پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 18

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 18


سوراخ میں سے باہر لے جایا جارہا تھا۔ میرے اوپر مٹی گرنے لگی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اوپر کئے تو میرے ہاتھ ایک فٹ کی اونچائی پر قبر کے سوراخ کی چھت سے ٹکراۓ۔

یہ سوراخ اتنا ہی چوڑا تھا کہ کسی مردے کی لاش اس میں سے کھینچ کر نکالی جاسکتی تھی۔ اب مجھے اوپر کی طرف کھینچا جارہا تھا۔ میرے پاؤں اوپر اور سر نیچے ہو گیا تھا۔ تابوت قبر کے اندر کافی گہرائی میں دفن کیا گیا تھا۔ مجھے باہر سے آتی تازہ ہوا محسوس ہونے لگی تھی اور میرا سانس معمول پر آ گیا تھا۔

پھر میں قبر سے باہر آ گیا۔ میں نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا کہ مجھے قبر میں سے کس نے کھینچ کر نکالا ہے ۔ عجیب قسم کی سیاہی مائل دھندلی دھندلی روشنی میں مجھے نہ تو کوئی مردہ خور جانور نظر آیا نہ کوئی انسان ہی دکھائی دیا۔ میرے پاؤں کا شکنجہ بھی غائب ہو چکا تھا۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ مجھے تاریک قبر میں سے کون گھسیٹ کر لایا ہے اور یہ جگہ کون سی ہے۔

میں زمین پر پڑا تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اپنا جائزہ لیا۔ میرا جسم واقعی کفن میں لپٹا ہوا تھا۔ مجھے اپنے جسم میں سے خشک کافور کی بو آرہی تھی۔ یہ بو مجھے تابوت کے اندر بھی آئی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ میں مر گیا تھا اور مجھے مردوں کی طرح غسل دے کر کفن پہنا کر تابوت میں بند کر کے قبر میں دفن کر دیا گیا تھا۔
مگر یہ سب کچھ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ یہ معمہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں نے نگاہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان کا رنگ سیاہ تھا اور تارے کہیں کہیں لال لال انگاروں کی طرح دہک رہے تھے۔ ایسے ستارے میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ انہیں دیکھ کر دل پر ہیبت طاری ہو رہی تھی۔ آس پاس کوئی انسان یا جانور تک نظر نہیں آتا تھا۔

کسی چڑیا تک کے بولنے کی آواز نہیں آرہی تھی۔ یا اللہ ! یہ میں کہاں آ گیا ہوں۔ یہ کون سی دنیا ہے ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میں نے اپنی ٹانگوں اور بازوؤں کو ہاتھ لگا کر دیکھا۔ میرا جسم بالکل صحیح حالت میں تھا مگر ٹھنڈا تھا جیسے مردے کا جسم ہوتا ہے۔ میں نے دونوں ہتھیلیوں کو زور سے رگڑا مگر میرے ہاتھ پھر بھی برف کی طرح ٹھنڈے ہی رہے ۔

سیاہی مائل دھندلی روشنی میں مجھے ارد گرد کچھ قبریں نظر آئیں۔ ہر قبر کے پاؤں کی جانب گہرے شگاف تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ ان شگافوں میں سے قبروں کے مردے کھینچ کر باہر نکالے گئے تھے۔

اچانک مجھے اپنی بائیں جانب سے واویلے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے اس طرف دیکھا۔ ایک آدمی دوڑتا چلا آ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا اور اس کا چہرہ اور سارا جسم خون میں لت پت تھا۔ وہ بڑی درد ناک آواز میں رو رہا تھا اور کہے جارہا تھا۔’’ مجھے بچالو۔ مجھے بچالو۔ میں نے اپنے آپ کو مار ڈالا ہے ۔ میں نے اپنے آپ کو مار ڈالا ہے۔ مجھے بچالو . . . . . ‘‘

جب خون میں لہولہان دوڑتا ہوا میرے قریب سے گزرا تو یہ دیکھ کر میرا دل کانپ اٹھا کہ اس آدمی کی کھوپڑی کا ایک حصہ غائب تھا۔ شاید اس نے کنپٹی پر پستول کی نالی رکھ کر اپنے آپ کو گولی مار دی تھی۔ میں حیران تھا کہ اس کی آدھی کھوپڑی اڑ چکی ہے پھر بھی وہ زندہ ہے اور بھاگتا چلا جارہا ہے۔ کچھ دور جا کر وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔

اس کے بعد پھر واویلے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے گردن موڑ کر دیکھا کہ ایک عورت جس کے بال کھلے ہیں اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے پیٹتی بھاگی چلی آ رہی ہے اور رو رو کر کہے جار ہی ہے ۔ ” میں نے زہر کھالیا ہے ۔ مجھے بچالو۔ میرے بیٹے مجھے بچالو۔ میں نے زہر کھالیا ہے ۔ ہاۓ ۔ مجھے بچالو ...... جب وہ میرے قریب سے گزری تو میں نے دیکھا کہ اس کے منہ ، ناک اور کانوں سے نیلے رنگ کا خون بہہ رہا تھا اور اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا۔ میں سرخ انگاروں ایسے ستاروں والے سیاہ آسان کے نیچے پھٹی ہوئی قبروں کے پاس حیران پریشان بیٹھا تھا اور یہ سوچ سوچ کر مزید پریشان ہو رہا تھا کہ میں یہاں سے کیسے بھاگوں اور کس طرف کو جاؤں ۔

کبھی لگتا کہ میں ڈراؤنے خوابوں کی دنیا میں آ گیا ہوں ۔ کبھی لگتا کہ نہیں میں خواب نہیں دیکھ رہا۔ خواب اور حقیقت کی دنیا میں جو فرق ہوتا ہے میں اسے واضح طور پر محسوس کر رہا تھا۔ یہ خواب کی دنیا نہیں تھی لیکن کوئی ایسی دنیا تھی کہ جس کا زندہ انسانوں کی دنیا سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا تھا اور میں حقیقت کی دنیا ڈراؤنے خوابوں کی دنیا سے بھی زیادہ ہولناک اور دہشت خیز دنیا تھی۔ مجھے کچھ سرگوشیوں کی آوازیں سنائی دیں۔

میں نے دیکھا کہ سفید لباس والے انسانوں کا ایک گروہ دور سے میری طرف آ رہا تھا۔ وہ مجھ سے کافی دور تھے مگر ان کی سرگوشیوں کی آوازیں مجھے بالکل قریب سے سنائی دے رہی تھیں۔ میں ٹکٹکی باندھے ان کو دیکھ رہا تھا۔ جب وہ قریب آۓ تو میں نے دیکھا کہ ان سب نے کفن پہن رکھے تھے اور ہر ایک کے کفن پر خون کے بڑے بڑے سرخ دھبے پڑے ہوئے تھے۔ ان کے سر جھکے ہوئے تھے اور وہ سرد آہیں بحر رہے تھے ۔ وہ بڑی آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ایسے چل رہے تھے جیسے کوئی انہیں دھکیل رہا ہو ....

ایک آدمی مجھ سے چار قدم کے فاصلے پر آکر رک گئے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اپنے جھکے ہوئے سر اس انداز سے ہلاتے تھے جیسے پچھتا رہا ہوں کہ ایسا انہوں نے کیوں کیا۔

ان میں سے ایک آدمی نے گردن اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ وہ کچھ دیر تک مجھے ٹتکی باندھ کر دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ پھر اس نے ایک سسکی بھری اور خشک آواز میں کہا۔ " تم بھی چلو۔ دروازہ کھلنے والا ہے ۔ " اس کے زرد چہرے پر ویرانی برس رہی تھی۔ اس کے بعد سسکیاں بھرتے ، آہیں بھرتے ،افسوس کے ساتھ اپنے سروں کو بار بار ہلاتے وہاں سے گزر گئے اور کچھ دور جانے کے بعد رات کی سیاہی مائل دھند میں روپوش ہو گئے۔
میں سوچنے لگا کہ یہ لوگ کون تھے اور مجھے کہاں چلنے کے لئے کہہ رہے تھے اور کون سا دروازہ کھلنے والا تھا۔ میں اس الجھن میں تھا کہ جیسے کسی نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھا دیا اور آگے کو دھکیلا۔ میں اپنے آپ جس طرف روتے ہوۓ انسانوں کا گروہ گیا تھا اس طرف چلنے لگا۔ مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ میں اپنی مرضی سے نہیں چل رہا اور کوئی غیبی طاقت مجھے زبردستی آگے کو دھکیل رہی ہے ۔ ایک دو بار میں نے رکنے کی کوشش کی مگر میرے قدم نہ رکے اور میں آہستہ آہستہ چلتا گیا جیسے آدمی خواب میں چلتا ہے۔ آگے سرمئی دھند کا بہت بڑا غبار آ گیا۔
میں اس غبار میں داخل ہو گیا۔ ایک دم سے عورتوں کی چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ میں نے ڈر کر پیچھے کی طرف بھاگنا چاہا مگر میں ایسا نہ کر سکا اور میرے قدم آہستہ آہستہ آگے کو ہی اٹھتے رہے ۔ عورتوں کی چیخ و پکار اتنی ڈراؤنی ہوگئی کہ میرا ٹھنڈا جسم کانپنے لگا۔ میں آگے ہی آگے چلتا چلا گیا۔ چیخ و پکار کی آوازیں آہستہ آہستہ غائب ہو گئیں ، سرمئی دھند کا غبار ختم ہوا تو گہرے سیاہ رنگ کا غبار شروع ہو گیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کالی سیاہ گھٹا زمین پر اتر آئی ہے ۔ میں اپنے آپ اس گہرے سیاہ غبار میں داخل ہو گیا۔ سیاہ غبار میں داخل ہوتے ہی میرا دم گھٹنے لگا۔ میں منہ کھول کر تیز تیز سانس لینے لگا۔ میں نے بیٹھنا چاہا مگر بیٹھ نہ سکا۔
میں نے بھاگنا چاہا مگر بھاگ نہ سکا۔ میں نے چیخنا چاہا مگر میرے حلق سے آواز نہ نکل سکی۔ میں جیسے زہریلے دھوئیں کے غبار میں سے گزر رہا تھا۔ سانس رکنے کی وجہ سے میرے جسم کو جھٹکے لگنے گئے۔ مجھے لگا میرا سینہ پھٹنے والا ہے ۔ پھر اچانک زہریلے دھوئیں کا غبار ختم ہو گیا اور میں پورا سانس لینے لگا۔ اب مجھے اپنے ارد گرد کچھ اور لوگ بھی نظر آۓ۔ دھند میں یہ لوگ سایوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے اور سر جھکاۓ ایک ہی طرف کو آہستہ آہستہ چلے جارہے تھے۔ چلتے چلتے وہ مجھ سے آگے نکل گئے اور میں ان کے پیچھے رہ گیا۔
ہم ایک پہاڑی کی طرف جارہے تھے جس کی چوٹی پر آگ کے شعلے بلند ہو ر ہے تھے۔ میں خوف اور دہشت کی حدود سے بھی آگے نکل چکا تھا۔ میرے ٹھنڈے جسم کے بعد میرا دماغ بھی سن ہو کر جیسے ساکت ہو گیا تھا۔ اب نہ مجھ پر خوف کا اثر ہوتا تھا نہ دہشت کا اثر ہوتا تھا۔ میں خود خوف اور دہشت کی علامت بن گیا تھا۔ اس وقت مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ میں واقعی ایک مردہ لاش ہوں اور کوئی اپنی مرضی سے مجھے ایک طرف لئے جارہا ہے۔
میرے آگے آگے جو لوگ سروں کو جھکاۓ بوجل قدم اٹھاتے چلے جارہے تھے وہ اندھیرے میں گم ہوتے جارہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اندھیرا انہیں نگل رہا ہے۔ میں نے ایک بار پھر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی مگر میرے جسم پر میرا کوئی اختیار نہیں رہا تھا۔ میرا جسم ایک لاش کی طرح اپنے آپ چل رہا تھا۔ میں اس تاریک غبار کے قریب پہنچ گیا جہاں لوگ اندھیرے میں غائب ہوتے نظر آ رہے تھے۔
یہ پہاڑی کے اندر کسی غار کا دہانہ تھا۔ لوگ اس غار میں داخل ہو رہے تھے۔ مجھے بھی کسی غیبی طاقت نے غار کے اندر دھکیل دیا۔ غار میں ہر طرف سے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ان میں عورتوں کے رونے کی آوازیں بھی تھیں ، مردوں کے رونے کی آوازیں بھی تھیں۔ دہشت کے مارے میرا برا حال ہو رہا تھا۔ میں ایسے لرز رہا تھا جیسے تیز ہوا میں ٹہنی کے ساتھ لگا ہوا خشک پتا لرز رہا ہوتا ہے۔
چیخوں کی آوازیں ہمارے دائیں بائیں غار میں سے آ رہی تھیں۔ ایک بار پھر میرا دم گھٹنے لگا۔ میرے آگے جو لوگ جارہے تھے ان کے بھی دم گھٹنے لگے تھے۔ مجھے ان کے تیز تیز سانسوں کے چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میر اسانس بھی دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی غار میں آگے کسی مقام پر ایک دروازہ کھل گیا۔ مجھے اس دروازے میں سے آگ کے شعلے لپکتے دکھائی دیئے ۔ لوگوں کے گروہ سسکیاں بھرتے ، ہچکیاں لیتے آگ کے شعلوں میں گرنا شروع ہو گئے۔ مجھے بھی کوئی نظر نہ آنے والی طاقت آگ کے شعلوں کی طرف دھکیلے لئے جارہی تھی۔
لپکلتے ہوۓ شعلے میرے قریب ہوتے جارہے تھے۔ موت مجھے ایک قدم کے فاصلے پر نظر آنے لگی تھی۔ موت کی دہشت نے میرے ہوش و حواس معطل کر دیئے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیا ..... اسی وقت اچانک مجھے اپنے چہرے پر کسی کا گرم سانس محسوس ہوا۔ پہلے میں اسے شعلوں کی تپش سمجھا لیکن فورا بعد مجھے اپنی گردن پر کسی کے گیلے ہونٹوں کا لمس محسوس ہوا اور پھر کسی نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مجھے غار کی دیوار کی طرف کھینچ لیا۔
ساری فضا جیسے ایک دم بدل گئی تھی۔ قیامت خیز آگ کے شعلوں کی تپش دور ہو گئی تھی۔ میرے چہرے کو تازہ ہوا چھو رہی تھی۔اندھیرے میں کوئی مجھے کھینچے لئے جارہا تھا۔ پہلے مجھے خیال آیا کہ شاید روہنی میری مدد کو آگئی ہے اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ رکھا ہے لیکن مجھے اپنے چہرے پر کسی کا گرم سانس محسوس ہوا تھا اور پھر کسی نے میری گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے تھے۔ مجھے یاد آ گیا کہ جب متھرا کے ویران شمشان گھاٹ کی کوٹھڑی میں روہنی مجھے ساتھ لے کر داخل ہوئی تھی تو کوٹھڑی کے کونے میں مٹی کا ایک بھاری مٹکا پڑا تھا جس کا منہ پتھر کی بھاری سل سے ڈھکا ہوا تھا۔
روہنی نے جب مٹکے پر رکھی پتھر کی سل کو ایک طرف ہٹایا تھا تو کوٹھڑی میں ایک ہلکی سی پھنکار کی آواز گونجی تھی اور اس کے بعد مجھے اپنے چہرے پر کسی کا گرم سانس محسوس ہوا تھا اور پھر کسی نے میری گردن کو چوم لیا تھا میں خوف زدہ ہو گیا تھا بعد میں جب میں نے روہنی کو یہ واقعہ سنایا تھا تو اس نے چونک کر میری طرف دیکھا تھا اور کہا تھا۔
”شیروان ! یہ ایک نوجوان لڑکی کا آسیب تھا جو کوٹھڑی کے مٹکے میں بند تھا اور جو مٹکے کی سل سر کانے کی وجہ سے آزاد ہو گیا تھا۔‘‘ مجھے یہ سب کچھ یاد آرہا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ اس نوجوان لڑکی کا آسیب تھا جس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے موت کے غار سے باہر نکال لیا تھا اور اب مجھے سیاہ تاریک فضاؤں میں اپنے ساتھ لئے جارہی تھی؟
آسمان کے نیچے تاریک فضاؤں میں اپنے ساتھ اڑاۓ لئے جارہی تھی۔ وہ مجھے کہاں لے جا رہی ہے مجھے کچھ خبر نہیں تھی۔
آسیبی لڑکی نے میرا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ اور میں اس کے ساتھ سیاہ آسمان کی تاریک فضا میں اڑا چلا جا رہا تھا۔ اتنا مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ وہی آسیبی لڑکی ہے یہ آسیب اتنی خطرناک مخلوق ہے کہ اگر کوئی انسان اس کے قریب چلا جائے تو وہ زندہ نہیں بچتا۔
میں مزید خوف زدہ ہو گیا تھا کیونکہ اگر کوئی چڑیل کسی انسان سے محبت کرنے لگے تو ظاہر ہے کہ وہ آدمی تو زندہ در گور ہو گیا۔ چڑیل آخر چڑیل ہوتی ہے ۔ چڑیل سے کسی خیر کی توقع رکھنی ایسی ہی ہے جیسے کوئی آدمی آ تش فشاں کے دھانے سے کھولتے لاوے میں چھلانگ لگادے اور یہ امید رکھے کہ وہ زندہ بچ جاۓ گا۔ ۔ لیکن اس آسیبی لڑکی نے مجھے پسند کر لیا تھا اور بقول روہنی کے آسیب چڑیل سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ آسیبی لڑکی مجھے کس عذاب میں ڈالنے والی تھی۔
میں پہلے ہی اپنی ایک حماقت کی وجہ سے بدروحوں اور چڑیلیوں کے چکر میں اس طرح سے پھنس چکا تھا کہ اس چکر سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آسیبی لڑکی نے مجھے قبروں کے مردوں سے تو بچا لیا تھا لیکن کنوئیں سے نکال کر یہ خود مجھے کس گڑھے میں پھینکنے والی تھی ؟ اس کا مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ خدا جانے یہ کس دنیا کا آسمان تھا۔ تارکول کی طرح کالا سیاہ تھا اور ستارے سرخ انگاروں کی طرح دہک رہے تھے۔
ہر طرف سیاہ غبار پھیلا ہوا تھا لیکن میں سانس آسانی سے لے سکتا تھا۔ فضا ایسی تھی کہ کبھی سرد ہو جاتی تھی اور کبھی گرم ہو جاتی تھی۔ اس ڈراؤنی تاریک رات میں آسیبی لڑکی کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے دو تین بار مجھے ایسے لگا جیسے کوئی شے شوں کی آواز کے ساتھ میرے قریب سے گزر گئی ہو ۔ اندھیرے میں مجھے کچھ نظر نہیں آیا تھا۔ میری انگلی میں روہنی کی دی ہوئی انگوٹھی موجود تھی جس کے بارے میں روہنی نے کہا تھا کہ جب تک یہ انگوٹھی تمہارے ہاتھ میں ہے تمہیں کوئی چڑیل یا بدروح نقصان نہیں پہنچا سکے گی لیکن یہ لڑکی کوئی چڑیل تو نہیں تھی لیکن چڑیل سے زیادہ خطرناک تھی۔
میں اس خوفناک بلکہ دہشت ناک آسیبی لڑکی کے ساتھ سیاہ آسمان کی تاریک فضاؤں میں اڑا جارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ فیروز شاہ تم کہاں سے چلے تھے اور کہاں سے کہاں آ گئے ہو۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس قسم کے توہمات میں پھنس جاؤں گا مگر اب بری طرح پھنس چکا تھا اور خدا کی ذات ہی مجھے اس عذاب سے باہر نکال سکتی تھی۔
آہستہ آہستہ تاریک فضا چھٹنے لگی اور پھر کچھ دور جا کر تاریکی پھیکے نسواری رنگ کی دھند میں بدل گئی۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ آسیبی لڑکی مجھے نیچے لے جارہی ہے۔ آخر ہم اس نسواری دھند سے بھی باہر نکل آۓ۔ اب میں نے دیکھا کہ رات کا وقت ہے۔ نیلے آسمان پر ستارے چمک رہے ہیں۔ یہ مجھے اپنی دنیا کا آسمان لگتا تھا۔ نیچے نگاہ ڈالی تو مجھے ایک ریل گاڑی جاتی دکھائی دی۔ کم از کم اس بات کی مجھے بے حد خوشی ہوئی تھی کہ میں بدروحوں اور چڑیلوں کی دنیا سے نکل کر انسانوں کی دنیا میں واپس آ گیا تھا۔
اچانک ایک خیال بجلی کی چمک کی طرح میرے ذہن میں لہرا گیا۔ میں نے سوچا کہ اس وقت روہنی کی بدروح میرے ساتھ نہیں ہے وہی مجھے فرار ہونے سے روکا کرتی تھی۔ اب موقع ہے میں آسیبی لڑکی کو کسی نہ کسی جگہ دھوکا دے کر فرار ہو سکتا تھا یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا کوئی بہانہ بنا کر میں ایک منٹ کے لئے اس سے الگ ہو جاتا ہوں اور پھر کسی طرح بمبئی اپنے بچپن کے دوست جمشید کے پاس پہنچ جاؤں گا۔
اس وقت آسیبی لڑکی جو مجھے دکھائی نہیں دے رہی تھی مجھے ساتھ لئے نیچے گزرتی ریلوے لائن کے اوپر اڑ رہی تھی۔ اس دوران آسیبی لڑکی نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ میں اسے دیکھ ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ غیبی حالت میں تھی۔ مجھے صرف اس کے ہاتھ کی گرفت محسوس ہو رہی تھی۔ اس گرفت میں سختی تھی ۔ یہ کسی لڑکی کے ہاتھ کی گرفت نہیں لگتی تھی۔
میں اس انتظار میں تھا کہ دیکھتا ہوں یہ نئی مصیبت مجھے کہاں لے کر جاتی ہے اس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ بلا اتنی آسانی سے مجھے چھوڑنے والی نہیں ہے جس وقت آسیبی لڑکی مجھے لے کر اڑی تھی تو میں بھی اس کے ساتھ ہی غائب ہو گیا تھا اور مجھے اپنا جسم نظر نہیں آ رہا تھا اپنی دنیا کے ستاروں والے آسمان کی فضا میں آکر میں نے دوبارہ اپنا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ میرا جسم غائب ہے۔ یہ ایک عجیب تجربہ تھا۔
مجھے اپنے جسم کا پورا شعور تھا۔ مجھے اپنے جسم کے سارے اعضاء محسوس ہو رہے تھے ۔ میں سن رہا تھا، میں دیکھ رہا تھا۔ فرق صرف اس بات کا تھا کہ مجھے اپنے جسم کا بوجھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اب ہمارے نیچے سے کسی شہر کی روشنیاں گزرنے لگیں۔ ٹرین نے دو تین بار وسل دیا۔ شاید سٹیشن قریب آ رہا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے آسیبی لڑکی سے پوچھ ہی لیا ۔۔۔۔
پیارے دوستوں جو بھی یہ کہانی پڑھ رہے ہیں ذرا کمنٹ میں حاضری لگائے تاکہ مجھے پتا چل سکے کتنے لوگ کہانی پڑھ رہے ہیں ۔۔ اور دوسری بات نکسٹ نکسٹ والے کمنٹ میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرے ایپیسوڈ میں پوسٹ کر دیتا ہوں ۔۔۔
آسیبی لڑکی سے پوچھ ہی لیا کہ ہم کہاں جار ہے ہیں اور یہ کون سا شہر ہے ؟ آ سیبی لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ ایک جگہ بہت سی روشنیاں تھیں۔ یہ اسی شہر کا ریلوے سٹیشن تھا۔ ٹرین سٹیشن میں داخل ہو رہی تھی ۔ ہم سٹیشن کے اوپر سے گزر گئے۔
مجھے روہنی کا خیال آنے لگا۔ یہ تو آپ پڑھ چکے ہیں کہ روہنی کو بھارت کے شہر متھرا کے ویران شمشان گھاٹ میں اس کے اور میری جان کے دشمن پجاری رگھو کی بدروح نے اس وقت اپنے علم کی طاقت سے اغوا کر لیا تھا جب روہنی نے رگھو کو ہلاک کرنے کے لئے اس پر اپنے سب سے طاقتور منتر کے ذریعے حملہ کیا تھا۔ وہ پجاری رگھو کی طلسمی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکی تھی اور رگھو نے اسے اپنے قبضے میں کر کے غائب کر دیا تھا۔۔۔
اور اسے اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا۔ پہاری رگھو کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ شہزادی روہنی جس کا نام اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے خاوند نے سلطانہ رکھ دیا تھا اسے دوبارہ اپنے قبضے میں کر لے۔ پجاری رگھو ، ر و ہنی کو ہلاک کر چکا تھا اور یہ روہنی کی بدروح تھی جس کو میں نے رانی بائی کے قلعے میں اس مرتبان کو کھول کر آزاد کر دیا تھا جس میں رگھو نے اسے سالہا سال سے بند کر رکھا تھا۔ پجاری رگھو اس لئے میرادشمن ہو گیا تھا کہ میں نے روہنی کی بد روح کو آزاد کر دیا تھا۔ پجاری رکھو کی بد روح مجھ سے اس کا بدلہ لینے کے لئے مجھے بلاک کر کے میری روح کو بھی کسی جگہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دینا چاہتی تھی۔
اس کے بعد میرے ساتھ جو ہیبت ناک واقعات پیش آۓ وہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ میں کس طرح ایسے مردہ لوگوں کی دنیا میں پہنچ گیا جو نہ مرے ہوئے تھے نہ زندہ تھے۔ یہ وہ بد قسمت لوگ تھے جنہوں نے خودکشی کی تھی جو ہمارے دین میں حرام ہے گویا وہ حرام موت مرے تھے اس لئے ایک عبرت ناک ماحول میں اپنے کئے کی سزا بھگت رہے تھے۔ پھر کس طرح وہ مجھے بھی ساتھ لے کر آگ اگلتے غار کی طرف بڑھے لیکن آسیبی لڑکی نے مجھے عین موقع پر وہاں سے اٹھا لیا۔
شاید اس لئے کہ میں نے کوئی خود کشی نہیں کی تھی اور میں زندہ تھا۔ آسیبی لڑکی کو میں نے اپنے چہرے پر محسوس ہوتے اس کے گرم سانس اور اپنی گردن پر اس کے گیلے ہونٹوں کو محسوس کر کے پہچان لیا تھا ۔۔
آسیبی لڑکی مجھے اس قبرستان کے زندہ مردوں کی دنیا سے نکال کر میری اپنی انسانوں کی دنیا میں لے آئی تھی اور ابھی ہم فضا میں پرواز کرتے ہوۓ کسی شہر کے اوپر سے گزرے تھے ۔ شہر کی روشنیاں بہت پیچھے رہ گئی تھیں۔ آسیبی لڑکی فضا میں بائیں طرف کو مڑی اور اس کے بعد وہ ایک دم سے بلند ہونے لگی۔ ہم رات کے اندھیرے میں اتنی بلندی پر آگئے کہ مجھے نیچے زمین پر صرف اندھیرا ہی نظر آ رہا تھا۔ کہیں کہیں دور دور روشنی کا کوئی نقطہ ٹمٹماتا ہوا نظر آجاتا تھا۔
مجھے نہ تو یہ پتہ تھا کہ کون سا شہر ہم پیچھے چھوڑ آۓ ہیں اور نہ یہ علم تھا کہ آسیبی لڑکی مجھے کہاں لئے جار ہی ہے۔ مجھے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ میں بھارت کی سر زمین میں ہوں یا پاکستان کے ملک میں ہوں۔ میں آسیبی لڑکی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ میرے پوچھنے پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ میں یہی سوچ رہا تھا اور میں نے دل میں یہی فیصلہ کیا تھا کہ روہنی کی بدروح سے تو میرا پیچھا چھوٹ گیا ہے اب کوشش کر کے اس آسیبی لڑکی سے بھی پیچھا چھڑا کر کسی جگہ سے فرار ہو جاؤں گا اور سیدھا اپنے ملک پاکستان پہنچ جاؤں گا اور پھر کبھی انڈیا کا رخ نہیں کروں گا۔
اس وقت آسیبی لڑکی مجھے لے کر ایک پہاڑی علاقے کے اوپر سے گزر رہی تھی ۔ نیچے اندھیرے میں پہاڑی ڈھلانوں پر کہیں کہیں روشنیاں جھلملا رہی تھیں ۔ پہاڑی علاقے میں داخل ہوۓ ہمیں پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ہم نیچے کی طرف اترنے لگے پھر آسیبی لڑکی نے غوطہ لگایا اور ہم ایک پہاڑی پگڈنڈی پر اتر پڑے۔ زمین پر میرے پاؤں لگتے ہی مجھے جسم کا بوجھ محسوس ہونا شروع ہوگیا لیکن میں ابھی تک غائب ہی تھا۔ آسیبی لڑکی بھی غائب تھی۔ میرا ہاتھ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ یہ کون سے شہر ہے ؟
آسیبی لڑکی اس دفعہ بھی خاموش رہی اور اس نے میرے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ آخر میں نے تنگ آکر کہا۔ ” کیا تم میری زبان نہیں سمجھتی ہو ؟“ آسیبی لڑکی کے ہاتھ نے مجھے آہستہ سے جھٹکا دیا۔ میں ڈر گیا تب مجھے احساس ہوا کہ میرے ساتھ کوئی عام دنیاوی مخلوق نہیں ہے بلکہ ایک آسیبی لڑکی ہے ۔ایک لڑکی کا آسیب ہے جو چڑیل سے ایک سو گنا زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتا ہے ۔ روہنی نے مجھے یہی بتایا تھا۔
اس کے بعد میں نے کوئی سوال نہ کیا۔ مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر آسیبی لڑکی کا دماغ پلٹ گیا تو کہیں وہ میری تکا بوٹی نہ کر دے آسمان پر صبح کی پہلی نیلی نیلی روشنی سی نمودار ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس د هندلی روشنی میں میں نے دیکھا کہ ہم ایک پہاڑی قبرستان میں سے گزر رہے تھے ۔ ہمارے ارد گرد ٹوٹی پھوٹی قبریں پھیلی ہوئی تھیں ۔ قبروں کے صلیب نما کتبے دیکھ کر مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ کرسچین قبرستان ہے۔ تمام قبروں کی حالت خستہ ہو رہی تھی۔ کئی کے تو پتھر اکھڑ کر پرے گرے ہوئے تھے۔ پہاڑی ڈھلان پر نیچے دور تک قبریں چلی گئی تھیں۔ اوپر ایک جانب درختوں کے پیچھے ایک ڈھلواں چھت والی عمارت ابھری ہوئی تھی۔
آسیبی لڑکی اس عمارت کی طرف جا رہی تھی۔ اس عمارت کی ساخت قدیم زمانے کی کرسچین خانقاہوں جیسی تھی مگر یہ خانقاہ آباد نہیں تھی ، انتہائی شکستہ اور ویران حالت میں تھی۔ اس کی دیواروں کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ گیا تھا اور نیچے سے پرانی اینٹیں دکھائی دے رہی تھیں ۔
خانقاہ کی چمنی والی مخروطی دیوار اوپر تک چلی گئی تھی اور اس پر ایک سوکھے ہوۓ ٹنڈمنڈ درخت کی شاخیں جھکی ہوئی تھیں۔ وہاں خاموشی اتنی گہری تھی کہ لگتا تھا کہ ابھی ابھی یہاں سے کوئی چڑیل گزر کر گئی ہے ۔ خانقاہ کے محراب دار دروازے کے دونوں کواڑوں میں سے صرف ایک کواڑ بچا ہوا تھا جو پوری طرح سے بند نہیں تھا۔ اندر اندھیرا تھا۔ آسیبی لڑکی نے خانقاہ میں داخل ہونے کے بعد میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔
اس کے ہاتھ چھوڑتے ہی میں غیبی حالت سے ظاہری حالت میں واپس آگیا اور مجھے اپنا جسم نظر آنے لگا۔ مگر آسیبی لڑکی ابھی تک غائب تھی وہ مجھے نظر نہیں آرہی تھی۔ میں نے گردن موڑ کر خانقاہ کے دروازے کی طرف دیکھا۔ ایک لمحے کے لئے مجھے خیال آیا کہ ابھی وقت ہے یہیں سے بھاگ جاؤں۔ خدا جانے آسیبی عورت نے کیسے میرے دل کا حال معلوم کر لیا اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا مگر اب میں غائب نہیں ہوا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور میں خانقاہ کی راہ داری میں سے گزرتے ہوۓ اپنے جسم کو دیکھ رہا تھا۔ ہر طرف نیم تاریکی میں ایک وحشت خیز ویرانی کا منظر تھا۔ کچھ نظر آرہا تھا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ خانقاہ مجھے چڑیلوں کا مسکن لگتی تھی۔
آسیبی لڑکی اکھڑے ہوۓ پتھروں کا ایک زینہ چڑھنے لگی۔ وہ میرے ساتھ چل رہی تھی مگر مجھے اس کے قدموں کی چاپ بالکل سنائی نہیں دے رہی تھی جبکہ مجھے اپنے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ زینے کی چھ سات سیڑھیاں تھیں اوپر ایک اور راہ داری تھی جہاں چھت کے قریب روشندان میں سے صبح کے اجالے کی پھیکی پھیکی روشنی خانقاہ کے آسیب زدہ اندھیرے کو دور کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ -
دائیں جانب ایک کوٹھڑی کا بند دروازہ تھا۔ دروازے پر بھاری تالا پڑا ہوا تھا۔ اس کوٹھڑی کے پاس آکر آسیبی لڑکی رک گئی۔ پھر اس نے مجھے بند دروازے کی طرف دھکیل دیا۔ میں نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ چہرے کے آگے کر لئے کہ دروازے سے ٹکرا نہ جاؤں لیکن میں دروازے سے ٹکرایا اور نہ دروازہ کھلا بلکہ میں کوٹھڑی کے اندر تھا۔
یہ کو ٹھڑی نہ کشادہ تھی اور نہ چوٹی تھی۔ اس کی چھت اونچی تھی ، ایک لمبی محرابی کھڑکی تھی جو بند تھی۔ کھڑکی کے اوپر چھت کے بالکل قریب ایک روشندان تھا جس کے آگے پتھر کی جالی لگی ہوئی تھی۔ اس روشندان میں سے صبح کی مدھم کی روشنی اندر آرہی تھی۔ سامنے والی دیوار میں ایک پرانی طرز کا آتش دان بنا ہوا تھا جو خدا جانے کب سے ٹھنڈا پڑا تھا۔ اپنے جسم میں واپس آنے کے بعد مجھے ٹھنڈ کا احساس ہونے لگا تھا۔
یہ پہاڑی علاقہ تھا۔ یہاں سردی تھی۔ آتش دان کے آگے دونوں جانب دو پرانے گرد آلود بھاری بھر کم وکٹورین زمانے کے صوفے پڑے تھے جن پر گرد جم رہی تھی۔ دوسری دیوار کے ساتھ ایک پلنگ لگا تھا جس پر گدیلا بچھا ہوا تھا اور پائنتی کی جانب دو بھاری کمبل تہہ کر کے رکھے ہوئے تھے۔ سرہانے کی جانب ایک نسواری رنگ کا پرانا گاؤ تکیہ پڑا تھا۔ پلنگ کے قریب ہی دیوار کے ساتھ ہینگر پر ایک کالے رنگ کی برساتی لٹک رہی تھی۔ میں نے قریب جا کر دیکھا وہ کھر درے کمبل کا بنا ہوا لمبا کوٹ تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا اس کی وضع قطع ملکہ وکٹوریہ سے بھی پہلے کے زمانے کی تھی۔
مجھے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ میں صرف پتلون میں میں تھا۔ میں نے کوٹ پہنا تو وہ مجھے بالکل پورا آیا۔ ایسے لگتا تھا کہ کسی نے میرے لئے ہی بنایا تھا۔ لمبا گرم کوٹ پہن لینے سے سردی کا احساس کچھ کم ہوا۔ میں آتش دان کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ جیسے ہی میں صوفے پر بیٹا مجھے ایسی آواز آئی جیسے میں کسی بلی کے اوپر بیٹھ گیا ہوں۔ میں گھبرا کر جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ جھک کر صوفے کو دیکھا مگر وہاں کوئی بلی وغیرہ نہیں تھی۔ یہ شاید پرانا ہونے کی وجہ سے اس کے سپرنگوں کی آواز تھی۔ لگتا تھا کہ سو سال سے اس پر کوئی نہیں بیٹھا۔
اس خیال سے کہ شاید باہر دھوپ نکلی ہوئی ہو اور کھڑکی میں سے کچھ دھوپ شاید کوٹھڑی میں بھی آ جاۓ میں نے بڑی کوشش کر کے کھڑکی کھول دی۔ باہر دھند کے بادل تیر رہے تھے۔ کھڑکی کے اوپر کسی جنگلی ٹیل نے چھجہ سا ڈال رکھا تھا۔ کھڑکی میں لوہے کی موٹی موٹی سلاخیں لگی ہوئی تھیں اور ان سلاخوں کے درمیان صرف اتنی سی جگہ ہی چھوڑی گئی تھی کہ میں وہاں سے صرف اپنا ہا تھ ہی باہر نکال سکتا تھا۔
باہر سے سرد ہوا اندر آنے لگی ۔۔ میں کھڑکی بند کر کے تازہ ہوا کو اندر آنے سے نہیں روکنا چاہتا تھا۔ پرانا ہی سہی مگر لمبا گرم کوٹ مجھے مل گیا تھا اس نے کسی حد تک سردی کو روک لیا تھا۔ میں نے کھڑکی کھلی ہی رہنے دی اور آتش دان کے پاس صوفے پر بیٹھ کر کوٹھڑی کے دروازے کی طرف نگاہ اٹھائی۔ دروازہ اسی طرح بند تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ باہر کی جانب دروازے پر پرانے زمانے کا مضبوط تالا بھی اسی طرح دروازے پر لگا ہوا تھا۔ پھر بھی میں نے اٹھ کر دروازے کو آہستہ سے اپنی طرف کھینچنا چاہا مگر دروازہ تو جیسے چٹان بنا ہوا تھا اس نے ذرا سی بھی حرکت نہ کی۔ میں مایوس ہو کر آتش دان کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے ۔
ظاہر ہے میں ہر حالت میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا مگر بھاگنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ اب مجھے بھوک بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ جب روہنی کے ساتھ بھی غائب ہو جایا کرتا تھا یا وہ مجھے غائب کر دیتی تھی تو میری بھوک پیاس معطل ہو جاتی تھی پھر غیبی حالت سے زندہ انسانی حالت میں ظاہر ہوتا تھا تو بھوک اور پیاس دوبارہ واپس آ جاتی تھی مگر وہاں کھانے کو کسی شے کے دستیاب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
مجھے اس آسیب زدہ کوٹھڑی میں دھکیلنے کے بعد آسیبی لڑکی بھی واپس نہیں آئی تھی۔اس نے مجھے کوٹھڑی میں بند کر دیا تھا اور شاید وہ یہی چاہتی تھی کہ مجھے اپنا قیدی بنا کر بھول جاۓ ۔ میں نے اٹھ کر ایک بار پھر کھڑکی کی سلاخوں کا جائزہ لیا۔ یہ بڑی مضبوط اور موٹے لوہے کی تھیں۔ ان میں سے میں بڑی مشکل کے ساتھ صرف اپنا ہاتھ ہی باہر نکال سکتا تھا۔ میں نے سلاخوں میں سے جھانک کر نیچے دیکھا۔ یہ کوٹھڑی پرانی خانقاہ کی دوسری منزل پر واقع تھی۔ نیچے دھند کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں۔ دن نکل چکا تھا مگر سورج کو سر ددھند کے بادلوں نے چھپا رکھا تھا۔ کھڑکی کے اوپر جنگلی خشک بیل کے سوکھے پتے کسی وقت ہوا کے جھونکے کے ساتھ گرنے لگتے تھے۔
مجھے دروازے والی ویران راہ داری کی طرف سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں جلدی سے آتش دان کی طرف مڑا اور صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔ قدموں کی چاپ دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ پھر یہ چاپ دروازے کے پاس آکر رک گئی۔ میری نگاہیں دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ کوئی باہر سے تالا کھول رہا تھا۔ اس کے بعد دروازہ کھلا اور ایک کبڑی عورت کوٹھڑی میں داخل ہوئی اس نے ہاتھوں میں سیاہ رنگ کا طشت تھام رکھا تھا۔
کھڑکی میں سے آتی دن کی سرد دھندلی روشنی میں ، میں نے دیکھا کہ عورت کے سر کے بال روئی کے گالوں کی طرح سفید ہیں۔ اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا ہے اور چلتے ہوۓ ہانپ رہی ہے ۔ میں ڈر کر صوفے سے اٹھنے لگا لیکن جیسے میری طاقت نے جواب دے دیا۔ میں اپنی جگہ سے ذرا سی بھی حرکت نہ کر سکا۔ کبڑی بڑھیا نے صوفوں کے درمیان جو چھوٹی سی سیاہ لکڑی کی ٹپائی پڑی ہوئی تھی اس پر طشت رکھ دیا اور واپس چلی گئی۔ اس کے ہاپنے کی آواز نے میرے رونگٹے کھڑے کر دئیے تھے۔ کوٹھڑی میں سے نکلنے کے بعد اس نے دروازہ بند کر کے باہر سے تالا لگا دیا۔
میں نے جھک کر دیکھا کہ طشت میں کیا رکھا ہوا ہے۔ لوہے کے ایک پیالے میں پانی تھا۔ دوسرے پیالے میں ابلے ہوۓ چاول تھے ۔ لکڑی کا ایک چمچہ بھی تھا۔ مجھے اپنے آپ پر دو سو سال پہلے کے زمانے کے یورپ کے قیدی کا گمان ہونے لگا۔ اس زمانے میں پرانے قلعوں میں بند قیدیوں کو یہی غذا دی جاتی تھی۔ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ میں چاول کھانے لگا۔ چاول نمکین تھے۔ میں خاموشی سے چاول کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر یہ آسیبی لڑکی مجھے پسند کرتی ہے تو پھر وہ مجھ سے اس قسم کا قیدیوں والا سلوک کیوں کر رہی ہے ؟
چاول کھا کر میں نے پانی پیا اور اٹھ کر کوٹھڑی میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ کوٹھڑی کی سرد فضا میں بیٹھے بیٹھے مجھے سردی لگنے لگی تھی۔ میں نے کھردرے سیاہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال رکھے تھے اور کھڑکی کے آگے ٹہل رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس گورکھ دھندے سے مجھے کب اور کیسے چھٹکارا ملے گا۔ کچھ دیر کے بعد کوٹھڑی کا دروازه دوبارہ کھلا اور وہی کبڑی بوڑھی عورت جھکی جھکی چلتی ہانپتے ہوۓ اندر داخل ہوئی اور سیدھی آتش دان کے پاس گئی جہاں خالی برتن پڑے تھے۔
میں نے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے کا پٹ کھلا تھا۔ بھاگ جانے کا سنہری موقع تھا۔ میں ٹہلتے ٹہلتے دروازے کے پاس آ گیا اور ایک دم باہر کی طرف دوڑا۔ جیسے ہی میں دروازے میں سے گزرنے لگا مجھے ایک جھٹکا لگا اور میں پچھاڑ کھا کر پیچھے کو گر پڑا۔ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت بوڑھی عورت خالی برتن لئے دروازے کی طرف جا رہی تھی۔ میرے قریب سے گزرتے ہوۓ میری طرف دیکھے بغیر اس نے ہانپتی ہوئی کمزور آواز میں کہا۔ ”دوبارہ یہ حرکت کرو گے تو مر جاؤ گے ۔
‘‘اور وہ کوٹھڑی سے نکل گئی۔ باہر جاتے ہی اس نے دروازہ بند کر دیا اور مجھے باہر سے تالا لگانے کی آواز سنائی دی۔
جھٹکا ایسا تھا جیسے مجھے بجلی کا کرنٹ لگا ہو۔ میرا جسم ابھی تک جھنجھنا رہا تھا۔ میں جلدی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ مجھے سانس چڑھ گیا تھا۔ شاید یہ بجلی کے جھٹکے کی وجہ سے تھا۔ اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ آسیبی لڑکی نے مجھے اپنا قیدی بنا لیا ہے ۔ یہ ایک ایسی قید تھی جس سے رہائی ناممکن لگتی تھی۔
سارا دن مجھے اس کوٹھڑی میں گزر گیا۔ کبھی اٹھ کر ٹہلنے لگتا کبھی پھر صوفے پر بیٹھ جاتا۔ کھڑکی پر باہر سے دن کی روشنی جو اندر آرہی تھی پہلے ہی سرد اور دھندلی تھی ۔ دن ڈھلنے کے ساتھ یہ بجھ سی گئی اور کوٹھڑی میں اندھیرا چھانے لگا۔ ایک بار پھر باہر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ یہ اس بوڑھی عورت کے قدموں کی آواز تھی۔
وہ پہلے کی طرح تالا کھول کر کوٹھڑی میں آگئی ۔ اس کے ہاتھ میں وہی سیاہ طشت تھا جس میں ابلے ہوئے چاول اور پانی کا کٹورا رکھا ہوا تھا۔ طشت اس نے میرے آگے ٹپائی پر رکھ دیا اور جانے لگی تو میں نے کہا۔ ”میں نہانا چاہتا ہوں۔“ بوڑھی عورت نے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا۔” چپ چاپ بیٹھے رہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی اور اس نے دروازے کو تالا لگا دیا۔ میں خاموشی سے چاول کھانے لگا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ آسیبی لڑکی مجھ سے کیا چاہتی ہے اور مجھے یہاں کیوں لے آئی ہے۔
چاول کھاتے ہوئے اچانک میری نظر اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی پر پڑی۔ میں چونک سا پڑا۔ میری انگلی میں روہنی کی دی ہوئی انگوٹھی نہیں تھی۔ یہی ہاتھ آسیبی لڑکی نے فضا میں پرواز کرتے ہوئے پکڑا ہوا تھا۔ یہ انگوٹھی اس نے غائب کی تھی۔ اگر انگوٹھی میرے پاس ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ جب میں کوٹھڑی کے کھلے دروازے میں سے باہر بھاگنے لگا تھا تو مجھے آسیبی لڑکی کے پھونکے ہوۓ طلسم کا جھٹکا نہ لگتا۔ اس لئے اس نے میری انگوٹھی غائب کر دی تھی۔
امید کی یہ ہلکی سی کرن تھی وہ بھی بجھ گئی تھی۔ کچھ دیر کے بعد بوڑھی عورت خالی برتنوں والا طشت اٹھا کر لے گئی۔ کچھ دیر کے بعد شام ہوگئی۔ کوٹھڑی میں اندھیرا چھا گیا۔ ایک بار پھر وہی بوڑھی عورت دروازہ کھول کر کوٹھڑی میں داخل ہوئی۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں ایک شمع دان تھام رکھا تھا جس پر تین موم بتیاں روشن تھیں۔
اس نے شمع دان خاموشی سے آتش دان کے مینٹل پیں پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھائی واپس چلی گئی۔ جاتے ہوئے کوٹھڑی کے باہر تالا لگا گئی۔ میں اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ میرا ذہن سخت پریشان تھا کیونکہ مجھ پر صورت حال واضح نہیں ہو رہی تھی۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ میں کب تک اس کوٹھڑی میں بند رہوں گا اور یہ کہ مجھے کیوں بند کیا گیا ہے ؟ کھڑکی میں سے سرد ہوا آ رہی تھی۔ میں کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ باہر اندھیرا گہرا ہوتا جارہا تھا۔
خاموشی دہشت زدہ کر دینے والی تھی۔ باہر دو سو سال پرانا قبرستان تھا۔ رات کی خاموشی نے قبرستان کی خاموشی کے ساتھ مل کر ماحول کو اور زیادہ و حشت خیز بنا دیا تھا۔ میں پلنگ پر دراز ہو گیا۔ میری نیند اڑ چکی تھی ۔ سونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مجھے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ یہ بہت سے قدموں کی چاپ تھی۔ میں پلنگ پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ قدموں کی چاپ دروازے کے پاس آکر رک گئی۔ پھر دروازہ کھل گیا اور کوٹھڑی میں دو آدمی اور ایک عورت داخل ہوئی۔

مردوں نے سیاہ چبے پہنے ہوئے تھے۔ سروں پر بھی مخروطی سیاہ ٹوپیاں تھیں۔ انہوں نے ہاتھ سینے پر باندھ رکھے تھے۔ عورت لمبے قد کی تھی وہ بھی سیاہ چبے میں ملبوس تھی۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں ایک پیالہ تھا جس میں سے سفید دھوئیں کی پتلی لہریں نکل رہی تھیں۔

یہ عجیب و غریب جلوس میرے قریب آکر رک گیا۔ عورت کا رنگ گورا تھا اور ناک طوطے کی طرح نیچے کو مڑی ہوئی تھی۔ اس کی شکل ہی سے خوف آتا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھ کر سوئی ہوئی آواز میں کہا۔’’ ہمارے ساتھ چلو۔‘‘ میں نے کہا۔ ” تم لوگ کون ہو ۔ مجھے یہاں کیوں بند کر رکھا ہے ؟“

پر اسرار عورت نے کہا۔ ’’ہمارے ساتھ چلو۔“ اس پر میرے سوالات کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس نے سنا ہی نہیں۔ میں نے کہا۔ ” میں نہیں جاؤں گا۔“ عورت ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔ مجھ پر جیسے ایک روشنی سی پڑ کر غائب ہو گئی۔ عورت نے کہا۔” میرے ساتھ آجاؤ۔“ میں اٹھ کر اس کے پیچھے چل پڑا۔ اس نے میرے ارادے کی طاقت کو معطل کر دیا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر اختیار نہیں رہا تھا۔ میں اس کے حکم کا پابند ہوگیا تھا۔ شاید اس نے مجھ پر کوئی طلسم پھونک دیا تھا۔ بھوت پریت کا یہ جلوس مجھے لے کر کوٹھڑی سے باہر آیا تو۔۔۔۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 19

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں