بغض کی آگ - پارٹ 9

 urdu stories

 Sublimegate Urdu Stories

بغض کی آگ - پارٹ 9


ڈاکٹر ثاقب نے حیرت سے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا سر میں کچھ سمجھا نہیں آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں تبھی سرجن نے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا امپوسیبل یہ بہت عجیب ہے ۔ یہ کہتے ہوئے سرجن اسمہ کے قریب گیا اور سعید سے کہنے لگا یہ یہاں کتنی دیر سے ہے ؟؟ اور اس کے ہاتھ پاؤں کس نے کھولے ؟؟ ابھی سعید کچھ کہنے ہی والا تھا کہ تبھی ڈاکٹر ثاقب نے سرجن کی طرف بڑھتے ہوئے کہا سر میں نے کھولے ہیں کیونکہ اسمہ اب پوری طرح سے نارمل تھی تو اسی وجہ سے میں نے اس کے ہاتھ پاؤں کھول دیئے پر ہوا کیا ہے سر آپ کے ساتھ یہ کس نے کیا ؟؟ سرجن نے ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ سب میں بعد میں بتاتا ہوں پہلے مجھے یہ بتائیں کہ یہ یہاں سے کہیں باہر تو نہیں گئی تھی ؟؟ تبھی نرس نے کہا ڈاکٹر سر نہیں یہ کہیں نہیں گئی تھی سرجن نے نرس سے کہا تمہیں پورا یقین ہے کہ یہ ادھر ہی تھی ؟؟

 نرس نے کہا جی بالکل سر جب سے ڈاکٹر قاسم صاحب نے مجھے اسمہ کے پاس رہنے کو بولا تھا میں تب سے اسی کے پاس ہوں اور اس دوران یہ کہیں نہیں گئی اور آپ کے آنے سے کچھ ہی پل پہلے ہم نے اس کے ہاتھ پاؤں کھولے ہیں ۔ نرس کی یہ بات سن کر سرجن نے ایک بار پھر اسمہ کی طرف دیکھا اور اپنا سر نا میں ہلاتے ہوئے کہا

( اٹس امیزنگ اینڈ امپوسیبل ) تبھی ڈاکٹر ثاقب نے کہا سر وہ سب چھوڑیں پہلے آپ جلدی میرے ساتھ چلیں مجھے آپ کے زخموں کا ٹریٹمنٹ کرنا ہے ورنہ آپ تو جانتے ہیں ان زخموں کی وجہ سے ریکشن ہو سکتا ہے تو پلیز سر آیئے میرے ساتھ ۔ ڈاکٹر ثاقب کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا ہاں ہاں چلو یہ کہتے ہوئے سرجن اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب کے ساتھ ٹریٹمنٹ کے لیئے چلا گیا اتنے میں سعید نے ثمینہ سے کہا تم اسمہ کے پاس ہی رہو میں ابھی آتا ہوں تبھی ثمینہ نے کہا پر یہ تو ۔۔۔۔ ڈائین۔۔۔؟؟؟ سعید نے کہا ارے تم اپنا منہ بند رکھو گی۔۔ کوئی ڈائین وائن نہیں ہے میں بس ابھی آتا ہوں لیکن تم اس کے پاس ہی رہنا یہ کہتے ہوئے سعید بھی جلدی سے سرجن کو دیکھنے چلا گیا اور سعید کے جاتے ہی ثمینہ نے اپنے سر پر بندھی ہوئی پٹی کو ہاتھ لگاتے ہوئے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ڈائین کہیں کی اسے تو مر ہی جانا چاہئیے ۔۔ یہ سنتے ہی ثمینہ کے پاس کھڑی نرس نے ثمینہ سے کہا میڈم پلیز آپ ان سے کوئی الٹی سیدھی بات نہ کیجئے گا ابھی یہ صدمے میں ہیں اور تب تک آپ کو ان کی دماغی حالت کا خیال رکھنا ہوگا اسی لیئے جب یہ ہوش میں آئیں تو آپ ان سے کوئی ایسی بات مت کیجئے گا جس سے ان کی دماغی حالت بگڑ جائے تو پلیز برائے مہربانی اس بات کا خیال رکھیئے گا ۔ 

 نرس کی یہ بات سنتے ہی ثمینہ آگ بگولہ ہوتے ہوئے بولی ارے تم اپنے کام سے کام رکھو زیادہ میری ماں مت بنو ۔۔ یہ دیکھ نہیں رہی اس ڈائین نے میرا کیا حال کر دیا ہے اس کی وجہ سے میں آج گنجی ہو گئ ہوں؟؟ نرس نے کہا میڈم پلیز آپ مجھ سے اس طرح بات مت کریں اور آپ کے ساتھ کس نے کیا کیا ہے یہ میں نہیں جانتی کیونکہ میری ڈیوٹی رات کی ہے اسی لیئے میں تو ابھی آئی ہوں اس دوران کیا ہوا کیا نہیں مجھے معلوم نہیں مجھے تو بس ڈاکٹر قاسم نے بولا ہے کہ اسمہ میڈم کے پاس رہ کر ان کا خیال رکھنا ہے بس کیونکہ یہی میری ڈیوٹی ہے اور میں وہی کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔۔ تبھی ثمینہ نے عجیب سا منہ بناتے ہوئے کہا لگتا ہے تمہیں اس کے بارے میں ہسپتال میں کسی نے نہیں بتایا ۔۔۔ ارے یہ لڑکی نہیں خطرناک ڈائین ہے ڈائین تبھی نرس نے کہا میڈم پلیز آپ ایک سائیڈ پر بیٹھ جائیں ورنہ مجھے مجبوراً گارڈ کو بلا کر آپ کو وارڈ سے باہر بھیجنا پڑے گا ۔ یہ سنتے ہی ثمینہ نے غصے سے کہا ارے جاؤ جاؤ آئی بڑی مجھے باہر بھیجنے والی۔۔ میں خود بھی یہاں اس ڈائین کے ساتھ نہیں رہنے والی کیونکہ مجھے اس کے پاس رہنے کا کوئی شوق نہیں لیکن جب یہ ہوش میں آکر تمہیں گنجا کرے گی تو تب تمہیں پتا چلے گا ڈائین کی سائیڈ لینے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے ثمینہ بڑبڑاتی ہوئی وارڈ سے باہر نکل آئی اور سعید کو دیکھنے کے لیئے پوچھتی پوچھاتی ہوئی ڈاکٹر ثاقب کے پاس جا پہنچی جہاں سرجن بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اور ڈاکٹر ثاقب سرجن کے زخموں کا علاج کر رہا تھا تبھی سعید نے ثمینہ کو دیکھتے ہی کہا ارے تم یہاں کیا کر رہی ہو میں نے تو تمہیں اسمہ کے پاس رکنے کا بولا تھا نا ؟؟ ثمینہ نے کہا وہ مجھے الجھن سی ہو رہی تھی اس لیئے میں تھوڑی دیر کے لیئے باہر آگئی لیکن آپ فکر مت کریں وہ نک چڑھی نرس ہے اس کے پاس ۔۔ یہ سنتے ہی سعید نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے اپنا سر نا میں ہلایا اور پھر سے سائیڈ پر بیٹھ گیا اور کچھ ہی دیر میں سرجن کا علاج مکمل ہو گیا اور ڈاکٹر ثاقب نے سرجن سے کہا لیجیئے سر ہو گیا اب آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں اور آپ کی پین کم ہوئی یا مذید پین کلر کی ضرورت ہے ؟؟ سرجن نے کہا نہیں نہیں اتنا کافی ہے اس کے بعد سرجن بیڈ سے اٹھ گیا پھر ڈاکٹر ثاقب نے سرجن سے کہا سر اب تو بتا دیں یہ سب کیسے ہوا ؟؟ ڈاکٹر ثاقب کی یہ بات سنتے ہی سرجن نے ایک لمبی سانس لی اور ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ثاقب صاحب کیا بتاؤں میں آپ کو دراصل بات بہت ہی عجیب ہے اس لیئے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کسی کو بتاؤں بھی تو کیا بتاؤں یہ کہتے ہوئے سرجن سعید اور ثمینہ کی طرف دیکھنے لگا پھر ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا یاں یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ بات سننے کے بعد شاید آپ لوگ مجھے پاگل سمجھ لیں ؟؟۔۔ سرجن کی یہ بات سن کر ڈاکٹر ثاقب نے کہا نہیں نہیں سر ہمیں آپ پر پوری طرح سے یقین ہے آپ بتائیں کیا بات ہے ۔ تو سرجن نے ایک بار پھر سے سعید اور ثمینہ کی طرف دیکھا اور بولا تو سنیں۔۔۔ بات یہ ہے کہ قاسم کے جانے کے بعد میں لیب میں کچھ دیر آرام کر رہا تھا کیونکہ اسمہ کے کیس نے مجھے پوری طرح سے تھکا دیا تھا جس کی وجہ سے مجھ میں مزید ہمت ہی نہیں ہوئی کہ میں لیب سے باہر بھی جا سکوں تبھی میں نے سوچا کہ دیر تو ہو ہی گئی ہے گھر جانے سے پہلے میں کچھ دیر یہیں آرام کر لیتا ہوں اس لیئے میں وہیں کرسی پر بیٹھا اور اپنا سر ٹیبل پر رکھ کر سستانے لگا کہ کب میری آنکھ لگ گئی کچھ پتا نہیں چلا تبھی اچانک سے میرے سر پر کوئی نوکیلی سی چیز چبھی جس سے میری آنکھ کھلی گئی اور جیسے ہی میں نے غور کیا تو میرے چہرے کے سامنے کسی بڑے ریچھ نما جانور کی طرح کے پاؤں تھے یہ دیکھ کر میں جلدی سے اپنا سر ٹیبل سے اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھنے ہی والا تھا تو اسی وقت میرے چہرے پر کسی نے زور دار پنجا مارا جس کے لگتے ہی میں کرسی سے گر گیا پھر میں نے جلدی سے اٹھ کر دوبارہ ٹیبل پر دیکھا تو میرے ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ میں نے دیکھا کہ ٹیبل پر کوئی ریچھ نما جانور نہیں بلکہ اسمہ کھڑی ہوئی تھی لیکن اس کی شکل پوری طرح سے بگڑ چکی تھی اس کے منہ سے خون ٹپکتا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا اور اس کے ہاتھ پاؤں کسی جنگلی ریچھ کی طرح تھے جن میں کسی موٹی سی سوئی کے جیسے نوکیلے ناخن تھے اور وہ بہت ہی خونخوار لگ رہی وہ سب دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اور میں بری طرح ڈر سے کانپنے لگا کیونکہ میں نے آج سے پہلے تک کسی انسان کو اتنے بھیانک روپ میں نہیں دیکھا بس یوں سمجھ لو کہ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں تبھی میں نے وہاں سے بھاگنا چاہا پر میرے قدموں میں سے جیسے جان ہی نکل گئی تھی اور میں وہاں سے ہل ہی نہیں پا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے میرے قدموں کو فریز کر دیا ہو۔۔ بس اس وقت میرا پورا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا تبھی میں نے ڈرتے ہوئے گارڈز اور وارڈ بوائے کو آواز دینی چاہی تو میری آواز بھی جیسے میرے منہ سے میں دب گئی تھی تبھی اسمہ ٹیبل سے چھلانگ لگا کر میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی اور میں ایک بت بن کر صرف اسے دیکھ رہا تھا وہ عجیب سی آواز میں ہنسنے ہوئے میری طرف بڑھنے لگی اور جیسے ہی وہ میرے قریب پہنچی تو اس نے اپنے خونخوار ہاتھوں سے مجھ پر حملہ کر دیا دیا اور اپنے گندے سے نوکیلے دانتوں سے میری گردن پر کاٹنا چاہا میں نے بہت مشکل سے اپنی گردن کو بچایا لیکن اس نے میرے شولڈر پر کاٹ لیا پھر اس نے میری چسٹ پر اپنے ناخن گڑھا دیئے اور مجھے نوچنے لگی مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی جنگلی جانور میرے سینے کو چیر پھاڑ رہا ہے حالانکہ اس وقت میں بہت چیخ چلا رہا تھا پر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میری آواز مجھے ہی سنائی نہیں دے رہی تھی اور ایک پل کے لیئے مجھے لگا کہ جیسے آج میرا آخری وقت ہے میں نے کلمہ شہادت پڑھنا شروع کر دیا کہ تبھی کہیں سے ایک بلی نے اسمہ کے چہرے پر حملہ کر دیا اسی دوران اسمہ نے مجھے چھوڑا اور بلی کو پکڑ کر اس کا سر اپنے منہ میں ڈال کر اسے کھانے لگی بس اسی پل پتا نہیں کیسے میں جلدی سے اٹھا اور میں نے کلمہ پڑھتے ہوئے دوڑ لگا دی اور دوڑتے ہوئے لیب سے باہر آگیا اتنے میں کچھ ہی دور بیٹھے ہوئے گارڈز نے مجھے دیکھا اور وہ سب دوڑ کر میری طرف آئے مجھے سنبھالنے لگے جب ان گارڈز نے میرے زخمی ہونے کی وجہ پوچھی تو میں نے جلدی میں گارڈز سے کہا وہ لیب میں ہے پکڑو اسے تو کچھ گارڈز فوراً دوڑ کر لیب میں گئے پھر کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو انہوں نے کہا سر لیب میں تو کوئی بھی نہیں ہے ہم نے پوری لیب میں چیک کر لیا ہے پر ہمیں وہاں سوائے زمین پر گرے خون کے علاوہ کوئی نظر نہیں آیا ۔ ان گارڈز کی یہ بات سن کر مجھے بہت ہی حیرانی ہوئی کیونکہ میں نے کچھ ہی سیکنڈ پہلے تو اسمہ کو لیب میں دیکھا تھا تو پھر گارڈز کو وہ نظر کیوں نہیں آئی ۔ پھر ان گارڈز میں سے ایک گارڈ نے پوچھا سر ویسے لیب میں تھا کون جس نے آپ کے ساتھ یہ سب کیا ؟؟ تو جب میں نے اسمہ کا نام لیا تو اس گارڈ نے کہا پر سر یہ کیسے ہوسکتا ہے اسمہ تو کب سے اپنے وارڈ میں ہی ہے اور میں اسی وارڈ کے دروازے پر ڈیوٹی کر رہا تھا اور ڈاکٹر ثاقب اسے دیکھنے وارڈ میں گئے ہوئے ہیں۔ گارڈز کی یہ بات سن کر میں اسی حالت میں اسمہ کو دیکھنے کہ لیئے تمہارے پاس پہنچا اور جب میں نے اسمہ کو تم لوگوں کے ساتھ دیکھا تو مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اسمہ واقعی میں تم لوگوں کے ساتھ تھی اس وجہ سے میرا دل و دماغ کام نہیں کر رہا تھا بس یوں سمجھ لو کہ یہ سب مجھے کسی جادو جیسا لگ رہا تھا جبکہ میں ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن آج پتا نہیں میرا دل کہہ رہا ہے کہ یہ واقعی میں کوئی جادوئی چیز ہے جو کہ ایک ہی وقت پر دو الگ الگ جگہ پر نظر آتی ہے ۔ سرجن کی یہ باتیں سن کر ڈاکٹر ثاقب بھی تھوڑا ڈر گیا اور پھر کہنے لگا سر یہ واقعی میں ایک الگ بات ہے آج سے پہلے میں نے بھی کبھی کوئی ایسی بات نہیں سنی لیکن جو آپ کے ساتھ ہوا اس کے بعد مجھے ڈر سا لگنے لگا ہے یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب ڈرے ہوئے انداز میں ادھر اُدھر دیکھنے لگا پھر سرن سے کہنے لگا سر کہیں وہ چیز اب بھی تو یہاں ہمارے آس پاس موجود تو نہیں ؟؟ ڈاکٹر ثاقب کی یہ بات سن کر ثمینہ نے جلدی سے سعید کا بازو پکڑ لیا تبھی سعید نے کہا ڈاکٹر صاحب اب مجھے کچھ کچھ سمجھ آرہا ہے دراصل ہسپتال آنے سے پہلے اسمہ اکثر مجھے ایسی چیزوں کے نظر آنے کے بارے میں بتایا کرتی تھی لیکن میں نے کبھی اس کی بات کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا لیکن آج جو یہاں میں نے دیکھا اور سنا ہے اس سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ضرور اسمہ کے ساتھ کوئی چیز جڑی ہوئی ہے جو کہ اسمہ کے ساتھ ساتھ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے ۔۔ سعید کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا جی بالکل سعید صاحب اب تو مجھے بھی آپ کی بات میں وزن لگ رہا ہے اور واقعی میں یہ کوئی گھوسٹ یا کوئی جادو ٹونے کا معاملہ لگ رہا ہے ۔ کیونکہ میں پہلے اس معاملے کو میڈیکل سائنس اور سائکلوجیکلی طریقے سے دیکھ رہا تھا کیونکہ میرے مطابق میڈیکل سائنس میں کبھی کبھی ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں کہ ایک انسان کے اندر دو طرح کی پرسنالٹیز موجود ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک انسان کبھی کبھی دو طرح کا برتاؤ کرتا ہے لیکن جب اس انسان سے کے دوسرے برتاؤ کے بارے میں پوچھا جائے تو اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا تو اسے ہم( twins) یعنی ڈبل پرسنالٹیز پیشنٹ کہتے ہیں لیکن وہ ڈبل پرسنالٹیز ایک ہی باڈی میں ہوتیں ہیں پر اسمہ کے معاملے میں تو دو الگ الگ باڈیز ایک وقت پر دو جگہ پر نظر آتیں ہیں اس لیئے مجھے اب یقین ہے کہ یہ معاملہ میڈیکل سائنس سے بالکل باہر ہے ۔ اور جو آج میرے ساتھ ہوا اب تو میں واقعی میں کہوں گا کہ اس ہسپتال میں کوئی جادوئی چیز یا کوئی گھوسٹ موجود ہے لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ جو بھی چیز ہے وہ صرف اسمہ کی شکل میں ہی کیوں نظر آتی ہے۔ تبھی ڈاکٹر ثاقب نے کہا اس کا مطلب ہے کہ وہ جو بھی چیز ہے کیا وہ اسمہ کو مارنا چاہتی ہے ؟؟ جس پر سعید نے کہا مجھے ایسا نہیں لگ رہا کیونکہ اگر وہ اسمہ کو مارنے والی تو وہ اب تک اسمہ کو مار دیتی لیکن اس نے صرف اسمہ کے پیٹ میں پلتے ہوئے بچے کو ہی مارا یا کھایا اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ صرف ہمارے بچے کے پیچھے تھی اور شاید یہی اس کا مقصد تھا سعید کی یہ بات سنتے ہی سرجن اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا پھر اچانک سعید کی طرف دیکھتے ہوئے بولا پر سعید صاحب مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر وہ آپ کے بچے کو نقصان پہنچانا چاہتی تھی تو پھر وہ ہم سب کو کیوں نقصان پہنچا رہی ہے کیونکہ کے اگر بچے کو مارنا اس کا مقصد تھا وہ تو پورا ہو چکا تو اب پھر وہ یہ سب کر کے کیا ثابت کر رہی ہے ؟؟ کیا اس کا کوئی اور بھی مقصد ہو سکتا ہے ؟؟ سعید نے کہا پتا نہیں ڈاکٹر صاحب میں بھی یہی سوچ رہا ہوں سعید یہ بات کر ہی رہا تھا کہ تبھی ثمینہ نے کہا آپ سب لوگوں کو میری بات سمجھ میں نہیں آرہی کیا وہ اسمہ ہی ڈائین ہے ثمینہ کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا محترمہ آپ سمجھ نہیں رہیں چلو ایک پل کے لیئے آپ کی بات مان بھی لیں تو پھر وہ دوسری لڑکی کون ہے جس نے میرے ساتھ یہ سب کیا جبکہ کے اس وقت اسمہ تو آپ لوگوں کے ساتھ موجود تھی تو پھر وہ کیسے ایک وقت پر دو جگہ ہو سکتی ہے ؟؟ آپ ہی بتائیں ہم سب کیا پاگل ہیں جو کافی دیر سے اسی بارے میں بات کر رہے ہیں ؟؟ سب نے دیکھا اسمہ اس وقت آپ لوگوں کے ساتھ وارڈ میں تھی تو آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتا کہ یہ اسمہ کا کام نہیں ہے۔

سرجن کی یہ بات سنتے ہی ثمینہ نے کہا میں مانتی ہوں کہ اسمہ اس وقت ہمارے ساتھ تھی لیکن یہ سب کے پیچھے وہی ہے اور یہ سب اسی نے کیا۔ ثمینہ کی یہ بات سن کر سرجن نے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے اکتا کر لمبے سے جملے میں کہا پر۔۔۔۔۔ کیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ یہی تو ہمیں جاننا ہے کہ یہ سب کس نے اور کیسے کیا ؟؟ اور وہ دوسری لڑکی چیز کیا ہے جو اسمہ کی شکل میں نظر آتی ہے ؟؟ بتائیں محترمہ وہ کیا ہے ؟؟ ثمینہ نے کہا یہ سب کچھ اسمہ نے جادو سے کیا کیونکہ اس کے والد بھی کسی دربار میں ہوتے ہیں اور وہاں وہ جادو ٹونہ کرتے ہیں اور ان کی بیٹی اسمہ بھی جادوگرنی ہے جیسے کہ اس نے جادو کے ذریعے سعید کے خواب میں آکر اسے اپنے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کیا ورنہ سعید تو اسے جانتے تک نہیں تھے اور نہ ہی اس کے کسی رشتے داروں کو جانتے ہیں پھر جب سعید نے اس سے شادی کر لی تو پھر اس نے جادو کے ذریعے ہی سعید اور سعید کے رشتے داروں کو اپنی طرف کر لیا۔ یہ سنتے ہی سرجن نے ثمینہ سے کہا ارے محترمہ یہ آپ بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی ہیں ؟؟ تبھی ثمینہ نے کہا ٹھیک ہے میں جھوٹ بول رہی ہو نا اور اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو یہ سعید کھڑے ہیں آپ ان سے پوچھیئے کیا اسمہ شادی سے پہلے۔ روزانا ان کے خواب میں آکر ان کو بچے کی لالچ نہیں دیتی تھی جس کی وجہ سے سعید نے اسمہ سے دوسری شادی کی ۔ پوچھیئے ڈاکٹر صاحب۔۔ پوچھیئے ان سے ۔

 ثمینہ کی یہ بات سن کر سرجن نے حیرت سے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سعید صاحب یہ محترمہ کیا کہہ رہی ہیں یہ سب کیا ہے ؟؟ کیا آپ اس بارے میں ہمیں کچھ بتانا مناسب سمجھیں گے ؟؟ سرجن یہ بات سن کر سعید نے افسردہ انداز میں ایک لمبی سانس لی پھر تھوڑا غصے سے ثمینہ کی طرف دیکھا اور پھر سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی ڈاکٹر صاحب یہ سچ ہے اسمہ شادی سے پہلے اکثر میرے خواب میں آتی تھی جبکہ کہ میں نے اسمہ کو حقیقت میں کبھی دیکھا ہی نہیں تھا اور نہ ہی میں جانتا تھا کہ وہ کون ہے اور کہاں رہتی ہے ۔ سعید کی یہ بات سن کر سرجن نے حیرانی سے کہا رکیئے۔۔ رکیئے۔۔رکیئے یہ کہتے ہوئے سرجن سائیڈ پر پڑے ہوئے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا اور سعید سے کہنے لگا آیئے سعید صاحب یہاں میرے پاس آکر بیٹھیں ۔ سرجن کی یہ بات سنتے ہی سعید آہستہ آہستہ سے قدم بڑھاتا ہوا سرجن کے پاس گیا اور اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا اس دوران ڈاکٹر ثاقب نے جلدی سے ایک کرسی پکڑی اسے سرجن اور سعید کے پاس رکھ کر ان کے سامنے بیٹھ گیا جبکہ ثمینہ سائیڈ پر پڑے ایک بینچ پر بیٹھ گئی ۔ پھر سرجن نے سعید سے کہا تو سعید صاحب اب آپ مجھے تفصیل سے بتائیں کہ اسمہ کون ہے اور اس کی شادی آپ سے کیسے ہوئی اور یہ خوابوں والا معاملہ کیا ہے ؟؟

 پھر سعید نے سرجن کو اپنے اور اسمہ کے بارے میں وہ سب کچھ تفصیل سے بتایا جو کچھ اس سے ملتا جلتا ثمینہ نے کہا تھا ۔ جسے سنتے ہی سرجن ڈاکٹر ثاقب کی طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ( اٹس امیزنگ اینڈ ریلی انبلیوایبل) تبھی سعید نے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مجھے معلوم ہے ڈاکٹر صاحب آپ اس یقین نہیں کریں گے کیونکہ یہ بہت ہی عجیب ہے لیکن یہی سچ ہے ۔ تبھی ڈاکٹر ثاقب نے کہا تو جیسا آپ نے بتایا کہ اسمہ کی شادی کے کچھ عرصے کے بعد جب اس کو عجیب سی چیزیں نظر آتی تھی تو آپ نے اس بات کا ذکر جلال الدین صاحب یعنی کہ اسمہ کے والد سے کیوں نہیں کیا ؟؟ میرا مطلب ہے کہ وہ اچھا خاصہ علم رکھنے والے تھے شاید وہ اسمہ کو شروع میں ہی ٹھیک کر لیتے ؟؟ سعید نے کہا آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن اس میں بھی غلطی میری ہی ہے کیونکہ پہلے تو میں نے اس معاملے میں سنجیدگی نہیں دکھائی لیکن جب کبھی اسمہ کی حالت بگڑ جاتی تھی تو میرے ذہن میں یہ بات ضرور آتی تھی کہ اس معاملے میں مجھے ایک بار جلال الدین صاحب سے بات کرنی چاہیے لیکن تبھی ثمینہ مجھے رک لیتی تھی یہ کہہ کر کہ یہ سب اسمہ کا وہم ہے اور ایسا ویسا کچھ نہیں ہے لیکن پھر ایک دن مجھے لگا کہ شاید اسمہ کو کوئی نفسیاتی مرض ہے تو جب میں اسمہ کو سائیکالوجسٹ کے پاس لے کر گیا تو اس سائیکالوجسٹ نے بھی یہی کہا تھا کہ اسمہ ذہنی طور پر بالکل ٹھیک ہے لیکن اس معاملے میں آپ کو کسی عامل یا عالم سے رابطہ کرنا چاہیئے تو میں اسمہ کو وہاں سے واپس لے آیا تھا۔

 سعید کی یہ بات سن کر سرجن نے فوراً کہا تو آپ نے پھر کسی عامل یا عالم سے بات کی اس بارے میں ؟؟ سرجن کی یہ بات سنتے ہی سعید نے ثمینہ کی طرف دیکھا اور پھر سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جی بات تو کی لیکن ثمینہ سے کی تھی تبھی ثمینہ نے کہا تھا کہ اس کی ایک سہیلی کے کوئی رشتےدار ہیں جو عامل ہیں تو ثمینہ نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ اس عامل کی مدد سے اسمہ کے اس معاملے کو سنبھال لے گی اس لیئے میں نے یہ معاملہ ثمینہ پر چھوڑ دیا تھا لیکن میں غلط تھا کیونکہ اس عامل سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا تھا کیونکہ اسمہ کو وہ چیزیں مسلسل نظر آتی تھیں لیکن پھر جب ثمینہ دوبارہ اسمہ کو اس عامل کے پاس لے کر گئی تو کچھ دنوں سے اسمہ کی حالت بہتر ہونے لگی تھی پر اب پھر سے وہی سب کچھ ہو رہا ہے بلکہ اب تو یہ معاملہ بہت خطرناک ہو بھیانک ہو چکا ہے اور اسی کی وجہ سے میں نے اپنے بچے کو کھو دیا ہے ۔ تبھی ڈاکٹر ثاقب نے کہا دیکھیں مجھے کوئی حق تو نہیں ہے پر پتا نہیں مجھے بار بار یہ کیوں لگ رہا ہے کہ آپ کو اس بارے میں اسمہ کے والد کی مدد لینی چاہیئے تھی کیونکہ مجھے لگتا کہ آج کل کے یہ عامل وغیرہ صرف الٹی سیدھی باتیں کر کے اور الٹے سیدھے تعویذ گنڈے وغیرہ کر کے لوگوں کو مزید پریشان کر دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر ثاقب کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا جی بالکل سعید صاحب میں ثاقب کی بات سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں کہ واقعی میں آج کل کے یہ عامل یہ بابے جادو وغیرہ کرنے والے لوگ زیادہ تر دھوکے باز اور فراڈیئے ہی ہوتے ہیں اور بس اپنی جیبیں گرم کرنے میں لگے ہوتے ہیں بس اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں بس پھر کوئی جیئے یا مرے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ سرجن کی یہ بات سنتے ہی ثمینہ نے کہا ڈاکٹر صاحب سبھی عامل ایک جیسے نہیں ہوتے جس کے پاس میں اسمہ کو لے کر گئی تھی

 وہ بہت بڑے پیر صاحب ہیں اور بہت علم رکھنے والے ہیں ۔ ثمینہ کی یہ بات سن کر سرجن نے غصے سے کہا ( وٹ نان سینس ) محترمہ کیا آپ کو دکھائی نہیں دے رہا آپ کے اس پیر صاحب کی وجہ سے ایک معصوم لڑکی کی کیا حالت ہو گئ ہے ارے اگر آپ کے اس پیر صاحب سے معاملہ نہیں سمبھل رہا تھا تو بتا دیتا تاکہ سعید صاحب اسمہ کو کسی دوسرے عامل یا عالم دین کو دکھا دیتے کم سے کم کچھ تو بہتری ہوتی ۔ تبھی ثمینہ نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کو نہیں پتا ہے ہمارے پیر صاحب بہت علم رکھتے ہیں اور آپ ان کے بارے میں یہ الٹی سیدھی باتیں مت کریں پلیز ۔۔؟؟ سرجن نے ثمینہ سے کہا دیکھیں محترمہ آپ کے پیر صاحب جو بھی ہیں مجھے ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے میں صرف اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جو کہ ہمارے ہسپتال میں داخل ہو گئ ہے اس لیئے میری آپ سے ریکوئسٹ ہے کہ آپ اب خاموش رہیں یا پھر یہاں سے باہر جا کر بیٹھ جائیں پلیز۔۔۔ یہ کہتے ہوئے سرجن نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں جوڑ کر ثمینہ کے سامنے کیا تو ثمینہ نے غصے سے اپنے منہ کو بائیں طرف جھٹکا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔ اسمہ کے جاتے ہی سعید نے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب جانے دیں اسے اس کی طرف سے میں سوری کرتا ہوں دراصل جب سے اس نے اپنے سر کے بال کھوئے ہیں تب سے وہ ایسی ہی غصیلی ہو چکی ہے ۔

 سعید کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا اٹس اوکے سعید صاحب میں سمجھ سکتا ہوں اور اس کے لیئے آپ کو سوری بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی آپ کو اسمہ کے معاملے میں سنجیدگی دکھانی ہوگی اور اس کے والد اگر واقعی میں عالم دین ہیں تو آپ کو ان سے ضرور بات کرنی چاہیئے مجھے سو فیصد یقین تو نہیں ہے پر مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ آپ کی مدد کر سکیں گے ۔ سعید نے سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا اور بولا ڈاکٹر صاحب آپ کو چاہے سو فیصد یقین نا ہو پر مجھے جلال الدین صاحب پر پورا یقین ہے وہ ضرور میری مدد کریں گے یہ کہتے ہوئے سعید نے جلدی سے جیب سے موبائل نکالا اور جلال الدین صاحب کو فون کرنے لگا لیکن پھر اچانک رک گیا اور ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگا تو ڈاکٹر ثاقب نے کہا کیا ہوا سعید صاحب آپ رک کیوں گئے ؟؟ سعید نے کہا ڈاکٹر صاحب رات کے دو بجنے والے اس ٹائم تو وہ سو چکے ہونگے اب اس ٹائم ان کو فون کر کے جگانا مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا ۔ تبھی سرجن نے کہا جی جی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں
جاری ہے ۔۔۔۔

بغص کی آگ (قسط نمبر 10)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے