آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام - پارٹ 2

 Urdu Story


Sublimegate Urdu Font Stories

 آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام اردو کہانی - پارٹ 2

میں اس سکول میں داخل ہو گئی۔ میرے لئے کتابیں خریدی گئی۔ سب کتابیں انگریزی میں تھیں جن کے ہر صفحے پر رنگا رنگ تصویریں تھیں۔ میرے لئے نئی یونیفارم سلوائی گئی۔ میں کلاس روم میں گئی تو ڈیسک دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ کمرے کی دیواروں کے ساتھ تصویریں آویزاں تھیں۔ سامنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کنواری مریم کی تصویر لٹکی ہوئی تھی۔ کلاس میں بچے اور بچیاں اکٹھے پڑھتے تھے۔ (مسلمان سکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ ہوتے تھے۔ انگریز نے چونکہ مسلمانوں کو کمزور کرنا تھا اور کمزور کرنے کے لئے ان میں فحاشی پھیلانا بہت ضروری تھی۔ اس لئے انگریزوں نے ایک ہی کمرے میں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھی بٹھانا شروع کر دیں۔ ان کی نقل اتارتے ہوئے آج مسلمان بھی ایسا ہی کرتے ہیں جس سے بہت تیزی سے فحاشی پھیل رہی ہے۔ انگریز خوش ہوتا ہے کہ اس کی سازش کامیاب ہو گئی ہے۔) کوئی شور شرابہ نہیں تھا۔ بچے صاف ستھرے تھے۔ وہ سب انگریزی میں بات کرتے تھے۔ 

استانی کا سلوک بھی بہت اچھا تھا۔ کسی بچے کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو استانی بڑے پیار سے سمجھاتی تھی۔ تمام بچے امیر والدین کے تھے۔ میرے والد صاحب مجھے بھی دوسرے بچوں کی طرح امیر ظاہر کرنے کے لئے روزانہ چار یا پانچ آنے دیا کرتے تھے۔ میں احساس کمتری کی ماری ہوئی تھی۔ میری کوشش یہ تھی کہ کوئی مجھے غریب اور پناہ گزیں نہ سمجھے۔ میں نے بھی خود کو امیر ظاہر کرنے کے لئے جھوٹ بولنا شروع کر دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ میرا باپ بہت بڑا افسر ہے اور ہم بہت زیادہ امیر ہیں۔

گھر میں میری ماں نے مجھے قرآن پڑھانا شروع کر دیا تاکہ میں بڑی ہو کر مشرق کی روایتی عورت بن سکوں۔ سکول کا ماحول مکمل طور پر غیر اسلامی تھا جس میں یورپ کی آزادی تھی۔ سکول کے ماحول میں اتنی جاذبیت تھی کہ غیر اسلامی ماحول اور یورپ کی آزادی ازخود خیالات کو اپنے سانچے میں ڈھال رہی تھی۔ گھر کا ماحول مشرقی تھا اور سکول میں مغربی طلسم۔ سکول کا ماحول مجھے زیادہ اچھا لگتا تھا۔ سکول جا کر میں گھر کی گھٹن سے نجات حاصل کر لیتی تھی۔ گھر آ کر اپنی ان ہم جماعت بچیوں کو سکول کے قصے سنایا کرتی تھی جو پہلے میرے ساتھ سرکاری سکول میں پڑھتی تھیں۔ اپنے سکول کی خوبصورتی کے قصے بھی سنایا کرتی تھی۔ وہ مجھے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھا کرتی تھیں۔ جس سے مجھ پر برتری کا نشہ طاری ہو جاتا تھا۔ جوں جوں مجھ پر یورپ کا رنگ چڑھتا جا رہا تھا میں دینیات کا مذاق اڑانے کی عادی ہوتی جا رہی تھی۔ ذہن کچا تھا اس لئے پیار اور پر کشش طریقوں سے جو رنگ بھرا جاتا تھا وہ پکا ہوتا جا رہا تھا۔

میں اتنی زیادہ تفصیل میں جانا ضروری نہیں سمجھتی کہ کس طرح اپنی تہذیب و تمدن سے دور ہٹتی گئی اور مجھ میں بناوٹ اور نمود و نمائش پیدا ہوتی گئی۔ سکول میں پاکستان اور اسلام کا تو نام و نشان بھی نہیں تھا بلکہ سکول کی فضاء ایسی تھی کہ اسلام اور پاکستان کا نام لینے والا پسماندہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسلام پر چلنا جہالت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ بچے انگریزی کو ثواب کی طرح بولتے تھے اور خود کو پاکستانی کہلواتے ہوئے شرماتے تھے۔
 آج میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ ہمیں پہلی کلاس سے یہ بات پڑھائی جاتی کہ پاکستان کتنی قربانیوں سے حاصل کیا تھا اور پاکستان حاصل کرنے کا مقصد کیا تھا۔ مگر مشنری سکولوں میں ایسی سوچ دی جاتی تھی کہ غریب اور پسماندہ لوگ پاکستان میں رہتے ہیں اور امیر لوگ اور اونچی حیثیت والے امریکہ، برطانیہ جیسے ملکوں میں رہتے ہیں۔ انگریزوں نے اپنی پوری محنت سے ہمارے ملک کے امیر لوگوں کو اور خاص طور پر حکمرانوں کو اپنے ممالک میں لے گئے اور ان کا ذہن اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ مشنری سکول والوں نے میری ذہن سازی اس طرح کی کہ میرے ذہن سے نکل ہی گیا کہ پاکستان کتنی قربانیوں سے ملا تھا۔ میں تو خود ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی اور اپنی آنکھوں سے پاکستان کو بنتے دیکھا تھا۔ اتنی زیادہ لاشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اللّٰہ ستیاناس کرے سکول والوں کا جنہوں نے میرے اپنے ملک کی نفرت میرے دل میں ڈال دی۔ آپ سب کو بھی بتا دینا چاہتی ہوں کہ پاکستان کی قدر کریں۔ اتنا خوبصورت ملک دنیا میں کوئی نہیں ہے جتنا پاکستان خوبصورت ہے۔

 امریکہ، برطانیہ،دبئی یا دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان جیسا نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ واحد ملک ہے جس کو حاصل کرنے والوں نے کلمہ کے نام پر حاصل کیا۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کے لئے ایسا نعرہ لگایا گیا ہو جو پاکستان کے لئے لگایا گیا۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ۔ باقی سارے ممالک زمین کے حصول کے لئے بنائے گئے مگر پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لئے حاصل کیا گیا۔ پاکستان اتنا مقدس ملک تھا کہ اللّٰہ نے پاکستان کو رمضان المبارک کی سب سے مقدس رات لیلتہ القدر دیا۔ انگریزی نظام تعلیم آج بھی ہمارے ذہنوں سے پاکستان کی اصل قدر و قیمت نکالنا چاہتا ہے اور ہمارے ذہنوں میں دشمن ممالک کی عظمت ڈالنا چاہتا ہے۔
مجھے اس سکول میں پڑھتے ہوئے چار سال گزر گئے تھے۔ اب تو حالت یہ ہو گئی تھی کہ جس کو مشنری سکول میں داخلہ مل جاتا تھا اسے خوش قسمت تصور کیا جاتا تھا۔ صبح کاروں کی قطاریں بچوں کو سکول چھوڑنے آیا کرتی تھیں اور دوپہر کو چھٹی کے وقت بھی کاروں کا ایک ہجوم ہوتا تھا۔ میں پیدل آیا جایا کرتی تھی۔ مجھے پیدل آنے جانے میں بڑی شرم آتی تھی۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ باقی بچے مجھے غریب سمجھیں گے۔ مجھے بھی کار میں آنا چاہیے۔ 

کار میرے اعصاب پر سوار ہو گئی۔ اس مقصد کے لئے میں نے ان لڑکوں سے دوستی شروع کر دی جو کاروں میں آتے تھے۔ اللّٰہ نے مجھے گورا چٹا رنگ دیا تھا اور اچھی شکل وصورت دی تھی۔ میری خوبصورتی کی وجہ سے لوگ مجھے امیر گھر کی بچی سمجھتے تھے۔ مگر بڑی ہو کر جس نے بھی مجھے دیکھا بری نظر سے دیکھا۔ امیروں کے بچے کینٹین پر بہت پیسے خرچ کرتے تھے اور اچھی اچھی چیزیں کھاتے تھے مگر میرے پاس زیادہ سے زیادہ پانچ آنے ہوتے تھے۔ میں نے دوستی امیر لڑکوں سے کر لی تھی اور دوستی میں زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے تھے۔ میرے پاس پیسے کم ہوتے تھے اور خود کو غریب بھی نہیں دکھانا چاہتی تھی اس لئے گھر سے پیسے چوری کرنا شروع کر دئیے۔ میرے والد رشوت اتنی زیادہ لیتے تھے کہ ان کی جیب میں ہر وقت بہت زیادہ پیسے ہوتے تھے۔ اگر میں آٹھ آنے یا دس آنے یا ایک روپے نکال بھی لیتی تو بھی پتہ نہیں چلتا تھا۔ ان چوری کے پیسوں سے میں نے یہ جھوٹا بھرم رکھ لیا تھا کہ میں بھی امیر باپ کی بیٹی ہوں۔

میرے والد بڑا فخر کرتے تھے کہ میری بیٹی انگریزی سکول میں پڑھتی ہے اور بڑی ہو کر لیڈی ڈاکٹر بنے گی۔ کاش یورپی طرز کے سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین ان سکولوں کے اندر جھانک کر بھی دیکھیں کہ وہاں مسلمان بچیوں کو کس طرح کی بے حیائی کی تربیت دی جا رہی ہے۔ ہمیں سکول کی استانیاں بتایا کرتی تھیں کہ امریکہ کس قدر امیر ملک ہے اور یہ ہی ایک ملک ہے جو دنیا کے تمام ممالک کا محافظ اور تمام ممالک کو روزی دینے والا ہے۔ امریکہ پاکستان کو گندم، پیسے اور خشک دودھ کے ڈبے دیتا ہے۔ ہمیں فلمیں دکھائی جاتی تھیں جس میں ہمیں یورپی رنگ میں رنگا جا رہا تھا۔ ان فلموں میں خاص طور پر علماء اور دین سکھانے والے لوگوں کو غریب اور جاہل دکھایا جاتا تھا۔ مسجد کے منبر پر بیٹھ کر اسلام کی بات سمجھانے والے کو غریب ترین اور پسماندہ ترین دکھایا جاتا تھا۔ میں اپنے والد کو ابو جی کہا کرتی تھی مگر سکول میں جانے کے بعد "ڈیڈی" کہنا شروع کر دیا۔

اب مجھے مشنری سکول میں پڑھتے ہوئے سات سال ہو چکے تھے۔ میری عمر چودہ سال ہو گئی تھی۔ میرا بڑا بھائی بھی والد کی سفارش سے سرکاری نوکری لگ گیا تھا۔ میرا بھائی بھی ابو کی طرح رشوت لینے لگ گیا تھا۔ بھائی کہتا تھا کہ میں کسی سے رشوت نہیں مانگتا، لوگ خود ہی میری جیب میں ڈال جاتے ہیں۔ جوں جوں رشوت کا پیسہ گھر آتا گیا، ایمان گھر سے نکل گیا۔ شرم و حجاب بھی ختم ہوتا گیا۔ پہلے امی سے قرآن پڑھتی تھی اب وہ بھی چھوڑ دیا تھا۔ پہلے میں برقعہ پہن کر سکول جاتی تھی مگر میرے بھائی نے برقعے کا مذاق اڑایا اور منع کر دیا۔ میرا بھائی مجھے ماڈرن بنانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی بھی کالج جاتا تھا۔ اسے بھی مکمل طور پر ماڈرن بنا دیا تھا۔ اس وقت ماڈرن لڑکوں کو ٹیڈی بوائز کہا جاتا تھا۔ یہ لڑکے ہیجڑوں جیسی حرکتیں کیا کرتے تھے۔ میرے دونوں بھائی مجھے بھی ماڈرن بنا رہے تھے۔ مجھ میں چودہ سال کی عمر میں ہی مسلمان لڑکیوں والا حجاب نہیں رہا تھا۔ میرے سکول نے میرے ذہن سے میری تہذیب اور مذہب کو نکال دیا تھا۔ میں تو اپنی زبان سے بھی متنفر ہو گئی تھی۔ میں زیادہ تر انگریزی ہی بولتی تھی۔ محلے میں بھی آدھی انگریزی اور آدھی اردو بولتی تھی۔

مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب ایک صبح سکول جاتے ہوئے میں نے امی سے کہا تھا۔ "امی آج لنچ پر میرا انتظار مت کرنا۔ آج سکول میں فنکشن ہے۔ میں آفٹر نون ٹی تک پہنچ جاؤں گی۔" یہ سن کر امی ہنس پڑی اور کہا مجھے خاک سمجھ بھی نہیں آئی۔ مجھے امی کی ہنسی پر بہت غصہ آیا تھا۔ میں نے طنزیہ انداز میں امی کو بتایا کہ میں نے کیا کہا۔ آج برسوں گزر گئے ہیں مگر امی کی ہنسی مجھے آج بھی یاد ہے۔ اس وقت امی کی ہنسی میں پیار اور بے بسی تھی۔ مگر اب ان کی ہنسی مجھے تنہائی میں سنائی دیتی ہے تو دل کرتا ہے کہ کاش آج میری ماں میرے سامنے آ جائے اور میں اپنی ماں کے پاؤں پکڑ کر کہوں ماں آپ کو شاید کچھ سمجھ آ گئی ہو گی مگر میری بد قسمتی یہ کہ مجھے آپ کی کچھ بھی سمجھ نہیں آئی۔ اپنی ماں کی بات نہ سمجھنے کی سزا اللّٰہ نے مجھے یہ دی ہی کہ اب سڑکوں اور ہوٹلوں میں ایک رات کے خاوند کو ڈھونڈھتی پھرتی ہوں۔

میں عمر کے چودھویں سال کی بات کر رہی تھی۔ میں نے دو سال پہلے کاروں والے لڑکوں سے دوستی شروع کر دی تھی۔ مگر مجھے کسی کار میں کم ہی لفٹ ملتی تھی کیونکہ میرا گھر محلے میں تھا اور کاریں دوسری طرف تھیں۔ چودہ سال کی عمر میں میری دوستی صرف ایک لڑکے کے ساتھ رہ گئی تھی۔ اس لڑکے کی عمر سولہ سال تھی۔ مجھ سے دو کلاسیں آگے تھا پہلی یار میرے ساتھ اسی لڑکے نے جنسی زیادتی کی تھی اور وہ زیادہ مجھے سکون دینے لگی تھی ۔ وہ کار پر آتا جاتا تھا۔ کار ڈرائیور چلاتا تھا۔ یہ لڑکا مجھے ہر لحاظ سے اچھا لگتا تھا۔ خوبرو بھی تھا۔ امیر بھی تھا۔ انگریزی بھی اچھی بول لیتا تھا۔ وہ اپنی عمر کی نسبت زیادہ جوان تھا۔ میں بھی کوئی بچی نہیں تھی۔ میرے جسم میں بھی نمایاں تبدیلی آ گئی تھی اور خیالوں میں بھی۔ یہ لڑکا میرے لئے بہت پیسے خرچ کرتا تھا۔ وہ ڈی ایس پی کا بیٹا تھا۔ اس کے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ میں بھی اسے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میں غریب باپ کی بیٹی نہیں ہوں۔ اپنے گھر سے پیسے چوری کر کے اس پر خرچ کرتی تھی۔ کبھی جھوٹ بول کر بھی پیسے لے لیتی تھی۔
 میرا بڑا بھائی تو پیسوں میں کھیل رہا تھا۔ اسے بہت زیادہ لوگ رشوت دے جاتے تھے۔ میرے دوست لڑکے نے میرے لئے یہ سہولت پیدا کر دی کہ وہ اپنی کار میں مجھے میرے گھر تک چھوڑ جاتا تھا۔ میں کھوکھلے کردار کی لڑکی تھی۔ کار میرے اعصاب پر آسیب کی طرح سوار ہو گئی۔
ایک روز اس لڑکے نے مجھے انگریزی فلم دیکھنے کی مجھے دعوت دی۔ وہ دوسرے شو میں مجھے لے جانا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے میں نے ایک دو اردو فلمیں دیکھی تھیں۔ ان فلموں کے رومانی سین مجھے بہت پسند آئے تھے۔ انگریزی فلم دیکھنے کا ابھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس لڑکے نے دو سیٹیں بک کروا لیں۔ میں نے گھر میں جھوٹ بولا کہ سکول میں ایک فنکشن کا ریہرسل کرنا ہے جو شام چھے بجے سے سات بجے تک ہو گا۔ گھر والے مان گئے۔ میں پانچ بجے گھر سے نکلی اور سکول کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا بھی آ گیا۔ وہ کار لے کر نہیں آیا تھا کیونکہ کار ڈرائیور چلاتا تھا۔ وہ مجھے ایک ہوٹل میں لے گیا۔ یہ یورپی طرز کا ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ میں ایسے ہوٹل میں اس سے پہلے کبھی نہیں گئی تھی۔ وہاں صاف ستھرے سفید وردیاں پہنے ہوئے بیرے، اتنا پیارا فرنیچر اور ہر چیز کا قرینہ اور ماحول دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میں نے تو ابھی دنیا دیکھی ہی نہیں۔ میں تو صرف سکول کی دیواروں کے اندر اندر ہی ماڈرن بنی ہوئی ہوں۔ اس ہوٹل میں سب لوگ امیر کبیر تھے۔ مجھے خیال آیا کہ میرے دوست کو کہیں شک نہ ہو جائے کہ میں ماڈرن نہیں ہوں۔ میں نے اس کو اس شک سے بچانے کے لئے ایکٹنگ شروع کر دی۔ پھر ہم سینما ہال میں جا بیٹھے۔ یہ ایک گیلری تھی۔ ہماری سیٹیں آخری قطار میں ایک کونے میں تھیں۔ پیچھے بھی دیوار تھی اور دائیں طرف بھی دیوار تھی۔ فلم شروع ہو گئی۔ یہ ایک رنگین فلم تھی۔ 

تھوڑی سی ہی فلم گزری تھی کہ بوس و کنار شروع ہو گیا۔ ہیرو اور ہیروئن جس بیتابی سے بغلگیر ہو کر دیوانگی کے عالم میں ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈال دیتے تھے اس سے میرے اندر بھونچال سا آ گیا۔ میں نے اپنے اندر پر لطف سی حرارت محسوس کی۔ پھر مجھ پر عجیب سا نشہ طاری ہو گیا۔ اس نشے میں اپنے دوست کا ہاتھ پکڑ لیا اور ہماری انگلیاں ایک دوسرے میں زنجیر کی طرح جکڑی گئیں۔ اس نے اپنا چہرہ میری طرف گھمایا اور میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف کیا۔ نہ اس نے مجھے کچھ کہا اور نہ میں نے منہ پیچھے ہٹایا۔ ہمارے ہونٹ ایک دوسرے سے مس ہو گئے۔ اس نے سرگوشی کی۔ "سویٹ" اب میں نے منہ اور آگے کر دیا اور ہمارے ہونٹ ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر رہ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ رنگدار پکچر کے رنگدار الفاظ اور جوانی کو گرما دینے والے مناظر میری روح میں اترتے جا رہے تھے۔ اس فلم میں رومانس کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ میں شرم و حیا اور شرافت کی حدیں پھلانگ گئی تھی اور سینما ہال کی تاریکی میں جوان ہو گئی تھی۔ فلم ختم ہونے تک میری انگلیاں میرے دوست کی انگلیوں میں ہی رہیں اور ہم لمبیkiss کرتے رہے۔

 جب ہال کی بتیاں روشن ہوئیں تو مجھے اتنا زیادہ صدمہ ہوا جیسے مجھے کسی نے اس وقت جگا دیا ہو جب میں بڑا ہی حسین خواب دیکھ رہی تھی۔ میرے جذبات کا یہ عالم تھا کہ خود کو قابو رکھنا محال ہو گیا تھا۔ اگر میرا دوست آگے آگے چل نہ پڑتا اور لوگ نہ ہوتے تو میں اس کے ساتھ لپٹ جاتی اور اس کے ہونٹ اور گال اپنے دانتوں سے چبھا ڈالتی۔جی ہاں میں بے حیا ہوں۔ آپ یہ ہی سوچ رہے ہو نا؟ آپ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایسی ننگی باتیں ایک طوائف ہی کر سکتی ہے۔ لیکن صاحب آپ کو یہ بات بھی یقین دلانا چاہتی ہوں کہ جب آپ کی بیٹی یا بہن بھی ایسی فلم دیکھتی ہے تو اس کے جذبات میں بھی ایسے ہی زلزلے برپا ہوتے ہیں جیسے میں بیان کر رہی ہوں۔ بس فرق یہ ہے کہ آپ اپنی بہن بیٹی کے متعلق اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہماری بہن بیٹی ایسی بے حیا نہیں ہے۔

 آپ نے اس کو گھر میں ٹی وی لا کر دیا ہے جس پر وہ بے حیائی والی فلمیں دیکھتی ہے یا اسے موبائل لے کر دیا ہے جو فحاشی کا سب سے بڑا منبع ہے یا اگر آپ کی بہن بیٹی کسی ایسے سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتی ہے جہاں لڑکے لڑکیاں ایک ہی کمرے میں بیٹھتے ہیں تو آپ کی بہن بیٹی بھی ایسے ہی جذبات میں کھیلتی ہے۔ آپ کو اپنے گھر کی حفاظت کرنی ہو گی کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی بہن بیٹی بھی میری طرح تباہ ہو رہی ہوں۔ یقین جانیے ایسی لڑکیوں کی حالت اس حیوان مادہ جیسی ہو جاتی ہے جو نر کی تلاش میں بھاگی بھاگی پھرتی ہے۔ اگر میری طرح اسے کوئی دوست میسر نہیں ہوتا تو وہ تصورات میں دوستانہ گانٹھتی ہے اور جنسی تسکین کے جتن کرتی ہے۔ آپ کا جوان بیٹا تنہائی میں اپنے ہاتھ سے ہی تسکین حاصل کر لیتا ہے۔ پاکستان میں ایسی فلمیں چلانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ پاکستانی قوم اخلاقی لحاظ سے بالکل ختم ہو جائے۔ کاش میں جو وعظ آپ کو اب سنا رہی ہوں، یہ باتیں مجھے اس وقت سمجھ آ جاتی جب میں چودہ سال کی عمر میں تھی۔ اگر آپ کی بھی جوان اولاد ہے تو خدا کے نام پر، میری ان باتوں کو صرف ایک طوائف کی بکواس سمجھ کر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال نہ دینا۔
اس دن فلم دیکھنے کے بعد میری اس لڑکے کے ساتھ اتنی پکی دوستی ہو گئی جیسے وہ میرے جسم کا ہی ایک حصہ ہو۔ اب میرے دل میں ہر وقت یہ ہی خواہش رہتی تھی کہ اس لڑکے کے ساتھ تنہائی میں بیٹھوں اور اپنا منہ اس کے منہ کے ساتھ لگا کر لمبیkiss کرتی رہوں۔ مگر تنہائی ملتی ہی نہیں تھی سوائے سینما ہال کے۔ ہال بھی لوگوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ میں جب دوسری بار اس لڑکے کے ساتھ فلم دیکھنے کے لئے سینما ہال گئی تو گیلری میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا۔ میں نے اپنے جیسی چار اور لڑکیاں دیکھیں جو فیشن سے یورپین لگتی تھیں۔ ہر لڑکی کے ساتھ ایک ایک نوجوان لڑکا تھا۔ میں ان لڑکیوں کی حرکتیں دیکھتی رہی۔

 وہ بڑی شوخ تھیں۔ میں نے ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو دیکھا تو مجھے اپنے آپ میں خامیاں نظر آئیں۔ میرا کچا ذہن، فیشن اور شو بازی کو، انگریزوں کی طرح انگریزی بولنے اور حرکتیں کرنے کو انسانیت کی معراج سمجھتا تھا۔ باپ اور بھائی کے رشوت کے پیسوں، مشنری سکول اور خود کو امیر ظاہر کرنے کے خواب نے مجھے ایسا ہی ذہن دیا تھا۔ میں ان لڑکیوں کو دیکھ کر ان کی نقل کرنا شروع کر دی۔ میں جیسا انگریزی فلم میں دیکھتی تھی ویسا ہی کرنے کو دل کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ میں فحاشی کے سانچے میں ڈھلنے لگی۔ میں اس لڑکے کے ساتھ ہر دس بارہ روز بعد سینما ہال میں فلم دیکھنے جانے لگی۔ فلم دیکھ کر تو جو مزا آتا تھا اس کے علاوہ ہمیں سینما ہال میں کچھ وقت مل جاتا تھا جس میں ہم رومانس کر لیتے تھے۔ مگر پیاس ابھی باقی ہوتی تھی کہ فلم ختم ہو جاتی تھی۔پھر ہم اپنی پیاس واشروم میں بجھا لیتے تھے سینما والوں نے جب دیکھا کہ اس طرح کی رومانوی اور عریانی والی فلمیں دیکھنے زیادہ لوگ آتے ہیں تو انہوں نے مشنری سکول کے طلباء کی سہولت کے لئے شو کا ٹائم گیارہ بجے کر دیا۔ کیوں کہ شام چھے بجے کچھ بچوں کو گھر سے اجازت نہیں ملتی تھی۔ دن گیارہ بجے سکول سے کھسک کر سینما ہال جانا آسان ہوتا تھا۔ بچے اور بچیاں سکول سے غیر حاضر رہنے لگیں۔ میں خود بھی کئی بار گھر سے سکول آتی مگر اپنے دوست کے ساتھ سینما ہال چلی جاتی تھی۔ جو بچے آوارہ نہیں تھے وہ بھی دیکھا دیکھی آوارہ ہونے لگے تھے۔
میرا دوست خود گاڑی چلانا جانتا تھا مگر اس کا باپ اسے گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ ایک دن میرے دوست نے بتایا کہ اس کا باپ کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر جا رہا ہے۔ اس لئے میں کار لے آؤں گا اور ہم کہیں باہر چلیں گے۔ اب مجھے گھر میں پابند رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ میں جب چاہتی گھر سے باہر جا سکتی تھی۔ شاید یہ رشوت کی لعنت کا اثر تھا کہ گھر میں ہر کوئی آزاد ہو گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان میں فحاشی عام نہیں ہوئی تھی۔ ہمارے محلے میں ہی کوئی بھی لڑکی گھر سے باہر اکیلی نہیں جاتی تھی۔ جس نے بھی باہر کہیں بھی جانا ہوتا وہ اپنے باپ کو ٹھوس وجہ بتا کر اور باپ یا بھائی کے ساتھ ہی جا سکتی تھی مگر میرے باپ نے مجھے پوچھنا ہی چھوڑ دیا تھا کہ میں کہاں جا رہی ہوں یا کس کام کے لئے جا رہی ہوں یا دیر سے گھر کیوں آتی ہوں۔ میں نے گھر سے نکلتے وقت صرف امی کو جھوٹ بولا کہ ایک سہیلی کے گھر جا رہی ہوں۔ دوست کی بتائی ہوئی جگہ پر چلی گئی۔ وہ کار لے آیا تھا۔ پہلے وہ مجھے اسی ہوٹل میں لے گیا جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ وہاں ہم نے بڑا ہی پرتکلف کھانا کھایا۔ وہاں سے نکلے تو رات گہری ہو گئی تھی۔ شاید نو بج رہے تھے۔ دوست نے کہا سیر کے لئے زرا دور چلیں؟

"جہاں دل کرتا ہے لے چلو۔" میں نے جواب دیا۔
وہ مجھے وہاں لے گیا جہاں سے آج تک واپس نہیں آ سکی۔ آج پندرہ سولہ سال ہوگئے ہیں جب میں اس کے ساتھ گئی تھی۔ اس نے ایک ویران جگہ کار روک کر بتیاں بجھا دیں۔ اسے کوئی زیادہ مکالمے نہیں بولنے پڑے۔ میں اس کا مدعا سمجھ گئی تھی۔ اس نے صرف اتنا کہا۔ "پچھلی سیٹ پر چلیں۔"

میرے دل پر انجانا سا خوف طاری ہو گیا۔ اس خوف میں سرور بھی تھا۔ میں نے کچھ بھی نہیں کہا۔ دروازہ کھولا اور پچھلی سیٹ پر چلی گئی۔ میرے اور اس کے درمیان کوئی حجاب نہیں تھا۔ مجھ میں حجاب تو رہا ہی نہیں تھا۔ وہ جس طرح کہتا گیا میں اسی طرح کرتی گئی۔ میں جھجھکی نہیں، شرمائی نہیں۔ بلکہ میرا انداز ایسا تھا جیسے میں اسی مقصد کے لئے گھر سے آئی ہوں۔

پھر کار اڑنے لگی۔ بادلوں کے سفید سفید، بڑے بڑے گالوں میں کہکشاں کے راستے کار مجھے وہاں تک لے گئی جہاں صرف سرور تھا۔ کیف تھا۔ مستی تھی۔ میں ستاروں کے دیس سے بہت آگے نکل گئی تھی۔ میرا دوست مجھے دنیا بھر کا حسین ترین انسان لگ رہا تھا۔ پھر کار نہایت آہستہ آہستہ اور بڑے پیار سے کہکشاں سے اس ویرانے میں اتر آئی جہاں ہر چیز تاریک تھی۔

میں عورت بن چکی تھی۔ یہ ہی حد رہ گئی تھی جسے میں نے بڑی دلیری سے عبور کر لیا تھا۔ مجھ پر ایسا نشہ طاری ہو گیا تھا کہ میں اپنی اصلیت بھلا بیٹھی۔ میں آج سوچتی ہوں کہ وہ لوگ خوش قسمت میں جو کاروں کے نیچے آ کر مر جاتے ہیں مگر کاروں کے دھوکے میں نہیں آتے۔ میں تو ایسی کار کے دھوکے میں آئی ہوں کہ اب نہ جیتی ہوں اور نہ مرتی ہوں۔۔۔۔

جب میں گھر پہنچی تو رات کے دس بج گئے تھے۔ مجھے گھر میں کسی نے نہیں پوچھا کہ اتنی دیر سے کیوں آئی ہو۔ کسی نے تو یہ بھی نہیں دیکھا کہ میرے چہرے پر کیا تبدیلی آ چکی ہے۔ اپنے باپ کو دیکھ کر مجھے زرا سا بھی افسوس نہیں ہوا کہ اس شخص کی عزت شہر سے دور ایک ویرانے میں پھینک آئی ہوں۔ میرا باپ ان چند بیوقوف لوگوں میں سے ہو گیا تھا جو لڑکیوں کی آزادی کے حق میں تھے۔ مجھے آج محسوس ہو رہا ہے کہ لڑکیاں آزادی میں تباہ ہو جاتی ہیں اور پابندی میں ان کا مستقبل حسین ہو جاتا ہے۔ میرا باپ اگر لبرل طبقے کا نہ ہوتا تو شاید میرا چہرہ ہی پڑھ لیتا۔ میری بدقسمتی دیکھو کہ میرا باپ اور دونوں بھائی خوش تھے کہ میں سوشل اور ایڈوانس ہو گئی ہوں۔ مجھے یاد ہے جب ہمارے گھر میں صرف حلال کمائی آتی تھی تو گھر کی عزت اور شرافت برقرار تھی۔ جب حرام کمائی گھر میں داخل ہوئی تو گھر میں وہ سب چیزیں تو آ گئیں جو امیروں کے گھروں میں ہوتی ہیں مگر اس کمائی کا اتنا برا اثر پڑا کہ میری ماں بھی ایڈوانس ہونے فخر کرنے لگی حالانکہ وہ بوڑھی ہو گئی تھی۔ میری ماں محلے کی عورتوں میں اپنی امیری کا پروپیگنڈا کرنے لگی جس میں تکبر کی جھلک واضح تھی۔ مجھے اس وقت ماں کا پروپیگنڈا اچھا لگتا تھا اور محلے کی پردہ نشیں عورتیں حقیر لگتی تھیں۔ آج جب میں سوسائٹی کی ایک حقیر عورت بن چکی ہوں تو یہ انکشاف ہوا ہے کہ ماں کی وہ باتیں بہت اوچھی تھیں دوسروں پر حرام پیسوں کا رعب جمانے کی عادت کس قدر قابلِ نفرت تھی۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میری ان پڑھ ماں محلے کی عورتوں پر رعب جمانے کے لئے کہہ رہی تھی کہ میری بیٹی کو ڈی ایس پی کا بیٹا گھر چھوڑنے آتا ہے۔ لیکن ماں نے کبھی یہ سوال نہیں کیا تھا کہ کار پر جو سواری کرتی ہو اس کی کیا قیمت ادا کرتی ہو؟

گھر میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ سکول میں بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ میرے دوست کے گھر بھی رشوت آتی تھی۔ پھر کردار کیسا؟ اسلام کیسا؟ یورپ کے طرز کے عیسائی سکول میں پڑھنا اور خود کو مسلمان کہنا خود کو بہت بڑا دھوکا دینا ہے۔ اس رات کے بعد میں اور میرا دوست فلم کے ہیرو اور ہیروئن بن گئے۔ جب بھی دل کرتا تو ہم رات کو باہر چلے جاتے اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رومانس کرتے رہتے۔ میں اپنی سہیلیوں کو اپنے رومانس کی کہانی بڑے فخر سے سناتی ہوتی تھی۔ میری سہیلیاں بھی مجھے اپنی ایسی کہانیاں سناتی تھیں۔ میں نے بڑے فخر سے کہا کہ میرا بوائے فرینڈ ڈی ایس پی کا بیٹا ہے۔ سیدھے سادے الفاظ میں اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ڈی ایس پی کے بیٹے کی داشتہ ہوں۔ میں داشتہ ہی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ مجھے اپنے گھر نہیں لے جا سکتا تھا۔ جب کبھی کار ہاتھ لگ جاتی تو مجھے اسی ویرانے میں لے جاتا جہاں ہم پہلی بار گئے تھے۔ اگر کار نہ ملتی تو ہم باغ کے کسی اندھیرے گوشے میں چلے جاتے تھے

ایک رات ڈیوٹی پر گشت کرتے ہوئے کانسٹیبل نے ہمیں پکڑ لیا تھا۔ ہم نے اسے صرف پانچ روپے دئیے تھے کہ اس نے ہمیں چھوڑ دیا اور تھانے نہیں لے کر گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمیں باغ کی محفوظ جگہ بھی بتا دی۔ میں نے صبح سکول میں اپنی ایک سہیلی کو بتایا تو میری سہیلی نے کہا کہ وہاں باغ کا چوکیدار پانچ روپے لیتا ہے اور محفوظ ٹھکانہ دے دیتا ہے۔ آپ کی حفاظت کے لئے چوکیداری بھی کرتا ہے۔ اس طرح مجھ پر نئی دنیا کے گوشے بے نقاب ہوئے۔ صرف ایک طلسم رہ گیا تھا جو ابھی بے نقاب نہیں ہوا تھا۔ یہ بھی ایک میری کلاس فیلو نے کر دیا۔ اس نے مجھے ایک تصویر دکھائی جس میں ایک مرد اور ایک عورت بالکل ننگے انتہائی شرمناک حالت میں تھے۔ اس سے پہلے میں اس حالت سے نا واقف تھی۔ اپنے دوست کے ساتھ متعدد بار تنہائی میں رہ چکی تھی پھر بھی اس تصویر نے میرے اندر ایک آگ سی لگا دی۔ اسی کلاس فیلو نے ایک دن مجھے ایک ناول دیا اور کہا کہ اسے چھپا کر رکھنا اور صرف تنہائی میں پڑھنا۔ میں نے اس ناول کو کتاب میں رکھ لیا۔ رات کو سب سو گئے تو اپنے کمرے میں اکیلی اسے پڑھنے لگی۔ پڑھتے پڑھتے میری سانس اکھڑ گئی۔ گال تپنے لگے۔ مجھ پر نشہ طاری ہونے لگا۔ میں ایک پیاس سی محسوس کرنے لگی۔ اس ناول میں ایک لڑکی کو پیش کیا گیا تھا جو مختلف مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے تجربات ننگے الفاظ میں بیان کرتی ہے۔ اس ناول میں کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس ناول میں اتنی تفصیل لکھی تھی کہ سیکس کرنے کا طریقہ اور کس طرح کے سیکس سے اس لڑکی کو زیادہ مزہ آیا سب لکھا تھا۔ وہ ناول اس قدر فحش تھا کہ مختلف مردوں کے عضو خاص کی لمبائی اور موٹائی بھی لکھی ہوئی تھی۔ اور بعض جگہوں پر تو تصویر بنا کر سیکس کی مختلف حالتیں دکھائی گئیں تھیں۔

اگر آپ اپنے بچوں کو ایسے سکولوں میں داخل کروائیں گے جہاں پر عام ماحول فحش ہو گا تو آپ کا بچہ جتنا بھی شریف کیوں نہ ہو وہ ضرور خراب ہو جائے گا۔ اس لئے اپنے بچوں پر رحم کریں اور انہیں اچھا ماحول دیں۔ اگر غلط ماحول کی وجہ سے آپ کا بچہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس گناہ میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں۔
مجھے وہ ناول اتنا زیادہ پسند آیا کہ ایک ہی رات میں سارا ناول پڑھ ڈالا۔ میری حالت یہ ہو گئی تھی کہ دل کرتا تھا ابھی اڑ کر اپنے دوست کے پاس چلی جاؤں اور اور ہم جلدی سے سیکس کر لیں۔ ناول پڑھنے کے بعد نیند ہی اڑ گئی۔ بڑی کوشش کی مگر نیند نہیں آ رہی تھی۔ میرے جی میں آیا کہ غسل خانے میں جا کر اپنے اوپر ٹھنڈا پانی ڈال لوں مگر خیال آیا کہ گھر والے جاگ جائیں گے۔ رات کے آخری پہر میں بہت کوشش کے بعد نیند آ گئی۔ صبح سکول جا کر اپنی کلاس فیلو سے پوچھا کہ ایسا کوئی اور ناول مل سکتا ہے؟ اس نے کہا۔ "کون سی دنیا میں رہتی ہو؟ تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ ایسے ناول کہاں سے ملتے ہیں؟ بڑی ایڈوانس بنی پھرتی ہو۔" پھر اس نے ایک دوکان دکھا دی جہاں سے فحش ناول ملتے تھے۔
آپ نے لائبریریاں دیکھی ہوں گی۔ یہ ہر محلے میں آپ کو نظر آئیں گی۔ جہاں بچوں اور بڑوں کے ناول رکھے ہوتے ہیں۔ یہ جرم، قتل و غارت اور جنسی لذت کے ناول ہوتے ہیں۔ جو کرائے پر بچوں کو دئیے جاتے ہیں۔ انہی لائبریریوں میں ایسے ننگے اور جنسی فعل کی ننگی تصویروں والے ناول بھی ہوتے ہیں۔ دوکاندار ایسے ناول چھپا کر رکھتے ہیں اور ایسے ناولوں کا کرایہ زیادہ ہوتا ہے۔ دوکان دار ایسے ناولوں کی جھلک نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو دکھا کر بہت پیسہ کماتے ہیں۔ مشنری سکولوں کے بچے ان ناولوں کے مستقل گاہک ہوتے ہیں۔ (یہ 1970ء میں کہانی بتائی جا رہی ہے۔ آج کے دور میں تو موبائل اور انٹرنیٹ نے ان چیزوں کی جگہ لے لی ہے۔ اور صرف مشنری سکول ہی فحاشی نہیں پھیلا رہے بلکہ ہر سکول اور کالج میں فحاشی آ چکی ہے۔) یہ ناول نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا جو حشر کرتے ہیں اسے آپ تصور میں بھی نہیں لا سکتے۔ یہ مجھ سے پوچھئے۔ میں تو پہلے ہی آوارہ ہو چکی تھی۔ میں نے ایسی لڑکیوں کو بھی یہ ناول پڑھ کر بدکار بنتے دیکھا ہے جو اچھے بھلے شریف خاندان کی بیٹیاں تھیں۔ یہ ناول کالجوں میں ہاتھوں ہاتھ گھومتے پھرتے ہیں اور برقع پوش شریف زادیاں بھی پڑھ لیتی ہیں۔ ناول پڑھ لینے کے بعد ممکن ہی نہیں کہ وہ شریف زادیاں رہ جائیں۔ جو زرا دلیر ہوتی ہیں وہ کسی لڑکے سے دوستی کر لیتی ہیں اور جو حجاب کی پابند ہوتی ہیں وہ لڑکیوں سے طریقے سیکھ کر اپنے ہاتھوں یہ آگ بجھا لیتی ہیں۔

میرا حشر دیکھ لیں۔ میں ایک آئینہ ہوں جس میں آپ پورے معاشرے کا ڈھکا چھپا رخ دیکھ سکتے ہیں۔ ایک لڑکی کو طوائف بنانے والے کئی عناصر ہوتے ہیں۔ میں آپ کو وہ عناصر ہی دکھا رہی ہوں۔ اور ثبوت کے لئے اپنی کہانی پیش کر رہی ہوں۔ آپ صرف مجھ پر لعنت بھیج کر یا سارے ملک کے کوٹھے بند کروا کر آپ ملک کو بدکاری سے پاک نہیں کر سکتے۔ بدکاری صرف کوٹھوں یا دیگر اڈوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ نئی تہذیب کے پردے میں گھروں اور کالجوں میں ہوتی ہے۔ ہوٹلوں اور باغوں میں ہوتی ہے۔ کاروں میں ہوتی ہے۔ آپ کی ساتھ والی کوٹھی میں ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کی اپنی کوٹھی میں بھی ہوتی ہو۔ اگر آپ اپنی قوم میں عظمت دیکھنا چاہتے ہیں تو جو گوشے میں دکھا رہی ہوں ان کی طرف توجہ دیں۔

ان گوشوں کے علاوہ میں آپ کو چند ایسے چہرے بھی دکھاؤں گی جو قوم کے کردار کا رونا روتے ہیں۔ نوجوانوں کی گمراہی پر آنسو بہاتے ہیں۔ مگر یہ سب مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ وہ عصمتوں کے محافظ نہیں بلکہ خریدار ہیں۔ میں بہت سے چہرے بے نقاب کروں گی۔ میری کہانی کو ذہن اور دل صاف کر کے پڑھیں۔ میں آپ کو بتا رہی تھی کہ ڈی ایس پی کے بیٹے کی اب دوست نہیں بلکہ داشتہ بن گئی تھی اور مجھے اس پر فخر تھا۔ جس ماحول میں مجھے تعلیم ملی تھی اس میں نمود و نمائش کو فیشن سمجھا جاتا تھا۔ میں نے اپنی باغ والی رات کا واقعہ اپنی سہیلیوں کو سنایا۔ میرے دوست نے بھی دوسرے لڑکوں کو یہ سب سنایا۔ میرے دوست نے یہ شو مارنے کے لئے سب کو سنایا تھا کہ میں نے ایک بہت خوبصورت لڑکی پھنسائی ہے۔ مگر اس سکول کا ماحول کچھ اور تھا۔ جب ایک لڑکی اپنا جسم دے دیتی تو یہ اشارہ ہوتا تھا کہ یہ چل نکلی ہے۔ اگلے ہی دن دو شہزادے میرے راستے میں کھڑے ہو گئے اور لفٹ پیش کرنے لگے۔ میں نے جان بوجھ کر ان کی لفٹ ٹھکرا دی۔

 یہ اس لئے نہیں ٹھکرائی تھی کہ میں کسی ایک کو دل دے بیٹھی تھی۔ بلکہ میں اپنی قیمت بڑھانا چاہتی تھی۔ مجھے نخرے دکھا کر بہت مزہ آ رہا تھا۔ایک روز ایک لڑکی مجھ سے الجھ پڑی۔ بظاہر بات کچھ بھی نہیں تھی۔ وہ زرا زرا سی بات پر مجھ سے لڑنے لگی۔ آخر بات یہ کھلی کہ جو میرا بوائے فرینڈ تھا وہ اس لڑکی کا بھی بوائے فرینڈ تھا۔ جب اس نے مجھے داشتہ بنا لیا تو اس لڑکی کو ٹھکرا دیا تھا۔ بعد میں یہ بھی مجھ پر انکشاف ہوا کہ میرا دوست میرے اور اس لڑکی کے علاوہ دو اور لڑکیوں کا بھی بوائے فرینڈ ہے۔ میں نے اپنے دوست سے کوئی شکایت نہ کی۔ اس کی بجائے میں نے ایک دوسرے کار والے لڑکے کی لفٹ قبول کر لی اور پھر اس سے بھی وہی سلسلہ شروع ہو گیا جو پہلے سے تھا۔ میرے نئے دوست نے مجھ پر یہ کرم کیا کہ میرا میٹرک پاس کروا دیا اور مجھے ایک اچھے کالج میں داخلہ مل گیا۔ وہاں داخلہ کسی خوش قسمت کو ہی ملتا تھا۔ میرے ابو اور بھائی کے تعلقات بہت زیادہ تھے اس لئے جلدی داخلہ مل گیا۔

 اس کالج میں بھی لڑکے اور لڑکیاں اکٹھی پڑھتیں تھیں۔ میرا دوسرا بھائی بھی کالج میں پڑھتا تھا اور اس کا آخری سال تھا۔ میرا بھائی بھی ماڈرن بن گیا تھا۔ وہ شہزادہ بن رہا تھا۔ اس میں جو تبدیلیاں آ رہی تھیں ان تبدیلیوں کو میں بڑی اچھی طرح سمجھتی تھی۔ جس راستے پر میرا بھائی چل پڑا تھا اس راستے پر میں کئی منزلیں طے کر چکی تھی۔ اب مجھے گھر سے پیسے چرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرا بھائی مجھے بغیر مانگے ہی پیسے دے دیتا تھا۔ اس کے علاوہ کالج میں لڑکے مجھ پر بہت سا پیسہ خرچ کرتے تھے۔ اس کالج میں رشوت خور افسروں، سرگودھا اور فیصل آباد کے زمینداروں اور جاگیر داروں اور KPK کے خان صاحبوں کے علاوہ پاکستان کے وزیروں اور مشیروں کے بیٹے پڑھتے تھے۔ کالج کے لڑکے میری ایک ایک ضرورت پوری کرتے تھے مگر میرے گھر والوں نے مجھ سے کبھی یہ نہیں پوچھا تھا کہ اتنے پیسے اور زیب و زیبائش کا سامان کہاں سے لیتی ہو؟

اب میں اتنی تجربہ کار ہو چکی تھی کہ ان پیسوں اور تحفوں کے عوض اپنا جسم پیش نہیں کرتی تھی۔ ہر لڑکے کو یہ کہہ دیتی تھی کہ صرف تمہاری ہوں۔ اگر کوئی ثبوت مانگتا تو اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ لگا دیتی یا اس کے گلے لگ جاتی تھی۔ سیکس تک نہیں پہنچنے دیتی تھی۔ صرف اتنا سا کرنے پر میرے امیدوار مجھ پر تحفوں اور پیسوں کی بارش کر دیتے تھے۔ صرف میں ہی نہیں، کئی لڑکیاں ایسے شہزادوں کی عشق بازی کا نشانہ بنی ہوئی تھیں۔ وہ لڑکیاں لڑکوں کو تھوڑی تھوڑی رومانی تفریح دے کر ان سے بہت پیسے کھاتی تھیں۔ اگر آج کوئی یہ کہے کہ لڑکی ایسے سکول یا کالج میں پڑھتی ہے جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی کمرے میں بیٹھتے ہیں اور لڑکیاں عشق بازی نہیں کرتی تو وہ شخص اندھا ہے اور خود فریبی میں مبتلا ہے۔

اس دوران پاکستان ترقی کے ان مراحل میں داخل ہو گیا تھا جہاں پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں یورپی طرز کے ہوٹل کھل گئے تھے۔ جو شاید ہمارے ملک کے قانون سے آزاد ہیں ورنہ ایک اسلامی ملک میں ایسے ہوٹل نہ کھلتے۔ ان ہوٹلوں میں مغربی طرز کے ڈانس شروع ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی چند ایک دیسی طرز کے شریف لوگوں نے بھی اپنے ہوٹل کی طرز تبدیل کر لی۔ ان ولائتی اور دیسی ہوٹلوں میں تہہ خانے بن گئے جہاں لڑکیوں اور لڑکوں کو ڈانس سکھایا جانے لگا۔ ڈانس میں لڑکا اور لڑکی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اور سینے سے سینہ ملا کر ناچتے تھے۔ کسی بھی لڑکی کو کوئی بھی لڑکا اپنی بانہوں میں لے کر ناچ سکتا تھا۔ ڈانس میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی کہ صرف اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ہی ناچ سکتے ہیں۔ انکار کو بد تہذیبی سمجھا جاتا تھا۔ آپ اگر ان ہوٹلوں میں جائیں تو دیکھیں گے کہ بیوی اپنے خاوند کے سامنے کسی دوسرے مرد کے ساتھ ناچ رہی ہو گی اور خاوند کسی دوسری عورت کو سینے سے لگائے ہوئے ہو گا۔

میں سیکنڈ ائیر میں تھی جب میرا نیا دوست مجھے اسی قسم کے ایک ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں میرے جیسی بہت سی لڑکیاں دوسرے لڑکوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ناچ رہی تھیں۔ سگریٹ پی رہی تھیں اور چیخ چیخ کر قہقہے لگا رہی تھیں۔ میں نے پہلے بار چار ایسی لڑکیوں کو دیکھا جو ہوٹل کے تہہ خانے میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ سینے سے سینہ لگا کر ناچ رہی تھیں اور بوسہ بازی کر رہی تھیں۔ مگر جب جانے لگیں تو برقعہ اوڑھ لیا۔ یہ شریف گھرانوں کی لڑکیاں تھیں جو گھروں میں جھوٹے بہانے تراش کر وہاں جاتی تھیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ کالج کے ہوسٹل میں رہنے والی لڑکیاں زیادہ اس تہہ خانے میں آتی ہیں۔ میں جب وہاں کئی تو کئی آوارہ لڑکے میری طرف بڑھے۔ بیس کے قریب لڑکے تھے اور اتنی ہی لڑکیاں تھیں۔ وہ کمرہ بدبو سے بھرا ہوا تھا۔ آٹھ نوجوان لڑکوں باری باری نے مجھے اپنی بانہوں میں ڈال کر ڈانس کے سٹیپ سکھائے۔ مجھے جو میرا دوست وہاں لے گیا تھا وہ کسی اور لڑکی کو گلے سے لگا کر ڈانس کر رہا تھا۔

کچھ دیر بعد میرا دوست میرے پاس آیا اور مجھے سگریٹ سلگا کر دیا۔ میں نے کبھی سگریٹ نہیں پیا تھا۔ دو تین لڑکیاں میرے پاس کھڑی تھیں۔ میرے دوست نے مجھے کان میں کہا کہ انکار مت کرنا اور انگریزی میں بات کرنا۔ میں نے سگریٹ کا کش لگایا تو سر چکرا گیا۔ کھانسی بھی آئی۔ کسی لڑکے نے میرے ہاتھ میں کوکا کولا کی بوتل پکڑا دی۔ لڑکیوں کی حوصلہ افزائی پر میں نے سگریٹ کا ایک اور کش لگایا۔ سگریٹ کا دھواں اتنا بدبودار تھا کہ مجھے متلی آنے لگی۔ پھر لڑکے اور لڑکیاں اصرار کرنے لگیں تو کوکا کولا کے ساتھ سگریٹ کے مزید کش لگائے۔ زرا سی دیر میں مجھے محسوس ہونے لگا کہ دنیا کی ساری خوشیاں مجھے مل گئی ہیں اور میں ہوا میں اڑنے لگی۔ بدبو بھی ختم ہو گئی۔ متلی بھی غائب۔ دل میں صرف ایک ہی بات آئی کہ ناچوں اور صرف ناچتی رہوں۔ دوسرے لڑکے اور لڑکیاں بھی سگریٹ کے کش لگا رہے تھے اور دھواں ناک اور منہ سے نکال رہے تھے۔ سگریٹ کے بعد ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوگیا۔ یورپی طرز کا میوزک بج رہا تھا اور ہم ناچ رہے تھے۔ ایک لڑکی نے میرے پاس آ کر پوچھا۔ "سگریٹ نے موڈ ٹھیک کر دیا نا؟"

مجھے کچھ شک سا ہوا۔ میں نے پوچھا سگریٹ میں کیا تھا؟ اس نے کہا۔ سگریٹ میں چرس بھری ہوئی تھی۔ مجھے چرس سے پیار ہو گیا۔ چرس نے مجھے طلسماتی دنیا دکھا دی تھی جو میں خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں والد کا شکریہ ادا کیا جس نے مجھے ایسے سکول میں داخل کروایا تھا۔ میں نے بھائی کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے میری ماں کو قائل کر لیا تھا کہ برقعہ اتروا دو ہم ایڈوانس ہو چکے ہیں۔ اس دوست کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے مجھے سیکسی ناول دیا تھا۔ اس دوست کا بھی شکریہ ادا کیا جو مجھے کار میں بٹھا کر ویرانے میں لے گیا تھا اور میری شرم دور کر دی تھی۔
جب دو گھنٹے گزر گئے تھے تو میرے دوست نے مجھے سگریٹ کے دو کش لگوائے جو وہ خود بھی پی رہا تھا۔ میرا نشہ بڑھ گیا۔ وہ میرا بازو پکڑ کر ایک کمرے میں لے گیا۔ وہاں گدے والا پلنگ بچھا ہوا تھا۔ میرے دوست نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ زرا سی دیر میں ہم۔۔۔۔۔۔۔۔ کر رہے تھے۔ میرے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ میں تو چاہتی ہی یہی تھی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اس ہوٹل میں ہر چیز کا اچھا انتظام موجود ہے۔
مجھے یہ ہوٹل اتنا اچھا ل
ا کہ میری شامیں اسی ہوٹل میں گزرنے لگیں۔ میں وہاں کسی دوست کے بغیر ہی چلی جاتی تھی اور وہاں مجھے دوست مل جاتے تھے۔
یہ ہوٹل اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ صرف امیر لوگ ہی وہاں چائے کی پیالی پی سکتے ہیں۔ میں حیران ہوا کرتی تھی کہ پاکستان میں اتنی دولت کہاں سے آ گئی۔ ایک طرف جھگیاں بنتی اور پھیلتی جا رہی تھیں۔ دوسری طرف ایک ایک اور دو دو کنال کی کوٹھیاں اور ایکڑ ایکڑ کے محلات بن گئے تھے۔ کچھ لوگ دو وقت کی روٹی کے پیچھے پیدل بھاگتے دوڑتے نظر آتے تھے۔ مشقت کے مارے ہوئے ان نیم فاقہ کش لوگوں کے درمیان سے کاریں زناٹوں کی طرح گزر جاتی تھیں۔ سوسائٹی غریب اور امیر میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ایسے غریب ملک میں ایسے یورپی ہوٹل جہاں دولت پانی کی طرح بہائی جاتی ہو عوام کی غربت کا منہ چڑاتے تھے۔ مگر اس وقت جب میں اس ہوٹل میں لڑکوں کے ساتھ بغل گیر ہو کر ناچا کرتی تھی تو میں خود کو پاکستانی کہنے پر شرماتی تھی۔ اس ہوٹل میں یورپ اور امریکہ کے امیر زادے بھی آنے لگے تھے۔
ایک روز ایک امریکی نے مجھے اپنے ساتھ ڈانس کرایا۔ میں انگریزی بہت اچھی بول لیتی تھی۔ وہ میری شکل وصورت، قدبت اور زبان سے متاثر یوا۔ میں اس سے اس لئے متاثر ہوئی کہ وہ امریکی تھا۔ کیونکہ ہمارے سکول والوں نے ہمارے ذہنوں میں امریکہ کو خدا بنا دیا تھا۔ میرے پاؤں زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے۔ اس نے مجھے اعلیٰ قسم کی شراب پلائی۔ پھر وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔ اس نے میرے جسم کے ہر حصے کی تعریف کی۔ وہ کافی دیر تک میری چھاتیوں سے کھیلتا رہا۔ اس نے مجھے آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ پھر جب وہ ۔۔۔۔۔۔ کرنے لگا تو میرا دل کر رہا تھا کہ وہ بار بار کرتا رہے۔ آخر پر اس نے کہا کہ میں تم سے شادی کروں گا اور اپنے ساتھ امریکہ لے جاؤں گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے مگر اس کی بیوی بہت بدصورت ہے۔ اس نے مجھے اتنا متاثر کر دیا کہ میں آسمان پر پہنچ گئی۔مگر اس کے بعد جس پستی میں بری ہوں آج تک نہیں نکل سکی۔ اس کے ساتھ نرم و گداز بستر پر چند لمحے گزار کر فخر محسوس کیا تھا۔ میں نے ایک عجیب بات دیکھی کہ پاکستانی لڑکیاں یورپ اور امریکہ کے مردوں کو بہت پسند کرتی ہیں۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام  اردو کہانی - پارٹ 3

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں