پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 20

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 20


مجھے شک ہوا کہ شاید یہ سی آئی ڈی کا آدمی ہے اور چونکہ میں انڈیا سے آیا ہوں اس لئے میرا پیچھا کرنے لگا ہے جو اس کی ڈیوٹی ہے۔ مگر میں اپنے وطن پاکستان میں تھا میں پاکستانی تھا اور مسلمان تھا مجھے کوئی فکر نہیں تھی۔
لاری لاہور کی طرف روانہ ہو گئی۔ لاری جہلم پہنچی تو میں دوسرے مسافروں کے ساتھ چاۓ پینے کے لئے اترا۔ وہ آدمی بھی میرے ساتھ ہی اترا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنی نظروں میں رکھے ہوۓ تھا ۔ میں نے کوئی خاص خیال نہ کیا۔ لاری لاہور پہنچی تو صبح ہو رہی تھی۔ میں بڑا مطمئن تھا کہ نتالیا بدروح کو میرے فرار کا ابھی تک علم نہیں ہوا اور اب اگر ہو بھی گیا ہوگا تو میں اس سے بہت دور نکل آیا تھا۔

میرا پروگرام لاہور سے سیدھا کراچی جانے کا تھا تاکہ میں نتالیا سے جتنی دور جا سکتا ہوں چلا جاؤں۔ میں لاری اڈے سے ایک ٹیکسی لے کر سیدھا ریلوے سٹیشن آ گیا۔ کراچی جانے والی گاڑی میں ابھی دیر تھی۔ میں ریفرشمنٹ روم میں آ گیا اور ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے کے بعد چائے پی رہا تھا کہ وہی سی آئی ڈی والا آدمی جو پنڈی سے میرے ساتھ لاری میں سوار ہوا تھا دو سپاہیوں کے ساتھ اندر آگیا۔ وہ سیدھا میرے پاس آیا اور بولا۔ ” تمہار انام کیا ہے ؟

“ میں نے کہا۔ ”فیروز ۔‘‘ اس نے کہا۔ ”مگر تم انڈیا سے دو روز پہلے پاکستان میں داخل ہوئے ہو اور انڈین پاسپورٹ پر آئے ہو اور تمہارا نام پرکاش کھنہ ہے ۔“ میں نے ہنس کر کہا۔’’ بالکل غلط ہے ۔ میں پاکستانی ہوں ، مسلمان ہوں اور میرا نام فیروز ہے۔“

اس نے کہا۔ ”تم جھوٹ بولتے ہو۔ تمہارے ساتھ تمہاری بیوی مسز پرکاش کھنہ بھی تھی ۔۔
میں نے کہا۔” میری کوئی بیوی نہیں ہے ۔ میں شادی شدہ نہیں ہوں ۔“ اس نے ایک سپاہی سے کہا۔’’اس کی تلاشی لو۔“ سپاہی میری تلاشی لینے لگا۔ میری جیکٹ کی اندر والی جیب میں سے میرا انڈین پاسپورٹ نکل آیا۔ یہ مصیبت نتالیا نے میرے گلے میں ڈال دی تھی۔ اس نے میرا پاسپورٹ میری جیکٹ میں ڈال کر کہا تھا۔ اسے جیکٹ میں ہی رکھنا۔ یہ غیر ملک ہے یہاں کسی وقت بھی یہ دکھانا پڑ سکتا ہے۔“
اور مجھ سے یہ غلطی ہوئی تھی کہ شور ہوٹل سے فرار ہوتے وقت میں نے پاسپورٹ نکال کر وہیں نہیں پھینکا تھا۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ میرا انڈین پاسپورٹ جو نتالیا نے خدا جانے کس جن بھوت کے ذریعے بنوایا تھا میری جیکٹ میں ہی ہے۔ انڈین پاسپورٹ برآمد ہونے کے بعد یہ ثابت ہو گیا تھا کہ میں انڈین نیشنل ہوں۔ ہندو ہوں اور میرا نام پرکاش کھنہ ہے ۔ پاسپورٹ پر باقاعدہ میری تصویر لگی ہوئی تھی اور نیچے میرا نام لکھا ہوا تھا۔ وہاں میرے دستخط بھی تھے ۔ سی آئی ڈی والے نے سپاہیوں سے کہا۔”اسے تھانے لے چلو۔“

میں نے کہا۔ ” آپ میرا میڈیکل معائنہ کروا لیں۔ میں ہندو نہیں ہوں۔ میں مسلمان ہوں۔“
اس نے کہا۔ ’’پاکستان میں بھارت کے ایسے جاسوس بھی جاسوسی کرنے آتے ہیں جن کے مسلمانوں کی طرح ہسپتال میں ختنے کرا دیئے جاتے ہیں تاکہ ان پر ہندو ہونے کا کسی کو یقین ہی نہ آۓ ۔ تم بھی ان ہی بھارتی جاسوسوں میں سے ہو ۔ ہم نے ایسے دو جاسوس پہلے پکڑے تھے ۔ تھانے چلو ۔ “
میں کیا کرتا بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ دونوں سپاہیوں نے مجھے پکڑ رکھا تھا۔ وہ مجھے ریفرشمنٹ روم سے باہر پلیٹ فارم پر لے آۓ ۔ پلیٹ فارم پر پہلے سے دو سپاہی موجود تھے۔ ان میں سے ایک کے پاس ہتھکڑی تھی۔ اس وقت مجھے ہتھکڑی لگادی گئی

اور پولیس مجھے لے کر سٹیشن سے باہر آگئی۔ میں بڑا پریشان ہوا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں کیا نہ کروں۔ پولیس مجھے سیدھی چیئرنگ کراس تھانے لے آئی۔ وہاں میرا پاکستان میں داخلے کا باقاعدہ اندراج ہوچکا تھا۔ مجھے اس وقت حوالات میں بند کر دیا گیا۔ ایک گھنٹے بعد ایک پولیس انسپکٹر آیا۔ اس نے مجھے حوالات کی سلاخوں میں سے دیکھا اور اپنے ساتھ آۓ ہوۓ کانسٹیبل سے کہا۔’’اسے لے آؤ۔“

کانسٹیبل مجھے ہتھکڑی لگا کر تھانے کے ایک کمرے میں لے آیا۔ وہاں پولیس انسپکٹر موجود تھا۔ میں اس کے سامنے میز کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس نے کانسٹیبل کو باہر بھیج دیا اور مجھ سے کہا۔ ’’یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ تم انڈیا کے جاسوس ہو ۔ جس عورت کو اپنی بیوی بنا کر اپنے ساتھ لائے تھے ہم نے پنڈی کے ہوٹل میں چھاپہ مار کر گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی ہے مگر ہم اسے بہت جلد گرفتار کر لیں گے ۔ یہ بتاؤ کہ پاکستان میں تمہارے انڈین جاسوس ساتھی کہاں کہاں پر ہیں؟“ ۔

میں نے کہا۔ ’’جناب ! میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ میں بھارتی جاسوس نہیں ہوں۔ میں مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے لاہور آکر آباد ہو گیا تھا پھر ممبئی اپنے دوست کے پاس کچھ دنوں کے لئے چلا گیا اور وہیں ایک ایسی مصیبت میں پھنس گیا کہ جس کو سن کر آپ کو بھی یقین نہیں آۓ گا۔“


پولیس انسپکٹر نے کہا۔ ’’اس قسم کی فضول باتیں کرنے میں اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کرو۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ تمہارا تعلق انڈیا کے ان جاسوسوں سے ہے جو ہندو ہوتے ہیں مگر جن کے آپریشن کے ذریعے ختنے کروا دیئے جاتے ہیں اور مسلمان بنا کر پاکستان میں جاسوسی کرنے کے لئے بھیجا جاتا ہے ۔
میں نے کہا۔ ”سر ! میں انڈین جاسوس نہیں ہوں۔“
پولیس انسپکٹر نے کہا۔ ”جس عورت کے ساتھ تم پاکستان آۓ ہو وہ عورت کیا تمہاری بیوی نہیں تھی ؟“

میں نے کہا۔ ” نہیں جناب ! وہ میری بیوی نہیں تھی۔ یقین کریں وہ ایک بدروح تھی اس نے مجھے اپنے قبضے میں کیا ہوا تھا۔ اس نے میرا بھارتی پاسپورٹ بنایا تھا اور وہی مجھے اپنے ساتھ یہاں لائی تھی۔“ ۔ پولیس انسپکٹر نے میری طرف جھکتے ہوئے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا۔ ” اس قسم کی باتوں سے تم پولیس کو بیوقوف نہیں بنا سکو گے۔ تمہارے لئے بھی بہتر ہے کہ پاکستان میں اپنے بھارتی ساتھیوں کے نام اور پتے ہمیں بتا دو کہ وہ کہاں کہاں پر ہیں ؟“ میں نے کہا۔ ”انسپکٹر صاحب ! یقین کریں نہ میں انڈین جاسوس ہوں اور نہ میرا انڈیا سے کوئی تعلق ہے۔
میں ایک بڑی بھیانک مصیبت میں پھنس گیا تھا جس سے بڑی مشکل سے نکل کر آرہا ہوں۔ جو عورت میرے ساتھ تھی وہ ایک چڑیل تھی، بدروح تھی۔ میرا پاسپورٹ اس نے جن بھوتوں کے ذریعے انڈیا میں بنوایا تھا۔ اس نے مجھ سے زبردستی شادی کر لی تھی کیونکہ میں اسے پسند آ گیا تھا اور میں نے اسے کہا تھا کہ شادی کے بعد میں پاکستان میں ہنی مون منانا چاہتا ہوں۔ میں اس بہانے اسے پاکستان لانا چاہتا تھا تاکہ یہاں آکر میں اس سے چھٹکارا حاصل کر لوں کیونکہ یہ میرا وطن ہے یہاں مجھے پناہ مل جاۓ گی۔“

 پراسرار لڑکی

پولیس انسپکٹر پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ کہنے لگا۔ اگر وہ بدروح تھی تو اسے پاسپورٹ بنوانے کی کیا ضرورت تھی ؟ وہ تو تمہیں غائب کر کے اور خود غائب ہو کر بھی پاکستان آسکتی تھی کیونکہ جن بھوت تو غائب ہو جاتے ہیں ۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’ایسا وہ اس لئے کر رہی تھی کہ وہ مجھ پر یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ وہ کوئی بدروح نہیں ہے بلکہ ایک نارمل عورت ہے اور نارمل عورت کی طرح میرے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے۔ پولیس انسپکٹر مسکرایا۔ کہنے لگا۔ " تمہیں انڈیا کی خفیہ ایجنسی نے ایک دلچسپ مگر بوگس کہانی کے ساتھ پاکستان میں بھیجا ہے۔ تمہارے خیال میں ہم لوگ تمہاری من گھڑت جن بھوت کی کہانی پر اعتبار کر لیں گے ؟ ہم مسلمان ہیں۔ پاکستان اسلامی ملک ہے۔ ہم لوگ جن بھوتوں کے قائل نہیں ہے ہم صرف ایک خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کو ماننے والے ہیں ۔

تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ مجھے سچ سچ بتا دو کہ تم کس مشن پر یہاں بھیجے گئے ہو ؟“
میں کیا بتاتا۔ مجھے تو کسی بھی حکومت نے کسی بھی مشن پر نہیں بھیجا تھا۔ مگر میرے بھارتی جاسوس ہونے کے سارے ثبوت پولیس انسپکٹر کے پاس موجود تھے۔ سب سے بڑا ثبوت میرا انڈین پاسپورٹ تھا جس پر میری فوٹو لگی تھی اور نیچے میرا ہندو نام پرکاش کھنہ لکھا تھا۔ مجھے ایک دوسرے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ ظاہر ہے وہاں مجھ پر تھوڑا بہت تشدد تو ہونا ہی تھا۔
رات ہو گئی۔ مجھے تھوڑا بہت کھانے کو دیا گیا۔ پھر اس کوٹھڑی سے نکال کر ایک دوسری کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا جس کا دروازہ لوہے کی سلاخوں والا تھا اور جس کے باہر ایک سپاہی پہرہ دے رہا تھا۔ میں ایک بات پر ضرور حیران تھا کہ نتالیا ابھی تک میری تلاش میں وہاں نہیں پہنچی تھی۔

اگر وہ آسیبی عورت تھی ، بدروح تھی جس کا مجھے یقین تھا تو اسے تو اب تک میری مدد کرنے اور دوبارہ اپنے قبضے میں کرنے کے لئے پہنچ جانا چاہئے تھا لیکن سارا دن گزر گیا تھا۔ میں گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔ مجھ پر تھوڑا بہت تشدد بھی ہوا تھا اور اب میں حوالات میں بند تھا مگر نتالیا ابھی تک میری مدد کو نہیں پہنچی تھی۔ مجھے کچھ کچھ یقین ہوتا جا رہا تھا کہ نتالیا بدروح یا آسیبی عورت نہیں تھی۔
اگر وہ آسیبی عورت نہیں تھی تو پھر جو آسیبی عورت مجھے میرا ہاتھ پکڑ کر ہوا میں اڑاتے ہوۓ نیم مردہ نیم زندہ لوگوں کی عجیب و غریب دنیا سے انڈیا کے شہر چندی گڑھ کے کرسچین قبرستان کی قدیم خانقاہ میں لائی تھی وہ عورت کون تھی؟ وہ تو یقینا کوئی بدروح یا آسیبی عورت ہی تھی۔ اس کے گرم سانس کو میں نے اپنے چہرے پر اڑنے سے پہلے محسوس کیا تھا اور اس نے میری گردن کو چوما بھی تھا۔ یہ تو وہی آسیبی لڑکی تھی جس کو روہنی نے متھرا شہر کے ویران شمشان گھاٹ کی کوٹھڑی میں سے غلطی سے آزاد کر دیا تھا ۔۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر نتالیا وہ آسیبی لڑکی نہیں تھی تو پھر وہ کون تھی اور کس خوشی میں وہ مجھے پہاڑی قبرستان کی قدیم خانقاہ میں لائی تھی اور پھر خفیہ طور پر مجھ سے شادی بھی رچالی تھی۔

یہ ایک ایسا معمہ تھا جو میری سمجھ سے باہر تھا۔ مجھے روہنی کا بھی خیال آیا کہ وہ پجاری رگھو کی قید میں تھی۔ خدا جانے وہ کہاں اور کس حال میں ہوگی؟
نتالیا کے بارے میں بھی مجھے یقین تھا کہ یہ بھی ایک بدروح ہے مگر وہ مجھے پسند کرتی ہے اور اسی وجہ سے اس نے مجھ سے بیاہ رچایا ہے جبکہ میں ہرگز ہرگز اسے اپنی بیوی سمجھنے پر تیار نہ تھا۔ اس نے جو میرا انڈین پاسپورٹ بنوا کر میری جیکٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا اس کی وجہ سے میں ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو کر لاہور کے تھانے کی حوالات میں بند کر دیا گیا تھا۔ یہ لوگ مجھے بھارتی جاسوس سمجھنے میں حق بجانب تھے
میں تو نتالیا کو راولپنڈی کے شور ہوٹل میں چھوڑ کر بھاگ آیا تھا اور انڈین پاسپورٹ کی وجہ سے پولیس کی قید میں پھنس گیا تھا لیکن اس بات پر بھی مجھے تعجب تھا کہ غیر انسانی طاقت رکھنے کے باوجود نتالیا ابھی تک میرے پاس کیوں نہیں پہنچی۔وہ تو بدروح تھی بڑی آسانی سے پنڈی سے لاہور اڑ کر آ سکتی تھی اور مجھے اپنے قبضے میں کر کے واپس جہاں چاہے لے جاسکتی تھی۔

دوسری طرف جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں مجھے روہنی کی بھٹکتی روح کا بھی خیال آ رہا تھا۔ روہنی سے مجھے ایک لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ وہ کئی سالوں سے میرے ساتھ تھی اور اس نے ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا تھا اور میری مدد کی تھی مگر اب وہ خود اپنے اور میرے مشترکہ دشمن پجاری رگھو کی بدروح کے قبضے میں تھی وہ بے چاری میری مدد کرنے سے معذور تھی۔ میں ان ہی خیالوں میں گم لاہور کے ایک پولیس سٹیشن کی دوسری منزل کی کوٹھڑی میں قیدی حالت میں پڑا تھا ۔۔۔۔

 خونی عشق کی خوفناک داستان

میرے پاس کوئی ماوراۓ انسانی طاقت تو تھی نہیں کہ پولیس کی قید سے غائب ہو کر نجات حاصل کر سکتا۔ روہنی بھی میری مدد کو نہیں پہنچ سکتی تھی۔ وہ دشمن رگھو کی قید میں تھی اور اسے خود مدد کی ضرورت تھی۔ رات ہو گئی تھی۔ کوٹھڑی ایک قسم کی حوالات ہی تھی۔ دروازہ لوہے کی سلاخوں والا تھا جس کے باہر ایک مسلح کانسٹیبل پہرہ دے رہا تھا۔ کوٹھڑی میں کوئی بلب نہیں تھا۔ اگر کوئی بلب لگا ہوا بھی تھا تو وہ جل نہیں رہا تھا۔ کوٹھڑی کے باہر برآمدے میں ایک بلب روشن تھا جس کی روشنی سلاخوں میں سے گزر کر کوٹھڑی میں مجھ پر پڑ رہی تھی۔ رات شاید آدھی ہو گئی تھی ۔ تھانے کے آگے سے گزرنے والی سڑک بھی خاموش تھی۔

کبھی کبھی کوئی موٹر کار یا کوئی تانگہ گزر جاتا تھا اور پھر وہی خاموشی چھا جاتی ۔ ابھی تک مجھے قیدیوں والے کپڑے نہیں پہنائے گئے تھے کیونکہ ابھی میں حوالات میں ہی تھا اور دوسرے دن پولیس نے مجھے عدالت میں پیش کر کے میرا ریمانڈ لینا تھا اس ریمانڈ کے دوران مجھ سے باقاعدہ پوچھ گچھ ہونی تھی اور ظاہر ہے کہ مجھ پر تشدد بھی کیا جاتا ۔

میں ایک تکلیف دہ چکر میں پھنس گیا تھا اور اس کا انجام دس پندرہ سال کی قید ہی ہو سکتا تھا یعنی مجھے دس پندرہ سال جیل میں رہ کر بسر کرنے تھے جس کے خیال ہی سے مجھے وحشت ہونے لگتی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کر کے خدا سے بڑی دعا مانگی کہ یا اللہ پاک ! مجھے کسی وسیلے سے اس عذاب سے نجات عطا فرما۔ میں آئندہ کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کرونگا ۔۔۔

حرکت نہیں کروں گا جس کے بعد مجھے پچھتانا پڑے۔ خدا کے حضور دعا مانگنے سے مجھے کچھ حوصلہ ہوگیا اور میں سوچنے لگا کہ میری نجات کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور بن جاۓ گا۔ میں کوٹھڑی کے کونے میں ایک پرانے کمبل کے اوپر لیٹا ہوا تھا۔ ایک پرانا کمبل میں نے اوپر لے رکھا تھا۔ نیند غائب تھی۔ دروازے کی سلاخوں کے باہر پہلا مسلح کانسٹیبل جاچکا تھا اس کی جگہ دوسرا کانسٹیبل ڈیوٹی دینے آ گیا ہوا تھا۔ وہ رائفل کندھے سے لگائے کھڑا تھا۔ اتنے میں مجھے فضا میں ایک مانوس سی خوشبو محسوس ہوئی۔ میں ٹھٹھک سا گیا۔ یہ خوشبو مجھے اس وقت آئی تھی جب میں نے روہت گڑھ جھانسی کے پرانے قلعے کے ویران محل سے روہنی کی روح کو مرتبان سے آزاد کیا تھا۔
تو کیا روہنی کوٹھڑی میں موجود ہے ؟ اس خیال سے میں آہستہ سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور بڑے غور سے کوٹھڑی میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کوٹھڑی خالی اور سنسان پڑی تھی۔ خوشبو برابر آرہی تھی۔ یہ روہنی ہی کی خوشبو ہو سکتی تھی۔ خوشبو مدھم تھی جیسے دور سے آ رہی ہو۔ پھر خوشبو گہری ہونے لگی جیسے دور سے قریب آرہی ہو ۔ میں دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا۔ کانسٹیبل نے سلاخوں میں سے مجھ پر نگاہ ڈالی اور یہ دیکھ کر کہ میں اٹھ کر بیٹھ گیا ہوں رائفل دوسری طرف کر لیا۔ اس کے لئے فکر کرنے کی کوئی بات نہیں تھی۔ قیدی کوٹھڑی میں موجود تھا۔
اب خوشبو مجھے بڑے قریب سے آنے لگی تھی ۔ میں چوکس اور ہوشیار ہو کر بیٹھا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر یہ خوشبو روہنی ہی کی ہے تو وہ اس وقت کوٹھڑی میں میرے پاس موجود ہے۔ مجھے اپنے قریب ہی کسی کے ریشمی کپڑوں کی سرسراہٹ سی سنائی دی۔ میں بالکل ساکت ہو گیا۔ پھر کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس ہاتھ کی نرمی اور محبت بھرے احساس کو میں نے پہچان لیا۔ یہ روہنی کا ہاتھ تھا۔
وہ کوٹھڑی میں آچکی تھی۔ مگر میں اسے آواز دے کر بلا نہیں سکتا تھا۔ پھر میرے کان میں روہنی کی سرگوشی سنائی دی۔ ۔ ”شیروان فکر نہ کرو۔ میں تمہاری مدد کو آگئی ہوں۔‘‘ میں نے سرگوشی میں گیا۔ روہنی روہنی ! کیا یہ تم ہو ؟“ ’’ہاں ۔‘‘ روہنی نے سرگوشی کی۔ ”میں تمہاری روہنی یعنی شہزادی سلطانہ ہوں۔
میں نے سرگوشی میں کہا۔’’خدا کا شکر ہے کہ تم رگھو پجاری کی قید سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
روہنی نے سرگوشی میں کہا۔ " یہ لمبی کہانی ہے پھر سناؤں گی۔ اس وقت میں تمہیں یہاں سے نکالئے آئی ہوں۔“ گارڈ کانسٹیبل نے شاید ہماری سرگوشیوں کی آواز سن لی تھی یا اسے کوئی شک سا پڑ گیا تھا اس نے سلاخوں میں سے جھانک کر مجھے دیکھا اور پوچھا۔ ” تم کس سے باتیں کر رہے ہو ؟“
میں نے کہا۔ اگر میں کسی سے باتیں کر رہا ہوتا تو دوسرا آدمی تمہیں نظر آجانا چاہئے تھا مگر تم دیکھ رہے ہو کہ میں کوٹھڑی میں اکیلا ہوں۔“ گارڈ نے غور سے کوٹھڑی میں چاروں طرف دیکھا پھر باہر سے سوئیچ اون کیا اور کوٹھڑی کا بلب روشن ہو گیا۔ وہ بولا ۔ مگر یہ آوازیں کیسی آرہی تھی؟ میں نے کہا۔’’ میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔“ گارڈ نے ڈانٹ کر کہا۔ اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ خاموشی سے لیٹ جاؤ۔“ روہنی نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ ’’اس کو معلوم ہی نہیں کہ تم ابھی کوٹھڑی سے غائب ہونے والے ہو ۔ پھر تو اس کی حیرانی دیکھنے والی ہوگی۔“
میں نے روہنی سے کیا۔ ”جو کرنا ہے خاموشی سے کرو تاکہ یہاں سے ایک بار باہر نکل جائیں۔‘‘
میری سرگوشی کچھ اونچی ہو گئی تھی۔ ’’ڈیوٹی گارڈ نے چونک کر میری طرف دیکھا اور بولا۔ ” تم پھر باتیں کرنے گئے ؟ تمہیں کہہ دیا ہے کہ خاموشی سے سو جاؤ۔" خدا جانے روہنی کو کیا مذاق سوجھا اس نے پوری آواز میں کہا۔ ’’قیدی مجھ سے باتیں کر رہا ہے تمہیں کیا اعتراض ہے ؟‘‘ ایک عورت کی آواز سن کر ڈیوٹی گارڈ کانسٹیبل نے چونک کر میری طرف دیکھا۔
’’ یہ کون تھا ؟ ‘‘
میں نے کہا۔ ”میں ہی عورت کی آواز میں بول رہا تھا۔‘‘ کانسٹیبل کو میری بات کا یقین کرنا ہی پڑا کیونکہ کوٹھڑی میں اسے روہنی دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔ میں نے روہنی کو سرگوشی میں کہا۔ ”روہنی ! خدا کے لئے کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا۔“
اس بار روہنی نے پوری آواز میں کہا۔ کانسٹیبل! میں قیدی کو لے جارہی ہوں لیکن میں نہیں چاہتی کہ بعد میں تم پر الزام لگے کہ تم نے قیدی کو رشوت لے کر بھگا دیا تھا اس لئے فوراً نیچے سے پولیس انسپیکٹر یا تھانیدار کو اوپر بلاؤ تاکہ میں ان کی موجودگی میں قیدی کو لے جاؤں۔“
کانسٹیبل پر ایک عجیب خوف طاری ہو گیا تھا۔ وہ ایک عورت کی آواز سن رہا تھا مگر کوٹھڑی میں عورت موجود نہیں تھی۔ اس نے وہیں سے کسی کو آواز دے کر کہا۔ ” خداداد ! خداداد ! ایس ایچ او صاحب کو فورا اوپر بھیجو۔ اوپر گڑ بڑ ہو گئی ہے ۔ “ نیچے ایک شور ساسنائی دیا۔ میں نے روہنی سے اپنی پوری آواز میں کہا۔ ”روہنی! یہاں سے نکل چلو اس کی ضرورت نہیں ۔“ روہنی نے کہا۔ ’’شیروان ! میں تمہیں لے کر غائب ہو گئی تو اس کانسٹیبل پر مصیبت آ جائے گی۔ یہ معطل ہو جاۓ گا اور ایک بھارتی جاسوس کو فرار کرانے کے
الزام میں ہو سکتا ہے بے چارے کو قید بھی ہو جاۓ اس لئے میں تھانے کے ذمہ دار افسروں کے سامنے تمہیں غائب کرنا چاہتی ہوں تاکہ اس سپاہی کی جان بچ جاۓ ۔
‘‘ کوٹھڑی میں سے عورت کی آواز آتی سن کر گارڈ کانسٹیبل آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کوٹھڑی میں دیکھ رہا تھا اور اس نے رائفل اپنے ہاتھوں میں سیدھی کر لی تھی۔ اتنے میں برآمدے میں بہت سے تیز تیز قدموں کی آواز سنائی دی اور پھر تھانیدار اور چار سپاہی دروازے پر نمودار ہوۓ۔ ” کیا بات ہے ؟‘‘تھانیدار نے گارڈ کانسٹیبل سے پوچھا۔ گارڈ کانسٹیبل نے کہا۔ ”سر کوٹھری میں سے کسی غیبی عورت کی آواز آرہی ہے وہ کہہ رہی ہے میں قیدی کو لینے آئی ہوں۔“ تھانیدار نے پستول نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا اور میری طرف سلاخوں کے پیچھے سے دیکھا اور بولا۔
’’اندر تو کوئی عورت نہیں ہے ۔ تم سو تو نہیں گئے تھے ؟“ کانسٹیبل نے کہا۔ ”نہیں سر ! میں جاگ رہا ہوں۔ میں نے جاگتے میں عورت کی آواز سنی تھی۔ اس نے کہا تھا اپنے افسروں کو بلاؤ میں ان کے سامنے قیدی کو لے جانا چاہتی ہوں۔“ ۔ تھانیدار نے کانسٹیبل کو ڈانٹ چلاتے ہوئے کہا۔ " تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ تم ڈیوٹی دینے کے لائق نہیں رہے۔“ اس وقت روہنی نے اپنی پوری آواز میں کہا۔ ” تھانیدار صاحب ! بے چارے کانسٹیبل کو نہ ڈانٹئے ۔ اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے خود اسے کہا تھا کہ اپنے افسروں کو بلاؤ۔“

 سیاہ رات ایک سچی کہانی

غیبی عورت کی آواز سن کر تھانیدار بھی ایک بار ہکا بکا سا ہو کر رہ گیا۔ روہنی نے کہا حیران ہونے کی صورت نہیں ہے۔ میں کوٹھڑی میں موجود ہوں مگر تم لوگ مجھے نہیں دیکھ سکتے ۔ جس آدمی کو آپ لوگوں نے پکڑ رکھا ہے وہ بھارتی جاسوس نہیں ہے۔ وہ پاکستان سے محبت کرنے والا سچا پاکستانی ہے اور مسلمان ہے۔ اسی لئے میں اسے لے جارہی ہوں۔
تھانیدار نے بڑی ہمت کر کے پوچھا۔ ” کیا تم کوئی جن بھوت ہو ؟“ روہنی نے کہا۔ ’’ جی ہاں ! جن بھوت ہی سمجھ لیجئے ۔ میں اس بے گناہ قیدی کو لے جار ہی ہوں ۔ خداحافظ !‘‘
اس کے ساتھ ہی روہنی نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ جیسے ہی اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا مجھے اپنا آپ نظر آنا بند ہو گیا۔ میں اپنے جسم کا وزن باقاعده محسوس کر رہا تھا مگر مجھے اپنا جسم نظر نہیں آرہا تھا۔ روہنی پہلے ہی غائب تھی اب میں بھی اس کے ساتھ غائب ہو گیا تھا۔
اس وقت جس حیرت اور دہشت کے عالم میں کوٹھڑی کے سلاخوں والے دروازے کے باہر کھڑے سپاہی اور تھانیدار کوٹھڑی میں دیکھ رہے تھے میں اسے نہیں بھول سکتا۔ تب روہنی مجھے ساتھ لے کر فرش سے چار پانچ فٹ بلند ہو گئی اور ہم اپنے غیبی جسموں کے ساتھ دروازے کی سلاخوں میں سے اس طرح گزر گئے جس طرح دھواں سلاخوں میں سے گزر جاتا ہے۔
سپاہی اور تھانیدار سلاخوں کے ساتھ لگے ابھی تک کوٹھڑی میں ہی بت بنے دیکھ رہے تھے اور ہم ان کے درمیان سے اس طرح سلاخوں میں سے نکل گئے تھے جیسے ہوا کا جھونکا نکل جاتا ہے ۔ ہمارے جانے کے بعد ان کا کیا حال ہوا؟ اس کی مجھے خبر نہیں ہے ۔ میں روہنی کے ہاتھ میں ہاتھ دیے پولیس ہیڈ کوارٹر کی دوسری منزل سے نیچے آنے کی بجاۓ صحن کے درختوں کے اوپر سے ہو کر جا رہا تھا۔ میں نے روہنی سے پوچھا۔ ”روہنی ! تمہیں معلوم ہے میرے ساتھ کیا گزری؟“ روہنی نے کہا۔ ”ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ مجھے معلوم ہے تمہارے ساتھ کیا بیتی تھی۔ کسی جگہ بیٹھ کر میں تمہیں یہ سناؤں گی کہ میرے ساتھ کیا گزری۔“
میں خاموش ہو گیا۔ روہنی سچ کہہ رہی تھی۔ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ میرے ساتھ کیا گزری ہے اور میں کہاں ہوں۔ اگر وہ میری حالت سے بے خبر ہوتی تو میری مدد کو کیسے پہنچتی۔ رات خاموش تھی۔ ہم لاہور کی مال روڈ کے درختوں کے اوپر سے ہو کو ٹولنگٹن مارکیٹ کی طرف جا رہے تھے۔ مال روڈ سنسان پڑی تھی۔ اس زمانے میں رات کے وقت لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک بالکل نہیں ہوتی تھی۔ سڑک کی بتیاں روشن تھیں ۔ ہم ٹو لنگٹن مارکیٹ کے بھی اوپر سے ہو کر گزر گئے ۔
میں نے روہنی سے پوچھا۔’’ہم کہاں جار ہے ہیں ؟‘‘ ۔ روہنی نے کہا۔ ” مجھے لاہور شہر میں شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ بہت پسند ہے ۔ ہم جہانگیر کے مقبرے میں بیٹھ کر باتیں کریں گے ۔“
ہم ٹولنگٹن مارکیٹ سے گورنمنٹ کالج کے اوپر سے ہوتے ہوۓ بھاٹی دروازے کی طرف آگئے۔ وہاں سے ہم نے دریائے راوی کے پل کی طرف رخ کر لیا اور شاہدرہ پہنچنے کے بعد مقبرہ جہانگیر کو جانے والی چھوٹی سی سڑک کے اوپر آگئے۔ ابھی یہ سڑک پکی نہیں ہوئی تھی۔ مقبرہ جہانگیر کا دروازہ بند تھا اور چوکیدار ایک طرف بینچ پر لیٹا ہوا تھا۔
ہم بند دروازے میں سے گزار کر مقبرے کے اندر آ گئے۔ عجیب تجربہ تھا یہ ..... آج اس کا تصور کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شاید میں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ ہم مقبرہ جہانگیر کے بڑے چبوترے پر ایک طرف درختوں کے نیچے بیٹھ گئے۔ روہنی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تو مجھے اپنا جسم پھر سے دکھائی دینے لگا۔ روہنی اسی طرح غائب تھی لیکن میں اپنی انسانی حالت میں واپس آ گیا تھا۔ آسمان پر ستارے چمک رہے تھے۔ مقبرے کے چاروں طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ روہنی کہنے لگی۔ "شیروان ! کیا تم جے پور کے ویران محل میں میری سہیلی درکا کی بدروح کے پاس گئے تھے ؟“
میں نے کہا۔’’روہنی ! جب میں نے متھرا شہر کے شمشان گھاٹ پر تمہیں پجاری رگھو کے ہاتھوں قید ہوتے اور اس کے قبضے میں جاتے دیکھا تو تمہاری ہدایت کے مطابق میں اس وقت اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلا اور میں سمجھ گیا تھا کہ تمہارا کوئی بھی منتر ہمارے دشمن پجاری رگھو کو ہلاک نہیں کر سکا اور اس نے تمہیں اپنے قابو میں کر لیا ہے اور اب یقینا وہ مجھے جان سے مارنے کی کوشش کرے گا تو میں وہاں سے فرار ہو کر سیدھا جے پور کے ویران محل میں پہنچا اور جیسی بھی میری حالت تھی اس حالت میں جب آدھی رات کو درگا کی بدروح ظاہر ہوئی تو میں نے اسے بتایا کہ روہنی کو پجاری رگھو اغواء کر کے لے گیا ہے
اور اس نے مجھے تمہارے پاس مدد کے لئے بھیجا ہے۔“ روہنی نے پوچھا۔’’ پھر درگا نے کیا جواب دیا ؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’درگا نے کہا کہ میں پجاری رگھو کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ پجاری رگھو نے روہنی کو پھر اپنے قبضے میں کر لیا ہے لیکن افسوس کہ میں اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے کوئی طریقہ بتاؤ کہ میں روہنی کو پجاری رگھو کی قید سے آزاد کر اسکوں۔“
پھر اس نے کیا کہا؟ روہنی نے پوچھا ۔ میں نے کہا۔ ”درگا نے کہا تم عام منش یعنی عام انسان ہو ۔ تم پجاری رگھو کی جادوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لانا۔ روہنی کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن پجاری رگھو کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاۓ گی۔ میں کیا کہتا وہیں سے واپس چلا گیا۔‘‘
روہنی کہنے لگی۔ ’’درگا نے صحیح کہا تھا۔ خود مجھے بھی پجاری رگھو کی نئی طاقت کا اندازہ نہیں تھا جو اس کو شیش ناگن نے دے رکھی تھی۔ پجاری رگھو نے اپنی اسی طاقت سے مجھے شکست دی تھی ورنہ میں نے جس طلسمی منتر سے اس پر حملہ کیا تھا اس
کا وار کبھی خالی نہیں جاسکتا تھا۔‘‘
”لیکن پھر تم اس کی قید سے کیسے فرار ہوئیں روہنی ؟“ میرے سوال کے جواب میں روہنی کہنے لگی۔ ’’یاد رکھو ! شیطان کی طاقت کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے وہ نیکی کی طاقت کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر میں بدروح ہوتی تو شاید میں اپنے دشمن رگھو کی قید سے کبھی رہائی حاصل نہ کر سکتی لیکن شیروان ! میں بدروح نہیں ہوں بلکہ ایک بھٹکی ہوئی روح ہوں وہ بھی اس لئے ہوں کہ مجھ سے ۔
نادانستگی میں یعنی انجانے پن میں ایک گناہ سرزد ہو گیا تھا میں اس کی سزا بھگت رہی ہوں۔ چنانچہ قدرت کسی نہ کسی وسیلے سے جب میری مصیبت انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو ضرور میری مدد کرتی ہے۔ تمہیں یاد ہے جب میری اذیت میری برداشت سے باہر ہو گئی تھی تو قدرت نے تمہیں میری مدد کے لئے بھیج دیا تھا اور تم نے مجھے مرتبان سے آزاد کر دیا تھا۔ ‘‘
تمہیں کسی تمہارے گناہ کی سزامل رہی ہو بہر حال
میں نے کہا۔ ”لیکن اس کے ساتھ ہی میں بھی تو ایک ایسی مصیبت میں مبتلا ہو گیا تھا کہ جس کو ابھی تک بھگت رہا ہوں۔“ روہنی نے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے یہ میری عقل چھوٹی سی ہے میں یہ مسئلے نہیں سمجھ سکتی۔ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ انسان کو سخت مصیبتوں میں بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور ہمیشہ اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا مانگنی چاہئے ۔ سب مصیبتیں انسان کے کسی نہ کسی اپنے برے عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ بہر حال پجاری رگھو نے مجھے ایک ایسی جگہ بند کر دیا جہاں سے اس دنیا کا کوئی انسان مجھے باہر نہیں نکال سکتا تھا۔
جس طرح اپنے محل کی دیوار میں مرتبان میں بند ہونے کے بعد میں ہر وقت خدا کے حضور اپنے گناہوں کی بخشش کی دعا مانگتی رہتی تھی اسی طرح جب رگھو نے مجھے زمین کے اندر پاتال کے سب سے گہرے غار میں ایک چھپکلی بنا کر پھینک دیا تو میں یعنی میری بھٹکی ہوئی روح سجدہ ریز ہو کر خدا سے اپنے گناہوں کی بخشش کی دعائیں مانگنے لگی۔ روہنی ایک لمحے کے لئے خاموش ہو گئی۔ وہ مجھے نظر نہیں آرہی تھی لیکن اس کی خوشبو مجھے برابر آرہی تھی۔ میں نے پوچھا۔ ” پھر کیا ہوا روہنی ؟‘‘ اس نے کہا۔ ”آخر خدا نے میری فریاد سن لی اور پھر ایسا ہوا کہ میری مدد کے لئے ایک ذریعہ پیدا کر دیا۔ ہمارے دشمن پجاری رگھو نے مجھے پاتال کے جس گہرے غار میں پھینکا تھا وہاں ایک نہر بہہ رہی تھی۔
اس نہر کا پانی اتنا گرم تھا کہ اس میں سے بھاپ نکل رہی تھی۔ میں اس نہر کے کنارے گیلی دیوار سے چھٹی ہوئی تھی۔ گرم نہر کے پانی کی بھاپ مجھے جلا رہی تھی مگر میں اپنی جگہ سے حرکت کرنے سے معذور تھی اور دوڑ کر کسی دوسری جگہ نہیں جاسکتی تھی۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ اس عذاب میں مجھے کتنے دن ، کتنی راتیں گزر گئیں میں اس قدر تھک گئی تھی کہ کتا تھا بھی دیوار سے الگ ہو کر نیچے نہر کے کھولتے ہوۓ پانی میں گر پڑوں گی۔

 عشق کا قاف (تحریر: اسلم راہی)

پھر ایسا ہوا کہ میں نے کسی سفید سی چیز کو دیوار پر رینگ کر اپنی طرف آتے ہوۓ دیکھا۔ جب یہ شے میرے قریب آئی تو میں نے دیکھا کہ یہ ایک سفید سانپ تھا۔ میں ٹکٹکی باندھے سہمی ہوئی آنکھوں سے سانپ کو دیکھ رہی تھی۔ سانپ چھپکلی کا دشمن ہوتا ہے۔ میں سمجھ گئی کہ سانپ بھی اپنا منہ کھول کر مجھ پر حملہ کر کے مجھے نگل جاۓ گا۔ لیکن سفید سانپ نے ایسا نہ کیا۔ جس طرح انسانوں اور اور زمین کے اوپر رہنے والے پرندوں اور جانوروں کی اپنی زبان ہوتی ہے اسی طرح زمین کے نیچے رہنے والے حشرات الارض کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے جس میں وہ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں ۔
سفید سانپ نے مجھ سے کہا۔ گھبراؤ نہیں میں تمہیں ہڑپ کرنے نہیں بلکہ تمہاری مدد کرنے آیا ہوں۔ میں بڑی حیران ہوئی۔ میں نے اس کا شکر یہ ادا کرنا چاہا تو سفید سانپ نے کہا خاموش رہو تمہاری آواز دوسرے سانپوں نے سن لی تو تمہارے دشمن کو خبر ہو جاۓ گی اور پھر میں بھی تمہیں پاتال سے نہیں نکال سکوں گا۔ میں چپ ہو گئی۔
سفید سانپ نے کہا جیسے میں کہتا ہوں ویسے کرتی جاؤ۔ میں تمہارے پاس آ رہا ہوں۔ بڑی احتیاط سے میرے جسم کے ساتھ چمٹ جاؤ۔ سفید سانپ یہ کہہ کر رینگ کر میرے بالکل نیچے دیوار پر آ گیا۔ میں ہمت کر کے اپنی جگہ سے تھوڑی سی ہلی اور پھر اچک کر سانپ کی پشت پر آکر اس کے جسم سے چمٹ گئی۔اس کے ساتھ ہی سانپ دیوار پر آگے کی طرف رینگنے لگا۔ وہ دیوار پر اونچا ہو کر رینگ رہا تھا اور وہاں گرم پانی کی بھاپ کی گرمی کم محسوس ہو رہی تھی۔ نہر آگے جا کر ایک طرف کو گھوم گئی۔

سفید سانپ بھی اس طرف مڑ گیا۔ یہ غار بہت لمبا تھا۔ خدا جانے سانپ کب تک مجھے اپنے جسم سے چمٹائے دیوار پر رینگتا چلا گیا۔ پھر ایسا ہوا کہ نہر کے پانی سے بھاپ خارج ہونا بند ہو گئی اور شدید گرمی کا احساس ختم ہو گیا۔ کچھ اور آگے جا کر گرمی کا احساس بالکل ہی ختم ہو گیا اس کی بجاۓ مجھے ہلکی ہلکی خنکی محسوس ہونے لگی۔ سفید سانپ نے کہا ہم منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ایک جگہ بڑی زبردست گڑ گڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ سفید سانپ نے کہا گھبرانا نہیں آگے نہر ایک کنوئیں میں گر رہی ہے۔ اس کنوئیں کی کوئی تبہ نہیں ہے۔ اس کنوئیں کا پانی زمین کے اندر ہی اندر سمندر سے جا کر مل جاتا ہے ۔ میں خاموشی سے سانپ کی باتیں سن رہی تھی اور خدا سے دعا مانگ رہی تھی کہ وہ مجھے اس مصیبت سے خیر و عافیت کے ساتھ نکال دے۔“

میں بڑی دلچسپی سے روہنی کی داستان سن رہا تھا۔ جب وہ ایک لمحے کے لئے چپ ہو گئی تو میں نے پوچھا۔ ” پھر کیا ہوا روہنی ؟‘‘ روہنی نے کہا۔ ” پھر ایسا ہوا کہ جہاں زمین کے اندر بہنے والی نہر کا پانی ایک گہرے اندھیرے کنوئیں میں خوفناک 
آواز کے ساتھ گرتا تھا

کنوئیں کی دیوار ایسی تھی کہ جگہ جگہ سے بڑے بڑے نوکیلے پتھر باہر کو نکلے ہوۓ تھے۔ سفید سانپ بڑی احتیاط کے ساتھ ان نوکیلے پتھروں کے درمیان سے راستہ بناتا اوپر کنوئیں کے دہانے کی طرف رینگ رہا تھا۔ چونکہ سفید سانپ نے مجھے بولنے سے منع کر دیا تھا اس لئے میں نے اس سے بالکل نہ پوچھا کہ یہ کس قسم کا کنواں ہے کہ جس کی گول دیوار میں سے اتنے خوفناک پتھر باہر کو نکلے ہوۓ ہیں۔ کنوئیں کے اندر سے گندھک کی تیز بو آرہی تھی۔ ایک جگہ دیوار کے پتھروں پر سرخ لاوے کی تہہ جمی ہوئی تھی۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 21

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں