پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 27

  

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 27


وہ پگھلا ہوا پتھر بن کر اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاۓ گی۔“ میں نے یہ پوچھنے کی بالکل جرات نہ کی کہ اس نے شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی کون سی خفیہ جگہ پر چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔ میں نے صرف اتنا ہی کہا۔ ” نتالیا! روہنی کو ختم کرنے میں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں یہ ہر گز گوارا نہیں کر سکتا کہ وہ مجھے تم سے جدا کر دے۔“ محبت کے یہ الفاظ سن کر نتالیا کا چہرہ اور آواز اپنی اصلی حالت میں واپس آگئے ۔ اس کے چہرے پر پہلے ایسی دلکشی آ گئی۔

اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولی۔ ”تم کیوں فکر کرتے ہو فیروز! جب میں نے تمہیں کہہ دیا ہے کہ ہم دونوں کو دنیا کی کوئی طاقت جدا نہیں کر سکے گی تو بس سمجھ لو کہ ہم رہتی دنیا تک ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔“

میں نے فور جواب دیا۔ ” بس نتالیا! اب ہمیشہ کے لئے میں مطمئن ہو گیا ہوں۔ اب میں بھی ایسی پریشانی کی بات زبان پر نہیں لاؤں گا۔“

نتالیا نے محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر میرا ہاتھ چوم لیا اور میرا ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈا ہو گیا۔ اس طرح وہاں قبر نما کوٹھڑی میں رہتے رہتے کچھ اور وقت گزر گیا۔ یہ ایک مہینہ بھی ہو سکتا ہے اور ایک سال بھی ہو سکتا ہے ۔ وقت کا مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ اس دوران میں نے اپنے رویے سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ میں دنیا میں اگر کسی سے محبت کرتا ہوں تو وہ صرف نتالیا ہی ہے۔ اسے بھی میری محبت کا یقین ہو گیا تھا چنانچہ اب وہ مجھے کبھی کبھی اپنے ساتھ باہر جنگل کی سیر کو لے جاتی تھی۔ اس کے ساتھ جنگل اور قلعے کے بلند اور مضبوط دیوار کے آس پاس پھرتے ہوۓ میں ایک ایک چیز کو بڑے غور سے دیکھتا تھا اور انہیں اپنے ذہن میں نقش کر لیتا تھا کہ کوئی پتہ نہیں کب مجھے یہاں سے فرار ہونا پڑ جاۓ۔
میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اب میں زیادہ دن وہاں نہیں رہوں گا اور وہ وقت آن پہنچا تھا جب مجھے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ایک دن نتالیا مجھے قلعے کی دیوار کے اندر میدان کے مشرق کی جانب ایک پرانے کھنڈر کے قریب لے گئی یہ کھنڈر کسی قدیم مندر کا کھنڈر لگتا تھا۔ دیواریں شکستہ ہو رہی تھیں۔ مندر کا دروازه غائب تھا اور جنگلی گھاس نے اندر جانے والے راستے کو آدھے سے زیادہ چھپا رکھا تھا۔ اس کھنڈر کے قریب سے گزرتے ہوۓ نتالیا رک گئی۔

پھر اس طرف اشارہ کیا اور کہنے لگی۔ ” یہ ایک ہزار سال پرانا مندر ہے۔ کسی زمانے میں یہاں آدم خوروں کے دیوتا کی پوجا ہوتی تھی۔ ایک مدت سے یہ مندر ویران پڑا ہے ۔“

میں نے کہا۔ ”کیا اب یہاں کوئی بدروح بھی نہیں رہتی ؟“ نتالیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” نہیں۔ کوئی بدروح نہیں رہتی۔ لیکن ایک تمہاری دنیا کا انسان ضرور رہتا ہے۔“
یہ انسان یہاں کیا کر رہا ہے ؟“ میں نے تعجب سے پوچھا۔ نتالیا نے کہا۔ ”یہ میری غلام بدروحوں کا شکار ہے۔ بدروحیں ہر مہینے زندہ انسانوں کی دنیا سے ایک انسان کو پکڑ کر لے آتی ہیں۔ اسے ایک مہینے تک یہاں قید میں رکھ کر اسے خوب کھلا پلا کر صحت مند کرتی ہیں۔ پھر ایک رات اس کا گلا کاٹ کر پہلے باری باری اس کا سارا خون پی جاتی ہیں۔ اس کے بعد اس کا گوشت نوچ کر کھا جاتی ہیں۔ بدروحیں یہ انسان کل ہی انسانوں کی دنیا سے شکار کر کے لائی ہیں۔“
میں نے کہا۔ ”لیکن اس کھنڈر کا تو کوئی دروازہ بھی نہیں ہے ۔ پھر قیدی انسان نکل کر بھاگ کیوں نہیں جاتا ؟“

نتالیا نے کہا۔ ”اسے اندر باندھ کر رکھا ہوا ہے۔اور پھر وہ بھاگ کر جاۓ گا بھی کہاں۔اس قلعے کی چار دیواری کے باہر اور اندر بدروحوں کا پہرہ ہے۔ وہ تو فورا پکڑا جاۓ گا۔ “ نتالیا میرا ہاتھ پکڑ کر آگے چل دی۔ میرا ذہن اس بد نصیب انسان کے بارے میں سوچ رہا تھا جس نے ایک مہینے بعد یہاں کی آدم خور بدروحوں کی خوراک بن جانا تھا۔ یونہی میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اس بد نصیب انسان سے ملنا چاہئے ۔

میں اس انسان کو بڑی آسانی سے مل سکتا تھا کیونکہ ایک تو ویران کھنڈر کے باہر کسی بدروح کا پہرہ نہیں تھا۔ دوسرے اب نتالیا کے خود اپنے اصرار پر میں کبھی کبھی اکیلا بھی قلعے کی چار دیواری کے اندر ادھر ادھر سیر کرنے نکل جایا کرتا تھا۔ میں بھی یہی چاہتا تھا کہ باہر نکل کر جائزہ لوں کہ وہاں سے فرار ہونا ممکن بھی ہے یا نہیں۔ جب مجھے نتالیا نے بتایا کہ کوٹھڑی میں ایک زندہ انسان قید ہے ۔ جس کو ایک ماہ کے بعد قتل کر کے بدروحیں کھا جائیں گی تو میں نے اس سے ملنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ معلوم کروں کہ یہ آدمی کون ہے ۔

اگر اس جنگلی علاقے کا ہوا تو اسے ضرور اس جگہ کے اسرار و رموز کا علم ہوگا اور وہ خود بھی وہاں سے فرار ہونے کے لئے بے تاب ہوگا۔ اس سے مل کر میرے فرار کا بھی کوئی راستہ نکل سکتا تھا۔ میں نتالیا کی موجودگی میں اس آدمی سے ملنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ نتالیا ہفتے میں ایک دو دن کے لئے کہیں چلی جایا کرتی تھی۔ میں اس کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ آخر مجھے موقع مل گیا۔ نتالیا کہنے لگی۔ ”میں اپنے قبیلے کے سردار سے ملنے جارہی ہوں۔ مجھے دو دن لگ جائیں گے۔ تمہارا باہر چلنے پھرنے کو دل چاہے تو یہاں سے زیادہ دور نہ جانا۔“
میں نے کہا۔ ”نتالیا! تمہارے بغیر تو میرا باہر ٹہلنے کو بھی جی نہیں کرتا۔“ نہیں نہیں۔ باہر نکل کر ٹہل لیا کرنا۔ نتالیا نے کہا۔ ” میں زیادہ سے زیادہ دو دنوں کے بعد آجاؤں گی۔“ نتالیا چلی گئی۔ وہ جس وقت گئی شام ہو رہی تھی۔ میں رات کا اندھیرا ہو جانے کا انتظار کرنے لگا۔ جب رات گہری ہو گئی تو میں اپنی قبر نما کوٹھڑی سے نکل آیا اور اندھیرے میں درختوں کی آڑ لیتا اجاڑ مندر کے کھنڈر کے عقب میں آگیا۔
کھنڈر میں جو ویران کوٹھڑی تھی اس پر گہری خاموشی اور اندھیرا چھایا ہوا۔ کوٹھڑی کا کوئی دروازہ تو تھا نہیں۔ آگے اونچی گھاس اگی ہوئی تھی۔ میں دبے پاؤں چلتا گھاس کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے کوٹھڑی میں داخل ہو گیا۔ مجھے کسی انسان کے سانس لینے کی آواز آئی۔
میں نے کہا۔ ”کیا تم جاگ رہے ہو ؟“

ایک نوجوان آدمی کی مدھم سی آواز ابھری۔ ” تم کون ہو ؟ میرا خون پینے آۓ ہو تو میں حاضر ہوں۔ میں چاہوں بھی تو اپنے بچاؤ کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔“ میں نے مدھم آواز میں جلدی سے کہا۔ ”میں بھی تمہاری طرح ان بدروحوں کی قید میں ہوں۔ تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ کیا یہاں سے فرار ہونے کی کوئی سبیل بن سکتی ہے ؟“
اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ مجھے بد قسمت قیدی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اچانک ایک ہاتھ میرے کندھے سے آلگا۔ پھر اس ہاتھ نے میرا بازو تھام لیا اور کہا۔ ” کیا تم واقعی انسان ہو ؟ کوئی بدروح تو نہیں ہو ؟“ میں اس آدمی کے قریب بیٹھ گیا اور دھیمی آواز میں کہا۔ ” بھائی میں کوئی بدروح نہیں ہوں۔ تمہاری طرح قسمت کا مارا ایک بد نصیب انسان ہوں جو ان بدروحوں کے قبضے میں آگیا ہے۔“
” مجھے یقین نہیں آتا۔ اس آدمی نے کہا۔ میں نے کہا۔ ” بھائی ان باتوں کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ یہاں سے فرار کیسے ہوا جاۓ ؟ “

وہ بولا۔”اگر تم میرا ساتھ دو تو ہم یہاں سے نکل سکتے ہیں۔“ میں نے کہا۔ ”میں تمہارے ساتھ ہوں۔ یہ بتاؤ کہ یہ بدروحیں تمہیں کہاں سے پکڑ کر لے آئی ہیں ؟“
اس نے کہا۔ ”بس میری بد قسمتی کہ میں ان کے ہاتھ آگیا۔ میرا نام شکالا ہے۔ یہاں سے بہت دور ہمارا قبیلہ ایک جنگل میں رہتا ہے۔ میرا باپ قبیلے کا سردار ہے۔“ میں نے کہا۔ ” شکالا! باقی باتیں بعد میں ہو جائیں گی۔ جلدی سے بتاؤ کہ ہم یہاں سے فرار کیسے ہو سکتے ہیں ؟“ شکالا کہنے لگا۔ ” یہاں چاروں طرف قلعے کی اونچی فصیل ہے ۔ اس فصیل پر بدروحوں کا پہرہ ہے۔ اگر ہم نے اس طرح وہاں سے دیوار پھاندنے کی کوشش کی تو بدروحیں ہمیں پکڑ لیں گی اور میرے ساتھ تمہیں بھی اپنا تر نوالہ بنانے کے لئے قید میں ڈال دیں گی۔“
میں نے پوچھا۔ ”کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ ہم جان بچا کر یہاں سے فرار ہو سکیں؟“
شکالا اندھیرے میں میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے اندھیرے میں اس کا دھندلا سا ھولا نظر آرہا تھا۔ وہ نوجوان تھا اور اس نے جسم پر صرف ایک نیکر سی پہن رکھی تھی۔ کہنے لگا۔ ”ان بدروحوں کی سردارنی ایک آسیبی عورت ہے ۔ اس کا نام نتالیا ہے ۔ اگر ہمیں اس آسیبی عورت کے سر کے کچھ بال مل جائیں تو ہم آسانی سے فرار ہو سکتے ہیں۔۔۔
اور ہمیں کوئی دیکھ بھی نہیں سکے گا۔“ مجھے یاد آگیا کہ نتالیا صبح صبح کوٹھڑی میں اپنے بالوں میں کنگھی کر کے اترے ہوئے بالوں کا گچھا بنا کر کوٹھڑی کے ایک طاق میں رکھ دیا کرتی تھی۔ جب میں نے شکالا کو بتایا کہ میں آسیبی عورت کے سر کے بال لا سکتا ہوں تو بے اختیار اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور بولا۔ ” کیا تمہیں یقین ہے کہ تم ایسا کر سکتے ہو ؟“
میں نے کہا۔ ”یقین کی کیا بات ہے۔ میں ابھی جا کر آسیبی عورت کے بال لے آتا ہوں۔“ شکالا کو میں عالم حیرت میں ڈوبا چھوڑ کر کوٹھڑی سے نکل گیا۔ اندھیرے میں درختوں کے عقب میں تیز تیز چلتا میں اپنی قبر نما کوٹھڑی میں آگیا۔ کونے والے طاق میں ہاتھ ڈالا تو نتالیا کے بالوں کا ایک کچھا میرے ہاتھ میں آ گیا۔ میں نے اسے اپنے کپڑوں میں چھپایا اور جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے چلتا شکالا کے پاس آگیا۔ میں نے نتالیا کے بالوں کا گچھا اُسے دیتے ہوۓ دھیمی آواز میں کہا۔ ”
یقین کریں یہ آسیبی عورت کے سر کے بال ہی ہیں۔“ میں نے کہا۔ ” بالوں کو جلاؤ گے کیسے ؟ کیا تمہارے پاس ماچس ہے ؟“ شکالا نے کہا۔ ” ماچس نہیں ہے ۔ لیکن تم فکر نہ کرو میں ابھی آتا ہوں۔“ شکالا مجھے کوٹھڑی میں چھوڑ کر باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں درخت کی دو کٹی ہوئی ٹہنیاں تھیں۔ اس نے نتالیا کے بالوں کا گچھا مجھ سے لے کر زمین پر اپنے پاؤں کے درمیان رکھا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے اور درخت کی شاخوں کو زور زور سے رگڑنے لگا۔ یہ آگ جلانے کا جنگلی طریقہ تھا۔ ایک دو منٹ تک وہ زور زور سے درخت کی شاخوں کو رگڑتا رہا۔
پھر اچانک ان میں سے چنگاریاں نکلنے لگیں اور بالوں کے گچے نے آگ پکڑ لی اور وہ جل کر راکھ ہو گیا۔ شکالا نے راکھ اٹھا کر پہلے اپنے جسم پر ملی اور وہ میرے سامنے اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ میں نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھا کر شکالا کو چھونا چاہا مگر وہ میرے ہاتھ نہ آیا۔ کہنے لگا۔ ” یہ آسیبی عورت کے ہی بال ہیں۔اب میں تمہیں غائب کرنے لگا ہوں۔“
اس نے نتالیا کے بالوں کی راکھ میرے چہرے پر ملی تو میں بھی غائب ہو گیا۔ شکالا نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہنے لگا۔ اپنا ہاتھ مت چھڑانا۔ چلو یہاں سے نکل چلیں۔“
” ہم کس طرف جائیں گے ؟“ میں نے پوچھا۔ شکالا نے کہا۔ ” تم خاموشی سے دیکھتے چلو۔ بولنا بالکل نہیں۔“ کھنڈر کی کوٹھڑی سے غیبی حالت میں باہر نکلتے ہی شکالا نے قلعے کی اونچی فصیل کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ پھر وہ دوڑنے لگا اور میرا ہاتھ پکڑ کر ساتھ مجھے بھی دوڑا رہا تھا۔ ہم بہت جلد فصیل کے پاس پہنچ گئے ۔ شکالا نے میرا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ اس نے میرے کان کے قریب ہو کر سرگوشی کی۔ ”گھبرانا نہیں۔ ہم دیوار کے اندر سے گزر جائیں گے۔“
میں نے سرگوشی میں ہی کہا۔ ” شکالا! یہاں بدروحوں کا پہرہ ہے۔“ شکالا کہنے لگا۔ ہمارے جسموں پر ان بدروحوں کی سردارنی کے بالوں کی راکھ ہے ۔ یہ نہ ہمیں دیکھ سکتی ہیں نہ ہم پر ان کا کوئی جادو اثر کر سکتا ہے۔“
شکالا مجھے ساتھ لئے قلعے کی مضبوط چٹانی دیوار میں سے نکل گیا۔ میں اس قسم کے تجربوں سے پہلے کئی بار گزر چکا تھا اس لئے مجھے تعجب نہ ہوا۔ بس ایک ہی ڈر تھا کہ اگر کسی طرح سے نتالیا کو میرے فرار کا پتہ چل گیا تو وہ ایک سیکنڈ میں یہاں پہنچ جائے گی اور پھر مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی۔ لیکن مجھے ایک نہ ایک دن یہ خطرہ تو مول لینا ہی تھا۔ جیسے ہی ہم قلعے کی فصیل سے باہر آۓ شکالا نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور کہا۔ ”ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔ جتنی تیز بھاگ سکتے ہو میرے ساتھ بھاگنا شروع کرو۔۔۔
میرا خیال تھا کہ شاید ہم ہوا میں اڑنے لگیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہم اڑ نہیں سکتے تھے صرف دوڑ سکتے تھے ۔ ہمارے جسم بالکل ہلکے نہیں ہوۓ تھے ۔ مجھے بھی اپنے جسم کا بوجھ محسوس ہو رہا تھا لیکن یہ بوجھ نہ ہونے کے برابر تھا جس کی وجہ سے ہم معمول کی رفتار سے شاید دس گناہ زیادہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہے تھے ۔ باہر ستاروں کی روشنی میں ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے مگر ہمیں کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھ سکتا تھا۔
شکالا بڑی تیز رفتاری سے بھاگ رہا تھا۔ وہ جنگلی قبیلے کا نوجوان تھا اسے تیز دوڑنے کی عادت تھی۔ اوپر سے ہمارے جسموں کا بوجھ دس گنا کم ہو گیا تھا۔ اس اعتبار سے ہم طوفانی آندھی کی طرح دوڑ رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں پہنچ گئے تھے ۔ آگے دریا آگیا۔ شکالا نے دوڑتے دوڑتے مجھ سے کہا۔ ”دریا میں چھلانگ لگا دو۔“ پہلے اس نے دریا میں چھلانگ لگائی اور اس کے پیچھے میں بھی دریا میں کود گیا۔
ہم دریا میں کودنے کے بعد صرف گھٹنوں تک پانی میں ڈوبے اور پھر جس طرح کوئی گیند دریا کی سطح پر واپس آ جاتا ہے ہمارے پاؤں بھی دریا کی سطح پر واپس آگئے ۔ اب ہم دریا کے اوپر دوڑ رہے تھے ۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ ہمارے پاؤں دریا کی لہروں پر دوڑتے ہوۓ صرف ٹخنوں تک پانی میں جاتے تھے اور فورا ابھر آتے تھے ۔ ایسا صرف اس لئے ہو رہا تھا کہ ہمارا وزن دس گنا کم ہو چکا تھا اور دوسرے ہمارے دوڑنے کی رفتار بھی بڑی تیز تھی۔
جو شے تیزی سے حرکت کر رہی ہو سائنس کے اصول کے مطابق ویسے بھی زمین کی کشش کی شعائیں اسے بہت کم نیچے کی طرف کھینچتی ہیں۔ ہم ایک ڈیڑھ منٹ میں دریا عبور کر گئے ۔ آگے جنگل شروع ہو گیا۔ ہم جنگل میں بھی دوڑتے چلے گئے ۔ . ہمارے سانس بھی زیادہ نہیں پھولے تھے ۔ جنگل ختم ہوا تو آگے پہاڑیاں آ گئیں۔ پہاڑیوں کے درمیان گزرنے کے لئے تنگ قدرتی راستے بنے ہوئے تھے ۔ ہم ان راستوں پر دوڑنے لگے۔ ہم نے پہاڑیاں بھی عبور کر لیں۔ پہاڑیوں کی دوسری طرف آکر شکالا نے کہا۔ ”
یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔“ ہم بیٹھ گئے ۔ ہم اتنا ہی ہانپ رہے تھے جیسے کوئی شخص ایک فرلانگ دوڑ کر پانتا ہے ۔ کچھ دیر کے بعد ہمارے سانس معمول پر آگئے تو میں نے شکالا سے پوچھا۔ ”ہم کس طرف جارہے ہیں ؟“ اس نے کہا۔ ”میں اپنے قبیلے کی طرف جا رہا ہوں جو یہاں سے اب زیادہ ڈور نہیں ہے۔ صرف ایک دریا راستے میں ہے۔“
میں نے کہا۔ ” تمہارے خیال میں بدروحوں کو تو ہمارا پتہ نہیں چلا ہوگا ناں ؟“ شکالا بولا ۔ ” تم آسیبی عورت کے جو بال لے آۓ تھے یہ تم نے ایک ناممکن بات کو ممکن کر دکھایا تھا۔ یہ سب آسیبی عورت کے بالوں کی راکھ کا طلسم ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے فرار کا اس وقت تک کسی کو علم نہیں ہو سکتا جب تک کہ کوئی بدروح میری کوٹھڑی میں نہیں آتی۔“ مجھے اطمینان ضرور ہو گیا تھا لیکن ایک خطرے کا احساس ضرور تھا کہ نتالیا بڑی زبردست طلسمی طاقت رکھتی ہے۔۔۔
لیکن چونکہ ابھی تک اس نے مجھ پر کوئی جوابی حملہ نہیں کیا تھا اس لئے مجھے کچھ تسلی بھی ہو رہی تھی کہ شکالا درست کہتا ہے نتالیا کے بالوں کی راکھ نے ہمیں ابھی تک نتالیا اور اس کی بدروحوں کے اثرات سے بچایا ہوا تھا۔۔۔
ہم نے ایک بار پھر دوڑنا شروع کر دیا۔ کافی دیر تک دوڑتے رہے ۔ایک بہت بڑا میدان عبور کیا۔ ایک وادی میں سے آندھی کی طرح سے گزر گئے ۔ آگے دوسرا دریا آگیا۔ شکالا نے دوڑتے دوڑتے کہنا۔ دریا میں میرے ساتھ چھلانگ لگا دو۔“ ہم نے دریا میں چھلانگیں لگادیں اور دریا کی سطح پر دوسرے کنارے کی طرف کسی تیز لہر سے بھی زیادہ رفتار کے ساتھ دوڑنے لگے ۔ دو منٹ میں ہم نے وہ دریا بھی عبور کر لیا۔
دریا کے دوسرے کنارے پر ایک اونچا نیچا پتھریلا میدان تھا۔ ہم دوڑتے چلے گئے اور یہ میدان بھی پار کر گئے ۔ اس میدان کی دوسری طرف پھر ایک جنگل آگیا۔ یہ جنگل اتنا گھنا تھا کہ ہم اس کے اندر دوڑ نہیں سکتے تھے۔ ہم چلنے لگے۔ شکالا نے کہا۔ ”میں اپنے قبیلے کے جنگل میں آگیا ہوں۔ یہاں سے ہمارے قبیلے کا گاؤں زیادہ دور نہیں ہے۔“
میں نے شکالا سے کہا۔ ” تمہارے قبیلے کے لوگوں اور سردار کو کیسے پتہ چلے گا کہ ہم آگئے ہیں۔ وہ تو ہمیں دیکھ ہی نہیں سکیں گے ۔“ شکالا نے کہا۔ ” قبیلے کا سردار میرا باپ ہے۔ اس نے اپنے پاس ہمیشہ سے ایک افریقی جادوگر رکھا ہوا ہے جو قبیلے کو جنگل کی بدروحوں کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسے ہم کالا جادوگر کہتے ہیں۔ اس کے جادو سے ہم دوبارہ نظر آنے لگیں گے۔“
جنگل میں کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے ایک تالاب کے کنارے بہت سے جھونپڑے دکھائی دیئے ۔ ان جھونپڑوں کے درمیان الاؤ روشن تھا۔ جس جھونپڑے کے آگے الاؤ روشن تھا وہ جھونپڑا دوسرے جھونپڑوں سے کافی بڑا تھا اور اس کے باہر دو حبشی نیزے تھامے پہرہ بھی دے رہے تھے۔ شکالا نے دور سے مجھے بڑا جھونپڑا دکھاتے ہوۓ کہا۔ ”یہ میرے باپ کا جھونپڑا ہے ۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔ میرے ساتھ جھونپڑے میں آؤ۔“ ہم جھونپڑے کے بند دروازے میں سے اندر چلے گئے ۔
چونکہ ہم غائب تھے اس لئے حبشی پہرے دار ہمیں نہ دیکھ سکے۔ جھونپڑے کے اندر ایک بہت بڑے تخت پوش پر بستر لگا تھا جس پر ایک بھاری بھر کم حبشی سو رہا تھا۔ شکالا سیدھا اس حبشی کے پاس چلا گیا اور اسے ہلاتے ہوۓ بولا۔ ” بابا! میں آگیا ہوں۔“ اس کا باپ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور چاروں طرف آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ جھونپڑے میں ایک تیل کا بڑا لیمپ روشن تھا۔ اس نے کہا۔ ” شکالا! تم مجھے نظر نہیں آ رہے۔ کیا تم شکالا کی روح ہو ؟“
شکالا نے کہا۔ ” نہیں بابا! میں روح نہیں ہوں۔ میں شکالا ہوں۔ میرے ساتھ میرا ایک دوست بھی ہے۔ ہم نے اپنے جسم پر ایک آسیبی عورت کے بالوں کی راکھ ملی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم غائب ہو کر آسیبی عورت کی قید سے فرار ہو کر یہاں پہنچے ہیں۔“
حبشی سردار نے کہا۔ ”فکر نہ کرو شکالا۔ میں ابھی کالے جادگر کو بلا کر تمہیں انسانی شکل میں واپس لاتا ہوں۔ تم میرے پاس بیٹھ جاؤ اپنے دوست کو بھی کہو کہ وہ بھی یہاں بیٹھ جاۓ۔“
ہم تخت پوش پر بیٹھ گئے۔ شکالا کے باپ نے چلا کر پہرے دار حبشیوں کو آواز دی۔ دونوں گھبراۓ ہوۓ فورا اندر آگئے ۔ شکالا کے باپ نے کہا۔ کالے جادوگر کو بلاؤ۔ فورا۔“
دونوں حبشی جلدی سے باہر چلے گئے ۔ شکالا کے باپ نے اپنے بیٹے سے کہا۔ شکالا! خدا کا شکر ہے کہ تم زندہ سلامت میرے پاس واپس آگئے ۔ ہم تو تمہاری طرف سے مایوس ہو چکے تھے ۔ تم کہاں چلے گئے تھے ؟“
شکالا نے اپنی ساری داستان اپنے باپ کو بیان کر دی کہ کس طرح وہ رات کے وقت جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک بدروح نے درخت کے اوپر سے اس پر چھلانگ لگائی اور اسے اٹھا کر لے گئی۔ اس نے جب میرے بارے میں بتایا کہ بابا اگر یہ آدمی میری مدد نہ کرتا تو میں کبھی تمہارے پاس واپس نہیں آسکتا تھا۔ اس کے باپ کو میں نظر تو نہیں آرہا تھا اس نے اندازے سے میری طرف دیکھ کر کہا۔
” بیٹا تم نے مجھے ساری زندگی کے لئے خرید لیا ہے۔ میں تمہارا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھوں گا۔“ میں نے کہا۔ ” میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔ میں خود بھی ان بدروحوں کی قید سے فرار ہونا چاہتا تھا۔“ اتنے میں قبیلے کا کالا جادو گر آگیا۔ اس نے جھک کر سردار کو سلام کیا اور زمین پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ اس کے کندھے پر ایک تھیلا لٹک رہا تھا۔ زمین پر بیٹھتے ہی کالے جادوگر نے فضا میں کچھ سونگھتے ہوۓ کہا۔ ”سردار! مجھے یہاں تمہارے بیٹے شکالا کی بو آرہی ہے۔اس کے ساتھ کسی دوسرے آدمی کی بو بھی ہے ۔“
سردار نے کہا۔ کالے جادوگر! تم نے بالکل صحیح کہا۔ شکالا اپنے ایک دوست کے ساتھ اس وقت میرے قریب ہی بیٹھا ہے ۔ وہ بدروحوں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا مگر وہ اور اس کا دوست دونوں غائب ہیں۔ ہمیں نظر نہیں آ رہے کیونکہ انہوں نے کسی بدروح کے بالوں کی راکھ اپنے جسموں پر ملی ہوئی ہے ۔“ شکالا نے کہا۔ ” یہ بدروح نہیں بلکہ ایک آسیبی عورت تھی جس کے بالوں کی راکھ میں نے اور میرے دوست نے اپنے جسم پر ملی ہوئی ہے اور ہم نظر نہیں آ رہے۔
کالے جادوگر نے کہا۔ ” میں ابھی اس راکھ کا اثر زائل کئے دیتا ہوں۔ تم دونوں میرے سامنے آکر بیٹھ جاؤ۔“
میں اور شکالا تخت پوش پر سے اٹھ کر کالے جادوگر کے سامنے بیٹھ گئے۔ کالے جادوگر نے پٹاری میں سے کچھ ہڈیاں نکال کر زمین پر پھینکیں اور خدا جانے کس زبان میں منتر پڑھنے شروع کر دیئے ۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اندازے سے ہم دونوں کی طرف منہ کر کے پھونکیں مارتا جاتا تھا۔ پھر اس نے ایک پیالے میں پانی ڈال کر اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا اور کچھ منتر پڑھ پڑھ کر ہم پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا۔ تیسرے چوتھے چھینٹے کے بعد ہم نظر آنے لگے اور اپنی انسانی شکل و صورت میں واپس آگئے۔
حبشی سردار نے اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا۔ پھر مجھے بھی گلے لگایا اور کہنے لگا۔ ” سب لوگوں کو جگادو۔ ہم جشن منائیں گے ۔“ اسی وقت باہر تخت بچھ گیا۔ قبیلے کے سارے حبشی جھونپڑیوں میں سے نکل آۓ
اور سردار کے بیٹے کو ایک ایک کر کے گلے لگانے لگے ۔الاؤ زیادہ تیز روشن کر دیا گیا۔ میں اور شکالا تخت پر سردار کے دائیں اور بائیں بیٹھ گئے ۔اس وقت ایک بھینس کو ذبح کر کے اس کا گوشت بھونا جانے لگا اور حبشیوں نے ڈھول بجا کر رقص شروع کر دیا۔ یہ جشن صبح تک جاری رہا اس کے بعد میں نے شکالا کے باپ کو بتایا کہ جس آسیبی عورت کی قید سے ہم لوگ فرار ہو کر آۓ ہیں وہ بڑی خطرناک جادوگرنی عورت ہے اور وہ ضرور شکالا کے ساتھ مجھے بھی دوبارہ اٹھا کر لے جانے کے لئے ضرور آۓ گی۔ شکالا کا باپ پریشان سا ہو کر میرا منہ تکنے لگا۔
شکالا کے باپ نے اسی وقت جشن بند کرا دیا اور مجھے شکالا اور کالے جادوگر کو لے جا کر اپنے شاہی جھونپڑے میں آ گیا۔ اس نے مجھ سے کہا۔ ”شیروان ! جو کچھ تم نے مجھ سے کہا ہے وہ کالے جادوگر کو بھی بتاؤ۔“ میں نے اپنا نام انہیں شیروان ہی بتایا تھا اور یہ کہا تھا کہ میں بھی بمبئی کے ایک جنگل میں شکار کھیل رہا تھا کہ ایک بدروح کا آسیب مجھے وہاں سے اغوا کر کے لے گیا تھا۔ کالے جادوگر نے پوچھا۔
”شیروان ! تم نے سردار کو کیا بتایا ہے ؟“ میں نے کہا۔ ”سنو کالے جادوگر ! ہم لوگ بدروحوں کی قید سے فرار ہو کر تو آ گئے ہیں اور تم ہمیں غیبی حالت سے ہماری اصلی حالت میں واپس بھی لے آۓ ہو لیکن ایک بات میں تمہیں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں تو یہاں سے چلا جاؤں گا لیکن شکالا کو اپنے باپ کے پاس یہیں رہنا ہے۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان بدروحوں کی ایک سردارنی ہے جس کا نام نتالیا ہے۔ نتالیا صرف ایک بدروح ہی نہیں ہے وہ ایک بڑا خطرناک آسیب ہے ۔ ہم اس آسیبی عورت نتالیا کے قیدی تھے۔
جس وقت ہم وہاں سے فرار ہوئے نتالیا وہاں پر موجود نہیں تھی۔ وہ آج نہیں تو کل واپس آ جاۓ گی۔ جب اسے پتہ چلے گا کہ میں اور شکالا اس کی قید سے فرار ہو چکے ہیں تو وہ اپنے جادو کے زور سے شکالا کا اور میرا پتہ چلا لے گی اور یہاں پہنچ جاۓ گی۔ اس کی طاقت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ تمہیں بھی اور تمہارے ساتھ اس قبیلے کے سبھی آدمیوں اور عورتوں اور بچوں کو ہلاک کر کے ان کا خون پی جاۓ گی۔
بس میں صرف یہی کہنا چاہتا تھا۔“ کالا جادو گر بڑے غور سے میری باتیں سن رہا تھا۔ جب میں چپ ہوا تو اس نے اپنے کالے جادو کی ڈینگیں مارنے یا اپنے جادو کے بڑے بڑے دعوے کرنے کی بجاۓ مجھ سے پوچھا۔ ”جس آسیبی عورت کا تم ذکر کر رہے ہو اور جس نے تمہیں قید کیا ہوا تھا کیا کسی وقت اس کی آواز مردوں کی طرح ہو جاتی تھی؟ میں نے کہا۔ ”ہاں! بالکل ہو جاتی تھی۔ جب وہ غصے کی حالت میں ہوتی تو اس کی آواز بدل کر مرد کی آواز میں بدل جاتی تھی اور بڑی ڈراؤنی ہو جاتی تھی۔“
کالے جادوگر نے اپنے تھیلے میں سے ایک ہڈی نکال کر زمین پر رکھ دی۔اس کے بعد دوسرا سوال پوچھا۔ ”کیا اس دنیا کی بدروحیں انسان کا خون پیتی تھیں ؟“ میں نے کہا۔ ”ہاں . . . . . خون بھی پیتی تھیں اور مردہ لاشوں کا گوشت بھی کھا جاتی تھیں۔“
کالے جادوگر نے تھیلے میں سے دوسری انسانی ہڈی نکال کر زمین پر رکھ دی۔ پھر مجھ سے پوچھا۔ ”کیا یہ بدروحیں رات کے اندھیرے میں چمگادڑیں بھی بن جاتی تھیں؟“
میں نے کہا۔ ”ہاں! ضرور بن جاتی ہوں گی۔ میں نے رات کے وقت اپنے ارد گرد چمگادڑوں کے غوطے لگانے کے شرائے اور ان کی باریک سیٹیوں کی آوازیں اکثر سنی تھیں۔“
کالے جادوگر نے کہا۔ ” وہ چمگادڑیں بدروحیں ہی تھیں۔“ اور اس نے تھیلے میں سے ایک اور ہڈی نکال کر رکھ دی۔ پھر شکالا کے باپ کی طرف مخاطب ہو کر بولا۔ سردار ! یہ بڑی خونی بدروحیں ہیں۔ان کی طاقت پاتال کی روحوں سے بھی بڑھ کر ہے۔“ سردار نے پریشان لہجے میں پوچھا۔ ” تو کیا وہ میرے بیٹے کو دوبارہ اغوا کر کے بھی لے جاسکتی ہیں ؟
“ کالے جادوگر نے کہا۔ "ایسا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان بدروحوں کو ایک ہزار میل سے اپنے دشمن اور اپنے قیدی کی بو آ جاتی ہے اور وہ اس کی بو کا پیچھا کرتی کرتی اس کو جا کر دبوچ لیتی ہیں چاہے وہ اس سے دس ہزار میل کے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو ۔ “ شکالا اور اس کا باپ یہ سن کر بہت زیادہ گھبرا گئے ۔ سردار نے کہا۔ ” تم بھی بہت بڑے جادوگر ہو ۔ کیا تم ان بدروحوں کا کوئی توڑ نہیں کر سکتے ؟“ میں خاموشی سے کالے جادوگر کی طرف دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ بے چارہ ان بدروحوں اور خاص طور پر نتالیا کے آسیب کا بھلا کیا مقابلہ کر سکے گا۔
کالے جادوگر نے کہا۔ ”سردار ! ان بدروحوں اور ان کی سردارنی آسیبی عورت کا جادو مردہ بدروحوں کا جادو ہے کیونکہ وہ سب مر چکی ہیں۔ میرا کالا جادو زندہ جادو ہے۔ میں ان کے جادو کا ایسا توڑ کروں گا کہ کوئی بدروح اور آسیب تمہارے بیٹے شکالا کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا۔ “ میں نے سوچا کہ یہ یونہی ڈینگیں مارنے لگا ہے۔ یہ سردار کے بیٹے شکالا کو بدروحوں سے نہیں بچا سکے گا اور اس کے ساتھ میں بھی مارا جاؤں گا اس لئے میرے یہی بہتر ہے کہ میں دن نکلتے ہی سردار سے اجازت لے کر یہاں سے بھی فرار ہو جاؤں کیونکہ کوئی پتہ نہیں کب اور کس وقت نتالیا کا آسیب اچانک مجھے آکر دبوچ لے۔
اس دفعہ اس نے مجھے اپنے قبضے میں کیا تو پھر وہ وہی کرے گی جو اس نے ایک بار مجھے کہا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ۔ ” فیروز! اگر اس دفعہ تم نے مجھے دھوکا دیا اور مجھے چھوڑ کر بھاگ گئے تو میں تمہیں کسی نہ کسی وقت ضرور پڑ کر واپس لے آؤں گی۔ پھر میں تمہیں ہلاک کر کے تمہیں ایک بدروح بنا کر اپنی غلام بنالوں گی۔ ایک بار تم میری بدروح کا غلام بن گئے تو پھر جب تک یہ دنیا قائم ہے تم میرے ساتھ ہی رہو گے۔“
میں یہ سوچ کر ڈر گیا کہ اگر ایسا ہوگیا تو میں قیامت تک اس منحوس عورت کی قید سے آزاد نہ ہو سکوں گا۔ میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ کالے جادو گر نے جو تین انسانی ہڈیاں تھیلے میں سے نکال کر باہر رکھی تھیں ان کے گرد لکڑی سے ایک دائرہ کھینچ دیا اور کچھ پڑھ پڑھ کر ان پر پھونکنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تینوں ہڈیاں جو بڑی چھوٹی چھوٹی تھیں اپنی جگہ پر حرکت کرنے لگیں۔ کبھی وہ آگے جائیں، کبھی ذرا پیچھے آ جاتیں۔
پھر وہ دائرے کی شکل میں ایک دوسری کے پیچھے چلنے لگیں ۔ کالا جادو گر تیز آواز میں منتر پڑھ پڑھ کر ان پر پھونکے جارہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد تینوں ہڈیاں رک گئی۔
کالے جادوگر نے ایک منتر پڑھ کر ان پر زور سے پھونک ماری تو تینوں ہڈیاں زمین سے ایک فٹ بلند ہو کر ہوا میں لٹک گئی ۔ کالے جادوگر نے ایک ایک کر کے فضا میں ہی ہاتھ بڑھا کر انہیں پکڑا اور جلدی سے اپنے تھیلے میں ڈال دیا۔ پھر سردار کی طرف متوجہ ہو کر بولا ۔ ’’سردار! میں نے ان ہڈیوں پر سب سے زبردست جادو پھونک دیا ہے ۔ اب کوئی بدروح کوئی برے سے برا آسیب جہاں یہ ہڈیاں ہوں گی قریب بھی نہیں بھٹک سکے گا۔“
کالے جادوگر نے اس کے بعد تینوں ہڈیاں تھیلے سے باہر نکال لیں۔ یہ شاید انسان کی چھوٹی انگلی کی ہڈیوں کے مہرے تھے ۔ ان میں سوراخ بھی تھے ۔ کالے جادوگر نے تینوں ہڈیوں میں کالا دھاگہ پرویا اور شکالا سے کہا۔ "شکالا میرے پاس آؤ۔“ شکالا اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ کالے جادوگر نے ایک ہڈی کو تعویذ کی طرح شکالا کے بازو کے ساتھ باندھ دیا۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا۔’’اب تم میرے پاس آو ۔۔۔
میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ کالے جادوگر نے دوسری ہڈی میں کال دھاگہ پرو کر اسے میرے بازو کے ساتھ باندھ دیا۔ پھر اس نے تیسری ہڈی میں دھاگہ پرویا اور اٹھ کر سردار کے پاس جا کر کہنے لگا۔ ”سر دار یہ ہڈی میں تمہارے بازو کے ساتھ باندھنا چاہتا ہوں۔ اس کی وجہ سے تم بھی بدروحوں اور آسیب کے حملے سے محفوظ ہو جاؤ گے۔”
سردار نے اپنا بازو آگے کر دیا۔ کالے جادوگر نے تیسری ہڈی سردار کے بازو کے ساتھ باندھ دی۔ سردار نے پوچھا۔ ” کیا میرا بیٹا اب بدروحوں سے بالکل محفوظ ہو جاۓ گا ؟“
کالے جادوگر نے کہا۔ ”سردار ! اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو میں تمہیں تجربہ کر کے دکھا سکتا ہوں۔" سردار نے پوچھا۔ ” کس قسم کا تجربہ ؟"
میں بھی کچھ تعجب کے ساتھ کالے جادو گر کو دیکھنے لگا کہ یہ کس قسم کا تجربہ کر کے دکھانے کی بات کر رہا ہے ۔ کالے جادوگر نے کہا۔ ”سردار! میں ابھی اپنے کالے جادو کی طاقت سے اس جنگل کی ایک بدروح کو یہاں بلاتا ہوں ، وہ تم پر حملہ کرنے کی سر توڑ کوشش کرے گی۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی اور آخر میں تم لوگوں سے خوف زدہ ہو کر بھاگ جاۓ گی۔‘‘
مجھے کالے جادوگر کی بات کا یقین نہ آیا۔ سردار نے بھی شک کا اظہار کیا اور کہا۔ اور اگر اس بدروح نے ہمیں کوئی نقصان پہنچایا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟“ کالے جادوگر نے کہا۔ ’’اس کا یہی علاج ہے۔ تم تلوار دے کر اپنے غلام کو میرے پاس کھڑا کر دو اور اسے حکم دے دو کہ اگر بدروح کے ہاتھوں تم تینوں میں سے کسی کو بھی نقصان پہنچا تو تمہار غلام یہ تلوار مار کر میرا سر تن سے جدا کر دے۔" سردار نے کہا۔ مجھے منظور ہے ۔ تم بدروح کو بلانے کی تیاری کرو۔ “ کالے جادوگر نے مجھے ، شکالا اور اس کے باپ کو جھونپڑے میں جو تخت پوش تھا اس کے درمیان میں بٹھا دیا اور خود کونے میں بیٹھ کر منتر پڑھنے شروع کر دیئے۔
سردار نے اپنے خاص باڈی گارڈ حبشی غلام کو اندر بلایا اور اس کے ہاتھ میں اپنی تلوار دے کر کہا۔ "کالے جادوگر کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ جس وقت میں تمہیں حکم دوں تلوار سے اس کی گردن اڑا دینا۔‘‘
حبشی غلام نے کہا۔ ”جو حکم سر دار اور وہ تلوار لے کر جادوگر کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ کالا جادو گر منتر پڑھتے پڑھتے رک گیا۔ سردار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ " سردار! بدروح آکر تم تینوں کو طرح طرح کی آوازیں نکال کر ڈراۓ گی۔ تم پر پتھر پھینکے گی۔ لیکن ایک بھی پھر تمہارے قریب نہیں آ سکے گا۔ تم خود دیکھ لو گے کہ ایک بھی پھر تمہیں نہیں لگے گا۔ جب میں تمہیں آواز دے کر کہوں کہ سردار بولو تو تم نے بدروح سے مخاطب ہو کر کہنا ہوگا۔ اے بدروح چڑیل! دفع ہو جا۔ نہیں تو میں تمہیں ابھی بھسم کر دوں گا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوگا تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔“
کالے جادوگر نے مجھے اور شکالا سے بھی یہی کہا کہ ڈرنا بالکل نہیں اور خاموشی سے بیٹھے رہنا ہے۔ سردار نے کہا۔ ” ٹھیک ہے ۔ ہم تمہاری ہدایات پر عمل کریں گے ۔“ اس کے بعد کالے جادوگر نے دوبارہ منتر پڑھ پڑھ کر پھونکنے شروع کر دیئے ۔ اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا۔ باہر جنگل میں سکوت چھایا ہوا تھا۔ میں سردار اور شکالا کے ساتھ تخت پر چوکڑی مار کر بیٹھا جادوگر کو گردن ہلا ہلا کر منتر پڑھتے دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں جنگل کی جانب سے ایک چیخ کی آواز بلند ہوئی۔ کالے جادوگر نے کہا۔’’ ہوشیار ! بدروح آرہی ہے۔ خبردار گھبرانا بالکل نہیں۔
تم خود دیکھ لو گے کہ بدروح تم میں سے کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گی اور اس کا سارا جادو بے اثر ہو جاۓ گا۔“ میں دل میں ڈر رہا تھا کہ اس کالے جادوگر پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ میرے پاس تو شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی بھی نہیں ہے ۔ ان لوگوں کے ساتھ کہیں میں بھی نہ مارا جاؤں ۔ مگر میں اب وہاں سے بھاگ نہیں سکتا تھا کیونکہ بدروح باہر جنگل میں آ چکی تھی اور وہ مجھے راستے میں ہی دبوچ سکتی تھی۔
میں دل میں خدا سے دعائیں مانگتا رہا اور وہیں بیٹھا رہا۔ دوسری بار بدروح کی چیخ جنگل میں گونجی تو معلوم ہوا کہ وہ جھونپڑے کے بالکل قریب پہنچ چکی ہے ۔ کالے جادوگر نے آہستہ سے کہا۔’’سردار ، شکالا ، شیروان ! گھبرانا نہیں۔ میں نے تمہارے بازوؤں پر جو چیز باندھ دی ہے وہ اتنی طاقتور ہے کہ کوئی بدروح تمہارے نزدیک نہیں آ سکے گی۔‘‘
کالا جادوگر جھونپڑی کے کونے میں بیٹھا تھا۔ اب وہ منتر نہیں پڑھ رہا تھا۔ اس کے سر پر حبشی تلوار لئے بالکل تیار کھڑا تھا کہ سردار کا حکم ملے اور وہ کالے جادوگر کی گردن اڑا دے۔ کالے جادوگر نے اپنے اور غلام کے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ دیا تھا تاکہ بدروح حبشی غلام کے اور خود اس کے قریب نہ آسکے۔ اتنے میں جھونپڑے کے اندر بدروح کی بھیانک چیخ کی آواز بلند ہوئی اور اس کے ساتھ ہی جھونپڑی میں تیز آندھی چلنے لگی۔ جھونپڑے کی دیواریں آندھی کے زور سے لرز رہی تھیں لیکن نہ ہم تینوں کو آندھی کی ہوا چھو رہی تھی نہ کالے جادوگر اور حبشی غلام پر آندھی کا اثر ہو رہا تھا۔
بدروح ہمیں نظر نہیں آرہی تھی مگر اس کے حلق میں سے نکلتی غرغراہٹ کی آواز ضرور بلند ہو رہی تھی۔ ۔ اچانک آندھی رک گئی اور جھونپڑی کے اندر آسمانی بجلیاں چمکنے لگی۔ ایک دھماکے کے ساتھ آسمانی بجلی ہمارے تخت کے ارد گرد گرتی اور زمین میں جذب ہو جاتی مگر ایک بار بھی بجلی ہمارے تخت پر نہیں گری تھی۔ ہم ان بجلیوں میں بالکل محفوظ تھے۔ چمکتی کڑکتی بجلیاں بھی غائب ہو گئیں۔
اس کے ساتھ ہی جھونپڑے میں پتھر گرنا شروع ہو گئے ۔ پتھر چھوٹے بھی تھے اور بڑے بھی تھے۔ پتھر زمین پر زور سے گرنے اور گرتے ہی غائب ہو جاتے۔ میں خاموشی سے یہ خرافات دیکھ رہا تھا۔ مجھے ڈر یہی لگ رہا تھا کہ اگر ان میں سے ایک بھی پتھر میرے سر پر آ کر لگا تو میرا زندہ بچنا ناممکن تھا لیکن کالے جادوگر کی ایک ایک بات سچ ثابت ہو رہی تھی۔ سارے پتھر دھماکوں کے ساتھ ہمارے تخت پوش کے ارد گرد ہی گر رہے تھے ۔ تخت پر کوئی پتھر نہیں گر رہا تھا، اسی طرح جہاں کالا جادوگر اور حبشی غلام کھڑا تھا وہاں بھی کوئی پتھر نہیں گر رہا تھا۔
پتھروں کی یہ بارش ایک منٹ تک جاری رہی ۔ پھر یہ بارش بھی رک گئی۔ اب بدروح نے ڈراؤنی آوازیں نکالنی شروع کر دیں۔ اپنی زبان میں خدا جانے وہ کیا بول رہی تھی ۔ وہ شاید ہمیں ڈرانا چاہتی تھی کہ ہم تخت پوش سے اٹھ کر باہر کو بھاگیں اور وہ ہم تینوں کو دبوچ لے ۔ عین اس وقت کالے جادوگر نے سردار سے کہا۔’’سردار ! بولو!‘‘ سردار گرج دار آواز میں بولا۔ ”اے بدروح چڑیل ! دفع ہو جا۔ نہیں تو میں تمہیں ابھی بھسم کر دوں گا۔“
سردار کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ بدروح کے جسم کو آگ لگ گئی اور وہ بھڑکتے شعلوں میں چیختی چلاتی غائب ہو گئی۔ جھونپڑی میں خاموشی چھا گئی۔ کالا جادو گر اٹھ کر ہمارے پاس آیا اور سردار کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ سردار ! اب تمہیں میری بات کا یقین آ گیا ہوگا کہ میں نے تم تینوں کے بازوؤں پر جو طلسمی ہڈیوں کے مہرے باندھے ہیں وہ تم لوگوں کو بدروحوں سے محفوظ رکھیں گے ۔ کوئی بدروح تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی ۔
ہو سکتا ہے جن بدروحوں کی قید سے یہ دونوں فرار ہو کر آۓ ہیں وہ انہیں پکڑنے کے لئے ان پر حملہ کر دیں لیکن وہ ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکیں گی۔ اگر کوئی بدروح آ جاۓ ، پتھر پھینکے ، کڑکتی بجلیاں چمکیں تمہیں نہ تو کوئی پتھر لگے گا اور نہ ہی تم پر کوئی بجلی گرے گی۔ جب تم بلند آواز میں کہو گے کہ دفع ہو جا
اے بدروح چڑیل! نہیں تو میں تمہیں بھسم کر دوں گا تو بدروح آگ کے شعلوں میں لپٹی چیختی چلاتی غائب ہو جائے گی۔
میں دل میں بہت خوش ہوا۔ شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی نتالیا نے مجھ سے چھین لی تھی لیکن اس کے بدلے کالے جادوگر نے جو انسانی ہڈی میرے بازو پر باندھی تھی مجھے اس کا تحفظ مل گیا تھا لیکن اب بھی میرے دل میں شک تھا کہ کالے جادوگر کی ہڈی مجھے بدروحوں سے تو محفوظ رکھ سکتی تھی لیکن نتالیا کے آسیب کے حملے سے اپنا بچاؤ کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں تھا۔
میں نے کالے جادوگر سے کہا۔ ماسٹر ! تم نے ہمیں بدروحوں سے تو بچالیا ہے مگر میں اور شکالا ایک اور آسیب کے قیدی بھی تھے۔ وہ ایک عورت کا آسیب ہے اور یہ تم بھی جانتے ہو کہ آسیب بدروح سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے ۔اگر آسیب نے ہم پر حملہ کر دیا تو کیا تمہارا ہڈی کا تعویذ ہماری حفاظت کر سکے گا؟“
کالے جادوگر نے کہا۔ ’’شیروان! میں نے ہڈی پر جو منتر پڑھ کر پھونکا ہے اس کے آگے خطرناک سے خطرناک آسیب کی کوئی حیثیت نہیں۔ آسیب تو معمولی چیز ہے اس کا باپ بھی تمہارے قریب آنے کی جرات نہیں کرے گا۔“ میری تسلی ہو گئی۔ اب میں ان لوگوں سے جدا ہو کر بڑی بے فکری سے سفر کرتا ہوا کسی نہ کسی طرح اپنے دوست جمشید کے پاس بمبئی پہنچ سکوں گا۔ بمبئی جاکر سوچوں گا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے اور کیا بمبئی میں اپنے دوست کے پاس رہ کر روہنی کی واپسی کا انتظار کرنا چاہئے یا وہاں سے پاکستان جا کر ایک نئی زندگی کی ابتداء کرنی چاہئے ۔
پاکستان میں اپنی نئی زندگی شروع کرنے کا تصور بڑا خوش آئند تھا۔ میں خود ان بدروحوں کی خرافات سے تنگ آگیا تھا اور چاہتا تھا کہ اس منحوس چکر سے نکل کر نارمل انسانوں کی طرح زندگی گزارنی شروع کر دوں۔ میں تین دن شکالا کے قبا میں رہا۔ اب میں وہاں سے چلے جانا چاہتا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کس طرح بمبئی پہنچ سکوں گا۔ یہ مجھے شکالا کی زبانی معلوم ہو چکا تھا کہ میں براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل کے ایک چھوٹے سے ملک میں تھا۔ یہ کوئی الف لیلی کا زمانہ نہیں تھا کہ سند باد جہازی کی طرح کسی بحری جہاز میں سوار ہو کر اپنے وطن پہنچ جاؤں۔
یہ بیسویں صدی تھی مجھے کسی بھی ملک میں داخل ہونے کے لئے پاسپورٹ اور ویزے کی ضرورت تھی، غیر ملکی کرنسی کی ضرورت تھی اور میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ روہنی میرے ساتھ ہوتی تھی تو مجھے ان میں سے کسی بھی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ غائب کر کے جس ملک میں چاہے لے جاتی تھی لیکن اب روہنی میرے ساتھ نہیں تھی اور میں غائب بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ جب میں نے اپنی اس پریشانی کا شکالا سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگا۔ شیروان! مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس معاملے میں میرا باپ بھی تمہاری کوئی مدد نہیں یں کر سکے گا۔ ہم جنگی قبیلے کے لوگ ہیں ہمیں کیا معلوم کہ پاسپورٹ کیا ہوتا ہے اور ویزا کیا ہوتا ہے ۔“
میں نے کہا۔ ” پھر تو میرے لئے بڑی مشکل پیدا ہو جاۓ گی۔ یہاں سے ملک انڈیا ہزاروں میل دور ہے ۔ پاکستان اس سے بھی زیادہ دور ہے میں تو اپنے وطن بھی نہیں پہنچ سکوں گا شکالا۔۔۔
شکالا سوچ میں پڑ گیا۔ کہنے لگا۔ " تم فکر نہ کرو ۔ میں اپنے بابا سے بات کرتا ہوں ۔ اس کا دوسرے قبیلوں میں بھی بڑا اثر رسوخ ہے۔ تمہارے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آۓ گا۔ چلو میں تمہیں بابا کے پاس لئے چلتا ہوں ۔“ شکالا مجھے اپنے قبیلے کے سردار باپ کے پاس لے گیا۔ وہ مجھے بڑی خندہ پیشانی سے ملا اور بولا۔ ’’شیروان! تمہارے چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں کوئی بات پریشان کر رہی ہے۔ مجھے بتاؤ کیا بات ہے ؟“
شکالا نے ساری بات اپنے باپ کو بیان کر دی اور کہا۔ ”بابا! اگر ہم شیروان کی مدد نہ کر سکے تو مجھے بڑا دکھ ہوگا۔ شیروان نے میری جان بچائی ہے ۔ " سر دار نے کہا۔ ”شکالا! ہم شیروان کی ضرور مدد کریں گے ۔“ شکالا نے کہا۔ بابا ہم شیروان کو روپیہ پیسہ تو کہیں سے لا کر دے دیں گے لیکن اس کے لئے پاسپورٹ اور ویزا کہاں سے لائیں گے اور ان چیزوں کے بغیر شیروان کسی سمندری یا ہوائی جہاز میں سفر نہیں کر سکتا۔“ سردار کہنے لگا۔ ” مجھے تھوڑا سا موقع دو میں کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لوں۔۔۔
اس روز سردار کہیں چلا گیا۔ وہ دوسرے روز واپس آیا۔ آتے ہی اس نے مجھے اور شکالا کو اپنے جھونپڑے میں بلوالیا۔ وہ اپنے بڑے تخت پوش پر بیٹھا ہوا تھا۔ ہم اس کے قریب بیٹھ گئے۔
شکالا نے پوچھا۔ ” بابا اشیروان کے لئے کوئی انتظام ہوا؟‘‘ سردار مسکرانے لگا۔ بولا۔ ”ایک راستہ نکل آیا ہے ۔ اب شیروان کو نہ کسی پاسپورٹ کی ضرورت پڑے گی، نہ ویزے کی ضرورت ہوگی۔ میں اسے جن لوگوں کے سپرد کر دوں گا وہ اسے اس کی منزل پر حفاظت سے پہنچا دیں گے ۔ ۔ میں بڑا خوش ہوا۔ مگر دل میں حیران ضرور تھا کہ اس جنگلی سردار کے ذرائع ماڈرن زمانے کے مقابلے میں بڑے محدود ہیں اس نے کیا راستہ نکالا ہوگا۔
میں نے پوچھ ہی لیا۔ سردار ! یہ کون لوگ ہیں آپ مجھے جن کے سپرد کریں گے ؟" سردار نے کہا۔ ” میرے ایک دوست کا اپنا بحری جہاز ہے۔ وہ مال لے کر ملک ملک کی بندرگاہوں پر جاتا ہے۔ اتفاق سے ان دنوں ہمارے ملک کی بندرگاہ کے قریب ہی اس کا جہاز لنگر انداز ہوا ہے ۔ میں نے اس سے مل کر ساری بات طے کر لی ہے ۔ وہ تمہیں اپنے ساتھ لے جاۓ گا اور تمیں اس ملک میں پہنچا دے گا جہاں تم جانا
چاہتے ہو۔
میں نے یہی سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ اس آدمی کا کوئی چھوٹا باربردار جہاز ہو۔ بار بردار جہازوں کے کپتان کبھی کبھی کسی مسافر کو جس کے پاس پاسپورٹ وغیرہ نہ ہو جہاز میں بٹھا لیتے ہیں۔ یہ شخص اس طرح مجھے اپنے جہاز میں سوار کروا کر ہندوستان یا پاکستان پہنچا دے گا۔ مجھے بڑا اطمینان ہو گیا۔
میں نے سردار کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ کہا۔ ’’سردار! آپ کا دوست اپنا جہاز لے کر کب یہاں سے روانہ ہوگا ؟“ سردار بولا۔’’اسے تین چار دن لگ جائیں گے لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم کل صبح ہی میرے ساتھ چلے چلو۔ میں خود تمہیں اپنے دوست کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔“ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میں نے کہا۔ ” میں تیار ہوں۔‘‘ دوسرے دن صبح صبح شکالا نے مجھے جگا دیا اور کہنے لگا۔ شیروان ! جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ بابا تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔“
میں نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر تھوڑا سا ناشتہ کیا اور شکالا کے ساتھ اس کے باپ کے پاس آ گیا۔ سردار کے جھونپڑے کے باہر تین گھوڑے بالکل تیار حالت میں کھڑے تھے۔
سردار نے مجھے دیکھ کر کہا۔ ”شیروان ! گھوڑے پر بیٹھ جاؤ۔ ہم اپنے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔
ایک گھوڑے پر سردار ، دوسرے پر میں اور تیسرے گھوڑے پر سردار کا باڈی گارڈ بیٹھ گیا اور گھوڑے جنگل میں اپنے سفر پر چل پڑے۔ دوپہر تک ہم مختلف جنگلی راستوں پر سفر کرتے رہے ۔ دوپہر کے بعد ہم ایک قصبے میں پہنچے جو کافی بڑا تھا اور چند ایک ماڈرن طرز کی عمارتیں بھی نظر آرہی تھیں ۔
سردار کہنے لگا۔ یہاں سے آگے ہم ریل گاڑی میں سفر کریں گے ۔“ قصبے کا سٹیشن زیادہ بڑا نہیں تھا۔ وہاں ہم نے کھانا کھایا۔ کچھ دیر بعد ہمیں ایک گاڑی مل گئی ہم اس میں سوار ہو کر اس ملک کے ایک ساحلی شہر میں آگئے۔ سردار نے اپنے باڈی گارڈ کو گھوڑوں سمیت ریلوے سٹیشن ہی سے واپس بھیج دیا تھا۔ ساحلی شہر چھوٹا سا تھا۔ آبادی بھی بہت کم دیکھائی دے رہی تھی۔ سردار ریلوے سٹیشن سے نکل کر ایک طرف چل پڑا۔ میں اس کے ساتھ تھا۔ چلتے چلتے ہم شہر سے کافی دور نکل گئے۔
اب ہماری ایک جانب سمندر دکھائی دینے لگا تھا۔ ہم سمندر کے ساتھ ساتھ چلنے گے ۔ آس پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔ کوئی جھونپڑی تک دکھائی نہیں لے رہی تھی۔ میں خاموشی سے چل رہا تھا۔
سردار کہنے لگا۔ میرے دوست کا جہاز سمندر میں فاصلے پر لنگر انداز ہے ۔ ہم سٹیمر میں بیٹھ کر جہاز تک جائیں گے ۔“ میں نے پوچھا۔ ”سردار! یہ سٹیمر ہمیں کہاں سے ملے گا؟‘‘
سر دار بولا۔ ” گھاٹ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ وہاں ہمیں سٹیر مل جاۓ گا۔“
کچھ دور چلنے کے بعد ہم ایک چھوٹے سے گھاٹ پر پہنچ گئے ۔ گھاٹ بڑا پراسرار سا لگ رہا تھا۔ وہاں کوئی مسافر بھی نہیں تھا۔ دو تین چھوٹی کشتیاں اور ایک بوسیدہ چھت والا پرانا سٹیمر ایک طرف کھڑا تھا۔ کوئی آدمی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ سردار نے مجھے ایک جگہ بیٹھنے کو کہا اور خود سٹیمر کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک آدمی تھا جس نے میلی کچیلی پتلون اور نیلے رنگ کی بنیان پہن رکھی تھی۔
سردار نے میری طرف اشارہ کر کے اس آدمی سے کہا۔ ہنری! یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اس کو جہاز پر کپتان زولو کے حوالے کر کے واپس آنا۔ میں نے کپتان سے ساری بات کر لی ہوئی ہے ۔“
پھر سر دار نے مجھ سے کہا۔’’ بے فکر ہو کر جاؤ ۔ ہنری بھی میرا خاص آدمی ہے ۔ یہ تمہیں جہاز پر پہنچا دے گا۔ کیپٹن زولو میرا جگری دوست ہے اس کا جہاز سمندر میں کچھ فاصلے پر لنگر انداز ہے ۔ “
سردار نے مجھے تین بار گلے لگایا اور بولا۔ ” تمہیں جس ملک کے روپے پیسے کی ضرورت ہو گی میرا دوست کیپٹن زولو تمہیں دے دے گا۔اس کی تم بالکل فکر نہ کرو۔“
سردار مجھے میلے کچیلے سیاہ فام حبشی جس کا نام ہنری تھا کے حوالے کر کے چلا گیا۔
ہنری نے سفید دانت نکالتے ہوئے کہا۔ ” آ جاؤ۔‘‘ وہ مجھے سٹیمر میں لے گیا۔ سٹیمر کی حالت انتہائی خستہ ہو رہی تھی۔ فرش چہ چہ کر رہے تھے ۔ سٹیمر میں اور کوئی آدمی نہیں تھا۔ ہنری نے کہا۔’’وہاں بیٹھ جاؤ۔“ میں سٹیمر کی چھت کے نیچے عرشے کے چھوٹے سے گندے فرش پر ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ ہنری نے سٹیمر کا انجن سٹارٹ کیا تو انجن نے اتنا شور مچایا جیسے دس بارہ پرانے انجن ایک ساتھ سٹارٹ ہو گئے ہوں۔ سٹیمر آہستہ آہستہ ساحل کو چھوڑنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سمندر میں جارہا تھا اور اس کا رخ سمندر کے جنوب مشرق کی طرف تھا۔
کافی دیر تک سٹیمر سمندر میں چلتا رہا۔ افریقہ کا ساحل دور پیچھے رہ گیا تھا۔ پھر ساحل نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ابھی تک مجھے سردار کے دوست زولو کا بار بردار جہاز نظر نہیں آیا تھا۔ خدا جانے کیپٹن زولو نے اپنا جہاز سمندر میں اتنی دور کیوں لنگر انداز کیا ہوا تھا۔ یہ معمہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ آخر مجھے دور سے ایک سمندری جہاز کی چینی نظر آئی جس میں سے دھوئیں کی باریک سی لکیر نکل رہی تھی ۔ ہنری نے اونچی آواز میں کہا۔ ” وہ ہے کیپٹن زولو کا جہاز ۔ "
سٹیمر کا رخ جہاز کی طرف ہی تھا۔ جس وقت ہمارا سٹیمر جہاز کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ جہاز زیادہ بڑا نہیں تھا۔ اس کے سٹار بورڈ کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا اور کہیں کہیں جہاز کی دیوار پر زنگ بھی لگا ہوا تھا۔ اوپر عرشے کے جنگلے پر تین چار نیگر و نیچے سٹیمر کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سٹیمر کے ہنری نے دونوں بازو ہلاتے ہوۓ اپنی زبان میں جہاز کے آدمیوں کو کچھ کہا۔ انہوں نے اوپر سے رسے کی ایک سیڑھی نیچے لٹکا دی۔ ہنری نے سٹیمر رسے کی سیڑھی کے پاس جا کر کھڑا کر دیا۔ ہنری نے سٹیمر کو سیڑھی کے ساتھ باندھا اور مجھے ساتھ لے کر رسے کی سیڑھی پر چڑھنا شروع کر دیا۔
بڑی مشکل سے ہم جہاز کے عرشے یعنی ڈیک پر پہنچے۔ تین نیگرو جنہوں نے میلی میلی پتلونیں اور بنیانیں پہنی ہوئی تھیں مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔
ہنری نے ان سے کہا۔ " یہ کیپٹن کا خاص آدمی ہے ۔ اسے کہو کہ سردار نے جس آدمی کا کہا تھا اسے میں لے آیا ہوں۔“ دو نیگرو تو کھڑے مجھے گھور گھور کر دیکھتے رہے تیسرا ہنری کا پیغام لے کر عرشے پر سے نیچے جاتی سیٹرھیاں اتر گیا۔ ہنری ان حبشی خلاصیوں سے اپنی زبان میں باتیں کرنے لگ گیا۔ چند لمحوں کے بعد جو آدمی ہنری کا پیغام لے کر گیا تھا وہ واپس آ گیا۔ اس نے کہا کیپٹن نے کہا ہے اس آدمی کو نیچے بھیج دو۔“ ہنری نے میری طرف منہ کر کے کہا۔ ’’جاؤ دوست! کیپٹن زولو تمہارا انتظار کر رہا ہے۔“
میں اس آدمی کے ساتھ عرشے کا زینہ اتر کر نیچے جہاز کی تنگ راہ داری میں آ گیا جہاں دونوں جانب چھوٹے چھوٹے کیبن تھے جن کے دروازے بند تھے۔ ایک کیبن کا دروازہ کھلا تھا وہاں جہاز کا کیپٹن زولو میرا انتظار کر رہا تھا۔ پہلی نظر میں ہی وہ مجھے ایک بحری ڈاکو لگا۔ اس کی کمر میں گولیوں کی بیلٹ بندھی ہوئی تھی اور پستول لٹک رہا تھا۔ وہ دونوں ٹانگیں میز پر رکھے پرانے صوفے میں دھنس کر بیٹھا ہوا تھا۔ بالکل سیاہ فام تھا۔۔۔۔
کانوں میں گولڈن رنگ پڑے ہوئے تھے ایک ہاتھ میں خنجر تھا جس سے وہ سیب چھیل رہا تھا۔ سر پر سرخ رومال بندھا ہوا تھا۔ ایک نیگرو عورت اس کے پاس بیٹھی اس کے مگ میں شاید کافی بنا رہی تھی۔ یہ تھا کیپٹن زولو مجھے جس کے سپرد کر دیا گیا تھا ۔۔
کیبن میں داخل ہوتے ہی رک گیا۔ کیپٹن زولو نے میری طرف دیکھ کر خنجر سے اپنی طرف آنے کا اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔ ”ڈرو نہیں۔ آ جاؤ۔“ میں ڈرتے ڈرتے اس کے سامنے جو لوہے کی کرسی پڑی تھی اس پر بیٹھ گیا۔ نیگرو عورت مجھے گہری نظروں سے دیکھتے ہوۓ مسکرا رہی تھی۔ کیپٹن زولو نے سیب کاٹ کر میری طرف بڑھایا اور کہا۔’’لو۔ کھاؤ۔‘‘
میں نے سیب کا ٹکڑا ہاتھ میں لے لیا اور دل میں سوچنے لگا کہ سردار نے مجھے کس آدمی کے حوالے کر دیا ہے ۔ کیپٹن زولو نے مجھ سے پوچھا۔ ” تمہارا نام کیا ہے ؟ ‘‘ میں نے اسے اپنا نام بتایا۔ اس نے خنجر میز پر رکھ کر ٹانگیں اکٹھی کر لیں اور نیگرو عورت نے اس کے لئے جو کافی کا مگ بنایا تھا وہ میری طرف بڑھا کر کہا۔ "اسے پی جاؤ۔“
اس کے لہجے میں حکم دینے کا انداز تھا۔ میں نے مگ تھام لیا۔ میرا خیال تھا کہ اس میں کافی ہوگی۔ میں نے مگ ہونٹوں کے قریب کیا تو مجھے اس میں سے بڑی تیز بو آئی میں سمجھ گیا کہ یہ شراب ہے ۔ میں نے مگ میز پر رکھ دیا۔ کیپٹن زولو حیران سا ہو گیا۔ کہنے لگا۔ ”کیا تمہیں ہماری رم پسند نہیں آئی ؟“ رم بھی شراب کی ایک قسم ہوتی ہے ۔
میں نے کہا۔”سوری کیپٹن! میں مسلمان ہوں۔ میں شراب نہیں پیتا۔‘‘ کیپٹن زولو نے نیگرو عورت کی طرف دیکھا اور بولا۔’’ یہ تو مسلمان ہے ۔‘‘
پھر میری طرف متوجہ ہو کر پوچھا۔ ” کیا تم انڈین ہو ؟‘‘ میں نے کہا۔ " نہیں ۔ میں پاکستانی ہوں ۔“ کیپٹن زولو نے مگ اٹھا لیا۔ اس کے دو تین گھونٹ پئے اور بولا۔ ” تم پاکستان جانا چاہتے ہو ؟“
میں نے کہا۔ ’’ہاں کیپٹن سردار نے مجھے کہا تھا کہ میرا دوست کیپٹن زولو تمہیں پاکستان پہنچا دے گا۔“
کیپٹن زولو نے کوئی جواب نہ دیا۔ خاموشی سے مجھے گھورتے ہوۓ رم کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتا رہا۔ نیگرو عورت اسی طرح میری طرف دیکھ رہی تھی۔ کیبن میں بڑی تکلیف دہ خاموشی طاری ہو گئی تھی۔ آخر اس خاموشی کے طلسم کو توڑتے ہوۓ کیپٹن زولو بولا۔ ’’سردار میرا دوست ہے۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم تمہیں پاکستان تو نہیں پہنچا سکتے لیکن انڈیا کے ساحل پر اتار دیں گے۔ آگے تم خود پاکستان چلے جانا۔ چلے جاؤ گے ؟" کیپٹن زولو نے اونچی آواز میں مجھے سے پوچھا۔
میں کیا جواب دیتا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ”سر! اگر آپ مجھے پاکستان کے ساحل کے قریب کہیں اتار دیں تو میرے لئے آسانی ہوگی۔ انڈیا کے ساحل پر اترا تو ساحلی گارڈز مجھے گرفتار کر لیں گے۔ میرے پاس تو کوئی پاسپورٹ وغیرہ بھی نہیں ہے۔
کیپٹن زولو قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ کہنے لگا۔ " تم نہ انڈیا جاؤ ، نہ پاکستان جاؤ۔ تم ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ یہاں عیش کرو۔ ملک ملک کی سیر کرو۔ اچھا یہ بتاؤ کبھی تم نے کسی کو قتل کیا ہے ؟ میرا مطلب ہے پستول کی گولی یا خنجر سے ہلاک کیا ہے ؟“ میں سمجھ گیا تھا کہ میں بحری ڈاکوؤں کے جہاز میں آگیا ہوں جہاں سے اب میں قسمت اچھی ہوگی تو جان بچا کر اتر سکوں گا۔
میں نے کہا۔ ” نہیں کیپٹن ! میں نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا۔‘‘ کیپٹن زولو نے پاس بیٹھی نیگرو عورت سے کہا۔’’اس نے کبھی کسی آدمی کو قتل نہیں کیا۔ یہ ہمارے کام کا آدمی نہیں ہے۔ نیگرو عورت نے کہا۔ ’’اس سے دو تین آدمی قتل کر واؤ۔ پھر اسے ہم اپنے ساتھ شامل کر لیتے ہیں۔ یہ آدمی ہمارے لئے ٹھیک رہے گا۔‘‘ کیپٹن زولو نے میری طرف منہ کر کے کہا۔ ”میری گرل فرینڈ نے تمہاری سفارش کر دی ہے۔ اب تم میرے گینگ میں شامل ہو گئے ہو۔ میں تمہیں سکھا دوں گا کہ آدمیوں کو قتل کسی طرح کیا جاتا ہے ۔
اس کی تم فکر نہ کرو ۔“ میں ان دونوں کا منہ تکنے لگا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ آخر ہمت کر کے میں نے کہہ دیا۔ ’’سر ! میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ پلیز آپ مجھے واپس بھجوا دیں۔“ کیپٹن زولو غصے میں آ گیا۔ بولا۔ ’’تم نے مجھے اور میرے آدمیوں کو دیکھ لیا ہے۔ اب تم کیسے جا سکتے ہو ؟ اب تم ہمارے ساتھ ہی رہو گے ۔ یہاں سے فرار ہونے کا بھی خیال بھی دل میں نہ لانا ورنہ تمہاری لاش سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بن جاۓ گی۔“
یہ ایک نئی مصیبت میرے اوپر آن پڑی تھی۔ میں نے اسی وقت دل میں سوچ لیا کہ ابھی تو جہاز ساحل کے قریب ہی کھڑا ہے۔ میں موقع پا کر سمندر میں کود جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح ساحل پر پہنچ جاؤں گا لیکن یہ میرا خیال خام تھا۔ جہاز کا جرائم پیشہ کپتان زولو اتنا احمق نہیں تھا۔ اس نے دو آدمیوں کو بلوا کر اسی وقت مجھے ایک کیبن میں بند کروا کر باہر سے تالا لگوا دیا۔
دوسرے دن صبح صبح جہاز نے لنگر اٹھا دیا۔ اب میرے فرار کے تمام راستے مسدود ہو گئے تھے۔ خدا جانے یہ جہاز کس ملک کی طرف جاۓ گا، کہاں جا کر لنگر ڈالے گا۔ یہ سمگلر اور بحری قزاق قسم کے لوگ تھے۔ انہیں کون اپنے ملک کی۔سمندری حدود میں داخل ہونے کی اجازت دے گا۔ ہر ملک کی سمندری حدود چالیس میل تک ہوتی ہے۔ چالیس میل کے بعد کھلا سمندر شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ جہاز جس ملک میں بھی جائے گا اس کی چالیس میل سمندری حدود کے پاس ہی لنگر ڈالے گا۔
اگر وہاں سے مجھے چھلانگ لگا کر فرار ہونے کا موقع مل بھی جائے تو میں کیسے چالیس میل تک سمندر میں تیر سکوں گا۔
جب جہاز کو سمندر میں سفر کرتے ایک دن گزر گیا تو مجھے کپتان زولو کے حکم سے کیبن سے نکال کر جہاز کا عرشہ دھونے ، کچن کے برتن صاف کرنے وغیرہ کے کاموں پر لگا دیا گیا۔ اس وقت مجھے روہنی کا بار بار خیال آ رہا تھا۔ اگر وہ میرے ساتھ ہوتی تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہ بحری ڈاکو مجھے قید کرتے ۔ وہ تو اگر چاہتی تو ان سب کو ایک ایک کر کے ختم کر کے خود جہاز پر قبضہ کر لیتی۔
مگر روہنی مجھ سے جدا ہو چکی تھی۔ وہ میری سچی ہمدرد اور دوست تھی۔ مجھے اس کا خیال آنے لگا کہ خدا جانے کہاں ہوگی ، کس حال میں ہوگی اور اس پر کیا گزر رہی ہو گیا۔ ان بہری ڈاکوؤں نے مجھے اپنا غلام بنا لیا تھا۔ مجھ سے صبح سے رات تک کام کراتے ، کھانے کو جو بچا کھچا ہوتا دے دیتے۔ میں سخت عذاب میں پھنس گیا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں ؟ کیسے ان لوگوں سے جان چھڑاؤں۔ یہ جس کسی ملک کے قریب کھڑے ہوتے تو اس ملک کی سمندری حدود سے باہر یعنی چالیس میل کے فاصلے پر لنگر ڈالتے اور مجھے ایک کیبن میں بند کر کے باہر پہرہ بٹھا دیتے۔
اتنا مجھے علم ہو گیا تھا کہ یہ جس ملک کے قریب کھڑے ہوتے ہیں وہاں سمگلنگ کا مال فروخت کرتے ہیں اور موقع ملنے پر سرکاری اور غیر سرکاری گوداموں کا مال بھی لوٹ کر لے آتے ہیں۔ یہ اپنے کام میں بےحد ماہر تھے اور ان کا ایک آدمی بھی نہیں پکڑا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سمندر میں سفر کرنے والے کسی اکا دکا مال بردار جہاز کو بھی لوٹ لیتے تھے۔ دور سے ایسے جہاز کی نشان دہی کرتے پھر اپنے جہاز میں کسی خرابی کا انہیں وائرلیس پر سگنل دیتے۔
جب وہ جہاز ان کے قریب آتا تو ان کے لٹیرے سٹین گنیں، رائفلیں اور ہینڈ گرنیڈ لے کر جہاز پر کود جاتے اور جو سامنے آتا اسے بے دریغ گولیوں سے چھلنی کر کے جہاز کا سار سامان اسباب لوٹ کر آگے روانہ ہو جاتے ۔ اس طرح مجھے اس مصیبت میں پھنسے دو مہینے گزر گئے۔ اس دوران نتالیا کی بھیجی ہوئی کوئی بدروح بھی مجھے پکڑنے نہیں آئی تھی۔ نتالیا کو شاید معلوم ہو گیا تھا کہ میرے بازو پر ایک بڑی طاقت والا طلسمی تعویذ بندھا ہوا ہے جس کے جادو کے سامنے اس کی کوئی بھی بدروح زندہ نہیں بچے گی ۔ اس لئے نہ اس نے خود میرے قریب آنے کا خطرہ مول لیا تھا اور نہ ابھی تک کسی بدروح کو مجھے اٹھا کر لے جانے کے لئے بھیجا تھا۔

شاید نتالیا اس وقت کا انتظار کر رہی تھی کہ میری غفلت سے میرے بازو پر بندھا کالے جادوگر کا ہڈی والا تعویذ مجھ سے گم ہو جاۓ تو وہ اچانک حملہ کر کے مجھے اٹھا کر لے جائے ۔ لیکن میں اس طرف سے بھی غافل نہیں تھا اور ہر روز رات کو سوتے وقت اور صبح اٹھ کر تعویذ کو اپنے بازو پر دیکھ لیتا تھا۔ اگر اس کی ڈوری ڈھیلی ہو گئی ہوتی تھی تو اسے اتارے بغیر وہیں کس دیتا تھا۔ میں اسے ایک لمحے کے لئے بھی بازو سے اتارنے کا خطرہ مول نہیں لیتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ نتالیا کا آسیب غافل نہیں ہوگا۔

خود نہیں تو اس نے کسی نہ کسی بدروح کو میرے پیچھے لگا دیا ہوگا کہ جیسے ہی میں ایک سیکنڈ کے لئے کسی وقت تعویذ اپنے بازو سے اتاروں وہ مجھے وہیں دبوچ لے۔ کپتان زولو کی جو گرل فرینڈ نیگرو عورت تھی وہ اس وقت جب میں کپتان کے کیبن کی صفائی کرنے جاتا تھا تو میری طرف کپتان سے نظریں بچا کر دیکھ لیا کرتی تھی۔ خدا جانے میں اسے پسند آ گیا تھا یا اسے مجھ سے ہمدردی پیدا ہو گئی تھی لیکن اس نے ابھی مجھ سے اپنی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اسی طرح مزید دو مہینے گزر گئے ۔ ایک رات میں جہاز کے عرشے کو دھو رہا تھا کہ کپتان زولو نے میرے قریب آیا ۔۔۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 28

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں