بغض کی آگ - پارٹ 7

 urdu stories

 Sublimegate Urdu Stories

بغض کی آگ - پارٹ 7

تبھی سعید نے اپنی انکھوں سے آنسوں پوچھتے ہوئے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں کیا بتا سکتا ہوں آج ایک پل میں میری تو دنیا ہی تباہ ہو گئی میرا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی سے چلا گیا آج مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مجھے اس دنیا میں خوش رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔ یہ کہتے ہوئے سعید پھر سے رونے لگا ۔ تبھی ڈاکٹر سرجن نے سعید کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا دیکھئے آپ ایسے دل چھوٹا نہ کریں حوصلہ رکھیں اللّٰہ تعالیٰ سب بہتر کرے گا انشاء 

اللّٰہ ۔ اس دوران ثمینہ سعید کے بازو کو پکڑ کر اس اسے رونے سے روک رہی تھی۔ تبھی ڈاکٹر سرجن نے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا محترمہ آپ بھی ان کے ساتھ تھیں تو کیا آپ بتا سکتیں ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا ؟؟ ثمینہ نے سرجن کی طرف دیکھا اور بولی ڈاکٹر صاحب یہ سب اس ڈائین کی وجہ سے ہوا ہے جس کا آپ نے آپریشن کیا ہے وہ عورت نہیں ہے بلکہ ایک آدم خور چڑیل ہے ۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹر سرجن نے حیرت انگیز نظروں سے پہلے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھا پھر ثمینہ کی طرف اور کبھی آپریشن تھیٹر کی طرف دیکھنے لگا اسی دوران سعید بھی اچانک حیرت ثمینہ کی طرف دیکھنے لگا اس دوران ڈاکٹر قاسم اپنے سر کو کھجاتے ہوئے ڈری ہوئی حالت میں آپریشن تھیٹر کی طرف دیکھنے لگا پھر سرجن نے ثمینہ سے کہا دیکھئے محترمہ مجھے نہیں معلوم آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں اور شاید آپ بھی نہیں جانتیں کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟؟؟ 

صاف صاف کہیئے آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟؟ ۔ ثمینہ نے کہا ڈاکٹر صاحب میں سہی کہہ رہی ہوں اسمہ انسان نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے اسی نے اپنا بچہ کھایا ہے اور اسی نے ہی میرے سر سے سارے بال نوچ کر پھینک دیئے اور دیکھیں میرا کیا حال کر دیا۔ تحریر دیمی ولف ۔ یہ سنتے ہی سعید نے دونوں ہاتھوں سے ثمینہ کے کاندھوں کو پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا یہ تم کیا کہہ رہی ہو بیوقوف عورت تم ہوش میں تو ہو ؟؟ تمہیں پتا بھی ہے تم اسمہ کے بارے میں کیا بول رہی ہو ؟؟ تبھی ثمینہ نے خود کو سعید سے دور کرتے ہوئے کہا ہاں میں تو پوری طرح ہوش میں ہوں لیکن لگتا ہے آپ کو ہوش نہیں آرہا جو آپ کو اسمہ میں چھپا ہوا شیطان نظر نہیں آتا وہ آدم خور جانور بن چکی ہے اسی نے میرے سامنے اپنے ہاتھوں سے اپنا پیٹ پھاڑ کر اس میں سے بچہ نکال کر کھا لیا ۔ ثمینہ ابھی یہ بات کر ہی رہی تھی کہ اچانک سعید نے کہا بکواس بند کرو اور ثمینہ کی طرف بڑھتے ہوئے اس کو تھپڑ مارنا چاہا تو جلدی سے ڈاکٹر قاسم نے سعید کو پکڑ کر ثمینہ سے دور کر دیا اور بولا سعید صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں ہوش میں آئیں سنبھالیں خود کو پلیز۔۔۔

 سعید نے کہا ارے میں تو ہوش میں ہوں لیکن یہ پاگل عورت اسمہ کے بارے میں اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہے شرم آنی چاہیے اسے ۔۔۔ سعید کی یہ بات سن کر ثمینہ بھی غصے میں آگئ اور بولی شرم تو تمہیں آنی چاہیے میں نے تمہاری پہلی بیوی ہوتے ہوئے بھی تمہیں دوسری شادی کی اجازت دی تاکہ جو اولاد کی خوشی میں تمہیں نہیں دے سکی۔ ہو سکتا ہے تمہاری دوسری بیوی تمہیں دے دے اور تمہاری اسی خوشی کی وجہ سے میں نے سوتن کو برداشت کیا اس کا ہر طرح سے خیال رکھا اور اس کی ملازمہ بن کر دن رات اس کی خدمت کی اور تم نے آج مجھے ان سب چیزوں کا یہ صلہ دیا ہے کہ آج تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھانا چاہا وہ بھی اس لڑکی کے لیئے جو کہ ایک خونخوار شیطان ہے اور جس نے تمہارے بچے کو کھایا ہے؟؟ ۔ سعید نے کہا دیکھو جو تم نے اسمہ کے لیئے کیا اس کا احسان میں ساری عمر نہیں چکا سکتا لیکن یہ جو تم بار بار اس کو آدم خور کہہ کر اس کے بچے کی موت کا الزام اسی پر لگا رہی ہو مجھے اسی وجہ سے تم پر غصہ آرہا ہے کہ اگر تم اس کا درد نہیں بانٹ سکتی تو کم سے کم اس کے بارے میں یہ فضول باتیں تو نہ کرو ۔ ثمینہ نے کہا یہ فضول باتیں نہیں ہیں میں سچ کہہ رہی ہوں میرا یقین کریں اسمہ نے ہی تمہارے بچے کو کھایا ہے اور کیا تم نے دیکھا نہیں تھا کہ اس نے میرے سر کا کیا حال کیا تھا اور جب تم ڈاکٹر صاحب کو لینے گئے تھے تب ہی اس نے اپنے بچے کو کھایا تھا اور آپ کو لگتا ہے کہ میں اس پر الزام لگا رہی ہوں میں بھلا ایسا کیوں کروں گی۔

 یہ کہتے ہوئے ثمینہ رونے لگی تو سعید نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے کہا میں پاگل ہو جاؤں گا آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے یہ کہتے ہوئے سعید نے اپنا سر دیوار پر مارنا شروع کر دیا تبھی ڈاکٹر قاسم نے جلدی سے سعید کو روکتے ہوئے کہا سعید صاحب پلیز ایسے مت کریں دیکھیں اسمہ کے ساتھ جو بھی ہوا اس کا ہمیں بے حد افسوس ہے اور اسی وجہ سے پورے ہسپتال کے لوگ عجیب سی وحشت میں ہیں اور یہ سب ہمارے لیئے بھی اتنا ہی عجیب ہے جتنا آپ کو لگ رہا ہے لیکن ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہے اور اس کے لیئے آپ کو خود کو سنبھالنا ہوگا ورنہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئے گی اور دیکھیں اگر آپ ہی ایسے کریں گے تو اسمہ کو کون سنبھالے گا تو پلیز سمبھالیئے خود کو اور سرجن صاحب کو کچھ بتائیں اس بارے میں تاکہ کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر قاسم کچھ مشکوک طریقے سے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔ تبھی سعید نے ایک بار پھر سے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے ڈاکٹر سرجن کی طرف دیکھا اور بولا ڈاکٹر صاحب دراصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر قاسم کے جانے کے بعد جب ہم وارڈ میں تھے تو اس وقت اچانک وارڈ کی لائٹیں خودبخود بند ہونے لگیں جس کی وجہ جاننے کے لیئے میں ہسپتال کے سٹاف سے بات کرنے گیا پھر اس کے بعد جب میں واپس وارڈ میں آیا تو ثمینہ زمین پر گری تڑپ رہی تھی اور اس کے سر کے سارے بال اسمہ کے ہاتھ میں تھے وہاں کیا ہوا تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔

 بس اسی پل میں جلدی سے ڈاکٹر قاسم کو لینے کے گیا لیکن جب میں ڈاکٹر قاسم کو لے کر واپس وارڈ میں آیا تو دیکھا کہ اسمہ بھی خون میں لت پت زمین پر پڑی تھی اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے چکر سا آگیا پھر اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں ۔۔ یہ بتاتے ہوئے سعید پھر سے رونے لگا ۔ سرجن نے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھا اور بولا قاسم آپ کو کیا لگتا ہے یہ معاملہ کس طرف جا رہا ہے ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے پھر سے مشکوک طریقے سے سرجن سے اپنی نظریں چراتے ہوئے کہا سر وہ۔۔۔ دراصل۔۔وہ جتنا سعید صاحب نے بتایا بدقسمتی سے مجھے بھی اتنا ہی معلوم ہے باقی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تبھی ثمینہ نے ڈاکٹر کی بات کاٹتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب اس کے بیچ میں جو ہوا وہ میں نے آپ سب کو بتا دیا وہ اسمہ ڈائین ہے آپ لوگ میرا یقین کیوں نہیں کر رہے ؟؟؟ ثمینہ کی بات یہ سنتے ہی ڈاکٹر سرجن نے اکتا کر کہا محترمہ دیکھیئے میں یہ سب جن چڑیل جادو وغیرہ پر یقین نہیں رکھتا مجھے صرف اتنا جاننا ہے کہ اسمہ کے ساتھ کیا ہوا تھا کیونکہ میں نے اسمہ کے آپریشن کیس کی رپورٹ بنا کر سبمٹ کرنی ہے بس اور آپ ہیں کہ مجھے قصے کہانیوں میں الجھا رہی ہیں ۔ ثمینہ نے کہا ڈاکٹر صاحب یہ کہانی نہیں سچ ہے میرا یقین کریں پلیز۔۔ سرجن نے کہا دیکھیں محترمہ مجھے لگتا ہے غلطی میری تھی جو میں آپ سے پوچھ بیٹھا لیکن اب میری آپ سے ریکوئسٹ ہے کہ آپ چپ ہی رہیں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں پلیز۔۔ ۔ یہ کہہ کر سرجن کچھ دیر اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ثمینہ کی طرف دیکھتا رہا پھر اپنے سر کو نا میں ہلاتے ہوئے ایک لمبی سانس لی اور ڈاکٹر قاسم سے کہا آپ محترمہ کو ان کے وارڈ میں لے جائیں اور سعید صاحب آپ میرے ساتھ میرے آفس میں آئیں مجھے آپ سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے پلیز ۔ 

سعید نے پھر سے اپنے آنسوں صاف کیئے اور ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے سرجن کے ساتھ اس کے آفس میں چلا گیا آفس میں جاتے ہی سرجن نے ایک بار پھر سے جو بھی اسمہ کے وارڈ میں ہوا اس کے بارے میں سعید سے دوبارہ پوچھا تو سعید نے سب کچھ ویسے ہی بتایا جیسے پہلے بتایا تھا ۔ اس دوران سرجن ہاتھ میں ایک قلم پکڑ کر اسے اپنی انگلیوں سے گھماتے ہوئے بہت غور سے سعید کی بات سن رہا تھا اور جب سعید کی بات مکمل ہوئی تو سرجن کچھ دیر سعید کی طرف دیکھتے ہوئے خاموش رہا اور پھر بولا دیکھیئے سعید صاحب میں آپکی نجی زندگی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا پر کیا کروں آپ لوگوں کی باتوں نے مجھے الجھا کر رکھ دیا ہے اور مجھے ایسا لگ رہا ہے یہ ایک لڑائی جھگڑے کا کیس ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ پولیس کیس ہے کیونکہ جس طرح اسمہ زخمی تھی اگر کچھ دیر اور ہو جاتی تو اس کی جان جا سکتی تھی اسی لیئے میری یہ مجبوری بن گئ ہے کہ میں آپ سے کچھ پرسنل سوالات پوچھوں اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے ان کے جوابات تسلی بخش دے سکیں تاکہ پولیس کے جھنجھٹ میں پڑنے سے بچا جا سکے ۔ اس لیئے میں آپ سے جو پوچھوں گا اس کا جواب آپ سوچ سمجھ کر دیجئے گا ۔سعید کہا جی ڈاکٹر صاحب پوچھیں کیا پوچھنا ہے ؟؟؟ سرجن نے پہلے سعید کی دونوں بیویوں کے بارے میں بات کی اور ان کے آپس میں سلوک کے بارے میں پوچھا۔ تو سعید نے بتایا کہ دونوں آپس میں بہت اچھے سے رہتیں تھیں جیسے دونوں سگی بہنیں رہتیں ہیں ۔ یہ سن کر سرجن بہت حیران ہوا پھر سرجن نے پوچھا کیا ہسپتال آنے سے پہلے ان دونوں کی آپس میں یا آپ کے ساتھ کوئی نوک جھونک تو نہیں ہوئی تھی؟؟

 سعید نے کہا میں تو آفس میں تھا اور رہی بات ان دونوں کی آپس کی نوک جھونک تو مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ اسمہ گھر میں بیہوش ہو گئ تھی اور ثمینہ ہی اسے ہسپتال لے کر آئی تھی اس کے بعد تو آپ کو بھی پتا لگ جانا چاہئیے کہ ثمینہ اسمہ کا کبھی برا نہیں چاہے گی ورنہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ اسے ہسپتال ہی نہ لاتی ۔ سرجن نے کہا ہاں یہ بھی ممکن ہے ۔ تو سعید صاحب کیا بتا سکتے ہیں کہ ہسپتال میں آنے سے پہلے اسمہ کی دماغی حالت کسی تھی ؟؟ میرا مطلب ہے کہ اسمہ کو کبھی پاگلپن کے دورے تو نہیں پڑتے تھے ؟؟ یا کبھی اسمہ نے کوئی ایسی حرکت کی ہو جس کی وجہ سے آپ کو لگا ہو کہ اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے ؟؟ سعید نے کہا نہیں ڈاکٹر صاحب ایسا تو کبھی نہیں ہوا لیکن آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیسے اسمہ پاگل ہے یاں اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ؟؟ ۔ سرجن نے کہا دیکھئے میں بس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ جیسا آپ نے مجھے پہلے بتایا کہ اسمہ کے ساتھ ہوئے واقعے سے پہلے اس نے آپکی بیوی ثمینہ کے بال کھینچ کر اس کے سر سے الگ کر دیئے جس کی وجہ سے ثمینہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو چکا تھا اس سے مجھے نہیں لگتا کہ اسمہ کی دماغی حالت ٹھیک رہی ہو گی کیونکہ عام طور پر ایک نارمل انسان ایسا نہیں کرتا ۔

 وہ اس لیئے کہ جتنی بے رحمی اور طاقت سے ثمینہ کے بال سر سے الگ کیئے گئے ہیں ایسی طاقت اور درندگی ایک نارمل انسان کی نہیں ہو سکتی یہ صرف ایک جنونی پاگل کی ہو سکتی ہے ۔ یہ سن کر سعید نے اپنے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے سرجن سے کہا تو ڈاکٹر صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسمہ ایک جنونی پاگل ہے ؟؟ سرجن نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا اب تک جو دیکھا اور سنا اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے ۔ تبھی سعید غور سے ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگا اور پھر بولا اچھا چلو ایک پل کے لیئے مان بھی لیتے ہیں کہ اسمہ کی دماغی حالت خراب ہونے پر اس نے ثمینہ کے بال نوچ ڈالے مگر پھر جو اسمہ اور اس کے پیٹ میں پلتے اس بچے کے ساتھ ہوا اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟ کہ وہ بھی اسمہ نے خود ہی کیا ؟؟ سرجن نے سعید کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا مانا کہ آپ کو برا لگ رہا ہے مگر یہ بھی ممکن ہے کیونکہ ایک جنونی پاگل کچھ بھی کر سکتا ہے اور اگر وہ جنونی پاگل کسی دوسرے شخص کو اس قدر شدید نقصان پہنچا سکتا ہے تو وہ خود کو بھی اسی طرح ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔۔

 تبھی سعید نے تھوڑا غصے میں آکر کہا ڈاکٹر صاحب مجھے تو آپ ایک قابل انسان لگ رہے تھے لیکن اب مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ میں غلط تھا اور مجھے لگتا ہے کہ پاگل اسمہ نہیں بلکہ آپ ہیں ارے پہلے وہ ثمینہ اسمہ کو ڈائین چڑیل تو پتا نہیں کیا کیا کہہ رہی تھی وہ میں نے برداشت کیا کیونکہ مجھے لگتا تھا اس کا سر زخمی ہونے کی وجہ سے یا اپنے ساتھ کیئے گئے اسمہ کے سلوک کی وجہ سے شاید غصے میں اس کا دماغ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا اس لیئے وہ ایسا کہہ رہی ہے ۔ پر آپ تو ایک ڈاکٹر ہیں آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں؟؟ وہ بھی اس لڑکی کے بارے میں جو کہ اپنا بچہ کھو کر موت کے منہ میں پڑی ہے؟؟ واہ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب واہ۔۔ مان گیا ہوں آپ کی سوچ اور قابلیت کو ۔۔ ڈاکٹر سرجن نے دیکھیئے سعید صاحب آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں میں ایک سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تھوڑا بہت سائیکالوجسٹ بھی ہوں اور میں نے ایسے بہت سے کیس دیکھے ہیں جہاں لوگ دماغی توازن کھو کر بہت کچھ ایسا کر دیتے ہیں کہ جیسا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے اور ثمینہ بھی بار بار ایک ہی بات کر رہی تھی کہ اسمہ نے خود ہی اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے تو اس سے تو ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اسمہ کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔ تبھی سعید نے تلخ انداز میں کہا بس ڈاکٹر صاحب اب بہت ہوا لیکن اب میں آپ کو ہرگز اس کی اجازت نہیں دونگا کہ آپ اسمہ کو پاگل کہیں ۔ تو سرجن نے کہا سعید صاحب اس وقت آپ پرکیا گزر رہی ہے میں جانتا ہوں پر آپ ناراض مت ہوں میں صرف اپنے سائیکالوجی تجربے اور میڈیکل سائنس کی بنا پر وہی کہہ رہا ہوں جو مجھے محسوس ہوا ہے باقی میں غلط بھی ہو سکتا ہوں لیکن اس کے لیئے مجھے اسمہ کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا ہو گا تاکہ میں اس سے بات کر سکوں ۔۔

 سرجن کی یہ بات سن کر سعید نے کہا جی مجھے بھی یقین ہے کہ اس معاملے میں آپ غلطی پر ہیں ۔ سرجن نے کہا جی جی میں ہو سکتا ہوں لیکن مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ آخر اگر اسمہ کے پیٹ میں بچہ تھا تو وہ کہا گیا ؟؟ سعید نے کہا تو کیا آپ کو بھی یہی لگتا ہے اسمہ نے اپنا بچہ کھا لیا ؟؟ سرجن نے سعید کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا دیکھیئے میں مانتا ہوں کہ میں نے کہا کہ اسمہ خود کو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ اس نے اپنے بچے کو کھایا ہوگا۔ ہاں ہو سکتا ہے کہ اس نے پیٹ پھاڑ کر بچے کو نوچ ڈالا ہو گا لیکن وہ اسے پوری طرح کھا نہیں سکتی تھی اس لیئے مجھے اسی وارڈ میں جا کر دیکھنا ہو گا کہ اگر اسمہ نے بچے کو نقصان پہنچایا ہو گا تو بھی اس بچے کی لاش یا اس کے جسم کے کچھ اعضاء تو وہیں پڑے ہونے چاہیئے ہاں انھیں اسی وارڈ میں ہونا چاہیئے سرجن کی یہ باتیں سن کر سعید سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے نا میں سر ہلا رہا تھا ۔ لیکن سرجن نے سعید کی طرف غور نہیں کیا اور جلدی سے اپنے آفس سے باہر چلا گیا یہ دیکھتے ہوئے سعید بھی ڈاکٹر سرجن کے پیچھے پیچھے چلا گیا باہر جاتے ہی سرجن نے ڈاکٹر قاسم کو بلایا اور کہا مجھے جلدی سے وہ وارڈ دکھاؤ جہاں اسمہ کے ساتھ یہ سب ہوا تھا جلدی کرو یہ سنتے ہی ڈاکٹر قاسم نے کہا پر۔۔۔ سر۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وارڈ۔۔۔ سرجن نے کہا ارے پر ور چھوڑو جلدی کرو ڈاکٹر قاسم نے کہا جی۔۔ جی ٹھیک ہے آیئے سر اور جیسے ہی سرجن اس وارڈ کے دروازے کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وارڈ کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا پھر اچانک ڈاکٹر قاسم نے کہا سر رک جائییے سر۔۔۔ سرجن نے کہا اب کیا ہوا ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے سر وہ میں اندر نہیں جاؤں گا یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر قاسم نے کچھ قدم پیچھے ہٹ گیا ۔ سرجن نے کہا پر کیوں۔۔ آخر ہوا کیا ہے تمہیں ؟؟ 

ڈاکٹر قاسم نے کہا پتا نہیں سر مجھے کچھ عجیب سا ڈر سا لگ رہا ہے ۔ سرجن نے کہا کس بات کا ڈر ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا وہ۔۔۔ سر ۔۔۔ وہ۔۔ بات یہ ہے کہ۔۔۔ ڈاکٹر قاسم نے اتنی بات کی اور پھر سے بولا نہیں نہیں سر میں اندر نہیں جاؤں گا آپ کو بھی نہیں جانا چاہئیے ۔ تبھی سرجن نے غصے سے کہا دیکھیں ڈاکٹر قاسم آپ مجھے غصہ دلا رہے ہیں جو بھی بات ہے صاف صاف کہیئے ورنہ مجھے آپ کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنی پڑے گی کیونکہ آپ اور کچھ باقی سٹاف کے لوگ اسمہ کیس میں مجھے گول مول باتوں میں الجھا رہیں ہیں یہاں دو لوگوں کی جان جانے والی تھی ایک بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے کہیں غائب ہو گیا میں کب سے اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن آپ لوگوں میں سے کوئی بھی میرے ساتھ ٹھیک سے تعاون نہیں کر رہا آخر چل کیا رہا ہے یہ سب ؟؟ ذرا بتائیں مجھے ورنہ میں آپ اور باقی سٹاف کے خلاف کاروائی کا آغاز کروں ؟؟۔ سرجن کی یہ بات سن کر ڈاکٹر قاسم نے ڈرتے ہوئے کہا سر وہ دراصل بات یہ ہے کہ جب سعید صاحب مجھے اس وارڈ میں لائے تھے تو میں نے دیکھا ایک سائیڈ پر ثمینہ زخمی حالت میں بیہوش پڑی تھی تو دوسری طرف اسمہ خون کے پت پڑی تھی لیکن تبھی اس وقت میں نے وارڈ کے ایک کونے میں کسی اور کو بھی کھڑے ہوئے دیکھا تھا جو کہ بہت ہی عجیب تھا ۔ ڈاکٹر قاسم کی یہ بات سن کر سرجن نے حیرانی سے کہا کیا ۔۔۔۔۔۔۔؟؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟؟

 ڈاکٹر قاسم نے ڈرے ہوئے انداز میں کہا جی سر میں نے اس وقت اسمہ اور ثمینہ کے علاوہ وارڈ میں کسی اور کو بھی دیکھا تھا غالباً وہ کوئی عورت تھی اور پوری طرح کالے لباس میں ملبوس تھی لیکن اس کی شکل بہت ہی بھیانک لگ رہی تھی اسی وجہ سے میں ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ گیا تھا ۔ ڈاکٹر قاسم کی یہ بات سن کر سعید نے ڈاکٹر قاسم سے کہا ڈاکٹر صاحب ذرا رکیئے رکیئے شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اس وقت میں بھی آپ کے ساتھ وارڈ میں موجود تھا لیکن میں نے تو اس وقت کسی ایسی عورت کو نہیں دیکھا جیسا کہ آپ بتا رہے ہیں ۔ تبھی ڈاکٹر قاسم نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے ساتھ تھے لیکن آپ اسی وقت چکرا کر گر گئے تھے پر میں اپنے ہوش میں تھا اور میں نے آگے بڑھ کر آپ کو اٹھانے کی کوشش کی تو اس وقت میں نے اس عجیب سی خوفناک عورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس کی بڑی بڑی خوفناک آنکھیں اور اس کا خوفناک چہرہ اب بھی میرے ذہن سے نہیں نکل رہا ۔۔ ڈاکٹر قاسم ابھی یہ بات کر ہی رہا تھا کہ سرجن نے کہا ڈاکٹر قاسم مجھے لگتا ہے آپ پاگل ہو چکے ہیں کیونکہ آپ بھی مجھے ویسا ہی کچھ بتا رہے ہیں جو کہ کچھ دیر پہلے محترمہ ثمینہ بتا رہیں تھیں ۔

 ڈاکٹر قاسم نے کہا سر میں بالکل سہی کہہ رہا ہوں اس وقت وارڈ میں وہ خوفناک عورت موجود تھی ۔ تبھی سرجن نے غصے سے کہا بس ڈاکٹر قاسم بس اب میں آپ کی یہ فضول باتیں نہیں سننا چاہتا ارے اگر ایسا ہی تھا تو جب میں یہاں کھڑا ہو کر آپ سے اسمہ کے ساتھ پیش آئے واقعے کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو اس وقت آپ نے مجھے یہ بات کیوں نہیں بتائی ؟؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا سر میں اس وقت بہت ڈر گیا تھا اور مجھے لگا تھا کہ اگر میں آپ کو یہ سب بتاؤں گا تو آپ میری بات کا یقین نہیں کریں گے اس لیئے میں نے چپ رہنا مناسب سمجھا کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں ۔ سرجن نے غصے سے اپنا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھتے ہوئے ڈاکٹر قاسم سے کہا اور اب آپ کو لگتا ہے کہ میں آپ کی اس فضول سی بات پر یقین کرلوں گا ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا سر اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو ذرا رکیئے میں ابھی آتا ہوں یہ کہہ کر ڈاکٹر قاسم جلدی سے سٹاف روم کی طرف چلا گیا ۔ اس دوران سعید اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو دباتے ہوئے وارڈ کے باہر پڑے ہوئے ایک بینچ پر بیٹھ گیا تبھی سرجن نے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سعید صاحب کیا آپ ٹھیک ہیں ؟؟ سعید افسردہ حالت میں ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے لمبی سانس کے ساتھ کہا پتا نہیں ڈاکٹر صاحب یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔۔ 

سرجن نے کہا جی سعید صاحب میں سمجھ سکتا ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے سرجن بھی سعید کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گیا اور اپنے سر کو ایک اپنے ہاتھ سے دباتے ہوئے بولا یہ کہاں پھنس گیا ہوں میں یہ معاملہ تو اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے ۔۔ ابھی سرجن یہ بات کر ہی رہا تھا کہ ۔۔۔ (جاری ہے)

بغص کی آگ (قسط نمبر 8)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے