ہجر کی پہلی فجر۔ دوسرا حصہ

 hindi moral stories

 ہجر کی پہلی فجر۔ دوسرا حصہ

ایک تیز رفتار گاڑی غلط سمت سے آئی اور بائک سے بری طرح ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں بائک الٹ گئی اور بائک سوار دور جا گرا جبکہ گاڑی کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا تھا۔ چند لمحوں میں ہی سڑک پرلوگوں کا رش جمع ہونے لگا تھا۔ کچھ لوگ بائک سوار کو اٹھنے میں مدد دے رہے تھے جس کے گھٹنے اور بازؤوں پر چوٹیں آئی تھیں جبکہ کچھ لوگ بےحسی سے اس تمام منظر کی ویڈیو بنانے میں مصروف ہوگئے تھے۔ احد بھی اچک کر لوگوں کے ہجوم میں سے بائک سوار کی حالت دیکھنے لگا تھا جب کسی کا ٹھنڈا برف جیسا ہاتھ اس کی گرفت میں آیا تھا۔ اس نے ایک دم سے گردن گھما کر فاطمہ کو دیکھا تھا۔ فاطمہ سن کھڑی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سڑک کی جانب دیکھ رہی تھی۔ احد ایک دم سے کھٹک گیا۔ کچھ گڑبڑ تھی۔ فاطمہ اسے بلکل بھی نارمل نہیں لگ رہی تھی۔

"فاطمہ آر یو اوکے؟" وہ بے حد تشویش کے عالم میں کھڑا اس سے پوچھ رہا تھا مگر فاطمہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ چند لمحے یوں ہی مجسمے کی طرح ساکت کھڑی رہی اور پھر اچانک اسے اس کی بے حد ہلکی آواز میں بڑبڑاہٹ سنائی دی جو کہ واضح نہ تھی۔ اس نے اس کے قریب ہو کر سننے کی کوشش کی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔

" بائیک پر عمر تھا ناں۔ عمر مر جائے گا۔ عمر مر گیا۔"
احد کو اس کی بڑبڑاہٹ سمجھ آتے ہی ایک جھٹکا لگا تھا۔ اسے کیا ہوگیا تھا ایک دم سے؟ وہ کیوں ایسے کہہ رہی تھی جبکہ وہ جانتی تھی عمر سات ماہ پہلے ہی گزر چکا ہے؟

"احد! عمر مر جائے گا۔ جائو ناں اسے دیکھو ناں۔" ایک دم سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔

" جائو ناں احد۔ جائو ناں۔" وہ اب روتے ہوئے باقاعده اس کی منتیں کرتے ہوئے اس کا بازو پکڑ کر اسے بائیک سوار کے پاس جانے کا کہہ رہی تھی۔
"فاطمہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ وہ عمر نہیں ہے۔ عمر مر چکا ہے۔ وہ کوئی اور۔۔۔۔۔"
"نہیں وہ عمر ہی ہے۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں آپ جائیں اس کے پاس۔" وہ درمیان میں اس کی بات کاٹتے ہوئے اب کے ذرا تیز آواز میں بولی تھی جس پر احد بھی کچھ خفا سا ہوگیا۔

اس نے بھی اپنے لہجے کو ذرا سخت کر کے کہنا شروع کیا۔ "دیکھو فاطمہ….."
"آپ۔جائیں۔۔۔۔۔ جائیں۔۔۔ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جائیں" وہ اس کی بات ایک بار پھر کاٹ کر اب کے وحشیانہ انداز میں چیخنے لگی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس پر کوئی جنون سا سوار ہوگیا ہے۔ آس پاس کے لوگ بھی مڑ مڑ کر اسے دیکھنے لگے جو چیختے ہوئے احد کو دھکے دے کر بائیک سوار کے پاس بھیج رہی تھی۔ احد کے تو ہاتھ پائوں ہی پھول گئے تھے۔ اس سے فاطمہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ احد نے بڑی مشکل سے اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے دونوں کندھوں سے تھاما اور ایک دم سختی سے کہا۔

"فاطمہ ہوش کرو! کیا ہوگیا ہے؟ لوگ دیکھ رہے ہیں ہمیں۔" فاطمہ ایک دم سے چپ ہوئی تھی اور اسے ایک ٹک دیکھنے لگی۔ احد کو اس کا اس طرح دیکھنا خوف میں مبتلا کررہا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی کی طرف لے جانے لگا جب اچانک فاطمہ بےہوش ہو کر اس کےہاتھوں میں جھول گئی۔
احد شاک سے اسے کے بے ہوش وجود کو دیکھتا تیزی سے ہسپتال کی جانب روانہ ہوا تھا۔

"آپ کی وائف کا نروس بریک ڈائون ہوا ہے۔ آپ دعا کریں انہیں چوبیس گھنٹے کے اندر ہوش آجائے ورنہ ان کے کوما میں جانے کا خدشہ بھی ہوسکتا ہے۔"
ڈاکٹر کی بات سن کر احد کی پریشانی حد سے سوا ہوچکی تھی۔ وہ ایک بار پھر شدید اضطراب کے عالم میں ہسپتال کی راہداری ک کے چکر کاٹنے لگا۔
فاطمہ کے والدین اور احد کی خالہ (نجمہ خالہ) اس کی حالت کا سنتے ہی آناً فاناً ہسپتال پہنچے تھے اور اب ڈاکٹر کی بات سن کر بے اختیار ہی اس کی والدہ رونے لگی تھیں۔ نجمہ خالہ ان کے برابر بنچ پر آ بیٹھیں اور ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینے لگیں۔

"اپ تسلی رکھیں۔ اللہ بڑا مہربان ہے۔ وہ سب بہتر کردے گا انشاءاللہ۔"
"نجانے کیسی آزمایش ہے میری بچی پر۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے شادی کو کہ بیوہ ہوگئی اور اب یہ۔۔۔" وہ بات کرتے کرتے ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ فاطمہ کے والد بھی سامنے رکھی کرسی پر بیٹھے بے حد پریشان لگتے تھے۔ یہ سب دیکھنا احد کے لئے کافی مشکل ہوگیا تھا۔ اسے لگا ایک بار پھر ماضی خود کو دوہرانے لگا تھا جب ہر آنکھ نم تھی اور ہر طرف دکھ کا سماں تھا۔ خود کو ان یادوں سے کچھ پل کے لئے آزاد کروانے اور اس منظر سے ہٹنے کے لئے وہ ہسپتال کی مسجد کی جانب چل دیا۔

مسجد میں داخل ہو کر اس نے صلواۃ الحاجات کے نوافل کی نیت باندھی اور پھر آنکھیں موند کر کچھ وقت کے لئے سب سوچوں کو ذہن سے جھٹک کر وہ اپنا دھیان نماز کی جانب لگانے لگا۔

سلام پھیر کر وہ چند پل یوں ہی جائے نماز پر بیٹھا رہا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ وہ یوں ہی نماز پڑھ کر چند منٹ جائے نماز پر بیٹھا رہتا اور پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا تھا۔ وہ جیسے خود کو اللہ سے ڈھیر ساری باتیں کرنے کے لئے تیار کرتا تھا۔
"یااللہ! میں ہر روز تجھ سے دعا کرتا ہوں۔ اور ہر روز میرے پاس تجھ سے باتیں کرنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ مگر آج میں بہت کنفیوز ہوگیا ہوں۔ اپنی دلی حالت پر پریشان بھی ہوں اور کچھ حیران بھی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا میں اتنا مضطرب کیوں ہوں۔ کیوں مجھے کسی پل چین نہیں آرہا؟ میں جانتا ہوں فاطمہ میری بیوی ہے اور بیوی کے لئے پریشان ہونا فطری ہے۔ مگر میرا دل ایسے کیوں تڑپ رہا ہے جیسے ہانیہ کے لئے تڑپتا تھا جب اس کی موت کی خبر آئی تھی۔ کیوں دل کی دھڑکن اس قدر تیز ہوگئی ہے؟ کیوں ایسا لگتا ہے جیسے دل خوف کے مارے پھٹنے کو ہے؟۔۔۔۔" وہ آنکھیں موندھے، سر جھکائے اللہ کو اپنے دل کا حال سنا رہا تھا۔
"اس کے ہونے یا نہ ہونے سے مجھے اس قدر فرق پڑنے لگا ہے؟ مگر کیسے؟ یہ کب ہوا؟ ابھی چند دن ہی تو ہوئے ہیں ہماری شادی کو۔ کیا تو نے نکاح کو بولوں میں اس قدر طاقت رکھی ہے یارب کہ میں اس سے محبت کرنے لگا ہوں اتنے کم وقت میں؟۔۔۔۔" وہ ایک بار پھر اپنی دلی کیفیت پر حیران ہوا تھا۔ کیا وہ واقعی اس سے محبت کرنے لگا تھا؟ کیا واقعی فاطمہ نے اس کی زندگی میں آکر اس کے دل کے زخموں پرمرہم رکھنا شروع کیا تھا۔ کیا واقعی وہ فاطمہ کو ہانیہ کی جگہ دے رہا تھا اپنے دل میں؟ نہیں! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ ہانیہ سے بے حد محبت کرتا ہے۔ وہ کیسے اس کی جگہ کسی اور کو دے سکتا ہے۔ مگر یہ ہو چکا تھا۔ ہانیہ کی محبت اس کے دل میں اب بھی قائم تھی مگر اب اس کے دل نے باآسانی دوسری محبت کی گنجائش بھی نکال لی تھی۔

وہ دعا مانگ کر اور کچھ تسبیحات پڑھ کر مسجد سے باہر نکل کر ایمرجنسی وارڈ کی سمت بڑھنے لگا جہاں دونوں خواتین تسبیح ہاتھ میں پکڑے فاطمہ کی صحت یابی کے لئے دعائیں کررہی تھیں جبکہ اس کے والد درود شریف کا ورد کررہے تھے.
"عمر کون ہے؟ پلیز عمر کو بھیجیں۔ آپ کی پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے اوروہ بار بار عمر کا نام لےرہی ہیں۔"

نرس نے ایمرجنسی وارڈ میں آتے ہی ان سب کو مخاطب کر کے کہا تھا۔ فاطمہ کے ہوش میں آنے کا سن کر ایک طمانیت کی لہر تھی جو سب کے دلوں ِسے گزری تھی مگر ساتھ ہی ساتھ نرس کی دوسری بات سن کر وہ سب ایک عجیب سی آکورڈ سچیویشن میں بھی آگئے تھے۔ احد نے ایک دم اب اپنے لب بھینچ لئے۔ اسے نجانے کیوں فاطمہ کا یوں عمر کا نام لینا بے حد برا لگا۔ اس کے ماتھے پر بڑھتے بل دیکھ کر جلدی سے فاطمہ کے والد کھڑے ہوئے اور نرس کو دھیمی آواز میں کچھ سمجھایا جس پر نرس فوراً اندر کی طرف چل دی۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر اندر داخل ہوا تھا۔

"پیشنٹ کے شوہر کون ہیں؟" احد فوراً آگے بڑھا تھا۔
"آپ میرے ساتھ آئیں۔ آپ سے کچھ بات کرنی ہے پیشنٹ کی کنڈیشن کے بارے میں۔"
وہ یہ کہتے ہوئے اسے اندر ایک کمرے میں لے گئے تھے جو غالباً ڈاکٹر کا پرائویٹ روم تھا وہ خود ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور اسے بھی سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

اس کے بیٹھتے ہی انہوں نے کہنا شروع کیا۔
"آپ کی وائف غالباً یک شدید ٹراما سے گزری ہیں جس کےاثرات اب تک ان کے ذہن میں موجود ہیں۔ بس اسی لئے ایک معمولی سا ایکسیڈنٹ دیکھنا بھی ان کی یہ حالت کر گیا کہ انہیں ڈپریشن کا شدید دورہ پڑا اور وہ نروس بریک ڈائون کا شکار ہو کر اپنے حواس کھو بیٹھیں۔" احد ڈاکٹر کی بات سن کر مزید پریشان ہوگیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا فاطمہ اب تک خود کو اس ٹراما سے باہر نکال نہیں پائی ہے جبکہ اس کی اپنی ذہنی حالت وقت کے ساتھ قدرے بہتر ہو چکی تھی۔

ڈاکٹر اب اس سے ماضی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں پوچھ رہے تھے جس پر وہ انہیں اس بدترین حادثہ کے بارے میں سب کچھ بتاتا چلا گیا۔
"مجھے بے حد افسوس ہورہا ہے یہ سب سن کر اور اب میں پیشنٹ کی ذہنی حالت کو بہتر طریقے سے جج کر پارہا ہوں۔" وہ اس کی بات سن کر تاسف سے کہہ رہے تھے۔
"تو ڈاکٹر اب ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟" احد کے لہجے سے فکرمندی صاف ظاھر ہورہی تھی ۔

"انہیں زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ کوشش کریں انہیں ایسی ہر چیز سے دور رکھا جائے جو انہیں ماضی کی یاد دلائے۔ اور ایک اور بات۔ میں جانتا ہوں یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے مگر جیسا کہ ابھی آپ نے بتایا کہ آپ دونوں کی شادی بھی اچانک ہوئی ہے تو ہوسکتا ہے وہ اس رشتے کو اب تک ذہنی طور پر قبول نہ کر پائی ہوں۔ ان کا بار بار عمر کا نام پکارنا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ اب تک اس چیز سے باہر نہیں نکل پائیں تو میرا آپ کو یہی مشورہ ہے کہ آپ لوگ انہیں کسی بھی ریلیشن شپ کے لئے فورس نہ کریں جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوجاتیں۔ باقی ظاھر ہے آگے آپ لوگوں کی جو مرضی۔" ڈاکٹر کی بات سن کر ایک دم سے اس کا رنگ فق ہوا تھا۔ اس نہج پر تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ آیا فاطمہ بھی اس رشتے کو قبول کیا ہے کہ نہیں۔ اس نے خود اس رشتے کو تسلیم کر لیا اور مطمئن ہوگیا۔ اس نے تو دوسرے فرد کے بارے میں سوچا ہی نہیں کہ وہ کیا محسوس کررہا ہے ۔ مگر اب جب وہ سوچ رہا تھا تو اس کا دل ڈوبے جارہا تھا۔ کیا واقعی فاطمہ اس رشتے کو قبول نہیں کر پائی؟ کیا واقعی وہ اس کا ساتھ نہیں چاہتی؟ اب کیا ہوگا؟ ابھی تو محبت کی کلی اس کے دل میں کھلی تھی۔ ابھی تو فاطمہ کی محبت کا انوکھا احساس اس کے دل میں جاگا تھا اور اب ایک دم ڈاکٹر کی باتوں نے جیسے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔
فاطمہ کیا فیصلہ کے گی وہ نہیں جانتا تھا مگر اب وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا!!

فاطمہ کو ہوش آگیا تھا اور اب اس نے عمر کا نام پکارنا بھی بند کر دیا تھا۔ وہ یوں ہی بستر پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی جب اس کی والدہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں۔ اس نے نظر گھما کر اپنی والدہ کو دیکھا تھا جو اس کی حالت دیکھ کر ایک دم رو پڑی تھیں۔ "کیسی پھول جیسی بچی تھی میری اور اب کیسے مرجھا سی گئی ہے۔" وہ اس کی آنکھوں کے گرد بڑھتے حلقوں کو چھوتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ ان کی بات پر بے اختیار ہی اس کے بھی آنسو بہہ نکلے۔
"امی آپ ایسے مت روئیں پلیز۔" وہ انہیں چپ کرواتے کرواتے خود بھی سسکیاں لے رہی تھی۔

"نہ بیٹا ناں۔ تو بھی مت رو۔" امی بمشکل خود پر ضبط کرتے ہوئے اب اس کے آنسو پونچھ رہی تھیں۔
"امی! مجھے پتا نہیں کیا ہوگیا تھا اس وقت۔۔۔۔۔" چند لمحے یوں ہی وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھی رہیں اور پھر اچانک فاطمہ نے کہنا شروع کیا۔
"مجھے ایسا لگا اس وقت بائیک پر عمر ہے۔ میرے سامنے عمر آگیا تھا اماں اور وہ میری نظروں کے سامنے موت کے منہ میں جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ میرا دل کیسے نہ تڑپتا۔ میں نے اس وقت جتنا خود کو بے بس محسوس کیا زندگی میں کبھی نہیں کیا۔ میرا دل چاہ رہا تھا میں احد کو دھکا دے کر اس کے پاس بھیج دوں تاکہ وہ اسے بچا لے۔ اس وقت مجھے یاد ہی نہیں رہا اماں کہ عمر اس وقت نہیں مررہا تھا بلکہ وہ مر چکا تھا۔ سات ماہ پہلے۔۔۔" بولتے بولتے ایک دم اس کی آواز رندھ گئی تھی اور وہ خاموش ہوگئی تھی۔ امی نے دیکھا وہ بے آواز رو رہی تھی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے گرتے ہوئے تکیے میں جذب ہونے لگے تھے۔
"بیٹا ایسا۔۔۔"

وہ ان کی بات کاٹ کر ایک بار پھر کہنا شروع ہوئی۔
"اماں۔۔۔" ان کے ہاتھ پر اس کی گرفت ذرا اور سخت ہوئی۔
"اماں وہ مجھے بہت یاد آتا ہے۔ میں کیا کروں اماں؟ وہ مجھے کیوں یاد آتا ہے اتنا؟ میں اکثر احد کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کاش اس شخص کا چہرہ بدل جائے اور ایک بار صرف ایک بار اس کی جگہ عمر سامنے آجائے تو میں اسے سینے سے لگا لوں اور اس سے پوچھوں کہ اپنی فاطمہ کو چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ اسے ایک آخری بار بتائوں کہ فاطمہ عمر اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نہ اس کے بغیر رہ سکتی ہے نہ کسی اور کے ساتھ۔۔۔ اور نہ۔۔۔" وہ بولتے بولتے ایک دم خاموش ہوئی تھی۔ اس کی نگاہ دروازے پر ایستادہ احد پر پڑی تھی جو سر جھکائے کھڑا شاید یہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ اسے مزید وہاں کھڑے رہنا چاہئیے یا خاموشی سے پلٹ جانا چاہیئے۔ اس کے خاموش ہونے پر اس نے ایک نظر بیڈ پر لیٹی فاطمہ کو دیکھا تھا جو شرمندگی سے نظریں جھکائے ہوئے تھی۔

اسے بیک وقت بیڈ پر دراز اپنی بیوی پر رحم بھی آیا اور اپںی زندگی پر ہنسی بھی۔ کیسی قسمت تھی دونوں کی۔ ایک طرف وہ اتنی پابند ہوگئی تھی کہ اب آزادی سے اپنے دکھ پر رو بھی نہیں سکتی تھی اور دوسری طرف وہ تھا جس کا رقیب اس کا اپنا جان سے پیارا بھائی تھا۔ فاطمہ کی والدہ جو اسے دیکھ کر بوکھلا گئی تھیں اسے باہر جاتا دیکھ کر ایک دم اس کے پیچھے لپکیں۔
فاطمہ نے ایک دم آنکھیں موند لیں۔ جو ہوا اسے اس پر کوئی خاص پچھتاوا نہ تھا۔ وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ احد سب کچھ اپنے کانوں سے سن لے کہ وہ اب بھی عمر کو یاد کرتی تھی اور احد کے ساتھ گزارا کرنا محض جبری تھا۔ وہ جانتی تھی اس طرح خود پر خول چڑھائے رکھ کر ساری زندگی نہیں کٹ سکتی تھی۔

"احد بیٹا! رکو میری بات سنو۔"
وہ جو باہر کی طرف بڑھ رہا تھا فاطمہ کہ والدہ کی آواز سن کر ایک دم رک گیا۔
اس کے رکنے پر وہ تیزی سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئیں۔
"دیکھو بیٹا! فاطمہ اپنے حواس میں نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے اس نے یہ سب ایسے ہی کہہ دیا ہے۔ تم بیٹا پلیز دل پر نہ لگانا بیٹا۔ میں اسے سمجھاوں گی۔ وہ آئیندہ ایسی بات منہ سے ہرگز نہیں نکالے گی۔"
وہ اسے بہلانے کے لئے کہہ رہی تھیں مگر احد بچہ نہیں تھا۔ وہ لہجوں کو بھی پہچانتا تھا اور لہجوں میں چھپے درد کو بھی۔ وہ۔جانتا تھا فاطمہ نے یہ بات اپنے پورے ہوش و حواس میں کہی ہے۔ وہ ان کی جھوٹی تسلیوں میں آکر خود کو دھوکا نہیں دے سکتا تھا۔

"نہیں آنٹی! آپ فاطمہ کو کچھ نہیں سمجھائیں گی۔ وہ جو فیصلہ کرے گی ہم اسے قبول کریں گے کیونکہ ابھی اس کی ذہنی حالت ایسی نہیں ہے کہ اس کو کسی بھی چیز کے لئے زبردستی کی جائے۔" وہ ان کو نرم مگر دو ٹوک انداز میں کہہ رہا تھا۔ اس کی بات کے آگے وہ بھی خاموش ہوگئیں۔ اس کا انداز ہی ایسا اٹل تھا کہ وہ آگے سے کچھ کہہ ہی نہ پائیں۔

احد نے یہ سب فاطمہ کی والدہ سے کہہ تو دیا تھا مگر اب دل ایک دم خالی سا ہوگیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ایک بار پھر سب لٹ گیا ہو۔ وہ جانتا تھا فاطمہ کیا فیصلہ کرے گی اور اس کا یہ فیصلہ اسے اندر سے توڑ رہا تھا۔ کیا واقعی وہ اسے چھوڑ کر چلی جائے گی؟ کیا واقعی عمر کی محبت اس طرح اس کے دل میں بستی ہے کہ وہ اسے تھوڑی سی بھی جگہ نہیں دے پاتی؟ اس نے بے اختیار ہی آنکھیں موند کر بینچ پرسر ٹکا لیا۔ ہسپتال کی راہداری میں اس وقت اس بینچ پر بیٹھے ہوئے وہ اپنے تاریک مستقبل۔کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کیا تھی اس کی زندگی سوائے اندھیرے کے؟ کیا اس کی زندگی میں کبھی مکمل خوشی پانا لکها تھا؟ کیا اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں کوئی محبت کی لکیر بھی تھی؟ وہ اس وقت بےحد اداس ، مایوسی کی انتہا پر پہنچا ہوا تھا۔

فاطمہ کی حالت اب سنبھل چکی تھی اور ڈاکٹرز نے اسے گھر جانے کی بھی اجازت دے دی تھی۔
"احد ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ پر بیٹھی اپنے بال سمیٹ رہی تھی۔ اس کی والدہ اس کے ساتھ ہی اس کا چھوٹا سا ہینڈ بیگ تھامے ہوئے تھیں جس میں اس کی ضرورت کا سامان تھا۔ احد کے اندر داخل ہونے پر اس نے اسے نظر اٹھا کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا وہ کب سے روتی رہی ہے۔ احد بے اختیار نظریں چرا گیا۔ نجانے کیوں اس کی روئی روئی آنکھیں دیکھ کر اسے تکلیف ہوئی تھی۔

"وہ میں چند دن کے لئے امی کے گھر آرام کرنا چاہتی ہوں." وہ اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی جس پر اس نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔
وہ اسے روک نہیں سکتا تھا یہ جاننے کے باوجود بھی کہ وہ صرف چند دن کے لئے نہیں جارہی بلکہ ساری زندگی کے لئے جدا ہونے جارہی ہے۔

فاطمہ کو گئے دو دن گزر چکے تھے اور گھر ایک بار پھر ویران ہوگیا تھا۔ ان دو دنوں میں اسے احساس ہوا تھا کہ جو زندگی کی رمق اس گھر میں بچی تھی وہ اسی کے دم سے ہی تھی اور اب وہ بھی چلی گئی تھی ایک بار پھر اس گھر کو ویران کر کے۔ وہ پھر سے جیسے پچھلی زندگی پر لوٹ آیا تھا۔ سارا دن آفس پر گزارنا ، گھر آ کر خان بابا کے ہاتھ کا پھیکا سیٹا کھانا کھانا اور پھر سوجانا۔

ان دو دنوں میں خالہ ایک بار اس کے پاس آئی تھیں تو اسے تھوڑا دوسراہٹ کا احساس ہوا تھا۔ ایسا لگا تھا جیسے کوئی بات کرنے والا ہے۔ وہ دونوں خالہ بھانجے کتنی ہی دیر بیٹھ کر بیتے دنوں کو یاد کرتے رہے تھے۔ کتنی ہی دیر باتیں کرنے کے بعد اچانک خالہ نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا وہ فاطمہ کو یاد کرتا ہے۔ ان کے اس طرح براہِ راست سوال پر وہ ایک دم نظریں چرا گیا۔ خالہ کے سامنے وہ فاطمہ سے اچانک ہو جانے والی محبت کا یوں برملا اعتراف کرنے سے تھوڑا جھجھک رہا تھا مگر وہ بھی ان کے بیٹے کی جگہ تھا۔ وہ بہت پہلے ہی اس کے دل کا حال سمجھ گئی تھیں۔

"بیٹا! میں جانتی ہوں تم اس سے محبت کرنے لگے ہو اور اسے یاد بھی کرتے ہو۔ تمہارا یہ رویہ بلکل فطری ہے۔ جب وہ ہسپتال میں تھی تو ہمہ وقت اس کے لئے تمہارے چہرے سے جھلکتی پریشانی اور اس کے کھو جانے کا خوف مجھے ساری بات سمجھا گیا تھا۔"

خالہ کی بات سن کر وہ عجیب شرمندہ سا ہوگیا تھا۔ کیا اس کے دل کا حال اس کے چہرے پر یوں عیاں تھا؟ اور اگر ایسا تھا ہی تو فاطمہ کو یہ سب نظر کیوں نہیں آیا۔
"تم فاطمہ کو لے آئو بیٹا! وہ دیکھنا ضرور آجائے گی۔ وہ کون سا تم سے کوئی ناراض ہو کر گئی ہے۔ تم ایک بار پیار سے اسے آنے کا تو کہو۔ دیکھنا وہ کیسے بھاگی چلی آتی ہے۔" خالہ اس کے چہرے کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
"میں جانتا ہوں خالہ وہ مجھ سے ناراض ہو کر نہیں گئی۔ مگر میں اسے کچھ وقت دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ بہتر فیصلہ کرسکے اور وہ جو فیصلہ کرے گی وہ مجھے منظور ہوگا۔"

خالہ اس کے اٹل لہجے کو دیکھتے ہوئے مایوسی سے خاموش ہوگئیں۔ وہ جانتی تھیں احد ان کی نہیں سننے والا۔ وہ اسے یہ نہیں سمجھا سکتی تھیں کہ وہ فاطمہ کو جو وقت دے رہا ہے اگر وہی وقت وہ اس کے ساتھ بتائے گی تو خود بخود احد کی محبت اس کے دل میں جگہ بنا لے گی اور پھر وہ اس کے ساتھ رہ کر ہی خوش رہ پائے گی۔

فاطمہ یہاں آ تو گئی تھی مگر ایک عجیب سی بیچینی سی تھی جو ہر وقت اس کے ذہن پر سوار رہتی تھی۔ اس نے اس واقعے کے بعد ہسپتال میں ہی احد سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ عمر کی یادوں سے نکلنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا اور اسی طرح احد کے ساتھ زندگی بتانا خود احد کے ساتھ زیادتی تھی۔ وہ بہت اچھا انسان تھا اور اس سے کئی زیادہ اچھی لڑکی ڈیزرو کرتا تھا مگر نجانے کیوں وہ اپنے اس فیصلے پر ہرسکون نہیں ہو پارہی تھی۔ وہ جب جب اپنے ماں باپ کا چہرہ دیکھتی اور بے چین ہوجاتی۔ وہ کیسے انہیں یہ فیصلہ سنائے گی؟ کیا وہ ایک بار پھر انہیں اسی دکھ سے دوچار کرے گی؟

آج بھی وہ اپنے کمرے میں بیٹھی بیڈ سے سر ٹکائے اپنے اس فیصلے کے بارے میں غور کررہی تھی۔ اس نے ایک بار آنکھیں بند کر کے خود کو احد سے علیحدہ ہو کر زندگی گزارتے ہوئے تصور کیا اور حیرت انگیز طور پر وہ مطمئین نہیں تھی۔ اسے ایسا صرف سوچ کر ہی عجیب سا محسوس ہونے لگا تھا۔ ایسا لگا جیسے دل و دماغ میں ہر جگہ ایک خالی پن سا اتر آیا ہو۔

(نہیں میں یہ سب کیا سوچنے لگی ہوں۔ مجھے احد سے الگ ہونا ہی ہے اور اگر الگ نہ بھی ہو پائی تو بھی اس سے محبت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں عمر کے علاوہ کسی سے بھی محبت کر ہی نہیں سکتی۔) وہ آنکھیں کھول کر خود کو پرسکون کرتے ہوئے جیسے ایک فیصلے پر پہنچ گئی تھی۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل پررکھا اپںا فون اٹھایا اور چند بٹن دبا کر فون کان سے لگا لیا۔ چند لمحوں بعد احد کی آواز گونجی تھی۔
"السلام علیکم"
"وعلیکم االسلام! کیسے ہیں؟"
"ٹھیک اللحمدللہ! تم کیسی ہو؟"
"میں ٹھیک ہوں۔ کیا آپ مجھے کل لینے آسکتے ہیں؟" اس نے اس سے تیزی سے کہا تھا اور ایک دم زبان دانتوں تلے دبا لی۔ وہ یہ کیا کہہ گئی تھی۔ اسے تو یہ نہیں کہنا تھا۔ مگر اس کی آواز سنتے ہی وہ اس سے یہ سب کیوں کہہ گئی۔ وہ کیوں نہیں کہا جو وہ کہنا چاہتی۔تھی؟ احد نے فوراً ہاں کہہ دیا تھا اور اب وہ فون ہاتھ میں تھامے خود کے رویے پر ہی متعجب تھی۔

ہجر کی پہلی فجر (قسط نمبر 3)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے