بغض کی آگ - پارٹ 10

 urdu stories

 Sublimegate Urdu Stories

بغض کی آگ - پارٹ 10

اب اتنی رات میں کسی کی نیند خراب کرنا اچھی بات نہیں ہے دو تو تقریباً بج ہی گئے ہیں اب صرف کچھ رات ہی بچی ہے یہ بھی کٹ ہی جائے گی بس دعا کریں سب کچھ ٹھیک ہی رہے یہ کہتے ہوئے سرجن نے صوفے سے ٹیک لگا لی اور اپنا منہ اوپر چھت کی طرف کر کے آنکھیں بند کر لیں۔ اتنے میں ڈاکٹر ثاقب نے سرجن سے کہا سر مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اب کچھ آرام کر لینا چاہیے یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب نے اس بیڈ کی طرف اشارہ کیا جہاں کچھ دیر پہلے ڈاکٹر ثاقب نے سرجن کا ٹریٹمنٹ کیا تھا اور بولا آپ یہاں آکر اس بیڈ پر لیٹ جائیں آج تو واقعی میں آپ بہت تھک چکے ہیں۔

 سرجن نے آنکھیں کھولیں اور بنا ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں اتنا کچھ ہونے کے بعد اب نیند کہاں آنے والی ہے میں ٹھیک ہوں یہاں اور آپ لوگ بھی جا کر کچھ دیر آرام کر لیں پھر اچانک سرجن نے ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور ہاں ثاقب جاتے ہوئے ایک بار اسمہ کو ضرور دیکھتے جانا ۔ سرجن کی یہ بات سن کر ڈاکٹر ثاقب نے کہا جی جی سر میں بھی یہی سوچ رہا تھا میں جاتا ہوں اسے دیکھنے یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب نے سعید سے کہا آجائیں سعید صاحب ۔ ڈاکٹر ثاقب کی یہ بات سن کر سعید ابھی اٹھا ہی تھا کہ سرجن نے پھر سے ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھا اور بولا آپ چلیں سعید صاحب آتے ہیں یہ سنتے ہی سعید سرجن کی طرف دیکھنے لگا پھر سرجن نے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ صوفے کے سائیڈ تھپتھپاتے ہوئے سعید کو بیٹھنے کا اشارہ کیا سعید نے حیرانی سے پہلے ڈاکٹر ثاقب کی طرف دیکھا اور پھر سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے پاس بیٹھ گیا ۔

 یہ دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب نے سرجن سے کہا ٹھیک ہے سر میں اسمہ کو دیکھنے جا رہا ہوں یہ کہنے کے بعد ڈاکٹر ثاقب چلا گیا پھر سرجن نے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سعید صاحب اچانک میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے میں نے سوچا کیوں نا وہ بات آپ سے پوچھ لوں اگر آپ کو برا نا لگے تو ؟؟ سعید نے حیرانی سے کہا جی جی ڈاکٹر صاحب پوچھیں ؟؟ سرجن نے کہا کیا واقعی آپ کو پورا یقین ہے کہ جلال الدین صاحب اس معاملے کو حل کرنے میں آپ کی کوئی مدد کر سکیں گے؟؟ سعید نے کہا جی ڈاکٹر صاحب وہ بہت زیادہ علم رکھنے والے نیک دل انسان ہیں اور میرا یقین یہ بھی کہتا ہے کہ اگر آپ ایک بار ان کو دیکھ لیں گے تو آپ کو بھی پتا چل جائے گا کہ وہ واقعی میں ایک قابل تعریف انسان ہیں لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ کو ان کی قابلیت پر کوئی شک و شبہ ہے ؟؟ 

سرجن نے کہا سعید صاحب شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کی قابلیت پر شبہ ہو رہا ہے لیکن اس کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ جب اسمہ کی حالت اس قدر بگڑ گئی تھی تو جلال الدین صاحب نے کبھی اس پر غور کیوں نہیں کیا ؟؟ میرا مطلب ہے کہ جیسا آپ نے مجھے ان کے اور ان کے علم کے بارے میں بتایا اس لحاظ سے تو ان کو خود ہی معلوم ہو جانا چاہئیے تھا کہ اسمہ کے ساتھ کچھ تو غلط ہو رہا ہے کیونکہ جب وہ لوگ آپ سے ملنے آتے ہوں گے یاں آپ ان سے ملنے جاتے ہونگے تو انہوں نے کبھی اسمہ کی حالت کو ٹھیک سے دیکھا نہیں تھا ؟؟ میرے حساب سے انہیں کچھ نہ کچھ تو محسوس ہو جانا چاہئیے تھا ؟؟ سرجن کی یہ بات سنتے ہی سعید نے کہا ڈاکٹر صاحب اگر وہ دیکھتے تو تب ہی محسوس کرتے نا ؟؟ سعید کی یہ بات سن کر سرجن چونک کر بولا کیا۔۔۔۔؟؟

 میں سمجھا نہیں ؟؟ سعید نے کہا ڈاکٹر صاحب جب سے میری شادی ہوئی ہے تب سے آج تک میں ان سے دوبارہ کبھی ملا نہیں لیکن ایک بار میں وہاں سے گزر رہا تھا تو میں ان سے ملنے گیا تھا لیکن تب وہ لوگ گھر نہیں تھے کہیں گئے ہوئے تھے کیونکہ ایک آدمی جو کہ دربار میں جلال الدین صاحب کی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا اس نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ شہر سے کہیں باہر گئے ہوئے ہیں تو اس کے بعد میں وہاں سے واپس گھر آگیا تھا لیکن پھر میں نے فون پر ان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ جلال الدین صاحب کے کسی دوست کی بیٹی کی شادی پر ہیں جب وہ وہاں سے واپس آئیں گے تو ہماری طرف ضرور آئیں گے ۔ لیکن کافی دن گزر گئے پر وہ لوگ نہیں آئے بس فون پر بات کر لیتے تھے اکثر اسمہ اپنے والد ۔ والدہ اور بہنوں سے بات کیا کرتی تھی لیکن جب بھی ہم ان سے ملنے کا کہتے تو وہ کوئی نا کوئی بہانا بنا دیا کرتے تھے ۔لیکن اس کی وجہ میں کبھی جان نہیں پایا پھر میں سمجھا کہ شاید اپنے کام کی وجہ سے مصروف رہتے ہیں اس وجہ سے مل نہیں پاتے ۔اور جہاں تک مجھے یاد ہے جب کبھی ہم ان سے ملنے کے لیئے جانے کا کوئی پروگرام بناتے کچھ نا کچھ ایسا ہو جاتا تھا کہ ہماری ان سے ملاقات ہی نہیں ہو پاتی تھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان سے ملنا شاید قسمت کو منظور نہیں ہے۔

۔ اور ایک بات جب سے اسمہ ماں بننے والی تھی تب سے تو ان لوگوں نے فون کرنا بھی چھوڑ دیا تھا پہلے تو ثمینہ کو وہ لوگ فون کر کے اسمہ سے بات وغیرہ کر لیا کرتے تھے لیکن اب تو ان کا فون وغیرہ بھی نہیں آتا ہے ۔ سعید کی یہ بات سن کر سرجن نے حیرانی سے پوچھا کیوں۔۔۔؟؟ اس کی کیا وجہ ہے سعید صاحب؟؟؟ سعید نے معصومیت سے کہا پتا نہیں ڈاکٹر صاحب پہلے تو اسمہ یا ثمینہ سے مجھے پتہ چل جاتا تھا کہ ان کی بات ہوئی ہے اسمہ کے گھر والوں سے لیکن اب تو بہت مہینے ہو چکے ہیں ان کا فون آئے ہوئے ۔ سرجن نے کہا تو آپ نے ان کو خود فون کر کے پوچھ لینا تھا کہ ایسا کیوں ہے ؟؟ سعید نے کہا جی میں کبھی کبھی خود بھی آفس میں فارغ وقت پر ان کو کرتا تھا لیکن جب بھی فون کیا وہ کہیں نا کہیں مصروف ہوتے تھے یا وہ مجھ سے کہتے کہ ہم ذرا گھر کے کاموں میں بیزی ہیں کچھ دیر کے بعد ہم خود فون کر لیں گے تو میں ان سے جی ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیتا تھا اس کے بعد میں بھی اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا تھا بس ایک دو مرتبہ جلال الدین صاحب سے بات ہوئی تھی وہ بھی بس حال چال پوچھ کر کوئی نا کوئی بہانا بنا کر فون بند کردیا کرتے تھے ایسا لگنے لگا تھا کہ جیسے اچانک وہ مجھے کوئی غیر سمجھنے لگ گئے تھے۔ اس بارے میں میں نے ایک دو بار اسمہ سے بھی بات کی پر وہ بولی کہ مجھے کچھ معلوم نہیں اور کافی دن سے میری بھی بات نہیں ہوئی امی ابو کے ساتھ اور اب تو وہ فون بھی نہیں کرتے ۔۔ سرجن نے کہا تو کیا اب آپ کو ان کی مدد کی ضرورت پڑے گی تو کیا وہ آئیں گے ؟؟ سعید نے کہا پتا نہیں پر مجھے جلال الدین صاحب پر یقین ہے کہ وہ میری مدد ضرور کریں گے ۔ سرجن نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو لیکن آپ کی ان سے اچانک بات چیت بند جانے کی کوئی تو وجہ ضرور رہی ہو گی ورنہ کوئی ایسے کسی اپنے سے قطع تعلق کیسے کر سکتا ہے ؟؟۔ سعید نے کہا جی جی کوئی تو بات ہو گی لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا وہ کیا وجہ ہے مجھے بالکل نہیں پتا ورنہ وہ لوگ تو ایسے کبھی نہیں تھے اور پھر کچھ میں نے بھی کبھی ان کو زیادہ مجبور نہیں کیا کہ میں ان سے اس بارے میں کوئی زیادہ سوال جواب کر سکوں کیونکہ میرا ان سے رشتہ بھی کچھ ایسا ہے کہ میں ان پر کوئی زور نہیں دے سکتا پھر اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے آفس کے کاموں میں بھی اس قدر الجھا رہا کہ اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ کبھی ان سے اس بارے میں تفصیل سے بات کر سکوں پھر بچے کا باپ بننے کی خوشی میں ہی اس قدر کھو گیا کہ مجھے کسی کی کوئی پرواہ ہی نہیں رہی مجھے لگتا تھا کہ بس اب کچھ بھی غلط نہیں ہو سکتا میرے ساتھ بس میں اسی خوش فہمی میں مبتلا رہتا تھا اور اپنے کاموں میں مگن رہنے لگا تھا یہاں تک کہ میں اسمہ کے گھر والوں کو یہ بھی نہیں بتا سکا کہ اسمہ ماں بننے والی ہے حالانکہ اسمہ مجھے اکثر کہتی تھی کہ میں اس بارے میں ان کو بتا دوں پر میں نہیں بتا سکا یہ سب میری ہی غلطی ہے اب میں کیا اور کیسے کہوں گا ان سے ۔ سرجن نے کہا سعید صاحب مجھے لگتا ہے کہ اب آپ کو ان سے اس مسلے پر بات ضرور کرنی چاہیے یہ کام کاج کاروبار یہ نوکریاں تو چلتی ہی رہتی ہیں لیکن انسان کو کچھ وقت اپنے رشتوں کو بھی دینا ضروری ہوتا ہے ورنہ کام کاج تو انسان سمبھال ہی لیتا ہے مگر رشتے بکھر جائیں تو جلدی سنبھلتے نہیں ہیں ۔ سعید نے افسردہ حالت میں کہا جی ڈاکٹر صاحب آپ نے واقعی میں ایک درست بات کی ہے میں نے اگر ان رشتوں کو اپنا تھوڑا سا وقت بھی دیا ہوتا تو شاید آج میں اس پریشانی میں نا ہوتا نا ہی اسمہ کی یہ حالت ہوتی اور آج میرا بچہ بھی ذندا ہوتا ۔ یہ کہتے ہوئے سعید کی آنکھوں میں پھر سے آنسوں آگئے اور وہ خود کو کوستے ہوئے رونے لگا ۔ سعید کو پھر سے روتے دیکھ کر سرجن نے سعید کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا سعید صاحب میں جانتا ہوں آپ کا غم بہت بڑا ہے لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب آپ کو اسمہ کا خیال رکھنا ہے اور اسے اس شیطانی چیز سے بچانا ہوگا اور اس کے لیئے آپ کو مظبوط ہونا ہوگا ۔ سرجن کی یہ بات سن کر سعید نے کہا ڈاکٹر صاحب میں کیا مظبوط ہوؤں گا اب تو میں ریت کی طرح ریزا ریزا ہو چکا ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے سعید پھر سے رونے لگا ابھی سرجن سعید کو دلاسہ دے رہا تھا کہ اچانک ڈاکٹر ثاقب بھاگتے ہوئے آیا اور سرجن کی طرف دیکھتے ہوئے بولا سر جلدی چلیں میرے ساتھ وہ اسمہ ۔۔۔ آپ جلدی چلیں ۔۔ ڈاکٹر ثاقب کی یہ بات سنتے ہی سرجن جلدی سے اٹھا اور ڈاکٹر ثاقب سے کہنے لگا اب کیا ہوا ؟؟ ڈاکٹر ثاقب نے کہا سر اسمہ کی حالت بہت خراب ہے چلیں جلدی ۔ یہ سنتے ہی سعید نے جلدی سے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا کہا ہوا میری بیوی کو ؟؟ ڈاکٹر ثاقب نے کہا آپ چلیئے تو ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب سرجن کے ساتھ اسمہ کو دیکھنے چلا گیا اور ان کے پیچھے سعید بھی چلا گیا اور جب سرجن ڈاکٹر ثاقب اور سعید کے ساتھ اسمہ کے وارڈ میں پہنچا تو دیکھا کہ اسمہ نے اس کے پاس کھڑی ہوئی نرس کے بال پکڑے ہوئے تھے اور گارڈز اسمہ کے ہاتھوں سے نرس کے بال چھڑانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے اس دوران نرس درد سے چینخ رہی تھی سرجن نے ڈاکٹر ثاقب سے کہا جلدی سے اسے انجیکشن دو ۔۔ ڈاکٹر ثاقب نے کہا سر ہم نے پہلے ہی بیہوشی کے دو انجیکشن دے دیئے ہیں لیکن اسمہ پر ان انجیکشنس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ۔ یہ سنتے ہی سرجن نے حیرانی سے کہا کیا ۔۔۔۔؟؟ دو انجیکشنس کا بھی کوئی اپر نہیں ہوا ؟؟ ڈاکٹر ثاقب نے کہا جی سر ۔۔ اتنے میں سعید نے کہا ڈاکٹر تو ایک اور لگا دیں شاید کام کر جائے ؟؟ جس پر سرجن نے کہا نہیں سعید صاحب ہم ایسا نہیں کر سکتے اگر ہم نے اسے تیسرا انجیکشن لگایا تو یہ مر بھی سکتی ہے یہ کہتے ہوئے سرجن جلدی سے اسمہ کی طرف بڑھا اور گارڈز کے ساتھ مل کر اسمہ کے ہاتھوں سے نرس کے بال چھڑانے لگا یہ دیکھتے ہوئے سعید بھی اسمہ کے پاس گیا اور سعید نے اسمہ کو آوازیں دیتے ہوئے اس کو پکڑ کر کہنے لگا اسمہ چھوڑو اسے پلیز چھوڑو ابھی سعید یہ بول ہی رہا تھا کہ اچانک اسمہ کو ایک جھٹکا سا لگا اور اس نے نرس کے بال چھوڑ دیئے پھر سے یکدم بیہوش ہو گر گئی یہ دیکھتے ہوئے سرجن نے گارڈز سے کہا جلدی اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دو یہ سنتے ہی گارڈز نے جلدی سے اسمہ کے ہاتھ پاؤں کو باندھ دیا پھر سرجن نے کہا لگتا ہے کہ اب اثر ہوا ہے انجیکشنس کا ۔ اب اسے آرام کرنے دو لیکن اب کوئی بھی اس کو نہیں کھولے گا جب تک یہ پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوتی ۔ اس دوران نرس نے روتے ہوئے سرجن سے کہا ڈاکٹر صاحب پلیز اب میں اسمہ کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی آپ اس کے پاس کسی اور کی ڈیوٹی لگا دیں مجھے اب اس سے بہت ڈر لگنے لگا ہے یہ کہہ رہی تھی کہ مجھے مار دے گی اس کی آواز بھی بدلی ہوئی تھی ڈاکٹر صاحب یہ واقعی میں کوئی لڑکی نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہے ۔ نرس کی یہ بات سنتے ہوئے سرجن نے نرس سے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ ہم لوگ ہیں اس کے پاس ۔ پھر ڈاکٹر ثاقب نے گارڈز سے کہا تم لوگ بھی جاؤ اور سنو۔۔! دروازے پر ہی رہنا کبھی بھی تمہاری ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ پھر گارڈز کے جانے کے بعد سرجن نے ڈاکٹر ثاقب سے کہا یہ پھر سے کیسے ہو گیا تم نے تو کہا تھا وہ نارمل ہو چکی ہے ؟؟ ڈاکٹر ثاقب نے کہا پتا نہیں سر میں جب اس کے پاس آیا تو یہ بیٹھی روتی ہوئی نرس سے باتیں کر رہی تھی میں نے اس سے اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہاں میرا بچہ کہاں ہے ؟؟ مجھے کچھ اچھا نہیں لگ یہ کہتے ہوئے یہ لیٹ گئی اتنے میں نرس اس کے پیٹ پر چادر ڈالنے لگی تو پھر اچانک پتا نہیں کیا ہوا یہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس سے پہلے ہمیں کچھ سمجھ میں آتا اس نے نرس کے بال پکڑ لیئے اور عجیب عجیب سی آواز میں غراتے ہوئے اس کے بال کھینچنے لگی میں نے اس کو روکنا چاہا پر اس نے مجھے ایسا دھکا مارا کہ میں چار پانچ فٹ پیچھے جا کر گرا ایسا لگ رہا تھا کہ اچانک اس میں بہت طاقت آگئی ہے وہ تو شکر ہے گارڈز دروازے تھے میں نے ان کو بلایا اور انھوں نے اس کو پکڑ لیا پھر میں نے اسے بیہوش کرنے کے لیئے انجیکشن دیا لیکن اس کو کوئی فرق نہیں پڑا پھر کچھ دیر میں میں نے دوسرا انجیکشن بھی لگا دیا لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا پھر اسی دوران میں جا کر آپ کو بلا لایا ۔ ڈاکٹر ثاقب کی یہ بات سن کر سرجن نے کہا سہی اس کا مطلب ہے کہ اسمہ کے اندر وہ چیز آگئی ہو گی جس کی وجہ سے اچانک اس کی طاقت مذید بڑھ گئی تھی ۔ اس دوران سعید اسمہ کے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے روتا ہوا کہا رہا تھا یہ سب میرا قصور ہے اسمہ ۔ میں نے واقعی میں جلال الدین صاحب کی بات کو سچ کر دیا انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ انہیں میری آنکھوں میں تمہارے لیئے لاپرواہی نظر آرہی ہے ۔ اور وہ کہہ یہ بھی رہے تھے کہ میں تمہارا خیال نہیں رکھ پاؤں گا اور دیکھو آج ان کی بات سچ ثابت ہو گئ ۔۔ میں واقعی میں بہت برا ہوں اس دنیا کا سب سے برا انسان میں ہوں مجھے معاف کر دو اسمہ مجھے معاف کر دو ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے سعید ظاروقطار رونے لگا ۔ اس دوران سرجن نے ڈاکٹر ثاقب کو اشارے سے سعید کو دلاسہ دینے کو کہا اور کچھ دیر کے دلاسے کے بعد ڈاکٹر ثاقب نے سعید کو سنبھال لیا ۔ پھر سرجن نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا ارے یار آج کی رات بہت لمبی ہو گئ ہے پتا نہیں کب یہ رات ختم ہو گی ۔ سعید نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کہتے ہیں تو میں جلال الدین صاحب کو ابھی فون کر لیتا ہوں اب تو مجھ سے بھی برداشت نہیں ہو رہا ۔ سرجن نے کہا ارے نہیں نہیں کچھ دیر تو رہ گئی ہے تھوڑی دیر انتظار کر لیتے ہیں تب تک تو وہ فجر کی نماز کے لیئے جاگ جائیں گے پھر آپ ان کو فون کر دیجیئے گا ۔ ویسے بھی اس بات کی کوئی خاص گارنٹی تو ہے نہیں کہ وہ فوراً یہاں آجائیں گے یا پھر اس معاملے کو فوراً حل کر دیں گے میرا مطلب ہے کہ اگر وہ آبھی گئے تو میرا نہیں خیال کہ وہ اس مسلے کو فورآ ہل کر سکتے ہوں گے آخر کار انہیں اس معاملے کو سمجھنے میں کچھ تو وقت لگے گا ؟؟ سعید نے کہا ڈاکٹر صاحب جو میں نے ان میں دیکھا ہے وہ آپ نے نہیں دیکھا اس لیئے آپ ایسا کہہ رہے ہیں لیکن پھر بھی میں آپ کی بات کا برا نہیں مناتا کیونکہ مجھے ان پر پورا یقین ہے کہ وہ ضرور آئیں گے اور اس معاملے کو حل کریں گے انشاء اللّٰہ ۔۔یہ سنتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب اور سرجن نے بھی کہا انشاء اللّٰہ ۔۔ ابھی سرجن اور سعید یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک سے کمرے میں کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی جیسے سن کر سب ادھر اُدھر دیکھنے لگے پھر سعید نے سرجن اور ڈاکٹر ثاقب کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے اپنی انگلی کو اپنے ہونٹوں سے لگا کر سرجن اور ڈاکٹر ثاقب کو چپ رہنے کا کہا جس پر ڈاکٹر ثاقب اور سرجن نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلایا اور پھر سب آرام سے سب کبھی اپنے دائیں بائیں اور پھر چھت کے چاروں طرف دیکھنے لگے ۔ کہ اتنے میں پھر سے کسی کے ہنسنے کی آواز ڈاکٹر ثاقب کے پیچھے سے آئی جسے سنتے ہی ڈاکٹر ثاقب کا پورا جسم ڈر سے لرز گیا اور ڈاکٹر ثاقب نے کانپتے ہوئے دھیرے سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے پیچھے کوئی نہیں تھا اتنے میں سرجن کو محسوس ہوا کہ اس کے کان کے قریب کوئی لمبے لمبے سانس لے رہا ہے جس کی وجہ سے سرجن کو لگا کہ شاید وہ چیز سرجن کے بالکل پاس ہی کھڑی ہے سرجن نے سعید اور ڈاکٹر ثاقب کو آواز دینی چاہی پر اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی اس دوران ڈاکٹر ثاقب اور سعید ڈرے ہوئے چھت کی طرف ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ سے چلتے ہوئے اسمہ کے بیڈ کے قریب جا رہے تھے اور جب ڈاکٹر ثاقب اسمہ کے بیڈ سے دو قدم ہی دور تھا کہ اچانک ڈاکٹر ثاقب کو لگا کہ اس کی ٹانگیں ہل نہیں رہیں اور اس کی ٹانگوں پر چھبن سی ہونے لگی اسی وقت جب ڈاکٹر ثاقب نے اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھا تو اسمہ کے بیڈ کے نیچے سے دو خوفناک سے ہاتھ باہر نکلے ہوئے تھے جنہوں نے ڈاکٹر ثاقب کی ٹانگوں کو پکڑ رکھا تھا یہ دیکھتے ہی ڈاکٹر ثاقب نے چیخ کر کہا وہ بیڈ کے نیچے ہے اسی دوران ان خوفناک ہاتھوں نے ڈاکٹر ثاقب کی ٹانگوں کو تیزی سے کھینچ دیا جس سے ڈاکٹر ثاقب بری طرح گرا اور اس کا آدھا حصہ بیڈ کے نیچے چلا گیا اسی دوران سعید نے دوڑ کر ڈاکٹر ثاقب کو قمر سے پکڑ کر بیڈ کے نیچے سے باہر نکالنے لگا تو دوران ڈاکٹر ثاقب میری ٹانگیں میری ٹانگیں کرتا ہوا چلا رہا تھا لیکن جب سعید نے ڈاکٹر ثاقب کو بیڈ کے نیچے سے نکالا تو اس کی ٹانگیں بری طرح سے زخمی ہو چکی تھیں اور ان میں سے خون بہہ رہا تھا اسی دوران سعید نے سرجن کی طرف دیکھا تو سرجن وہیں ایک جگہ ساکت کھڑا ہوا ان کو دیکھ رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اچانک سے زمین پر گر گیا اسی دوران سعید کہ ہوش اڑ گئے کیونکہ سرجن کے پیچھے ایک خوفناک شکل والی عورت کھڑی تھی جس کی شکل بہت عجیب لگ رہی تھی اور اس کے ہاتھ پاؤں بہت ہی خطرناک کسی جنگلی ریچھ کی طرح لگ رہے تھے اور وہ سعید کی طرف دیکھ کر ہنس رہی تھی اور ہنستے ہوئے اس نے اپنی لمبے سے ناخن والی انگلی اسمہ کی طرف کی سعید نے کانپتی ہوئی گردن سے اسمہ کی طرف دیکھا تو اسمہ بھی ڈراونی سی شکل بنا غراتے ہوئے اپنے ہاتھوں پاؤں کی رسیوں کو توڑنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اتنے میں وارڈ کے دروازے پر تیزی دستک ہونے لگی سعید نے ڈرتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا تو ایک دم جھٹ سے دروازا کھلا اور تین چار گارڈز کمرے میں آکر گرے اور جلدی سے اٹھنے لگے اسی دوران وہ خوفناک عورت کہیں غائب ہو گئی سعید نے جلدی سے سرجن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گارڈز سے کہا ان کو دیکھو گارڈز نے جلدی سے سرجن کو اٹھایا اور اسے وارڈز سے باہر لے گئے اسی دوران سعید نے اسمہ کی طرف دیکھا تو اسمہ پہلے کی طرح بیہوش پڑی تھی پھر دو گارڈز سٹریچر لے کر بھاگتے ہوئے وارڈ میں داخل ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ سعید ڈاکٹر ثاقب کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا گارڈز نے فوراً سعید کی مدد سے ڈاکٹر ثاقب کو اٹھا کر سٹریچر پر ڈالا اور اسے بھی وارڈ سے باہر لے گئے اور سعید وارڈ کے دروازے پر کھڑا ہوا کبھی اسمہ کی طرف دیکھا تو کبھی جاتے ہوئے گارڈز کو دیکھتا رہا اتنے باقی کے گارڈز سرجن کو چھوڑ کر سعید کے پاس آئے اور انہوں نے سعید سے پوچھا سر کیا آپ ٹھیک ہیں ؟؟ سعید نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ پھر سعید نے ایک گارڈ سے پوچھا سرجن صاحب کیسے ہیں ؟؟ گارڈ نے کہا پتا نہیں وہ تو بیہوش ہیں ڈاکٹر شہباز صاحب ان کو دیکھ رہے ہیں ۔پھر ایک گارڈ نے سعید سے پوچھا سر ویسے ہوا کیا تھا اندر؟؟ کیا وہ لیڈی کے اندر پھر سے جن آگئے تھے ؟؟ سعید نے کہا معلوم نہیں پر تم لوگ کہاں تھے ؟؟ ڈاکٹر ثاقب اتنا چیخ چلا رہے تھے لیکن تم لوگ نہیں آئے ۔ سعید کی یہ بات سن کر گارڈ نے کہا سر ہم تو اسی وقت اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے پر دروازا ہی نہیں کھل رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ دروازا اندر سے بند ہے اسی لیئے ہم سب نے دھکا مار کر دروازا کھولا تھا ۔ اتنے باقی کے دو گارڈز بھی ڈاکٹر ثاقب کو چھوڑ کر واپس آگئے ۔ پھر سعید نے ان گارڈز سے ڈاکٹر ثاقب کے بارے میں پوچھا تو گارڈز نے کہا وہ ٹھیک ہیں بس ان کی ٹانگوں پر گہرے زخم ہیں ان کا بھی علاج ہو رہا ہے ۔ اتنے میں ایک وارڈ بوائے کہیں سے بھاگتا ہوا آیا اور گارڈز سے کہنے لگا وہاں پر کوئی عورت مردہ خانے میں گئ ہے اسے پکڑو جا کر۔۔۔ تو ایک گارڈ نے باقی گارڈز سے کہا تم لوگ جا کر دیکھو اسے کون ہے وہ عورت ۔میں یہاں رہتا ہوں ان کے ساتھ ۔ یہ سنتے ہی باقی گارڈز وارڈ بوائے کے ساتھ مردہ خانے کی طرف چلے گئے اور ایک گارڈ سعید کے پاس ہی کھڑا رہا۔ 

۔ اتنے میں سعید کی نظر سرجن پر پڑی جو کہ کسی دوسرے ڈاکٹر اور دو نرسوں کے ساتھ سعید کی طرف تیزی سے آرہا تھا اس دوران وہ سرجن کے ساتھ والا ڈاکٹر سرجن سے کہتا ہوا آرہا تھا کہ سر آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ پہلے تھوڑا آرام کر لیں لیکن سرجن سعید کی طرف بڑھتا ہوا اسے کہہ رہا تھا نہیں آپ جائیں شہباز صاحب میں ٹھیک ہوں۔ پھر سرجن نے سعید کے پاس آتے ہی اس سے پوچھا آپ ٹھیک تو ہیں سعید صاحب؟؟ آپ کو کچھ ہوا تو نہیں ؟؟ سعید نے کہا جی میں ٹھیک ہوں اس دوران ڈاکٹر شہباز نے سرجن سے پھر کہا سر آپ کو آرام کرنا چاہیئے میں یہ کیس دیکھ لیتا ہوں آپ کی طبیعت مزید بگڑ سکتی ہے سر ؟؟ سرجن نے کہا شہباز صاحب میں نے آپ سے کہا نا میں بالکل ٹھیک ہوں آپ جا کر ثاقب کو دیکھیں پلیز شہباز صاحب ۔۔ یہ میری ریکوئسٹ ہے آپ سے ؟؟ سرجن کی یہ بات سنتے ہی ڈاکٹر شہباز نے کہا جی ٹھیک ہے سر جیسے آپ کی مرضی پھر جاتے ہوئے ڈاکٹر شہباز نے نرسوں سے کہا سر کا خیال رکھنا یہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہیں ابھی۔۔ نرسوں نے کہا جی ٹھیک ہے ہم ان کے ساتھ ہی ہیں ڈاکٹر شہباز کے جانے کے بعد سرجن نے نرسوں سے کہا آپ دونوں سعید صاحب کی وائف کے ساتھ رہیں وہ سائیکو پیشنٹ ہیں اس لیئے کچھ بھی ہو جائے ان کے ہاتھ پاؤں مت کھولنا نرسوں نے کہا لیکن سر ڈاکٹر شہباز نے ہماری ڈیوٹی آپ کے ساتھ لگائی ہے ۔اس پر سرجن نے کہا ۔۔ میں نے آپ سے کہا نا آپ سعید صاحب کی وائف کے ساتھ رہیں اس لیئے جتنا آپ لوگوں سے کہا اتنا ہی کریں باقی میں دیکھ لوں گا ۔ سرجن کی بات پر نرسوں نے کہا ٹھیک ہے سر۔۔۔ یہ کہنے کے بعد نرسیں اسمہ کے وارڈ میں جا کر بیٹھ گئیں پھر سرجن نے گارڈ سے کہا یہاں سے ہلنا مت گارڈ نے کہا جی جی سر۔ پھر سرجن نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر گارڈ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تم اکیلے کیوں ہو ؟؟ اور تمہارے باقی ساتھی کہاں ہیں ؟؟ گارڈ نے کہا سر وہ کوئی عورت مردہ خانے میں گھس گئی ہے وہ لوگ اس کے پیچھے گئے ہیں ۔۔
جاری ہے ۔۔۔

بغص کی آگ (آخری قسط نمبر 11)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے