پُراسرار حویلی - پارٹ 9

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 9

پھر ان میں سے ایک سیاہ پوش عورت سٹریچر کے پاس آ گئی۔ تو سیاه پوش عورت نے دونوں بازو پھیلا دیئے اور چہرہ اوپر اٹھا کر حلق سے ایسی چیخ سی آواز نکالی کہ میری روح تک کانپ گئی۔

آپ اندازہ نہیں کر سکتے ہیں کہ سٹریچر پر جکڑی ہوئی لڑکی کا کیا حال ہو رہا تھا جو بد قسمت بول بھی نہیں سکتی تھی ، آواز بھی نہیں نکال سکتی تھی۔ چیخ مارنے کے بعد عورت نے خنجر کی نوک لڑکی کے پیٹ کے اوپر رکھ کر ایک چیرا دیا۔ لڑکی کے پیٹ میں سے سرخ سرخ خون کی دھار نکل کر بہنے لگی۔ چھت پر لگے بجلی کے بلب کی روشنی میں مجھے سب کچھ بالکل صاف دکھائی دے رہا تھا۔ جیسے ہی خون کی سرخ دھار نکلی سیاہ پوش عورت نے اس پر اپنا منہ رکھ دیا اور اس طرح گھونٹ بھرنے لگی جیسے خون پی رہی ہو۔

لڑکی کے حلق سے نکلنے والی تکلیف دہ خرخراہٹ کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔ سیاہ پوش عورت نے خون کے تین چار گھونٹ پینے کے بعد منہ اوپر اٹھایا تو اس کے ہونٹ خون سے سرخ ہو رہے تھے ۔ سیاہ پوش عورت پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے فورا بعد تینوں سیاہ پوش عورتیں آگے بڑھیں اور باری باری بد نصیب لڑکی کے خون سے اپنی پیاس بجھانے لگیں۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ان خون آشام عورتوں کا تعلق خون پینے والی ویمپائر عورتوں کے قبیلے سے ہے۔ میں یہ بھی سمجھ گیا تھا کہ تھوڑی دیر میں میرا بھی یہی حشر ہونے والا تھا۔ میں نے دل میں گڑ گڑا کر خدا سے اپنی زندگی کی دعائیں مانگنی شروع کر دیں کہ یا اللہ پاک مجھے ان منحوس چڑیلوں سے اپنی پناہ میں رکھنا۔

میں خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ مجھے اپنا خوفناک خونی انجام صاف نظر آرہا تھا۔ میں اس گھڑی کو کوس رہا تھا جب میں بادامی باغ کے قبرستان سے اس منحوس عورت کے ساتھ چل پڑا تھا۔ مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔

صرف خدا کی ذات ہی مجھے ان خونخوار بلاؤں سے نجات دلا سکتی تھی۔ جب تین سیاہ پوش چڑیلیں بھی لڑکی کے پیٹ کے زخم سے بہنے والے خون سے اپنے ہونٹ اور منہ لال کر چکی تو وہ پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئیں اور اپنے سر اس طرح ہلانے لگیں جیسے نشے میں جھوم رہی ہوں۔ اب وہ سیاہ پوش چڑیل آگے بڑھی جس نے سب سے پہلے لڑکی کے جسم میں خنجر کی نوک گھونپی تھی۔ وہ لڑکی کے سرہانے کی جانب آ گئی۔ چمکتا ہوا خنجر اس کے ہاتھ میں تھا۔ دوسرے ہاتھ کی انگلیاں اس نے لڑکی کے گلے پر رکھیں اور انہیں آہستہ آہستہ لڑکی کے گلے پر پھیر نے لگی۔ پھر ایک جگہ اس نے دو انگلیوں سے لڑکی کے گلے کو ذر اسا دبایا اور دوسرے ہاتھ سے خنجر کی نوک وہاں رکھی اور میرے دیکھتے دیکھتے بدقسمت لڑکی کا آدھا گلا کاٹ ڈالا۔

وہاں سے خون کا فوارا اچھل کر سیاہ پوش چڑیل کے جسم پر پڑا۔ اس کا سارا جسم خون آلود ہو گیا۔ اس پر ایک وحشت سوار ہو گئی۔ اس نے اپنا منہ لڑکی کی گردن کی کٹی ہوئی رگ پر رکھ دیا اور خون پینے لگی۔

پھر وہ پیچھے ہٹ گئی اور دوسری سیاہ پوش چڑیلیں دیوانہ وار آگے بڑھیں اور انہوں نے خنجر مار مار کر لڑکی کی گردن کو آدھی سے زیادہ کاٹ ڈالا اور لپک لپک کر انسانی خون سے اپنی پیاس بجھانے لگیں۔۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔ سیاہ پوش چڑیلیوں کے ہاتھ منہ اور چہرے خون میں لتھڑ گئے تھے۔ یہ بیت ناک منظر دیکھ کر دہشت کے مارے میرا خون خشک ہو گیا تھا۔ دل ایسے زور زور سے دھڑکنے لگا تھا جیسے ابھی سینہ چیر کر باہر آ جاۓ گا۔ اذیت ناک موت کی ہبت میرے سارے جسم پر طاری ہو چکی تھی۔ میرے ساتھ بھی یہی آدم خور درندوں کا سلوک ہونے والا تھا۔
میرے ہونٹ پہلے ہی پتھر ہو چکے تھے ۔ اب میرا جسم بھی مارے دہشت کے جیسے بے حس ہو گیا تھا۔ میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں جیسے مفلوج ہو چکی تھیں ۔ میں سب کچھ بھول گیا تھا۔ اگر کچھ یاد تھا تو یہی کہ دو چار منٹ کے بعد میرے جکڑے ہوۓ بدن پر بھی آدم خور وحشیوں کی طرح خنجر چلنے والے تھے۔ سیاہ پوش چڑیلیں وحشیوں کی طرح گرد نہیں ہلا ہلا کر رقص کر رہی تھیں۔ وہ رقص کرتی ہوئی میرے سٹریچر کے پاس آ گئیں۔ انہوں نے وہی کچھ کیا جو انہوں نے بد قسمت لڑکی کو ہلاک کرنے کے بعد اس کا خون پیتے وقت کیا تھا۔

تین سیاہ پوش چڑیلیں میرے سٹریچر سے ذراہٹ کر کھڑی ہو گئیں۔ پہلے والی سیاہ پوش چڑیل خنجر ہاتھ میں لئے میری طرف پڑھی۔ اس کا خون آلود وحشی چہرہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ وہ خنجر والا ہاتھ اوپر کر کے میرے بالکل قریب آ گئی۔۔ اس چڑیل نے خوفناک انداز میں میری طرف جھک کر دیکھا۔ میرے سینے سے اٹھی ہوئی چیخ حلق میں آکر پھنس گئی تھی۔۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ کہانی ختم ہونے والی تھی۔ بلکہ ختم ہو گئی تھی۔ موت نے اپنا بے رحم ہاتھ میرے سینے پر رکھ دیا تھا۔ ایک لمحے کے لئے میری بند آنکھوں کے اندر جیسے بجلی سی چمک گئی اور میرے دل نے کلمہ پاک کا ورد شروع کر دیا۔ میری آنکھیں بند تھیں اور میرا دل کلمہ پاک پڑھ رہا تھا۔

اس سے پہلے مجھے خنجر کی نوک کی ہلکی سی چبھن محسوس ہوئی تھی لیکن کلمہ پاک کے ورد کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے جیسے میرے سینے پر سے خنجر ہٹا لیا ہے ۔ خنجر کی نوک کا احساس غائب ہو گیا تھا۔۔میں یہی سمجھا کہ موت کے خوف کی وجہ سے میرا جسم سن ہو گیا ہے اس لئے خنجر کی نوک کا احساس نہیں ہو رہا۔ لیکن یہ اللہ کے پاک کلام کا دل کی گہرائیوں سے ورد کرنے کا اثر تھا کہ میرے سینے پر خنجر کی نوک کی چبھن ختم ہو گئی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیں کھولنے کے بعد میں نے جو کچھ دیکھا اور مجھے جو کچھ نظر آیا اس پر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔
میں نے اسے خواب یا موت کے بعد کا منظر سمجھا۔ شاید دہشت کی وجہ سے میری روح پرواز کر گئی تھی اور میں جو کچھ دیکھ رہا تھا وہ مرنے کے بعد کا منظر تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور اس گھڑی کا انتظار کرنے لگا جب فرشتے آکر میری روح کو جہاں بھی لے جانا ہوگا لے جائیں گے ۔ جسم کا مادی احساس بالکل ختم ہو چکا تھا۔ میں اپنے آپ کو ایک روح ہی سمجھ رہا تھا کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میں ایک لمحے کے بعد سیاہ پوش چڑیلوں کی قتل گاہ سے نکل کر دریا کنارے سنگ مر مر کی کسی بارہ دری میں لیٹا ہوا تھا۔ آنکھیں بند کیے میں نے آہستہ سے اپنے دونوں ہاتھوں اور پاؤں کو حرکت دی۔ میرے دونوں پاؤں اور ہاتھ اب رسیوں میں جکڑے ہوۓ نہیں تھے ۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ اٹھایا اور اسے اپنے سینے پر رکھ کر زرا سا اندر کو دبایا۔

مجھ پر یہ حیرت انگیز حقیقت واضح ہو گئی کہ میری روح جسم سے الگ نہیں ہوئی تھی اور میں اپنے مادی جسم کے ساتھ زندہ سلامت تھا۔ میں اپنے ہونٹ بھی ہلا سکتا تھا۔ میں نے ہونٹوں کے زندہ ہو جانے کے بعد سب سے پہلا فقرہ جو ادا کیا وہ یہ تھا۔ "یا اللہ پاک! تیرا شکر ہے ۔“

میں آہستہ سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے ارد گرد نگاہ ڈالی ۔ میں نے دیکھا کہ دریا کا کنارہ ہے۔ رات کا وقت ہے ۔ آسمان پر مشرق کی جانب زرد چاند نکلا ہوا ہے جس کا عکس دریا کی لہروں میں نظر آ رہا ہے ۔ ہر طرف دھندلی زرد چاندنی پھیلی ہوئی ہے اور میں سنگ مر مر کی ایک پرانی بارہ دری میں ہوں۔ میں نے دریا کو اور بارہ دری کو فورا

پہچان لیا۔ یہ لاہور کا راوی دریا تھا اور بارہ دری کامران کی بارہ دری تھی جو اس زمانے میں دریا کے اندر آ گئی ہوئی تھی اور لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر بارہ دری میں جایا کرتے تھے ۔۔۔

میرے ساتھ ایک معجزہ ہی ہوا تھا۔ اللہ کے فضل اور اللہ کے حکم سے کسی غیبی طاقت نے مجھے سیاہ پوش چڑیلوں کی قتل گاہ سے نکال کر کامران کی بارہ دری میں ڈال دیا تھا۔ میں کوئی صوفی اور پرہیز گار آدمی نہیں تھا۔ دنیا کی آلائشوں میں پھنسا ہوا گناہ گار انسان تھا۔ لیکن دو باتیں میرے اندر نوجوانی کے زمانے ہی سے موجود تھیں اور میں نے ان پر ہمیشہ اور ہر قسم کے حالات میں عمل کیا تھا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ میں نے کبھی کسی عورت پر بری نگاہ نہیں ڈالی تھی اور دوسری بات یہ تھی کہ اللہ تعالی کی ذات پاک پر میرا ایمان سیسہ پلائی چٹان سے بھی زیادہ مضبوط تھا۔ میں آپ کو اپنی کہانی سنا رہا ہوں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی جو رسیوں اور چمڑے کی بیلٹ میں جکڑا ہوا ہو وہ ایک دم سے اپنے آپ آزاد ہو کر کہیں کا کہیں پہنچ جاۓ ۔

آپ کو ایسا سوچنے کا پورا حق حاصل ہے۔ میں آپ سے ہر گز بحث نہیں کروں گا۔ یہ معاملات بحث مباحثے کی دنیا سے بہت آگے کے معاملات ہیں۔ میں آپ سے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ دنیا میں کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے اور میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ کیسے ہوتا ہے ؟ ہم نہیں سمجھ سکتے ۔ عین ممکن ہے کہ اس کی بھی کوئی وجہ ہو اور وہ وجہ انسانی عقل و دانش کی سمجھ سے باہر ہو۔
میں کامران کی بار ودری میں اٹھ کر بیٹھا ہوا تھا۔ میرا ذہن بالکل تازہ دم تھا۔ مجھے بادامی باغ کے قبرستان سے لے کر پراسرار عورت کی گاڑی میں بیٹھ کر ماڈل ٹاؤن جانے اور پھر چائے پینے کے بعد بے ہوش ہو جانے اور ہوش میں آنے کے بعد سیاہ پوش چڑیلوں کی قتل گاہ میں پہنچ جانے کے تمام واقعات یاد تھے۔ میں نے دھندلی چاندنی میں اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔

رات کا ڈیڑھ بج چکا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ ایک بات طے شدہ تھی کہ میں دریا کے وسط میں واقع بارہ دری میں بیٹھا تھا اور صبح ہونے سے پہلے وہاں کوئی کشتی نہیں آتی تھی اور مجھے باقی کی رات بارہ دری میں ہی گزارنی تھی۔ رات ھٹھر رہی تھی۔ پہلے تو مجھے سردی کا زیادہ احساس نہیں ہوا لیکن اب مجھے بھی سردی لگ رہی تھی۔ میرا لمبا گرم کوٹ جو میں نے رات کے وقت پراسرار عورت کے ساتھ ٹاؤن جاتے ہوۓ پہن رکھا تھا خدا جانے کہاں مجھ سے الگ ہو گیا تھا۔ میں اس وقت بند گلے والے سویٹر میں تھا جس نے بہت حد تک مجھے سردی سے بچار کھا تھا۔

دریا کے درمیان ویسے بھی سردی زیادہ ہوتی ہے ۔ میں بے خیالی میں دریا کے قلعے والے کنارے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ مجھے زرد چاندنی میں دریا پر کوئی سیاہ چیز دکھائی دی جو آہستہ آہستہ بارہ دری کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میں اسے مسلسل دیکھ رہا تھا۔ جب وہ سیاہ چیز بارہ دری کے ذرا قریب آئی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک کشتی ہے ۔ میں بڑا خوش ہوا کہ کسی ملاح کو رات کے وقت کوئی کام پڑ گیا ہے اور وہ دریا کے دوسرے کنارے پر جارہا ہے وہ بارہ دری کے قریب سے ہو کر ضرور گزرے گا۔ اس وقت میں اسے آواز دے کر اپنی طرف بلا لوں گا اور اس کی کشتی میں بیٹھ کر دریا کے دوسرے کنارے یعنی شاہدرہ پہنچ جاؤں گا۔ کشتی چھوٹی تھی اور زرد چاندنی کے غبار میں سے نکل کر آہستہ آہستہ واضح طور پر نظر آنے لگی تھی۔

اچانک مجھ پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ کشتی خالی تھی۔ اسے کوئی ملاح نہیں چلا رہا تھا بلکہ اپنے آپ چل رہی تھی۔ زیادہ حیرانی مجھے اس بات کی ہو رہی تھی کہ اگر کشتی کو کوئی ملاح چلا نہیں رہا تو وہ سیدھی بارہ دری کی طرف کیوں چلی آرہی ہے ۔اس کی سمت کس نے برقرار رکھی ہوئی ہے ۔ لیکن بہت جلد یہ معمہ حل ہو گیا۔ ۔ میں کشتی کو دیکھتا جارہا تھا۔ اس پر برابر نگاہ رکھے ہوۓ تھا۔ خالی کشتی بارہ دری کی سیڑھیوں کے پاس آکر رک گئی۔

پھر ایسے لگا جیسے کسی نے اسے سیڑھیوں کے ساتھ رسی سے باندھ دیا ہے ۔اس کے بعد کچھ دیر تک سناٹا چھایا رہا۔ میرے دل میں اچانک خیال آیا کہ یہ کشتی خدا نے میری مدد کے لئے بھیج دی ہے مجھے اس پر بیٹھ کر دریا پار کر جانا چاہئے آگے جو ہوگا دیکھا جاۓ گا کم از کم یہاں سے تو نکلوں گا۔ میں اٹھنے ہی والا تھا کہ مجھے اپنی دائیں جانب جس طرف بارہ دری کے چبوترے کا زینہ تھا کسی کے لباس کی سرسراہٹ سی سنائی دی۔ ساتھ ہی وہی طلسمی خوشبو محسوس ہوئی جس سے میں کافی حد تک مانوس ہو چکا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کون ہے۔ آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ کون ہو سکتی تھی۔ جی ہاں وہ پرانی قلعے کی ویران حویلی کی پراسرار بدروح روپنی عرف سلطانہ ہی تھی۔ وہ میرے اسامنے آ کر ظاہر ہوگئی۔ اس نے وہی گلابی بلکہ زعفرانی رنگ کی ریشمی ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔ گلے میں سفید موتیوں کی مالا تھی اور سر پر ہیرے جواہرات والا مچھو ٹا سا تاج تھا۔
میں اسے اب روہنی نہیں کہوں گا، سلطانہ ہی کہوں گا کیونکہ اس عورت نے مغل صوبیدار شہزادے سے شادی کر لی تھی اور اس کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام روہنی سے بدل کر سلطانہ رکھ لیا تھا۔ لیکن میں اسے روح نہیں کہوں گا بدروح ہی کہوں گا۔ کیونکہ میرے عقیدے اور میرے نظریئے کے مطابق پاکیزہ اور نیک روحیں اتنے بلند مقامات پر ہوتی ہیں

سلطانہ اپنی زعفرانی ساڑھی کو بڑی نزاکت کے ساتھ سمیٹ کر میرے سامنے بارہ دری کے فرش پر بیٹھ گئی۔ اس کے لباس میں سے اس کی خاص طلسمی خوشبو کی لہریں میری طرف آرہی تھیں۔ مجھے اس بدروح پر جو میری ہمدرد بنتی تھی سخت غصہ آ رہا تھا۔ میں نے اس سے گلہ کرنے کے انداز میں کہا۔ ”اب تمہارے آنے کا کیا فائدہ ہے۔ تم اس وقت کہاں تھیں جب سیاہ پوش چڑیلیں میرے جسم کے ٹکڑے کرنے والی تھیں۔ اگر خدا میری مدد نہ کرتا تو اس وقت تک سیاہ پوش چڑیلیں میرا خون پینے کے بعد میری لاش کے ٹکڑے بھی ہڑپ کر چکی ہوتیں۔

بدروح سلطانہ میری طرف گہری اور مسلسل نگاہوں سے تک رہی تھی۔ جب میں نے اپنی بات ختم کی تو اس نے اپنی مخصوص سر گوشی نما آواز میں کہا۔ ” اس میں کوئی شک نہیں اگر خدا کی مدد تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو اس وقت تم اس دنیا میں نہ ہوتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا نے جس وسیلے سے تمہاری مدد کی وہ وسیلہ میں۔ہی تھی۔“

میں نے فورا کہا۔ ’’مگر میں نے تو تمہیں وہاں کہیں نہیں دیکھا تھا۔ اگر ایسی ہی بات تھی تو تم نے اس وقت آکر مجھے کیوں نہیں روکا جب وہ چڑیل عورت مجھے بادامی باغ کے قبرستان سے اپنے ساتھ ٹاؤن لے جارہی تھی۔ تم نے اس وقت آکر میرے ہاتھ سے چائے کی پیالی کیوں نہ غائب کر دی جس میں وہ عورت بے ہوشی کی دوا ملا کر مجھے پلا رہی تھی ؟ اگر تم اس وقت آکر میری مدد کرتی تو میں کم از کم اس ہولناک اذیت سے تو بچ جاتا جو میں نے سیاہ پوش چڑیلیوں کی قید میں سٹریچر پر جکڑے ہوۓ برداشت کی تھی۔“

سلطانہ کی بدروح بڑی توجہ سے میری بات سُن رہی تھی۔ کہنے لگی۔ ’’ تمہاری روح ابھی مادی جسم میں قید ہے۔ بہت سی باتیں ، بہت سی حقیقتیں ایسی ہیں جن کا احساس تم اس مادی جسم میں رہتے ہوۓ نہیں کر سکتے ۔ یہ حقیقتیں تمہارے شعور سے ابھی پوشیدہ ہیں اور جب تک تم اپنے مادی جسم میں قید ہو تم سے پوشیدہ ہی رہیں گی۔ مجھے یہ حقائق تم پر ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں تمہیں صرف اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ جو اذیتیں تم نے سیاہ چڑیلیوں کے درمیان رہ کر اٹھائی ہیں وہ تمہارے مقدر کا حصہ تھیں اور یہ حصہ تمہیں مل کر ہی رہنا تھا۔ اس کے بعد میں قدرت خداوندی کے حکم سے تمہاری مدد کا وسیلہ بن کر تمہارے پاس پہنچ گئی اور تمہیں وہاں سے اٹھا کر اس بارہ دری میں لے آئی .....

میں نے جھنجلا کر کہا۔’’خدا کے لئے تم میرا پیچھا چھوڑ دو۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ پر جو مصیبت آتی ہے اور میرے ساتھ یہ جو کچھ ہو رہا ہے صرف تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر میں تمہیں پرانے قلعے کی حویلی میں مرتبان سے نکال کر آزاد نہ کرتا تو کبھی اس مصیبت میں نہ پھنستا۔“

سلطانہ کی بدروح نے کہا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایسا ہوتا تھا اور ہو کر رہا۔ ‘‘ میں نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’خدا کے لئے مجھے یہ بتاؤ کہ اب اس بک بک سے میرا پیچھا کیسے چھوٹے گا۔ مجھے ان بدروحوں سے کیسے نجات ملے گی ؟“
سلطانه بدروح کہنے لگی۔ ”میں تمہیں اصل حقیقت نہیں بتا سکتی۔ دنیا میں بعض اوقات انسان سے نادانی میں یا اس کے بعض اعمال کے نتیجے میں ایسی حرکت ہو جاتی ہے جس کے نتائج بہت دور تک پہنچ جاتے ہیں یہاں تک کہ خود وہ انسان بھی ان نتائج سے بے خبر ہو تا ہے ۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ تم نے مجھے دشمن پجاری رگھو کی قید سے آزاد کر کے میرے ساتھ بھلائی کی یا اپنے ساتھ دشمنی کی یا پھر تم نے صرف اپنے جذبہ تجسس کی تسکین کے لئے کیا۔ لیکن میں تمہیں یہ ضرور بتا دینا چاہتی ہوں کہ تم ایک خوفناک چکر میں پھنس چکے ہو اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اس دنیا میں اگر تمہیں کوئی اس چکر سے نکال سکتا ہے تو وہ صرف میں ہوں۔“

مجھے اس بدروح کی باتوں پر کچھ یقین آ بھی رہا تھا اور نہیں بھی آرہا تھا۔ البتہ مجھے اس بدروح سلطانہ پر غصہ ضرور آ رہا تھا کہ میں نے اس بدروح کو اس کے دشمن رگھو کی قید سے کیوں آزاد کرایا۔ مجھے مرتبان کا ڈھکن نہیں کھولنا چاہئے تھا لیکن ہر کام کا سراغ لگانے اور اپنے ذوق تجسس کو تسکین دینے کی جو اچھی یا بری عادت مجھ میں تھی اس کا نتیجہ میں بھگت رہا تھا۔ میں نے اس سے یہی سبق حاصل کیا تھا کہ انسان کو ایسی چیزوں میں کبھی دخل نہیں دینا چاہئے جن کا اس کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہ ہو ۔ میرے سبق حاصل کرنے سے اب مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ میں نادانی میں یا نا سمجھی میں ایسی حرکت کر بیٹھا تھا جو مجھے نہیں کرنی چاہئے تھی۔ جن ، بھوتوں ، بدروحوں اور چڑیلیوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے جس کا انسانوں کی دنیا سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اگر کبھی بالواسطہ طور پر یا اتفاق سے انسان کا اس مخلوق سے آمنا سامنا ہو جاۓ تو۔۔۔۔۔ تو آدمی کو چاہیے کے وہ خاموشی سے آگے نکل جائے اور ان لوگوں کے معاملات میں ہر گز دخل اندازی نہ کرے۔

پُراسرار حویلی - پارٹ 10

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں