Sublimegate Urdu Stories
بغض کی آگ - پارٹ 8
اچانک سے ڈاکٹر قاسم سٹاف کے دو لڑکوں کے ساتھ سرجن کے پاس آیا اور سرجن سے مخاطب ہو کر بولا سر باقی کے تین لوگ ڈر سے بھاگ گئے ہیں لیکن یہ دونوں بھی اس واقعے سے خوفزدہ ہو کر اپنے کمرے سے باہر نہیں آرہے تھے میں بہت مشکل سے ان کو ساتھ لے کر آیا ہوں ۔ ڈاکٹر قاسم کی بات سن کر سرجن نے ان لڑکوں سے پوچھا ہاں بھئی کیا مسلہ ہے تم لوگوں کو ؟؟ اور اس وارڈ کو تالا کس نے لگایا ہے بتاؤ ذرا آخر مجھے بھی تو پتا چلے کیا راکٹ سائنس دیکھی ہے تم لوگوں نے ؟؟؟ تبھی دونوں لڑکے کانپتے ہوئے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھنے لگے پھر سرجن نے لڑکوں سے کہا ارے اُدھر کیا دیکھ رہے ہو سوال میں نے پوچھا ہے اس کا صاف صاف جواب دو ۔۔ ورنہ تم سب کو نوکری سے فارغ کروا دوں گا عجیب تماشا بنا کر رکھا ہوا ہے تم لوگوں نے بولو جلدی ؟؟؟
تبھی ڈاکٹر قاسم نے لڑکوں سے کہا ارے جلدی بتاؤ سرجن صاحب کو ۔۔ جو بھی تم نے دیکھا تھا تبھی ان میں سے ایک لڑکے نے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے اسمہ کے وارڈ کی طرف اشارہ کیا اور کہا سر وہ ہم نے اس وارڈ میں خوفناک ڈائین دیکھی تھی ۔ یہ سنتے ہی سرجن نے تلخ لہجے میں کہا ارے یار۔۔۔۔ کیا بکواس ہے تم سب لوگ پاگل ہو اور لگتا ہے تم مجھے بھی پاگل کر دو گے ۔۔ ڈائین دیکھی تھی۔۔۔۔ ارے کیا تم لوگوں کے لیئے میں کوئی مذاق ہوں کیا جو ہر کوئی مجھے ایک ہی بات کر رہا ہے ؟؟؟ پھر سرجن نے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو قاسم صاحب آپ مجھے یہ دکھانے والے تھے اور کیا یہ ہے آپ کی جسٹیفیکیشن؟؟۔۔
تبھی دوسرے لڑکے نے کہا ڈاکٹر صاحب ہم جھوٹ نہیں بول رہے ۔۔ یہ سنتے ہی سرجن نے لڑکوں ڈانتے ہوے کہا (جسٹ شٹ اپ ) تبھی ڈاکٹر قاسم نے کہا سر آپ ایک بار ان لوگوں کی بات تو سن لیں پلیز سر ؟؟ تبھی سعید نے سرجن سے کہا ڈاکٹر صاحب ویسے تو مجھے بھی ان باتوں پر یقین نہیں ہے پر جتنے یقین سے یہ لوگ کہہ رہے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک بار ان کی بات سن لینی چاہئے ۔ سعید کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا آپ کہتے ہیں تو سن لیتا ہوں ورنہ مجھے یہ سب پر ذرا بھی یقین نہیں ہے یہ کہنے کے بعد سرجن نے لڑکوں سے کہا تو بتاؤ ذرا کیا کہنا چاہتے ہو ؟؟ لڑکے نے کہا ڈاکٹر صاحب وہ بات یہ ہے کہ ہم ریسیپشن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ تبھی ڈاکٹر قاسم دوڑتے ہوئے آئے اور گھبراہٹ میں اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ ہم سے کہنے لگے
وہ۔۔ وہاں۔۔ وہ۔۔ وارڈ نمبر 13 میں اسٹیچرز لے کر جاؤ جلدی وہاں۔۔۔ وہاں۔۔ پر حادثہ ہو گیا ہے جلدی جاؤ ۔۔۔ جلدی کرو۔۔ یہ سنتے ہی میں نفیس اور باقی کے وارڈ بوائز ہم جلدی سے اسٹیچرز لے کر وارڈ نمبر 13 میں گئے تو وہاں جا کر دیکھا دو عورتیں زمین پر گری ہوئی تھیں اور ان کے ساتھ یہ صاحب بھی زمین پر گرے ہوئے تھے جو اس وقت آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن ان صاحب کے جسم پر کوئی کوئی زخم وغیرہ نہیں تھا پر وہ دونوں عورتیں شدید زخمی حالت میں تھیں اس میں سے ایک عورت کا پیٹ بری طرح سے پھٹا ہوا تھا اس کی آنتیں باہر گری ہوئی تھیں اور دوسری عورت کا سر پوری طرح سے خون میں لت پت تھا ایسا لگ رہا تھا کہ شاید اس کے سر پر بال نہیں ہیں اور بہت سارا خون زمین پر بکھرا ہوا تھا یہ سب دیکھ کر ہم سب سب کو عجیب سی وحشت ہونے لگی لیکن پھر بھی ہم نے جلدی سے ان سب کو اسٹیچرز پر ڈالا اور جیسے ہی ہم وارڈ سے باہر جانے لگے تبھی اچانک ہمیں ایک زوردار خوفناک چیخ کی آواز سنائی دی اس آواز کے سنتے ہی ہم سب چونک گئے اور جیسے ہی ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک بہت ہی بھیانک شکل والی لمبی سی عورت ہمارے پیچھے کھڑی ہوئی تھی اس کا چہرہ بہت ہی بدصورت تھا اس کے ہاتھ میں بالوں کا گچھا سا پکڑا ہوا تھا اور اس کے منہ سے خون ٹپک رہا تھا ابھی ہم اس کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک وہ جھکی اور اس نے اپنی لمبی سی زبان سے زمین پر گرا ہوا خون چاٹنا شروع کر دیا یہ سب دیکھ کر ہم سب اسٹیچرز اٹھائے چیختے ہوئے وہاں سے بھاگ کر باہر آگئے اور راجو نے جلدی سے اس وارڈ کے دروازے کو بند کرکے باہر سے کنڈی لگا دی ۔۔
ہم نے ڈرتے ہوئے جلدی سے زخمیوں کو دوسرے وارڈ میں منتقل کیا اور جا کر یہ بات ہم نے ڈاکٹر قاسم صاحب کو بتائی تو انھوں نے ہم سے بولا کہ فضول باتیں بند کرو اور اس بات کا ذکر کسی سے مت کرنا ورنہ ہسپتال میں افراتفری پھیل جائے گی اب جلدی سے جاؤ اور اس وارڈ کو تالا لگا دو لیکن ہم سب ڈر سے کانپ رہے تھے اس لیئے ہم میں سے کوئی بھی اس وارڈ کے قریب بھی نہیں جانا چاہتا تھا اس لیئے ہمارے تین ساتھی چڑیل چڑیل کرتے ہوئے ہسپتال سے باہر بھا گئے تبھی ہم بھی ڈاکٹر قاسم کی بات پر عمل کیئے بنا ہی بھاگ کر اپنے سرونٹ روم میں جا کر بیٹھ گئے ہم سب کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی کیونکہ ہم نے آج سے پہلے ایسی عورت کبھی نہیں دیکھی تھی اسی لیئے ہم یہاں آنے سے ڈر رہے تھے۔
یہ سنتے ہی سرجن نے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا سعید صاحب کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟؟ سعید نے کہا پتا نہیں ڈاکٹر صاحب مجھے تو یہ سب بہت زیادہ ہی عجیب لگ رہا ہے بھلا وہ عورت کون ہو سکتی ہے ؟؟ اور وہ اس وارڈ میں کیا کر رہی تھی اور سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ عورت مجھے نظر کیوں نہیں آئی تھی ۔ اس دوران سرجن تمام لوگوں کے چہروں کو بہت حیرت انگیز نظروں سے دیکھ رہا تھا تبھی سرجن نے وارڈ بوائے سے کہا اچھا تو اگر تم سب لوگ ڈر کے بھاگ گئے تھے تو پھر اس وارڈ کو تالا کس نے لگایا؟؟ سرجن کی یہ بات سن کر ڈاکٹر قاسم نے کہا سر ۔۔ میں نے لگایا تھا یہ تالا کیونکہ سب وارڈ بوائز بہت زیادہ ڈر گئے تھے اور ان کے چیخنے چلانے کی وجہ سے نرسز اور ہسپتال کا باقی سٹاف بھی ڈر رہا تھا اس وجہ سے میری بات کوئی بھی نہیں مان رہا تھا تو خود ہی میں ڈرتے ہوئے یہاں آیا اور وارڈ کو تالا لگا دیا اس کے بعد میں نے آپ کو فون کر دیا ۔ اس لیئے جب آپ نے ہم سے اسمہ کے ساتھ ہوئے اس حادثے کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو میں آپ سے کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں بس ایمرجنسی ہے کیونکہ اسمہ کی حالت تو آپ نے دیکھ ہی لی تھی کہ اگر اس وقت آپ بنا وقت ضائع کیئے اس کا آپریشن نا کرتے تو شاید بہت دیر ہو جاتی ۔اور جب آپ اسمہ کا آپریشن کرنے گئے تو میں ثمینہ کے ٹریٹمنٹ میں مصروف ہو گیا تھا ۔بس یہ ہے ساری حقیقت ۔ ڈاکٹر قاسم کی یہ بات سن کر سرجن اپنے ہاتھ میں پکڑے پین کو پھر سے اپنی انگلیوں سے گھماتے ہوئے کچھ سوچنے لگا اور پھر ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا قاسم صاحب مجھے لگتا ہے ابھی بھی آپ نے مجھے پوری حقیقت نہیں بتائی ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے معصومیت سے پوچھا سر سب تو بتا دیا اب اور کیا بتانا ہے مجھے ؟؟ سرجن نے کہا اپنے پورے ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے بتاؤ کہ اسمہ کے پیٹ میں بچہ تھا ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا جی اور آپ کہتے ہیں تو اس کا ثبوت اب بھی میرے کیبن میں موجود ہے وہ ہے اسمہ کی الٹراساؤنڈ رپورٹ جو کہ آج کی ہی ہے وہ میں ابھی آپ کو دکھاتا ہوں آپ بس ایک منٹ رکیں یہ کہتے ہی ڈاکٹر قاسم جلدی سے گیا اور اپنے کیبن سے اسمہ کی الٹراساؤنڈ رپورٹ لا کر سرجن کو دیتے ہوئے بولا یہ ثبوت سر آپ خود ہی دیکھیں ۔۔ رپورٹ دیکھتے ہی سرجن نے چونک کر ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آؤ شٹ اس کا مطلب واقعی میں اسمہ کے پیٹ میں بچہ تھا تو پھر وہ کہاں گیا؟؟؟ جلدی کرو اس وارڈ کو کھولو ہو سکتا ہے کہ بچہ اسی وارڈ میں کہیں پر ہو کھولو جلدی مجھے اس معاملے کو سلجھانا ہے تبھی سعید نے بکھلا کر کہا ہاں ہاں جلدی کرو ہو سکتا ہے میرا بچہ زندا ہو ؟؟ سرجن نے کہا بچہ زندا ہے یا مر چکا ہے وہ اس وارڈ میں جانے پر ہی پتا چلے گا پھر سرجن نے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اب کھڑے کھڑے میرا منہ مت دیکھو جلدی سے تالا کھولو ۔۔۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹر قاسم نے وارڈ بوائے سے کہا سنا نہیں جاؤ جلدی سے وارڈ نمبر 13 کی چابی لے کر آؤ ۔ وارڈ بوائے بھاگتا ہوا گیا اور وارڈ کی چابی لا کر ڈاکٹر قاسم کو دے دی ڈاکٹر قاسم نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تالا کھولا اور کنڈی کھول کر جلدی سے پیچھے ہٹ گیا تبھی سرجن نے جھٹ سے وارڈ کا دروازہ کھولا اور فوراً وارڈ میں داخل ہو گیا اس کے ساتھ سعید بھی جلدی سے وارڈ میں داخل ہو گیا پھر ڈرتے ہوئے ڈاکٹر قاسم بھی ان کے پیچھے پیچھے وارڈ میں آگیا وارڈ میں ہر طرف خون اور بال بکھرے ہوئے تھے سرجن اور سعید جلدی سے ہر طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید وارڈ میں بچے کے ہونے کوئی آثار مل جائیں لیکن ان کو کچھ نہیں مل رہا تھا سرجن نے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہاں تو بچے کا ایک نشان تک نہیں ہے ۔ پھر سرجن نے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے آپ کھڑے کھڑے کیا کر رہے ہیں جلدی سے کسی سویپر کو بلوائیں اور یہاں کی صاف صفائی کروائیں بہت عجیب سی بدبو آرہی ہے اس خون سے یہ کہتے ہوئے سرجن نے جلدی سے اپنی جیب سے ایک رومال نکال کر اپنے ناک پر رکھ لیا اور سعید کو بولا چلیں سعید صاحب باہر آجائیں یہاں تو گندگی کے سوا کچھ نہیں ہے اتنے میں ڈاکٹر قاسم کہیں گیا اور دو تین سویپرز کو ساتھ لے آیا اور ان سے کہا فوراً اس وارڈ صاف کرو اور پھر خود سرجن اور سعید کے پاس آکر کھڑا ہو گیا سرجن نے کہا یہ بہت حیرت انگیز بات ہے اس کیس نے آج مجھے بھی چونکا دیا ہے آخر بچہ جا کہاں سکتا ہے ۔ اتنے میں ثمینہ بھی آگئ جسے دیکھ کر سرجن نے کہا محترمہ آپ پھر سے آگئیں ہیں ؟؟ ثمینہ نے سرجن کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور وارڈ کے دروازے پر کھڑی ہو کر سویپرز کو کام کرتا ہوا دیکھنے لگی تبھی ان میں سے ایک سویپر بھاگتا ہوا ثمینہ کی طرف بڑھا جسے دیکھ کر ثمینہ بھاگ کر سعید کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی جسے دیکھ کر سعید نے کہا اب کیا ہوا ؟؟ سعید ابھی یہ بات کر ہی رہا تھا کہ وہ سویپر جلدی سے ان کے پاس آیا اور ڈاکٹر قاسم سے کہا ڈاکٹر صاحب جلدی کمرے میں آئیں وہاں کچھ ہے ۔ سویپر کی یہ بات سنتے ہی ڈاکٹر قاسم اور باقی سب لوگ سویپر کے پیچھے گئے تو دیکھا کہ بیڈ کے نیچے ایک سائیڈ پر بہت ہی چھوٹا سا کٹا ہوا پاؤں پڑا ہوا تھا جسے دیکھ کر سرجن اور باقی لوگ حیران ہو گئے سرجن نے جلدی سے اپنے کوٹ کی جیب سے( گلوز) یعنی دستانے نکال کر پہنتے ہوئے کہا تو یہ ہے جسے ہم ڈھونڈ رہے تھے یہ کہتے ہوئے سرجن نے وہ چھوٹا سا پاؤں پکڑ لیا اور اسے دیکھتے ہوئے سویپرز سے کہا بہت اچھے ایسا کرو ایک بار پھر سے پورے وارڈ کے ہر ایک کونے میں صفائی کر کے دیکھو شاید ایسے کچھ اور حصے مل جائیں تبھی سعید اس چھوٹے سے کٹے ہوئے پاؤں کو دیکھ کر میرا بچہ ۔۔ میرا بچہ کہتے ہوئے پھر سے رونے لگا ۔ یہ دیکھ کر سرجن نے ثمینہ سے کہا محترمہ آپ سعید صاحب کو یہاں سے لے جائیں سعید نے روتے ہوئے کہا نہیں میں نہیں جاؤں گا یہ پاؤں مجھے دے دیں میں اس کو چھونا چاہتا ہوں یہ میرے بچے کا ہے بس ایک بار ڈاکٹر صاحب۔۔۔؟؟ تبھی سرجن نے کہا سعید صاحب حوصلہ رکھیں اور دیکھیں ہمیں اپنا کام کرنے دیں پلیز اور یہ پاؤں کا ٹکڑا میں ابھی آپ کو نہیں دے سکتا اس کو ٹیسٹ کے لیئے فرانزک لیب میں بھجوانا ہے آخر کار یہ ایک بچے کی موت کا مسلہ بن چکا ہے تبھی ثمینہ نے سرجن سے کہا ڈاکٹر صاحب آپ صرف ایک بار ان کو اس پاؤں کو چھو لینے دیں اس کے بعد ہم یہ آپ کو واپس کر دیں گے ۔ اتنے میں ڈاکٹر قاسم نے سرجن سے کہا سر مجھے لگتا ہے آپ سعید صاحب کو ایک بار اس پاؤں کو چھو لینے دیں شاید اس سے ان کو کچھ صبر آجاے ۔۔ ڈاکٹر قاسم کی یہ بات سن کر سر جن ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے بنا بولے ہاں میں سر ہلایا اور وہ بچے کا ہوا کٹا ہوا پاؤں سعید کو پکڑ دیا جسے سعید نے جلدی سے پکڑ اور اسے غور سے دیکھنے لگا اور پھر میرا بچہ کہتے اسے پاگلوں کی طرح چومنے لگا یہ دیکھ کر ڈاکٹر قاسم اور سعید کے پاس کھڑے ہوئے سب لوگوں کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تبھی اچانک سے ایک نرس ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کہتے ہوئے بھاگتی ہوئی وارڈ میں آئی اور آتے ہی اس سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب آپ جلدی چلیں جس لڑکی کا آپ نے آپریشن کیا تھا وہ اپنے بیڈ پر نہیں ہے ۔۔ سرجن نے کہا کیا ۔۔۔۔۔؟؟؟ اسمہ اپنے بیڈ پر نہیں ہے؟؟! لیکن میں نے تم سے کہا تھا کہ جب تک اس کو ہوش نہ آئے تب تک تم اس کے پاس ہی رہنا وہاں سے ہلنا مت ؟؟؟ نرس نے کہا جی ڈاکٹر صاحب میں تب سے اسی کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی کہ مجھے واشروم جانا پڑا اور جیسے ہی میں واشروم سے باہر آئی تو وہ اپنے بیڈ سے غائب تھی میں نے ہر جگہ دیکھا پر وہ کہیں نظر نہیں آرہی اس لیئے میں آپ کو بتانے آگئ ۔ نرس کی یہ بات سنتے ہی سرجن نے اپنے سر کو کھجاتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگا اور پھر بولا ارے یار اب یہ کیا نئ مصیبت ہے وہ ایسے کیسے جا سکتی ہے جبکہ وہ تو ابھی اٹھ بھی نہیں سکتی تھی۔ یہ کہنے کے بعد سرجن نے نرس سے کہا چلو چل کر دیکھتے ہیں آج پتا نہیں کیا کیا دیکھنا پڑا رہا ہے یہ کہتے ہوئے سرجن نرس کے ہمراہ اسمہ کو دیکھنے کے لیئے چلا گیا اور اسکے پیچھے ڈاکٹر قاسم بھی چلا گیا اتنے میں ثمینہ نے سعید کو کہا چلیں ہم بھی چلتے ہیں لیکن سعید بچے کا پاؤں ہاتھ میں پکڑے اس قدر گم سم ہو گیا کہ ہر چیز سے بے خبر تھا بس وہ بچے کے پاؤں کو ہی دیکھ رہا تھا تبھی ثمینہ نے سعید سے دوبارہ جانے کو کہا تو سعید نے پھر سے ثمینہ کی بات ان سنی کردی جس پر ثمینہ نے بنا بولے اپنا سر نا میں ہلایا اور وہ بھی سرجن کے پیچھے چلی گئی لیکن سعید اسی جگہ پر کھڑا رہا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سعید اپنے آپ میں ہی نہیں ہے اتنے میں سویپرز نے پورا وارڈ صاف کر دیا لیکن ان کو اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں ملی جس کی تلاش کے لیئے سرجن نے دوبارہ صفائی کا بولا تھا اس کے بعد سویپرز وہاں سے چلے گئے اب سعید اس وارڈ میں بالکل تنہا رہ گیا تھا کہ اچانک وارڈ کی لائٹیں پھر سے خود ہی بند ہو گئیں تبھی سعید کو اسمہ کی آواز سنائی دی سعید نے آہستہ آہستہ سے ادھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا پھر بولا تم کہاں ہو اسمہ دیکھو یہ ہمارے بچے کا پاؤں ہے پر کسی نے اسے مار دیا یہ کہتے ہوئے سعید پھر سے اس کٹے ہوئے پاؤں کو اپنے سینے سے لگا کر رونے لگا اور روتے ہوئے زمین پر بیٹھ گیا ابھی سعید رو ہی رہا تھا کہ تبھی سعید کے بائیں طرف کے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا اور کہا آپ فکر نا کریں سب ٹھیک ہو جائے گا یہ سنتے ہی جب سعید نے روتے ہوئے اپنے بائیں طرف دیکھا تو وہ اسمہ تھی سعید نے وہ بچے کا کٹا ہوا پاؤں اسمہ کو دکھاتے ہوئے کہا یہ دیکھو کیا ہو گیا ہمارے بچے کے ساتھ ۔۔ اسمہ نے وہ پاؤں اپنے ہاتھ میں پکڑ کر لیا اور کہا آپ روئیں نہیں میں آگئ ہوں نا اب سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ یہ کہتے ہوئے اسمہ نے سعید کو اپنے گلے سے لگایا تو اچانک سعید نے اسمہ سے تھوڑا پیچھے ہٹتے ہوئے کہا پر تمہیں تو بہت چوٹ لگی اور تم تو آپریشن تھیٹر میں تھی پر تم اتنی جلدی ٹھیک کیسے ہو گئی ؟؟ اسمہ نے کہا میں ٹھیک تو ہوں دیکھو مجھے کیا ہوا ہے ؟؟ سعید نے کہا پر میں نے تمہیں خود دیکھا تھا تمہارا پیٹ پھٹ گیا تھا ابھی سعید یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک کمرے کی لائٹیں خودبخود جل گئیں اور سعید کو کسی کے بڑھتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی جیسے ہی سعید نے اس طرف دیکھا تو ڈاکٹر قاسم وارڈ میں آیا اور سعید سے کہنے لگا سعید صاحب آپ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہیں وہاں اسمہ کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے یہ سنتے ہی سعید نے واپس اسمہ کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا یہ دیکھ کر اچانک سعید بکھلا کر کھڑا ہوگیا اور حیرت سے اُدھر دیکھنے لگا جہاں کچھ دیر پہلے سعید نے اسمہ کو بیٹھے ہوئے دیکھا تھا پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ سعید کو ایسا کرتے دیکھ ڈاکٹر قاسم نے کہا کیا ہوا سعید صاحب آپ ٹھیک تو ہیں کسے دیکھ رہے ہیں ؟؟ سعید نے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اسمہ اُدھر ہے تو پھر یہاں کون تھا ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے حیرانی سے کہا کیا۔۔۔۔؟؟؟ سعید نے کہا ابھی اسمہ ادھر میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی یہ سنتے ہی ڈاکٹر نے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟ اسمہ کو تو ہم لوگوں نے چھت پر سے پکڑا ہے پتا نہیں وہ چھت پر کیسے چلی گئی تھی اور وہ اب ڈاکٹر سلیم ( یعنی سرجن) کے پاس وارڈ میں ہے ۔۔ سعید نے کہا اگر وہ وہاں ہے تو پھر یہاں کون تھا ؟؟ میرا مطلب ہے کہ آپ کے آنے سے پہلے اسمہ یہاں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور اس نے میرے ہاتھ سے وہ میرے بچے کا پاؤں لیا ۔۔۔ اوہ میرے بچے کا پاؤں۔۔۔ وہ لے گئی۔۔ وہ لے گئی میرے بچے کا پاؤں۔۔۔۔کہاں لے گئی وہ۔۔۔ کہتے ہوئے سعید پاگلوں کی طرح زمین پر ادھر اُدھر دیکھنے لگا اور کہنے لگا میرے بچے کا پاؤں کہاں گیا ۔۔۔ سعید کی یہ بات سنتے ہی ڈاکٹر قاسم ڈر گیا اور اچانک کانپنے لگا اور سعید کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا پھر اس نے اپنی کانپتی ہوئی گردن کو گھما کر وارڈ کے چاروں طرف دیکھا اور پھر سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سعید۔۔۔۔ سعید صاحب آپ جلدی یہاں سے چلیں مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ۔۔ آپ۔۔۔۔ آپ چلیں جلدی ۔۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر قاسم نے جلدی سے آگے بڑھ کر سعید کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچتے ہوئے وہاں سے باہر لے جانے لگا جبکہ سعید کہتا رہا رکیئے ڈاکٹر صاحب مجھے میرے بچے کا پاؤں چاہیے لیکن ڈاکٹر قاسم نے سعید کی ایک نہیں سنی اور اسے وہاں سے باہر لے آیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے سعید کاندھوں کو پکڑ کر اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا سعید ہوش میں آئیں وہاں کوئی نہیں تھا تبھی سعید نے کہا پر وہ میرے بچے کا پاؤں لے گئی ڈاکٹر قاسم نے کہا چھوڑیں اس کو اب آپ چلیں میرے ساتھ اسمہ کی دماغی حالت بہت خراب ہے یہ سن کر سعید نے کہا اسمہ ۔۔۔ کیا ہوا اسمہ کو؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا آئیں میرے ساتھ چل کر دیکھیں یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر قاسم سعید کو اپنے ساتھ اسمہ کے پاس لے گیا۔
۔ وہاں جا کر سعید دیکھا کہ اسمہ بیڈ پر لیٹی ہوئی ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے ہیں اور اس کے پاس ڈاکٹر سرجن ثمینہ اور نرس کھڑے ہوئے تھے ۔ یہ دیکھتے ہی سعید دوڑ کر اسمہ کے پاس گیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا لیکن سرجن نے کہا وہ ابھی نہیں اٹھے گی تبھی سعید نے غصے سے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے بولا یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں میری بیوی کے ساتھ کھولیں اسے یہ کہتے ہوئے سعید پھر سے اسمہ کو آوازیں دیتے ہوئے اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگا ؟؟؟ یہ دیکھتے ہوئے سرجن نے ڈاکٹر قاسم کو اشارے سے سعید کو روکنے کے لیئے کہا اور ڈاکٹر قاسم نے آگے بڑھ کر سعید کو اسمہ سے دور کر دیا اس دوران سعید چلایا چھوڑو مجھے یہ آپ نے کیا کیا ہے اسمہ کے ساتھ ؟؟ تبھی سرجن نے سعید کو پکڑ کر اسے دیکھیں سعید صاحب پلیز ۔۔۔ میری بات سنیں پلیز۔۔۔ آپ پہلے ریلکس ہو جائیں اور تھوڑا تحمل سے میری بات سنیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے بعد آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی ہو گا پلیز ۔۔۔ اسے صرف بیہوشی کا انجیکشن دیا ہے وہ ٹھیک ہے کہتے ہوئے سرجن سعید کی آنکھوں میں دیکھنے لگا اور پھر سعید نے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے ایک لمبا سانس لیتے ہوئے بنا بولے ہاں میں سر ہلایا ۔ پھر سرجن نے کہا سعید صاحب آپ اسمہ کی حالت دیکھ رہے ہیں اس کے پیٹ پر ٹانکے لگے ہوئے ہیں لیکن پتا نہیں کیسے یہ چھت پر چڑھ کر ایک دیوار پر چل رہی تھی اور اگر اس وقت ہم اسے نہ پکڑتے تو شاید یہ وہاں سے باہر گلی میں گر جاتی ۔ لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ کے منہ میں ایک پرندہ تھا جس کی گردن اسمہ نے دبوچ رکھی تھی اور اسے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے پروں سمیت کھا گئی لیکن اس دوران اسمہ کی شکل بہت عجیب سی لگ رہی تھی ہم نے بڑی مشکل سے چلاکی کے ساتھ اس کو قابو کیا ہے اور اسی دوران اس نے ہمارے ایک وارڈ بوائے کان بھی چبا ڈالا پھر بھی ہم جیسے تیسے اس کو پکڑ کر یہاں لے آئے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اسمہ کے اندر دس بندوں جتنی طاقت آگئ ہے اسی وجہ سے ہم نے جلدی سے اس کو انجیکشن دے کر اسے بیہوش کر دیا اور اسے باندھا ہے تاکہ یہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت نا کرے کہ کسی کو اس سے کوئی نقصان پہنچ جائے بس اسی وجہ سے ہم آپ کو اسے کھولنے سے روک رہے ہیں ۔۔ سعید نے کہا کیا اس کے پاس میرے بچے کا پاؤں تھا ؟؟ یہ سنتے سرجن نے کہا اوہ شٹ۔۔۔ پھر ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا وہ کٹا ہوا پاؤں کہاں ہے ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا سر وہ تو لاسٹ ٹائم آپ نے سعید صاحب کو دیا تھا لیکن یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پاؤں ان سے اسمہ نے لے لیا تھا ۔ یہ سنتے ہی سرجن نے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جی سعید صاحب جہاں تک مجھے یاد ہے وہ آپ کے پاس ہی تھا تو وہ اسمہ کے پاس کیسے ہو سکتا ہے؟؟ سعید نے کہا یہی تو مجھے سمجھ نہیں آرہا کیونکہ جب میں وارڈ نمبر 13 میں تھا تو اس وقت اسمہ میرے پاس وارڈ میں آئی تھی اور وہ پاؤں میں نے اس کو پکڑا دیا تھا لیکن جب ڈاکٹر قاسم مجھے اس وارڈ میں لینے آئے تو اسی وقت اسمہ کہیں غائب ہو گئی تھی ۔ سعید کی یہ بات سن کر سرجن نے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھا تو ڈاکٹر قاسم نے اپنا سر نا میں ہلاتے ہوئے کہا مجھے اس معاملے کا کچھ پتا نہیں لیکن یہ سہی کہہ رہے ہیں کیونکہ جب میں ان کو لینے گیا تو یہ کسی کو ڈھونڈ رہے تھے اور انہوں نے مجھے بھی یہی کچھ کہا تھا جو آپ سے کہہ رہے ہیں۔ ۔ سرجن نے کہا لیکن یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ اس وقت تو ہم اسمہ کو چھت سے پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے تو اسی وقت وہ ان کے پاس کیسے ہو سکتی ہے؟؟ سعید نے کہا خود بھی اسی وجہ سے حیران ہوں کہ اگر اس وقت وہ آپ کے سامنے تھی تو پھر میرے پاس کیسے تھی؟؟ کہیں اسمہ دو تو نہیں ہیں ؟؟ یہ سنتے ہی سرجن نے کہا سعید صاحب یہ آپ کیا بچوں جیسی بات کر رہے ہیں بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے ؟؟ سعید نے کہا مجھے معاف کیجئے میں بس ایسے ہی کہہ رہا تھا جبکہ مجھے بھی معلوم ہے ایسا ممکن نہیں ہے ۔۔ سرجن نے کہا جی لیکن یہاں کچھ تو گڑبڑ ہے ایک انسان ایک ہی وقت پر دو جگہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔ یہ کہتے ہوئے سرجن ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر بولا یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔۔ تبھی ثمینہ نے کہا ڈاکٹر صاحب میں نے آپ سے کہا تھا اسمہ ڈائین ہے لیکن اب تو آپ نے دیکھ لیا نا ؟؟ یہ سنتے ہی سعید نے کہا اب تم تو چپ کر جاؤ پہلے ہی سب کچھ بہت الجھا ہوا ہے ۔۔ اتنے میں سرجن یکدم اٹھا اور ڈاکٹر قاسم سے کہنے لگا جلدی سے اسمہ کے کچھ بلڈ سیمپل لو اور اسے لیب میں بھجوا دو مجھے لگتا ہے کہ پہلے ہمیں اسمہ کے دماغ کا معائنہ کرنا ہوگا اور اس کا( سی ٹی سکین) بھی کرنا ہو گا پھر ہم دوسری نظر آنے والی عورت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔۔ اب جلدی کرو ۔۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹر قاسم نے جلدی سے اسمہ کے بلڈ سیمپل لیئے اور اسمہ کو (سی ٹی سکین) کے لیئے دوسرے وارڈ میں منتقل کردیا اور کچھ دیر میں اسمہ کا سی ٹی سکین شروع ہو گیا لیکن سی ٹی سکین کی رپورٹ میں اسمہ کا دماغ پوری طرح سے بالکل ٹھیک ثابت ہوا ۔۔ یہ دیکھتے ہوئے سرجن بھی پوری طرح دنگ رہ گیا اور اسمہ کے بلڈ سیمپل کی رپورٹ میں بھی سچ کچھ نارمل تھا ۔ تبھی سرجن نے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ میری زندگی کا پہلا ایسا کیس ہے جس نے مجھے اس قدر حیران کر دیا ہے رپورٹ کے مطابق سب کچھ نارمل ہے ۔۔ سب کچھ کہیں کوئی خرابی نہیں ہے لیکن مریض کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہ پوری طرح سے پاگل ہے ۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر قاسم نے کہا سر اگر آپ کو برا نا لگے تو میں آپ سے کچھ کہنا چاہوں گا ؟؟ سرجن نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا جی قاسم صاحب کہیئے آپ کیا کہنے والے ہیں ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا سر یہ کچھ عجیب ہے پر مجھے لگتا ہے کہ میں ثمینہ کی بات میں کچھ سچائی ہے ۔ سرجن نے ڈاکٹر قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میرا دل تو نہیں مانتا پر دماغ بھی ایسا ہی کچھ سوچ رہا ہے آخر یہ کچھ تو ہے جو میڈیکل سائنس سے بالکل باہر ہے۔ پھر ڈاکٹر قاسم نے کہا تو سر اب کیا کرنا ہے ؟؟ سرجن نے کہا کرنا کیا ہے بس دعا کرو جب اسمہ پوش میں آئے تو وہ بھی نارمل ہو بالکل اپنی رپورٹ کی طرح اور پھر ایک دو دن کے بعد ان کو ہسپتال سے چلتا کرو پورے ہسپتال میں ڈر کی لہر دوڑ رہی ہے ان لوگوں کی وجہ سے پتا نہیں یہ سب کیا ہے میں تو ہار گیا ہوں ۔۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹر قاسم نے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سر سہی پوچھیں تو میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ جتنا جلدی ہو یہ لوگ یہاں سے چلے جائیں میں بھی اتنا کبھی نہیں ڈرا جتنا آج ان لوگوں کی وجہ سے ڈر گیا ہوں ۔۔ تبھی سرجن نے کہا دیکھا جائے تو اس سب میں ان لوگوں کا بھی کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ ہماری طرح وہ لوگ خود بھی نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے میں اسمہ کو پاگل سمجھتا تھا لیکن اس کی رپورٹس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے اور مجھے ایسا لگنے لگا ہے جیسے کہ اس معاملے کو سلجھاتے ہوئے میں خود بھی پاگل ہو جاؤں گا ۔۔ جو بھی ہے اب تم اسمہ کو اس کے وارڈ میں منتقل کر دو اور باہر بیٹھے سعید اور ثمینہ سے کہنا کہ وہ ہر پل اسمہ کے ساتھ ہی رہیں لیکن اس کے ہاتھ پاؤں تب تک نا کھولیں جب تک اسمہ پوری طرح نارمل نا ہو ۔ اب میں تھوڑی دیر یہیں لیب میں ہی آرام کرونگا گا پھر گھر چلا جاؤں گا رات کے 12 بجنے والے ہیں انہی کے چکروں میں ۔۔ ڈاکٹر قاسم نے کہا جی جی سر آپ آرام کریں یہ کہنے کے بعد ڈاکٹر قاسم اسمہ کو لیب سے دوسرے وارڈ میں لے گیا ۔ پھر سعید اور ثمینہ کو احتیاطی تدابیر کے حوالے سے وہ سب کہا جو سرجن نے کہا تھا اس کے بعد ڈاکٹر قاسم نے اسمہ کی دیکھ بھال کے لیئے ایک نرس کی ڈیوٹی لگا دی اور کہا اگر کوئی بھی مسلہ ہو ڈاکٹر ثاقب کو بتا دینا میں ان کو سارا کیس سمجھا دونگا اس کے بعد ڈاکٹر قاسم نے ڈاکٹر ثاقب کو اسمہ کیس کی تمام رپورٹس دیں اور اس کو اسمہ کیس میں پوری طرح بریف کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر قاسم نے اسمہ کے وارڈ کے دروازے پر میں دو گارڈز اور دو وارڈ بوائز کی ڈیوٹی لگا دی اور پھر ڈاکٹر سرجن کے پاس گیا تو سرجن کرسی پر ہی سو رہا تھا جو کہ ڈاکٹر قاسم کی آہٹ سے اٹھ گیا تبھی ڈاکٹر قاسم نے کہا سوری سر میں نے آپ کو ڈسٹرب کر دیا سرجن نے کہا نہیں نہیں میں بس آرام کر رہا تھا کہ اچانک آنکھ لگ گئی تم بتاؤ تم ابھی تک گھر نہیں گئے ؟؟ ڈاکٹر قاسم نے کہا جی سر آپ کی طرح آج میں بھی بہت لیٹ ہو چکا ہوں میں نے ڈاکٹر ثاقب کو اسمہ کیس میں پوری بریف کر دیا ہے اب میں گھر ہی جا رہا ہوں سرجن نے کہا ہاں ہاں ٹھیک ہے آپ بے فکر ہو کر جاؤ میں بھی بس کچھ دیر میں نکلنے والا ہوں یہ کہتے ہوئے سرجن پھر سے کرسی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ڈاکٹر قاسم گھر اپنے گھر چلا گیا ۔ پھر کچھ دیر کے بعد اسمہ کو ہوش آگیا اور وہ لیٹے ہوئے ہی ادھر اُدھر دیکھنے لگی پھر اس کی نظر سعید اور ثمینہ پر پڑی جو کہ اس کے پاس پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے ہی سو گئے تھے اور ایک سائیڈ پر نرس بھی آنکھیں بند کر کے کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی تبھی اسمہ نے اٹھنا چاہا تو دیکھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے یہ دیکھتے ہی اسمہ نے سعید کو آواز دی تو سعید چونک کر اٹھا اور اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اسمہ تبھی یہ سن کر ثمینہ اور نرس کی بھی آنکھ کھل گئی اسمہ نے سعید سے کہا سعید یہ سب کیا ہے ؟؟ آپ لوگوں نے مجھے باندھا کیوں ہوا ہے ؟؟ سعید نے کہا وہ ۔۔ وہ ۔۔ کچھ نہیں دراصل تمہارے پیٹ پر ٹانکے لگے ہوئے ہیں نا اس لیئے ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دو تاکہ یہ کروٹ نہ لے ورنہ ٹانکے ٹوٹ جائیں گے ۔ یہ سنتے ہی اسمہ نے کہا کیا۔۔۔؟؟ ٹانکے ؟؟ یہ کہتے ہوئے اسمہ نے اپنے پیٹ کی طرف دیکھا اسے کچھ ٹھیک سے نظر نہیں آرہا تھا تبھی اسمہ نے کہا سعید مجھے بہت درد ہو رہا ہے یہ ٹانکے کیوں لگائے ہیں میرے پیٹ پر ؟؟ سعید نے کہا تمہارا آپریشن ہوا ہے ۔ اسمہ نے کہا کیا ؟؟ میرا آپریشن ؟؟ پر میرے پیٹ میں تو بچہ ہے سعید ؟؟ یہ سنتے ہی سعید حیرت سے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کیا تمہیں بلکل بھی یاد نہیں ہے تمہارے ساتھ کیا ہوا؟؟ اسمہ نے کہا کیا ہوا میرے ساتھ؟؟ ارے کھولو مجھے یہ تم لوگ کیا باتیں کر رہے ہو ؟؟ جلدی کھولو مجھے ؟؟ یہ سنتے ہی سعید نے جلدی سے اسمہ کو کھولنا شروع کیا تو نرس نے سعید سے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ ان کو کھولنا مت ۔ نرس کی یہ بات سنتے ہی اسمہ نے کہا یہ تم کیا کہہ رہی ہو جلدی کھولو مجھے ورنہ میں تمہارا سر پھاڑ دونگی چڑیل کہیں کی ۔۔ تبھی سعید نے نرس سے کہا دیکھو آپ پیچھے رہو اور مجھے اسمہ کو کھولنے دو نرس نے کہا نہیں جب تک ڈاکٹر ثاقب نہیں آجاتے تب تک آپ انہیں نہیں کھول سکتے یہ کہتے ہوئے نرس نے وارڈ کے باہر بیٹھے ہوئے وارڈ بوائے سے کہا جلدی سے ڈاکٹر ثاقب کو بلا کر لاؤ وارڈ بوائے جلدی سے گیا اور ڈاکٹر ثاقب کو بلا کر لے آیا پھر نرس نے سعید صاحب کے اسمہ کو کھولنے کے بارے میں بتایا تو ڈاکٹر ثاقب نے سعید سے کہا سر آپ صرف ایک منٹ رکیں مجھے اسمہ سے بات کرنے دیں اس دوران اسمہ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ کھولو مجھے تبھی ڈاکٹر ثاقب نے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اسمہ پلیز میری بات سنیں میں آپ کو کھول دوں گا سچ میں لیکن پہلے آپ آرام سے میری بات سنیں ڈاکٹر کی یہ بات سنتے ہی اسمہ پرسکون ہو گئی اور بولی ڈاکٹر صاحب میں آپ کی بات سن رہی ہوں پر پلیز مجھے کھول دیں جلدی ۔ ڈاکٹر ثاقب نے کہا اچھا آچھا ٹھیک پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں ؟؟ اسمہ نے کہا میں ٹھیک ہوں پر میرے پیٹ پر بہت درد ہو رہی ہے ڈاکٹر ثاقب نے کہا ٹھیک ہے ہم آپ کو کھولنے لگے ہیں پر پلیز آپ ایک دم سے مت اٹھنا بلکہ ہم آپ کے بیڈ کو رول کر کے اوپر اٹھا دیں گے جس سے آپ بیٹھ جائیں گی ٹھیک ہے ؟؟ اسمہ نے ہاں میں سر ہلایا تو ڈاکٹر ثاقب نے نرس سے کہا ادھر آئیے کھولیں انہیں ۔ یہ سنتے ہی نرس اور سعید نے جلدی سے اسمہ کے ہاتھ پاؤں کھول دیئے پھر ڈاکٹر ثاقب نے نرس سے کہا اب ان کے بیڈ کو رول کرو نرس نے بیڈ ساتھ لگا ہوا لیور گھمایا جس کی وجہ سے اسمہ بیڈ کی پوزیشن چینج ہو گئی اور اسمہ کا سر اور کمر اوپر ہو گئ اس کے بعد ڈاکٹر ثاقب نے اسمہ سے کہا اب ٹھیک ہے ؟؟ اسمہ نے کہا جی ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہوئے اسمہ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ لگاتے ہوئے اچانک چیخ کر کہا میرا بچہ ؟؟؟ سعید ہمارا بچہ میرے پیٹ میں نہیں ہے میرا بچہ ۔۔۔۔ سعید میرا بچہ کہا ہے ؟؟ یہ کہتے ہوئے اسمہ زور زور سے رونے لگی ۔۔۔ یہ دیکھتے ہی ڈاکٹر ثاقب نے اسمہ کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا اسمہ حوصلہ رکھیں سب ٹھیک ہو جائے گا اسمہ نے ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب میرا بچہ تھا میرے پیٹ میں اب نہیں ہے ڈاکٹر صاحب مجھے میرا بچہ چاہیئے ڈاکٹر صاحب ۔۔۔میرا بچہ نہیں ہے ۔۔یہ کہتے ہوئے اسمہ اچانک روتے ہوئے بیہوش ہوگئی اس دوران ثمینہ کے چہرے پر پھر سے شیطانی ہنسی تھی کہ اچانک سعید کی نظر ثمینہ پر پڑی تو سعید نے ثمینہ سے کہا تم کیا کھڑی کھڑی ہنس رہی ہو بے حس عورت یہاں آکر مدد کرو ۔۔
تبھی ڈاکٹر ثاقب نے سعید سے کہا آپ پریشان نا ہوں یہ ٹھیک ہو جائیں گی یہ اچھا ہے جو یہ رو پڑیں ورنہ ان کی دماغی حالت خراب ہونے کا خطرہ تھا ابھی ڈاکٹر ثاقب سعید سے بات کر ہی رہا تھا کہ ڈاکٹر سرجن خون سے لت پت زخمی حالت میں جلدی سے اسمہ کے وارڈ میں آیا اس کے گلے اور چہرے پر پنجوں کے گہرے نشانات تھے اور اس ان نشانات سے خون بہہ رہا تھا جس کی وجہ سے سرجن کے سارے کپڑے خراب ہو چکے تھے جسے دیکھ کر ڈاکٹر ثاقب اور باقی لوگ حیران ہو گئے تبھی ڈاکٹر ثاقب نے سرجن سے کہا سر یہ کیا ہوا آپ کے ساتھ ؟؟؟ لیکن ڈاکٹر سرجن نے ڈاکٹر ثاقب کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بس وہ کانپتے ہوئے اسمہ کی طرف دیکھ رہا تھا پھر اچانک ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا یہ یہاں ہے ۔۔۔ ؟؟ تو پھر وہ کون تھی؟؟
جاری ہے ۔۔۔
بغص کی آگ (قسط نمبر 9)
تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے