سیاہ رات ایک سچی کہانی - نواں حصہ

 

 - سیاہ رات ایک سچی کہانی - نواں حصہ

روحان عنائزہ کا ہاتھ پکڑے اسے لان میں لے کر آیا آج موسم کافی خوشگوار تھا دھوپ کے ساتھ سرد ہوائیں دل کو بھا رہی تھیں،،،
وہ دونوں لکڑی کے جھولے پر بیٹھے جو عنائزہ نے کمرے کے فرنیچر کے ساتھ ہی ڈیلیور کروا لیا تھا،،،
کتنا اچھا موسم ہے روحان،،، عنائزہ نے آنکھیں بند کر کے لمبا سانس لیا
روحان خاموش رہا لیکن ایک نظر عنائزہ کی طرف ضرور دیکھا،،،
کتنے اچھے پھول لگے ہیں نا،،، اس نے لان میں لگے مختلف اقسام کے بے شمار پھولوں کی طرف دیکھ کرکہا،،،
مجھے وہ والا توڑ کے دو،،، عنائزہ نے چھوٹا مگر کھلا ہوا سفید پھول کی طرف اشارہ کیا،،،
روحان نے وہ سفید پھول توڑ کر عنائزہ کو دیا،،،
خوبصورت ،،، عنائزہ نے پھول کو بالوں میں اٹکا لیا جو روحان کو بہت اچھا لگا
بہت،،، روحان نے عنائزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس کا مطلب عنائزہ جان چکی تھی
روحان وہ کس چیز کا پیڑ ہے،،، عنائزہ نے ایک طرف دیکھا
کونسا،، روحان نے اس طرف دیکھا
ارے وہ وائٹ والا،،،
وہ چھوٹا سا،،،
ہاں ہاں وہی والا،،،
وہ بادام کا پیڑ ہے،،،
بادام کا واؤ،،،
اس پر بادام لگے ہیں کیا،،،
اتنے چھوٹے پر کیسے لگیں گے، اس کی بات پر روحان مسکرایا،،،
ارے ہاں میں بھی نا،،،
عنائزہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا، جانتی تو وہ سب تھی مگر صرف روحان سے زیادہ باتیں کروانے کا بہانہ تھا،،،
یہاں امرود کا پودا ہے کیا،،، عنائزہ کچھ دیر بعد بولی
امرود،،، روحان نے اپنا منہ بگاڑا
کیوں تمہیں پسند نہیں،،، عنائزہ نے اس کے بگڑے ہوئے منہ کو دیکھ کر پوچھا
بلکل نہیں،،،

کیوں لیکن مجھے تو بہت پسند ہیں چھوٹے چھوٹے کچے امرود کاٹ کر اوپر نمک مرچ ڈال کر اور لیمن نچوڑ کر جب کھائیں تو آہ ہ ہ،،، مزہ آجاتا ہے
عنائزہ مزے لیتی ہوئی ایسے بتا رہی تھی جیسے وہ واقع ہی اس وقت امرود کھا رہی ہو اور روحان مزے سے اس کی باتوں کو انجوائے کر رہا تھا،،،
روحان کیوں نہ ہم یہاں امرود کا پودا لگوائیں،،،
ٹھیک ہے،،، روحان نے جواب دیا
اچھا تم ایسا کرو جاؤ شفیق کو کہو کہ آج ہی یہاں امرود کا پودا لگائے اور جب پودا لینے جائے گا تو میرے لیے امرود بھی لیتا آئے،،،
کیا۔۔ میں،،، روحان پریشان ہوا
ہاں بھئی تم اور کون بھلا،،، عنائزہ نے آنکھیں کو پھیلایا
تم کہو،،،

روحان کی بات پرعنائزہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی،،،
کیا میں کہوں دیکھو نہ وہ کتنی دور بیٹھا ہے اور میں بیمار ہو کر کیسے اتنی دور چل کر جاؤں،،، اس نے ساتھ ہی بیماروں والا منہ بنایا
عنائزہ کے منہ سے بیمار کا لفظ سن کر روحان ایک پل کے لیے اسے دیکھتا ہی رہ گیا
لیکن ابھی تو اتنی باتیں کر رہی تھی،،، آخر وہ بھی بول پڑا
عنائزہ باتوں میں بھول ہی گئی تھی کہ وہ بیمار ہونے کا ڈرامہ کر رہی تھی اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا جواب دے،،،
ہاں نا باہر کا موسم اتنا اچھا ہے کہ میں تو بھول ہی گئی تھی میں بیمار ہوں اب ٹھیک ہے اگر میں باتیں کر رہی تھی اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں بیمار نہیں ہوں آہ دیکھو کمر میں درد ہو رہا ہے،،، اس نے ساتھ ہی اپنی کمر کو پکڑا
روحان پریشان سا اس کی باتیں سن رہا تھا اسے شک تو ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے مگر وہ معصوم اس سے پوچھ نہ سکا اس ڈر سے کہ اگر وہ واقع ہی بیمار ہوئی تو کہیں وہ اس سے خفا نہ ہو جائے،،،

جاؤ نا روحان اسے کہو،،،
روحان کھڑا ہوا اب کبھی وہ شفیق کی طرف دیکھ رہا تھا اور کبھی عنائزہ کی طرف کہ عنائزہ اسے کہہ ہی دے رہنے دو جانے کو لیکن عنائزہ بھی انجان بنی اپنی کمر کو پکڑے ہوئے بیٹھی رہی،،،
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا وہ شفیق کے پاس کھڑا ہوا شفیق خاموشی سے اپنے کام میں مصروف تھا،،،
روحان کو اب یہ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ شفیق کو کہا کہہ کر پکارے اس نے کبھی اس سے بات کی ہو تو ہی پتہ ہو،،،
کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد بھی روحان میں بولنے کی ہمت نہ ہوئی وہ واپس مڑا اور گھر کے اندرونی حصے میں چلا گیا،،،
ارے یہ کہاں چلا گیا،،، عنائزہ بڑبڑائی
کچھ دیر بعد روحان باہر نکلا اور شفیق کی طرف جا کر کچھ قدم دور کھڑا ہوا،،،
یہ کیا کر رہا ہے،،، عنائزہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی جب اگلے ہی پل اس کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا،،،
روحان نے شفیق کی طرف ایک کاغذ پھینکا تھا جو شفیق نے اٹھا کر پڑھنا شروع کیا،،،

"عنائزہ کے لیے ایک عدد امرود کا پودا اور کھانے کے لیے چھوٹے چھوٹے اور کچے امرود لے آئیں"
شفیق نے پڑھ کر پہلے روحان کی طرف دیکھا اور پھر عنائزہ کی طرف،،،
روحان کے بچے تم اتنے بھی معصوم نہیں جتنا میں تمہیں سمجھتی تھی،،، اپنا پلین فیل ہونے پر عنائزہ ہاتھ مسلتی رہ گئی
کوئی بات نہیں اگلی بار تو میں تمہیں بلوا کر رہی رہوں گی،،،
روحان عنائزہ کے پاس آکر بیٹھا،،،
کہہ آئے شفیق کو،،، وہ انجان بنی
کہہ دیا،،، روحان نے نظریں جھکائے جواب دیا
اس کے "کہہ" پر عنائزہ نے دانت پیسے،،،
اب طبیعت کیسی ہے،،، روحان نے اس کی طرف دیکھا
ہاں اب بہتر ہوں،،،


شفیق امرود لے آیا تھا چھوٹے چھوٹے اور کچے امرود جیسا کہ روحان نے اسے لکھ کر دیا تھا،،،
عنائزہ نے امرود کاٹ کر نمک مرچ چھڑک کر اوپر لیمن نچوڑا اور پلیٹ لیے کمرے میں روحان کے پاس آ گئی،،،
آجاؤ روحان کھائیں بڑے مزے کے ہیں،،،
نہیں مجھے پسند نہیں،،، روحان نے میگزین پر سر جھکایا ہوا تھا
اچھا کوئی بات نہیں میں اکیلی کھا لیتی ہوں، اس نے فروٹ فورک سے امرود کا ٹکڑا منہ میں رکھا،،،
ہممم اٹس ڈیلیشیئس،،، وہ مزے سے منہ چلاتی ہوئی کچے امرودوں کو کڑچ کڑچ کر رہی تھی
روحان نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا آخر اسے ان کچے امرودوں میں کیا ڈیلیشیئس لگ رہا تھا،،،
وہ ایک کے بعد ایک ٹکڑا اٹھاتی ہوئی پلیٹ خالی کرنے میں مصروف تھی اب روحان کا بھی دل کرنے لگ گیا کہ یہ ڈیلیشیئس چیز چیک کر کے تو دیکھے کیسی ہے،،،
وہ کھسک کر عنائزہ کے قریب ہو گیا جس سے عنائزہ سمجھ گئی کہ وہ کیا چاہتا ہے،،،

اس نے فورک میں امرود اٹکا کر روحان کی طرف بڑھایا،،،
اب دیکھنا تمہیں کتنا ٹیسٹی لگے گا، عنائزہ مزے سے بولی
روحان نے ٹکڑا منہ میں لیا اور چبانے لگا،،،
اب اس کے منہ سے بھی عنائزہ کی طرح کڑچ کڑچ کی آواز آ رہی تھی،،،
عنائزہ غور سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی تا کہ روحان کے فیس ری ایکشن سے معلوم ہو سکے کہ اسے امرود کیسے لگے،،،
روحان وہ ٹکڑا کھانے کے بعد واپس اپنی جگہ پر آگیا،،،
ہیں۔۔۔ کیا ہوا اچھا نہیں لگا کیا،،، عنائزہ حیران ہوئی
لڑکیوں کے کھانے والی چیز ہے،،، روحان نے پھر سے مگزین کھولتے ہوئے کہا
ہاہاہا۔۔۔ اس کی بات پر کمرے میں عنائزہ کا قہقہ گونجا،،،


رات سونے کے وقت عنائزہ نائٹ ڈریس پہنے واش روم سے باہر آئی،،،
روحان اوپر کمفرٹر لینے لگا تھا جب اس کی نظر عنائزہ کے ڈریس پر پڑی،،،گ
وائٹ کلر کا ملائم چمکتا ہوا ڈریس جو اس کے گھٹنوں تک تھا،،،
روحان نے اسے ایسے ڈریس میں دیکھ کر فوراً نظروں کا رخ بدلا اور کمفرٹر میں گھس کیا،،،
عنائزہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑی ہوئی اور ہاتھوں پہ لوشن لگانے لگی وہ ابھی ابھی روحان کی طرف دیکھ رہی تھی،،،
فارغ ہونے کے بعد وہ روحان کی طرف آئی اور کمفرٹر اٹھائے لیٹنے لگی،،،
روحان ایک دم سے اچھل کر بیٹھا،،،
تم یہاں کیوں لیٹ رہی ہو یہ میری جگہ اور میرا کمفرٹر ہے،،، عنائزہ نے اس کا بوکھلایا ہوا لہجہ نوٹ کیا
تو کیا ہو گیا ہسبینڈ ہو میرے کیا میں تمہارے کمفرٹر میں نہیں سو سکتی،،، عنائزہ نے معصوم منہ بنایا

ٹھیک ہے سو جاؤ،،، روحان کے اتنی آسانی سے ماننے پر عنائزہ کو شوکڈ لگا لیکن اگلے ہی پل اسے دوسرا شوکڈ لگا،،،
روحان بڑے آرام سے عنائزہ کے کمفرٹر میں گھس چکا تھا،،،
آج تو تمہیں نہیں چھوڑوں گی،،، عنائزہ نے دل میں کہا اور اس کی طرف بڑھی
روحان کو جیسے ہی شک ہوا کہ عنائزہ اس کی طرف آرہی ہے تو اس نے دونوں سائیڈز سے کمفرٹر کو اپنے نیچے دبا لیا یہ دیکھ کر عنائزہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا،،،

واہ اتنی تو بیویاں بھی اپنے شوہروں سے نہیں چھپتی ہوں گی جتنا میرا شوہر مجھ سے چھپتا ہے،،، عنائزہ منہ میں بڑبڑائی جو کہ کچھ حد تک روحان کو سمجھ آچکی تھی مگر اس پہ اثر پھر بھی نہ ہوا
عنائزہ نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تو پاؤں والی سائیڈ سے کمفرٹر ڈھیلا تھا وہ دانتوں تلے لب دباتی ہوئی اس سائیڈ آئی اور کمفرٹر اٹھا کر اندر گھسنے لگی،،،
اس کی حرکت پر روحان کی سبز آنکھیں پھیلیں،،،
عنائزہ کھسکتی ہوئی اس کے سینے تک پہنچ چکی تھی اب اس کا چہرہ روحان کے چہرے کے مقابل تھا،،،
ک۔۔کیا ہے،،، روحان ہمت کر کے بولا
تم سے پیار،،، عنائزہ بھی بے شرموں کی سردار بنی
اس کی بات پر روحان نے آنکھیں مزید موٹی کیں،،،
سونا ہے مجھے،،،
تو سو جاؤ میں نے کب کہا مت سو،،،

تم پیچھے ہٹو،،،
کیوں،،،
تو پھر میں سوؤں گا کیسے،،،
جیسےسوتے ہیں ویسے ہی،،،
عنائزہ،،، وہ تنگ آکر بولا
ہائے بولو عنائزہ کی جان،،، اس نے روحان کو آنکھ مار کر کہا
روحان کا چہرہ سرخ ہونے لگا جو دیکھ کر عنائزہ بہت انجوائے کر رہی تھی،،،
پلیز سونے دو،،،
ٹھیک ہے ایک شرط پر،،،
وہ کیا،،، روحان نے اس کی طرف دیکھا
پہلے میرے ساتھ ڈانس کرو
ڈانس لیکن مجھے ڈانس نہیں آتا،،،

کوئی بات نہیں میں سیکھا دوں گی، اس نے کمفرٹر اتارا اور بیڈ سے اتری،،،
روحان منہ بناتا ہوا کھڑا ہوا،،،
عنائزہ نے موبائل پر انگلش سونگ لگایا اور روحان کا ہاتھ پکڑے کھلی جگہ پر آئی،،،
روحان کا ایک ہاتھ اپنی کمر پہ رکھا اور دوسرے میں اپنا ہاتھ دیا،،،
اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اس نے ڈانس شروع کیا،،،
روحان بھی اسے دیکھتا ہوا جیسے تیسے کر رہا تھا،،،
میری آنکھوں میں دیکھو،،، روحان نیچے پاؤں کی طرف دیکھ رہا تھا جب عنائزہ نے کہا

اس نے اپنی نظروں کا رخ عنائزہ کی طرف کیا،،،
کچھ دیر تک وہ یوں ہی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے ڈانس کرتے رہے،،،
عنائزہ نے محسوس کیا کہ روحان نے بے خودی میں اس کی کمر کو دبایا ہے،،،
عنائزہ کا ہاتھ اس کے کندھے سے گردن تک آچکا تھا،،،
وہ اس کے مزید قریب ہو گئی،،،
اگلے پل وہ اس کے سینے سے لگی اور اپنی گرفت کو سخت کیا،،،
جذبات روحان پر بھی ہاوی ہوئے اس نے عنائزہ کی کمر میں بازو ڈال کر اسے دبا لیا،،،

روحان نے پہلی بار ردعمل دیا تھا عنائزہ کا دل دھڑکنے لگا،،،
اس نے روحان کی گردن پر ہونٹ رکھے،،،
سونگ ختم ہونے پر روحان ہوش میں آیا،،،
ہو گیا ڈانس،،، اس نے عنائزہ کو خود سے الگ کیا
عنائزہ کو اس کی یہ حرکت بلکل بھی اچھی نہیں لگی،،،
سو جاؤ،،، وہ اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئی
روحان خاموشی سے اپنی جگہ پر آ کر لیٹ گیا یہ عجب جذبات وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا،،،

کمرے کی لائٹ آف کر دی گئی تھی کچھ دیر تک روحان سو چکا تھا اور عنائزہ کروٹیں بدل رہی تھی،،،
ایک تو روحان اس کا موڈ خراب کیے خود سکون کی نیند سو رہا تھا عنائزہ کو اس پر شدید غصہ آرہا تھا،،،
آدھا گھنٹہ کروٹیں بدلنے کے بعد عنائزہ چپکے سے اٹھی اور لیمپ آن کیا،،،
دراز کھول کر ڈائری نکالی اور پڑھنا شروع کی،،،
ماضی

تقریباً فجر کا وقت تھا جب مریم سوکھے جنگل میں مسلسل بھاگ رہی تھی،،،
اندھیرے میں ہلکی سی روشنی شامل تھی مریم راستہ دیکھ سکتی تھی،،،
وہ ایک جگہ سانس لینے لیے رکی جب اس کو بہت سی آہٹیں سنائی دیں،،،
وہ جلدی سے ایک درخت سے پیچھے چھپ گئی،،،
اس نے دیکھا کہ سیاہ لباس والے پانچ چھ شخص ہاتھوں میں کلہاڑیاں لٹکائے چل رہے تھے،،،
مریم کو یہ پہچاننے میں دیر نہ ہوئی کہ وہ ڈیوِل کے آدمی ہیں لیکن اگلا منظر دیکھ کر اس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی،،،
ان کے پیچھے آنے والے ان ہی جیسے تقریباً دس سیاہ لباس والے شخص تھے ہر ایک شخص کے کندھے پر ایک جوان لڑکی تھی جنہیں شاید انہوں نے بے ہوش کر رکھا تھا،،،

مریم کو یاد آیا کہ ڈیوِل کسی مشن کی بات کر رہا تھا اس نے اپنے منہ پر چینخ نکلنے کے ڈر سے سختی سے ہاتھ رکھا وہ خوف سے کانپ رہی تھی،،،
ان سب کے گزرنے کے بعد مریم درخت کی آڑ سے باہر آئی اب اسے صحیح راستہ بھی معلوم ہو چکا تھا کیوں جہاں سے وہ سب آرہے تھے یقیناً وہی راستہ سڑک تک جاتا تھا،،،

مریم نے بھاگنا شروع کیا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا، دن کی روشنی بڑھتی جا رہی تھی جس وجہ سے اسے راستہ دیکھنے میں کافی آسانی ہو رہی تھی،،،
کچھ دیر تک اس کے سامنے سڑک تھی خوشی سے مریم کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے وہ سڑک کی طرف بھاگی،،،


ان کے سر کا زخم بلکل ٹھیک ہو چکا ہے آج میں انہیں ڈسچارج کر رہا ہوں آپ انہیں گھر لے جا سکتے ہیں،،، ڈاکٹر نے کمال صاحب سے کہا
مگر ڈاکٹر میرا بیٹا کب تک ہوش میں آجائے گا،،، کمال صاحب کو ارسم کے کومہ میں ہونے کی وجہ سے شدید پریشانی تھی،،،
دیکھیے ہم اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے ہو سکتا ہے یہ کچھ ہی دن میں کومہ سے نکل آئیں اور ہو سکتا ہے کہ ساری عمر ہی نہ نکل پائیں بس آپ دعا کرتے رہیے باقی جو اللہ کو منظور،،،
ڈاکٹر اپنی بات کر کے جا چکا تھا لیکن کمال صاحب کو پریشان کر گیا،،،


آپی کہاں چلی گئی آپ، میں کتنا یاد کرتی ہوں آپ کو،،، شہزادی مریم کی تصویر دیکھ کر رو رہی تھی
یا اللہ میری آپی کی حفاظت کرنا،،، اس نے مریم کی تصویر کو سینے سے لگایا
دروازہ کھٹکٹنے کی زور دار آواز نے شہزادی کی توجہ لی،،،
اتنی صبح صبح کون آگیا، وہ آنکھیں صاف کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی،،،
اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے والے شخص کو دیکھ کر اس کا جسم ساکت ہو گیا، وہ بے یقینی کی حالت میں اسے دیکھتی ہی رہی،،،
شہزادی،،، مریم نے روتے ہوئے اسے پکارا

آپی،،، ہوش آنے پر شہزادی بھاگ کر اس کے گلے لگی
وہ دونوں بلند آواز سے رو رہی تھیں کمرے میں بیٹھے جمال صاحب اور صفیہ بیگم پریشانی سے باہر بھاگے،،،
کہاں چلی گئی تھیں آپ آپی،،، شہزادی ہچکیاں لیتی ہوئی بولی
مریم کی نظر اپنے ماں باپ پر پڑی وہ شہزادی سے الگ ہوئی اور ان کی طرف بھاگی،،،
امی جان،،، وہ روتی ہوئی ان کے سینے سے لگ گئی
صفیہ بیگم کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ان کی بیٹی مریم جس کے لیے وہ دن رات دعائیں مانگ رہی تھیں آج وہ ان کے سامنے ہے،،،
مریم،،، انہوں نے مریم کو خود سے الگ کر کے اس کی طرف دیکھا جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہوں کہ کیا واقع ہی وہ مریم ہے،،،

وہ بے یقینی سے اس کا چہرہ چھو کر دیکھ رہی تھیں،،،
مریم میری بچی،،، یقین آنے پر وہ دیوانہ وار مریم کا منہ چومنے لگیں
جمال صاحب بے بس سے ٹوٹے ہوئے باپ کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے،،،
ابو جان،،، مریم نے انہیں پکارا
جمال صاحب چہرے پر ہاتھ رکھے رونے لگے مریم نے آگے بڑھ کر ان کے چہرے سے ہاتھ ہٹایا،،،
ابو جان مت روئیں،،، وہ روتی ہوئی بولی
جمال صاحب نے اپنی بیٹی کو سینے سے لگا لیا ان کے رونے کی آواز بلند ہو چکی تھی،،،


مریم نے نہا کر کپڑے بدلے اور شہزادی نے اس کے زخموں پر مرہم لگائی،،،
صفیہ بیگم نے مریم کو بہت مشکل سے کھانا کھلایا تھا ورنہ وہ جب سے آئی تھی بس روئے جا رہی تھی،،،
کمال صاحب کی ہویلی سے شفیق نے آکر خبر دی کہ ارسم کو گھر لے آئے ہیں،،،
جمال صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور بتایا،،،
ابو جان مجھے ابھی ارسم کے پاس لے چلیں،،، مریم نے پھر سے رونا شروع کیا
لیکن مریم تم اپنی حالت دیکھو تم بیمار ہو اور ابھی تو ہم سب نے تمہیں جی بھر کے دیکھا بھی نہیں ہے ابھی یہاں رہو ہمارے پاس،،، صفیہ بیگم نے کہا
امی میرا جانا بہت ضروری ہے بلکہ آپ سب بھی میرے ساتھ چلیں اور وہیں رہیں یہاں آپ سب محفوظ نہیں ہیں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے،،،

جمال صاحب نے صفیہ بیگم کو مریم سے سوال جواب کرنے پر روک دیا تھا کیوں کہ مریم کی جو حالت تھی ابھی اس سے کسی قسم کے سوال کر کے وہ اسے مزید پریشان اور خوفزدہ نہیں کرنا چاہتے تھے،،،
لیکن آپی یہاں ہمیں خطرہ کیسے ہو سکتا ہے،،، شہزادی نے کہا
مریم کو یاد آیا کہ راحیل شہزادی کو بھی پھنسانے کے چکر میں تھا یہ سوچ کر اس کی پریشانی میں اضافہ ہوا،،،
امی جان ابھی اور اسی وقت آپ سب میرے ساتھ چچا جان کے گھر چلیں ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں و۔۔وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے یہاں ضرور آئے گا،،،
کون آئے گا،،،جمال صاحب نے پوچھا
وہ را۔۔۔ مریم کچھ سوچتے ہوئے خاموش ہوئی
ابو جان میری بات مان لیں ابھی اٹھیں چچا جان کے گھر چلتے ہیں،،، وہ پھرسے رونے لگی
اچھا تم رو نہیں ہم ابھی چلتے ہیں،،،


کمال صاحب اور دردانہ بیگم سے ملنے کے بعد مریم ارسم کے کمرے میں داخل ہوئی،،،
وہ بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹا تھا مریم کو کمال صاحب نے بتا دیا تھا کہ ارسم کے سر میں گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ کومہ میں جا چکا ہے،،،
وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھی،،،
ارسم،،، ایک سسکی کے ساتھ مریم نے اس کا نام پکارا
اس نے ارسم کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا اس کی سسکیاں ارسم کی سماعت میں پڑ رہی تھیں مگر وہ ہوش کی دنیا سے بے خبر تھا،،،
ارسم مجھے معاف کر دیں،،، وہ روتی ہوئی بولی

مجھے معاف کر دیں میری وجہ سے آج آپ اس حال میں ہیں،،،
اس نے ارسم کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ارسم ابھی آنکھیں کھولے گا اور اسے سینے میں چھپا کر محفوظ کر لے گا،،،
وہ اس کا ہاتھ پکڑے رو رہی تھی جب باہر سے راحیل کی آواز سنائی دی،،،
وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی،،،
کیا واقع تایا جان بھابھی آگئی ہیں وہ ٹھیک تو ہیں نا،،، راحیل جمال صاحب سے بات کر رہا تھا مریم کی طرف اس کی کمر تھی،،،
راحییییل،،، مریم اتنی زور سے چلائی کہ سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے
میں تمہیں جان سے مار دوں گی،،، وہ اس کی طرف بھاگی اور اسے کندھے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا

اگلے ہی پل مریم کے سر پر ساتوں آسمان ایک ساتھ ٹوٹ پڑے،،،
راحییییل،،، مریم اتنی زور سے چلائی کہ سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے
میں تمہیں جان سے مار دوں گی،،، وہ اس کی طرف بھاگی اور اسے کندھے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا
اگلے ہی پل مریم کے سر پر ساتوں آسمان ایک ساتھ ٹوٹ پڑے،،،
راحیل کے سر اور چہرے پر زخم تو کیا ایک خروچ کا بھی نشان نہ تھا،،،
ن۔۔۔نہیں ا۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے،،، مریم بے یقینی کی حالت میں اس سے دور ہوئی
کیا ہوا مریم کیوں راحیل کے ساتھ ایسا رویہ کر رہی ہو،،، صفیہ بیگم بولیں
یہ۔۔۔یہ راحیل نہیں یہ تو ڈی۔۔۔
بھابھی آپ ٹھیک تو ہیں اتنی حیران کیوں ہیں،،،مریم بول رہی تھی جب راحیل نے اس کی بات کاٹ دی

ت۔۔تم راحیل نہیں ہو بتاؤ سب کو،،، وہ بے یقینی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کا چہرہ بلکل ڈیوِل جیسا تھا مگر وہ راحیل تھا ابھی رات کو ہی وہ ڈیوِل کو زخمی کر کے آئی تھی مگر راحیل تو بلکل ٹھیک تھا،،،
ت۔۔تم راحیل ہی ہو نا،،، مریم اس کشمکش میں الجھ کر رہ گئی تھی
ہاں بھابھی میں راحیل ہوں کیا ہو کیا گیا ہے آپ کو،،، راحیل اس کے رویے پر پریشان ہونے لگا

آپی آپ کو کیا ہو گیا ہے یوں پاگلوں والی حرکتیں کیوں کر رہی ہیں،،، شہزادی مریم کو دیکھ کر رونے لگی
ت۔۔تم چلو اندر آج کے بعد تم کمرے سے نکلی نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا،،، وہ شہزادی کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کی طرف لے جانے لگی
آپی آپ کو کیا ہو گیا ہے،،، شہزادی اب صحیح میں رونے لگی تھی
سارے گھر والے مریم کی باتوں اور اس کی پاگلوں جیسی حرکتوں پر منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے،،،
مریم نے شہزادی کو کمرے میں بند کر کے باہر سے لاک کر دیا،،،
آپی دروازہ کھولیں کیا ہو گیا ہے آپ کو،،، شہزادی مسلسل دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی
صفیہ بیگم پریشانی سے جمال صاحب کی طرف دیکھنے لگیں،،،
جمال ہماری بیٹی کو کیا ہو گیا ہے،،،

جمال صاحب خود پریشانی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں ساکت کھڑے تھے،،،
مریم بیٹا شہزادی کو کیوں کمرے میں بند کیا ہے،،، آخر دردانہ بیگم نے پوچھا
چ۔۔چچی جان شہزادی کو بھی وہ لے جائے گا ا۔۔اس لیے میں نے اسے یہاں بند کر دیا ہے اب میری بہن محفوظ ہے،،، مریم کی آنکھو سے بہہ رہے تھے مگر اس کا چہرہ بے تاثر تھا
لیکن کون لے جائے گا،،، دردانہ بیگم پریشان ہونے لگیں
و۔۔وہ ن۔۔نہیں یہ۔۔یہ،،، اس نے راحیل کی طرف اشارہ کیا
سب راحیل کی طرف دیکھنے لگے،،
مریم یہ کیا کہہ رہی ہو تم یہ راحیل ہے یہ ایسا کیوں کرے گا،،، صفیہ بیگم بولیں
ا۔۔امی جان یہ راحیل نہیں ہے،،، مریم بھاگ کر صفیہ بیگم کے پاس آئی
یا اللہ میری بچی پہ رحم کر،، مریم میری بچی تمہیں کیا ہو گیا ہے،،، صفیہ بیگم رونے لگیں
صفیہ مریم کو کمرے میں لے کر جاؤ،،، جمال صاحب بولے
صفیہ مریم کو لیے اسی کمرے میں چلی گئی جہاں شہزادی تھی،،،
جمال مجھے مریم کی دماغی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی،،، کمال صاحب نے کہا
اللہ ہم پر رحم کرے،،، جمال صاحب خود پریشانی سے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کرسی پر بیٹھے

صاحب جی پولیس آگئی ہے،، شفیق آکر بولا
ان کو کس نے بلایا،،، کمال صاحب نے پوچھا
میں نے بلایا ہے،،، جمال صاحب نے جواب دیا
ٹھیک ہے اندر آنے دو،، جمال صاحب نے شفیق کو کہا
انسپکٹر شرافت گھر میں داخل ہوا جمال اور کمال سے سلام دعا کر کے مدعے پر آیا،،،
مریم کو باہر بلایا گیا وہ ہاتھ مسلتی ہوئی کرسی پر بیٹھی،،،
گھر کی عورتیں کمرے میں تھیں اور مرد کرسیوں پر بیٹھے تھے،،،
تو مریم بیٹا بتاؤ وہ کون تھا جس نے تمہیں اغواہ کیا،،، شرافت خان بولے
مریم کی نظریں راحیل کی طرف اٹھیں مگر اس کے چہرے پر زخم نہ ہونے کی وجہ سے وہ الجھن کا شکار ہو چکی تھی،،،

انسپکٹر نے مریم کی نظروں کا مرکز نوٹ کیا،،،
بتاؤ بیٹا تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تم اس شخص کو سلاخوں کے پیچھے دیکھو گی،،،
و۔۔وہ شخص،،، مریم شدید گھبرائی ہوئی تھی
ہاں بتاؤ کون تھا وہ شخص، انسپکٹر مریم کے منہ سے راحیل کا نام سننا چاہتا تھا کیوں کہ اسے خود بھی راحیل پر شک تھا،،،
م۔۔میں نہیں جانتی،،، مریم رونے لگی
لیکن تم نے اس شخص کو دیکھا ہو گا آخر تم ایک ہفتہ وہاں رہی ہو کچھ تو معلوم ہوا ہو گا،،،
نہیں مجھے کچھ معلوم نہیں ہے،،،
بیٹا تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سب تمہارے ساتھ ہیں،،، انسپکٹر نے ایک بار پھر کوشش کی
کہا نا مجھے کچھ نہیں معلوم تو مطلب نہیں معلوم،،، وہ چلّانے لگی
جمال صاحب جلدی سے مریم کے پاس آئے،،،
انسپکٹر آپ ابھی چلیں جائیں مریم کی حالت ٹھیک نہیں ہے،،، جمال صاحب مریم کو سینے سے لگائے ہوئے تھے
انسپکٹر نے ایک نظر راحیل کی طرف دیکھا وہ خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھا تھا اس کا چہرہ بے تاثر تھا،،،
ٹھیک ہے جمال صاحب میں ابھی چلتا ہوں لیکن مریم کا بیان بہت ضروری ہے جیسے ہی اس کی طبیعت بہتر ہو آپ مجھے ٹیلی فون کر دیجیے گا،،،
جی ضرور،،، جمال صاحب نے جواب دیا تو شرافت خان گھر سے باہر نکل گئے،،،


ارسم آپ کب ہوش میں آئیں گے آپ کو پتہ ہے مجھے آپ کی بہت ضرورت ہے میں بہت مشکل میں ہوں ارسم پلیز جلدی ہوش میں آجائیں،،، مریم ارسم کے پاس بیٹھی رو رہی تھی
اس نے ارسم کے چہرے پر ہاتھ پھیرا،،،
ارسم آپ مجھ سے سننا چاہتے تھے نا کہ میں آپ سے محبت کا اظہار کروں دیکھو میری بھی ایک شرط ہے میں آپ سے اپنی محبت کا اظہار کروں گی اور آپ ہوش میں آجانا ٹھیک ہے،،،
ارسم میں آپ سے م۔۔محبت کرتی ہوں صرف آپ سے محبت کرتی ہوں،،، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
میری زندگی میں کوئی اور نہیں آ سکتا ارسم کوئی میرے دل میں آپ کی جگہ نہیں لے سکتا اور وہ ڈیوِل تو کبھی بھی نہیں،،،
آپ کو پتہ ہے اس نے مجھے کتنا مجبور کیا کہ میں آپ کو بھول جاؤں ل۔۔۔لیکن میں تو آپ سے محبت کرتی ہوں نا تو آپ کو کیسے بھول سکتی ہوں آ۔۔آپ تو میرے نس نس میں بسے ہو آپ کے بغیر تو میں ادھوری ہوں ارسم،،، آنسو اس کی آنکھوں سے مسلسل بہہ رہے تھے
ارسم اب اٹھ جائیے نا دیکھیں میں نے آپ سے محبت کا اظہار کر دیا،،،
ارسم پلیز اٹھ جائیں مجھے آپ کی ضرورت ہے میں کمزور ہوں ارسم میری طاقت آپ ہو،،، اس نے روتے روتے ارسم کے سینے پر سر رکھا


اگلی رات ڈیوِل اور اس کے سبھی آدمی بڑے حال میں اکٹھے ہوئے تھے،،،
دیوِل کے سر پر پٹی بندھی تھی اور اس کے ایک رخسار پر کانچ کا ٹکڑا گہرا کٹ چھوڑ گیا تھا،،،
ڈیوِل نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو سختی سے جکڑا،،،
میرّی تمہیں یہاں آنا ہی پڑے گا چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے….کچھ بھی،،، ڈیول نے سرگوشی نما کہا
حال
جمائی لیتے ہوئے عنائزہ نے ڈائری کو پھر سے دراز میں رکھا اور روحان کے کندھے پر سر رکھ کر سو گئی


روحان میں بہت بور ہو رہی ہوں چلو نا جنگل میں کھلیتے ہیں،،، دوپہر کے وقت عنائزہ روحان کو بار بار تنگ کر رہی تھی
میرا دل نہیں کر رہا،،، روحان کو آج نہ جانے کس چیز کی سستی پڑی تھی
اففف روحان تم اٹھ رہے ہو کہ نہیں،،، عنائزہ نے پھر سے تنگ کیا
آخر روحان ہتھیار پھینکتا ہوا اٹھ ہی گیا،،،
او ییس،،، عنائزہ خوشی سے اچھل پڑی
گیٹ سے بار دائیں جانب جنگل تھا جس کے سیدھے لمبے پیڑ بلندی کو چھوتے تھے،،،
عنائزہ روحان کو لیے جنگل میں داخل ہوئی یہاں سے پیڑ کافی فاصلے پر تھے،،،
روحان چلو تم آنکھیں بند کر کے دس تک کاؤںٹنگ کرو پھر میں چھپوں گی اور تم مجھے ڈھونڈو گے،،،
روحان آئبرو اچکاتا ہوا بنا کچھ کہے پیڑ کی طرف رخ کیے آنکھیں بند کر کے کھڑا ہو گیا،،،
ون،
ٹو،
تھری،
روحان نے کاؤنٹنگ سٹارٹ کر دی تھی،،،
عنائزہ دبے پاؤں دور جا کر ایک پیڑ کے پیچھے چھپ گئی،،،
ایٹ،
نائن،
ٹین،
اب روحان مڑا اور دیکھنے لگا عنائزہ کس پیڑ کے پیچھے ہے،،،
ایک کے بعد ایک پیڑ چیک کرتا ہوا وہ آگے بڑھ رہا تھا اور اسے دیکھ کر عنائزہ بھی دبے پاؤں اگلے سے اگلے پیڑ کی طرف بھاگتی ہوئی چھپ جاتی،،،
تین سے چار منٹ گزر چکے تھے اب روحان بور ہو چکا تھا،،،
عنائزہ میں بور ہو رہا ہوں،،، روحان ڈھیلا سا منہ لیے بولا
عنائزہ نے اس کی طرف دیکھ کر ہنسی دبائی،،،
روحان نے پھر سے اسے ڈھونڈنے کی کوشش جاری کی،،،
کھیلنے کے چکر میں وہ گھنے جنگل میں داخل ہو چکی تھی،،،

عنائزہ کہاں ہو،،، روحان کا اب بلکل موڈ بگڑ چکا تھا
عنائزہ نے ہنستے ہوئے اپنا رخ سیدھا کیا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا،،،
وہ ساکت کھڑی اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھتی رہی یہ کیسے ممکن تھا عنائزہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا،،،
وہی سیاہ لباس، سیاہ ہڈی سر پر لیے وہ شخص اس کے سامنے کھڑا تھا اس کے صرف ہونٹ ہی نظر آہے تھے،،،
کون ہو تم،،، عنائزہ نے حیرت سے پوچھا
وہ شخص خاموش رہا،،،
پھر اس کے دیکھتے دیکھتے ہی وہ شخص مڑا اور تیز قدموں سے چلنے لگا،،،
رکو،، عنائزہ نے اسے آواز لگائی
اس شخص کے قدموں میں مزید تیزی آئی،،،
عنائزہ بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگی عنائزہ کے قدموں کی آواز سن کر وہ شخص بھی بھاگنے لگا،،،
میں کہتی ہوں رک جاؤ،،،
وہ بنا پیچھے مڑے بھاگے جا رہا تھا،،،

عنائزہ بھاگتی ہوئی پیڑ سے ٹکرائی اور زمین پر گر گئی،،،
آہ… اس کے سر پر چوٹ لگ چکی تھی،،،
وہ ہمت کر کے اٹھی اور پھر سے بھاگنے لگی مگر اب وہاں اس شخص کا نام و نشان نہ تھا
عنائزہ گھر کی طرف واپس آرہی تھی جب روحان نے اسے دیکھا،،،
چوٹ کیسے لگی،،، اس نے پریشانی سے پوچھا
کچھ نہیں ہوا ٹھیک ہوں میں،،،
عنائزہ،،، روحان نے پھر سے اسے پکارا
عنائزہ چپ چاپ گھر میں داخل ہو گئی،،،
اپنے کمرے میں آکر وہ پریشانی سے بیڈ پر بیٹھی سوچنے لگی،،،
کیا یہ میرا وہم تھا،،،
کیا یہ وہی شخص تھا،،،
اگر یہ وہی شخص تھا تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے،،،
وہ شخص یہاں کیسے،،،
عنائزہ نے پریشانی سے اپنے سر پر ہاتھ رکھا،،،


شام تک عنائزہ نے روحان سے کوئی بات نہ کی تھی روحان بہانے بہانے سے کئی بار کمرے میں آیا لیکن عنائزہ خاموش رہی،،،
روحان پریشان تھا کہ یوں اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ عنائزہ کا اچھا بھلا موڈ بگڑ گیا،،،
شاید میں عنائزہ کو ڈھونڈ نہیں پایا اسی لیے وہ مجھ سے خفا ہے،،، روحان لان میں بیٹھا سوچ رہا تھا
مگر اس کے سر پر چوٹ کیسی،،، اس بات سے وہ شدید پریشان تھا
ایک بار پھر سے کوشش کرتے ہوئے وہ روم کی طرف چل پڑا،،،
چوروں کی طرح کمرے میں داخل ہوا اور بیڈ پر بیٹھ گیا،،،
تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ کن اکھیوں سے عنائزہ کی طرف دیکھتا،،،
عنائزہ کو اس کی سبھی حرکتوں کا پتہ چل رہا تھا مگر اپنی پریشانی کی وجہ سے خاموش بیٹھی رہی،،،
روحان نے اس کی پیشانی کی طرف دیکھا عنائزہ نے ابھی تک وہاں بینڈیج نہیں لگائی تھی،،،

وہ اٹھا اور وارڈ ڈراب سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر عنائزہ کے پاس آکر بیٹھا،،،
عنائزہ ابھی بھی خاموش بیٹھی تھی،،،
روحان نے باکس کھولا اور بینڈیج نکال کر عنائزہ کے زخم پر لگائی،،،
عنائزہ کی نظریں روحان پر اٹھیں،،،
اسے روحان کے اندر اس کی ماں مریم کا عکس نظر آرہا تھا،،،
روحان کی دادو اسے یہاں کیوں لے کر آئیں کیا روحان کی زندگی کو کسی سے خطرہ تھا،،،
اگر تھا بھی تو کس سے،،،
کہیں یہ شخص وہی تو نہیں،،،
کہیں وہ اب روحان کے پیچھے،،،
مریم روحان کی طرف دیکھتی ہوئی سوچ رہی تھی،،،
روحان تم جاؤ مجھے کچھ دیر اکیلے رہنا ہے،،،
مریم کی بات پر روحان اداس چہرہ لیے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا،،،
عنائزہ نے ڈائری نکالی اور پھر سے پڑھنا شروع کی،،،
ماضی

شہزادی کھانا مل سکتا ہے،،، شہزادی کچن میں کھڑی کھانا بنا رہی تھی جب راحیل بولا
جی دیتی ہوں،،،
مریم کچن میں پانی پینے آئی جب اس نے راحیل کو شہزادی سے بات کرتے دیکھا،،،
کیا بات کر رہے تھے میری بہن کے ساتھ،،، مریم شہزادی کے ساتھ جا کر کھری ہو گئی
کچھ نہیں بھابھی میں تو…
میں تو کیا ہاں کیا میں تو،،، مریم چلاّنے لگی
آپی کیا ہو گیا ہے راحیل صرف کھانا لینے آئے تھے،،،
تو عقیلہ سے کہے نا تمہیں کیوں کہہ رہا ہے،،، وہ غصے سے بولی
آپی،،، شہزادی حیران ہوئی

تم چپ رہو تم آئندہ مجھے اس شخص کے پاس دکھائی مت دینا،،، مریم نے انگلی دکھا کر شہزادی کو وارن کیا
اور تم،،، اب اس کی انگلی راحیل کی طرف اٹھی
تم آئندہ میری بہن کے قریب بھی آئے نا تو اچھا نہیں ہو گا سمجھ آئی تمہیں،،، وہ چلّائی
کیا ہو گیا ہے کیوں چلّا رہے ہو سب،،، دردانہ بیگم کچن میں داخل ہوئیں
چچی جان اس شخص کو گھر سے نکال دیں ورنہ سب پچھتائیں گے سب پچھتائیں گے،،، مریم بوکھلائی ہوئی تھی
مریم بیٹا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تم آرام کرو،،، دردانہ بیگم نے اسے کندھے سے پکڑا،،،
میں ٹھیک ہوں چچی جان مگر یہ یہ وہ نہیں ہے جو آپ سب سمجھ رہے ہو یہ کوئی اور ہے،،، مریم بول رہی تھی اور راحیل حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا
شہزادی تم بھی آؤ میرے ساتھ،،،
شہزادی بھی مریم کے ساتھ کچن سے باہر نکل گئی،،،


میں تو بہت پریشان ہوں میری بچی کو پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے کیسی بہکی بہکی باتیں کرتی ہے عجیب پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگ گئی ہے،،، صفیہ بیگم روتی ہوئی کہہ رہی تھیں
حوصلہ رکھو صفیہ اللہ سب ٹھیک کر دے گا،،، دردانہ بیگم نے اسے سمجھایا
جمال بھائی مریم نے انسپکٹر کو بھی کچھ نہیں بتایا آخر وہ وہاں ایک ہفتہ رہ چکی ہے اسے کچھ تو معلوم ہوا ہو گا ان لوگوں کو دیکھا ہو گا ان سے بات کی ہو گی لیکن وہ نہ جانے کیوں نہیں بتا رہی،،، کمال بھائی نے کہا
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ راحیل کے بارے میں نہ جانے کیا کیا بول رہی ہے،،، دردانہ بیگم نے کہا
نہ جانے اسے کیا ہو گیا ہے کونسا راز دل میں چھپائے بیٹھی ہے جو اندر ہی اندر اسے کھائے جا رہا ہے،،، صفیہ بیگم پھر سے رونے لگیں
ہمیں اس سے پوچھنا ہو گا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے جس کا اثر اس کے دماغ پر بھی پڑ رہا ہے،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 10)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں