بغض کی آگ - پارٹ 11 آخری

 urdu stories

 Sublimegate Urdu Stories

بغض کی آگ - پارٹ 10

گارڈ کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا ارے یار ۔۔۔۔ آگے مصیبتیں کم تھیں جو اب یہ مردہ خانے والی عورت آگئی ہے ؟؟ کون تھی وہ عورت ؟؟ گارڈ نے کہا پتا نہیں سر وہ وارڈ بوائے شفیق آیا تھا اسی نے کہا تھا کہ کوئی عورت مردہ خانے میں چلی گئی ہے ۔ سرجن نے کہا ارے اس وقت وہ عورت وہاں کیا کرنے گئی ہے رات میں تو ہم بھی وہاں جاتے ہوئے خوف کھاتے ہیں تو پھر یہ عورت اتنی دلیر کیسے۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے سرجن اچانک رکا اور سعید کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ارے کہیں وہ عورت وہی چیز تو نہیں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟

 سعید نے کہا پتا نہیں ڈاکٹر صاحب ۔ ابھی سعید سرجن سے یہ بات کر ہی رہا تھا کہ وارڈ بوائے شفیق پھر سے دوڑتا ہوا آیا اور سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے بولا سر۔۔ وہ۔۔۔ عورت۔۔وہ وہاں۔۔۔ یہ کہتے ہوئے شفیق کی سانسیں پھول رہیں تھیں ۔ سرجن نے شفیق سے کہا ارے رکو پہلے سانس لو ۔۔

 آرام سے سانس لو پھر سرجن نے گارڈ سے کہا اسے پانی دو ۔۔ گارڈ نے جلدی سے شفیق کو پانی پلایا پھر شفیق نے ایک لمبی سانس لی اور بولا ڈاکٹر صاحب وہ مردہ خانے میں ایک عورت گھس گئی تھی جب ہم اسے پکڑنے گئے تو ہم نے دیکھا وہ وہاں مردوں کا گوشت کھا رہی تھی لیکن اس کی شکل بہت عجیب سی ہے ہمارے گارڈز نے اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اندھیرے میں کہیں چھپی گئی ہے اور وہاں کہ لائٹیں بھی نہیں جل رہیں ہیں ۔ شفیق کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا ارے یار ۔۔۔۔ وہ عورت نہیں ہے بیوقوف۔۔۔ یہ کہتے ہوئے سرجن جلدی سے بھاگتا ہوا مردہ خانے گیا اس دوران سرجن کے ساتھ سعید اور شفیق بھی تھا اور پھر وہاں جا کر سرجن نے دیکھا کہ گارڈز ٹارچ کی مدد سے اس عورت کو ڈھونڈ رہے تھے تبھی سرجن نے گارڈز سے کہا سب لوگ ابھی کے ابھی مردہ خانے سے باہر آؤ جسے سنتے ہی گارڈز مردہ خانے سے باہر نکل آئے ۔

سرجن نے کہا وہاں کوئی عورت نہیں ہے ۔ یہ سنتے ہی ایک گارڈ نے کہا سر لیکن ہم نے اسے ابھی دیکھا تھا وہ لاشوں کو کھا رہی تھی لیکن پھر اچانک لائٹیں بند ہو گئیں اور وہ کہیں چھپ گئی ہے ۔ سرجن نے کہا ارے وہ عورت نہیں ہے اب چلو یہاں سے اتنے میں سعید نے سرجن کے بازوں کو پکڑتے ہوئے بنا بولے اپنی انگلی سے اوپر دیوار کی طرف اشارہ کیا ۔۔جب سرجن نے دیوار پر دیکھا تو وہی خوفناک عورت کسی کا کٹا ہوا بازوں پکڑ کر اس کا گوشت ایسے کھا رہی تھی جیسے کوئی گننے کو اپنے منہ سے چھیل کر کھاتا ہے ۔ اسے دیکھتے ہی سرجن نے کہا چلو سب پیچھے ہٹ جاؤ تبھی ایک گارڈ نے کہا سر ہم اسے پکڑ سکتے ہیں سرجن نے کہا نہیں ہم اسے نہیں پکڑ سکتے چلو جلدی یہاں سے اس سے پہلے وہ ہمیں کوئی نقصان پہنچائے ۔ یہ کہتے ہوئے سرجن سب کو لے کر وہاں سے واپس آگیا ۔ واپس آتے ہی سرجن نے گارڈز سے کہا تم سب لوگ میری بات غور سے سنو۔۔! تم میں سے کوئی بھی اس بارے میں کسی سے بات نہیں کرے گا پہلے ہی اسمہ کے معاملے کو لے کر ہسپتال کے کافی لوگوں میں خوف وہراس پھیلا ہوا ہے ایسے میں اگر کسی کو مردہ خانے میں جو ہوا اس کے بارے میں پتا چلا تو پورے ہسپتال میں افراتفری پھیل جائے گی جسے سنبھالنا ہمارے بس میں نہیں ہو گا ۔ سرجن کی یہ بات سن کر گارڈز نے کہا جی سر ہم سمجھ گئے ۔ اتنے میں ایک گارڈ نے سرجن سے پوچھا سر وہ عورت تھی کون ؟؟ کیا وہ کوئی جن چڑیل تو نہیں تھی ؟؟ سرجن نے کہا ایسا ہی کچھ سمجھ لو۔ لیکن سب اپنا منہ بند رکھنا اور اب تم سب جاؤ اپنی اپنی ڈیوٹی کرو لیکن مردہ خانے کی طرف کسی کو مت جانے دینا گارڈز نے کہا جی سر ۔ اس کے بعد سرجن نے سعید سے کہا چلیں ڈاکٹر ثاقب کو چل کر دیکھ لیتے ہیں وہ شاید بہت زخمی ہو گیا تھا سعید نے کہا جی ڈاکٹر صاحب ان کی ٹانگوں پر گہرے زخم آئے تھے سرجن نے کہا ہاں اتنا تو مجھے یاد ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا تھا مجھے کچھ پتا نہیں کیونکہ اس وقت کسی نے میرے کان کے پاس آکر لمبی سی سانس لی اور میں بہت ڈر گیا پھر اسی وقت میرے پیچھے سے کسی نے میری گردن کو پکڑا تو میرا پورا جسم ٹھنڈا ہونے لگا تھا پھر مجھے چکر آنے لگے اس دوران میں ثاقب کو گرتا ہوا دیکھ رہا تھا اور میں آپ لوگوں کو آواز دینا چا رہا تھا پر شاید ڈر کی وجہ سے میرے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی ۔ سعید نے کہا جی ڈاکٹر صاحب ایسا ہو جاتا ہے آواز میری بھی نہیں نکل رہی تھی کیونکہ جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کچھ دیر ایک جگہ پر کھڑے ہوئے ہمیں دیکھ رہے اور اسی دوران آپ بیہوش ہو کر گئے اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ بدبخت چیز آپ کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی ۔ سرجن نے کہا اس کا مطلب اسی نے میری گردن پکڑی تھی سعید نے کہا جی ڈاکٹر صاحب ایسا ہی ہے۔ یہ باتیں کرتے ہوئے سرجن اور سعید ڈاکٹر ثاقب کے پاس پہنچ گئے وہاں جا کر دیکھا تو ڈاکٹر ثاقب بیڈ پر لیٹا ہوا تھا پھر سرجن اور سعید نے ڈاکٹر ثاقب کا حال چال پوچھا اور اس کے بعد سرجن نے ڈاکٹر ثاقب کو مردہ خانے والے واقعے کے بارے میں بتایا تو ڈاکٹر ثاقب نے کہا سر اس کا جلدی کوئی حل کریں یہ چیز تو بہت زیادہ خطرناک ہے ایسے تو یہ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے سعید نے کہا جی اس نے تو کسی کو نہیں چھوڑا پتا نہیں یہ آفت اب کیا کرے گی۔ ڈاکٹر ثاقب نے کہا بس دعا کریں کہ اللّٰہ رحم کرے ہم سب پر ۔ اتنے میں سرجن نے کہا ثاقب اب آپ آرام کرو ہم اسمہ کو دیکھنے جا رہے ہیں اس کے پاس دو نرسوں کو چھوڑ کر آیا تھا خدا کرے کہ وہ ڈر نا گئی ہوں ۔ ثاقب نے کہا سر کیا ان نرسوں کو پتا ہے کہ اسمہ کو کیا مسلہ ہے ؟؟ سرجن نے مسکراتے ہوئے کہا ارے بھئی آپ کو کیا لگتا ہے اگر انہیں ذرا بھی معلوم ہوتا تو کیا وہ اسمہ کے پاس رہ سکتیں تھیں؟؟ ڈاکٹر ثاقب نے کہا بالکل بھی نہیں سر ۔ پھر سرجن نے کہا اسی وجہ سے میں نے ان کو نہیں بتایا بس یہی کہا کہ اسمہ سائیکو پیشنٹ ہے اس کو کھولنا مت ۔ سرجن کی یہ بات سن کر ڈاکٹر ثاقب اور سعید تھوڑا سا مسکرائے پھر سرجن نے سعید سے کہا چلیں سعید صاحب اسمہ کو دیکھتے ہیں۔ 

 ۔ یہ کہتے ہوئے سرجن سعید کو لے کر اسمہ کے پاس گیا تو دونوں نرسیں اسمہ کے پاس بیٹھی ہوئی آپس میں باتیں کر رہی تھیں سرجن نے ان نرسوں سے پوچھا کیا یہاں سب ٹھیک ہے کوئی مسلہ تو نہیں ہوا کسی بھی قسم کا ؟؟ نرسوں نے کہا جی سر فلحال تو سب ٹھیک ہے پر ابھی تک ان کو ہوش نہیں آیا اور ہاں سر۔۔۔ ایک عورت آئی تھی ان کو دیکھنے کے لیئے شاید ان کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی لیکن وہ ان کو دیکھ کر عجیب عجیب سی باتیں کر رہی تھی ان کو برا بھلا بول رہی تھی ہم نے ان کو رکا پر وہ ہم سے بھی بدتمیزی کرنے لگی اور پھر غصے سے کہیں چلی گئی ۔ سرجن نے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ محترمہ ثمینہ کی بات کر رہی ہیں شاید ۔۔ سعید نے کہا جی ڈاکٹر صاحب وہی ہو گی اور کون ہو سکتا ہے ۔ پھر ایک نرس نے سرجن سے کہا سر ان کے چہرے پر سیاہ داغ بن رہے ہیں جو کہ پہلے ہلکے نظر آ رہے تھے لیکن اب دیکھیں واضع طور پر نظر آرہے ہیں سرجن نے تھوڑا اسمہ کے قریب ہو کر دیکھا تو واقعی میں اسمہ کے چہرے پر بڑے بڑے سے سیاہ دھبے پڑ رہے تھے جسے دیکھ کر سرجن نے کہا اوہ نہیں۔۔۔ یہ ۔۔ نہیں ہو سکتا ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے سرجن تھوڑا پریشان ہو گیا اسی وقت سعید نے سرجن سے پوچھا ڈاکٹر یہ کیا ہو رہا ہے اسمہ کے چہرے پر ؟؟ سرجن نے کہا سعید صاحب یہ دھبے صرف چہرے پر نہیں ان کے پورے جسم پر پڑ جائیں گے اور یہ بہت ہی خطرناک علامت ہے ہیں سعید نے حیرت سے پوچھا تو ڈاکٹر صاحب اس سے اسمہ کو کیا نقصان ہو گا ؟؟ سرجن نے کہا میری زندگی میں ایسے کچھ کیسز آئے تھے جس میں اندازاً اگر 100 ایسے کیس ہوں تو اس میں سے 34 ایسے پیشنٹ ہوتے ہیں جو کہ ایسی علامت کے ظاہر ہونے کے بعد وہ پیشنٹ چند دنوں کے مہمان رہ جاتے ہیں اور پھر کچھ دنوں میں ان کی موت واقع ہو جاتی ہے اس لیئے میں آپ سے یہ کہنا تو نہیں چاہتا پر اسمہ کی جان خطرے میں ہے ۔ یہ سنتے ہی سعید نے سرجن سے کہا ڈاکٹر صاحب تو آپ کچھ کرتے کیوں نہیں ؟؟ سرجن نے کہا سعید صاحب آپ حوصلہ رکھیں ہم اپنی پوری کوشش کریں گے اور ہم سے جو بھی بن پائے گا ہم وہ کریں گے باقی اللّٰہ کی مرضی آپ بس دعا کریں کہ اسمہ کی حالت بہتر ہو جائے ۔ یہ سنتے ہی سعید اسمہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پھر سے اپنے آپ کو کوسنے لگا اور پھر اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر اوپر کی کر کے نم آنکھوں کے ساتھ اللّٰہ سے اسمہ کے حق میں بہتری کے لیئے دعا کرنے لگا پھر کچھ دیر گزری تو سرجن نے سعید سے کہا سعید صاحب آپ اب فون کر کے دیکھیں ٹائم تو تقریباً ہو ہی چکا ہے اب ٹرائی کریں ۔ سعید اپنے آنسوں صاف کیئے اور بولا جی ڈاکٹر صاحب اور یہ کہتے ہوئے سعید نے فوراً جیب سے موبائل نکالا اور جلال الدین صاحب کو فون کیا تو انہوں نے فون اٹھایا پھر سعید نے ان سے سلام دعا کرنے کے بعد کہا جلال الدین صاحب میں بہت مشکل میں ہوں پھر سعید نے ان کو اسمہ کے بارے میں بتایا تو جلال الدین صاحب نے کہا دیکھیں سعید صاحب یہ تو ہونا ہی تھا لیکن اب آپ مجھے یہ بتائیں آپ اس وقت کونسے ہسپتال میں ہیں ؟؟ سعید نے ان کو ہسپتال کا نام بتایا پھر جلال الدین صاحب نے کہا میں جلد سے جلد آپ کے پاس پہنچے کی کوشش کرتا ہوں آپ لوگ نماز پڑھ کے دعا کریں انشاء اللّٰہ سب ٹھیک ہو جائے گا خدا حافظ۔۔ یہ کہنے کے بعد جلال الدین صاحب نے فون بند کر دیا اور سعید نے جلدی سے جاکر وضو کیا اور پھر نماز پڑھ کر اسمہ کے حق میں بہتری کی دعا کی اور جائے نماز پر ہی بیٹھا ہوا درودشریف پڑھتا رہا پھر کچھ دیر گزرنے کے بعد سعید نے پھر سے جلال الدین کو فون کیا تو انہوں نے کہا میں بس ہسپتال کے باہر ہی ہوں بس ایک دو منٹ میں پہنچ رہا ہوں سعید نے پھر سے دعا مانگی اور جائے نماز کو اٹھا کر سائیڈ پر رکھا اور باہر جلال الدین کو لینے چلا گیا اس دوران سرجن اور دونوں نرسیں اسمہ کا چیکپ کر رہے تھے اور سرجن نے کہا اللّٰہ کرے اس بیچاری کی جان بچ جائے ورنہ مجھے تو بہت مشکل لگ رہا ہے جو حالت اس کی ہو چکی ہے ابھی سرجن یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک پورے وارڈ میں خوشبو سی پھیل گئی سرجن نے کہا یہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے اتنے میں آواز آئی اسلام وعلیکم سرجن نے فوراً وارڈ کے دروازے پر دیکھا تو سعید کے ساتھ ایک نورانی چہرے والا شخص کھڑا ہوا تھا سرجن نے اس شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وعلیکم اسلام اگر میں غلط نہیں ہوں تو آپ جلال الدین صاحب ہیں شاید ؟؟ اس شخص نے کہا جی ڈاکٹر صاحب آپ نے سہی پہچانا ۔ اتنے میں سعید نے اسمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جلال الدین سے کہا حضرت وہ ہے اسمہ ۔ جلال الدین نے کہا کہاں ہے اسمہ ؟؟ سعید نے کہا حضرت وہ جو بیڈ پر لیٹی ہوئی ہے وہ اسمہ ہی ہے ۔ جلال الدین نے کہا سعید صاحب آپ نے تو اسمہ کی پہچان ہی بھلا دی ہے وہ اسمہ نہیں ہے ۔ جلال الدین کی یہ بات سن کر وہاں کھڑے سب لوگ حیرانی سے جلال الدین کو دیکھنے لگے اسی وقت سرجن نے جلال الدین صاحب سے کہا محترم جناب یہ اسمہ ہے آپ کی بیٹی ؟؟ جلال الدین نے کہا ڈاکٹر صاحب جب اس کا شوہر ہی اس کو نہیں پہچان سکا تو آپ کیا پہچانیں گے اسمہ کو ۔۔۔ ؟؟؟ سرجن نے حیرانی سے سعید کی طرف دیکھا اور کہا سعید صاحب یہ سب کیا ہے یہ محترم کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کی بیٹی نہیں ہے ؟ سعید نے ایک بار پھر سے جلال الدین سے کہا حضرت میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں آخر آپ اسمہ کو پہچان کیوں نہیں رہے ؟؟ جلال الدین نے اسمہ کے بیڈ کے پاس جا کر کہا میری بیٹی مسلمان ہے اور آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں اس شیطان کو اپنی بیٹی بولوں ؟؟ سعید نے کہا پر یہ اسمہ ہی ہے آپ دیکھ کیوں نہیں پا رہے دیکھیں یہ وہی شکل وہی بال وہی چہرہ ہے ۔ جلال الدین نے کہا چاہے یہ سب کچھ وہی ہے لیکن یہ اسمہ نہیں ہے یہ کہتے ہوئے جلال الدین نے اپنی جیب سے ایک پانی کی بوتل نکالی اور اس کا پانی اسمہ پر پھینکا اور جیسے ہی وہ پانی اسمہ پر گرا تو اچانک اسمہ کی شکل بدل گئی اور بہت زیادہ بھیانک ہو گئ وہ ایک دم سے اٹھی اور عجیب سی آوازیں نکالتی ہوئی سعید کو کہنے لگی میں تیری بیوی کو مار دونگی میں نے تیرا بچہ مارا ہے میں اسے بھی مار دونگی ۔۔ یہ دیکھتے ہی سعید اور سرجن ڈر گئے نرسیں فوراً وارڈ چھوڑ کر بھاگ گئیں ۔ جلال الدین صاحب نے اس خوفناک عورت سے کہا تو کس کے اشارے پر اس معصوم کو تنگ کر رہی ہے بتا جلدی ؟؟ جلال الدین کی یہ بات سن کر اس ڈائین نے کہا میرے مالک کو ڈھونڈتا ہے میں تجھے بھی مار دونگی یہ کہتے ہوئے اس ڈائین نے اپنے ہاتھوں پیروں پر بندھی رسیاں توڑ دیں اور بیڈ کے اوپر سے چھلانگ لگا کر فوراً جلال الدین کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی لیکن جلال الدین اپنی جگہ سے ذرا بھی نہیں ہلا بس منہ میں کچھ پڑھتا رہا اس ڈائین نے جلال الدین کو گلے سے پکڑا لیا یہ دیکھتے ہوئے سعید نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس ڈائین کو روکنے کی کوشش کی تو جلال الدین نے ہاتھ کے اشارے سے سعید کو رک جانے کو کہا اور پھر جلال الدین نے اس ڈائین سے کہا اب بھی وقت ہے مردود بتا دے تو کس کے اشارے پر اسمہ کی دشمن بنی ہوئی ہے ؟؟ ورنہ میں تجھے جلا کر راکھ کر دونگا بول جلدی ؟؟ یہ کہتے ہوئے جلال الدین نے اسی بوتل کا پانی پھر سے اس کے چہرے پر چھڑکا اور اس ڈائین نے چیختے ہوئے جلال الدین کا گلا چھوڑ دیا اور اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر چلانے لگی اسی دوران جلال الدین نے اپنی جیب ایک سبز رنگ کا دھاگہ نکالا اور اس دھاگے کو اس ڈائین کے بازو پر باندھ دیا اس دوران وہ ڈائین ایسے چلانے لگی جیسے اس کی جان نکل رہی ہو ۔ پھر جلال الدین نے اس ڈائین سے کہا بتا تیرا کیا لینا دینا ہے اس معصوم کے ساتھ بتا جلدی ورنہ ۔۔۔ اس ڈائین نے کہا میں اس کی جان نہیں چھوڑ سکتی اس نے میری چیز کو کھا لیا ہے اس لیئے اب میں اس کو نہیں چھوڑ سکتی مجھے چھوڑ دو میرا تمہارے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں لیکن میں اسے نہیں چھوڑ سکتی ۔ جلال الدین نے کہا اچھا یہ تمہیں تمہاری چیز واپس کرے گی لیکن پہلے تمہیں اس کو چھوڑنا پڑے گا میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں تمہاری چیز واپس ملے گی میں جانتا ہوں کہ تمہیں کیا چاہیئے ۔ اس ڈائین نے کہا میں کسی وعدے کو نہیں جانتی چھوڑ دو مجھے اس دوران وہ ڈائین اس دھاگے کو چھڑانے کی کوشش کی رہی تھی لیکن جیسے ہی وہ اس دھاگے کو چھوتی تو اس کے ہاتھوں میں جیسے کوئی کرنٹ سا لگتا تھا اور وہ فوراً اپنے ہاتھ کو پیچھے کر لیتی ۔ پھر جلال الدین نے کچھ پڑھا اور اس ڈائین پر پھونک کر کہا اب چھوڑ دے اسے ۔ بس پھر کیا تھا کہ اسمہ کو ایک جھٹکا سا لگا اور وہ زمین پر گر گئی ۔ ابھی سعید اسمہ کو پکڑنے ہی والا تھا کہ جلال الدین نے سعید سے کہا نہیں پیچھے رہو ابھی ۔ پھر جلال الدین نے کسی اندیکھی چیز سے کہا ٹھیک ہے رکو تمہیں تمہاری چیز مل جائے گی ۔ اس دوران سرجن اور سعید حیرت سے جلال الدین کی طرف دیکھ کر جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ کس سے بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ اسمہ تو زمین پر گری ہوئی تھی لیکن جلال الدین ابھی بھی اسی طرف دیکھ کر بات کر رہا تھا کہ جیسے کوئی جلال الدین کے سامنے کھڑا ہو لیکن وہ صرف جلال الدین کو ہی نظر آرہا تھا ۔ اس کے بعد جلال الدین نے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ایک کالی مرغی لاؤ اور ایک چھوٹا کالا بکرا لے آؤ لیکن یاد رہے بکرا اور مرغی بالکل کالی ہونی چاہیے اس پر کسی اور رنگ کا داغ نا ہو اور ذرا جلدی کرنا ورنہ یہ ناراض ہو جائے گی ۔ جلال الدین کی یہ بات سن کر سعید جلدی سے مرغی اور بکرا لینے کے لیئے چلا گیا اس دوران جلال الدین نے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب آپ ڈرے ہوئے لگ رہے ہیں سرجن نے کہا جی بس تھوڑا سا ڈرا ہوا ہوں جلال الدین نے کہا اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ اب کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گی اس کا نقصان ہوا ہے اس لیئے میں اس کے نقصان کا ازالہ کروں گا سرجن نے کہا کس کا نقصان ہوا ہے ؟؟ جلال الدین نے کہا یہ جو میرے سامنے کھڑی ہے ضدی کہیں کی ۔ سرجن نے کہا معاف کیجئے گا جلال صاحب پر مجھے تو آپ کے سامنے کوئی کھڑا ہوا نظر نہیں آرہا ؟؟ جلال الدین نے کہا میں جانتا ہوں ۔ آپ میرے ساتھ آکر کھڑے ہو جائیں تو آپ کو پتا چل جائے گا آیئے جب سرجن جلال الدین کے ساتھ جا کر کھڑا ہوا تو اس نے اسی ریچھ جیسے ہاتھوں والی لڑکی کو دیکھا اور اسے دیکھتے ہی ڈر کے ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا اور جلال الدین سے کہنے لگا حضور یہ تو وہی ہے اس نے مجھے زخمی کیا تھا یہ بہت خطرناک ہے جلال الدین نے کہا بے شکّ یہ ہے پر میرے اللّٰہ کے کلام کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں ہے اور اس نے آپ کے ساتھ جو کیا وہ غصے میں کیا ہوگا کیونکہ یہ سہی کہہ رہی ہے اس کے ساتھ ذیادتی ہوئی ہے اس لیئے یہ غصیلی ہو کر سب کو پریشان کر رہی تھی۔ سرجن نے کہا یہ صرف پریشان ہی نہیں کر رہی تھی بلکہ اس نے اسمہ کا پیٹ پھاڑ کر اس کا بچہ بھی کھایا ہے ۔ جلال الدین نے کہا یہ بہت دکھ کی بات ہے لیکن یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ حاملہ عورت جو کچھ بھی کھاتی پیتی ہے وہی اس کے بچے کی خوراک بھی بنتا ہے یہ بات تو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کیونکہ آپ ڈاکٹر ہیں سرجن نے کہا جی جی ایسا ہی ہے۔ جلال الدین نے کہا اسی لیئے ایک معصوم بھی اس کی ماں کی غلطی کی وجہ سے اس کا قصوروار بن گیا تھا تو اس نے دونوں کی جان لینے کی کوشش کی ہوگی لیکن یہ صرف بچے کو ہی مار پائی لیکن مجھے یہ جان کر بہت افسوس ہوا میرا نواسہ یا نواسی اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا یہ کہتے ہوئے جلال الدین کی آنکھوں میں بھی آنسوں آگئے ۔ اتنے میں سعید ایک کالی مرغی اور ایک کالے رنگ کا چھوٹا بکرا لے کر آگیا اسے دیکھتے ہی جلال الدین نے سعید سے کہا یہ بکرا اور مرغی دونوں کو باری باری اسمہ کے سر کے گرد سات سات چکر لگوا کر ان کو ویرانے میں لے جاؤ جہاں سورج کی روشنی نا پڑتی ہو سعید نے کہا حضرت ایسی جگہ کہاں ملے گی ؟؟ جلال الدین نے کہا غور سے دیکھو گے تو مل جائے گی ایسی بہت سی ویران جگہیں ہیں جنگل کھنڈرات پرانے بند پڑے مکانات اور عمارات ہیں جن کے آنگن میں سورج کی روشنی نہیں پڑتی ۔ سعید نے کہا جی حضرت میں سمجھ گیا ۔ اس کے بعد سعید نے بکرے اور مرغی کو باری باری اسمہ کے سر کے گرد سات چکر لگوائے اور انہیں لے کر جانے لگا ۔ اسی دوران جلال الدین نے سعید سے کہا ذرا رکو ۔ سعید رک گیا پھر جلال الدین نے اندیکھی چیز سے کہا دیکھو اب ہم تمہاری چیز تمہیں لوٹا رہے ہیں اب تم اپنی جگہ پر جاؤ تمہاری چیز تمہیں مل جائے گی ۔ جلال الدین نے ابھی یہ بات کہی ہی تھی کہ اچانک ایک زوردار ہوا کا جھونکا آیا جس کی وجہ سے وارڈ کا درواز جھٹ سے بند ہو گیا پھر جلال الدین نے سعید سے کہا وہ جا چکی ہے اب تم میری بات غور سے سنو جب تم یہ مرغی اور بکرا ویرانے میں چھوڑو گے تو اس کے بعد تم نے پیچھے مڑ کر ہرگز نہیں دیکھنا کیونکہ جب تم ان دونوں چیزوں کو ویرانے میں چھوڑ کر واپس آنے لگو گے تو یہ بلا جو ابھی گئی ہے یہ کچھ قدم تمہارے ساتھ چلے گی کیونکہ بکرے اور مرغی کو تمہارے ہاتھ لگے ہوں گے اس لیئے یہ تمہیں آواز بھی دے سکتی ہے یاں بکرے کی شکل میں تمہارے سامنے بھی آئے گی لیکن تم نے وہاں سے بنا کسی چیز کو چھوئے جلد از جلد نکل کر واپس آجانا ہے لیکن بنا کوئی غلطی کے یاد رہے اگر تم نے پیچھے دیکھا یا پھر جو جانور تم چھوڑ کر آرہے ہو گے ان میں سے کسی کو دوبارہ ہاتھ لگایا تو یہ اسی وقت تمہارے سامنے کھڑی ہو جائے گی اور پھر تمہارے پیچھے پیچھے پھر واپس آ جائے گی ۔ اور پھر سے تم لوگوں کو تنگ کرے گی اس لیئے چاہے کوئی تمہیں تمہارے نام سے یا کسی کی آواز میں بھی بلائے تو پیچھے مت دیکھنا اور رکنا مت سعید نے کہا جی میں سمجھ گیا یہ کہتے ہوئے سعید بکرے اور مرغی کو لے کر چلا گیا اور اس نے بکرے اور مرغی کو ایک ویران کھنڈر نما عمارت میں چھوڑ دیا اور واپس چلنے لگا کہ اتنے میں سعید کو لگا کہ جیسے اس کے بالکل پیچھے اس کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی چل رہا ہے لیکن سعید نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور چلتا رہا پھر اچانک سعید کو پیچھے سے اسمہ کی آواز آئی ایک پل کے لیئے سعید نے چاہا کہ پیچھے دیکھ لوں لیکن پھر سعید کو جلال الدین صاحب کی بات یاد آگئی کہ پیچھے ہرگز نہیں دیکھنا یہ سوچتے ہوئے سعید واپس ہسپتال میں آگیا سعید کو دیکھتے ہی جلال الدین نے کہا اگر یہ تم پہلے ہی کر لیتے تو آج ہمیں یہ سب نہ دیکھنا پڑتا ۔ سعید نے کہا بس غلطی ہو گئی حضرت۔ اس پر جلال الدین نے کہا چلو کم سے کم تمہیں اس بات کا احساس تو ہوا دراصل اسمہ نے دو بار کسی کا صدقہء کھایا تھا اس لیئے جو بلا صدقہء سے ٹل جاتی ہے وہ اسمہ کے پیچھے پڑ گئی تھی اسی کی وجہ سے تمہارا بچہ بھی اس دنیا سے چلا گیا لیکن تم نے اسمہ کو صدقہء کی چیز کھانے کیوں دی ؟؟ سعید نے کہا حضرت اس بارے میں مجھے بالکل کچھ پتا نہیں جلال الدین نے کہا میں نے آپ کی آنکھوں میں اسمہ کے لیئے لاپرواہی دیکھی تھی لیکن آپ اس قدر لا پرواہ ہوں گے یہ مجھے معلوم نہیں تھا سعید نے کہا حضرت میں اسی بات پر بہت زیادہ شرمندہ ہوں اتنا کہ اگر خودکشی حرام نا ہوتی تو کب کی کر لیتا اسی لیئے آج میں آپ کے سامنے کھڑے ہونے سے بھی شرم سے پانی پانی ہو رہا ہوں جلال الدین نے کہا جو ہو گیا وہ ہو گیا اب تم میرے سامنے شرمندہ مت ہو اور آئیندہ سے اپنی شریک حیات کے بارے میں لاپرواہی مت برتنا خاص طور پر اس کے کھانے پینے کے معاملے میں؟؟ سعید نے کہا جی حضرت اب سے میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دونگا میں اپنی جان سے بھی زیادہ اس کی پرواہ کرونگا سعید کی یہ بات سن کر جلال الدین نے کہا اچھا ہے اور اب مجھے تم سے یہی امید ہے۔ 

 ۔ پھر سعید نے دیکھا کہ اسمہ بیڈ پر گم سم بیٹھی ہوئی تھی سعید نے سرجن سے کہا سر اب اسمہ کی حالت کیسی ہے؟؟ سرجن نے کہا سعید صاحب اب اسمہ بالکل ٹھیک ہے بس پیٹ کے ٹانکے ہیں یہ بھی جلدی ہی ٹھیک ہو جائیں گے ۔ جلال الدین نے کہا نہیں ڈاکٹر صاحب اسمہ ٹھیک نہیں ہے اسے ٹھیک کرنا پڑے گا یہ کہتے ہوئے جلال الدین نے کچھ پڑھا اور اپنے ہاتھوں پر پھونک ماری دی پھر اسمہ کے گلے میں پڑے ہوئے اس شیطانی عامل کے تعویذ کو پکڑ کر اسے کھینچ کر اسمہ کے گلے سے اتار دیا پھر اس تعویذ پر کچھ پڑھ کر اسے نیچے پھینکا تو وہ تعویذ خودبخود جل کر راکھ ہو گیا ۔ اس کے بعد جلال الدین نے اپنی جیب سے ایک اور پانی بوتل نکالی اور سعید سے کہنے لگا کہ اسمہ کے ہاتھوں کو قابو میں کرو سعید نے جلدی سے اسمہ کے ہاتھ پکڑ لیئے جلال الدین نے سرجن سے کہا ڈاکٹر صاحب معاف کیجئے گا لیکن یہ کرنا بہت ضروری ہے پھر جلال الدین نے سعید سے کہا جب تک میں یہ سارا پانی اسمہ کو پلا نا دوں تب تک اس کے ہاتھ مت چھوڑنا سعید نے بنا بولے ہاں میں سر ہلایا پھر جلال الدین نے اسمہ کے منہ کو کھول کر بوتل کا سارا پانی اسمہ کے منہ میں ڈالنا شروع کیا تو اس دوران اسمہ نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن سعید نے اس کے ہاتھ نہیں چھوڑے وہ چلانے لگی لیکن جلال الدین نے سارا پانی اسمہ کو پلا دیا ۔ پھر سے سے کہا وہ جو بالٹی پڑی ہے اسے جلدی سے اسمہ کے پاس رکھ دو سعید نے جلدی سے بالٹی اسمہ کے پاس رکھ دی اور جلال الدین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا حضرت اس سے کیا ہو گا جلال الدین نے کہا کالے جادو کا خاتما ہو گا ابھی جلال الدین یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک اسمہ نے کالے رنگ کی الٹیاں کرنی شروع کر دیں اس کے منہ سے کالی سی گار نکل رہی تھی اس دوران سرجن نے کہا جلال الدین صاحب اس کی وجہ سے اسمہ کے پیٹ کے ٹانکے ٹوٹ سکتے ہیں جلال الدین نے کہا ڈاکٹر صاحب اللّٰہ پر بھروسہ رکھیں سب ٹھیک ہو جائے گا بس کچھ دیر کی بات ہے اسمہ نے سات آٹھ بڑی بڑی گار کی الٹیاں کیں اور پھر آخر میں چھوٹی سی ایک خون کی الٹی کی اس کے بعد جلال الدین نے ایک پانی کا گلاس پکڑا اور اس پر دم کر کے اسمہ سے کہا اب بسم اللّٰہ پڑھو اور اسے پی لو بیٹی۔ اسمہ نے ہانپتے ہوئے بسم اللّٰہ پڑھی اور وہ پانی پی لیا اور جیسے ہی اسمہ نے وہ پانی پیا اس کے ٹھیک دو منٹ کے بعد اسمہ پوری طرح سے کالے جادو سے پاک ہو گئ یہ دیکھتے ہی سرجن نے کہا ایسا جادو میں زندگی میں پہلی بار اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں مجھے یقین نہیں ہو رہا جلال الدین صاحب آپ نے تو یہ جادو کر کے کمال ہی کر دیا سرجن کی یہ بات سن کر جلال الدین صاحب ہنسنے لگے اور بولے ارے ڈاکٹر یہ جادو نہیں اللّٰہ کا کلام ہے اور اس میں بہت طاقت ہے ابھی جلال الدین صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اسمہ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنے ٹانکوں کو ایک بار پھر سے دیکھا تو جلال الدین کی طرف دیکھتے ہوئے بولی بابا میرا بچہ ؟؟؟ جلال الدین نے کہا بیٹی تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا یہ سنتے ہی اسمہ پھر سے ظاروقطار رونے لگی پھر سعید اور جلال الدین نے اسمہ کو دلاسہ دے کر بمشکل سنبھال لیا پھر سعید اور سرجن نے اسمہ کو بچے اور اس دوران تمام واقعات کے بارے میں بتایا سن کر اسمہ پھر سے روتی ہوئی بولی اتنا کچھ ہو گیا پر مجھے پتا کیوں نہیں چلا تو جلال الدین نے کہا بیٹی اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے دراصل تم پر کالا جادو کیا گیا تھا یہ سنتے ہی اسمہ نے کہا کالا جادو؟؟؟ پر بابا وہ کس نے کیا ؟؟ میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جس پر جلال الدین نے کہا بیٹی ضروری نہیں ہے کہ ہم کسی کا کچھ بگاڑیں تو ہی کوئی ہمارے ساتھ برا کرے گا کبھی کبھی کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کے کسی سے حسد اور بعض کی آگ میں جل کر بھی کسی کے ساتھ ایسا کر دیتے ہیں اللّٰہ ایسے لوگوں کو بدایت دے ۔ اتنے میں سعید نے جلال الدین صاحب سے کہا پر حضرت میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ؟؟ جلال الدین نے پوچھا جی سعید صاحب پوچھیئے ابھی سعید جلال الدین سے کوئی سوال کرنے ہی والا تھا کہ اسمہ کی والدہ اور اسمہ کی چھوٹی بہن بھی ہسپتال میں آگئیں اور آتے ہی انہوں نے اسمہ کو گلے سے لگا لیا پھر اسمہ نے ان کو بچے کے دنیا سے چلے جانے کے بارے میں بتایا وہ تینوں پھر سے گلے لگ کر رونے لگیں۔ انہیں دیکھتے ہی سعید نے جلال الدین سے پوچھا حضرت ان کو کیسے پتا چلا کہ اسمہ یہاں ہے ؟؟ جلال الدین نے کہا میں ان لوگوں کو بتا کر ہی گھر سے نکلا تھا اور ان سے کہا تھا کہ جب تک پوری طرح دن نا نکلے گھر سے باہر مت آنا اسی لیئے یہ لوگ اب آئے ہیں پھر اسمہ کی والدہ سعید کے پاس آئیں اور بولیں آپ نے ہمیں اپنے گھر آنے سے تو پہلے ہی منا کر دیا تھا اب آپ چاہتے تھے ہم یہاں بھی اپنی بیٹی سے نا مل پائیں ؟؟ اسمہ کی والدہ کی یہ بات سنتے ہی سعید نے کہا دیکھیئے میں سمجھا نہیں میں نے آپ کو کب منا کیا تھا کہ آپ ہمارے گھر نا آئیں ؟؟ بلکہ میں تو کب سے آپ کی راہ تکتا رہتا تھا کہ آپ لوگ ایک بار تو ہم سے مل لیں آکر یہ اسمہ آپ کے پاس بیٹھی ہے اس سے پوچھ لیں میں اکثر اس سے یہی کہتا تھا کہ پتا نہیں تمہارے گھر والے یہاں کیوں نہیں آتے ۔۔ پوچھیئے اس سے اسی دوران اسمہ نے کہا جی امی سعید تو آپ لوگوں کی بہت عزت کرتے ہیں یہ تو اکثر مجھے کہتے تھے کہ اپنے گھر والوں کو بلاؤ اور ایک دو مرتبہ جب ہم آپ سے ملنے گئے تب آپ لوگ گھر پر نہیں تھے ۔ اسمہ کی والدہ نے سعید سے کہا تو پھر تم نے اپنی بیوی ثمینہ سے کیوں کہا تھا اسمہ کے گھر والوں سے کہو کہ ہم سے زیادہ فضول کی رشتےداری بڑھانے کی کوشش نہ کریں اور دوبارہ اسمہ سے کوئی رابطہ نا کریں نا ہی فون وغیرہ کریں ورنہ تم اسمہ کو طلاق دے دو گے اسی لیئے ہم نے دوبارہ کبھی اسمہ کو فون بھی نہیں کیا ۔ یہ سنتے ہی سعید نے حیرانی سے کہا محترمہ میں ایسا کیوں کروں گا ؟؟ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یاں آپ لوگوں کو کسی نے میرے بارے میں غلط بتایا ہے ارے یہ اسمہ گواہ ہے کہ میں جلال الدین صاحب سے کتنی محبت کرتا ہوں اور ان کی کتنی عزت کرتا ہوں میں تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جیسا آپ کہہ رہی ہیں ۔ اسمہ کی والدہ نے کہا تو پوچھیں اپنی بیوی ثمینہ سے کبھی وہ ہمیں کہتی تھی کہ ہم آپ سے زیادہ بات نا کریں آپ مصروف انسان ہیں کبھی وہ کہتی تھی کہ اگر ہم آپ سے بات کریں گے تو آپ کے باقی رشتے داروں کی نظر میں آپ کی عزت میں فرق آئے گا اسی لیئے جب آپ ہمیں فون کرتے تھے تو ہم لوگ آپ سے کم ہی بات کرتے تھے کیونکہ ہم اپنی بیٹی کا گھر خراب نہیں کرنا چاہتے تھے اسی لیئے جلال الدین صاحب نے ہمیں سختی سے منع کیا تھا کہ ہم لوگ آپ سے کبھی کوئی الٹی سیدھی بات نا کریں اور نا ہی آپ کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف دیں لیکن آخر میں ہمیں آپ کی بیوی نے ہی کہا تھا کہ آپ ہم لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتے کیونکہ آپ کی حیثیت ہم لوگوں سے بہت زیادہ ہے۔ سعید نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا یہ سب آپ کو ثمینہ نے کہا ؟؟؟ جس پر اسمہ کی والدہ نے کہا جی سعید صاحب یہ سب ہمیں آپ کی بیوی نے کہا تھا اس دوران جلال الدین صاحب اپنی بیوی کو چپ کروانے کی کوشش کرتے رہے پر اسمہ کی والدہ نے ان سے نا ملنے کی ساری حقیقت بیان کر دی ۔ یہ سب سنتے ہی سعید آگ بگولہ ہو گیا اور ثمینہ کو ڈھونڈنے لگا لیکن ثمینہ پورے ہسپتال میں نہیں ملی پھر سعید نے ثمینہ کو فون کیا تو ثمینہ نے کہا میں گھر آگئ ہوں میرے سر میں درد ہے یہ سنتے ہی سعید نے فون کاٹا اور پھر سرجن سے کہنے لگا ڈاکٹر صاحب کیا ہم اسمہ کو گھر لے جا سکتے ہیں ؟؟ سرجن نے کہا ابھی اسمہ کی حالت پوری طرح ٹھیک تو نہیں پر اگر آپ کے کر جانا چاہتے ہیں تو آپ کے جا سکتے ہیں لیکن ان کا پراپر چیکپ کرواتے رہیئے گا ۔ سعید نے کہا جی ضرور اس کے بعد سعید نے ہسپتال والوں کا بل ادا کیا اور سب سے شکریہ بولا پھر سعید نے اسمہ کی والدہ سے کہا بس ایک بار آپ سب لوگ میرے ساتھ میرے گھر چلیں ۔ یہ سنتے ہی جلال الدین نے کہا نہیں سعید صاحب میں آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اس وقت بہت غصے میں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ آپ ہماری وجہ سے اپنی پہلی بیوی کو کچھ برا بھلا بولیں ویسے بھی حقیقت تو سامنے آہی گئی ہے اور اب ہم سب سمجھ چکے ہیں یہ سب کیا دھرا آپ کی بیوی ثمینہ کا ہے لیکن پھر بھی ہم نہیں چاہتے کہ آپ اسے کوئی بھی سزا دیں ۔ سعید نے کہا حضرت میں کچھ نہیں کروں گا بس میری آپ سے التجاء ہے کہ آپ ایک بار میرے ساتھ چلیں پلیز ؟؟؟ تو جلال الدین صاحب نے کہا اچھا ٹھیک ہے پر اس معاملے کو لے کر آپ اپنی بیوی ثمینہ کو ڈانٹیئے گا مت ۔ سعید نے کہا جی جیسا آپ چاہیں ۔ اس کے بعد سعید اسمہ اور اس کے گھر والوں کو اپنے گھر لے گیا پھر سعید نے ثمینہ اور اسمہ کی والدہ کو آمنے سامنے بیٹھا کر ساری باتیں کیں جس پر ثمینہ کوئی جواب نا دے سکی بلکہ الٹا اسمہ کے گھر والوں کو برا بھلا بولنے لگی جس پر سعید کو غصہ آگیا اور سعید ثمینہ کو تھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ جلال الدین صاحب نے سعید کا ہاتھ پکڑ کر کہا سعید صاحب اگر آپ نے ثمینہ پر ہاتھ اٹھایا تو ہم سب یہاں سے چلے جائیں گے اور پھر کبھی نہیں آئیں گے ۔ جلال الدین کی یہ بات سن کر سعید نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھا اور بیٹھ گیا اسی دوران ثمینہ کی دوست نازی روتی ہوئی ثمینہ کے پاس آئی اور اس اسمہ کو دیکھ کر اسمہ کے پاؤں پکڑ لیئے اور گڑگڑا کر اسمہ سے معافی مانگنے لگی اسمہ کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے پھر اسمہ نے کہا نازی آپی پلیز آپ یہ کیا کر رہی ہیں کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں ؟؟ نازی نے روتے ہوئے کہا میرا بیٹا مر گیا ہے اور میری بیٹیاں بھی اسی بیماری میں مبتلا ہو گئ ہیں خدا کے لیئے اسمہ مجھے معاف کر دو میں تم سے اپنی بیٹوں کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوں مجھے معاف کر دو ؟؟ نازی کی یہ بات سنتے ہی سب لوگ حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے ۔ اتنے میں اسمہ نے نازی سے کہا نازی آپی آپ کا کیسے فوت ہو گیا ابھی کل تک تو وہ بالکل ٹھیک تھا ؟؟ نازی نے غصے سے ثمینہ کی طرف دیکھا اور ثمینہ کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اسمہ سے کہنے لگی یہ سب اس ثمینہ ڈائین کی وجہ سے ہوا۔۔ اس نے تمہارے اوپر کالا جادو کروایا تھا اور اس کام کو انجام دیتے ہوئے میں بھی اس کے ساتھ تھی لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ آج میں کسی کے بچے کی جان خطرے میں ڈال رہی ہوں تو کل کو یہ میرے بچوں کے آگے بھی آسکتا ہے اور مجھے اسی کی سزا ملی دیکھو میرا ایک بچہ مر گیا ہے اور دو کی زندگی بھی خطرے میں پڑی ہے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگر 72 گھنٹے میں ان کی طبیعت میں بہتری نا آئی تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے یہ کہتے ہوئے نازی دھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگی اتنے اسمہ نے نازی سے کہا نازی آپی میں نے بھی اپنا بچہ کھو دیا ہے اور میں جانتی ہوں کہ ایک ماں کے لیئے اس کی اولاد کھونے کا غم کیا ہوتا ہے آپ نے میرے ساتھ جو بھی کیا میں اس کے لیئے آپ کو معاف کرتی ہوں اور میں اللّٰہ سے دعا کرتی ہوں کہ اللّٰہ پاک آپ کے بچوں کو جلد از جلد صحت اور تندرستی عطا فرمائے آمین ۔ یہ کہتے ہوئے اسمہ نے جلال الدین صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بابا کچھ کریں ۔ جلال الدین نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلایا اور ایک پانی کی بوتل دم کر کے نازی کو دیتے ہوئے کہا یہ پانی بچوں کو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پلاتے رہنا اور سورۃ الرحمٰن پڑھ کر بچوں پر پھونک مارتے رہنا انشاء اللّٰہ تعالیٰ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ نازی نے پانی کی بوتل پکڑ اور اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر جلال الدین صاحب سے معافی مانگنے لگی تو جلال الدین صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ارے میری بچی ایسا نہیں کرتے جاؤ شاباش اور یہ پانی بچوں کو پلا دو ۔ یہ سنتے ہی نازی وہاں سے جانے لگی تو ثمینہ نے نازی سے کہا اے چڑیل تو اس طرح مجھے سب کے سامنے ذلیل کروا کر نہیں جا سکتی ۔ یہ سنتے ہی نازی کو پھر سے ثمینہ پر غصہ آگیا اور اس نے سعید کے سامنے ثمینہ کی ساری حقیقت ایک ایک بات کے ساتھ بیان کر دی اس نے یہ بھی بتایا کہ ثمینہ جو اسمہ کو سوپ پلاتی تھی وہ صدقے کے گوشت کا پلاتی تھی کیونکہ کالے جادو کرنے والے اس شیطانی عامل نے ایسا کرنے کو کہا تھا آخر میں نازی نے ثمینہ سے کہا ڈائین بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے پر تم تو ایسی ناگن ہو کہ تم نے حسد اور بعض کی آگ میں جل کر اسمہ جیسی معصوم کو بہن بنا کر ایسا ڈنک مارا ہے کہ اس کے لیئے تجھ پر جتنی بھی لعنت بھیجی جائے کم ہے تیرا بھی حال برا ہی ہو گا دیکھنا تو ذرا یہ کہتے ہوئے نازی چلے گئ اور نازی کی یہ سب باتیں سنتے ہی سعید نے اسی وقت ثمینہ کو طلاق دے دی جس سے اچانک ثمینہ کا دماغی توازن خراب ہو گیا اور وہ پاگل ہو گئی اس دن سب افسردہ ہو گئے پھر کچھ دیر گزرنے کے بعد سعید نے مینٹل ہسپتال میں فون کیا اور وہ لوگ ثمینہ کو لے گئے پھر اسمہ نے اپنے بابا سے کہا بابا میں تو کافی ساری سورتیں زبانی پڑ لیتی ہوں لیکن جب مجھے پہلی بار کوئی ڈراونی سی شکل والی عورت نظر آئی تھی تو میرے سے آئیت الکرسی بھی نہیں پڑھی جا رہی تھی اس کی کا وجہ ہے جلال الدین نے کہا بیٹی یہ سب اس کی وجہ سے ہو رہا تھا جو کہ ثمینہ تمہیں کھانے میں ملا کر دیا کرتی تھی اس وجہ سے تمہارا اندرونی جسم پوری طرح سے ناپاک ہو چکا تھا اور یہی اس تعویذ کا مقصد تھا کہ تم کوئی قرآنی آیات ٹھیک سے نا پڑھ سکو اسی وجہ سے وہ شیطانی چیزیں تم پر حاوی ہو گئیں تھیں ۔ لہذا جتنا ہو سکے پاک صاف رہو اور اللہ کی راہ میں صدقہء خیرات کرتے رہنا چاہیے ۔ یہ کہتے ہوئے جلال الدین نے سعید سے کہا سعید صاحب ہم ایسا چاہتے نہیں تھے جیسا آپ نے کر دیا آپ کو یوں ثمینہ کو طلاق نہیں دینی چاہیے تھی سعید نے کہا جی میں جانتا ہوں لیکن اس نے جو کیا اس حساب سے یہ اس کی بہت چھوٹی سزا تھی ورنہ میں تو اسے جان سے مار دیتا پھر جلال الدین نے کہا نہیں نہیں سعید صاحب ایسا غصہ نہیں کیا کرتے جہاں تک ہو سکے تحمل کا دامنِ نہیں چھوڑا کرتے اور صبر سے کام لیا کرتے ہیں آپ نے ہمیں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا ورنہ ہم یہ طلاق کبھی نا ہونے دیتے ۔ سعید نے کہا حضرت چھوڑیں اسے ویسے بھی اس نے خود کو یہاں تک خود ہی پہنچا دیا تھا میں نے تو اسے مزید برا کرنے سے روک دیا ہے ۔ جلال الدین صاحب نے کہا چلیں جیسے آپ کی مرضی اب ہمیں جانا ہے سعید نے کہا حضرت مجھے اپنا سمجھ کر مجھ سے ملنے آتے رہیئے گا کیونکہ یہ آپ ہی کا گھر ہے اور مجھے خوشی ہوگی جو آپ مجھے بھی اپنا سمجھیں گے تو اس پر اسمہ کی والدہ نے کہا جی جی ہم ضرور ملنے آیا کریں گے لیکن آپ لوگ بھی ہم سے ملنے آیا کرنا سعید نے کہا جی ایسا کرنے سے مجھے بہت خوشی ہو گی بلکہ میرے لیئے تو آپ لوگوں سے ملتے رہنا اعزاز کی بات ہوگی ۔ اس کے بعد جلال الدین صاحب اپنی فیملی کے ساتھ چلے گئے اور پھر سعید اور اسمہ کے گھر والے ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہے اور نازی کی بچیاں صحتیاب ہو گئیں نازی بھی اسمہ سے ملنے آیا کرتی تھی پھر کچھ مہینوں کے بعد اسمہ پھر سے ماں بنی اور سعید کے گھر پیاری سی بیٹی پیدا ہوئی سعید نے اس کا نام سیرت رکھا اور سب پیار سے مل جل کر رہنے لگے ۔۔۔
ختم شد،،

تمام اردو کہانیوں کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے