پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 26

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 26


اس کے ساتھ ہی ہندو گائیڈ عورت نے ہاتھ جوڑ کر میرے آگے سر جھکا لیا اور منہ ہی منہ میں سنسکرت کا کوئی اشلوک پڑھا۔ جمشید کو تو حیران ہونا ہی تھا میں خود حیران ہو کر اس عورت کو دیکھنے لگا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے لیکن میں نے اس کے عجیب سے جملے پر زیادہ غور نہ کیا اور جمشید کا بازو پکڑ کر واپس چل پڑا۔ جمشید میرے ساتھ چل پڑا۔ کہنے لگا۔ ’’اس عورت نے تمہیں یہ کیا کہہ دیا کہ مہاراج مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔

میں نے کہا۔ ’’ارے یہ سب ان لوگوں کی ڈرامہ بازی ہے۔ یہ اس طرح کی باتیں نہ کریں تو لوگ ان کی باتوں پر اعتبار کیسے کریں اور یہ ان سیاحوں سے پیسے کیسے بٹوریں؟“

جمشید بولا۔ لیکن اس نے تو ہم سے کچھ بھی نہیں مانگا تھا۔
‘‘ یہ بھی اس کا ایک ڈھونگ تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ کہنے کو تو میں نے جمشید سے یہ کہہ دیا تھا لیکن دل میں سوچنے لگا تھا کہ اس عورت کو کہیں پتہ تو نہیں چل گیا کہ میرا تعلق بدروحوں اور آسیبوں کی دنیا سے کسی نے کسی صورت میں رہا ہے۔ یہ ہندو گائیڈ عورت ہندوؤں کی دیو مالا کے ماحول میں رہنے والی عورت تھی۔
ہو سکتا ہے اس ماحول میں رہتے رہتے اس میں اتنا شعور پیدا ہو گیا ہو اور وہ ایسے لوگوں کو پہچان لیتی ہو جن کا تعلق دیو مالائی ماحول سے وابستہ ہو یا وابستہ رہا ہو۔۔
ہم ایلورا کے غاروں سے باہر نکل آۓ۔ باہر آکر جمشید نے کہا۔ ”میرا خیال ہے اس عورت نے محض ڈرامہ بازی ہی کی ہے ۔ تم ٹھیک کہتے ہو ۔“

میں نے کہا۔ "جمشید ! ان لوگوں کا کاروبار ہی یہی ہے۔ یہ اس قسم کی باتیں نہ کریں تو ان کو کوئی نہ پوچھے اور سیاح خود ہی غاروں کی سیر کرتے رہیں ۔“ ہم سٹیمر میں بیٹھ کر گیٹ وے آف انڈیا آگئے۔ یہاں سے ہم نے ایک ٹیکسی پکڑی اور اپنے فلیٹ پر آگئے ۔ اس وقت رات کا پہلا پہر شروع ہو چکا تھا۔ جمشید کا آٹو ورکشاپ اور گیراج رات دس گیارہ بجے تک کھلا رہتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد دس بجے تک میں ورکشاپ میں ہی جمشید کے پاس بیٹھا ادھر ادھر کی باتیں کر تار ہا۔ پھر مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ میں نے جمشید سے کہا۔ ”میں تو سونے جارہا ہوں ۔
بڑی نیند آ رہی ہے۔ جمشید بولا۔ ” بس میں بھی تھوڑی دیر میں آرہا ہوں۔“ میں اوپر کمرے میں آکر پلنگ پر لیٹ گیا اور ایلور کے غار کی گائیڈ عورت کے جملے پر غور کرنے لگا کہ اس نے مجھے جو کچھ کہا تھا اس میں واقعی کچھ حقیقت تھی کہ وہ محض ڈرامہ بازی کر رہی تھی۔ اصل میں میں ایسے ایسے حالات سے گزرا تھا بلکہ گزر رہا تھا کہ جس پر انسانی عقل مشکل ہی سے یقین کر سکتی تھی بلکہ عقل یقین کر ہی نہیں سکتی تھی۔

سوچنے لگا ہو سکتا ہے اس گائیڈ عورت نے میرے چہرے پر کسی بدروح کے سائے کو گزرتے دیکھ لیا ہو ۔ آخر بدروحیں اور آسیب میرے پیچھے تو لگی ہوئی ہی تھیں۔ جب میں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا تو میں نے ٹیبل لیمپ بجھایا اور آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا۔

ابھی میں بیداری اور نیند کی درمیانی حالت میں ہی تھا کہ اچانک مجھے روہنی کے جسم سے آنے والی خوشبو کا احساس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ٹیبل لیمپ اپنے آپ روشن ہو گیا۔ میں نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں۔ میرے سامنے روہنی کھڑی تھی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور روہنی سے کہا۔ ” سلطانہ ! اچھا ہوا تم آ گئیں۔ اس وقت مجھے تمہاری ہی ضرورت تھی۔

روہنی کے چہرے پر ایک پراسرار سا تبسم تھا۔ وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی اور مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی۔ میں نے کہا۔ ’’ آج میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔۔

روہنی کے چہرے کا تقسم غائب ہو گیا۔ اس نے سنجیدہ آواز میں کہا۔ ’’شیر وان! مجھے معلوم ہے تمہارے ساتھ کیا واقعہ ہوا ہے۔ تمہیں ایلورا کے غاروں میں نہیں جانا چاہئے تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ تم وہاں سے صحیح سلامت واپس آگئے ہو ۔ “ میں نے کہا۔ ’’سلطانہ ! میں وہاں نہیں جانا چاہتا تھا جمشید مجھے زبردستی لے گیا تھا۔“
روہنی نے مجھے ہلکی سی ڈانٹ کے ساتھ کہا۔ ” تمہیں کوئی زبردستی موت کے منہ میں لے جائے گا تو کیا تم اس کے ساتھ چل پڑوگے ؟ تم نے سخت غلطی کی تھی۔ تمہاری قسمت اچھی تھی کہ تم وہاں سے بچ کر آگئے ہو ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اس قسم کی جگہیں جہاں دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں اور بت ہوں منحوس ہوتی ہیں ؟ اور تم خاص طور پر جس قسم کے حالات سے گزر رہے ہو تمہیں تو ایسی جگہوں میں جانے کا نام بھی نہیں لینا چاہئے ۔ ۔

میں نے کہا۔ ” مجھے معاف کر دو سلطانہ ! مجھ سے غلطی ہو گئی۔ وعدہ کرتا ہوں آ ئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں ہوگی۔ اب میں اس کمرے سے باہر قدم بھی نہیں رکھوں گا۔“

روہنی خاموش ہو گئی۔ پھر کہنے لگی۔ مجھے تو جیسے ہی پتہ چلا کہ تم ایلورا کے غاروں میں گئے ہو میں اس وقت واپس روانہ ہو پڑی تھی۔ مجھے بمبئی کی فضا میں داخل ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ تم خیریت کے ساتھ اس منحوس جگہ سے واپس اپنے فلیٹ پر پہنچ گئے ہو اور میں سیدھی تمہارے پاس آ گئی۔‘‘ میں نے کہا۔ "اچھا بابا آب مجھے معاف بھی کر دو۔ کہہ دیا ناں کہ میں آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘
روانی نے محبت بھری ناراضگی کے لہجے میں کہا۔ "شیروان! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مجھے تمہارا کس قدر خیال لگا رہتا ہے ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں تمہیں ان حالات سے نکالنے کے لئے کتنی جد و جہد کر رہی ہوں۔ یقین کرو میں ایسے ایسے خطرات مول لے رہی ہو جن کا میں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ صرف اور صرف تمہاری خاطر ..... میں تو ایک روح ہی ہوں۔ پہلے ایک بری روح تھی اب ایک ایسی روح ہوں جس کو معافی مل چکی ہے اور جس کے گناہ اس سے الگ کر دیے گئے ہیں۔
پھر بھی میں ایک روح ہی ہوں ۔ تم ایک زندہ انسان ہو۔ میں تو ہر قسم کے حالات میں اپنا بچاؤ کر سکتی ہوں مگر تم بعض حالات میں اپنا بچاؤ نہیں کر سکتے ۔ آج تم ایسے ہی حالات میں پھنس گئے تھے کہ جہاں سے اپنا بچاؤ کرنا تمہاری طاقت سے باہر تھا۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ کسی غیبی طاقت نے تمہاری مدد کی ہے اور تم ان خطرناک اور منحوس غاروں سے زندہ بچ کر واپس آگئے ہو ۔“
پھر اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بڑے درد کے ساتھ کہا۔ "فیروز! میں جانتی ہوں تم حقیقت میں شیروان نہیں ہو۔ مگر تمہارا نقش ہو بہو شیروان کا ہے۔ مجھے تمہاری آواز میں ، تمہاری آنکھوں میں اور تمہارے بات کرنے کے انداز میں شیروان ہی شیروان نظر آتا ہے۔ شیروان میرا محبوب بھی تھا اور میرا خاوند بھی تھا۔ اس نے مجھے اتنا پیار دیا تھا کہ میں اس کے پیار کو مرنے کے بعد بھی نہیں بھلا سکی ہوں۔
میں تم میں اپنے شیروان کو ہی دیکھ رہی ہوں اور نہیں چاہتی کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے ۔ تمہیں کچھ ہو گیا تو خدا جانے پھر میں تمہاری شکل بھی دیکھ سکوں ۔“ روہنی کی آواز اتنی اداس ہو گئی کہ اسے تسلی دینا میرا فرض بن گیا۔ میں نے کہا۔ ’’سلطانہ! میں تم سے ایک بار پھر وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد تمہیں مجھ سے بھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ اگر تم کہو گی تو میں اس وقت تک اپنے آپ کو اس کمرے میں بند کر لوں گا جب تک کہ تم ہمارے دشمنوں رگھو کی بدروح اور نتالیا کے آسیب کا کام ختم نہیں کر لیتی ۔ “
روہنی کے چہرے پر تبسم نمودار ہو گیا۔ کہنے لگی۔’’ ٹھیک ہے ۔ مجھے تم پر اعتبار آ گیا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ تم اس کمرے میں بند ہو کر رہ جاؤ۔ بے شک باہر نکل کر چلو پھرو۔ لیکن کسی خطرے والی جگہ پر مت جاؤ۔ خواہ وہ کوئی جنگل ہو ، کوئی غار ہو ، کوئی پرانی حویلی ہو ، کوئی اجاڑ ، ویران کھنڈر ہو یا کوئی ویران تاریخی قلعہ ہو ۔ بمبئی میں بے شمار تفریحی جگہیں ہیں۔ پارک ہیں ، ریستوران ہیں ۔ تم جمشید کے ساتھ وہاں جا کر ا پنا دل بہلا سکتے ہو ۔“
میں نے کہا۔ میں تمہاری ہدایات پر پورا عمل کروں گا۔ اب مجھے بتاؤ کہ تم نے دشمنوں کی کہاں تک سراغ رسانی کی ہے ؟ کیا کچھ پتہ چلا کہ نتالیا اور رگھو کی بدروح ہمارے خلاف کیا سازش کر رہی ہیں ؟
روہنی بولی ۔ ” مجھے کافی حد تک ان کی سازشوں کا پتہ لگ چکا ہے ۔ میں دو ایک دن میں تمہارے پاس تمہیں اور زیادہ محتاط رہنے کی ہدایت کرنے آنے ہی والی تھی۔ یہ تو مجھے اچانک آنا پڑ گیا تاکہ تمہیں منع کروں کہ آئندہ ایلورا کے غاروں کی کسی جگہ پر مت جانا۔ “
" نتالیا اور رگھو ہمارے خلاف کیا سازش کر رہے ہیں ؟ میں نے پوچھا۔ روہنی نے کہا۔ ”وقت آنے پر میں تمہیں خبردار کر دوں گی بلکہ میں خود تمہاری حفاظت کے لئے تمہارے پاس آ جاؤں گی۔ ابھی میں تمہیں صرف یہی کہوں گی کہ وہ مجھے اور خاص طور پر تمہیں اپنے قبضے میں کرنے کے لئے بڑا خطرناک جال بچانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ “ میں نے کہا۔ ’’سلطانہ ! کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی خطرناک سازشوں میں کامیاب ہو جائیں ۔
روہنی بولی۔’’جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ میں عین وقت پر تمہیں آنے والی مصیبت سے دور لے جاؤں گی۔ بس تم میری ہدایات پر عمل کرتے رہنا۔“
’’وہ تو میں کرتا رہوں گا۔‘‘ میں نے اس کی تسلی کرتے ہوۓ کہا۔
روہنی اٹھ کھڑی ہوئی۔ کہنے لگی۔ ’’اب تم آرام سے سو جاؤ۔ میں پھر آؤں گی۔۔
میں نے کہا۔’’اب مجھے بالکل نیند نہیں آرہی۔‘‘
اس نے کہا۔ " تو پھر چلو کسی جگہ چل کر تھوڑی سیر کرتے ہیں۔ میری بھی تفریح ہو جاۓ گی ۔ "
میں نے کہا۔’’ کہاں جائیں گے ؟“ روہنی نے کہا۔ "کہیں کسی باغ میں سمندر کے کنارے چلے چلتے ہیں۔ بمبئی میں بڑے باغ ہیں ۔ چلو بال کیشر گارڈن چلتے ہیں وہاں سے سمندر کا منظر رات کے وقت بڑا خوبصورت دکھائی دیتا ہے ۔“
مجھے خود بال کیشر گارڈنز بہت پسند تھے۔ یہ چوپاٹی کے شروع میں ایک بلند پہاڑی پر واقع تھے اور اوپر سے دور تک سمندر نظر آتا تھا۔ رات کے وقت میرین ڈرائیو کی بتیاں اور فلیٹوں کی روشنیاں سمندر میں پڑتی تھیں تو وہ منظر اور زیادہ دلکش ہو جاتا تھا۔ میں نے کہا۔ ”چلو وہیں چلتے ہیں۔“
پھر مجھے جمشید کا خیال آ گیا کہ وہ تو ابھی نیچے گیراج میں ہی ہے ۔ میں نے روہنی سے کہا۔ میں نیچے جمشید کو کہہ دیتا ہوں کہ سمندر کی سیر کرنے جارہا ہوں۔“ روہنی ہنس پڑی۔ کہنے لگی۔" وہ کیا سوچے گا کہ تم رات کے گیارہ بجے سمندر پر کیا کرنے جارہے ہو ؟ اس کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہی اس کھڑکی سے باہر نکل جاتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا۔ ” یہ ٹھیک ہے۔ میں بتی بجھا دیتا ہوں۔ دروازے کو اندر سے کنڈی گی ہوئی ہے وہ یہی سمجھے گا کہ میں سو گیا ہوں ۔ " روہنی نے کہا۔ ” میرا ہاتھ پکڑ لو۔“ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور ہاتھ پکڑتے ہی روہنی کے ساتھ میں بھی غائب ہو گیا۔ ہم نے کھڑکی میں سے باہر بڑے آرام سے چھلانگ لگا دی اور نیچے گرنے کی بجاۓ ہوا میں تیرتے ہوئے اوپر کی طرف بلند ہونے لگے۔ ایک خاص بلندی پر پہنچ کر روہنی مجھے ساتھ لے کر بال کیشر گارڈنڑ کی سمت پرواز کرنے لگی۔
ہم بال کیشر گارڈنز میں آکر اتر گئے ۔ ایک جگہ جہاں سے نیچے سمندر میں میرین ڈرائیو کی روشنیوں کا جھلملاتا ہوا عکس نظر آ رہا تھا ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ بڑی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ وہاں اترنے کے بعد ہم دونوں اپنی انسانی شکلوں میں واپس آگئے ۔
روہنی کہنے لگی ۔ ’’آج سے تین سو برس پہلے جس زمانے میں ، میں زندہ تھی اور ہماری ریاست جانسی کے قریب ہوا کرتی تھی بمبئی کا شہر ایسا نہیں تھا۔ تب یہ ایک ساحلی بستی تھی جہاں سے بصرہ اور ایران سے سمندری جہاز مال لے کر آیا کرتے تھے۔ اس وقت میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ یہ شہر کبھی ایسا بن جائے گا۔“ میں نے کہا۔ ” مجھے سمندر دیکھ کر اپنے وطن پاکستان کا سمندر اور کراچی کا روشنیوں والا شہر یاد آ گیا ہے ۔
‘‘ روہنی کہنے لگی۔’’ پاکستان بھی بڑا خوبصورت ملک ہے ۔ وہاں کے لوگ بڑے بہادر اور غیرت مند لوگ ہیں۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور انشاءاللہ اسلام کے ساتھ ہی تا قیامت سلامت رہے گا۔ تم نے ٹھیک کہا۔ کراچی شہر بھی بڑا خوبصورت ہے ۔ خاص طور پر رات کے وقت تو کلفٹن پر اس کی رونقیں دیکھنے والی ہوتی ہیں ۔ ہم اس قسم کی چھوٹی چھوٹی معصوم معصوم باتیں کر تے رہے ۔ ایسی باتیں جن کا بدروحوں اور آسیبوں کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس سے میرے ذہن کو بھی کافی سکون مل رہا تھا۔
لیکن میری توقع کے خلاف روہنی نے اچانک موضوع بدل کر نتالیا کے آسیب کی بات شروع کر دی۔ کہنے گئی۔ اس دفعہ نتالیا کا آسیب اپنی غلام بدروحوں کی مدد سے تمہیں اپنے قبضے میں کرنے کے لئے جو سازش کر رہا ہے وہ اتنی خفیہ رکھی جا رہی ہے کہ میں کوشش کے باوجود اس کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔“ میں نے کہا۔ تم تو ایک روح ہو ۔ تم تو ان کے درمیان غائب ہو کر جا سکتی ہو ۔“ روہنی کہنے لگی۔’’یہی تو میرے لئے سب سے بڑی مشکل ہے کہ میں ایک ایسی روح ہوں جس پر نتالیا کا آسیب قریب دیکھ کر حملہ کر سکتا ہے ۔
میں نے کہا۔ "مگر سلطانہ ! تم تو کہتی تھیں کہ کوئی بدروح اور آسیب تمہارے قریب نہیں آ سکتا۔“ روہنی کہنے لگی۔ میں نے تمہیں صحیح کہا تھا کہ کوئی بدروح اور آسیب ایک اچھی روح کے قریب آتے ہوۓ ڈرتی ہے ۔ لیکن مجھے ان بدروحوں کا خاتمہ کرنا ہے جس کے لئے مجھے ان پر وار کرنے کے لئے ان کے قریب جانا ہوگا۔ جب میں ان کے قریب جا کر ان پر وار کروں گی تو جواب میں وہ بھی مجھے نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔“ ” پھر اس کا کیا علاج ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
روہنی نے ایک لمحے کے لئے توقف کیا اور بولی ۔’’ ایک طریقہ ہو سکتا ہے ۔ وہ یہ کہ میں شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی اپنی انگلی میں پہن لوں۔ اگر یہ انگوٹھی میرے پاس ہوئی تو بدروح مجھ پر قریب سے بھی حملہ نہیں کر سکے گی۔“ میں نے کہا۔’’اگر ایسا ہو سکتا ہے تو تم ابھی یہ انگوٹھی پہن لو۔‘‘ اور میں نے شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی انگلی میں سے اتار کر روہنی کو دے دی۔ اس نے فورا انگوٹھی اپنی انگلی میں پہن لی اور کہا۔ ”شیروان! تم نے انگوٹھی مجھے دے دی ہے ،اب تمہاری دفاعی طاقت آدھی رہ جاۓ گی۔“
میں نے کہا۔ ”میرے بازو پر اللہ کے پاک نام کا جو تعویذ بندھا ہوا ہے روہنی کہنے لگی۔" بے شک وہ تمہیں بدروحوں کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے دے گا۔ لیکن ایک خیال میرے ذہن میں آ رہا ہے۔ کون ساخیال؟‘‘میں نے روہنی سے پوچھا۔ وہ بولی۔’’کیوں نہ میں اس تعویذ پر ایک خفیہ دعا پڑھ کر پھونک ماروں ؟ اس طرح سے اس تعویذ کی طاقت میں زبردست اضافہ ہو جاۓ گا۔‘‘
مجھے روہنی کی یہ بات پسند نہ آئی۔ میں نے کہا۔” نہیں نہیں سلطانہ ! میرے لئے اللہ کا نام ہی کافی ہے ۔ یہی میری حفاظت کرے گا اور پھر میں اسے کوئی تعویذ نہیں سمجھتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے بازو پر اللہ کا پاک نام لکھا ہوا ہے اور وہی میرا حافظ و مدد گار ہے۔“
روہنی نے کہا۔ ” تمہارے ایمان کی پختگی پر مجھے کبھی کبھی رشک آنے لگتا ہے ۔ میں خود تمہارے خیالات کی حامی ہوں۔ لیکن ہمارا واسطہ بری روحوں اور ایک خطرناک آسیب سے ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ حالات کے مطابق دفاعی حکمت عملی میں رد و بدل کرتے رہیں ۔ خدا نہ کرے کہ تم کسی لمحے غافل ہو جاؤ اور تمہیں غافل پا کر نتالیا کا آسیب تم پر وار کرنے میں کامیاب ہو جاۓ ۔ “ ” پھر تم کیا چاہتی ہو ؟ میں نے روہنی سے سوال کیا۔ روہنی نے کہا۔ ” میرا خیال ہے کہ مجھے تعویذ پر خفیہ دعا پڑھ کر پھونک مار ہی دینی چاہئے۔ اس سے تمہیں نقصان تو کچھ نہیں ہوگا لیکن وقت پڑنے پر فائدہ ضرور ہوگا۔
میں نے کہا۔ ’’اگر تم سمجھتی ہو کہ ایسا ضروری ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ اور میں نے اپنے دائیں بازو پر سے تعویذ اتار کر روہنی کو دے دیا۔ شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی میں اسے پہلے ہی دے چکا تھا۔ اب تعویذ بھی اسے دے دیا تھا۔۔
اور میں نہتا ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن مجھے ذرا سی بھی فکر نہیں تھی۔ میری محافظ اور خیر خواہ روہنی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی مجھے کوئی فکر ہونی ہی نہیں چاہئے تھی۔ روہنی نے تعویذ مجھ سے لے لیا۔ جیسے ہی روہنی نے تعویذ اپنے ہاتھ میں لیا تعویذ بجلی کی چمک کے ساتھ غائب ہو گیا۔ میں نے حیران ہو کر روہنی سے پوچھا۔’’سلطانہ ! تعویذ غائب کیوں ہو گیا؟‘‘ ۔ میرے دیکھتے دیکھتے روہنی کی شکل تبدیل ہو گئی۔
وہ چیخ مار کر کھڑی ہو گئی۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ میرے سامنے روہنی کی بجاۓ نتالیا کھڑی تھی۔ اس نے ڈراؤنی آواز میں کہا۔ ” تعویذ اس لئے غائب ہو گیا کہ میں تمہاری سلطانہ نہیں ہوں بلکہ نتالیا ہوں ۔ میں نے تمہیں کہا تھا فیروز تم مجھ سے بچ کر کہیں نہیں جاسکو گے ۔ تم جہاں بھی جاؤ گے میں تمہیں ڈھونڈ نکالوں گی اور تمہیں اٹھا کر لے جاؤں گی۔ تم نے مجھ سے بچنے کے لئے اپنے ارد گرد بہت دیواریں کھڑی کر لی تھیں لیکن تم بھول گئے تھے کہ تمہارا مقابلہ کسی بدروح سے نہیں بلکہ ایک آسیب سے ہے اور آسیب تمہاری روہنی کا روپ بدل کر بھی تم پر حملہ کر سکتا ہے۔
میں نے یہی کیا اور اس وقت تم میرے قبضے میں ہو ۔“
میں اتنا خوف زدہ نہیں تھا جتنا مایوس اور اپنے آپ کو شکست خوردہ اور بے یار و مدد گار محسوس کر رہا تھا۔ یہ منحوس آسیب اس کا بھیس بدل کر مجھ پر حملہ آور ہوا تھا جس نے مجھے اس آسیب سے بچانا تھا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ کاش! مجھے پہلے پتہ چل جاتا کہ میرے سامنے میری ساتھی اور مددگار روہنی نہیں بیٹھی بلکہ نتالیا کا منحوس آسیب بیٹھا ہے ۔ میں حیران تھا کہ نتالیا نے کس عیاری کے ساتھ مجھ سے پہلے شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی لی اور پھر میرے دفاع کا سب سے طاقتور ہتھیار اللہ کے پاک نام والا تعویذ بھی مجھ سے چھین لیا۔
مجھے تو اسی وقت شک پڑ گیا تھا کہ یہ روہنی کی نیک روح نہیں ہے جب مقدس نام والا تعویذ اس کے ہاتھ سے غائب ہو گیا تھا
کیونکہ پاک تعویذ کسی بھی نجس بدروح کے پاس نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر جو ہونا تھا ہو گیا تھا۔ میرے سارے ہتھیار جن سے میں اپنا دفاع کر سکتا تھا میرے دشمن نے مجھ سے چھین لئے تھے ۔ میں نے نتالیا سے کہا۔’’نتالیا! تم آخر مجھ سے کیا چاہتی ہو ؟‘‘ ۔
اس نے کہا۔’’ وہی جو ایک پتنی اپنے پتی سے چاہتی ہے ۔ میری تم سے شادی ہو چکی ہے میں چاہتی ہوں کہ تم ساری زندگی میرے ساتھ رہو اور میرے سوا کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو۔“ میں نے کہا۔ "مگر یہ شادی جھوٹی تھی۔ یہ میری رضا مندی کے بغیر ہوئی تھی ۔ تم نے زبردستی مجھ سے شادی کی تھی۔ نتالیا کی آواز ایک دم مردانہ آواز بن گئی۔ اس نے غصے بھرے لہجے میں کہا۔ " تم کون ہوتے ہو اپنی مرضی جتانے والے ؟
ہاں میں نے اپنی مرضی سے تم سے شادی کی تھی۔ مجھے تمہاری رضامندی کی پرواہ نہیں ہے ۔ جب کوئی آسیب کسی مرد یا عورت کو پسند کر لیتا ہے تو پھر وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنے پاس لے آتا ہے۔ اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ جس کو اس نے پسند کیا ہے وہ اس کے پاس رہنا چاہتا ہے یا نہیں رہنا چاہتا۔۔۔
میں بھی غصے میں آ گیا۔ میں نے کہا۔ ” یہ بات ہے تو پھر میں بھی اپنی مرضی کروں گا۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔“ نتالیا کی آواز عورت کی آواز میں بدل گئی۔ اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولی۔’’فیروز ! تم نے میری طاقت کو ابھی تک نہیں دیکھا۔ تم نے میرا صرف دلہن کا روپ دیکھا ہے ۔ تم نے مجھے آسیب کی شکل میں نہیں دیکھا۔ لیکن میں اپنا آسیبی روپ ابھی تمہیں دکھاؤں گی بھی نہیں کیونکہ تم ایک بے بس انسان ہو اور میں اپنے عورت کے روپ میں ہی تمہیں اٹھا کر لے جاسکتی ہوں۔“ ۔
میں نے ایک بار پھر عصیلی آواز میں کہا۔ میں نہیں جاؤں گا۔“ ۔
اور اس کے ساتھ ہی میں وہاں سے دوڑ پڑا۔ مجھے اپنے پیچھے نتالیا کے قہقہے کی آواز سنائی دی۔ رات کا وقت تھا۔ بال کیشر گارڈنز خالی پڑا تھا۔ یہ باغ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں پہاڑی کے اوپر واقع ہے میں ڈھلان پر درختوں کے نیچے جھاڑیوں کو پھلانگتا جتنی تیزی سے بھاگ سکتا تھا بھاگ رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں نتالیا کے آسیب سے ڈور نکل آیا ہوں ۔ لیکن یہ میرا خیال خام تھا۔
دوڑتے دوڑتے اچانک میرے پاؤں بھاری ہونا شروع ہو گئے ۔ پھر میری ٹانگیں بھی بوجھل ہونا شروع ہو گئیں۔ میری رفتار اپنے آپ آہستہ ہو گئی ۔ اب میں ایسے دوڑ رہا تھا جیسے فلموں میں کسی کو سلو موشن میں دوڑتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ۔ پھر اچانک نتالیا میری بائیں جانب نمودار ہو گئی۔ وہ نہ دوڑ رہی تھی نہ چل رہی تھی۔ وہ زمین سے بلند ہو کر میرے ساتھ ساتھ فضا میں تیر رہی تھی۔ اس نے کہا۔’’فیروزا اس حالت میں تم کہاں تک دوڑو گے ؟ کب تک دوڑو گے ؟ تھک جاؤ گے اور میں تمہیں تھکانا نہیں چاہتی ۔"
اور نتالیا نے مجھے بازو سے پکڑ لیا۔ جیسے ہی اس کا ہاتھ میرے بازو کو چھوا میرا جسم سن ہو گیا۔ پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا کہ میں کہاں ہوں ...... جب ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں ایک پلنگ پر لیٹا ہوا ہوں۔ یہ پتھر کی دیواروں والا کمرہ ہے جس کی چھت کے ساتھ جلتی موم بتیوں والا فانوس روشن ہے ۔ سامنے دیوار پر کسی انسان کی کھوپڑی لگی ہوئی ہے۔ کمرے کے کونوں میں اندھیرا ہے۔ نہ کوئی کھڑکی ہے نہ روشندان ہے ۔ کوئی دروازہ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے جسم کی نارمل توانائی واپس آ چکی ہے ۔
میں پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کمرے کا ایک بار پھر جائزہ لیا۔ بڑا پراسرار ماحول تھا۔ خاموشی اتنی تھی کہ مجھے اپنی سانس کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ جس مصیبت سے میں بچا کرتا تھاوہ مجھ پر مسلط ہو گئی ہے ۔ اب خدا ہی جس وقت چاہے گا مجھے ایک بار پھر مصیبت سے نکالے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت شاید ایسا نہ کر سکے ۔ بال کیشر گارڈنز میں بیٹھ کر روہنی کے ساتھ جو باتیں ہوئی تھیں وہ سب مجھے یاد آرہی تھیں۔ کاش مجھے علم ہو جاتا کہ یہ روہنی نہیں نتالیا ہے اور روہنی کا بھیس بدل کر مجھے اپنے قابو میں کر نے آئی ہے۔
مجھے اصلی روہنی یعنی سلطانہ کا خیال آنے لگا۔ خدا جانے وہ کہاں ہوگی اور جب واپس جمشید کے فلیٹ پر آۓ گی تو مجھے وہاں نہ پا کر کیا سوچے گی کہ میں کہاں چلا گیا ہوں۔ کیا اسے پتہ لگ سکے گا کہ مجھے نتالیا کا آسیب اغواء کر کے لے گیا ہوا ہے ؟ شاید اسے پتہ چل جاۓ۔ شاید اسے پتہ نہ لگے ۔ اگر اسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ نتالیا کے آسیب نے مجھے کس جگہ قید کر رکھا ہے تو پھر میرا کیا ہوگا؟
میں یہاں سے کیسے فرار ہو سکوں گا؟ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ مجھے کسی بہت بڑی قبر میں بند کر دیا گیا ہے جس سے باہر نکلنے کے لئے کوئی دروازہ ہے ، نہ روشندان ہے ، نہ کوئی کھڑکی ہے ۔ اتنے میں سامنے والی دیوار میں پھیکی سی روشنی ہوئی اور میں نے نتالیا کو دیوار میں سے نکل کر اپنی طرف آتے دیکھا۔ وہ پلنگ پر میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ مجھے اس کی مسکراہٹ کسی چڑیل کی مسکراہٹ معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’نتالیا! تم نے مجھے قید تو کر لیا ہے لیکن یاد رکھو میں یہاں سے ایک نہ ایک دن فرار ہونے میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا۔“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم یہاں سے بھاگ جانے کا خیال دل سے نکال دو۔ تم کچھ بھی کر لو گے میری قید سے آزاد نہ ہو سکو گے ۔ تمہاری روہنی بھی اگر چاہے گی تو تمہاری مدد کو نہیں پہنچ سکے گی۔ اب تو وہ بدروح بھی نہیں رہی۔ اب تو اس کے پاپ جھڑ گئے ہیں اور وہ ایک نیک آتما بن گئی ہے اور انچی روحیں، نیک آتمائیں ، بدروحوں اور آسیبوں کی دنیا میں کبھی داخل نہیں ہوتیں۔ وہ چاہیں بھی تو ایسا نہیں کر سکتیں۔“
میں نے کہا۔ ”روہنی نہ سہی لیکن میرا خدا تو میرے ساتھ ہے ۔ وہ ضرور مجھے اس عذاب سے نکال دے گا۔‘‘ میں نے تمہارے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ۔ کوئی گناہ نہیں کیا۔‘‘
نتالیا کی مسکراہٹ ایک دم غائب ہو گئی۔ اس نے تلخ لہجے میں کہا۔ ”کیا تم نے روہنی کے ساتھ مل کر میری کھوپڑی کو زمین کے اندر سے نکال کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مجھے قتل کرنے کی کوشش نہیں کی ؟ اس وقت تم مجھ سے بچ گئے تھے اس لئے کہ تمہارے ہاتھ میں شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی تھی اور تمہارے بازو پر وہ تعویذ بندھا ہوا تھا جس نے تمہیں بچا لیا۔
مگر اب تمہارے پاس ان دونوں چیزوں میں سے ایک بھی نہیں ہے۔ اب تم میرے رحم و کرم پر ہو۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میں تمہیں پسند کرتی ہوں۔ اگر تمہیں پسند نہ کرتی ہوتی تو اس وقت میں تمہارا خون پی کر تمہارے جسم کے ٹکڑے کر کے کھا چکی ہوتی۔“
نتالیا کی آواز غضب ناک ہو کر مردانہ آواز میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ یاد رکھو! اگر تم یہاں سے بھاگنے کا خیال بھی دل میں لائے تو میری محبت ، نفرت میں بدل جائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح میری آواز بدل کر آسیب کی آواز بن گئی ہے اور اگر مجھے تم سے نفرت ہو گئی جو کسی وقت بھی ہو سکتی ہے تو تم زندہ نہیں رہو گے ۔“
حقیقت یہ ہے کہ میں ڈر گیا۔ ایک تو نتالیا کی آواز بدل کر مردانہ آسیب کی آواز ہو گئی تھی۔ دوسرے اس آواز میں بڑی دہشت تھی اور اس نے مجھے میرا خون پی جانے اور میرے جسم کے ٹکڑے کر کے کھا جانے کی دھمکی بھی دی تھی ۔۔
میرے جسم کے ٹکڑے کر کے کھا جانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ وہ بڑی آسانی سے ایسا کر سکتی تھی۔ مجھے اس کے بارے میں علم تھا کہ اس کا تعلق جب وہ زندہ تھی تو افریقہ کے ایک آدم خور قبیلے سے تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں نہ جانے کتنے بے گناہ انسانوں کو ہڑپ کیا تھا اور ان کا خون پی کر انہیں موت کی نیند سلا دیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مرنے کے بعد اس کی روح نے ایک آسیب کی شکل اختیار کر لی تھی جو ایک روح کا سب سے کم تر اور عذاب والا درجہ بیان کیا جاتا ہے ۔
میں نے فیصلہ کر لیا کہ نتالیا کے ساتھ مجھے محبت پیار سے ہی رہنا چاہئے تاکہ میں محبت پیار سے ہی یہ سراغ لگا سکوں کہ وہاں سے فرار ہونے کی کیا سبیل ہو سکتی ہے ۔ پہلے بھی میں نے اس حکمت عملی پر عمل کیا تھا اور انڈیا سے اسے ہنی مون منانے کے بہانے پاکستان کے شہر راولپنڈی لے گیا تھا اور پھر وہاں سے فرار ہو گیا تھا۔ اب بھی مجھے اسی حکمت عملی سے کام لینا چاہئے تھا۔ میں نے سر جھکالیا۔ یہ ظاہر کیا جیسے میں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔
میں نے سر اٹھا کر نتالیا کی طرف دیکھا اور کہا۔ " نتالیا! آخر میں ایک زندہ انسان ہوں۔ کسی ایسی عورت کے ساتھ ساری زندگی کیسے گزار سکتا ہوں جس کے ساتھ مجھے محبت نہ ہو ۔ “
میرا تیر ٹھیک نشانے پر جا کر لگا تھا۔ نتالیا مسکرانے لگی۔ اس کی آواز بھی عورت کی آواز میں تبدیل ہو گئی۔ اس نے کہا۔ ” فیروز! تم مجھ سے محبت کیوں نہیں کرتے ؟ کیا میں خوبصورت نہیں ہوں ؟ کیا میں تم سے محبت نہیں کرتی ؟ اور پھر یہ بھی تو سوچو کہ میں ہمیشہ جوان رہوں گی۔ مجھے نہ بڑھایپا آئے گا نہ موت ہی آۓ گی۔ تمہیں اور کیا چاہیے ؟“
میں نے کہا۔ ”لیکن میں تو بوڑھا ہو جاؤں گا اور ایک دن مجھے موت بھی آجاۓ گی۔ پھر تم کیا کرو گی ؟“ نتالیا نے کہا۔ " میں تمہیں بوڑھا نہیں ہونے دوں گی اور تمہیں موت سے بھی بچالوں گی۔ یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔“ میں جانتا تھا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ ایسا کرنے کا اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور موت تو بر حق ہے جس وقت میرا وقت پورا ہو جاۓ گا تو وہ ضرور آۓ گی لیکن میں ایک خاص حکمت عملی پر چل رہا تھا۔
میں نے اسے کہا۔ ”اگر ایسی بات ہو سکتی ہے تو پھر مجھے اور کیا چاہئے ۔ پھر تو میں ضرور تم سے محبت کرنے لگوں گا۔ “ میں نے دیکھا کہ نتالیا کے چہرے پر ایک عجیب دلکشی سی آ گئی۔ عورت آسیب ہو یا چڑیل ہو ۔ محبت شاید اس کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے ۔ میں نے نتالیا کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوم لیا۔ اس کے ہونٹ ٹھنڈے تھے ۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے ہاتھ پر برف کی ڈلی رکھ دی ہو ۔
میں جلدی سے ہاتھ پیچھے کھینچنا چاہتا تھا مگر میں نے ایسا نہ کیا اور دل پر جبر کر کے کہا۔ ”نتالیا! کیا تم سچ مچ مجھ سے اتنا ہی پیار کرتی ہو ؟“ نتالیا کہنے لگی۔ ” تم میرے پیار کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ ہم جب کسی انسان سے پیار کرتے ہیں تو ہمارا پیار اس انسان کی موت کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا۔ ہم اس کی موت کے بعد بھی اسے اپنے پاس لے آتی ہیں ۔“ میں نے اپنے دل میں کہا۔ خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو ۔ اوپر سے کہا۔’نتالیا! میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ ابھی مجھے تم سے اتنا پیار نہیں ہوا جتنا تمہیں مجھ سے ہے لیکن اگر ہو گیا تو میں اپنے آپ کو دنیا کاخوش ترین انسان سمجھوں گا۔۔
کیونکہ میرا پیار موت کے بعد بھی زندہ رہے گا۔“ یہ سن کر نتالیا کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے بے اختیار ہو کر میرے ہاتھ کو ایک بار پھر چوم لیا اور میرا ہاتھ ایک بار پھر ٹھنڈا یخ ہوگیا۔ میں نے نتالیا سے پوچھا۔ نتالیا! یہ بتاؤ کہ یہ کون سی جگہ ہے جہاں تم مجھے اپنے ساتھ لائی ہو اور کیا میں تمہارے ساتھ ساری زندگی اسی بند کمرے میں گزار دوں۔۔۔
نتالیا نے بڑی لگاوٹ کے ساتھ کہا۔ جب تم مجھ سے دل سے محبت کرنے لگو گے تو پھر تم یہاں سے باہر نکل کر اس دنیا کی سیر کر سکو گے جہاں میں تمہیں لے کر آئی ہوں۔ابھی میرے ساتھ آؤ کم از کم میں تمہیں یہ ضرور دکھانا چاہتی ہوں کہ میں نے تمہیں کسی جگہ رکھا ہوا ہے۔ آؤ۔“ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم دونوں پلنگ پر سے اتر کر سامنے والی دیوار کی طرف بڑھے۔ میں نے کہا۔ ”سامنے تو دیوار ہے۔ میں دیوار میں سے کیسے گزروں نتالیا نے کہا۔ ” تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے۔ تم میرے ساتھ ہی دیوار میں سے گزر جاؤ گے۔“
اور ایسا ہی ہوا۔ میں نتالیا کے ساتھ ہی دیوار میں سے گزر گیا۔ دیوار کی دوسری طرف آیا تو دیکھا کہ سامنے ایک تنگ زینہ ہے جو اوپر کو جاتا ہے۔ نتالیا مجھے ساتھ لے کر زینہ چڑھنے لگی۔ زینہ ختم ہوا تو سامنے پھر ایک دیوار آگئی۔ وہ میرا ہاتھ تھام کر اس دیوار میں سے بھی نکل گئی۔ اب میں نے دیکھا کہ میں ایک شکستہ چبوترے کے پاس کھڑا ہوں جس کے اوپر درمیان میں ایک قبر بنی ہوئی ہے ۔ قبر پتھروں کو جوڑ کر بنائی گئی ہے اور اس کے سرہانے کی جانب قبر کے اندر سے درخت کی ایک سوکھی ہوئی ٹہنی باہر نکلی ہوئی ہے اور ٹہنی کے اوپر ایک انسانی کھوپڑی ٹنگی ہوئی ہے ۔
یہ دیکھ کر مجھ پر خوف سا طاری ہو گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ میں کسی قبر کے اندر قید کر دیا گیا ہوں۔ میں نے نتالیا سے پوچھا۔ ” یہ کس کی قبر ہے ؟“ نتالیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” یہ تمہاری قبر ہے۔
یہ سن کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ اس منحوس چڑیل نے یہ کیا کہہ دیا تھا۔ کیا واقعی یہ میری قبر تھی ؟ مگر میں تو بھی زندہ تھا۔ میں نے نتالیا سے کہا۔ ”مگر نتالیا میں تو ابھی زندہ ہوں پھر میری قبر کہاں سے آ گئی ؟“
نتالیا کہنے لگی۔ ”اگر تم نے اس بار مجھ سے بھاگنے کی کوشش کی تو میں تمہارا خون پینے اور تمہارے جسم کے ٹکڑوں کا گوشت کھانے کے بعد تمہاری ہڈیوں کو اسی جگہ دفن کر دوں گی۔ پھر یہی تمہاری قبر بن جائے گی۔“ نتالیا میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک خون منجمد کر دینے والی دہشت تھی۔ میرے بدن میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ میں نے کہا۔ ” نہیں نتالیا نہیں۔ اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی جو ضرور ہو جاۓ گی تو پھر مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں تم سے بھاگ کر جاؤں گا۔
پھر تو میں ساری زندگی تمہارے ساتھ ہی گزاروں گا۔“ نتالیا نے خوش ہو کر کہا۔ ”میں بھی یہی چاہتی ہوں۔“ میں نے موقع مناسب جان کر نتالیا سے پوچھ لیا کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ اس نے کہا۔ ”ابھی میں تمہیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گی۔ جب مجھے یقین ہو جائے گا کہ تم نے واقعی میرے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو میں تمہیں خود اس دنیا کی سیر کراؤں گی۔“ میں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نتالیا سے زبردست اظہار محبت شروع کر دیا۔ وقت کا مجھے وہاں کچھ پتہ نہیں تھا۔ پہلے دو چار دنوں تک مجھے یاد رہا پھر بھول گیا کہ اس قبر کے اندر رہتے مجھے کتنے دن گزر گئے ہیں۔
نتالیا کے ساتھ میں ہمیشہ ہنس کر اور محبت کے انداز میں بات کرتا۔ اسے یہی تاثر دیتا کہ میں اس کے ساتھ بڑا خوش ہوں۔ایک روز وہ مجھے پوچھنے لگی۔ فیروز! کیا تم سچ مچ مجھ سے محبت کرتے ہو یا محض یہ سب کچھ دکھاوے کی خاطر کر رہے ہو ؟“ میں نے کہا۔ ”نتالیا! میں پہلے تم سے محبت نہیں کرتا تھا۔ مگر تمہارے ساتھ رہتے ہوۓ میں نے محسوس کیا ہے بلکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اگر میں دنیا میں دوسری بار بھی آ جاؤں تو مجھے تم ایسی وفادار اور محبت کرنے والی بیوی نہیں ملے گی۔ اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تمہارے ساتھ رہ کر میں کبھی بوڑھا نہیں ہوں گا۔ ہمیشہ اس حالت میں تندرست اور جوان رہوں گا۔
یہ دولت تو مجھے دنیا کی کسی عورت کے پاس نہیں مل سکتی سواۓ تمہارے۔“ محبت واقعی عورت کی کمزوری ہوتی ہے۔ عورت کتنی ہوشیار ، عیار اور سنگدل کیوں نہ ہو محبت کے دو بول اگر مسلسل اس کے کان میں پڑتے رہیں تو ایک بار تو وہ ساری سنگ دلی اور چالاکیاں بھول جاتی ہے۔
لیکن میں ابھی جلدی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں بڑے صبر سے کام لے رہا تھا۔ ایسا کرنا بہت ضروری تھا۔ نتالیا بھی اتنی جلدی میرے بدلے ہوئے روئیے سے تبدیل ہونے والی جنس نہیں تھی۔ میں اس حقیقت سے آگاہ تھا اس لئے ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لے رہا تھا۔ میرا خیال ہے مجھے اس قبر نما کوٹھڑی میں رہتے ہوۓ شاید ڈیڑھ دو مہینے گزر گئے ہوں گے کہ ایک روز نتالیا نے خود ہی کہا۔ ” فیروز ! چلو میں تمہیں باہر کی سیر کرا لاؤں۔“
میں اس کے منہ سے یہی جملہ سننے کو ترس رہا تھا۔ پھر بھی میں نے اپنے اشتیاق کو ذرا سا بھی ظاہر نہ ہونے دیا الٹا کہہ دیا۔ ” نہیں نتالیا! اب میرا جی یہاں بڑا لگ گیا ہے ۔ یہاں سے باہر نکلنے کو ذرا جی نہیں چاہتا۔“ وہ میرے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ کہنے لگی۔ میں جانتی ہوں تمہارا یہاں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا ورنہ تم خود مجھ سے اس خواہش کا اظہار کرتے۔ لیکن آج میرا بھی دل اپنی دنیا کی سیر کرنے کو چاہتا ہے اس لئے میں تمہیں بھی ساتھ لے جانا چاہتی ہوں۔“
اس وقت میں نے کہہ دیا۔ ” تم کہتی ہو تو میں چلتا ہوں۔“ نتالیا نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم دیوار میں سے گزر کر اس بند قبر کے اندر سے باہر آگئے ۔ وہ جگہ کسی گھنے جنگل کے درمیان واقعی تھی۔ اردگرد اونچے اونچے گنجان درخت ہی درخت تھے۔ درمیان میں گول دائرے کی شکل میں کچھ زمین خالی تھی جہاں نتالیا نے میری قبل از وقت قبر بنا کر مجھے اس کے نیچے کوٹھڑی میں قید کر رکھا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ بڑی محبت سے پکڑا ہوا تھا۔ اس طرح نہیں پکڑا ہوا تھا جس طرح پولیس کسی مجرم کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جاتے ہے۔ ہم دونوں انسانی شکل و صورت میں چل رہے تھے ۔
اونچے گھنے درختوں کے درمیان ایک چھوٹا سا راستہ بنا ہوا تھا جس پر ہلکا ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا۔ ہم اس راستے پر سے گزرتے ہوئے ایک کھلے میدان میں آگئے جہاں جنگلی جھاڑیاں اور گھاس اگی ہوئی تھی۔ میدان کے آخری کنارے پر ایک بہت بڑی اور اونچی دیوار کھڑی تھی۔ یہ کسی قلعے کی دیوار لگتی تھی۔ میں نے نتالیا سے پوچھا۔ ” کیا آگے کوئی قلعہ ہے جس کی یہ دیوار ہے ؟“ نتالیا نے کہا۔ ” یہ اس قلعے کی دیوار ہے جس کے اندر ہم اس وقت موجود ہیں۔ یہاں سے کوئی بھی اس دیوار کو پار کر کے دوسری طرف نہیں جاسکتا۔ اس دیوار پر میری غلام بدروحیں چوبیس گھنٹے پہرہ دیتی ہیں۔“ میں نے کہا۔ ”مگر یہاں تو مجھے سوائے اپنے اور کوئی انسان نظر نہیں آیا۔
پھر یہاں سے بھاگ کر کون جاۓ گا؟“ نتالیا نے کہا۔ ” یہاں بھی ایک مخلوق رہتی ہے جو میرے قبضے میں ہے۔ اسے تم نہیں دیکھ سکتے۔“
میں نے پوچھا۔ ”اس دیوار کے پار کیا ہے ؟“نتالیا نے کہا۔ ” یہ میں تمہیں نہیں بتا سکتی۔ آؤ واپس چلتے ہیں۔“ میں اس کے ساتھ گھنے پراسرار اور خاموش جنگل کے تنگ و تاریک راستے میں سے ہوتا ہوا واپس اپنی قبر نما کوٹھڑی میں آگیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کوٹھڑی میں اس آسیبی عورت نتالیا کے ساتھ رہتے ہوۓ نہ تو مجھے بھوک لگتی تھی نہ پیاس لگتی تھی اور نہ میں کچھ کھاتا تھا، نہ پیتا تھا اور مجھے کسی قسم کمزوری بھی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ تین چار دن کے بعد نتالیا مجھے وہاں سے نکال کر پیچھے درختوں کے جھنڈ میں لے جاتی تھی جہاں درختوں کی جھکی ہوئی شاخوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔
وہاں میں نہاتا اور نہانے کے بعد نتالیا کے ساتھ ہی اپنی کوٹھڑی بلکہ جیل میں آکر بند ہو جاتا۔ نتالیا پر میں اپنے رویے سے یہی ظاہر کر رہا تھا کہ میں وہاں بڑا خوش ہوں۔ ایک بار میں نے اسے کہا۔ " نتالیا! یقین کرو۔ میرا دل واپس اپنی دنیا میں جانے کو بالکل نہیں چاہتا۔ دنیا میں تو میرے ساتھ کئی غم فکر لگے رہتے تھے کھانے پینے کا فکر ، یہ فکر کہ بیمار نہ پڑ جاؤں ، روپے پیسے کا فکر ۔ یہاں مجھے کوئی فکر نہیں۔ یہاں میں نہ کبھی بیمار ہی ہوا ہوں اور نہ کبھی معمولی سا سر درد ہی ہوا ہے ۔“
نتالیا کہنے لگی۔ ” یہ جگہ تمہیں زمین پر اور کہیں نہیں ملے گی لیکن ایک بات بتاؤ کیا تم دل میں اب بھی میری دشمن روہنی کو یاد کرتے ہو ؟“ خواہ نتالیا ایک چڑیل ہی تھی مگر عورت تھی اور حسد کا جذبہ اس کے اندر بھی موجود تھا۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”یقین کرو نتالیا! تم نے مجھے اتنی محبت، اتنا پیار دیا ہے کہ میرے دل میں روہنی کا کبھی خیال بھی نہیں آیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روہنی سے میں نے کبھی محبت نہیں کی تھی۔ وہ ضرور مجھ سے کبھی کبھی محبت کا اظہار کرنے لگ جاتی تھی لیکن میرے دل میں اس کے لئے محبت کا ذرا سا خیال بھی کبھی نہیں آیا تھا بلکہ الٹا مجھے اس سے کوفت ہونے لگتی تھی ۔۔
کیونکہ اس کی وجہ سے میں خوامخواہ کی مصیبتوں میں پھنس گیا تھا۔ روہنی اور تم میں زمین ، آسمان کا فرق ہے ۔ وہ تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ تم نے تو پہلے دن ہی مجھے دیکھتے ہی پسند کر لیا تھا اور جب میں نے تمہیں بھارت کے شہر میں پہلی بار ویران خانقاہ میں دیکھا تھا جہاں تم مجھے لے کر گئی تھیں تو مجھے تم بڑی اچھی لگی تھیں اور مجھے تم سے محبت ہو گئی تھی۔“
نتالیا کہنے لگی۔ ”تو پھر تم مجھے راولپنڈی شہر میں چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے ؟“ میں نے فورا کہا۔ ”میں تمہیں کیسے بتاؤں نتالیا کہ اس وقت مجھ پر اپنی دنیا، انسانوں کی دنیا کے لوگوں اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے پاس واپس جانے کا خیال غالب آ گیا تھا۔ آخر میں انسان ہوں۔ یہ کمزوری تو ہر انسان میں ہوتی ہے کہ وہ
اپنے جیسے انسانوں کی دنیا میں ضرور واپس جانا چاہتا ہے۔“ نتالیا کہنے لگی ۔ ”کیا اب بھی اگر تمہیں اپنے لوگوں کا خیال آ گیا تو تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ گے ؟“
میں نے کہا۔ ” میں بڑا احمق ہوں گا اگر اب تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں ذرا سوچو مجھے تم ایسی عورت ،انسانوں کی دنیا میں کہاں ملے گی جو انتہائی حسین بھی ہو ، جو مجھ سے بے پناہ پیار بھی کرتی ہو اور جس کے پاس رہ کر مجھ پر عمر کا اثر نہ ہوتا ہو اور میں سدا صحت مند اور جوان رہ سکتا ہوں۔ نہیں نہیں نتالیا! آئندہ مجھ پر اس قسم کا شک نہ کرنا۔ میں تم سے اب کبھی جدا نہیں ہوں گا بلکہ میں تم سے بھی یہی کہوں گا کہ تم بھی مجھے چھوڑ کر نہ جانا۔
“ نتالیا کا چہرہ ایک بار پھر خوشی سے کھل گیا۔ اس نے کہا۔ ” فیروز! میں تم سے الگ ہونے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی۔“
میں نے جان بوجھ کر چہرے کو اداس بناتے ہوئے کہا۔ ”لیکن نتالیا مجھے ایک بات کبھی کبھی پریشان کرتی ہے ۔
”کون سی بات ؟ نتالیا نے بے قراری ہو کر پوچھا۔ میں نے کہا۔ روہنی تمہاری دشمن ہے۔ وہ تمہیں مجھ سے جدا کرنے کی ضرور کوشش کرے گی۔“
نتالیا کہنے لگی۔ ”اس میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ ہمارے قریب بھی بھٹک سکے ۔ وہ ہمیں کیا جدا کرے گی؟“
میں نے کہا۔ ”لیکن اس نے تمہاری کھوپڑی کا راز کہیں سے معلوم کر لیا ہے۔ وہ جان گئی ہے کہ اگر کسی طرح تمہاری کھوپڑی تلاش کر کے اس کو توڑ دیا جاۓ تو تمہاری موت واقع ہو سکتی ہے۔“ نتالیا نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور کہنے لگی۔ وہ بڑی بے وقوف ہے ۔اس کو کہیں سے میری کھوپڑی کا راز ضرور معلوم ہو گیا تھا اور اس نے میری کھوپڑی کو توڑنے کی کوشش بھی کی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں نے اپنی کھوپڑی کو ایک ایسی خفیہ جگہ پر چھپا کر رکھا ہوا ہے کہ جہاں روہنی ایک ہزار سال تک بھی کوشش کرتی رہے تو نہیں پہنچ سکتی۔“
میں نے نتالیا سے بالکل نہ پوچھا کہ وہ کون سی خفیہ جگہ ہے۔ مجھے معلوم تھا اگر میں نے پوچھا تو اسے مجھ پر شک ہو سکتا ہے کہ آخر میں کس لئے پوچھ رہا ہوں۔ میں نے کہا۔ ”بس۔ اب میری تسلی ہو گئی ہے۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ روہنی ہم دونوں کو جدا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔“
مجھے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ نتالیا نے شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی مجھ سے چھین کر کہاں چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔ یہ انگوٹھی اس کی کسی بھی انگلی میں بھی مجھے نظر نہیں آئی تھی۔ اس وقت موقع تھا۔ میں نے کہا۔ ”لیکن اگر روہنی کسی طریقے سے شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی تمہارے قبضے سے اڑا کر لے گئی تو پھر تو تمہارا جادو اس پر نہیں چل سکے گا۔ شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی کو ڈھال بنا کر روہنی تم پر کاری وار کر سکے گی۔“
نتالیا کے چہرے پر کرختگی سی آ گئی۔ ایک دم اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور اس کی آواز بھی بدل گئی۔ وہ بڑی ڈراؤنی مردانہ آواز میں بولی۔ روہنی میں اتنی طاقت نہیں کہ میرے قبضے سے شیش ناگن کی انگوٹھی اٹھا کر لے جاسکے ۔اگر اس دفعہ اس نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو میں اسے لاوا گلتے جوالا مکھی میں جھونک دوں گی۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 27

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں