خونی عشق - قسط نمبر7
جب شہلا شمعون کے کپڑے لے کر کمرے میں آئی ۔۔
تب وہ نہانے جا چکا تھا ۔۔
کپڑے بیڈ پر رکھ کر وہ گزری شب کی تمام صورتحال کو ذہن میں دہرانے لگی ۔۔
بلیاں تو خیر ایک خوفناک حقیقت تھیں ۔۔
لیکن شمعون کے رویئے کے پیچھے کیا کہانی تھی ۔۔
یہ شہلا سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔
ابھی وہ انگلیاں مروڑتی ہوئی شمعون کے عجیب و غریب رویئے کا کوئی سرا ڈھونڈنے میں مگن تھی ۔۔
جب باتھ روم سے کچھ گرنے کی کافی اونچی آواز ابھری ۔۔
شہلا تیزی سے باتھروم کے دروازے کی طرف بڑھی ۔۔
"شمعون ۔۔"
ہلکی سی دستک دے کر شہلا نے پکارا ۔۔
لیکن جواب ندارد ۔۔
"شمعون آپ ٹھیک ہیں ۔۔
پلیز کوئی تو جواب دیں ۔۔"
شہلا کا دل گھبرانے لگا ۔۔
اس کو اندازہ بھی نہیں ہوا تھا کے اس کی آواز میں نمی گھل گئی تھی ۔۔
"شم ۔۔"
اس کی اگلی پکار ادھوری رہ گئی کیونکہ شمعون نے دروازہ کھول دیا تھا ۔۔
لیکن اس کی سیاہ آنکھیں ادھ کھلی سی تھیں ۔۔
جیسے بہت مشکل سے کھول رکھی ہوں ۔۔
اس نے باتھ گائون لپیٹ رکھا تھا ۔۔
اور اس وقت شہلا نے بغور اس کا چہرہ دیکھا ۔۔
زخم تو تھے ہی ۔۔
ساتھ ہی پورے چہرے پر زردی گھلی تھی ۔۔
اس سے ٹھیک سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا ۔۔
شہلا نے اسے سہارا دینا چاہا لیکن اس وقت شمعون کے حواسوں پر خون کی پیاس سوار تھی ۔۔
اس نے شہلا کو یوں پیچھے دھکیلا جیسے شہلا کو اچھوت کی بیماری ہو ۔۔
شہلا اچانک دور دھکیلے جانے پر زور سے دیوار سے جا لگی ۔۔
شہلا کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی ۔۔
وہ سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔
کیوں کر رہا تھا شمعون اس کے ساتھ ایسا ۔۔
حالانکہ بہت بار وہ اس کی بے رونق رہنے والی آنکھوں میں اپنے لیئے ایک خاص جذبہ چمکتے دیکھ چکی تھی ۔۔
پھر کیا وجہ تھی آخر ۔۔
شمعون نے گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر بیٹھ کر شہلا کے چہرے کو دیکھا ۔۔
اس کے خوفزدہ تاثرات پر دل اور بوجھل ہوگیا ۔۔
لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا ۔۔
یونہی بیٹھے بیٹھے وہ چکراتے سر کے ساتھ شہلا کے چہرے پر پھیلے ہزن و ملال کے تاثرات دیکھتے دیکھتے اچانک پیچھے کو گر گیا ۔۔
شہلا تیزی سے اس کی طرف بڑھی ۔۔
کافی بار اسے پکارا لیکن جواب نہ ملنے پر تیمور آفندی کو بلانے بھاگ گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیمور آفندی نے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی پوری کوشش کی ۔۔
لیکن وہ نقاہت زدہ سا لب سختی سے بھینچے نفی میں سر ہلاتا رہا ۔۔
اس کا رویئہ انہیں حیران پریشان کر رہا تھا ۔۔
وہ منہ سے کچھ بول ہی نہیں رہا تھا ۔۔
بس چڑا ہوا سا اشاروں سے جواب دے رہا تھا ۔۔
درحقیقت شمعون اس وقت اپنی پیاس پر ضبط کر رہا تھا ۔۔
"شمعون بیٹا تمہیں ۔۔"
"بھائی آپ جائیں یہاں سے ۔۔
اور شہلا کو بھی لے جائیں ۔۔
پلیز جائیں ۔۔
اکیلا چھوڑیں مجھے ۔۔
پلیز بھائی ۔۔"
اس کا ضبط اچانک ٹوٹا تو وہ ان کی بات کاٹ کر حلق پھاڑ کے دہاڑ اٹھا ۔۔
شہلا نے بے ساختہ کانوں پر ہاتھ رکھ لیئے ۔۔
جبکہ چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوگیا ۔۔
تیمور آفندی خاموشی سے شہلا کو ساتھ لیئے باہر نکلنے لگے ۔۔
لیکن جاتے جاتے اچانک مڑ کر بھائی کی محبت سے مجبور پوچھ بیٹھے ۔۔
"تم اس بلی کو پھینکنے گئے تھے ۔۔
کہیں تمہارے اس حال کے پیچھے وہ بلیاں ہی تو نہیں ۔۔"
پہلے تو شمعون کچھ دیر تک سنجیدگی سے انہیں دیکھتا رہا ۔۔
پھر منہ بنا کر سر اثبات میں ہلا کر چہرہ موڑ لیا ۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر تیمور آفندی نے شہلا کو پھر سے چلنے کا اشارہ دیا جو ان کے ساتھ ہی رک گئی تھی اور بھیگی بھیگی الجھی نظروں سے شمعون کو دیکھ رہی تھی ۔۔
کمرے سے نکلنے سے پہلے شہلا نے ایک بار پھر شمعون کی طرف دیکھا ۔۔
اسی وقت شمعون نے بھی اپنا چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھ لیا ۔۔
نظروں سے نظریں ٹکرائیں ۔۔
پھر جانے کیا ہوا کہ الفاظ بے ساختگی میں شہلا کے لبوں سے پھسلنے لگے ۔۔
"میں نے اپنے سب پیاروں کو کھو دیا ہے شمعون ۔۔
اب ایک آپ ہی میرے جینے کی وجہ ہیں ۔۔
جو بھی پریشانی ہے شیئر کر لیں ۔۔
پلیز ٹھیک ہوجائیں ۔۔"
گہری سانس بھر کر وہ شمعون کی ساکت نظروں سے گھبرا کر باہر نکل گئی اور دروازہ بند کر لیا ۔۔
لیکن شمعون کی نظریں ویسے ہی دروازے پر جمی رہیں جہاں کچھ دیر پہلے شہلا کھڑی تھی ۔۔
"اور اگر تمہیں پتہ چل جائے ۔۔
کہ اپنے پیاروں کو تم نے میری وجہ سے ہی کھویا ہے ۔۔
تو ممکن ہے کہ میں جو تمہارے جینے کی وجہ ہوں ۔۔
تم مجھے ہی ختم کرنے پر تل جائو ۔۔"
ہنوز دروازے پر نظریں جمائے شمعون پراسرار سے لہجے میں بڑبڑایا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون سارا دن کمرے میں تنہا بند رہا ۔۔
نہ کسی سے بات کی نہ کچھ کھانے پینے کو مانگا ۔۔
اس کا رویئہ سب کو چونکا رہا تھا ۔۔
لیکن کوئی بھی کچھ اخذ کرنے سے قاصر تھا ۔۔
اور حقیقت جو تھی وہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی ۔۔
رات کے کھانے کے بعد شہلا لان میں لگے جھولے میں جا بیٹھی ۔۔
اس کی مہندی کا رنگ بہت گہرا تھا ۔۔
کتنے فسانے مشہور تھے ۔۔
مہندی کے گہرے رنگ کے حوالے سے ۔۔
سارے جھوٹ نکلے ۔۔
وہ ایک دن کی دلہن تھی ۔۔
کوئی دیکھتا تو یقین نہ کرتا ۔۔
بال صبح سے سنوارے نہیں تھے ۔۔
بس الٹے سیدھے جوڑے میں سمائے تھے ۔۔
سادہ سا آسمانی رنگ کا سوٹ ۔۔
پریشان کن سوچوں سے کملایا ہوا چہرہ ۔۔
"جو کبھی نہ سوچا تھا وہ سب ہو رہا یے ۔۔
اور اچھا نہیں ہو رہا ہے ۔۔"
دل میں بڑبڑاتے ہوئے شہلا نے چونک کر تیمور آفندی کی گاڑی کو اندر داخل ہوتا دیکھا ۔۔
اندر سے بھاگے آتے وجدان نے گیٹ کھولا تھا ۔۔
تیمور آفندی شام سے غائب تھے ۔۔
نہ جانے کہاں گئے تھے ۔۔
ساتھ حمزہ بھی تھا جو گاڑی سے نکل رہا تھا ۔۔
لیکن کوئی تیسری شخصیت بھی ان کے ساتھ تھی ۔۔
لیکن کون ۔۔
شہلا کی کھوجتی نظریں گاڑی کے پچھلے دروازے پر جمی تھیں جب حویلی کی باقی خواتین و حضرات بھی حویلی سے نکل کر گاڑی کی طرف بھاگے ۔۔
شہلا ان سب کے مودبانہ انداز دیکھ کر خود بھی سب خواتین کی طرح دوپٹہ سر پر لے کر ہاتھ باندھ کر آگے بڑھ گئی ۔۔
گاڑی سے نکلنے والے بزرگ شخص کے چہرے پر جاہ و جلال کے ساتھ ایک خاص قسم کا نور اور نرمی بھی تھی ۔۔
شہلا کا سر بلا ارادہ ہی جھک گیا ۔۔
باقی سب کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔۔
انہوں نے گاڑی سے نکل کر سب کے سلام کا جواب دیا ۔۔
پھر اپنی روشن آنکھیں سکیڑ کر حویلی کا بغور جائزہ لیا ۔۔
ان کے منہ سے کچھ اجنبی الفاظ نکلے ۔۔
لیکن مطلب پوچھنے کی ہمت کسی سے نہیں ہوئی ۔۔
حویلی کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھی ان کی نظریں حویلی کا گہرائی سے جائِزہ لے رہی تھیں ۔۔
شہلا دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ یہ باباجی جو بہت بآثر لگتے ہیں ۔۔
حویلی والوں کو ان بلیوں نما بلائوں سے بچا لیں ۔۔
جب اس کے کان میں جویریہ بیگم کی سرگوشی پڑی ۔۔
جو اچھی خاصی اونچی تھی ۔۔
مخاطب تو تیمور آفندی تھے ۔۔
لیکن سنا سب نے تھا ۔۔
"یہ بابا جی اصلی ہیں ناں ۔۔
پہلے کی طرح کسی دھوکے باز کو تو نہیں لے آئے اٹھا کر ۔۔"
"عظیم عورت ۔۔
خدارا چپ کر جائو ۔۔"
تیمور آفندی کے بھنا کر کہنے پر شہلا سمیت سب کے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ بکھر گئی ۔۔
اندر پہنچ کر انہوں نے سب کو اشارہ کیا کہ وہ ان کے پیچھے نہ آئیں ۔۔
پھر لائونج میں چکر کاٹتے ہوئے کچھ پڑھ پڑھ کر شہادت کی انگلی پر پھونکتے ۔۔
اور انگلی سے اپنے سر کے اوپر ایک دو پھیرے لگاتے ۔۔
کافی دیر تک یہ عمل جاری رہا ۔۔
سب سانس روکے "کچھ ہونے" کے منتظر تھے ۔۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ جو ہونا تھا وہ ہو رہا تھا ۔۔
یعنی شمعون اندر اپنے کمرے میں تکلیف کی شدت سے بیڈ پر لوٹ رہا تھا ۔۔
وہ پہلے ہی سخت کمزور تھا ۔۔
اس کا ارادہ رات کو سب کے سوجانے کے بعد حویلی کے کسی مکین کا خون پینے کا تھا ۔۔
لیکن یہ اچانک کیا ہونے لگا تھا ۔۔
شمعون سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔۔
اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں ۔۔
اس کی ایسی حالت پہلے بھی تو ہوئی تھی ۔۔
لیکن کب ۔۔؟
ہاں جب وہ شہلا سے ملا تھا ۔۔
ذہن میں جب جھماکہ ہوا تو اس کی آنکھیں ۔۔
جن کی پتلیاں چھوٹی چھوٹی ہوگئی تھیں ۔۔
پھیل گئیں ۔۔
اس کی آنکھوں میں دہشت واضع تھی ۔۔
"یہاں کیا کر رہا ہے وہ عامل ۔۔"
درد سے کراہتے ہوئے وہ بمشکل بولا ۔۔
"میں مر جائونگا ۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔"
شمعون بے بسی سے اپنی انگلیوں کے پوروں سے ابھرتے ناخن دیکھنے لگا ۔۔
پھر دانت ۔۔
پھر ناک ۔۔
پھر کان ۔۔
ہر چیز تبدیل ہوتی گئی ۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سیاہ بلا بن گیا ۔۔
بیڈ پر پڑا شمعون ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے اس کے اندر کیلیں چبھائی جا رہی ہوں ۔۔
اچانک اس کے ایک پنجے میں ۔۔
پھر دوسرے پنجے میں ۔۔
ایک کے اوپر ایک چاروں پنجوں میں ویسے ہی لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خود بہ خود نہ جانے کیسے کھب گئے ۔۔
جیسا ٹکڑا جنگل میں کھبا تھا ۔۔
اب وہ چلنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا ۔۔
ساتھ هى اس بار درد حد سے سوا تھا ۔۔
شمعون اپنی غراہٹ روک نہیں سکا ۔۔
اس کی دہشت ناک غراہٹ سب نے سنی تھی ۔۔
سب کی نظریں نیچے بنے گیسٹ روم کے دروازے پر جم گئیں ۔۔
"یہاں ہے وہ ۔۔
یہاں ہے وہ بلا ۔۔"
اس بزرگ کے پرجوش ہو کر کہنے پر تیمور آفندی اور شہلا نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔
"وہاں تو شمعون تھا ۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے ۔۔
اسے فکر صرف تیمور آفندی اور شہلا کی تھی ۔۔
وہ بے بسی کی تصویر بنا انتظار میں تھا کہ کب اس کا برسوں سے چھپایا راز افشاں ہو ۔۔
جب کمرے کی گیلری سے وہ تین سیاہ بلیاں اندر داخل ہوئیں ۔۔
پل بھر میں ان میں سے ایک بلا انسانی شکل میں ڈھل کر تیزی سے شمعون کی طرف بڑھا اور اسے اٹھا کر گیلری کے ذریعہ باہر نکل گیا ۔۔
دھاڑ سے دروازہ کھول کر تیمور آفندی اور ان کے ساتھ وہ بزرگ بھی اندر داخل ہوئے ۔۔
شہلا کمرے کے باہر ہی کھڑی خوفزدہ نظروں سے ہر طرف کا جائزہ لے رہی تھی ۔۔
جبکہ حویلی کے باقی مکین حیرت زدہ سے اشاروں کنایوں میں باتیں کر رہے تھے ۔۔
"شمعون ۔۔"
تیمور آفندی نے اسے پکارا لیکن وہ ہوتا تو کوئی جواب آتا ناں ۔۔
وہ بزرگ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے گیلری کی طرف بڑھے ۔۔
لیکن باہر ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی ۔۔
کسی ذی روح کی موجودگی کا دور تک نام و نشان نہیں تھا ۔۔
جبکہ تیمور آفندی مسلسل شمعون کو پکارتے ہوئے کمرے کا دیوانہ وار جائزہ لے رہے تھے ۔۔
اور شہلا دھڑکتے دل کے ساتھ آیات کریمہ کا ورد زیر لب شروع کر چکی تھی ۔۔
گہری سانس بھر کر وہ بزرگ گیلری سے پیچھے ہوئے ۔۔
پھر آنکھیں بند کیئے تھوڑی دیر تک وہی نافہم الفاظ دھیمی آواز میں دہراتے رہے ۔۔
"شمعون کون ہے ۔۔؟"
اچانک آنکھیں کھول کر انہوں نے سرد مہری سے تیمور آفندی سے پوچھا جو تشویش ناک نظروں سے کمرے میں نظریں دوڑا رہے تھے ۔۔
شمعون کا غائب ہونا معمولی بات نہیں تھی ۔۔
بقول شہلا کے وہ کچھ دیر پہلے تک یہیں موجود تھا ۔۔
اور اس کی حالت بھی ایسی نہیں تھی کہ اچانک خود سے کہیں آ جا سکتا ۔۔
اب ان بزرگ کے سوال سے زیادہ وہ لہجے پر چونکے تھے ۔۔
خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر انہوں نے پہلے شہلا کو دیکھا جس کا چہرہ ان ہی کی طرح سفید ہو رہا تھا ۔۔
"شمعون میرا چھوٹا بھائی ہے ۔۔
جس کا میں نے آپ کو بتایا تھا ۔۔
کہ بلیوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا تھا ۔۔"
تیمور آفندی گھٹی گھٹی آواز میں بولے ۔۔
ان کا ذہن انہیں کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔
لیکن دل اس بات کو ماننے سے انکاری تھا ۔۔
تیمور آفندی کے جواب پر وہ عجیب سا مسکرائے ۔۔
"کیا مجھے شمعون کی کوئی تصویر ملے گی ۔۔؟"
"معاف کیجیئے گا ۔۔
شمعون نے کبھی تصویریں نہیں کھنچوائیں ۔۔"
تیمور آفندی نے پیشانی سے پسینہ صاف کر کے جواب دیا ۔۔
"سہیل اور فرح کے نکاح میں ان کی ایک تصویر آپ نے زبردستی کھنچوائی تھی تیمور چاچو ۔۔"
کب سے خاموش کھڑے حمزہ نے اچانک طنزیہ کہا اور پھر خود ہی تصویر لانے کا کہہ کر ایک کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔
شہلا کا دل سکڑ کر سمٹا ۔۔
کیا ہونے والا ہے آخر ۔۔؟
دل اتنی اسپیڈ میں کیوں دھڑک رہا ہے ۔۔
دماغ خالی خالی کیوں ہے ۔۔
اچھی خاصی ٹھنڈک میں پسینے کیوں آ رہے ہیں ۔۔
بہت سے سوال اٹھ رہے تھے ۔۔
جن کا جواب فلحال کسی کے پاس نہیں تھا ۔۔
حمزہ شمعون کی تصویر لے کر بھاگتا ہوا آیا اور عجیب ولولے کی کیفیت میں وہ تصویر ان کی طرف بڑھا دی ۔۔
وہ بزرگ اپنے مئوکل کے ذریعہ شمعون کی تصویر کا سہارا لے کر کچھ جاننا چاہتے تھے ۔۔
لیکن اس کی انہیں ضرورت ہی نہیں پڑی ۔۔
تصویر میں نظر آتا شمعون کا سرد و سپاٹ چہرہ دیکھ کر وہ خود ہی ٹھٹھک گئے ۔۔
جنگل کی وہ مہینوں پہلے کی رات وہ ہرگز نہیں بھولے تھے جب ایک آدم خور غیر انسانی مخلوق انہیں انسانی شکل میں نظر آئی تھی ۔۔
انہوں نے پوری کوشش کی تھی عمل کے سہارے شمعون کو ختم کرنے کی ۔۔
لیکن بدقسمتی سے "کسی" نے وہ لکڑی کا ٹکڑا اس کے پنجے سے نکال کر ان کے عمل کو ناکام بنا دیا ۔۔
سارا معاملہ ان کے سمجھ آنے لگا ۔۔
تصویر حمزہ کو واپس لوٹاتے ہوئے انہوں نے ٹھنڈی سانس خارج کر کے تیمور آفندی کی طرف دیکھا ۔۔
تیمور آفندی بہت بار ان کے آستانے پر آ کر ان کی منت کر چکے تھے ۔۔
لیکن ہر بار وہ مصروف ہوتے اور حویلی آنے سے رہ جاتے ۔۔
آج بھی وہ ایک ضروری چلہ کاٹنے والے تھے لیکن تیمور آفندی آج ان کے آگے گڑگڑا اٹھے تھے ۔۔
شمعون کے لیئے ان کی فکرمندی اور محبت یہیں سے ظاہر تھی کہ شمعون پر ہوئے حملے نے ان کا برسوں کا صبر ختم کردیا تھا ۔۔
"تیمور تم اپنے بھائی سے بہت پیار کرتے ہو ۔۔
اس لیئے یقیناً میری بات سن کے سب سے زیادہ تکلیف تم ہی اٹھائوگے ۔۔
خود کو مضبوط کرو ۔۔"
ان کی تہمید نے تیمور آفندی کو ٹھٹھکا دیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں نہیں مانتا ۔۔
میرا بھائی کوئی بلا ولا نہیں ہے ۔۔
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔۔
ہو سکتا ہے جنگل میں وہ بلا شمعون کے بھیس میں ہو ۔۔"
تیمور آفندی مسلسل اس سچ کو ماننے سے انکاری ہو رہے تھے ۔۔
ان کے تو سر پر گویا پوری حویلی آگری تھی اس انکشاف پر ۔۔
"ہائے ۔۔
میرا سہاگ اجاڑ دیا اس بے غیرت بلا نے ۔۔
ارے اسے پالا پوسا ۔۔
کھلایا پلایا اور یہ صلہ ملا ہمیں ۔۔
خدا غارت کرے اس منحوس بلا کو ۔۔"
شمائلہ بیگم نے واویلا شروع کردیا اور آخر میں پھپھک کر رو پڑیں ۔۔
آخر کو ان کے شوہر کی جان لی تھی اس بلا نے ۔۔
"مم مجھے بھی یقین نہیں آ رہا ۔۔
شمعون چاچو ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہیں ۔۔
یہ ناممکن ہے ۔۔"
وجدان بے یقینی سے نفی میں سر ہلانے لگا ۔۔
"لیکن مجھے پورا یقین یے ۔۔
اگر ایمانداری سے ہم ہر چیز پر غور کریں تو یہ ممکن نظر آتا ہے ۔۔
جب کبھی حویلی والوں پر حملہ ہوا ہے ۔۔
وہ شخص حویلی سے غائب رہا ہے ۔۔
تیمور چاچو کی فیملی کو چھوڑ کر حویلی کی ہر فیملی نے اس بلا کا عتاب سہا ہے ۔۔"
حمزہ سب سے زیادہ بپھر رہا تھا ۔۔
ہانیہ کا معصوم چہرہ مسلسل نظروں کے آگے چکرا رہا تھا ۔۔
اس کے اٹھائے گئے پوائنٹ قابل غور تھے ۔۔
پھر سب سے بڑی بات ۔۔
اچانک شمعون کا غائب ہوجانا ۔۔
لائونج میں بحث جاری تھی ۔۔
کسی کو فوراً یقین آگیا تھا ۔۔
کوئی اب بھی بے یقین تھا ۔۔
کوئی دلائل دے رہا تھا ۔۔
کوئی اعتراض اٹھا رہا تھا ۔۔
اور گم صم سی سب کی تکرار سنتی شہلا چپ چاپ اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی ۔۔
اس کا رخ طوبی کے کمرے کی طرف تھا ۔۔
راستے میں پڑنے والے شمعون کے کمرے کے دروازے پر وہ کچھ لمحوں کے لیئے رک گئی تھی ۔۔
پھر جھلملائی نظریں لیئے سر جھٹک کر قدم آگے بڑھا دیئے ۔۔
شہلا کو طوبی کا اس دن کا رویہ یاد آ رہا تھا ۔۔
شمعون کے نزدیک آنے پر وہ جس طرح چیخنے لگی تھی ۔۔
اور بھی بہت سے مشکوک کر دینے والے مناظر بھی ذہن کے پردے پر چکرانے لگے ۔۔
دماغ کے بند دروازے کھلتے جا رہے تھے ۔۔
بہت کچھ واضع ہو رہا تھا ۔۔
گہری سانس بھر کر اس نے طوبی کے قریب جا کر پکارا ۔۔
لیکن جواب ندارد ۔۔
"طوبی ۔۔؟"
شہلا کو اس کے بے سدھ انداز نے ٹھٹھکا دیا ۔۔
اس کا دل بند ہونے لگا ۔۔
"طوبی پلیز اٹھیں ۔۔
بات کرنی ہے مجھے آپ سے کچھ ۔۔
مجھے بتائیں کیا شمعون ہے وہ بلا ۔۔؟
طوبی پلیز اٹھیں بتائیں ۔۔
طوبی پلیز آنکھیں کھولیں ۔۔
کیا ہوا ہے آپ کو ۔۔؟
طوبی ۔۔"
شہلا کی اگلی پکار حلق میں ہی گھٹ گئی ۔۔
بلیوں کے غرانے کی کریہہ آواز نے اسے ٹھٹھکا دیا ۔۔
تیزی سے وہ بیڈ سے دور ہوئی تھی کیونکہ طوبی جو لحاف سرتاپا اوڑھے لیٹی تھی ۔۔
آواز اسی لحاف میں سے آ رہی تھی ۔۔
اور اب اندر سے دو تین وجود ہلتے بھی دکھنے لگے ۔۔
وہ وجود کن کے تھے شہلا کو سمجھنے میں مشکل نہیں ہوئی ۔۔
وہ دبے پائوں الٹے قدموں پیچھے ہونے لگی جب تیز آوازوں کے ساتھ چار بلیاں چھلانگیں لگا کر لحاف سے نکلیں ۔۔
ان کی چھلانگوں کی وجہ سے طوبی کا لحاف اس پر سے ہٹ گیا ۔۔
اور طوبی کا چرا پھٹا وجود دیکھ کر شہلا کے حلق سے وہ چیخیں نکلیں کہ نیچے لائونج میں بیٹھے سب لوگ اوپر کی طرف دوڑ پڑے ۔۔
وہ بزرگ جو جانے کی تیاری میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے سب کے ساتھ ہی ہو لیئے ۔۔
شہلا کی چیخیں رک ہی نہیں رہی تھیں ۔۔
نہ نظریں طوبی کے وجود سے ہٹ رہی تھیں ۔۔
وہ چاروں بلیاں شہلا کو گھورتی ہوئی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر باہر کود گئیں ۔۔
اور شہلا یونہی چیختے چیختے ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل سے گزر کر بستی کی طرف بڑھتے ہوئے اس کا چہرہ ضرورت سے زیادہ سرد تھا ۔۔
یوں لگتا تھا وہ اندر ہی اندر خود سے کوئی جنگ لڑ رہا ہو ۔۔
سیاہ آنکھوں کے آگے بار بار شہلا کا وہ خوفزدہ انداز لہرا رہا تھا ۔۔
جب وہ طوبی کے کمرے میں اسے دیکھ کر پیچھے ہو رہی تھی ۔۔
لیکن اس کا قصور نہیں تھا ۔۔
وہ بھوک اور کمزوری سے نڈھال تھا ۔۔
طوبی کے زندہ رہنے سے کسی کو فائدہ ہی کیا تھا ۔۔؟
سو جونہی اس عامل نے اپنا عمل درمیان میں روکا ۔۔
شمعون اپنے ساتھیوں سمیت طوبی کے کمرے میں گھس گیا ۔۔
اور مٹا ڈالی اپنی بھوک اور پیاس ۔۔
لیکن شہلا یا باقی حویلی والے کبھی یہ نہیں سمجھ سکتے تھے ۔۔
جیسے ایک عام انسان پر شدید بھوک میں حرام بھی حلال ہوجاتا ہے ۔۔
ویسے ہی وہ بھی مجبور ہوجاتا تھا ۔۔
اگر اس کے نصیب میں یہی "غذا" لکھ دی گئی تھی ۔۔
تو وہ کیا کر سکتا تھا ۔۔
وہ کوئی عام انسان نہیں تھا ۔۔
کوئی اور مخلوق تھا ۔۔
تو کیا اس میں اس کا کوئی قصور تھا ۔۔؟
کوئی نہیں سمجھنے والا تھا اس کے احساسات ۔۔
حویلی والے تو دور ۔۔
اس پر جان نچھاور کرنے والے تیمور آفندی ۔۔
اور اس کی پیاری شہلا ۔۔
کوئی بھی تو نہیں سمجھنے والا تھا اسے ۔۔
وہ بس ایک عفریت تھا ۔۔
ایک خوفناک غیر انسانی مخلوق ۔۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس میں کوئی احساسات نہیں تھے ۔۔
اگر احساسات نہ ہوتے تو کیا وہ شہلا سے محبت کرتا ۔۔
بھلا احساس بغیر بھی کوئی محبت کرتا ہے ۔۔
یہ انسان ہوتے ہیں جن کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی ۔۔
وہ تو بھرے پیٹ کے ساتھ کبھی کسی کو کچھ کہتا ہی نہیں تھا ۔۔
(اگر سامنے والے سے دشمنی نہ ہوتی تو ۔۔!)
لیکن اس کی باتیں سمجھے گا کون ۔۔
چلو کوئی نہ سمجھے ۔۔
لیکن شہلا ۔۔!
سوچوں کے دھارے سے نکل کر شمعون نے بستی کی حدود میں قدم رکھ دیئے ۔۔
اور انسانی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔۔
شمعون کی بستی ہی نہیں ۔۔
بستی کی حدود میں داخل ہونے والے بھی انسانی نظروں سے اوجھل ہوجاتے تھے ۔۔
لیکن جب کوئی عام انسان غلطی سے ان کی دنیا کی حدود کی طرف قدم بڑھاتا ۔۔
تو تمام قبیلے والے اسے خوفزدہ کر کے جنگل سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ۔۔
انسانی دنیا میں یہ جنگل آسیب زدہ مشہور ہو چکا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"شمعون ۔۔"
شمعون جب اس چھوٹی سی غار میں بلے کے روپ میں داخل ہوا ۔۔
شاکوپا کو اپنا منتظر پایا ۔۔
شمعون خاموشی سے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔
سر بھی جھکا دیا ۔۔
"میں جانتا ہوں تمہارے ذہن میں کئی سوالات ہیں ۔۔
جن میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تمہاری مدد کر کے تمہیں اس اللہ والے بندے سے کیوں بچایا گیا ۔۔؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ تم ہمارے مجرم ہو ۔۔
تمہیں سزا دینے کا یا معاف کرنے کا حق بھی ہم ہی رکھتے ہیں ۔۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے ۔۔
کہ تم اکیلے نہیں ہو ۔۔
ایک تم اس کے قابو میں چلے گئے تو ہمارے پورے قبیلے کی جان خطرے میں پڑ جائے گی ۔۔
سمجھ رہے ہو ناں تم ۔۔؟"
"جی ۔۔"
شمعون نے سر جھکائے جھکائے ہی دھیمی آواز میں کہا ۔۔
"کچھ اور پوچھنا چاہتے ہو ۔۔؟"
شاکوپا نے بغور اس کا چہرہ دیکھ کر پوچھا ۔۔
شمعون نے جواباً کرب سے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔
"جب انسان کے ساتھ دوسری مخلوق رشتہ نہیں بنا سکتی ۔۔
تو انہیں انسان سے محبت کیوں ہوتی یے شاکوپا ۔۔؟"
شاکوپا اس سوال پر چپ سا رہ گیا ۔۔
اندر کہیں نا کہیں شاکوپا کو اندازہ تھا ۔۔
شمعون اس سے ایسا ہی کوئی سوال پوچھے گا ۔۔
یہ معاملے تو تمام مخلوقات کو بنانے والا ہی جانے یا اس کے خاص بندے ۔۔
ہم بس اپنی حقیقت جانتے ہیں ۔۔
ہم کون ہیں ۔۔
کیوں ہیں ۔۔
کیا کر سکتے ہیں ۔۔
اور کیا نہیں ۔۔
اور انسان سے محبت ہم "نہیں" کر سکتے سمجھے ۔۔
کیونکہ یہ اس انسان کے لیئے ہی نہیں بلکہ ہمارے لیئے بھی نقصان دہ ہے ۔۔"
شاکوپا کا انداز قدرے نرم تھا ۔۔
وہ اب ایونا کے قتل کی وجہ سے شمعون سے خفا بھی نہیں لگ رہا تھا ۔۔
شاکوپا شمعون کے خاندان کی ہمیشہ سے غلامی کرتا آ رہا تھا ۔۔
شائد اس لیئے بھی وہ شمعون کو موقع دینا چاہتا تھا ۔۔
وہ پرانے نظریات کا حامی تھا ۔۔
شاکوپا کی خواہش تھی ۔۔
شمعون سب کچھ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیئے بستی میں بس جائے اور سرداری کرے ۔۔
شمعون کچھ دیر تک سنجیدگی سے شاکوپا کے جھریوں بھرے لٹکتی ہوئی سیاہ جلد والے چہرے کو گھورتا رہا ۔۔
پھر حتمی لہجہ میں بولا ۔۔
"میں نے شہلا کے لیئے بہت کچھ برداشت کیا ہے ۔۔
میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔
مجھ سے سرداری لے لی جائے ۔۔
لیکن مجھے شہلا کو یہاں لانے کی اجازت دی جائے ۔۔
کیونکہ میرا اب حویلی میں رہنا ناممکن ہے ۔۔
اور شہلا کے بغیر رہنا بھی ممکن نہیں ۔۔
شاکوپا مجھے وہ چاہیے ۔۔
جان کے علاوہ جو چاہیں آپ مجھ سے لے لیں بدلے میں ۔۔
کیونکہ جان نہیں ہوگی تو شہلا کے ساتھ جیوں گا کیسے ۔۔"
آخر میں شمعون ذرا سا مسکرا دیا ۔۔
شاکوپا نے افسوس سے سر ہلایا ۔۔
جیسے کہہ رہا ہو ۔۔"تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔"
پھر سنجیدگی سے پوچھنے لگا ۔۔
"شمعون تمہیں شہلا سے کچھ نہیں مل سکتا ۔۔
تم جانتے ہو تمہارے خمیر میں آگ بھی شامل ہے ۔۔
اور یہ آگ کسی انسان کی جان لے سکتی ہے ۔۔
اور تم اس کی جان لو گے نہیں ۔۔
پھر کیوں پیچھے پڑے ہو اس کے ۔۔
چھوڑ دو اسے ۔۔
اپنی اور اس کی دونوں کی زندگی مشکل بنا رہے ہو ۔۔"
"نہیں شاکوپا نہیں ۔۔"
شمعون اس کی بات کاٹ کر دہاڑا ۔۔
"میں نہیں رہ پائونگا اس کے بنا ۔۔
میں اسے دیکھ کر ہی خوش ہوں ۔۔
لیکن دور نہیں جانے دونگا ۔۔
وہ میری بیوی ہے ۔۔"
"اس شادی کی کوئی اہمیت نہیں ۔۔"
شاکوپا اب کی بار جھنجلایا ۔۔
"میری نظر میں ہے ۔۔
میں اپنی ماں پر پڑا ہوں تو کیا ہوا ۔۔
میں ایک آدم زاد کی اولاد ہوں ۔۔
پھر کیسے نہیں اس نکاح کی اہمیت ۔۔"
شاکوپا کو بالآخر اندازہ ہوگیا کہ وہ بیکار میں اس سے بحث کر رہا ہے ۔۔
شمعون کبھی نہیں سمجھے گا ۔۔
جب کوئی اور مخلوق انسان پر عاشق ہوتی ہے ۔۔
وہ عشق پھر سب سے خطرناک عشق ہوتا ہے ۔۔
جہاں سے واپسی عاملوں کے جھاڑو کھائے بغیر ممکن نہیں ۔۔
اور شاکوپا ظاہر سے کسی عامل سے بات چیت کر کے اپنی اور قبیلے کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا ۔۔
اب جو کرنا تھا اسے خود ہی کرنا تھا ۔۔
لیکن کیا ۔۔؟
شاکوپا نے شمعون کو جا کر آرام کرنے کی ہدایت کی ۔۔
کیونکہ وہ جتنا زخمی تھا ۔۔
اس حساب سے اس نے خون بہت کم مقدار میں پیا تھا ۔۔
سو اس وقت بھی وہ کمزور سا لگ رہا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستی میں رہتے ہوئے شمعون کو چار روز گزر چکے تھے ۔۔
اس وقت انسانی دنیا میں گہری رات کا سماں تھا جبکہ بستی والوں کا گویا دن شروع ہوا تھا ۔۔
شاکوپا نہر سے پانی پی رہا تھا جب شمعون اس کے قریب جا کھڑا ہوا ۔۔
شاکوپا نے سوالیا نظروں سے اسے دیکھا جو اپنے انسانی روپ میں ڈھلا کھڑا تھا ۔۔
شاکوپا بھی انسانی شکل میں ڈھل کر اس کے مقابل ہوا ۔۔
"بہت صبر کر لیا میں نے ۔۔
اب اور نہیں ۔۔
میں شہلا سے ملنے جا رہا ہوں ۔۔"
شمعون جبڑے بھینچ کر بولا ۔۔
"کوئی فائدہ نہیں ۔۔
مجھے معلومات ملی ہیں کہ اس عامل نے ایک خاص حصار حویلی کے گرد کھینچا ہے ۔۔
ہم سمیت کوئی بلا اس حصار کو پار نہیں کر سکتی ۔۔
اور ساتھ ہی وہ شہلا کے گلے میں کوئی اسم شریف ڈال گیا ہے ۔۔
وہ حویلی سے باہر بھی نکل آئے ۔۔
تب بھی تم اس کے سائے تک بھی نہیں پہنچ سکتے ۔۔"
شاکوپا کے انکشافات نے شمعون کو کچھ لمحوں کے لیئے ساکت کر دیا ۔۔
اور پھر وہ غصے کی زیادتی سے کانپ اٹھا ۔۔
"دیکھتا ہوں کس کی مجال ہے کہ مجھے شہلا کے قریب جانے سے روکے ۔۔
اب پہلے اس عامل کو ٹھکانے لگانا ہوگا ۔۔"
شمعون مٹھیاں بھینچے آگے کی پلاننگ سوچنے لگا جب شاکوپا کوفت سے بولا ۔۔
"ایک بار نہیں دو بار ۔۔
تم مرنے کے قریب پہنچ گئے تھے ۔۔
پھر بھی اس عامل کی قابلیت پر شک ہے تمہیں ۔۔؟
وہ دور سے تمہاری موجودگی محسوس کر لے گا ۔۔
آج کل وہ ہمارے ہی پیچھے چلے کاٹ رہا ہے ۔۔
ایسے میں بستی سے نکلنا خطرے سے خالی نہیں ۔۔
تم نے شائد غور نہیں کیا ۔۔
کوئی بھی بستی سے باہر نہیں جا رہا ۔۔
شکار کو خود ہی بستی کی طرف متوجہ کر کے غذا کا انتظام کیا جا رہا ہے ۔۔"
شاکوپا سختی سے کہہ کر جانے لگا لیکن اگلے ہی پل چونک کر مڑا ۔۔
شمعون نہر میں اتر رہا تھا ۔۔
انسانی روپ میں ہونے کی وجہ سے وہ نہر میں ڈوب نہیں رہا تھا ۔۔
نہر کے دوسری طرف سے انسانی دنیا کی حدود شروع ہوجاتی تھیں ۔۔
اور شمعون دوسری طرف جا رہا تھا ۔۔
"ایک بات یاد رکھنا ۔۔
زندہ لوٹ آئے تو ٹھیک ۔۔
لیکن اس بار کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئیگا ۔۔
کیونکہ اس بار سوال سارے قبیلے کی زندگی کا ہے ۔۔"
چاند کی دودھیا روشنی میں جگمگاتا سیاہ پانی چیر کر آگے بڑھتا شمعون لمحہ بھر کو رکا ۔۔
پھر بغیر مڑے سر اثبات میں ہلا کر آگے بڑھ گیا ۔۔
نہر کے دوسری اور سارا قبیلہ شمعون کو یوں گم صم ہو کر دیکھ رہا تھا جیسے آخری بار دیکھ رہا ہو ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوبی کا سوئم بھی ہو چکا تھا ۔۔حویلی والوں کے چہرے پتھریلے ہو چکے تھے ۔۔
یہ احساس سب کو تڑپا رہا تھا کہ ان کے پیاروں کی قاتل وہ خونی بلا ان کے درمیان تھی اور وہ انجان بیٹھے رہے ۔۔
تیمور آفندی کو کسی نے کچھ کہا نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ دل میں خود کو سب کا مجرم سمجھتے ہوئے نظریں جھکائے پھر رہے تھے ۔۔
یہ سچ تھا کہ اب بھی وہ شمعون سے نفرت نہیں کر پا رہے تھے ۔۔
محبت جو اس قدر کر لی تھی ۔۔
اب نفرت ناممکن تھی ۔۔
لیکن ان کا دل خوف اور دکھ سے بوجھل تھا ۔۔
ان کے کتنے ہی پیاروں کی کیسی اجڑی پجڑی لاشیں انہوں نے اٹھائی تھیں ۔۔
اور طوبی ۔۔؟
وہ تو کتنی معصوم اور بے ضرر تھی ۔۔
اسے بھی نہ چھوڑا ۔۔
کیا تھا آخر ۔۔
کیا تھا اگر شمعون حویلی والوں کی جان نہ لیتا ۔۔
شائد ان کے دل کی حالت اتنی خراب نہ ہوتی ۔۔
شائد ان کا مان اتنی بری طرح نہ ٹوٹتا ۔۔
شائد ۔۔
تیمور آفندی نے شمعون کی اکلوتی تصویر کو لائٹر کے اس چھوٹے سے نارنجی گولے کی نظر کر دیا ۔۔
اس کے علاوہ وہ کر ہی کیا سکتے تھے ۔۔
معاملہ کسی انسان کا نہیں تھا جو وہ شمعون کی کھوج کرتے ۔۔
اب عامل سے ہی امیدیں تھیں ۔۔
یہ تھا تیمور آفندی کی طرف کا قصہ ۔۔
اور اب رہ گئی شہلا ۔۔
تو شہلا اب وہی پہلے والی شہلا بن چکی تھی جو بلکل بے سہارا تھی ۔۔
جسے تیمور آفندی نے اپنی رحمدلی کے ہاتھوں مجبور ہو کر حویلی میں پناہ دے دی تھی ۔۔
جس کا حویلی پر کوئی حق نہیں تھا ۔۔
سہمی سہمی گیسٹ روم میں رہائش پزیر وہ بے سہارا لڑکی ۔۔
جو حویلی والوں کی کاٹ دار نظروں کی ضد میں رہتی تھی ۔۔
پہلے لڑکیاں وغیرہ اس سے ہمدردی تو رکھتی تھیں ۔۔
اب تو بلکل ہی کترائی کترائی پھرتی تھیں ۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر شہلا نے رو رو کر سوج جانے والی آنکھوں کو دوپٹے سے صاف کیا ۔۔
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا ۔۔
وہ کمرے میں گیلری میں کھڑی اپنے نصیب کے حیرت انگیز کھیل پر حیران تھی ۔۔
اس کا سب کچھ چھین لینے والی خون آشام بلا ۔۔
بقول عامل بابا کے ۔۔
اس پر عاشق ہو چکی تھی ۔۔
یہی نہیں ۔۔
بلکہ وہ خود اس بلا سے نکاح بھی کر چکی تھی پورے ہوش و حواس میں ۔۔
اب نہ جانے آگے زندگی اسے اپنے کون کون سے نرالے رنگ دکھانے والی تھی ۔۔
شہلا ان ہی سوچوں میں تھی ۔۔
جب اسے گیلری میں کھڑے کھڑے ۔۔
دور روڈ پر ایک ہیولا بھاگتا نظر آیا ۔۔
شہلا نے خوفزدہ ہو کر غور کیا تو وہ بہت بڑے سائز کا سرخ آنکھوں والا بلا تھا ۔۔
جس کی آنکھوں کی چمک دور سے بھی واضع تھی ۔۔
شہلا نے چیخ روکنے کے لیئے دونوں ہاتھ لبوں پر جما لیئے ۔۔
کیونکہ وہ بلا حویلی کے گیٹ کے نزدیک آ کر رک گیا تھا ۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ انسانی شکل میں ڈھل گیا ۔۔
دور سے بھی شہلا اندازہ لگا تھی ۔۔
وہ کوئی اور نہیں ۔۔
اس کا مجرم ۔۔
اس کا محرم ۔۔
ایک بلا تھا ۔۔
وہ شمعون تھا ۔۔!
شمعون ایک ٹک دور نظر آتی شہلا کو دیکھ رہا تھا ۔۔
اس کی نظریں تیز تھیں ۔۔
سو وہ شہلا کی نسبت فاصلے کے باوجود اسے واضع دیکھ سکتا تھا ۔۔
اس نے بے اختیاری میں حویلی کی حدود میں قدم بڑھائے ۔۔
لیکن اگلے ہی پل اچھل کر پیچھے ہوگیا ۔۔
جان لیوا سا کرنٹ تھا جو سارے جسم میں دوڑ گیا تھا ۔۔
شمعون کا دل جیسے دو پل کے لیئے دھڑکنا بھول گیا تھا ۔۔
حصار بہت سخت معلوم ہوتا تھا ۔۔
حویلی کی دہلیز پر ناگوار گھوری ڈال کر شمعون نے پھر گیلری کی طرف دیکھا ۔۔
لیکن اب وہاں شہلا موجود نہیں تھی ۔۔
شمعون کے چہرے پر غیض و غضب کے آثار نظر آنے لگے ۔۔
اسے لگا تھا شہلا اسے ایک موقع دے گی ۔۔
اس کی بات سنے گی ۔۔
اور شائد سمجھے گی بھی ۔۔
لیکن وہ تو ۔۔!
اب اس کی آنکھوں میں غصہ و بے بسی واضع تھے ۔۔
مختلف جذبات میں ایک ساتھ گھرا وہ اچانک حلق کے بل دہاڑ اٹھا ۔۔
"شہلا ۔۔"
اور شہلا جو اپنی آنکھوں سے ایک بلے کو ۔۔
ایک انسان کے روپ میں ڈھلتا دیکھ کر دہشت زدہ ہوتی کمرے میں بھاگ آئی تھی اور گہری گہری سانسیں بھر رہی تھی ۔۔
شمعون کی لرزا دینے والے دہاڑ پر ہوش میں آتی بے اختیار چیخ پڑی تھی ۔۔
تو وقت آ چکا تھا ۔۔
نہ جانے اس کی زندگی کی کتاب کے بند ہونے کا ۔۔
یا کوئی نیا باب شروع ہونے کا ۔۔
یا ہو سکتا ہے یہ شمعون کی زندگی کا ہی آخری وقت ہو ۔۔
آخری خیال کے آتے کے ساتھ ہی شہلا کا دل ایک پل کے لیئے رک گیا ۔۔
کمال تھا ۔۔
جس حیوان نے اس کا سب کچھ چھین لیا تھا ۔۔
اس حیوان کی موت کا خیال اس کا دل بند کر گیا تھا ۔۔
شائد اس لیئے کہ وہ حیوان اپنے انسانی روپ میں اس پر بہت مہربان رہا تھا ۔۔
جانے ان کے نکاح کی کوئی حقیقت تھی یا نہیں ۔۔
لیکن شہلا نے تو مکمل ہوش و حواس میں قبول کیا تھا اسے ۔۔
جو بھی کیا تھا جیسے بھی کیا تھا ۔۔
سو اس کے جذبات بھی وہی تھے جو کسی بھی عام لڑکی کے ایسی سوچ پر ہو سکتے تھے ۔۔
شہلا کا دل ایک پل کے لیئے نرم ہوا تھا ۔۔
لیکن فقط ایک پل کے لیئے ۔۔
پھر نظروں کے سامنے اپنے پیاروں کے چہرے لہرانے لگے ۔۔
جو اس حیوان کی خوفناک بھوک کا نشانہ بن گئے تھے ۔۔
اف ۔۔
اس صبح کا منظر ۔۔
کتنا ہیبت ناک تھا ۔۔
اس کے چھوٹے چھوٹے معصوم کزنز ۔۔
ناصر کو تو گویا پالا ہی اس نے تھا ۔۔
اور معصوم سی چھوٹی سی سب کا خیال رکھنے والی ہانیہ ۔۔
وہ خود سے بھی بیگانہ طوبی ۔۔
سب کا کیا قصور تھا آخر ۔۔
اگلے ہی پل شہلا کا دل ہی نہیں چہرہ بھی سخت ہوگیا تھا ۔۔
ابھی وہ کیا کروں کیا نہ کروں کی سوچ میں تھی جب دروازے پر زوردار سی دستک ہوئی ۔۔
ساتھ ہی تیمور آفندی کی پریشان سی پکاریں بھی جاری تھیں ۔۔
شہلا نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا ۔۔
تیمور آفندی کے پیچھے وجدان امتل نازیہ اور حمزہ بھی موجود تھے ۔۔
"تم ٹھیک تو ہو ۔۔؟
میں نے کھڑکی سے دیکھا تھا ۔۔
شمعون آیا ہے ۔۔
اس کی دہاڑ سن کر میں ڈر گیا تھا ۔۔
سب ٹھیک ہے ناں ۔۔"
پریشانی سے کہتے ہوئے تیمور آفندی گیلری میں چلے گئے ۔۔
لیکن اب گیٹ پر کوئی موجود نہیں تھا ۔۔
تیمور آفندی نے اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیا ۔۔
خدا جانے اب کہاں چلا گیا تھا وہ ۔۔
اتنی جلدی ہار مان کر تو یقیناً نہیں جا سکتا تھا ۔۔
"آخر کہاں چلا گیا وہ ۔۔؟"
حمزہ نے غصے سے بپھر کر تیمور آفندی سے یوں پوچھا جیسے تیمور آفندی نے شمعون کو چھپایا ہو ۔۔
وجدان نے حمزہ کا بازو پکڑ کر ناگواری سے جھٹکا ۔۔
"آئندہ چاچو سے اس طرح بات مت کرنا حمزہ ۔۔
تم نے ہی نہیں میں نے بھی نقصان اٹھایا ہے ۔۔
اس کا مطلب یہ نہیں تم اتنے اوور ہوجائو ۔۔
ہماری طرح چاچو بھی لاعلم ہی تھے ۔۔"
"لیکن ان کے دل میں پھوٹتے رہتے تھے ناں اس شیطان کی ہمدردی کے سوتے ۔۔
جب کبھی اس نے بچپن میں ہمیں تکلیف پہنچائی یہ اس کی ڈھال بن جاتے تھے ۔۔
ہم نظر ہی نہیں آتے تھے ۔۔
اب بھگتیں ۔۔"
حمزہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا ۔۔
وجدان کوفت زدہ ہو کر گیلری سے نکل گیا ۔۔
حمزہ کا پارہ ہمیشہ سے ہی ہائی تھا ۔۔
اسے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا ۔۔
تیمور آفندی حمزہ کی مزید جلی کٹی سنتے ۔۔
لب کچلتے ہوئے سنسان اندھیری روڈ پر اپنی نم نظریں دوڑانے لگے ۔۔
امتل اور نازیہ نے پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جبکہ پیچھے کھڑی شہلا کچھ نہ کر کے بھی چور سی بن گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تکلیف دہ جھٹکے سے شمعون کی سیاہ آنکھیں کھلیں اور پھر کھلتی ہی چلی گئیں ۔۔
حیرت سے شمعون اپنے جسم کے گرد لپٹی اس موٹی سی زنجیر کو دیکھ رہا تھا جس میں سے آگ کی لپیٹیں نکل رہی تھیں ۔۔
آگ کی گرمائش کا اسے احساس تو ہو رہا تھا لیکن یہ آگ اسے فلحال نقصان نہیں پہنچا رہی تھی ۔۔
شمعون نے آس پاس نظریں دوڑائیں ۔۔
آس پاس صرف اندھیرا تھا ۔۔
اسے اپنے وجود کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔
شمعون کے چہرے پر الجھن چھا گئی ۔۔
ابھی ۔۔
ابھی ایک لمحہ پہلے ہی تو وہ حویلی کے باہر موجود تھا ۔۔
شہلا کی بے رخی سے دل برداشتہ وہ حویلی میں جانے کی یا شہلا کو حویلی سے بلوانے کی کوئی تدبیر سوچ رہا تھا ۔۔
جب اچانک اسے ایک زوردار جھٹکا لگا ۔۔
اور پھر وہ یہاں موجود تھا ۔۔
"کون ہے ۔۔؟
کس کی مجال ہے یہ ۔۔؟
اگر تو وہی عامل ہے تو سن ۔۔
میں کچھ نہیں چاہتا ۔۔
اپنی بیوی کو اپنی بستی میں لیجانا چاہتا ہوں بس ۔۔
مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ۔۔
مجھے جانے دے ۔۔"
شمعون چیخ کر بولا ۔۔
پھر تھوڑی دیر جواب ملنے کا انتظار کیا ۔۔
لیکن جب کوئی جواب نہ ملا ۔۔
تب پھر سے چلایا ۔۔
"اگر تو مجھے مارنا چاہتا ہے ۔۔
تو یاد رکھنا میرے قبیلے کے لوگ پوری حویلی کو ختم کردیں گے ۔۔
تو شائد جانتا نہیں ۔۔
میں قبیلے کا سردار ہوں ۔۔"
شمعون نے اپنی بات مکمل کر کے ایک بار پھر کسی جواب کا انتظار کیا ۔۔
لیکن اب بھی ہر طرف خاموشی ہی رہی ۔۔
شمعون کا غصے سے حال برا تھا ۔۔
نہ جانے یہ کیسی زنجیر تھی ۔۔
اس کی ساری طاقتیں بیکار جا رہی تھیں ۔۔
"کیوں چھپ کر بیٹھا ہے ۔۔
بڑا نیک اور بآثر بنتا ہے ۔۔
اتنی ہمت نہیں کہ میرے سامنے آئے ۔۔
سامنے آ اگر مقابلے کی ہمت ہے تو ۔۔
ہنہہ اگر مقابلے کی ہمت ہوتی تو مجھے یوں بے بس نہ کرتا ۔۔"
خود کو اس زنجیر سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے شمعون کا غصہ عروج پر تھا ۔۔
انسان واقعی اشرف المخلوقات تھا ۔۔
اس کی جگہ کوئی باشعور انسان ہوتا تو کیا محبت میں اتنا بیوقوفانہ قدم اٹھاتا ۔۔؟
یقیناً نہیں ۔۔
لیکن وہ اٹھا چکا تھا ۔۔
اور اب بھگت رہا تھا ۔۔
زنجیروں سے نکلتی آگ کی تپش زور پکڑتی جا رہی تھی ۔۔
شمعون کو ایسا لگ رہا تھا ۔۔
جیسے زنجیر اس کے گوشت میں دھیرے دھیرے دھنس رہی ہو ۔۔
اس کا گوشت گل رہا ہو ۔۔
اپنی طرز کا سلو پوائزن کہہ سکتے ہیں ہم اسے ۔۔
"بلکل ٹھیک کہا ۔۔"
ایک جانی پہچانی آواز اچانک گونجی ۔۔
ساتھ ہی اندھیرے کمرے میں انسانی وجود سے مشابہ آگ بڑھکنے لگی ۔۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ آگ ایک کریہہ صورت بوڑھے شخص کا روپ دھار گئی ۔۔
اس کے سر پر بال نام کو نہیں تھے ۔۔
لیکن ایک عجیب سا شیطانی شکل کا نشان سر پر بنا تھا ۔۔
اس کریہہ صورت شخص کے دانت انسانی دانتوں کے سائز کے ہی تھے لیکن آخر میں جا کر نوکیلے ہوجاتے تھے ۔۔
کوئلے سی رنگت والے چہرے پر خوب ہی پھٹکار برس رہی تھی ۔۔
سیاہ لباس میں کھڑا وہ دانت نکوستا شخص نہ جانے کون تھا ۔۔
شمعون چونک گیا ۔۔
جو آواز اس نے سنی تھی وہ اس شخص کی نہیں تھی ۔۔
وہ اس آواز کو اچھی طرح پہچانتا تھا ۔۔
"خیمو ۔۔
"کہاں چھپا ہے تو غدار ۔۔
کیوں کر رہا ہے یہ سب ۔۔
کون ہے یہ ۔۔؟"
شمعون کی چیخ اس بار اتنی اونچی نہیں تھی ۔۔
کیونکہ وہ سخت حیرت میں مبتلا تھا ۔۔
خیمو اس کے قبیلے کا ایک عام سا فرد تھا ۔۔
سوائے سرداری پر وقتی رنجش کے ۔۔
ان کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا ۔۔
"بڑی جلدی پہچانا ۔۔"
خیمو اچانک شمعون کے پیچھے سے اس کے کان کے قریب منہ کر کے بولا ۔۔
سامنے کھڑا آگ کی صورت آنے والا شخص قہقے لگانے لگا ۔۔
دماغ کی دنیا ہلا دینے والا قہقہ تھا ۔۔
"
ہاں واقعی تجھ سے لڑنے کی ہمت نہیں ۔۔
میں مان گیا ۔۔
جب ہی اس شیطان کے چیلے کو ساتھ ملایا ہے ۔۔
اور دیکھ اب تو کتنا بے بس ہے ۔۔
کہیں سے لگ رہا ہے سردار ۔۔؟
ہاہاہاہاہاہا ۔۔
اور کیا پوچھ رہا تھا تو ۔۔؟
یہ کون ہے ۔۔
یہ شیطان کا پجاری ہے ۔۔
اور تیرا ہونے والا آقا بھی ۔۔
اور میں ہوں خیمو ۔۔
قبیلے کا ہونے والا سردار ۔۔"
خیمو اپنی بات ختم کر کے اس شیطان صفت شخص کے ساتھ ہنسنے لگا جبکہ شمعون تکلیف سے کراہنے لگا ۔۔
زنجیر کی تکلیف حد سے سوا ہونے لگی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہری سانس خارج کر کے انہوں نے اپنے سامنے کھڑے اس وجود کو دیکھا تھا ۔۔
جو عام انسانی نظروں سے پوشیدہ تھا ۔۔
جو خبر وہ لایا تھا وہ انہیں ٹھٹھکا گئی تھی ۔۔
شمعون کے اپنے قبیلے کے ہی کچھ لوگوں نے مل شمعون کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی ۔۔
ساتھ ہی ایک بہت بڑے جادوگر کو بھی ملا کیا تھا ۔۔
وہ شنکر جادوگر تھا ۔۔
کالے جادو کی دنیا کے سب سے بآثر جادوگروں میں سے ایک ۔۔
شنکر اتنی طاقتیں حاصل کر چکا تھا کہ اب اسے انسان کہنا عجیب لگتا تھا ۔۔
وہ بہت سی حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک بن چکا تھا ۔۔
کہا جاتا ہے اس نے شیطان کی راہ میں پہلی قربانی اپنے ہی بھائی کی چڑھائی تھی ۔۔
اس کی اصل رہائش گاہ بھارت کے کسی ویرانے میں تھی ۔۔
تاہم وہ اپنے مطلب کے لیئے ملکوں ملکوں جادو کے زور پر گھومتا تھا ۔۔
اور اب اسے جنون سا ہو چکا تھا دنیا کے ہر قسم کے جنات بلائوں چڑیلوں ڈائنوں کے گروہ میں سے ایک ایک کو اپنی غلامی میں لینے کا ۔۔
سو بلیوں اور انسانوں کی شکل میں ڈھل جانے والی اس عجیب و غریب مخلوق کے مختصر سے قبیلے کی اطلاع ملتے ہی وہ پاکستان چلا آیا تھا ۔۔
یہاں اس کی توجہ شمعون نے کھینچ لی تھی ۔۔
ایک ایسی بلا ۔۔
جس کا باپ آدم زاد تھا ۔۔
ماں بلا تھی ۔۔
اور وہ اپنے قبیلے کا سردار بھی بن چکا تھا ۔۔
یہ شنکر کی خوش قسمتی تھی کہ قبیلے کے کچھ نوجوان شمعون کی سرداری سے ناخوش رہتے تھے ۔۔
اور خیموں سمیت آٹھ دس بلائوں نے شنکر کا ساتھ بخوشی دینے کی حامی بھرلی تھی ۔۔
اب ان کا کھیل آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا ۔۔
شنکر کچھ دیر کے عمل سے شمعون کو قابو کر کے اپنے ساتھ لے جاتا ۔۔
اور خیموں کو سرداری مل جاتی ۔۔
خیموں کو سرداری ملتی تو وہ اپنا ساتھ دینے والوں کو انسانی دنیا میں بے دھڑک بے وجہ تباہی مچانے کی اجازت دے دیتا ۔۔
یعنی جو ہونے کا امکان تھا ۔۔
اس میں صرف اور صرف نقصان تھا ۔۔
ان کے سرخ و سفید چہرے پر لہراتے تفکر کے سائے دیکھ کر وہ اندیکھا وجود بے ساختہ پوچھ بیٹھا ۔۔
"کیا اب کچھ بہت غلط ہونے کا امکان ہے پیر صاحب ۔۔؟"
"اللہ سب کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے قمر ۔۔
ہمیں کچھ کرنا ہوگا ۔۔
شمعون کے دیگر قبیلے والے تنہا ہوتے تو سب اتنا مشکل نہیں تھا ۔۔
یہ مخلوق آدم خور ضرور ہے ۔۔
لیکن بہت طاقتور نہیں ۔۔
مگر وہ شنکر جادوگر ۔۔
وہ بہت زیادہ خطرناک ہے ۔۔
بہت سی تباہ کاریوں کا ذمہ دار ہے ۔۔
اس سے نبٹنا آسان نہیں ۔۔
فلحال تو جلد از جلد تیمور صاحب کو بلوائو ۔۔
حویلی کے دیگر افراد میں اس تمام صورتحال میں وہی معقول نظر آتے ہیں ۔۔"
"جی پیر صاحب ۔۔"
ایک خوبصورت مردانہ آواز گونجی ۔۔
ار پھر دروازے پر لگا سفید پردہ ذرا سا ہلا ۔۔
گویا قمر چلا گیا تھا ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اللہ ھو اکبر ۔۔
اللہ ھو اکبر ۔۔"
اذان کی آواز پر شہلا نے چونک کر گیلری کی طرف دیکھا ۔۔
وہ سوچوں مں گھری زمین پر سکڑی بیٹھی تھی ۔۔
اور بیڈ سے ٹیک لگا رکھی تھی ۔۔
اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کتنی دیر گزر چکی تھی ۔۔
چونکہ موسم سرد ہو چکا تھا سو آسمان نے اب بھی سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی ۔۔
وہ وضو کرنے کے خیال سے اٹھی اور ایک لمبی انگڑائی لی ۔۔
ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے جسم اکڑ رہا تھا ۔۔
ابھی شہلا نے ہاتھوں کو جھٹکنا شروع ہی کیا تھا جب کچھ آوازوں پر گیلری کی طرف دوڑ پڑی ۔۔
تیمور آفندی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے ۔۔
حویلی کے دیگر مرد حضرات بھی وہاں موجود تھے ۔۔
اچانک حمزہ بھی وہاں چلا آیا ۔۔
اور تیمور آفندی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔
وجدان نے گیٹ کھولا اور گاڑی باہر نکل گئی ۔۔
"اس وقت تیمور انکل کہاں جا رہے ہیں ۔۔
کچھ گڑ بڑ لگتی ہے ۔۔
یا اللہ ۔۔
سب خیر رکھیئے گا ۔۔
مزید کوئی نقصان اٹھانے کا ۔۔
کسی کو کھونے کا ۔۔
حوصلہ نہیں ہے ۔۔"
دو آنسو شہلا کی آنکھوں سے نکلے اور دوپٹے میں جذب ہوگئے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر کی نماز مسجد میں ادا کر کے وہ لوگ پیر صاحب کے آستانے پر جا پہنچے ۔۔
جہاں وہ بے صبری سے ان کا انتظار کر رہے تھے ۔۔
کسی کتاب میں سے بغور کچھ پڑھتے ہوئے انہوں نے تیمور آفندی او حمزہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔
وہ دونوں پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے زمین پر بچھی چٹائی پر بیٹھ گئے ۔۔
اب پیر صاحب کی نظریں کتاب کے کھلے اوراق پر جمی تھیں اور تیمور آفندی اور حمزہ کی ان کے چہرے پر ۔۔
ان کا چہرہ سپاٹ تھا لیکن لب دھیرے دھیرے ہل رہے تھے ۔۔
شائد وہ کچھ پڑھ رہے تھے ۔۔
بالآخر پندرہ منٹ کا صبر آزما وقت ختم ہوا اور پیر صاحب نے کتاب بند کر کے دراز میں رکھ دی ۔۔
پھر اپنی پرسوچ روشن نظریں ان دونوں کے الجھن بھرے چہروں پر ٹکا دیں ۔۔
"کیا چاہتے ہو تیمور ۔۔؟
شمعون نے جان چھڑانا چاہتے ہو ۔۔
یا اسے سزا دینا چاہتے ہو ۔۔
کہ وہ تکلیف میں رہے ۔۔؟"
ان کا مخاطب تیمور آفندی تھے لیکن جواب جھٹ سے حمزہ کی طرف سے آیا تھا ۔۔
"دونو ۔۔
دونو صورتیں ممکن ہوں تو کیا ہی بات ہے پیر صاحب ۔۔
اس نے ہمیں اتنی تکلیف دی ہے ۔۔
اسے بھی تکلیف ہونی چاہیے ۔۔
پل پل ہونی چاہیے ۔۔
اور ہم دوبارہ اسے اپنے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتے ۔۔
ہمیشہ کے لیئے جان چھڑوائیں اس سے ۔۔
احسان ہوگا آپ کا ہم غم کے ماروں پر ۔۔"
حمزہ کا جوش اس وقت ٹھنڈا پڑ گیا جب پیر صاحب کی پیشانی پر ایک گہرا بل پڑ گیا ۔۔
"میں تیمور سے مخاطب ہوں ۔۔
جذباتی لڑکے ۔۔
تم بیچ میں مت بولو ۔۔"
"معذرت پیر صاحب ۔۔
کیوں ناں بولوں میں بیچ میں ۔۔؟
مجھے پورا حق ہے ۔۔
اس بلا نے میرا نقصان کیا ہے ۔۔
باقی حویلی کا کیا ہے ۔۔
یہ تو رہ رہے تھے مزے میں ۔۔
انہوں نے تو اپنے کسی پیارے کو نہیں کھویا ۔۔
انہیں کیا احساس ہوگا ۔۔
میں ان کے ساتھ یہاں آیا بھی اس لیئے ہوں کہ کہیں یہ آپ کو منع نہ کردیں اسے نقصان پہنچانے سے ۔۔
بہت عزیز ہے وہ انہیں ۔۔"
"میں اسے یا کسی کو بھی بلا ضرورت نقصان پہنچاتا ہی نہیں ۔۔
نقصان پہنچانا میرا کام نہیں ہے ۔۔
میں بھلائی کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔
اگر معاملہ بات سے حل ہوجائے تو بات ہی کیا ہے ۔۔"
پیر صاحب اب کے بار نرمی سے گویا ہوئے ۔۔
"لیکن اس نے ہمارا جو جانی نقصان کیا ہے ۔۔"
حمزہ جھبجلا کر بولا ۔۔
"بیٹے ۔۔
ساری کائنات کو بنانے والے نے ۔۔
اسے ایسا ہی بنایا ہے ۔۔
یہ بات ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرو ۔۔
ہر مخلسق کی ایک فطرت ہوتی ہے ۔۔
اور مخلوق اپنی فطرت سے مجبور ہوتی ہے ۔۔
خیر ۔۔
میرے پاس تم سے بحث کا وقت نہیں ۔۔
وقت بہت کم ہے ۔۔
تیمور تم میری بات غور سے سنو اور حمزہ ۔۔!
تم بلکل چپ رہو ۔۔"
پھر تمام صورتحال جان لینے کے بعد تیمور آفندی تو پریشان ہو اٹھے تھے جبکہ حمزہ فوراً پرجوش ہو کر بولا ۔۔
"تو اس میں برا کیا ہے ۔۔؟
لیجائے وہ جادوگر شمعون کو اپنے ساتھ ۔۔
اس سے جان ہی تو ہم چھڑوانا چاہتے ہیں ۔۔"
"ایک بات واضع بتائو مجھے ۔۔
تم شمعون سے جان چھڑوانا چاہتے ہو یا اس آدم خور مخلوق سے ۔۔؟"
حمزہ پیر صاحب کے اس سوال پر چپ سا ہوگیا ۔۔
اسے چپ دیکھ کر پیر صاحب مزید بولے ۔۔
"یہ مخلوق عام جنوں کے مقابلے میں تعداد میں بہت کم ہے ۔۔
تین سے چار سو کی تعداد میں ہونگے ۔۔
شمعون سے جان چھڑوا لو گے ۔۔
تب بھی یہ خون خرابہ نہیں رکے گا ۔۔
بلکہ حالات اور خراب ہو جائیں گے ۔۔
کیونکہ خیمو اور اس کے دیگر ساتھی شمعون کے خلاف ہیں ۔۔
اور شمعون کا تعلق حویلی سے ہے ۔۔
شمعون کے اس پجاری کے غلامی میں جاتے کے ساتھ ہی وہ لوگ حویلی پر بہت خوفناک حملہ کر سکتے ہیں ۔۔
سمجھے ۔۔؟
اب تم لوگ یہیں بیٹھو ۔۔
میں شاکوپا سے بات کرنے جا رہا ہوں ۔۔"
"کیا شاکوپا ۔۔؟"
"یہ شاکوپا کون ہے ۔۔؟"
حمزہ اور تیمور آفندی نے ایک ساتھ پوچھا ۔۔
"وہ اسی قبیلے کا ایک بزرگ ہے ۔۔"
پیر صاحب کی اطلاع پر دونوں چچا بھتیجہ نے ہونق سی شکل بنا کر ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔
نہ جانے کیا ہونے والا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون کا گوشت گل رہا تھا ۔۔
اذیت سے وہ مسلسل غرا رہا تھا ۔۔
اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں ۔۔
جیسے بلے کے روپ میں ہوجاتی تھیں ۔۔
اس کے دانے ناخن اور کان بھی بلے
جیزے ہو چکے تھے ۔۔
لیکن جسمانی طور پر اور ناک نقش اب بھی انسانوں جیسے ہی تھے۔۔
جبکہ خیموں اور اس کے دیگر ساتھی سنجیدہ چہروں کے ساتھ شنکر جادوگر کی کاروائی کا جائزہ لے رہے تھے ۔۔
وہ کیا کیا کر رہا تھا ان کی سمجھ سے باہر تھا ۔۔
قریب ہی ایک تھال میں تازہ خون پڑا تھا جبکہ ایک مردہ انسانی وجود دیوار کے ساتھ پڑا تھا ۔۔
یہ خون اس ہی قسمت کے مارے کا تھا جسے شنکر جادوگر کے حکم پر خیمو کہیں سے اٹھا لایا تھا ۔۔
شنکر جادوگر نہ جانے کون سی بولی بول رہا تھا ۔۔
خون کا رنگ سیاہ ہونے لگا تھا ۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے سرخ خون سیاہ سیال میں بدل گیا تھا ۔۔
"یہ خون اسے پلا دو ۔۔"
شنکر جادوگر نے آنکھیں بند کیئے کیئے شمعون کی طرف اشارہ کیا ۔۔
خیموں تیزی سے تھال اٹھا کر اس کی طرف بڑھا ۔۔
لیکن اچانک ہی خون اپنے اصل رنگ میں لوٹ گیا ۔۔
خیموں نے الجھ کر شنکر کی طرف دیکھا ۔۔
"جیسے پوچھ رہا ہو ۔۔
"کیا اب بھی پلادوں ۔۔؟"
جبکہ شنکر کی آنکھیں اب بھی بند تھیں ۔۔
لیکن اس کا سیاہ کریہہ چہرہ اچانک پسینے سے تر ہوگیا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔
اس کا چہرہ غصے میں اور خوفناک لگ رہا تھا ۔۔
"جنگ کی تیاری کرو ۔۔
تمہارے قبیلے کے کچھ لوگ یہاں آتے ہی ہونگے اس کی مدد کو ۔۔
میں ذرا اس عامل دیوا کا کریاکرم کروں ۔۔
مجھ سے ٹکراتا ہے ۔۔
شنکر جادوگر سے ۔۔
خونی عشق (قسط نمبر 8)
تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے