے ان کی گردن کو پکڑ لیا ہے اور اب وہ ہاتھ ان کی گردن پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ وہ بوکھلا گئیں کیونکہ کلینک میں کوئی بھی موجود نہیں تھا لیکن ان کے گردن پر دباؤ بدستور بڑھتا جارہا تھا۔ ان کا دم گھٹنے لگا۔ سانس گلے میں اٹک کر رہ گئی۔ چہرہ سرخ ہونے لگا۔تبھی کسی کی ہنسی کی آواز گونج اُٹھی:۔

ہی ہی ہی ۔۔۔ کیسا لگ رہا ہے میڈم‘‘ لڑکی کی زہریلی ہنسی کی آواز سنائی دی لیکن وہ اب بھی نظر نہیں آرہی تھی۔
مجھے چھوڑ دو۔۔۔ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ‘‘ ڈاکٹر کے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔اُنہیں اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔
آپ کو صرف ایک کام کرنا ہے ۔۔۔ اگر آپ نے میرا کام نہ کیا تو پھر میں آپ کے ساتھ وہ حشر کروں گی کہ ساری انسانیت کانپ اُٹھے گی‘‘ اس بار لڑکی کی پھنکار گونجی۔

کیسا کام‘‘ ڈاکٹرجلدی سے بولیں کیونکہ انہیں سانس لینے میں مشکل پیش آرہی تھی اور گلے کا دباؤ مسلسل بڑ ھ رہا تھا۔
کل صبح شہباز احمد اور ان کے گھر والے آپ کے پاس سادیہ کی رپورٹ لینے آئیں گے ۔۔۔ آپ اُن سے کہے گیں کہ رپورٹ آپ سے گم ہوگئی ہے لیکن !۔۔۔ رپورٹ کے مطابق سادیہ کا دماغ نارمل نہیں ہے ۔۔۔ سمجھ گئیں ‘‘لڑکی نے سرد لہجے میں کہا۔
سمجھ گئی۔۔۔ اب میرا گلاچھوڑ دو‘‘ ڈاکٹر کی گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ دوسرے ہی لمحے ڈاکٹر کی گردن سے ہاتھ ہٹ گیا۔ پھر بلب بھی معمول کے مطابق جلنے لگا۔اِس وقت ڈاکٹر کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف کا سایہ منڈلارہا تھا ۔وہ سہمے ہوئے انداز میں کھڑی تھیں۔پھر وہ کافی دیر تک گہری گہری سانسیں لیتی رہیں۔ اور پھر ڈاکٹر کل صبح کا انتظار کرنے لگیں۔

آگلے دن صبح شہباز احمد اپنے بچوں اور اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ ڈاکٹر رخسانہ پروین کے کلینک میں موجودتھے اور بے چینی کے عالم میں ڈاکٹر رخسانہ کو دیکھ رہے تھے۔
دیکھیں ۔۔۔ اب جو میں آپ کو بات بتانے والی ہوں اسے تحمل و برداشت سے سننی ہے ۔۔۔ گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ‘‘ ڈاکٹر نے تمہید کے طورپر دلاسادیا۔
معما میں باتیں مت کریں ڈاکٹر۔۔۔ صاف صاف کہیے ۔۔۔ بات کیا ہے ‘‘ شہباز احمدنے بے قراری کے عالم میں کہا۔

اصل میں کل رات کو ہی سادیہ کی رپورٹ آگئی تھی۔۔۔لیکن وہ مجھ سے کہیں گم ہوگئی ہے۔۔۔میں اس وجہ سے آپ کو رپورٹ نہیں دیکھا سکتی۔۔۔لیکن میں نے اس رپورٹ کا غور سے مطالعہ کیا ہے ۔۔۔ اُس رپورٹ میں لکھا تھا کہ ۔۔۔‘‘ یہاں تک کہہ کر ڈاکٹر رک گئیں۔ وہ سب بے چین ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔ آخر ڈاکٹر نے دوبارہ کہنا شروع کیا :۔

اس رپورٹ کے مطابق سادیہ کے دماغ پر گہرا اثر پڑا ہے ۔۔۔ جس وقت اسے سر پر چوٹ لگی تھی اور وہ چوٹ لگنے والے واقعہ کو بھول گئی تھی اس وقت سے ہی سادیہ کا دماغ اس کے قابو میں نہیں رہ گیا تھا ۔۔۔اُس چوٹ نے سادیہ کے دماغ پر گہرا زخم ڈال دیا ہے ۔۔۔ وہ اِس وقت ایسے واقعات سننے اور دیکھنے لگی ہے جو حقیقت میں ہوتے ہی نہیں ہیں ۔۔۔ وہ خود سے ایک فرضی کہانی بنا کر آپ کو سنا دیتی ہے ۔۔۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سادیہ جھوٹ بول رہی ہے بلکہ حقیقتاً وہ سارے واقعات اسے پیش آتے ہیں لیکن! ۔۔۔ اصل زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا ۔۔۔ وہ صرف اس کے دماغ کی اپنی کہانی ہوتی ہے جو سادیہ کے سامنے آجاتی ہے ۔۔۔ اِسے میڈیکل کی زبان میں نیورولوجیکل ڈِس آوڈر کہتے ہیں ۔۔۔مختصراً یہ کہ سادیہ کی رپورٹ آب نارمل آئی ہے ۔۔۔اُس کا دماغ پاگل پن کا شکار ہوگیاہے‘‘ ڈاکٹر کے ایک ایک الفاظ اُن سب پر بم کی طرح پڑ رہے تھے۔

 اس وقت شہباز احمد کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔ ان کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ دوسروں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ ان سب کے رنگ اُڑ چکے تھے۔ سادیہ ڈاکٹر کی بات سن کر خود کو پاگل محسوس کررہی تھی اور اُس کا جسم لرز رہا تھا۔ پریشانی کا سمندر ان سب کو اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا اور وہ سب کسی طرح بھی خود کو سنبھال نہیں پارہے تھے۔ دوسری طرف کلینک کے باہر وہ شیطانی لڑکی زہریلے انداز میں مسکرا رہی تھی۔

پراسرار لڑکی (قسط نمبر 10)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں