پُراسرار حویلی - پارٹ 8

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 8

اس لئے میں آج آدھی رات کے بعد گئی تھی ۔ ورنہ میں عام طور پر جمعرات کو دن کے وقت ہی جایا کرتی تھی ۔‘‘ میں بڑے غور سے اس کی کہانی سن رہا تھا۔ چائے کی پیالی میرے سامنے میز پر اسی طرح پڑی تھی اور میں اس عورت کی خوفناک کہانی سننے میں اس قدر محو تھا کہ مجھے چاۓ کا خیال ہی نہیں رہا تھا۔ اس نے کہا۔’’ بھائی جان چاۓ پیجئے نا۔ ٹھنڈی ہو جاۓ
’’اوه . . . . . شکریہ !‘‘ میں نے چائے کی پیالی اٹھالی اور اس کا ہلکا سا گھونٹ بھرا۔ چائے کا ذائقہ بڑا خوشگوار تھا۔ اس میں سے الائچی کی ہلکی ہلکی خوشبو آرہی تھی ۔ کہنے گئی۔’’ آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ اس میں الائچی کی خوشبو ہے۔ دراصل میں چاۓ میں ہمیشہ ایک الائچی ڈال لیا کرتی ہوں۔ ہمارے مرشد نے جب میں ابھی دسویں جماعت میں پڑھتی تھی تو میری والدہ کو ہدایت کی تھی کہ اس لڑکی کو جب بھی چاۓ یا دودھ پلاؤ اس میں بسم اللہ پڑھ کر ایک الائچی ضرور ڈال دیا کرو۔ میری والدہ اس کے بعد ہمیشہ میری چاۓ یا گرم دودھ میں الائچی ڈال دیا کرتی تھیں ۔
ان کی وفات کے بعد جب میری شادی ہو گئی تو میں نے اس روایت کو اب تک قائم رکھا ہوا ہے ۔اگر آپ کو ذائقہ اچھا نہیں لگا تو میں دوسری چاۓ بنا کر لے آتی ہوں ۔‘‘ میں نے کہا۔ ” نہیں، نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ الائچی سے تو چاۓ کا ذائقہ بڑا خوشگوار ہو گیا ہے۔ آپ یہ سنائیں کہ پھر کیا ہوا؟‘‘ پہلی بار میں نے اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوتے دیکھی ۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ بے چاری غم زدہ ماں کا کچھ تو غم ہلکا ہوا۔ کہنے لگی ۔’’ آپ ساتھ ساتھ چائے بھی پیتے جائیں۔ میں ہمیشہ گرم چاۓ پیتی ہوں۔ چاۓ ٹھنڈی ہو جاۓ تو شربت بن جاتی ہے ۔‘‘
میں نے بھی اس کے سامنے پہلی بار مسکراتے ہوئے کہا۔" یہ تو آپ ٹھیک کہتی ہیں ۔ “ ۔
اور میں چاۓ کا ایک اور گھونٹ بھر کر اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وہ کہہ رہی تھی۔ میں بیٹی کی قبر پر بیٹھی فاتحہ پڑھنے کے بعد اس کی مغفرت کے لئے دعا مانگنے لگی۔ قبرستان میں بڑی ڈراؤنی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ رات کے وقت میں کبھی قبرستان میں نہیں آئی تھی۔ مجھے بڑا ڈر لگ رہا تھا۔ لیکن یہ خیال کہ میں اپنی بیٹی کی قبر پر بیٹھی ہوں مجھے حوصلہ دے رہا تھا۔ اس کے باوجود قبرستان قبرستان ہی ہوتا ہے۔ کسی وقت لگتا کہ کوئی میرے پیچھے آکر چپکے سے کھڑا ہو گیا ہے۔ میں دعا مانگتے مانگتے نہ چاہتے ہوۓ بھی پیچھے دیکھ لیتی۔ پیچھے سوائے درختوں ، جھاڑیوں اور رات کے اندھیرے میں دھندلی قبروں کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔
کسی وقت ایسے محسوس ہوتا جیسے کوئی روح میرے قریب سے ہو کر گزر گئی ہو ۔ دہشت کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ۔ پھر ایسا ہوا کہ .....
وہ رک گئی اور چائے پیتے ہوئے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے اس کا دیکھنا کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ میں نے بھی چاۓ کا ایک گھونٹ لیا اور بڑے اشتیاق کے ساتھ پوچھا۔ ”ایسا کیا ہوا؟‘‘
اس نے کہا۔ ” پھر ایسا ہوا کہ مجھے اپنی بیٹی سکینہ کی آواز سنائی دی۔‘‘ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کہا۔ ”مگر آپ کی بیٹی تو فوت ہو چکی تھی۔ پھر اس کی آواز کہاں سے آگئی؟“
بڑے سنجیدہ لہجے میں بولی۔” یہی سوچ کر میں حیران ہوئی تھی۔ پہلے تو خیال آیا کہ یہ میرا وہم ہے ۔ مرے ہوؤں کی آوازیں نہیں آیا کرتیں ۔ لیکن جب دوسری اور تیسری بار وہی آواز سنائی دی تو مجھے یقین کرنا ہی پڑا کہ میری بیٹی مجھے آواز دے رہی ہے۔“ ۔
میں اس کی پراسرار کہانی میں محو ہو چکا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بچپن میں ہم نانی اماں سے چڑیلوں کی کہانیاں سنتے سنتے ان میں کھو جاتے تھے۔ میں نے پوچھا۔ ”کیا وہ آپ کا نام لے کر آواز دے رہی تھی؟
“ وہ کہنے لگی۔ ” میں آپ کو پورا فقرہ سناتی ہوں جو وہ بول رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ اماں ! میرے پاس آکر مجھے پیار کرو۔ تم تو مجھے بہت پیار کیا کرتی تھیں۔ اماں! میرے پاس آکر مجھے پیار کرو۔ تم تو مجھے بہت پیار کیا کرتی تھیں ..... مگر یہ آوازیں کہاں سے آرہی تھیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے کہا۔ پہلی بار میں نے یہ آواز سنی تو مجھے ایسے لگا تھا کہ جیسے یہ آواز میری دائیں جانب سے آ رہی ہو ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے دائیں جانب دیکھا۔ اس طرف کچھ نہیں تھا۔ پھر میں نے بائیں جانب دیکھا۔ اس طرف بھی کچھ نہیں تھا۔ جب تیسری بار آواز آئی تو میری بیٹی نے کہا۔ اماں ! میں قبر کے اندر سے بول رہی ہوں۔ مجھے قبر کے اندر آ کر پیار کرو ..... خوف کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ جب ایک بار پھر میری بیٹی نے کہا کہ اماں ! میں قبر کے اندر سے بول رہی ہوں مجھے قبر کے اندر آ کر پیار کرو تو مجھے ایسے لگا جیسے میرا سارا جسم پتھر کی طرح ساکت ہو گیا ہے ۔
میری بیٹی کی آواز ایک بار پھر آئی۔ اس نے کہا۔ اماں !ڈرو نہیں۔ میں قبر میں پھولوں کے بستر پر لیٹی ہوئی ہوں ۔ اماں ! بے شک مجھے دیکھ لو۔ میں تمہیں اپنا پلنگ دکھاتی ہوں ..... میری آنکھیں خود بخود بیٹی کی قبر کی طرف اٹھ گئیں اچانک قبر شق ہو گئی۔ پھٹ کر الگ الگ ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ قبر کے گڑھے کے اندر میری بیٹی گھٹنوں کے بل دوہری ہو کر اس طرح بیٹھی ہے کہ اس کے سر کے لمبے بال کھینچ کر پیچھے اس کے مخنوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور اس کے سارے جسم کے ساتھ سانپ چمٹے ہوئے ہیں جو اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھار ہے ہیں ..... میرے خدا۔" اس عورت نے چائے کی پیالی میز پر رکھ دی اور کانوں کو ہاتھ لگا کر بولی۔
’’اپنی بچی کی یہ حالت دیکھ کر میں ڈر بھی گئی اور مجھے بڑا شدید بھی ہوا۔ بس اس کے بعد نہیں معلوم کہ مجھے کیا ہو گیا۔ ایک چیخ میرے حلق سے نکلی اور میں نے اٹھ کر بے اختیار دوڑنا شروع کر دیا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ اس نے ذرا آگے کو ہو کر میری طرف دیکھا اور پوچھا۔ " پیارے بھائی جان! کیا آپ نے کبھی ایسا ڈراؤنا منظر دیکھا ہے ؟‘‘ میں نے ساری چائے اس دوران پی لی تھی۔ خالی پیالی ابھی تک میرے ہاتھوں میں تھی۔ میں اس عورت کی کہانی سننے میں اس قدر کھو چکا تھا کہ مجھے خالی پیالی میز پر رکھنی بھی یاد نہیں رہی تھی۔
میں بھی اس عورت کو علقکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے مجھے اس عورت کے دو چہرے نظر آنے لگے۔ مگر یہ دو چہرے نہیں تھے ایک ہی چہرہ تھا جو دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔ کسی وقت دونوں چہرے آپس میں مل جاتے اور دوسرے ہی لمحے پھر الگ الگ ہو جاتے تھے۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔اپنے آپ ہی دل میں خیال آ گیا کہ یہ کل کی اور آج کی رات کا جگا ہوں جس کی وجہ سے میرا ذہن نیند نہ لینے کی وجہ سے تھکن سے چور ہو کر مجھے ایک کی دو دو شکلیں دکھانے لگا ہے ۔ وہ عورت میری طرف مزید جھک گئی۔ اس نے پھر وہی بات کی ۔ کیا آپ نے بھی ایسا ڈراؤنا منظر دیکھا ہے ؟“ مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ میں نے کچھ بولنے ، کوئی جواب دینے کی کوشش کی تھی مگر میرے ہونٹوں نے اپنی جگہ سے ہلنے سے انکار کر دیا تھا۔
مجھے اپنے ہونٹ بڑے بھاری محسوس ہونے لگے تھے۔ وہ عورت میرے سامنے بیٹھی میری طرف جھک کر مجھ سے پوچھ رہی تھی۔ ” بھائی جان ! میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ کیا آپ نے بھی زندگی میں ایسا ڈراؤنا منظر دیکھا ہے ؟“
اس وقت میں نے اپنے حلق سے ہونٹوں کو ہلائے بغیر غوں غاں ایسی آواز نکلتی سنی اور اس کے بعد میر اسر بھاری ہونے لگا۔ بھاری ہوتے ہوتے وہ اتنا بھاری ہو گیا کہ میں اسے سنبھال نہ سکا اور وہ کبھی دائیں اور کبھی بائیں اس طرح اپنے آپ گرنے لگا جیسے آدمی کو اونگھ آجاۓ تو اس کا سر اپنے آپ ایک طرف کو گر جاتا ہے۔ اس کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میرے ہاتھ میں پڑی ہوئی چائے کی خالی پیالی گر پڑی تھی۔ پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔
ہوش اس وقت آیا جب میں نے دیکھا کہ میں ایک سٹریچر پر پڑا ہوں۔ میرے دونوں ہاتھ پاؤں رسیوں سے سٹریچر کے ساتھ اس قدر سختی سے بندھے ہوئے ہیں کہ میں انہیں ذرا سا بھی نہیں ہلا سکتا۔ چمڑے کی ایک بیلٹ میرے سینے پر بھی بندھی ہوئی تھی۔ چمڑے کی ایک بیلٹ میرے سر پر اس طرح باندھی گئی تھی کہ میں اپنا سر دائیں، بائیں بالکل نہیں ہلا سکتا تھا۔ میں پوری طرح سے اپنے ہوش و حواس میں واپس آ چکا تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ جہاں مجھے سٹریچر پر باندھ کر رکھا گیا ہے وہاں کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں۔
مجھے ان کی دھیمی سرگوشیوں میں باتیں کرنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ اوپر چھت پر بجلی کا ایک بلب روشن تھا۔ میری آنکھیں کھلی تھیں۔ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر میرے ہونٹ اسی طرح پتھر کی طرح سخت اور بھاری تھے اور میں انہیں الگ نہیں کر سکتا تھا۔
مجھے انسانی قدموں کی مدھم چاپ سنائی دی۔ پھر میں نے دیکھا کہ دو عورتیں میرے دائیں اور بائیں آکر کھڑی ہو گئی ہیں۔ دونوں گورے رنگ کی دراز قد اور بڑی خوبصورت عورتیں تھیں۔ انہوں نے سیاہ لمبے کرتے پہنے ہوئے تھے ۔ سر کے بال شانوں پر بکھرے ہوۓ تھے ۔ چہروں پر بڑا گہرا میک اپ کیا ہوا تھا۔ ان کی سیاہ آنکھوں میں بلی کی آنکھوں کی سی چہک تھی۔ وہ ساکت چہروں سے میری طرف دیکھ رہی تھیں ۔ پھر وہ دونوں جھک گئیں۔ ان کے لباس سے عجیب سی طلسمی خوشبو آ رہی تھی۔ انہوں نے جھک کر میرے سٹریچر کو سرہانے کے جانب سے اتنا اوپر اٹھا دیا کہ مجھے سامنے کا منظر نظر آنے لگا۔
میرا سٹریچر سرہانے کی جانب سے ذرا سا اوپر اٹھا کر وہ چلی گئیں۔ میں نے دیکھا کہ یہ کسی پرانے ویران محل کا ایک ویران سا کمرہ ہے ۔ دیواروں پر کہیں سرخ اور کہیں نیلا روغن پھرا ہوا ہے۔ دیواروں پر ایک دو مزید بجلی کے بلب روشن ہیں۔ دیواروں کے سرخ اور نیلے روغن کی وجہ سے کمرے کی فضا نیم روشن ، دھندلی دھندلی اور آسیب زدہ ماحول والی معلوم ہو رہی تھی۔ -
میرے سامنے چند قدموں کے فاصلے پر میری ہی طرح کا ایک اور سٹریچر دیوار کے ساتھ پڑا تھا۔ وہ بھی سرہانے کی جانب سے تھوڑا سا اوپر کو اٹھا ہوا ہے۔ بلب کی روشنی میں ، میں نے دیکھا کہ اس سٹریچر پر میری ہی طرح ایک نوجوان لڑکی رسیوں اور چمڑے کی بیلٹوں سے جکڑی ہوئی ہے ۔ بلب کی روشنی میں مجھے اس کی کھلی ہوئی آنکھیں صاف نظر آرہی تھیں۔ وہ بد قسمت لڑکی بھی ہوش میں تھی اور میری طرح وہ بھی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ کمرے کے کونوں میں اندھیرا اندھیرا سا تھا۔ کمرے میں سیاہ لبادوں اور کھلے بالوں والی چار پانچ عورتیں ادھر ادھر بڑے پراسرار طریقے سے چل پھر رہی تھیں۔ ۔
میرے لئے یہ سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ مجھے یہاں کس لئے لایا گیا ہے اور وہ عورت کون تھی جو مجھے بادامی باغ کے قبرستان کے باہر ملی تھی اور اپنی درد ناک اور ڈراؤنی کہانی سنا کر مجھے اپنے گھر لے گئی تھی اور پھر اس نے چائے پلا کر مجھے بے ہوش کر دیا تھا۔ وہ عورت مجھے ان عورتوں میں کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ عورتیں میرے ساتھ کیا سلوک کرنے والی تھیں ۔ آخر مجھے اس طرح سٹریچر پر کیوں جکڑا گیا ہے ۔ میں بول بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے ہونٹ ابھی تک بند تھے ۔
میں کوشش کے باوجود انہیں ہلانے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ شاید یہ اس بے ہوشی کی دوا کا اثر تھا جو چاۓ میں ملا کر مجھے اس عورت نے پلا دی تھی۔ میں سامنے چند قدموں کے فاصلے پر ذرا سے اوپر کو اٹھتے ہوئے سٹریچر پر جکڑی ہوئی لڑکی کو دیکھ رہا تھا کہ یہ بھی میری طرح کی کوئی بد قسمت لڑکی ہے جو اس عورت کے پھندے میں آکر یہاں پہنچا دی گئی ہے۔ مگر یہ سیاہ پوش عورتیں کون تھیں؟ یہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرنے والی تھیں۔ پانچوں کی پانچوں سیاہ پوش عورتیں کمرے سے چلی گئیں۔
کمرے میں ، میں اور لڑکی سٹریچروں پر جکڑے ہوئے اکیلے رہ گئے۔ میں بول نہیں سکتا تھا۔ شاید لڑکی بھی میری طرح نہیں بول سکتی تھی۔ شاید اس کے ہونٹ بھی میرے ہونٹوں کی طرح پتھر بن چکے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ مجھ سے ضرور پوچھتی کہ یہ لوگ ہمیں یہاں کیوں لاۓ ہیں ؟ ہمیں سٹریچروں پر کیوں جکڑا گیا ہے ؟ مگر میری طرح وہ بھی صرف دیکھ سکتی تھی بول نہیں سکتی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں بول نہیں سکتا لیکن اپنے حلق سے غوں غاں کی آوازیں نکال کر ہی اسے اپنے زندہ ہونے کا یقین دلاؤں۔ میں نے حلق سے آواز نکالنے کی کوشش کی تو سواۓ خرخراہٹ کی آواز کے میرے حلق سے اور کوئی آواز نہ نکلی ۔ شاید لڑکی کی بھی ایسی ہی حالت تھی۔ چند قدموں کے فاصلے پر میرے سامنے وہ بھی سٹریچر پر جکڑی ہوئی میری طرف بے بسی سے دیکھ رہی تھی۔ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے مگر بول نہیں سکتی۔
اتنے میں کمرے کے کونے میں جہاں اندھیرا اندھیرا سا تھا چاروں سیاہ فام عورتیں برآمد ہوئیں۔ انہوں نے ہاتھوں میں شمع دان تھام رکھے تھے۔ ہر شمع دان کے اوپر تین تین موم بتیاں روشن تھیں۔ وہ سیاہ پوش روحوں کی طرح آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس طرف آ رہی تھیں جہاں میں اور لڑکی سٹریچروں پر جکڑے ہوۓ تھے ۔ وہ زیر لب کچھ پڑھ رہی تھیں۔ ان کے الفاظ میری سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ قریب آنے کے بعد وہ سیاہ پوش عورتیں لڑکی کے سٹریچر کی طرف چلی گئیں اور اس کے ارد گرد چکر لگانے لگیں۔ دو سیاہ پوش عورتیں میرے سٹریچر کے گرد چکر لگانے لگیں۔ وہ قدم قدم چل کر منہ ہی منہ میں بڑ بڑائی ایسے چکر لگا رہی تھیں جیسے کوئی طلسمی عمل کر رہی ہوں۔ مجھے ان کی سرگوشیوں ایسی دھیمی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ کیا پڑھ رہی تھیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ہمارے گرد چھ سات چکر لگانے کے بعد وہ ایک قطار میں ہو گئیں اور کمرے کے دوسرے کونے کی طرف چلی گئیں۔ میں گردن تو نہیں گھما سکتا تھا صرف آنکھیں گھما کر جس قدر دیکھ سکتا تھا انہیں دیکھ رہا تھا اور دل میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ خدا جانے یہ میرے ساتھ کیا کرنے والی ہیں۔ ۔
کمرے کے دوسرے نیم روشن کمرے میں جا کر انہوں نے شمع دان دیوار کے ساتھ بنے ہوۓ میٹل پر رکھ دیئے اور شمع دانوں میں جلتی موم بتیوں کے آگے سر جھکا کر کچھ دیر تک ساکت کھڑی رہیں۔ پھر واپس پلٹ کر ہماری طرف بڑھنے لیں۔ جب وہ ذرا قریب آئیں تو یہ دیکھ کر میری روح لرز اٹھی کہ ان میں سے ہر سیاہ پوش عورت کے ہاتھ میں چمکتی ہوئی دھار والا خنجر تھا۔ خنجر انہوں نے ایسے پکڑ رکھا تھا جیسے کسی کے پیٹ میں گھونپنے جارہی ہوں۔ انہوں نے ایسے سر جھکا رکھے تھے جیسے وہ کوئی بڑی مقدس رسم ادا کر رہی ہوں ۔ وہ سب سے پہلے لڑکی کے سٹریچر کی طرف گئیں ۔ چاروں عورتیں لڑکی کے سٹریچر کی بائیں جانب بڑے ادب کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ میں یہ منظر سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

پُراسرار حویلی - پارٹ 9

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں