پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 19

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 19


باہر آیا تو ہمارے استقبال کو باہر ایک لمبی عورت لمبا چغہ پہنے ہاتھ میں شمع دان تھامے کھڑی تھی۔ وہ ہمارے آگے آگے چل پڑی جیسے ہمیں روشنی میں راستہ دکھا رہی ہو۔ ہم گرد آلود نیم روشن راہ داریوں میں سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ پہنچ کر ہم ایک لمبے ہال کمرے میں آگئے۔ یہ کمرہ چوڑائی میں چھوٹا مگر لمبائی میں لمبا تھا۔ دونوں جانب دیواروں کے ساتھ عجیب و غریب خوفناک چہروں والے جانوروں کے بت کھڑے تھے۔ کمرے میں اندھیرا اندھیرا سا تھا۔ کمرے کے آخر میں ایک پتھر کا چبوترہ تھا جس کے وسط میں پتھر کے پیالے میں آگ جل رہی تھی ۔

قریب ہی سیاہ پتھر کی دو کرسیاں بنی ہوئی تھیں۔ مجھے ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ میری حالت ایک ایسے شخص کی تھی جس پر کسی نے طلسم پھونکا ہوا ہو میں وہی کچھ کر رہا تھا جو مجھے کہا جاتا تھا۔ سامنے ایک پتھر کی ایک بڑی کرسی رکھی ہوئی تھی۔ دونوں آدمی کرسی کے دائیں بائیں بڑے ادب سے کھڑے ہو گئے۔ عورت نے شمع دان میز پر رکھا اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کونے میں پردے کے پیچھے غائب ہو گئی۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔ میں بھی بت بنا پتھر کی کرسی پر بیٹھا تھا اور دونوں آدمی بھی ساکت و جامد کھڑے تھے۔

تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کونے والا پردہ ایک طرف کو ہٹا اور ایک بھاری بھر کم اونچا لمبا، لمبی سیاہ داڑھی والا آدمی نمودار ہوا۔ اس کی دونوں جانب غلام شمع دان تھامے چل رہے تھے۔ داڑھی والے آدمی کے سر پر چوگوشہ لمبی سیاہ ٹوپی تھی۔ وہ آرام آرام سے چلتا چبوترے پر آیا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ غلاموں نے اپنے اپنے شمع دان میز پر رکھ دیئے اور مودب ہو کر کھڑے ہو گئے۔ سیاہ داڑھی والے آدمی نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا۔ پھر ہاتھ اوپر اٹھا کر حکم دینے کے انداز میں کہا۔ ”نتالیا کو لایا جاۓ۔“

اس کے ساتھ ہی کونے والا بھاری پردہ ایک بار پھر ہٹا اور دو سیاہ مخروطی ٹوپیوں والے آدمی ایک عورت کو ساتھ لئے داخل ہوۓ۔ آگے آگے وہی طوطے کی مڑی ہوئی ناک والی عورت تھی جو میری کوٹھڑی میں آتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک بوسیدہ سی کتاب تھی۔ جب یہ لوگ چبوترے کے قریب آۓ تو شمع کی روشنی میں میں نے دیکھا کہ عورت ایک خوبصورت لڑکی تھی۔اس کی عمر اکیس بائیس سال کی ہوگی۔اس نے گلابی رنگ کا ریشمی لباس پہن رکھا تھا۔ سر پر گلابی شکوفوں کا تاج تھا اس کا رنگ ایسا تھا جیسے میدے میں سیندھور ملا ہوا ہو۔ میں اس لڑکی کا حسن و جمال دیکھ کر دنگ رہ گیا۔

یقین کریں میں نے ایسی حسین و جمیل لڑکی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لڑکی میرے ساتھ والی پتھر کی خالی کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔ جیسے ہی وہ میرے قریب آکر بیٹھی مجھے گلاب کے شگوفوں کی خوشبو آنے لگی۔ میں حیران تھا کہ اتنی حسین و جمیل لڑکی ان جنوں بھوتوں کے درمیان کہاں سے آگئی ہے۔ کیسے آ گئی ہے؟ ۔ میں لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ لڑکی نے نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور ذرا سا مسکرائی۔اس دوران طوطے کی ناک والی عورت کتاب کھول کر بھاری بھر کم آدمی کے دائیں جانب کھڑی ہو گئی۔ بھاری بھر کم آدمی نے عصا کو دو بار فرش پر آہستہ سے مار کر کہا۔ کارروائی شروع کی جاۓ۔“

میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہاں کس قسم کی کارروائی شروع ہونے والی ہے۔ حکم پاتے ہی طوطے کی ناک والی عورت نے کتاب میں سے اونچی آواز میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔ خدا جانے وہ کون سی زبان تھی۔ اس کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جب عورت کتاب کا ایک ورق پڑھ چکی تو بھاری بھر کم داڑھی والے آدمی نے بھاری آواز میں کہا۔

دونوں کو ہمارے سامنے لایا جاۓ۔“ یہ حکم سنتے ہی دو آدمی ہماری طرف بڑھے۔ ایک نے میرا ہاتھ اور دوسرے نے میرے ساتھ بیٹھی ہوئی حسین و جمیل لڑکی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ہم دونوں کو داڑھی والے آدمی کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا۔ داڑھی والا آدمی کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پہلے لڑکی جس کا نام نتالیا پکار اٹھا کے سر پر ہاتھ رکھا اور عجیب و غریب زبان میں کچھ جملے دہراۓ۔ اس کے بعد اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر وہی جملے دہراۓ۔

پھر ہمارے چہروں پر باری باری پھونک ماری اور بلند آواز میں کہا۔’’اہر من!اہر من ! میں نے تیرے نام سے ان دونوں کی شادی کر دی ہے۔ اب یہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ۔ شادی کا سن کر مجھ پر جیسے بجلی سی گر پڑی۔ میں حیران پریشان ہو کر بھاری بھر کم داڑھی والے آدمی کا منہ تکنے لگا۔ اگرچہ لڑکی بڑی حسین اور نوجوان تھی مگر اس کے ساتھ شادی کا میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مجھے کیا معلوم کہ وہ کوئی جن تھی ، بھوت تھی ، چڑیل تھی۔ وہ ان تینوں میں سے کچھ بھی ہو سکتی تھی۔ ظاہر ہے وہ کوئی نارمل لڑکی نہیں تھی کیونکہ میں جن حالات اور لوگوں میں گھرا ہوا تھا وہ بھوت پریت ہی ہو سکتے تھے۔

نارمل انسان نہیں ہو سکتے تھے۔ میں نے چیخ کر اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا چاہا مگر میں اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکا۔ یہ اس طلسم کا اثر تھا جو طوطے کی ناک والی عورت نے مجھ پر کوٹھڑی سے باہر لے جانے سے پہلے پھونکا تھا۔ داڑھی والے عفریت نما آدمی نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ ”کیا تمہیں کچھ کہنا
ہے ؟

میری زبان سے جیسے اپنے آپ نکل گیا۔’’ مجھے کچھ نہیں کہنا۔‘‘ داڑھی والے آدمی نے عصا والا ہاتھ اوپر اٹھایا اور بلند آواز سے کہا۔’’اہر من! اہر من! جاؤ۔اب تم دونوں خاوند اور بیوی ہو ۔“

۔ اس کے فورا بعد ہمیں ایک دوسرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں کچھ اندھیرے اور کچھ روشنی میں بڑا پراسرار ماحول تھا۔ بہت سے سیاہ ٹوپیوں والے لوگ میز کے گرد بیٹھے تھے۔ میز پر موم بتیاں روشن تھیں لیکن عجیب بات تھی کہ موم بتیوں کی روشنی صرف وہیں ہو رہی تھیں جہاں وہ روشن تھیں۔ یہاں ہماری شادی کی دعوت
کا اہتمام کیا گیا تھا۔

ہمیں شاندار کرسیوں پر ساتھ ساتھ بٹھا دیا گیا۔ مجھے یہ سب کچھ ایک ڈراؤنا خواب لگ رہا تھا۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ وہ کس جانور کا بھنا ہوا گوشت تھا جو مجھے کھلایا گیا اور وہ کس قسم کا تیز مشروب تھا جو مجھے لڑکی نتالیا کے ساتھ ہی پلایا گیا۔ اس کے بعد وہاں رقص شروع ہو گیا۔ یہ عورتوں کا شیطانی رقص تھا۔ میں بت بنا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا میرے پہلو میں بیٹھی ہوئی حسین لڑکی جس کو زبردستی میری دلہن بنا دیا گیا تھا بار بار میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بڑے پیار سے دبا رہی تھی۔

مجھ میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ میں اپنا ہاتھ پیچھے کر لیتا۔ ان لوگوں نے طلسم کے زور سے میری قوت ارادی سلب کر لی تھی۔ میں ان کے حکم کا، ان کی خواہشات کا پابند ہو گیا تھا۔

مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ یہ شیطانی محفل کب تک جاری رہی۔ میں بت بنا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پھر یہ محفل ختم ہو گئی اور مجھے میری دلہن کے ساتھ ایک سجے سجاۓ کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ لڑکی نے مجھے اپنے پاس پلنگ پر بٹھا لیا۔ وہ بڑی محبت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے لباس سے گلاب کے شگوفوں کی خوشبو اسی طرح آرہی تھی۔ اس نے خواب آلود آواز میں کہا۔’’میر انام نتالیا ہے۔ تمہیں اپنا نام بتانے کی ضرورت نہیں مجھے تمہارا نام معلوم ہے۔“
میں نے پوچھا۔ ”تمہیں میرا نام کیسے معلوم ہے ؟“ حالانکہ میں جانتا تھا کہ یہ بھوت پریت ہیں۔ ان کو اس قسم کی باتیں معلوم ہوتی ہیں پھر بھی میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا۔” مجھے تم سے محبت ہے نا۔ محبت سب کچھ بتا دیتی ہے۔ کیا تم بھی مجھ سے محبت کرتے ہو ؟“

میں نے اس لمحے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اس عورت نتالیا کے ساتھ محبت کا ڈرامہ کرنا میرے حق میں مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس طریقے سے مجھے اس بھوت پربت کی مخلوق سے فرار ہونے کا موقع مل سکے گا۔ ان لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا چنانچہ میں نے نتالیا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور بڑی محبت کے ساتھ کہا۔ ”کیوں نہیں نتالیا! میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ میں تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے تم مل گئی ہو ۔“

نتالیا کا چہرہ خوشی سے کھل کر اور زیادہ حسین ہو گیا تھا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ یہ لڑکی بے حد حسین تھی۔ اگر عام حالات میں نارمل انسانوں کی دنیا میں یہ مجھے کہیں مل جاتی تو اس سے شادی کر کے میں واقعی اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین آدمی کہتا۔ مگر مجھے پورا یقین تھا کہ یہ لوگ ہوائی مخلوق ہیں۔ ان کا تعلق شیطانی روحوں سے ہے۔ یہ نارمل انسان نہیں ہے۔ یہ کالا جادو، طلسم اور بھوت پریت کی دنیا کے لوگ تھے اور میں ہر حالت میں ان سے نجات حاصل کر کے اپنی دنیا میں واپس جانا چاہتا تھا۔
نتالیا مجھے محبت کی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ کہنے لگی۔ اب ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔ ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکے گا۔ میں نے جان بوجھ کر ایک فقرہ کہہ دیا۔ دراصل میں اسے کریدنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا۔ "مگر منتالیا! ایک نہ ایک دن موت ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر دے گی۔ نتالیا کا چہرہ ایک لمحے کے لئے ساکت ہو گیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہی تھی۔

کہنے لگی۔ ’’نہ میں مروں گی ، نہ تمہیں مرنے دوں گی۔ تم اس کی فکر نہ کرو۔“ یہ جملہ اس امر کی تصدیق کرتا تھا کہ یہ عورت زندہ نہیں ہے پہلے سے مر چکی ہے اور میں چونکہ زندہ انسانوں کی طرح ہوں اس لئے اس نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ مجھے موت کے منہ سے بچانے کی کوشش کرے گی۔“ میں نے اسے مزید کریدنے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا۔ ’’نتالیا! موت تو ہر زندہ انسان کو ایک نہ ایک دن آنی ہی ہوتی ہے پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم دونوں موت سے بچ جائیں گے ؟“
اس نے ایسی نظروں سے مجھے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ تمہیں یہ باتیں نہیں پوچھنی چاہئیں۔ کہنے لگی۔ ” یہ باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی۔“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ ”اور پھر یہ موقع ایسی باتیں کرنے کا نہیں ہے۔ آج ہماری شادی ہوئی ہے ۔ ہمیں پیار محبت کی باتیں کرنی چاہئیں ۔“ میں نے کہا۔ ”نتالیا ! یہ باتیں بھی میں نے اس لئے پونچی تھیں کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں اور تم سے جدا نہیں ہونا چاہتا۔“ نتالیا نے بڑے پراسرار انداز میں مسکراتے ہوۓ کہا۔ ”یہ میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ تم بھی مجھ سے جدا نہیں ہو گے ۔ تم مر بھی گئے تو میں تمہیں اپنے پاس لے آؤں گی۔“

اس فقرے کو سن کر میرے بدن میں خوف کی سرد لہر دوڑ گئی۔ یہ جملہ اس بات کی غماضی کرتا تھا کہ وہ ایک بدروح ہے اور میری موت کے بعد میری روح پر قبضہ کر کے مجھے بھی بدروح بنا دے گی جو میرے لئے موت کے بعد سب سے بڑا عذاب تھا۔ یہ مجھے ہرگز قبول نہیں تھا۔ میں دوبارہ اس سے محبت بھری باتیں کرنے لگا۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں کہا۔ ” نتالیا! میں نے سوچ رکھا تھا کہ جب میری شادی ہوگی تو میں اپنی دلہن کے ساتھ ہنی مون منانے کسی سمندری جزیرے میں چلا جاؤں گا۔
تم تو جانتی ہی ہوگی کہ دنیا میں بعض شادی شدہ جوڑے ہنی مون منانے کسی خوبصورت مقام پر ضرور جاتے ہیں۔“
نتالیا نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔”کیا تم ہنی مون منانا چاہتے ہو ؟“ میرے دل کی مراد بر آرہی تھی۔ میں نے فورا کہا۔ ”کیوں نہیں۔ مجھے نتالیا کی شکل میں دنیا کی سب سے حسین دلہن ملی ہے تو میں ہنی مون بھی کسی خوبصورت جگہ پر منانا چاہتا ہوں۔“

نتالیا اسی طرح مسکرا رہی تھی۔ اس کا مسکراتا ہوا حسین چہرا دیکھ کر مجھے کیا کسی کو بھی یقین نہیں آ سکتا تھا کہ یہ کوئی بدروح بھی ہو سکتی ہے ۔ اس نے کہا۔ ” تم ہنی مون منانے کہاں جانا چاہتے ہو ؟“
میں اسے کوئی ایسی جگہ بتانا چاہتا تھا کہ جہاں سے مجھے فرار ہونے کا آسانی سے موقع مل جائے ۔ میں اپنے ذہن میں ایسے شہر سوچنے لگا جو پاکستان کی سرحد کے قریب ہوں اور میں فرار ہونے کے فورا بعد پاکستان پہنچ سکوں۔ جب تک میں کسی شہر کا فیصلہ نہیں کر سکا میں نے اسے باتوں میں لگاۓ رکھا۔ میں نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ میں کس جگہ اور کس ملک میں ہوں اس سے پوچھا۔
”ہم تو اس وقت انڈیا میں ہیں۔ یہاں کوئی میری پسند کی خوبصورت جگہ مجھے کہیں نظر نہیں آرہی۔“ نتالیا نے کہا۔ ”کیوں نہیں ہے۔ شملہ ہے۔ نینی تال ہے اور پھر کشمیر ہے ۔ ہم کشمیر چل کر ہنی مون مناتے ہیں۔“ میں نے کہا۔ ”کشمیر میں تو بڑی گڑ بڑ ہے ۔ وہاں ہم سکون سے ہنی مون نہیں منا سکیں گے ۔“
" تو پھر تم کہاں جانا چاہتے ہو ؟" نتالیا نے پوچھا۔ ”اگر تم پسند کرو تو ہم یورپ کے کسی خوبصورت ملک میں چلے چلتے ہیں۔ مثلا سوئٹزر لینڈ چلے جاتے ہیں۔ یہ بڑا حسین ملک ہے ۔“
میں سمجھ گیا کہ یہ عورت بدروح ہے اور کہیں بھی مجھے لے جاسکتی ہے۔اس کے لئے فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ مگر میں اپنے وطن پاکستان سے اتنی دور نہیں جاتا چاہتا تھا کہ جہاں سے واپس آتے ہوۓ مجھے پاسپورٹ ویزے کی مشکلات سے دو چار ہونا پڑے اور پھر میرے پاس کوئی پیسہ بھی نہیں تھا۔ میں نے کہا۔ ”کیوں نہ ہم پاکستان چلے چلیں۔ وہاں ایک پہاڑی مقام بڑا ہی پر سکون اور خوبصورت ہے۔“
”کیا نام ہے اس جگہ کا ؟‘‘نتالیا نے پوچھا۔ میں نے نام اتنی دیر میں سوچ ہی لیا۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں سے میں پیدل بھی اپنے گھر پہنچ سکتا تھا۔ میں نے کہا۔ ” یہ شہر ایبٹ آباد ہے۔ بڑا خوبصورت نیم پہاڑی شہر ہے۔ وہاں سردی بھی زیادہ نہیں ہوتی اور گرمی بھی نہیں ہوتی ۔ وہاں ماڈرن ہوٹل بھی ہیں۔ مجھے یہ شہر بہت پسند ہے۔
مجھے لگ رہا تھا کہ نتالیا میری محبت میں سرشار ہو رہی تھی۔ لگتا تھا کہ اس عورت کو زندگی میں کبھی کسی نے اتنا پیار نہیں دیا۔ کہنے لگی۔’’اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو ہم ہنی مون منانے ایبٹ آباد ہی چلے چلتے ہیں۔“
میں نے اس سے بالکل نہ پوچھا کہ انڈیا سے پاکستان جانے کے لئے پاسپورٹ اور فارن کرنسی وغیرہ کی ضرورت ہوگی وہ کہاں سے آۓ گی۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ عورت سب کچھ کر سکتی ہے۔ لیکن مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ پر اپنے بدروح ہونے کا راز ظاہر نہیں کرنا چاہتی۔ وہ مجھ پر یہی ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ وہ ایک نارمل عورت ہے اور شادی کے بعد میرے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے۔
کم از کم میں نے اس کی باتوں سے یہی محسوس کیا تھا۔ ابھی تک اس نے میرے پاس بیٹھے ہوئی کوئی بدروحوں والی شعبدہ بازی نہیں دکھائی تھی۔ کہنے لگی۔ ”ہم کل صبح ہی ایبٹ آباد روانہ ہو جائیں گے ۔“
میں نے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ میرے لئے یہی کافی تھا کہ میں اپنے پیارے وطن پاکستان کے خوبصورت شہر ایبٹ آباد جارہا ہوں۔ وہاں سے میں اس بدروح سے بھاگنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ اور موقع تلاش کر لوں گا۔ میں نے نتالیا کا ہاتھ چوم لیا اور بڑے لگاؤ کے ساتھ کہا۔ "متالیا! تمہیں میرا کتنا خیال ہے ۔“ نتالیا نے کہا۔ ”میں تم سے محبت کرتی ہوں اور اب تو تم میرے خاوند بھی ہو ۔
“ باتوں باتوں میں نہ جانے کتنی رات گزر گئی۔ نہ میرے پاس گھڑی تھی نہ وہاں کوئی کلاک تھا۔ میر اخیال ہے کہ رات کا آخری پہر گزر رہا تھا کہ مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ نتالیا نے کہا۔ ”تمہیں نیند آ رہی ہے۔ سو جاؤ۔ میں بھی سو جاتی ہوں۔“ میں وہیں لیٹ گیا۔ نتالیا بھی میرے ساتھ ہی لیٹ گئی۔ اس کے لباس سے گلاب کی خوشبو آرہی تھی۔ پھر میں سو گیا۔ جس وقت میری آنکھ کھلی میں پلنگ پر اکیلا لیٹا ہوا تھا۔ جلدی سے اٹھ کر چاروں طرف دیکھا۔ بدروح دلہن نتالیا وہاں نہیں تھی۔
اس بند تابوت جیسے کمرے میں کوئی روشندان یا کھڑکی بھی نہیں تھی کہ دیکھتا رات کا وقت ہے یا صبح ہو گئی ہے۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور نتالیا اندر داخل ہوئی۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کارنس پر شمع دان روشن تھا۔ اس کی روشنی میں میں نے دیکھا کہ نتالیا نے ریشمی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ کندھے پر پرس لٹک رہا تھا۔ گلے میں بڑا خوبصورت جالی دار دوپٹہ تھا۔ اس لباس میں بھی وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ مسکراتے ہوئے میرے پاس آئی اور بولی۔”میری جان ! جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ یاد نہیں ہم ہنی مون منانے ایبٹ آباد جار ہے ہیں۔“
میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اسے یاد تھا کہ ہمیں پاکستان ہنی مون منانے جانا ہے ورنہ میرا تو خیال تھا کہ اس کو میرے دل کا حال معلوم ہو گیا ہے کہ میں اسے دھوکے سے پاکستان لے جارہا ہوں تاکہ وہاں جاتے ہی اس کو چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔ میں نے پلنگ سے اترتے ہوئے کہا۔ ’’نتالیا! میں نہانا چاہتا ہوں۔ یہاں کوئی ایسا انتظام ہے ؟“ نتالیا نے مسکراتے ہوۓ کہا۔”کیوں نہیں میری جان ! وہ سامنے غسل خانے کا دروازہ ہے ۔ جا کر جلدی سے نہالو ۔ “ میں نے پوچھا۔ ” ٹائم کیا ہوگا؟
اس نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھ کر کہا۔ ”میری گھڑی بند ہو گئی ہے۔ ویسے دن چڑھ چکا ہے۔“
میں غسل خانے کی طرف آ گیا۔ دروازہ کھول کر اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں عسل کرنے کا تمام ساز و سامان موجود تھا۔ ایک طرف میرے لئے ایک نئی پتلون ، نئی جیکٹ اور نئی قمیض بھی تہہ کر کے رکھی ہوئی تھی۔ تولیہ صاف شفاف تھا۔ چمکیلے نل میں سے سنگ مرمر کے ٹب میں پانی کر رہا تھا۔ میں نے ہاتھ لگایا۔ پانی نیم گرم تھا مجھے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ کیونکہ یہ بھوت پریتوں کا مسکن تھا۔ یہ بدروحیں ہر چیز مہیا کر لیتی ہیں۔اس کا تجربہ مجھے روہنی کے ساتھ کئی بار ہو چکا تھا۔
میں نے جلدی جلدی غسل کیا اور نئی پتلون قمیض اور جیکٹ پہن کر باہر نکلا تو نتالیا پلنگ پر بیٹھی پرس میں سے کچھ نکال کر شمع دان کی روشنی میں دیکھ رہی تھی۔ میں نے پوچھا۔’’یہ کیا دیکھ رہی ہو ؟‘‘
اس نے کہا۔ ’’دلی سے پاکستان کے شہر کراچی تک کے دو ائیر ٹکٹ ہیں اور ہم دونوں کے پاسپورٹ ہیں ۔ میں نے ان پر صبح صبح ہی ویزے لگوا لئے تھے ۔ میری جان! ہم دوسرے ملک میں جار ہے ہیں ۔ ان چیزوں کی تو ضرورت ہوتی ہی ہے ۔“ میں نے اس پر بھی کسی قسم کی حیرت کا اظہار نہ کیا۔ یہی ظاہر کیا جیسے یہ سب کچھ نارمل طریقے سے ہوا ہے ۔ حالانکہ وہ اگر چاہتی تو مجھے اس کمرے سے اپنے ساتھ غائب کر کے بھی پاکستان لے جاسکتی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں وہ نہ جانے کیوں مجھ پر یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی۔۔۔
کہ وہ نارمل انسان ہیں اور بھوت پریت نہیں ہیں۔ میں بھی چپ تھا اور آگے سے کوئی سوال نہیں کر رہا تھا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ جہاں اس بدروح کے ساتھ میرا بیاہ کر دیا گیا ہے وہ جگہ بھارت کے کس پہاڑی علاقے میں واقع تھی۔ ان اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور خوش ہو کر بولی۔ " میری جان ! تم کتنے پیارے لگ رہے ہو۔“ ۔
اور اس نے میری بغل میں ہاتھ ڈالا اور دروازے کی طرف بڑھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے اس راستے سے لے کر جاۓ گی جس راستے سے مجھے اس منحوس جگہ پر لایا گیا تھا اور ہمیں ایک ویران پرانے قبرستان میں سے بھی گزرنا پڑے گا۔ لیکن جب وہ مجھے لے کر اس آسیب زدہ عمارت سے باہر نکلی تو میں نے دیکھا کہ سنہری دھوپ نکلی ہوئی تھی اور جہاں ڈھلان پر پہلے میں نے بہت سی ٹوٹی پھوٹی شکستہ قبریں دیکھی تھیں وہاں اب ان قبروں کا نام و نشان تک نہ تھا بلکہ ان کی جگہ سر سبز ڈھلان پر پھول دار پودے اگے ہوئے تھے۔
ایک پتھر کا زینہ نیچے سڑک تک جاتا تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا جس عمارت سے ہم باہر نکلے تھے وہ کھنڈر نما خانقاہ کی عمارت نہیں تھی بلکہ کوئی پرانی وضع کا کاٹج نماڈاک بنگلہ تھا۔
یہ سب ان بدروحوں کے طلسم کا عمل ہی تھا لیکن میں خوش تھا کہ میں اس جگہ سے ہمیشہ کے لئے جارہا ہوں۔ تاریک آسیب زدہ عمارت کے تہہ خانے سے نکل کر سنہری دھوپ میں آ کر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کسی تنگ و تاریک قبر میں سے زندہ سلامت نکل آیا ہوں ۔ سردی بڑی خوشگوار تھی۔ ہوا چل رہی تھی جس میں نتالیا کے سنہری بالوں کی ایک لٹ اس کے ماتھے پر اڑ رہی تھی۔ وہ واقعی بڑی حسین لڑکی تھی۔
میں آپ کو سچ کہہ رہا ہوں۔ اگرچہ میں اس سے جتنی جلدی ہو سکے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن یقین کریں اگر وہ کوئی بدروح یا بھوت پریت نہ ہوتی تو میں اس سے جدا ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ہم ڈاک بنگلے کی سیڑھیاں اتر کر نیچے سڑک پر آگئے ۔ چھوٹی سی پہاڑی سڑک تھی جو ٹیلے کے گرد گھوم کر نیچے اتر گئی تھی۔ ہم سڑک پر چلتے نیچے ایک بڑے بازار میں آ گئے۔ یہاں ایک طرف کتنی ہی پرانے اور نئے ماڈل کی کاریں کھڑی تھیں۔ ہمیں دیکھ کر ایک با وردی ڈرائیور دوڑ کر آ گیا کہنے لگا۔ " میم صاحب ! چندی گڑھ جائیں گے ۔؟
میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔ بالکل نئے ماڈل کی کار ہے ۔‘‘ ہمارے پاس سامان تو تھا نہیں صرف ایک ٹریولنگ بیگ نتالیا نے کندھے سے لٹکایا ہوا تھا ایک ٹریولنگ بیگ میرے کندھے سے لٹک رہا تھا۔ نتالیا نے اس سے کرایہ بھی طے نہ کیا۔ اس کو کرایہ طے کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ وہ تو ہوا میں سے ہاتھ گھما کر جتنے نوٹ چاہے پیدا کر سکتی تھی۔ گو میرے سامنے اس نے ابھی تک ایسا نہیں کیا تھا مگر میں نے بدروحوں کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔
اس نے ڈرائیور سے کہا۔’’ ٹھیک ہے ۔ گاڑی لے آؤ۔‘‘ وہ جلدی سے گاڑی لے آیا۔ ہم اس میں بیٹھ گئے۔ بڑی آرام دہ کار تھی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ میں نے رات بھارت کے پنجاب کے شمالی پہاڑی علاقے میں کسی جگہ گزاری تھی۔ اور اب ہم چندی گڑھ جارہے تھے ۔ گاڑی نیم پہاڑی علاقے کی سڑک پر چندی گڑھ کی طرف دوڑی جارہی تھی۔ چونکہ نتالیا نے خود مجھ سے کہا تھا کہ ہم دلی سے بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان جائیں گے اس لئے میں نے راستے میں اس سے پوچھا۔” چندی گڑھ سے دلی جانے والی ٹرین ہمیں مل جاۓ گی اس وقت ؟“
پراسرار نتالیا نے آہستہ سے کہا۔ ”ہم چندی گڑھ سے بائی ائیر دہلی جائیں گے ۔“ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ میں جلدی سے جلدی اپنے پیارے وطن پاکستان پہنچ جانا چاہتا تھا۔ میں نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ کراچی سے ایبٹ آباد پہنچنے کا بھی میں انتظار نہیں کروں گا۔ اگر راستے میں اس حسین بدروح سے فرار ہونے کا کوئی موقع مل گیا تو اسے وہیں چھوڑ کر فرار ہو جاؤں گا۔ اس کے ساتھ ہی دل میں یہ خیال بھی ضرور آتا کہ آخر یہ بھوت پریت ہے ، بدروح ہے۔ اس کو فورا پتہ چل جاۓ گا کہ میں اسے چھوڑ کر کہاں چلا گیا ہوں۔
یہ تو مجھے وہیں آکر دبوچ لے گی ۔ لیکن میں یہ سوچ کر اس خیال کو دل سے نکال دیتا تھا کہ جو ہوگا دیکھا جاۓ گا۔ ہو سکتا ہے اس کو پتہ ہی نہ چل سکے کہ میں کہاں ہوں۔اس کے ساتھ بدروحوں جیسی زندگی بسر کرنے سے تو یہی بہتر تھا کہ میں اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ شاید میں کامیاب ہو جاؤں۔ پھر مجھے یہ بھی بڑا حوصلہ تھا کہ میں اپنے اسلامی وطن پاکستان میں ہوں گا جہاں ہر کوئی میری مدد کرنے کو تیار ہوگا۔
چندی گڑھ آیا تو نتالیا نے ڈرائیور سے کہا۔’’ایئر پورٹ لے چلو۔‘‘ ہم ایئرپورٹ پر آگئے۔ میرا خیال تھا کہ ہمیں وہاں کسی ٹریولنگ ایجنسی کے آفس سے دہلی تک کے ایئر ٹکٹ خریدنے پڑیں گے اور جہاز میں سیٹ ریزرو کروانی پڑے گی لیکن ایسی کوئی بات نہ ہوئی۔ ایئرپورٹ پر کار سے اتر کر نتالیا سیدھی ایئر پورٹ کی عمارت کی طرف بڑھی۔ میں نے اپنی تسلی کی خاطر اس سے پوچھا۔ ” کیا یہاں سے ہمیں دہلی کے ٹکٹ مل جائیں گے ؟“
نتالیا ایک بک سٹال کے پاس رک گئی۔ اس نے اپنے پرس میں ہاتھ ڈال کر دو ٹکٹ نکالے۔ایک مجھے دیتے ہوۓ کہا۔ ” یہ تمہارا چندی گڑھ سے دہلی تک کا ٹکٹ ہے اور یہ میرا ٹکٹ ہے۔“
حسین بدروح نتالیا نے اپنی شعبدہ بازیاں دکھانی شروع کر دی تھیں۔ میں ان شعبدہ بازیوں سے خوش تھا کیونکہ میری منزل جلدی قریب آرہی تھی۔ پراسرار نتالیا مجھے لے کر عین اس وقت ایئر پورٹ پر پہنچی تھی جب دہلی کی طرف جانے والے جہاز کے روانہ ہونے میں صرف پندرہ میں منٹ ہی باقی تھے۔ جب ہم لاؤنج میں پہنچے تو اعلان ہو رہا تھا کہ دہلی جانے والے مسافر جہاز میں سوار ہو جائیں۔ ہم بھی مسافروں کی قطار میں شامل ہو گئے۔ کسٹم کی کمپیوٹر مشین نے ایک منٹ میں ہمارے ٹریولنگ بیگ چیک کر لئے تھے اور تعجب کی بات ہے کہ پراسرار نتالیا کے پاس بورڈنگ کارڈ بھی موجود تھے اور جہاز میں ہماری سیٹیں بھی بک ہو چکی تھیں ۔
قطار میں کھڑے کھڑے نتالیا نے میرا بورڈنگ کارڈ مجھے دے دیا۔ پراسرار نتالیا کی ان ماورائے انسانی عقل شعبدہ بازیوں سے مجھے ڈر بھی لگنے لگا تھا کہ یہ حسین بلا مجھے فرار ہونے کے بعد کہیں نہ کہیں ضرور دبوچ لے گی لیکن اب اس قسم کی باتیں سوچنے کا وقت گزر چکا تھا اور میں نے ہر حالت میں اس سے چھٹکارا حاصل کنے کا فیصلہ کر لیا تھا خواہ اس کے لئے مجھے کچھ ہی کیوں نہ کرنا پڑتا۔
ہم جہاز میں سوار ہو گئے۔ جہاز نے ہمیں دہلی پہنچا دیا۔ دہلی ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد ہم ایئر پورٹ کی بلڈنگ ہی میں ایک ریسٹورنٹ میں آ کر بیٹھ گئے۔ وہاں ہم نے ناشتہ کیا۔ پراسرار نتالیا نے کہا۔ ’’ایک گھنٹے بعد اس ٹرمینل سے پاکستان کے لئے جہاز روانہ ہوگا۔ میں نے تمام کاغذات تیار کروا کر رکھ لئے ہیں تم فکر نہ کرنا۔“ اس نے پرس میں سے دو پاسپورٹ نکالے۔ ایک پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیا دوسرا پاسپورٹ مجھے دیتے ہوۓ کہا۔” یہ تمہارا پاسپورٹ ہے۔‘‘ میں نے اسے کھول کر دیکھا۔ یہ انڈین پاسپورٹ تھا اس پر میری فوٹو لگی ہوئی تھی نیچے انگریزی اور ہندی زبانوں میں میرا ہندو نام لکھا تھا۔
میں نے ورق الٹ کر دیکھا اس پر انڈیا سے پاکستان تک کا ایک مہینے کا ویزا بھی لگا ہوا تھا۔ میں عالم حیرت میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور خاموش تھا۔ میں جانتا تھا کہ میں کسی عام کمزور اور نارمل عورت کے ساتھ سفر نہیں کر رہا۔ جو عورت میرے ساتھ سفر کر رہی ہے وہ ایک بدروح ہے اور بے اندازہ شیطانی طاقت رکھتی ہے ۔
پراسرار نتالیا میرا ہاتھ تھام کر مجھ سے پیار محبت کی باتیں کرنے لگی میں اس کی محبت کا جواب محبت ہی سے دیتا رہا۔ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اس نے اپنی گھڑی پر نگاہ ڈالی اور بولی۔”چلو میری جان! وقت ہو گیا ہے۔“ وہاں سے ہم ایک دوسرے لاؤنج کی طرف بڑھے۔
اسے سب معلوم تھا کہ کہاں جانا ہے۔ لاؤنج کے باہر سکیورٹی گارڈ کھڑے تھے۔ انہوں نے ہمارے پاسپورٹ دیکھے ، ہمارا سامان چیک کیا۔ ہم سے کچھ سوال پوچھے جن کے جواب ہم نے دے دیئے۔ ہمیں آگے جانے کی اجازت مل گئی۔ ہمارے پاس انڈین پاسپورٹ تھے اس
لئے ہم سے زیادہ پوچھ کچھ نہیں کی گئی۔
سامان کے علاوہ ہماری بھی الگ الگ تلاشی بڑی سختی سے لی گئی تھی ۔ ہم کسٹم کے کاؤنٹر پر آگئے ۔ وہاں پاکستان جانے والے کچھ اور مسافر بھی کھڑے اپنے اپنے کاغذات چیک کر وا رہے تھے۔ ہم نے بھی پاسپورٹ آگے کر دیئے ۔کسٹم نے میرا پاسپورٹ کھول کر غور سے دیکھا پھر میری طرف گھور کر دیکھا اور مختلف سوال کرنے لگا۔ پاکستان کیوں جا رہے ہو ؟ کس کے پاس ٹہروگے وغیرہ وغیرہ۔
میں نے یہی کہا کہ ہم دونوں میاں بیوی ہیں پاکستان کی سیر وسیاحت کرنے جا رہے ہیں۔ دس پندرہ دنوں میں واپس آ جائیں گے ۔ نتالیا سے بھی اسی قسم کے سوال ۔ پوچھے گئے۔اس کے پاسپورٹ پر بھی نتالیا کے بجائے اس کا ہندوانہ نام لکھا ہوا تھا۔ ہمیں ڈیپارچر لاؤنج میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ڈیپارچر لاؤنج ساتھ ہی تھا۔ ہم وہاں آ کر بیٹھ گئے۔ کسٹم والوں نے جو ہم سے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس کتنی پاکستانی کرنسی ہے تو نتالیا نے اپنا پرس کھول کر کہا تھا۔ ’’ ہمارے پاس پاکستانی کرنسی کے صرف پندرہ سو روپے ہیں۔‘‘
کسٹم آفیسر نے پوچھا تھا۔ ” تم لوگوں نے ایک مہینے کا ویزہ لگوایا ہے ان روپوں سے تو تمہارا ایک ہفتے گزارہ نہیں ہوگا۔ ‘‘ پراسرار نتالیا نے کہا تھا کہ وہاں ہمارے جاننے والی ایک فیملی ہے ہم ان کے ہاں جا کر ٹھہریں گے اور ہمارے پیسے بہت کم خرچ ہوں گے ۔ لاؤنج میں آنے کے بعد پراسرار نتالیا نے مجھے ایک ہزار روپے کے پاکستانی کرنسی کے نوٹ دیتے ہوئے کہا۔ ہ تم اپنے پاس رکھ لو کسی بھی وقت کوئی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ " میں نے ایک ہزار روپے کے پاکستانی نوٹ اپنی جیکٹ کی جیب میں رکھ لئے۔اس زمانے میں دہلی سے مسافر جہاز سیدھے کراچی جایا کرتے تھے ہمیں بھی کراچی ہی جانا تھا۔ نتالیا نے کہا۔ ”کراچی سے ہم بذریعہ ریل راولپنڈی اور وہاں سے بذریعہ کار ایبٹ آباد چلے جائیں گے ۔‘‘
اسے ایک ایک روٹ کا پتہ تھا۔ابھی تک وہ مجھے یہی تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ جو کچھ ہو رہا ہے بڑی معمول کے مطابق کارروائی سے ہو رہا ہے اور اس کو پاکستان کے سارے شہروں کے بارے میں پتہ ہے کہ کون سا شہر کس جگہ پر ہے اور میں بھی اس پر اپنی حیرانی ظاہر نہیں کر رہا تھا کہ اس نے ایک ہی رات میں یہ سب کچھ کیسے کر لیا کہ ہم دونوں کے پاسپورٹ بھی بن گئے ، ان پر ویزے بھی لگ گئے اور پاکستانی کرنسی بھی حاصل ہو گئی۔ مجھے پاکستان پہنچنے سے غرض تھی اور پاکستان اب تھوڑی دور ہی رہ گیا تھا۔
آخر پاکستان کو جانے والے جہاز کی روانگی کا بھی اعلان ہو گیا۔ ہم دوسرے مسافروں کے ساتھ انڈین ایئر لائنز کے جہاز میں سوار ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد جہاز ٹیک آف کر گیا اور اس نے اپنا رخ پاکستان کے شہر کراچی کی طرف کر لیا۔ پراسرار نتالیا میری ساتھ والی سیٹ پر ہی بیٹھی تھی۔ جہاز میں ہی ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ آخر ہم کراچی پہنچ گئے۔ پاکستان کی سر زمین پر اتر کر اور ایئر پورٹ پر پاکستان کا ہلالی پرچم لہراتا دیکھ کر میں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھے کس قدر خوشی ہوئی۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں اپنے بہن بھائیوں کے پاس آ گیا ہوں اور اب کوئی دشمن کوئی بدروح میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
پراسرار نتالیا میرے ساتھ تھی۔ میں نے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی فرار ہونے کے مواقع تلاش کرنے شروع کر دیئے تھے۔ لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ جلدی میں کوئی غلط قدم اٹھا کر دوبارہ اسی مصیبت میں پھنس جاؤں ۔ میں نتالیا سے اس طرح الگ ہونا چاہتا تھا کہ اسے میرے فرار ہونے کا کم از کم دس بارہ گھنٹوں تک علم نہ ہو سکے اور اس دوران مجھے اس سے زیادہ سے زیادہ دور نکل جانے کا موقع مل جاۓ ۔
یہ اس صورت میں ممکن تھا کہ جب وہ رات کو گہری نیند سو رہی ہو تو میں چپکے سے نکل جاؤں۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کیا وہ رات کو سوتی بھی تھی ؟ شادی کی پہلی رات وہ تقریبا ساری رات مجھ سے باتیں کرتی رہی تھی اور شاید رات کے پچھلے پہر جب میں سو گیا تھا تو وہ لیٹ ضرور گئی تھی مگر مجھے یقین ہے کہ وہ جاگ رہی تھی اور میرے سو جانے کے بعد وہاں سے چلی گئی تھی۔
یہ بدروحیں اور بھوت پریت سویا نہیں کرتے۔ - تجربے نے مجھے یہی بتایا تھا۔ میں نے روہنی بدروح کو کبھی سوتے ہوۓ نہیں دیکھا تھا۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ کسی بہانے میں بدروح نتالیا کو خواب آور گولیاں کھلا دوں گا۔ پھر سوچا کہ شاید خواب آور گولیاں کھا کر بھی اسے نیند نہ آۓ اور یہ بھی ممکن تھا کہ اسے میرے دل کا حال معلوم ہو جاۓ ۔ پھر تو وہ مجھے ایسا جکڑے گی کہ میں شاید ساری عمر اس کی قید سے آزاد نہ ہو سکوں گا۔ بہر حال مجھے اس سے بھاگنے کی ایک کوشش ہر حالت میں کرنی تھی۔ اس کے بعد جو ہو سو ہو ۔ میرے لئے یہی ایک راستہ باقی رہ گیا تھا۔
ایئر پورٹ پر پاکستانی کسٹم پوسٹ پر بھی ہماری پوری چیکنگ ہوئی۔ پراسرار نتالیا نے خود کو بھی اور مجھے بھی ہندو ظاہر کیا ہوا تھا۔ پاسپورٹ پر میرا نام پرکاش کھنہ لکھا ہوا تھا۔ نتالیا مسسز پرکاش کھنہ بن گئی تھی ۔ ضروری چیکنگ کے بعد ہم سے پوچھا گیا کہ ہم پاکستان میں پہلے کہاں جائیں گے۔ نتالیا نے بتایا کہ ہم پہلے لاہور جائیں گے اور وہاں کانٹی نینٹل ہوٹل میں ایک ہفتہ قیام کر کے لاہور شہر کی سیر کریں گے ۔
وہاں سے ہم راولپنڈی جائیں گے ۔ نتالیا نے کہا۔ ” وہاں میرے ماتا پتاجی کے ایک پرانے مسلمان دوست راجہ گل زمان ہیں ہم دو دن ان کے پاس ٹھہریں گے اس کے بعد ایبٹ آباد جاکر ویزے کے باقی دن وہیں گزاریں گے ۔
ہمیں کہا گیا کہ لاہور جاتے ہی چیئرنگ کراس تھانے میں رپورٹ کریں۔ اس کے بعد ہم ایئر پورٹ سے باہر آگئے۔ وہاں سے ہم نے ٹیکسی پکڑی اور سیدھے کراچی کے ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے ۔ معلوم ہوا کہ شام کے وقت ایک ایکسپریس ٹرین لاہور جار ہی ہے۔ نتالیا نے کہا۔ ” میرے ساتھ آؤ۔ ٹکٹ لے آتے ہیں۔“ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ مجھے زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھی۔
بکنگ آفس میں جا کر نتالیا نے فرسٹ کلاس کے دو ٹکٹ لئے اور ہم پلیٹ فارم پر آکر ایک سٹال پر چاۓ پینے کے لئے کھڑے ہو گئے ۔ نتالیا کہنے لگی۔ ” میں لاہور میں کچھ نئے کپڑے خریدوں گی۔ مجھے پاکستانی عورتوں کا لباس بڑا پسند ہے۔“ ۔ میں نے سوچا کہ میں نتالیا کو لاہور کے انار کلی بازار میں شاپنگ کے لئے لے جاؤں گا اور وہیں کسی بہانے غائب ہو جاؤں گا۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یہ میرے لئے بڑا سنہری موقع بن سکتا تھا۔ جب لاہور جانے والی ٹرین پلیٹ فارم پر آ کر گئی تو دوسرے مسافروں کے ساتھ ہم بھی ٹرین میں سوار ہو گئے۔
ہمارا فرسٹ کلاس کا کمپارٹمنٹ تھا۔ ہمارا سفر بڑا آرام سے کٹا۔ ہم جس وقت لاہور پہنچے دن ڈھلنا شروع ہوگیا تھا۔ ایک مدت بعد اپنے شہر لاہور آ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی۔ سٹیشن سے باہر نکلے تو میں نے نتالیا سے کہا۔ ”ہمیں ہوٹل کانٹی نینٹل میں ٹھہرنا ہے۔ اس علاقے میں چیئرنگ کراس تھانہ لگتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے وہاں جاکر رپورٹ کرنی ہوگی۔ “
نتالیا کہنے لگی۔’’اس کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن تم کہتے ہو تو تھانے چل کر رپورٹ کر دیں گے۔“
مجھے معلوم تھا کہ اس بدروح کو تھانے جانے کی کیا ضرورت ہے لیکن وہ مجھے اجنبی تاثر دے رہی تھی کہ وہ کوئی بدروح نہیں ہے ۔ سٹیشن سے ہم سیدھا چیئرنگ کراس تھانے آگئے ۔ تھانے میں موجود کانسٹیبل محرر نے ہمارے پاسپورٹ بڑے غور سے دیکھے ۔ پھر پوچھا کہ ہم پاکستان کیوں آۓ ہیں۔ ہوٹل میں کیوں ٹھہرے ہیں ، کہاں جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے تمام سوالوں کا اسے تسلی بخش
جواب دیا۔
اس نے کہا۔ ” ٹھیک ہے ۔ لاہور سے ایبٹ آباد جاتے ہوۓ ہمیں رپورٹ کر
کے جائیں۔
نتالیا نے کہا۔ ” شکریہ! ہم ضرور رپورٹ کر کے جائیں گے ۔“ وہاں سے ہم ٹیکسی میں سوار ہوکر ہوٹل میں آگئے۔ یہاں ایک کمرہ ہم نے میاں بیوی یعنی پرکاش کھنہ اور مسز پرکاش کھنہ کے نام سے لے لیا۔ بڑے آرام سے ہم نے غسل کیا۔ تازہ دم ہو کر نیچے لابی میں بیٹھ کر چائے پینے گئے ۔ نتالیا کہنے لگی۔ ”ہم ابھی انار کلی جائیں گے ۔ میں اپنے لئے گرم جرسی خریدنا چاہتی ہوں۔ ایبٹ آباد میں سردی ہوگی تم بھی سویٹر خرید لینا۔
پہلے میں نے سوچا تھا کہ نئے کپڑے خریدوں گی مگر یہاں زنانہ ریڈی میڈ کپٹرے تو ملیں گے نہیں۔ ساڑھیاں پہننے کا یہاں رواج نہیں ہے ۔“
ہم چائے پیتے ہوۓ باتیں کر رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی کچھ فاصلے پر بیٹھا ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہمیں دیکھ لیتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ سی آئی ڈی کا آدمی ہے۔ ہندوستان سے کوئی بھارتی آتا ہے تو اس کی ضرور نگرانی کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں بھی کوئی پاکستانی جاتا ہے تو وہاں کی سی آئی ڈی اس کی نگرانی کرتی ہے ۔
میں نے کوئی خیال نہ کیا مگر یہ خیال ضرور آیا کہ جب میں انار کلی بازار نتالیا سے الگ ہو گیا تو ممکن ہے یہ سی آئی ڈی والا نتالیا کو چھوڑ کر میرے پیچھے لگ جاۓ ۔ میرے لئے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو سکتی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ میں اس کو ساری کہانی بیان کر دوں گا اور بتا دوں گا کہ میں ہندوستانی نہیں ہوں اور ہندو بھی نہیں ہوں بلکہ پاکستانی ہوں۔ مسلمان ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اسے میری بات کا یقین نہ آۓ ۔ لاہور میں میرا کوئی رشتے دار وغیرہ بھی نہیں تھا۔
میں نے سوچ سوچ کر آخر یہی فیصلہ کیا کہ مجھے لاہور میں نتالیا سے الگ نہیں ہونا چاہئے یہ کام مجھے کسی دوسرے شہر مثلا راولپنڈی پہنچ کر کرنا چاہئے۔ جب یہ سی آئی ڈی والا وہاں نہ ہو کیونکہ مجھے یقین تھا کہ یہ خفیہ کا آدمی لاہور میں ہی رہ جاۓ گا۔ ہم ہوٹل سے نکل کر انار کلی آگئے۔ یہاں ہم نے اپنے لئے گرم جرسیاں وغیرہ خریدیں۔ نتالیا نے نئے جوتے خریدے۔ وہ بالکل ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے وہ ایک عام گھریلو عورت ہے اور بدروحوں اور بھوت پریت کی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک رات ہم ہوٹل میں رہے۔ دوسرے دن ہم بذریعہ ریل کار صبح صبح راولپنڈی روانہ ہو گئے اس وقت مجھے سی آئی ڈی والا کوئی آدمی اپنے آس پاس نظر نہیں آیا تھا۔ شاید وہ ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا۔
راولپنڈی ہم دن کے ایک بجے پہنچے ۔ وہیں سٹیشن کے فرسٹ کلاس میں ڈائنگ روم میں بیٹھ کر ہم نے کھانا کھایا۔ وہاں سے ہمیں ایک پرائیویٹ ٹیکسی لے کر ابیٹ آباد پہنچنا تھا۔ راولپنڈی پچنہتے ہی میں نے نتالیا سے بھاگ جانے کے مواقع تلاش کرنے شروع کر دیئے تھے۔ لیکن میں رات کے وقت فرار ہونا چاہتا تھا جس وقت نتالیا بدروح سو رہی ہو تاکہ اسے میرے فرار کا صبح کو علم ہو اور مجھے اس سے دور نکل جانے کا موقع مل جائے۔
اس کے لئے راولپنڈی میں ایک رات قیام کرنا ضروری تھا چنانچہ میں نے نتالیا سے کہا۔ ”نتالیا! میں سفر کی وجہ سے بڑا تھک گیا ہوں۔ آگے بھی ایبٹ آباد تک ٹیکسی کا سفر ہے میں چاہتا ہوں کہ ایک رات راولپنڈی میں آرام کر لوں۔
نتالیا بدروح کہنے لگی ۔ اگر تم چاہتے ہو تو کسی ہوٹل میں ایک رات ٹھہر جاتے ہیں۔ کل ایبٹ آباد چلے چلیں گے ۔
میں نے کہا۔ ” یہاں صدر میں شور ہوٹل بڑا اچھا ہوٹل ہے وہاں ٹھہر جائیں گے۔“
اس زمانے میں شور ہوٹل کا شمار پنڈی کے کلاس ون ہوٹلوں میں ہوتا تھا۔ اسلام آباد پاکستان کا نیا دار الحکومت ضرور بن چکا تھا مگر ابھی وہ تکمیل کے آخری مراحل میں تھا اور نئے ہوٹل بن رہے تھے ، نئی عمارتیں بھی بن رہی تھیں۔ ہم نے شور ہوٹل میں ایک ڈبل بیڈ والا کمرہ لے لیا۔ دوپہر کا کھانا کھا کر شہر کی سیر کرنے نکل گئے۔ شام کو واپس آ کر چاۓ پی اور باتیں کرنے لگے۔ رات ہو گئی تو رات کا کھانا کھا کر ہم آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے۔ میں اب نتالیا بدروح کے سو جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ میں جاگ رہا تھا۔ نتالیا پلنگ پر ہلکا سا کمبل اوپر لئے منہ دوسری طرف کر کے لیٹی ہوئی تھی۔

میں پلنگ پر لیٹا تھوڑی تھوڑی دیر بعد دیوار پر لگے کلاک کو دیکھ لیتا تھا۔ ابھی رات کے دس بجے تھے۔ کمرے میں دھیمی روشنی والا ٹیبل لیمپ روشن تھا۔ رات گزرتی جارہی تھی۔ میں جاگ رہا تھا۔ مجھے نیند آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جب رات آدھی گزر گئی تو مجھے نتالیا کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز سنائی دی۔ میں بڑی احتیاط کے ساتھ آواز پیدا کئے بغیر پلنگ سے اٹھ کر کلوزٹ روم میں گیا۔ وہاں میں نے پتلون قمیض اور جیکٹ اور بوٹ پہنے اور دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل گیا۔ سردیوں کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ میں نے جیکٹ کے بٹن بند کئے اور ریلوے سٹیشن کی طرف چلنے لگا۔ میں نے اپنی جیب میں سے بڑھ نکال کر دیکھا۔
میرے پاس نتالیا کے دیئے ہوئے دو ہزار روپے اس طرح پڑے تھے۔ یہ اس زمانے میں کافی رقم ہوا کرتی تھی۔

 پراسرار لڑکی

مجھے ہوٹل سے ذرا فاصلے پر ہی ایک ٹیکسی مل گئی۔ میں اس میں بیٹھ کر سٹیشن پر آ گیا۔ سٹیشن پر آکر معلوم ہوا کہ لاہور کی طرف کوئی گاڑی نہیں جا رہی۔ وہاں سے میں ایک اور اڈے پر آ گیا۔ لاری اڈے سے لاہور کی طرف رات کے ایک بجے آخری لاری جایا کرتی تھی ۔ وہ لاری مجھے مل گئی اور میں اس میں بیٹھ گیا۔ لاری میں بیٹھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ایک آدمی نے مجھے لاری میں سوار ہوتے گھور کر دیکھا تھا اور میرے ساتھ ہی لاری میں سوار ہو گیا تھا۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 20

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں