بغض کی آگ - چھٹا حصہ

 urdu stories

 Sublimegate Urdu Stories

بغض کی آگ - چھٹا حصہ


تبھی ثمینہ نے نازی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے اب اسمہ کو آرام کرنے دو دیکھ رہی ہو نا اسے اب آرام کی ضرورت ہے ۔ اتنے میں اسمہ نے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے آپی بیٹھا رہنے دیں نازی آپی کو۔ میں صبح کی آرام ہی کر رہی ہوں ۔ ثمینہ نے کہا وہ بات ٹھیک ہے پر تم اس حالت میں جتنا آرام کرو گی اتنا ہی تمہارے اور تمہارے بچے کے لیئے بہتر ہو گا یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے نازی کی طرف دیکھا اور اسے آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے جانے کے لیئے کہا ساتھ ہی نازی نے اسمہ کو کہا اچھا اسمہ میں پھر آؤں گی ابھی میں جاتی ہوں اور سوٹ دینے کے لیئے بہت بہت شکریہ میں یہ کل واپس کر دوں گی ۔ اسمہ نے کہا ارے نازی آپی آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں بھلا اس میں شکریہ والی کونسی بات ہے اور یہ سوٹ مجھے دینے کی بات مت کریں یہ آپ کو پسند آیا ہے اسی لیئے یہ آپ کا ہوا اور ہاں میری طرف سے اپنے بچوں کو پیار ضرور دیجئے گا اللّٰہ تعالیٰ آپ کے بچوں کو ہمیشہ خوش رکھے ۔

 اسمہ کی یہ بات سن کر نازی من ہی من بہت شرمندہ ہوئی لیکن پھر جھوٹی مسکان چہرے پر لاتے ہوئے اسمہ کے کمرے سے باہر آگئ اور باہر آتے ہی ثمینہ نے نازی سے کہا ارے تم کیا اس سے رشتے داریاں کھول کر بیٹھ گئی تھی یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے اپنے کپڑوں میں چھپایا تعویذ نکال کر نازی کو دیتے ہوئے کہا اچھا اب ایک کام کرو گھر جاتے ہوئے تعویذ کسی گٹر میں پھینک دینا ۔ نازی نے فوراً ثمینہ سے پوچھا آپی آپ نے اسمہ کا تعویذ کیسے بدل دیا ثمینہ نے کہا ارے یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا تبھی نازی نے کہا ویسے ثمینہ آپی پتا نہیں مجھے یہ سب کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا اسمہ بیچاری بہت بھولی اور معصوم ہے پتا نہیں اچانک میرا دل اس کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے کیوں ڈر رہا ہے ۔

 ثمینہ نے تھوڑا تلخ لہجے میں کہا ارے تم میری دوست ہو کہ اسمہ کی اب یہ فضول باتیں بند کرو اور تم بھول گئی کیا یہ سب کرنے کا مشورہ بھی تمہی نے تو دیا تھا پہلے اور اب جب ہم کامیاب ہونے والے ہیں تو تم کو یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا ؟؟ نازی نے افسردہ سا ہو کر کہا ہاں آپی میں نے کہا تھا پر میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم کسی کے بچے کی جان کے دشمن بن جائیں گے پلیز ثمینہ آپی مجھے اچانک بہت ڈر لگنے لگا ہے آخر میں بھی تو بچوں والی ہوں اگر کچھ برا ہو گیا تو ؟؟ ثمینہ نے غصے سے نازی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر کہا ارے تم میری بات سمجھ کیوں نہیں رہی ۔۔ میں نے کہا نا یہ فضول باتیں بند کرو اور دیکھو کچھ برا نہیں ہو گا تمہارے ساتھ ۔ آئی بڑی اس کی سائیڈ لینے والی پتا نہیں اچانک تمہارے دماغ کو کیا ہو گیا ہے ۔ اب جاؤ جلدی سے ورنہ میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی اور نا تمہاری کبھی شکل دیکھوں گی ۔۔۔ ثمینہ کی یہ بات سنتے ہی نازی نے کہا اچھا اچھا آپی آپ ناراض مت ہوں میں جاتی ہوں اور آپ نے جیسا کہا ہے میں ویسا ہی کروں گی ۔ یہ کہہ کر نازی ثمینہ کے گھر سے چلی گئی پھر نازی نے وہ تعویذ راستے میں ایک گٹر میں ڈال دیا اور اپنے گھر چلی گئی ۔

 اس کے بعد ثمینہ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی اتنے میں اسمہ اپنے کمرے سے باہر آئی کچن میں کچھ کھانے پینے کے لیئے لینے گئی تبھی اچانک سے اسمہ کو کسی کے چیخنے کی آواز سنائی دی جسے سن کر اسمہ چونک گئی اور اسمہ نے کچن سے باہر جا کر ادھر اُدھر دیکھا تو باہر کوئی نہیں تھا پھر اسمہ نے ایک گہری سانس لی اور وہاں سے واپس کچن کی طرف آنے لگی تو اسمہ کو لگا جیسے اسمہ کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی چل رہا ہے اسمہ نے فوراً رک کر ادھر اُدھر دیکھا لیکن کوئی نظر نہیں آیا اور جیسے ہی اسمہ چلتی تو اس کے ساتھ اور کسی کے قدموں کی آواز بھی سنائی دیتی یہ سب دیکھ کر اسمہ ڈر گئی اور اپنے گلے میں پڑے ہوئے تعویذ کو پکڑ کر دیکھنے لگی پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی اس دوران قدموں کی آواز اسمہ کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی تبھی اچانک اسمہ کے کمرے کا دروازا خودبخود کھلا جسے دیکھ کر اسمہ اسی وقت ایک ہی جگہ رک گئی اور اس دروازے کو دیکھنے لگی اس وقت اسمہ ڈر سے کانپ رہی تھی تبھی اسمہ کے کمرے سے ایک بہت ہی بھیانک قسم کی عورت آہستہ آہستہ سے جھک کر دروازے سے باہر آتی ہوئی دکھائی دی جس کا قد کاٹھ کافی بڑا تھا اور اس کی شکل بہت ہی خوفناک تھی اس بھیانک عورت نے باہر آتے ہی اسمہ کی طرف دیکھا اور وہیں کھڑے رہ کر اس نے اپنا منہ کھولا تو اس کے منہ میں بہت بڑے بڑے نوکیلے دانت تھے جن میں سے غلیظ قسم کا ریشہ سا ٹپک رہا تھا اور وہ اسمہ کی طرف دیکھ کر خوفناک سی آواز میں ہنسنے لگی ابھی اسمہ سہمی ہوئی اسے دیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک وہ عورت کہیں غائب ہو گئ اور اسمہ نے ایک پل کے لیئے چین کی سانس لی تبھی اچانک اسمہ کو اپنے پیٹ پر کوئی باتھ پھرتا ہوا محسوس ہوا تبھی فوراً اسمہ نے اپنے پیٹ کی طرف دیکھا تو اسمہ کے پیروں تلے زمین سرک گئی کیونکہ اسمہ کے پیٹ پر کسی ہاتھ تھا اور وہ ہاتھ بہت ہی خوفناک اور کافی بڑا اور پوری طرح جلا ہوا تھا اور اس ہاتھ میں بڑے بڑے ناخن تھے اسمہ نے فوراً اس ہاتھ کو پکڑ کر پیٹ سے ہٹانے کی کوشش کی تو تبھی اس کے پیچھے سے کسی نے خوفناک آواز میں کہا ہے یہ بچہ ہمارا ہے اور تم اسے ہم سے دور نہیں کر سکتی یہ سنتے ہی اسمہ نے کانپتے ہوئے گھوم کر پیچھے دیکھا تو اسمہ نے جس عورت کو اپنے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا تھا وہ اسمہ کے ٹھیک سامنے کھڑی تھی لیکن اس کا چہرہ بہت ہی بھیانک اور بڑا تھا اسے دیکھتے ہی اسمہ کی حالت خراب ہونے لگی پھر اسمہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ابھی اسمہ چکرا کر گرنے ہی والی تھی کہ تبھی اچانک سے اذان کی آواز آئی اور وہ منحوس عورت چینخ کر کہیں غائب ہو گئ 

اذان کے کان میں پڑتے ہی اسمہ نے آہستہ آہستہ سے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھنے کی کوشش کی تو اس کے سامنے کوئی نہیں تھا لیکن ڈر سے اسمہ کی طبیعت پوری طرح خراب ہو گئی تھی لیکن اسمہ جیسے تیسے ہمت کر کے ثمینہ کے کمرے تک پہنچی اور اس نے ثمینہ کے کمرے کے دروازے پر زور زور سے دستک دی اور پھر اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کے وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور پھر اچانک سے بیہوش ہوگئی اور پھر جب اسمہ کو ہوش آیا وہ اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کے پاس ڈاکٹر کھڑا ہوا تھا پھر اسمہ نے جلدی سے اپنے پیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے اس پر ہاتھ رکھ کے کہا میرا بچہ۔۔۔ ؟؟؟ تبھی اسمہ کو سعید کی آواز آئی۔ گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہے جب اسمہ نے اپنے بائیں طرف دیکھا تو سعید ثمینہ کے ہمراہ اسمہ کے بیڈ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ اور اسمہ کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا اسمہ نے جلدی سے سعید کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا وہ پھر آئی تھی .. ہاں وہ آئی تھی۔۔۔ سعید نے حیرت سے پوچھا کون آئی تھی ؟؟ تم کس کی بات کر رہی ہو ؟؟ اسمہ نے کہا وہی ڈراؤنی سی عورت وہ میرے بچے کو نہیں چھوڑے گی آپ جلدی کچھ کیجئے وہ ہمارے بچے کو لے جائے گی ۔

 تبھی ثمینہ نے کہا ارے تم پھر سے بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو اب تو تمہارے گلے میں پیر صاحب کا تعویذ بھی ہے پھر بھی تم ڈر رہی ہو ؟؟ جبکہ اس تعویذ کو پہننے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا اور یہ تم نے ہی تو کہا تھا ؟؟ اسمہ نے کہا ثمینہ آپی لیکن آج پھر سے میں نے اسے دیکھا وہ آئی تھی اور آج تو اسے تعویذ سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا وہ کہہ رہی تھی وہ میرے بچے کو نہیں چھوڑے گی یہ کہتے ہوئے اسمہ جلدی سے اٹھ کر سعید کے گلے لگ کر رونے لگی ۔ 

 تبھی سعید نے کہا دیکھو تم روؤ مت سب ٹھیک ہو جائے گا یہ کہتے ہوئے سعید نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا تو ڈاکٹر نے کہا سعید صاحب آپ فکر نہ کریں یہ نارمل بات ہے اکثر کچھ عورتوں کو ایسی حالت میں ایسا ہو جاتا ہے انسان کو طرح طرح کی چیزیں نظر آنے لگتیں یاں طبعیت میں چڑچڑا پن آجاتا ہے یاں وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتیں ہیں لیکن اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے بس آپ لوگ ان کا خیال رکھیں صرف ایک ڈیڑھ ماہ کی بات ہے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ڈاکٹر کی یہ بات سن کر سعید نے اسمہ کو کہا ۔ 

دیکھا ڈاکٹر قاسم نے بھی کہا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا چلو اب تم آرام کرو ۔ اسمہ نے کہا ڈاکٹر صاحب کیا میں اپنے گھر جا سکتی ہوں ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا جی جا سکتی ہیں لیکن ابھی کچھ رپورٹس آنی باقی ہیں کیونکہ آپ کو جب یہاں لایا گیا تھا تو اس وقت آپ کی حالت بہت خراب تھی اور اگر آپ کو یہاں لانے میں کچھ دیر اور ہو جاتی تو آپ کومہ میں جا سکتی تھیں اسی لیئے ہم نے یہ جاننے کے لیئے آپ کے کچھ بلڈ سیمپل لیئے تھے کہ ایسا کیوں ہوا۔ تو ان کی رپورٹس کا انتظار ہے جیسے ہی وہ آتی ہیں تو ہم آپ کو اس حساب سے کچھ میڈسن وغیرہ دے کر ڈسچارج کر دیں گے لیکن آپ کو کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا اور اس دوران ہمیں آپ کا بلڈ پریشر بھی باقاعدگی سے چیک کرنا ہو گا کیونکہ جب آپ کو ہسپتال لایا گیا تھا اس وقت آپ کا بلڈ پریشر بہت لو تھا اس لیئے ہمیں بار بار آپ کا بلڈ پریشر چیک کرنا ہے ۔ تبھی سعید نے کہا جی جی ڈاکٹر صاحب آپ اپنی تسلی کر لیں پھر ہم اسمہ کو لے جائیں گے ۔ اتنے میں ایک نرس جلدی میں آئی اور ایمرجنسی میں ڈاکٹر قاسم کو کسی مریض کو دیکھنے کے لیئے کہا تو ڈاکٹر قاسم نے سعید کو کہا آپ ان کے پاس بیٹھیں میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر قاسم نرس کے ہمراہ کمرے سے باہر چلا گیا ۔ اب کمرے میں صرف تین لوگ تھے سعید اسمہ اور ثمینہ۔ 

تبھی سعید نے ثمینہ سے پوچھا آخر ہوا کیا تھا اسمہ کے ساتھ ؟؟ ثمینہ نے کہا کچھ نہیں میں اپنے کمرے میں سو رہی تھی کہ تبھی اچانک سے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے اٹھ کر دروازا کھولا تو اسمہ دروازے پر بیہوش پڑی تھی میں نے اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کی پر اسے ہوش نہیں آرہا تھا اسی لیئے میں نے جلدی سے ایمبولینس سروس منگوائی اور آپ کو فون کر دیا اور میں اسے ہسپتال لے آئی ۔ سعید نے ثمینہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا شکریہ ثمینہ تم بروقت اسمہ کو ہسپتال لے آئی ورنہ کوئی بڑا نقصان ہو جاتا ثمینہ نے سعید سے کہا آپ پریشان نہیں ہوں سب ٹھیک ہے اور دیکھیں ڈاکٹر قاسم نے بھی تو کہا ہے کہ ایسی حالت میں یہ سب ہونا ایک عام بات ہے ۔ بس اس کے بلڈ پریشر کا کچھ مسلہ ہے باقی سب تو ٹھیک ہی ہے ۔ ابھی سعید اور ثمینہ آپس میں باتیں ہی کر رہے تھے کہ اچانک پورے کمرے کی لائٹیں بند ہو گئیں اور پورے کمرے میں اندھیرا ہو گیا تبھی سعید نے کہا ارے یار ۔۔۔۔ یہ کیا ہوا ؟؟؟ یہ تو ہسپتال ہے ایسے کیسے یہاں کی لائٹ بند ہو سکتی ہے یہ کہتے ہوئے سعید اٹھ کر کمرے سے باہر گیا ہی تھا کہ اچانک دوبارہ کبھی لائٹیں خودبخود روشن ہونے لگیں اور پھر سے بند ہونے لگیں اسی دوران اسمہ اک دم سے بیڈ کے اوپر کھڑی ہو گئی اور لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اپنے پیٹ پر ناخنوں سے تیز تیز خارش کرنے لگی یہ دیکھ کر ثمینہ ڈر گئی کیونکہ اسمہ کی شکل کچھ عجیب ہو گئ تھی۔ ثمینہ نے ڈرتے ہوئے اسمہ کو آواز دی تو اسمہ نے غصے سے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا منہ کھولا تو اس کے منہ میں بڑے بڑے دانت نکل آئے تھے یہ دیکھ کر ثمینہ چیخی اور اس نے کمرے سے باہر بھاگنے لگنی تو اسمہ نے اپنا ہاتھ لمبا کر کے ثمینہ کو اس کے بالوں سے پکڑ لیا جس سے ثمینہ اور زیادہ چیخنے چلانے لگی اور تبھی اسمہ نے اس کے بالوں کو زور دار جھٹکا مارا جس سے ثمینہ کے سارے بال اس کے سر سے جدا ہو کر اسمہ کے ہاتھ میں آگئے اور ثمینہ کے سر سے بہت خون بہنے لگا اور وہ زمین پر گر گئی اتنے میں سعید کمرے میں آیا تو اس دیکھا کہ کمرے کی لائٹیں خودبخود جل بجھ رہی تھیں تبھی سعید کی نظر ثمینہ پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ ثمینہ بنا بالوں کے زمین پر گری ہوئی تڑپ رہی تھی اور اس کے سر سے بہت خون بہہ رہا تھا اور اسمہ بیڈ پر بیٹھ کر ایک بالوں کا گچھا ہاتھ میں پکڑ کر اپنی خوفناک سی آنکھیں پھاڑے سعید کی طرف دیکھ رہی تھی سعید نے جلدی سے ثمینہ کو اٹھا کر سائیڈ پر بٹھایا پھر اسمہ کی طرف دیکھا اور ثمینہ کے سر طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اسمہ سے کہا یہ تم نے کیا کیا ۔۔۔؟؟ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے پاگل لڑکی؟؟... یہ کہتے ہوئے سعید جلدی سے بھاگ کر ڈاکٹر قاسم کو لینے گیا اس دوران اسمہ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بالوں کا گچھا ثمینہ کی طرف پھینکا اور عجیب طرح سے چلاتے ہوئے اپنے پیٹ کو اپنے ہی ہاتھوں سے پھاڑ دیا اور اپنے پیٹ میں اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر چیختے چلاتے ہوئے اس میں سے بچے کو باہر نکالا جس کے ساتھ اسمہ کی کچھ آنتیں بھی باہر آگئیں اور تبھی کمرے کے ایک کونے میں پھیلے اندھیرے سے ایک اور بھیانک شکل والی عورت نکل کر اسمہ کے پاس آکر بیٹھ گئی اس کے بعد اس عورت نے بچے کو اٹھا کر کہا اس نے ہمیں بہت انتظار کروایا ہے یہ کہتے ہوئے اس منہوس عورت نے اپنا بڑا سا خوفناک منہ کھولا اور بچے کا سر اپنے منہ میں لے کر اسے چبا ڈالا اور پھر اس بچے کا بازو کھینچ کر اس کے جسم سے الگ کر کے اسمہ کے منہ میں ڈالا تو اسمہ بھی اسے کھانے لگی پھر اس عورت نے اسمہ کے ساتھ مل کر بچے کا پورا جسم کھا لیا جس کے ساتھ اسمہ کی کچھ آنتیں بھی کھا گئی یہ سب دیکھتے ہوئے ثمینہ موقع پر ہی بیہوش ہو گئی تبھی اچانک کسی کے تیزی سے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کی آواز آئی اور وہ منہوس عورت اچانک غائب ہو گئ اس کے ساتھ ہی اسمہ کو ایک زور دار جھٹکا سا لگا اور وہ بھی بیہوش ہو کر بیڈ سے نیچے زمین پر گر گئی اور ساتھ ہی کمرے کی لائٹیں بھی پوری طرح روشن ہو گئیں اسی دوران سعید ڈاکٹر قاسم کو لے کر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو سعید نے دیکھا کہ اسمہ خون میں لت پت زمین پر گری ہوئی تھی اور اس کا پیٹ پھٹا ہوا تھا جس سے اسمہ کی آنتیں باہر گری ہوئیں تھیں اور کچھ اسمہ کے منہ میں تھیں یہ دیکھتے ہی سعید نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے اونچی آواز میں کہا اسمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور چکرانے لگا اس سے پہلے ڈاکٹر سعید کو تھامتا سعید زمین پر گر گیا یہ سب دیکھ کر ڈاکٹر قاسم کے چہرے پر بھی وحشت طاری ہو گئی کیونکہ ایک طرف اسمہ کی یہ حالت تھی اور دوسری طرف ثمینہ بھی عجیب سی حالت میں تھی ڈاکٹر کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ سے پیچھے ہٹتے ہوئے سٹاف کو آوازیں دینے لگا اور پھر اچانک کمرے سے باہر بھاگ گیا پھر کچھ ہی دیر میں سارے سٹاف کی دوڑیں لگ گئیں اور پھر سٹاف کے کچھ لوگوں نے جلدی سے اسمہ کو آپریشن تھیٹر شفٹ کیا پھر سعید اور ثمینہ کو بھی وارڈ میں شفٹ کر کے ان کا علاج وغیرہ شروع کر دیا اس دوران پورے ہسپتال میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ہسپتال کے سٹاف میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ ایک عورت نے دوسری عورت کھا لیا اور کوئی کہہ رہا تھا کہ ایک آدم خور عورت نے دوسری عورت کے سر کو چبا ڈالا ۔ ہر طرف بھاگ دوڑ لگی تھی اس کے بعد مختلف ڈاکٹروں نے جلدی سے اسمہ کا آپریشن شروع کر دیا دوسری طرف سعید نے ہوش میں آتے ہی ادھر اُدھر دیکھ کر کہا اسمہ ۔۔۔۔۔۔؟؟؟۔ میرا بچہ۔۔۔۔۔۔؟؟ پھر نرس کو دیکھ کر بولا سسٹر وہ اسمہ کہاں ہے میری بیوی ؟؟ یہ کہتے ہوئے سعید جلدی سے بیڈ سے اٹھا ۔ نرس نے کہا دیکھیں آپ حوصلہ رکھیں ڈاکٹرز اس کو دیکھ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے ۔ سعید نے جلدی سے کہا پر سسٹر مجھے اس کو دیکھنا ہے جلدی بتائیں وہ کہاں ہے پلیز سسٹر؟؟؟ نرس نے کہا اس کا آپریشن چل رہا ہے آپ بس دعا کریں۔ اس دوران ثمینہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کے پورے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ سعید کی اسمہ کے لیئے اس بے چینی کو دیکھ رہی تھی لیکن سعید نے ایک بار بھی ثمینہ کی طرف نہیں دیکھا اور وہ بس اسمہ کے بارے میں ہی پریشان ہو رہا تھا پھر سعید اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر اللّٰہ سے معافی مانگتے ہوئے اسمہ کی زندگی کے لیئے دعا کرنے لگا تبھی ثمینہ نے سعید کو آواز دی۔ سعید نے چونک کر ثمینہ کی طرف دیکھا تو سعید نے ثمینہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ثمینہ وہ اسمہ ۔۔۔۔۔ وہ اسمہ کو کچھ ہو گیا ہے ۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔ وہ ٹھیک تو ہوگا نا ؟؟؟ ۔۔ ثمینہ نے طنزیہ انداز میں کہا مجھے بھی تو بہت کچھ ہوا ہے میرا سارا سر زخمی کر دیا ہے تمہاری اسمہ نے دیکھوں میری کیا حالت ہو گئی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میرا سر میرے ساتھ ہی نہیں ہے ۔ اس دوران سعید ثمینہ کی بات تو سن رہا تھا پر اس کا ذہن صرف اسمہ اور اس کے پیٹ میں پلتے بچے کی طرف لگا ہوا تھا تبھی سعید نے ثمینہ کی بات کو درگزر کرتے ہوئے کہا ثمینہ وہ میرا بچہ تو ٹھیک ہو گا نا اسے کچھ ہو گیا تو میں مر جاؤں گا ۔

 یہ کہتے ہوئے سعید ثمینہ کو وہیں چھوڑ کر کمرے سے باہر چلا گیا اور نرسوں سے پوچھتا ہوا آپریشن تھیٹر کی طرف بھاگا لیکن اسے ہسپتال کے عملے نے آپریشن تھیٹر کے باہر ہی روک لیا اور سعید وہیں بیٹھ کر رونے لگا پھر کچھ گھنٹوں کے آپریشن کے بعد ڈاکٹر سرجن آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو سعید نے بے صبری سے اٹھ کر ڈاکٹر سے کہا ڈاکٹر صاحب میری بیوی۔۔۔۔۔؟؟ اب کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہے نا ؟؟بتائیں نا ڈاکٹر صاحب؟؟؟ آپریشن سرجن نے دھیرے سے سعید کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر آنکھیں بند کر کے ہاں میں سر ہلایا اور پھر سعید سے کہا خدا کا شکر ہے کہ اب آپ کے پیشنٹ کی جان خطرے سے باہر ہے یہ سنتے ہی سعید کے چہرے پر تھوڑی خوشی آگئ اور تبھی سعید نے بنا وقت ضائع کیئے ہی کہا ڈاکٹر صاحب بچہ بھی ٹھیک ہے نا اسے کچھ ہوا تو نہیں نا ؟؟ سعید کی یہ بات سنتے ہی سرجن سعید کی طرف حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولا بچہ۔۔۔۔۔۔۔؟؟ کیسا بچہ ؟؟ سعید بھی ڈاکٹر سرجن کی یہ بات سن کر حیرانی سے بولا ڈاکٹر صاحب میرا بچہ۔۔۔ جو میری بیوی کے پیٹ میں تھا ؟ ۔ سرجن نے کہا دیکھیں مجھے لگتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے دراصل مجھے ایمرجنسی میں بلایا گیا تھا یہ کہہ کر کہ مریض کی جان لاسٹ سٹیج پر ہے میں جلدی سے آیا تو دیکھا کہ مریض کی حالت بہت تشویش ناک تھی اس کا پیٹ بری طرح سے پھٹا ہوا تھا اسی لیئے مریض کی حالت غیر ہو رہی تھی تبھی میں نے پوچھ گچھ میں بنا وقت ضائع کیئے ہی مریض کا آپریشن شروع کر دیا لیکن ہاں آپریشن کے دوران میں نے یہ ضرور دیکھا کہ مریض کے پیٹ سے کچھ آنتوں کے حصے بھی غائب تھے اور مریض کے حاملہ ہونے کے کچھ آسار ضرور نظر آرہے تھے لیکن مریض کے پیٹ میں کوئی بچہ نہیں تھا اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو پہلے ہم نے بچے کو بچانا تھا کیونکہ ایسی کنڈیشن میں مریض کے پیٹ میں بچہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا ۔ لیکن آپ مجھے یہ بتائیں آخر آپ کے مریض کے ساتھ یہ سب ہوا کیسے ؟؟ کیونکہ ابھی تک میں پوری طرح سے اس بات سے بے خبر ہوں کہ اس مریض کی یہ حالت کس نے کی ؟؟ کیا یہ کسی جنگلی جانور وغیرہ کا کام تھا ؟؟؟؟ سعید نے سرجن کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر کیا اس کے پیٹ میں واقعی بچہ نہیں تھا ؟؟؟ سرجن نے کہا دیکھیں جناب میں نے آپ سے پہلے ہی کہا ہے کہ مریض کے پیٹ میں کوئی بچہ نہیں تھا ارے اس کے پیٹ کا تو پہلے سے ہی بری طرح چیرپھاڑ ہو چکا تھا تو ایسے میں بچہ کہاں بچنا تھا مجھے لگتا ہے کہ اگر کسی جانور نے آپ کے مریض کا یہ حال کیا ہے تو ہو سکتا ہے اس نے ہی اس کے بچے کے ساتھ بھی یہی کچھ کر دیا ہو گا ۔ سرجن کی یہ بات سن کر سعید زور زور سے میرا بچہ میرا بچہ کہتے ہو رونے لگا تبھی اچانک سے ثمینہ بھی سعید کے پاس آگئ اس نے سعید کو روتے ہوئے دیکھا تو ثمینہ کے چہرے پر ہلکی سی شیطانی مسکراہٹ تھی تبھی سعید نے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ثمینہ میرا بچہ۔۔۔ وہ اس دنیا میں نہیں رہا۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے سعید دوبارہ ظاروقطار رونے لگا ثمینہ نے سعید کو جھوٹا دلاسہ دیتے ہوئے کہا خدارا آپ سنبھالیں اپنے آپ کو سب ٹھیک ہو جائے گا ابھی ثمینہ سعید سے یہ کہہ ہی رہی تھی اتنے میں ڈاکٹر قاسم بھی آگیا اس نے آتے ہی سعید کے پاس کھڑے ڈاکٹر سرجن سے پوچھا سر کیا وہ لڑکی بچ گئ ہے ؟؟ 

آپریشن سرجن نے کہا ہاں خدا کا شکر ہے آپریشن کامیاب رہا اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ اب پوری طرح خطرے سے باہر ہے لیکن مجھے اب تک یہ کسی نے نہیں بتایا یہ اس لڑکی کی حالت کیسے ہوئی اور آپ اس وقت کہاں تھے ؟؟ تو ڈاکٹر قاسم نے کہا سر دراصل بات تھوڑی عجیب ہے یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر قاسم سعید کی طرف دیکھنے لگا اور خاموش ہو گیا۔ اتنے سرجن نے تھوڑا تلخ لہجے میں ڈاکٹر قاسم سے کہا ارے آپ چپ کیوں کر گئے بولتے کیوں نہیں؟؟ کیا ہوا تھا ؟؟ اس لڑکی کے ساتھ جو کہ آپ کا پورا سٹاف ہی مجھے بتانے سے قاصر ہے ؟؟ یہ کہتے ہوئے سرجن نے سعید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر قاسم سے کہا اور یہ حضرت بول رہے ہیں کہ اس پیشنٹ کے پیٹ میں بچہ تھا ؟؟ یہ سب چل کیا رہا تھا میرے آنے سے پہلے ؟؟؟ تو ڈاکٹر قاسم نے پہلے سرجن کی طرف دیکھا پھر سعید کی طرف دیکھا ہی تھا کہ سرجن نے ڈاکٹر قاسم کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلاتے ہوئے کہا ۔

 اُدھر نہیں ادھر۔۔۔۔۔۔ ادھر ۔۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر جواب دو ؟؟ تو ڈاکٹر قاسم نے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سر بات یہ ہے کہ میں خود بھی نہیں جانتا کہ اس لڑکی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ یہ کہنے کے بعد ڈاکٹر قاسم نے سعید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ سعید صاحب ہیں اس لڑکی اسمہ کے شوہر ہیں جو کہ اندر آپریشن تھیٹر میں پڑی ہے اور سعید صاحب سہی کہہ رہے ہیں کہ اس کے پیٹ میں بچہ تھا کیونکہ اسمہ حاملہ تھی اس کی طبیعت خراب ہونے پر بیہوشی کی حالت میں اسے ہسپتال لایا گیا تھا پھر ہم نے اس کا ٹریٹمنٹ وغیرہ کیا اور کچھ بلڈ سیمپل وغیرہ لیئے لیکن اس دوران وہ ہوش میں آ چکی تھی اور نارمل ہو رہی تھی

 لیکن ابھی اس کے کچھ ٹیسٹ باقی تھے کہ مجھے ایمرجنسی میں کسی دوسرے مریض کو دیکھنے کے لیئے دوسرے وارڈ میں جانا پڑا اور جب میں دوسرے وارڈ میں مریض کو دیکھ رہا تھا تو یہ سعید بھاگتے ہوئے آئے اور مجھ سے بولے کہ جلدی سے چلیں میری بیوی بری طرح زخمی ہو گئی ہے اور جیسے ہی میں ان کے ساتھ ان وارڈ میں گیا تو میں نے دیکھا کہ اسمہ کا پیٹ پھٹا ہوا تھا اس کے پیٹ کی آنتیں اسی کے منہ میں تھیں اور وہ خون سے لے پت زمین پر گری ہوئی تھی اور ان کے ساتھ جو دوسری خاتون تھی اس کے سر کے بال بھی زمین پر بکھرے ہوئے پڑے تھے اور وہ بھی پوری سر سے گنجی اور زخمی پڑی ہوئی تھی اور وہ سب دیکھنے کے بعد مجھے اچانک عجیب سی وحشت سی ہونے لگی کیونکہ وہاں جو کچھ بھی میں نے دیکھا وہ میری سمجھ سے باہر تھا جبکہ میں ان لوگوں کو وارڈ میں بالکل سہی سلامت چھوڑ کر گیا تھا اب وہاں کیا ہوا تھا یہ تو سعید صاحب ہی بتا سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہی مجھے کہا تھا کہ ان کی بیوی بری طرح زخمی ہو گئی تھی ۔

بغص کی آگ (قسط نمبر 7)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے