پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 30

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 30


منتر کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں سخت مایوس ہوا۔ سب کے سامنے درگا سے بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے خنجری سے کہا۔’’رانی بائی ! میں باہر چلتا ہوں۔‘‘ اور میں اٹھ کر باہر آ گیا۔ چند قدموں کے فاصلے پر ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ میں نے اس پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔ ’’درگا!‘‘

درگا نے فورا جواب دیا۔ ” میں تمہارے پاس ہی ہوں۔“ میں نے کہا۔ ”میں نے منتر پھونک کر اسے پانی پلا دیا ہے ۔‘‘ " میں دیکھ رہی تھی ۔ ‘‘درگا نے جواب دیا۔ مگر درگا ! اس پر تو کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں نے کہا۔ ”نہ ہی پاتالی اس کے اندر سے باہر نکلی ہے۔ درگا کہنے لگی۔ ”یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔ جو کچھ ہوگا اپنے طریقے سے ہوگا۔۔

میں نے پوچھا۔’’پاتالی اس کے اندر سے آزاد ہو کر نکل آۓ گی نا؟‘‘ درگا بولی۔ "تم دیکھتے جاؤ۔ ایک خاص بات کا دھیان رکھنا اگر پاتالی کسی روپ میں آکر تم سے کوئی بات کرے گی تو میں وہاں پر موجود ہوں گی مگر نہ میں تم سے کوئی بات کروں گی نہ تم مجھ سے کوئی بات کرنا۔ “ ”ایسا کیوں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
درگا ہولی۔ " تم سوال بہت کرتے ہو ۔ تم ہم بدروحوں کی دنیا کے اصول قانون نہیں جانتے ۔ جیسا میں کہتی ہوں بس تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے آگے کوئی سوال نہ کیا کرو۔ میں کچھ دیر کے لئے یہاں سے جار ہی ہوں۔‘‘

اور ہوا کا ایک جھونکا مجھے چھوتا ہوا گزر گیا۔ میں سمجھ گیا کہ درگا چلی گئی ہے۔ کبھی کبھی آتے یا جاتے ہوئے وہ مجھے اپنی نشانی بتا دیا کرتی تھی۔ جب رات ہو گئی تو ڈاکوؤں کے ڈیرے میں دھیمی روشنیوں والی تین چار لالٹینیں روشن کر دی گئیں۔ یہ لوگ جنگل میں جہاں جا کر ڈیرہ ڈالتے تھے وہاں ایک چھوٹی سی جھونپڑی خنجری ڈاکو کے لئے بنا دی جاتی تھی۔ جب سے اس ڈاکو عورت کو مجھ سے عقیدت ہوئی تھی وہ خاص طور پر میرے لئے بھی ایک الگ جھونپڑی ہنوا دیا کرتی تھی۔ اس ڈیرے پر بھی میری چھوٹی سی کٹیا بنا دی گئی تھی۔
رات کو گولی اور خنجری ڈاکو کے ساتھ میں نے کھانا کھایا۔ کھانے کے دوران میں نظریں بچا کر خنجری ڈاکو کو دیکھتا رہا کہ اس پر منتر کا کوئی اثر ہوا ہے یا نہیں مگر ابھی تک مجھے یہی لگتا تھا کہ کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بالکل ویسی کی ویسی تھی۔اس کے چہرے پر یا اس کی باتوں میں پاتالی کی کوئی نشانی ظاہر نہیں ہوئی تھی۔

کھانا کھانے کے بعد میں اپنی کٹیا میں آکر چارپائی پر لیٹ گیا۔ مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ میں چار پائی پر لیٹا پہلو بدل رہا تھا اور یہی سوچ رہا تھا کہ خدا جانے مجھے ان ڈاکوؤں کے ساتھ ابھی کتنے دن اور گزارنے پڑیں گے ۔ اتنے میں مجھے کسی کے لباس کی سرسراہٹ سی سنائی دی۔ میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ پھر مجھے کسی کے سانس لینے کی آواز آئی۔ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا۔ ’’درگا! کیا یہ تم ہو ؟‘‘

مجھے پاتالی کی آواز آئی۔" نہیں شیروان! میں ہوں ۔ پاتالی ۔“ میں نے بے تاب ہو کر کہا۔ ” تم کہاں ہو پاتالی! تم میرے سامنے کیوں نہیں آ رہی ہو ۔ کیا تم آزاد ہو گئی ہو ؟“
پاتالی نے کہا۔ ” نہیں۔ میں ابھی آزاد نہیں ہوں۔ میں ابھی تک اس ڈاکو عورت کے جسم میں ہی قید ہوں۔“ ” پھر تم اس کے جسم سے نکل کر یہاں کیسے آ گئی ہو ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ پاتالی نے کہا۔ ” یہ میں نہیں ہوں۔ یہ میرا سایہ ہے۔ میرا جسم ابھی تک ڈاکو عورت کے جسم کے اندر ہی ہے ۔‘‘
میں نے پوچھا۔ ”لیکن میں نے تو مالینی کا منتر خنجری کے جسم میں داخل کر دیا تھا کیا اس نے کوئی اثر نہیں کیا ؟‘‘

پاتالی نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا۔ ”شیروان ! مالینی کے منتر کا اثر آہستہ آہستہ ہوگا۔ میں تمہیں صرف یہ کہنے آئی ہوں کہ تم یہ سوچ کر اس عورت کو چھوڑ کر نہ چلے جانا کہ مالینی کے منتر نے کوئی اثر نہیں کیا۔ یہ سوچ لینا کہ تم اس ڈاکو عورت کو نہیں بلکہ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ گے اور اگر تم چلے گئے تو میں بھی اس عورت کے جسم سے نہیں نکل سکوں گی۔“
میں نے کہا۔ ”تم فکر نہ کرو۔ میں اس عورت کے ساتھ ہی رہوں گا۔ لیکن آخر تمہیں آزاد ہونے میں اب کیا رکاوٹ ہے ؟‘‘ پاتالی نے کہا۔’’شیروان ! تم کو نتالیا کے آسیب کی طاقت کا کچھ اندازہ نہیں ہے ۔ مجھے بھی اندازہ نہیں تھا۔ ایک عام انسان یہ چار لفظی منتر پڑھ کر پھونکے تو اس کا اثر کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب ایک آسیبی عورت یہ منتر پڑھ کر پھونکتی ہے تو اس کی طاقت چار گنا بڑھ جاتی ہے۔ نتالیا کے آسیب نے اس منتر کے ذریعے مجھے اس زبردست طریقے سے اس ڈاکو عورت کے جسم میں داخل کر دیا ہوا ہے کہ میں اس کے خون میں شامل ہو گئی ہوں۔
اور ہر لمحے اس کے جسم کے اندر میرا دم گھٹتا ہے۔ تمہارے منتر پھونکنے کے بعد جب ناریل کا پانی اس عورت کے جسم میں داخل ہوا تو مجھے پہلی بار یہ موقع ملا ہے کہ میں سایہ بن کر اس کے جسم سے باہر آسکتی ہوں ۔ اس عورت کے ساتھ رہنا۔ بس اب میں جاتی ہوں۔ میرا جسم جو ڈاکو عورت کے جسم کے اندر ہے مجھے بلا رہا ہے ..... "
مجھے پاتالی کے گہرا سانس لینے کی آواز سنائی دی اور اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ دوسرے لمحے درگا کی آواز آئی۔ ’’تم نے دیکھ لیا ہے کہ تمہارا پھونکا ہوا مالینی کا منتر اپنا کام کر رہا ہے ۔‘‘
میں نے کہا۔ ”لیکن اس طرح تو خدا جانے پاتالی کو آزاد ہوتے کتنی دیر لگ جاۓ گی۔“
درگا کی آواز آئی۔ ’’ہاں شیروان ! کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ میری مجبوری تھی کہ اس منتر کو کوئی عام انسان ہی ڈاکو خنجری کے جسم میں پھونک سکتا تھا اور یہ اس انسان کی مجبوری تھی کہ اس کے پھونکنے سے منتر کی طاقت چار گنا کم ہوگئی تھی۔ اب جو کچھ ہوگا کم رفتار کے ساتھ ہوگا۔ بس ہمیں دھیرج سے کام لینا پڑے گا۔‘‘ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ دھیرج یعنی صبر مجھے کب تک برداشت کرنا پڑے گا۔ میں نے درگا سے کہا۔ ’’
درگا ! تم اتنی جادوئی طاقت رکھتی ہو اور پاتالی تمہاری چاہتی بدروح ہے ۔ میں نے مالینی کا منتر بھی ڈاکو عورت کے جسم میں داخل کر دیا ہے ۔ کیا اب تم پاتالی کو باہر نہیں نکال سکتیں ؟“
درگا نے کہا۔” میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ یہ کام کسی عام انسان کے ہاتھوں ہی ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ منتر جب کسی پر پھو نکا جاتا ہے تو وہ بد نصیب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک نہ ختم ہونے والی قید میں پھنس جاتا ہے کیونکہ نہ کسی عام انسان کو اس منتر کا پتہ ہے اور نہ وہ اس منتر کو پھونکنے کا گر جانتا ہے ۔ یہ تو پاتالی کی خوش قسمتی تھی کہ تم ایک عام انسان ہوتے ہوۓ بھی ہماری دنیا میں چل پھر رہے ہو اور میں نے یہ کام تمہیں سونپ دیا۔ اب کم از کم یہ یقین تو ہے کہ پاتالی آج نہیں تو کل اپنے آپ اس منتر کے اثر سے ڈاکو عورت کے جسم سے آزاد ہو کر ہمارے پاس واپس آ جاۓ گی۔‘‘
درگا چلی گئی۔ اس کے بعد میں بھی گہری نیند سو گیا۔ جنگل کے اس نئے ڈیرے میں ہمیں تیسرا دن گزر رہا تھا کہ دوپہر کے بعد اچانک جنگل کے ارد گرد فائرنگ کے دھماکے گونجنے لگے۔ ڈاکوؤں کے ڈیرے میں افراتفری سی مچ گئی۔ خنجری ڈاکو فورا اپنی جھونپڑی سے نکل آئی۔ اس نے مشین گن پکڑی ہوئی تھی۔ چیخ کر بولی۔ "گھبراؤ نہیں۔ پولیس کے سپاہی ہیں۔ ہم ان کی لاشیں گرا دیں گے ۔۔۔
لیکن یہ صرف پولیس ہی نہیں تھی پولیس کے ساتھ پیرا ملٹری ٹروپس کے تربیت یافتہ فوجی بھی تھے اور انہوں نے پوری سکیم بنا کر مشین گنوں اور دستی بموں سے حملہ کیا تھا۔ جب دستی ہموں کے دھماکے بھی سنائی دیئے تو گولی نے خنجری سے کہا۔ ” رانی ہائی پولیس کے ساتھ فوج بھی ہے ۔ “ خنجری ڈاکو نے چلا کر کہا۔ ”گولی ! فوج ہے تو کیا ہوا۔ ہم فوج کا بھی مقابلہ کریں گے ۔ اپنے آدمیوں کو چاروں طرف پھیلا دو۔“ اس وقت ڈاکوؤں نے اپنے ڈیرے کے اردگرد پوزیشنیں سنبھال لیں مگر پولیس اور فوج نے ڈاکوؤں کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا اور مشین گنوں کی فائرنگ اور دستی بموں کے دھماکوں میں سے گھیرا تنگ کرتے ہوۓ آگے بڑھ رہے تھے۔
میں بھی سٹین گن لے کر پوزیشن سنبھالنے کے لئے ایک طرف کو دوڑا تو درگا کی آواز آئی۔ یہ کیا کر رہے ہو ؟ چاروں طرف گولیاں چل رہی ہیں ۔ مارے جاؤ گے ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ تو پھر میں کیا کروں ؟‘‘ درگا نے کہا۔’’فورآ پاتالی کی انگوٹھی پہن کر غائب ہو جاؤ اس طرح کم از کم تمہیں گولی نہیں لے گی۔“ میں نے ایسا ہی کیا۔ جیب سے انگوٹھی نکالی اور پہن لی۔ انگوٹھی پہنتے ہی میں غائب ہو گیا۔ درگا نے کہا۔’’ خاموشی سے اپنی جھونپڑی کے اندر جا کر بیٹھ جاؤ۔“
میں جھونپڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔ جنگل گولیوں اور دستی بموں کے دھماکوں سے گونج رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے باہر جنگ لگی ہوئی ہے۔ میں نے ایک لمحے کے لئے جھونپڑے کے باہر نکل کر دیکھا۔ ڈاکوؤں کے پاؤں اکھڑ چکے تھے اور وہ بھاگ رہے تھے ۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ہی فوج اور پولیس گولیوں کا برساتی وہاں پہنچ گئی۔
ڈاکوؤں کی لاشیں گرنے لگیں۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر کوئی پولیس کا سپاہی یا فوجی مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میرے سامنے فوجیوں اور پولیس نے ایک پوزیشن پر حملہ کر کے گولی اور خنجری ڈاکو کو پکڑ لیا۔ گولی نے دونوں ہاتھ اٹھا رکھے تھے ۔ خنجری ڈاکو نے ہاتھ اوپر نہیں اٹھائے تھے۔ مگر اس نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ فوج اور پولیس کی بھاری نفری اور اس کے جدید اسلحہ کے سامنے ان ڈاکوؤں کو شکست ہو گئی تھی۔ پولیس خنجری ڈاکو اور گولی ڈاکو کو الٹی ہتھکڑیاں لگا کر لے گئی۔
باقی ڈاکوؤں میں سے اکثر مارے گئے تھے اور ان کی لاشیں جگہ جگہ بکھری پڑی تھیں۔ کچھ جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ میں نے آہستہ سے درگا کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا۔ ’’درگا کیا تم میرے پاس ہی ہو ؟“ درگا کی آواز سنائی دی۔”میں تمہارے پاس ہی ہوں۔ ” یہ کیا ہو گیا ہے ؟ میں نے پوچھا۔
درگا بولی۔’’ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا۔ مگر ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’یہ لوگ تو خنجری ڈاکو کے ساتھ پاتالی کو بھی پکڑ کر لے گئے ہیں۔ ہمیں پاتالی کو بچانا ہوگا۔“ درگا نے کہا۔ ”گھبراؤ نہیں۔ گھبراؤ نہیں۔ ہم پاتالی کو بچا لیں گے ۔ تم اس جھونپڑی میں بیٹھو میں پتہ کرتی ہوں کہ پولیس مخنجری ڈاکو کو کہاں لے گئی ہے ۔ " درگا چلی گئی اور میں جھونپڑی کے باہر ایک الٹی ہوئی چار پائی کو سیدھا کر کے اس پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ میں کون تھا کیا ہوگیا ہوں ؟ کہاں تھا اور کہاں آ گیا ہوں ؟ یا اللہ ! میرے گناہ معاف فرما دے!
کافی دیر کے بعد مجھے درگا کی آواز سنائی دی۔ ’’شیروان! جلدی سے میرے ساتھ چلو۔ صورت حال خراب ہو گئی ہے ۔
” کیا ہوا ہے درگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ درگا نے کہا۔ ” باتوں میں وقت ضائع نہ کرو ۔ پاتالی کی زندگی خطرے میں ہے ۔ اگر ہم نے ذرا دیر کر دی تو خنجری ڈاکو کو تو مرنا ہی ہے مگر اس کے ساتھ پاتالی بھی مر جاۓ گی۔انگوٹھی نکال کر پہنو۔
میں نے فورا جیب سے انگوٹھی نکال کر پہن لی ۔ میں غائب ہو گیا۔ درگا نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر مجھے کسی نے بڑی تیزی سے اٹھا کر اوپر کو اچھال دیا۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں رہا۔ جب ہوش آیا تو دیکھا کہ میں اور درگا جہاں کھڑے ہیں وہاں ارد گرد چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ ان پہاڑیوں کے در میان درختوں میں گھری ہوئی ایک عمارت ہے۔
درگا نے کہا۔’’یہ خفیہ پولیس کا ٹارچر سیل ہے ۔ خنجری ڈاکو کو گرفتار کر کے یہاں لایا گیا ہے۔ پولیس اس خونخوار ڈاکو عورت کو ختم کر دینا چاہتی ہے ۔ وہ اس پر مقدمہ چلانے اور گواہیاں بھگتانے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتی ۔اسے مار کر لاش جنگل میں ڈال دی جائے گی اور اعلان کیا جائے گا کہ مدھیہ پردیش کی خونخوار خنجری ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئی ہے ۔ میرے ساتھ آ جاؤ۔"
میں اور درگا عمارت کی طرف بڑھے ۔ ہم دونوں غیبی حالت میں تھے اور ہمیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ عمارت کے باہر پولیس کا زبردست پہرہ تھا مگر ہم بے فکر ہو کر پولیس کے سپاہیوں کے درمیان سے گزر گئے ۔ درگا مجھے عمارت کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں لے گئی۔
کمرے میں ایک سٹریچر پر خنجری ڈاکو کو چمڑے کے تسموں سے اس طرح باندھا ہوا تھا کہ وہ کوئی حرکت نہیں کر سکتی تھی۔ تین مسلح سپاہی ایک طرف کھڑے تھے۔ ایک ہندو ایس پی اور ایک ڈی ایس پی سٹریچر کے پاس بیٹھے خنجری سے ضروری پوچھ گچھ کر رہے تھے ۔ ایس پی نے پوچھا۔ " تمہارے گروہ کے کچھ آدمی فرار ہو گئے ہیں۔ اگر تم ہمیں یہ بتا دو کہ وہ کہاں چھپے ہوئے ہوں گے تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے صرف قید میں ڈال دیں گے تمہیں جان سے نہیں ماریں گے ۔‘‘
خنجری نے کہا۔ ”مجھے نہیں معلوم وہ کہاں گئے ہیں ۔‘‘ ڈی ایس پی نے ایس پی کو انگریزی میں کہا۔ ” یہ عورت کچھ نہیں بتائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ اس سے جتنی جلدی ہو سکے چھٹکارا حاصل کر لیا جاۓ ۔ اس بات کا خطرہ ہے کہ اس کے ساتھی کسی وقت شب خون مار کر اسے چھڑا کر لے جائیں گے ۔“ ایس پی نے انگریزی میں جواب دیا۔ ’’تو تم کس بات کا انتظار کر رہے ہو ؟‘‘ ”سر ! مجھے آپ کے آرڈر چاہئیں ۔‘‘ ڈی ایس پی نے کہا۔ ۔ ایس پی بولا۔ ” میری طرف سے تمہیں اجازت ہے ۔ " اچانک ڈی ایس پی نے پستول نکالا اور خنجری ڈاکو کے دل کا نشانہ لے کر اوپر تلے چار فائز کر دیئے ۔
خنجری ڈاکو کے سینے میں سے خون کا فوارہ ابل پڑا۔ میں حیران تھا کہ درگا نے اس پولیس آفیسر کے ہاتھ سے پستول کیوں نہیں چھینا اور اسے خنجری ڈاکو کو ہلاک کرنے کا موقع کیوں دیا۔ خنجری ڈاکو کا چہرہ سفید پڑنے لگا تھا کیونکہ اس کا جسم چمڑے کے تسموں سے سٹریچر کے ساتھ بندھا ہوا تھا اس لئے وہ تڑپ نہیں سکتی تھی۔ اس کے بدن سے بے تحاشا خون نکل رہا تھا۔
میں نے درگا کی طرف دیکھا۔ وہ بڑے غور سے خنجری ڈاکو کے خون میں لتھڑے جسم کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے درگا کے کان میں سرگوشی کی۔ درگا ! کیا سوچ رہی ہو۔ پاتالی تو اس کے ساتھ ہی مر جاۓ گی۔“ درگا نے سرگوشی میں ہی جواب دیا۔ ’’ خاموش رہو۔“ ایس پی نے سپاہیوں سے کہا۔ " اس کی لاش لے جا کر جنگل میں پھینک دو ۔ “ سپاہیوں نے فورا نیم مردہ خنجری کو سٹریچر سے اٹھایا اور ٹانگوں اور بازوؤں سے پکڑ کر ڈولی ڈنڈا کر کے باہر لے گئے۔ درگا نے مجھے آہستہ سے کہا۔ ’’ان کے پیچھے چلو۔“
سپاہیوں نے خنجری کے نیم مردہ جسم کو ایک جیپ میں ڈالا اور جیپ تیزی کے ساتھ ٹارچر سیل کی عمارت سے نکل کر جنگل کی طرف چل پڑی۔ درگا اور میں جیپ کے ساتھ ساتھ پرواز کرتے جارہے تھے۔
سارا علاقہ جنگل کا تھا۔ دو تین میل دور جا کر جیپ سڑک سے اتر کر جنگل کے گھنے درختوں کے نیچے ایک جگہ آکر رک گئی۔ سپاہیوں نے خنجری کی لاش کو جیپ سے پھینکا اور جیپ تیزی کے ساتھ مڑ کر واپس چلی گئی۔ درگا لپک کر خنجری ڈاکو کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اس نے مجھے کہا۔ اس کے قریب آکر بیٹھ جاؤ۔“ میں خنجری ڈاکو کی لاش کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ درگا نے خنجری ڈاکو کے سینے پر اس جگہ انگلی رکھ دی جہاں سے ابھی تک خون اہل اہل کر نکل رہا تھا۔ کہنے لگی۔ خنجری ابھی زندہ ہے۔ میں یہی چاہتی تھی۔
اس نے مجھ سے کہا۔ "انگوٹھی انگلی سے اتار کر جیب میں رکھ لو۔“ میں نے ایسا ہی کیا۔ انگوٹھی اتارنے کے بعد میں اپنی جسمانی حالت میں نظر آنے لگا۔ درگا نے کہا۔ ”اپنا ہاتھ آگے کرو۔“
میں نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا۔ درگا نے اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ کے اوپر رکھ دیا۔ اس کے ہاتھ پر خنجری کے جسم سے نکلنے والا خون لگا ہوا تھا۔ وہی خون میرے ہاتھ کو بھی لگ گیا۔ ۔
درگا بولی۔’’ میں دو قدم پیچھے ہٹ رہی ہوں۔ اب جو کچھ کرنا ہے تمہیں ہی کرنا ہوگا۔“
میں نے اپنی تسلی کی خاطر پوچھا۔ ” کیا پاتالی اس مردہ جسم کے اندر زندہ ہے ؟‘‘ درگا نے غصے میں کہا۔’’ فالتو بات نہ کرو۔ جو میں کہتی ہوں وہ کرو۔ “ میں چپ ہو گیا۔ کیا کرتا۔ یہ میری بھی زندگی، موت کا سوال تھا۔ یہ ایک تکون سی بن گئی تھی۔ پاتالی اگر زندہ رہتی ہے تو روہنی بھی زندہ بچ سکتی تھی۔ اگر روہنی زندہ رہتی ہے تو میں بھی زندہ رہ سکتا تھا اور وہ اس طرح کہ صرف روہنی ہی بقول درگا مجھے نتالیا کے منحوس آسیب اور پجاری رگھو کے شیطانی جادو سے چھٹکارا دلا سکتی تھی ۔۔۔
میری ہتھیلی پر خنجری ڈاکو کی لاش کا خون لگا ہوا تھا۔ درگا نے مجھے لاش کے بالکل قریب بٹھایا ہوا تھا۔ وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی تھی۔ کہنے گئی۔’’اپنی ہتھیلی لاش کے ماتھے کے ساتھ چپکا دو۔‘‘
میں نے خون آلود ہتھیلی خنجری کی لاش کے ماتھے کے ساتھ چپکا دی۔ میں نے محسوس کیا کہ خنجری کے ماتھے میں اس کا یا خدا جانے کس کا دل دھڑک رہا تھا۔ مجھے اس کی دھڑکن اپنی ہتھیلی پر محسوس ہو رہی تھی۔
درگا نے حکم دیا۔ ”ہتھیلی اٹھالو۔‘‘ میں نے ہتھیلی اوپر اٹھالی۔ درگا نے حکم دیا۔ ’’لاش کے سینے میں گولی نے سوراخ کر دیا ہوا ہے اپنا منہ اس سوراخ کے پاس لے جاؤ۔“ میں اپنا منہ لاش کے سینے پر جو سوراخ تھا اس کے قریب لے گیا۔ گولی نے خنجری کا سینہ پچھاڑ دیا تھا۔ گولی اس کے دل کے پار ہو گئی تھی۔ سینے میں گولیوں کے اور
سوراخ بھی تھے مگر جو گولی اس کے دل میں لگی تھی اس کا سوراخ چوڑا تھا۔
درگا نے حکم دیا۔ ’’اب مالینی کا بتایا ہو اچار لفظوں والا منتر پڑھ کر پھونکو اور دل میں کہنا کہ یہ منتر میں پاتالی کے لئے پھونک رہا ہوں۔“ مجھے وہ منتر یاد تھا۔ میں نے دل میں کہا۔’’یہ منتر میں پاتالی کے لئے پھونک رہا ہوں۔
درگا نے مجھ سے یہ اس لئے کہلوایا تھا کہ اگر میں یہ نہ کہتا تو وہ منتر مجھ سے منسوب ہو جاتا کہ جیسے یہ منتر میں نے اپنے لئے پڑھا ہے اور پھر میں خود غائب ہو کر خدا جانے کس جانور کاروپ دھار لیتا۔ میں نے منتر کو پاتالی سے منسوب کرتے ہوۓ اسے پڑھ کر خنجری ڈاکو کی لاش کے خون آلود سوراخ پر پھونک دیا۔
درگا بولی۔’’ دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ میں جلدی سے دو قدم ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ رات کا وقت تھا۔ جنگل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ خدا جانے چاند کی وہ کون سی تاریخ تھی۔ درختوں کے اوپر چاند نکلا ہوا تھا اور اس کی اداس چاندنی میں خنجری ڈاکو کی لاش صاف نظر آرہی تھی۔ اچانک لاش کانپنے لگی۔ پہلے وہ آہستہ آہستہ کانپ رہی تھی پھر وہ زیادہ شدت سے کانپنے لگی۔ دو تین منٹ تک لاش لرزتی رہی پھر خنجری کی لاش کے حلق سے ایک دل کو دہلا دینے والی چیخ بلند ہوئی ۔ جنگل اس چیخ کی آواز سے کانپ گیا۔
اس کے بعد لاش ساکت ہو گئی اور لاش کے سینے کے خون آلود شگاف میں سے سفید دھواں نکلنا شروع ہو گیا۔ یہ دھواں اوپر اٹھنے کے بعد ایک انسانی شکل میں بدل گیا۔ اس وقت درگا نے کہا۔ ’’پاتالی! کیا یہ تم ہو ؟“
پاتالی کی آواز سنائی دی۔’’درگا میا! یہ میں ہی ہوں ۔ پاتالی! تمہاری سیویکا۔‘‘ درگا نے کہا۔’’پاتالی! اسی شکل میں واپس آ جاؤ جس شکل میں تم مجھ سے جدا ہو کر شیروان کے ساتھ گئی تھیں۔ “
میں ٹکٹکی باندھے لاش کے زخم کے شگاف میں سے نکلے ہوۓ پاتالی کے سفید لباس کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک دھواں غائب ہو گیا اور دوسرے لمحے پاتالی میرے سامنے کھڑی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس نے درگا کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور سر جھکا کر کہا۔ " درگا میا! تم شیروان کو اپنے ساتھ نہ لاتی تو میں زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔ میں بھی اس ڈاکو عورت کی لاش کے ساتھ ہی مر چکی ہوتی۔“
درگا نے کہا۔ ’’پاتالی! تمہیں شیروان کا بھی شکر یہ ادا کرنا چاہئے۔ اگر اسے مالینی کا منتر یاد نہ ہوتا اور یہ ہمت اور جرات سے کام نہ لیتا تو تم زندہ حالت میں ہمارے پاس واپس نہ آتی۔“
مجھے بڑی حیرت ہو رہی تھی کیونکہ پاتالی اپنے اس ماڈرن لباس میں تھی جس لباس میں وہ جے پور کے قدیم محل میں سے درگا کی اجازت لے کر میرے ساتھ چلی تھی یعنی اس نے بش شرٹ کے ساتھ جینز پہنی ہوئی تھی پرس اسی طرح اس کے کندھے سے لٹک رہا تھا۔
پاتالی نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولی۔ ’’شیروان! میں اپنے دل سے تمہارا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ تم نے میرے لئے وہ کام کیا ہے جو سوائے تمہارے اور کوئی نہیں کر سکتا تھا۔“
میں نے کہا۔ ’’اب کسی طرح روہنی، نتالیا کے آسیب کی قید سے رہا ہو جاۓ۔ بس مجھے اور کچھ نہیں چاہئے ۔“
پاتالی نے کہا۔ ’’درگا میا کی آشیر واد ہمارے ساتھ ہو گی تو ہم روہنی کو بھی آزاد کرا لیں گے ۔ تم فکر نہ کرو۔ “
درگا کہنے لگی۔ ’پاتالی! ہمیں یہاں سے اپنے محل میں جے پور چلنا ہوگا۔ وہاں جا کر ہم روہنی کو آسیبی قید سے نکالنے کے بارے میں کوئی دوسرا منتر سوچیں گے ۔“ پاتالی نے کہا۔ " جیسے آپ کا حکم درگا میا‘‘
”تو پھر چلو۔ اپنے محل میں چلتے ہیں۔‘‘ درگا نے یہ کہہ کر مجھے ہدایت کی۔ شیروان ! پاتالی کی انگوٹھی پہن لو۔“ میں نے جیب سے انگوٹھی نکال کر پہن لی اور میں غائب ہو گیا۔ درگا پہلے ہی سے غائب تھی۔ صرف پاتالی غائب نہیں تھی۔ درگا نے اسے کہا۔’’پاتالی تم بھی غائب ہو جاؤ اور شیروان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا مت بھولنا ورنہ یہ اڑتے ہوۓ ادھر ادھر ہو جاۓ گا۔“ پاتالی نے کوئی منتر پڑھ کر پھونکا اور غائب ہو گئی۔ یہ دونوں بدروحیں غائب ہو جانے کے بعد بھی مجھے دکھائی دے رہی تھیں ۔
پاتالی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ جیسے ہی اس نے میرا ہاتھ پکڑا کسی نے مجھے زمین سے اٹھا کر اوپر فضا میں اچھال دیا اس کے بعد وہی حالت ہوئی یعنی مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔ جب ہوش میں آیا تو دیکھا کہ میں ، پاتالی اور درگا جے پور والے قدیم تاریخی محل کے تہہ خانے میں ستونوں کے درمیان تخت پر بیٹھے ہوۓ تھے۔
درگا کہنے لگی۔’’اب ہمیں پرانے قبرستان والے نتالیا کے تہہ خانے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔“
میں نے کہا۔ "اگر ہم وہاں نہیں جائیں گے تو روہنی کو کیسے نکال کر لا سکیں گے کیونکہ اسے نتالیا نے اس تہہ خانے میں بند کر رکھا ہے ۔“
درگا ہولی۔ "شیروان ! تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکو گے ۔ بہتر یہی ہے کہ تم ان میں دخل نہ دو۔‘‘
میں نے کہا۔’’ یہ تم نے ٹھیک کہا۔ میں خاموش ہوں۔“ پاتالی نے درگا سے پوچھا۔ ’’درگا میا! نتالیا کے آسیب کی جان نتالیا کی کھوپڑی میں ہے۔ آپ بھی جانتی ہیں کہ نتالیا افریقہ کے ایک آدم خور قبیلے کی خونخوار عورت تھی جس نے کئی بے گناہ انسانوں کا خون کر کے ان کو ہڑپ کیا ہے جس کی سزا وہ ایک آسیبی بدروح کی شکل میں بھگت رہی ہے۔ جب وہ مر گئی تھی تو اسے جلا دیا گیا تھا لیکن اس کی بدروح آسیب بن کر اس کی کھوپڑی میں بند ہو گئی تھی جہاں ایک برس بند رہنے کے بعد وہ باہر نکل آئی تھی اور آسیبی بدروح کی شکل میں در بدر بھٹکنے لگی تھی۔“
درگا نے کہا۔ ” یہ سارے راز مجھے معلوم ہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس کھوپڑی میں نتالیا کے آسیب کی جان ہے ۔ اگر کسی طرح اس کھوپڑی کو توڑ دیا جاۓ تو نتالیا اور اس کا آسیب اپنے آپ مر جاۓ گا اور ہمیشہ کے لئے نرک کی اگنی میں جا کر جسم ہو جاۓ گا۔‘‘
پاتالی نے کیا۔ درگا میا! یہ کھوپڑی نتالیا نے کہاں رکھی ہوئی ہے ؟“ ۔ درگا نے کہا۔’’ پہلے یہ کھوپڑی جنگل میں اس جگہ زمین میں دفن تھی جہاں نتالیا کی لاش کو آگ میں جلایا گیا تھا۔ مگر جب روہنی نے میری ہدایت پر وہاں پہنچ کر نتالیا کی کھوپڑی کو توڑنا چاہا تو نتالیا کے آسیب کو اس کا پتہ چل گیا اور اس نے عین وقت پر پہنچ کر نہ صرف اپنی کھوپڑی کو غائب کر دیا بلکہ روہنی کو بھی پکڑ کر لے گئی۔
اب اس نے اپنی کھوپڑی کہاں چھپا کر رکھی ہوئی ہے اس کا کھوج لگانا پڑے گا یہ میں کھوج لگا لوں گی۔ لیکن ہمیں اس بار بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔ اگر ہم اس دفعہ بھی نتالیا کی کھوپڑی کا طلسم توڑنے میں ناکام رہے تو پھر ہم روہنی کو نتالیا کی قید سے اور بے گناہ لوگوں کو نتالیا کے آسیب کی شیطانی مصیبتوں سے کبھی نجات نہیں دلا سکیں گے ۔“ پاتالی نے کہا۔’’درگا میا! پہلے یہ پتہ چلنا چاہئے کہ یہ کھوپڑی جس میں نتالیا کی جان ہے اس نے کس جگہ پر چھپائی ہوئی ہے اس کے بعد ہم اس تک پہنچے اور اسے برباد کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر لیں گے ۔“
درگا نے کہا۔ ” اس کا کھوج لگانے کے لئے مجھے بدروحوں کی دنیا میں جا کر بدروحوں کی سردارنی مالینی سے ملاقات کرنی پڑے گی۔ صرف وہی مجھے بتا سکتی ہے کہ نتالیا کے آسیب نے کھوپڑی کس جگہ چھپائی ہوئی ہے ۔ میں اس وقت بدروحوں کی دنیا کی طرف روانہ ہو جانا چاہتی ہوں۔ تم دونوں چا ہو تو اس محل میں رہو ، چاہو تو جے پور کے کسی ہوٹل میں جا کر رہ سکتے ہو ۔ کیونکہ شیروان انسان ہے ۔
پاتالی! تم تو ویران کھنڈروں میں رہ سکتی ہو مگر شیروان تمہارے ساتھ وہاں نہیں رہ سکتا۔“ پاتالی نے پوچھا۔ ’’درگا میا! آپ کو وہاں کتنی دیر لگ سکتی ہے ؟“ درگا نے کہا۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ ہو سکتا ہے مالینی مجھے وہاں سے کسی دوسری جگہ بھیج دے۔ اس طرح ایک دن بھی لگ سکتا ہے اور ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے۔“
پاتالی نے کہا۔ " ٹھیک ہے درگا میا! ہم جے پور یا کسی دوسرے شہر میں جا کر ہوٹل میں رہ لیں گے ۔‘‘
درگا بولی۔ ”تم جہاں بھی ہو گے مجھے علم ہو جائے گا اور میں تمہیں آ کر وہاں مل لوں گی۔ اب تم شیروان کو لے کر جہاں جانا چاہتی ہو چلی جاؤ مگر شیروان کا خیال رکھنا۔ اسے اپنے سے الگ مت ہونے دینا کیونکہ صرف نتالیا نہیں اس کے پیچھے رگھو پجاری کی بدروح بھی لگی ہوئی ہے ۔ “
پھر اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”شیروان! تمہارے بازو پر کالے جادوگر نے ہڈی کا جو تعویذ باندھا ہوا ہے اس کی حفاظت کرنا اور کوئی کسی بھی روپ میں آکر تمہارا تعویذ حاصل کرنے کی کوشش کرے سمجھ لینا کہ وہ نتالیا کی بھیجی ہوئی بدروح ہے ۔ فورا بلند آواز سے کہ دافع ہوجا بدروح دفع ہوجا بدروح ....کہنا! تم سمجھ گئے ہو ناں؟“
میں نے کہا۔ میں سمجھ گیا ہوں درگا! میں تمہاری ہدایتوں پر پوری طرح عمل کروں گا۔‘‘
پھر درگا نے پاتالی سے کہا۔ ” اب تم اسے لے کر چلی جاؤ۔“
درگا یہ کہہ کر غائب ہو گئی۔ پاتالی نے مجھ سے کہا۔”چلو یہاں سے باہر نکلتے ہیں ۔ پھر سوچیں گے کہ ہمیں کہاں جا کر ایک ہفتہ گزارنا چاہئے ۔ " ہم دونوں غائب تھے چنانچہ ہم بڑی آسانی کے ساتھ ویران محل سے باہر نکل آۓ اور محکمہ آثار قدیمہ کے چوکیداروں میں سے کوئی بھی ہمیں نہ دیکھ سکا۔ باہر آۓ تو رات ڈھل رہی تھی۔ آسمان پر مشرق کی جانب صبح کا اولین اجالا پھیلنے لگا تھا۔ اندھیرا چٹ رہا تھا اور جے پور شہر کی عمارتیں اندھیرے میں سے ابھر رہی تھیں ۔ پاتالی نے کہا۔ ” شیروان ! تم کہاں جانا چاہتے ہو ؟‘‘ ' میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ”
بھارت کی راجدھانی دہلی کے کسی الٹرا ماڈرن ہوٹل میں چل کر ٹھہرتے ہیں۔ میں دو چار دن بڑے اعلی ترین ماحول میں آرام کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔“
پاتالی مسکرا رہی تھی۔ کہنے لگی۔’’روپے کی مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے۔ چلو دہلی کے کسی الٹرا ماڈرن ہوٹل میں ہی چلتے ہیں۔ اپنا ہاتھ مجھے پکڑا دو۔“ میں نے اپنا ہاتھ پاتالی کے ہاتھ میں دے دیا۔ ہم دونوں اس وقت زمین سے بڑی تیزی کے ساتھ اوپر کی طرف اٹھتے چلے گئے پھر بڑی تیز ہوا کا ایک جھونکا میرے جسم سے ٹکرایا اور پھر مجھے حسب معمول کچھ ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں اور پاتالی زندہ عورت اور مرد کی شکل میں ایک شاندار ماڈرن ہوٹل کی لابی میں کھڑے ہیں۔
پاتالی نے کہا۔’’ جانتے ہو اس ہوٹل میں ایک دن اور رات گزارنے کا کرایہ پانچ ہزار روپے ہے۔“
میں نے کہا۔ تم نے روپوں کا انتظام کر لیا ہے ناں ؟" وہ ہنس پڑی۔ کہنے لگی۔ اس وقت انڈیا کے سٹیٹ بنک کی ساری دولت میرے سامنے ہے۔ میں جتنی رقم چاہوں وہاں سے لا سکتی ہوں ۔ بلکہ ایک اشارے سے وہ رقم میرے پرس میں آ جائے گی۔“
ہم نے ایک ڈبل بیڈ کمرہ میاں بیوی ظاہر کر کے لے لیا۔ میں نے کہا۔ ”میں تو زندہ انسان ہوں مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔ میں سب سے پہلے ناشتہ کروں گا۔“ پاتالی نے کہا۔ " ناشتہ یہاں صبح سات بجے شروع ہو جاتا ہے۔ اتنی دیر میں تم نہا کر تازہ دم ہو جاؤ اس کے بعد میں بھی نہالوں گی۔“ پہلے میں نے غسل کیا۔ اس کے بعد پاتالی نے غسل کیا۔ ہم جب تیار ہو کر نیچے بریک فاسٹ روم میں آئے تو ناشتہ شروع ہو چکا تھا۔ ہم نے خوب مزے کا ناشتہ کیا اور پھر کافی منگوا کر پینے اور باتیں کرنے لگے ۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم دہلی کی سیر کو نکل گئے۔
پاتالی نے اپنے لئے بھی ایک نئی جینز اور شرٹ خریدی۔ میرے لئے بھی ایک نئی پتلون اور بش شرٹ خریدی اور پھر ہم ٹیکسی لے کر دوپہر تک شہر کی سیر کرتے رہے ۔ ہوٹل میں آکر دوپہر کا کھانا کھایا۔ میں تو سو گیا پاتالی ایک بار پھر شہر کی سیر کو نکل گئی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد ہم ہوٹل کے ڈسکو روم میں آ کر بیٹھ گئے۔ لڑکیاں لڑکے ڈانس کر رہے تھے۔ رنگ برنگی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ میوزک بج رہا تھا۔ ہمیں تو ڈانس کرنا نہیں تھا۔ میں اور پاتالی ایک میز پر بیٹھے کافی سے دل بہلا رہے تھے۔
اتنے میں دو باڈی بلڈر ٹائپ کے آدمی جنہوں نے تنگ جینز پہن رکھی تھیں ہمارے پاس آ کر خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مجھے بڑا عجیب لگا۔ میں نے انہیں کہہ دیا۔ آپ کو یہاں بیٹھنے سے پہلے ہماری اجازت لینی چاہئے تھی۔ یہ ٹیبل ہم نے ریزرو کروایا ہوا ہے۔‘‘ ان میں سے ایک آدمی نے بڑے سخت لہجے میں کہا۔ " ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ہم جہاں چاہیں بیٹھ سکتے ہیں۔“ پھر وہ پاتالی کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا اور بولا۔ ’’ڈار لنگ! آؤ ڈانس کرتے ہیں۔
پاتالی نے کہا۔ ”میں ڈانس نہیں کیا کرتی ۔“ دوسرے باڈی بلڈر نے کہا۔ ”ہم جس کو اپنے ساتھ ڈانس کرنے کے لئے کہتے ہیں وہ انکار نہیں کر سکتی۔ “
پاتالی نے بڑے نرم لہجے میں کہا۔ ”مسٹر ! میں نے کہہ دیا نا کہ میں ڈانس نہیں کیا کرتی۔“
یہ دونوں آدمی غنڈے معلوم ہوتے تھے۔ میں چپ ہو گیا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ پاتالی ان دونوں کو سنبھال لے گی۔ یہ ان دونوں کی بدقسمتی تھی کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کس عورت سے الجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ ایک غنڈے نے دوسرے سے کہا۔’’دارا! یہ تو بڑی آنکھیں دکھا رہی ہے ۔‘‘ دوسرے غنڈے نے کہا۔ ’’ابھی اس کو ٹھیک کئے دیتا ہوں۔ یہ کیا اس کا باپ بھی میرے ساتھ ڈانس کرے گا۔‘‘
پاتالی بڑے تحمل کا ثبوت دے رہی تھی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ابھی تک پاتالی کے چہرے پر غیض و عضب کے ذرا سے بھی اثرات نمایاں نہیں ہوئے تھے۔اس نے کہا۔ ”دیکھو مسٹر ! میں ایک بار پھر آپ لوگوں کو کہتی ہوں کہ ہمیں پریشان نہ کرو۔ نقصان اٹھاؤ گے۔“
جو غنڈہ زیادہ بدمعاشی دکھانے کی کوشش کر رہا تھا اس نے کہا۔ ” دیکھتا ہوں کیسے ڈانس نہیں کرو گی۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی اس نے پاتالی کو بازو سے پکڑ کر کھینچا۔ جیسے ہی پاتالی کو اس نے اپنی طرف کھینچا پاتالی کے سر کے بالوں میں سے ایک سنہری رنگ کا سانپ نکل کر غنڈے کی گردن سے لپٹ گیا اور اس نے اس کی گردن کو دبانا شروع کر دیا۔ غنڈہ دونوں ہاتھوں سے سانپ کو چڑاتے ہوئے چیخنے چلانے لگا اور نیچے گر پڑا۔ دوسرا غنڈہ ڈر کر بھاگ گیا۔
وہاں شور مچ گیا۔ لڑکے لڑکیاں جمع ہو گئے ۔ کیا ہوا کیا ہوا۔ لڑکیاں لڑکے خوف زدہ نگاہوں سے غنڈے کے گلے میں سانپ کو لپٹا دیکھ کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔
پاتالی نے کہا۔ ” معلوم نہیں کیا ہوا؟ یہ آدمی یہاں آ کر بیٹھ گیا تھا کہ نیچے سے ایک سانپ نکل آیا جو اس کی گردن سے لپٹ گیا ہے۔“ غنڈے کے حلق سے غرغراہٹ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئی تھیں۔ ڈر کے مارے کوئی اس کے قریب نہیں جاتا تھا۔ سانپ نے دیکھتے ہی دیکھتے غنڈے کے ماتھے پر ڈس دیا اور اس کی گردن سے اتر کر ایک طرف کو بھاگا۔ لڑکیاں لڑکے چیختے ہوئے ادھر ادھر ہو گئے مگر میں نے دیکھ لیا تھا کہ سانپ غائب ہو گیا تھا۔
پا تالی نے مجھے کہا۔” چلو اوپر چلتے ہیں ۔‘‘ ہم اوپر اپنے کمرے میں آگئے ۔ پاتالی اوپر آ کر کہنے لگی۔ بعض لوگ اپنے آپ کو دیوتا سمجھنے لگتے ہیں ۔ یہ بڑا بدتمیر تھا۔ میں نے بڑا صبر کیا مگر آخر اسے سبق سکھانا ہی پڑا۔“ میں نے پاتالی سے کہا۔’’ یہ سنہری سانپ تمہارے بالوں میں کہاں سے آ گیا تھا پاتالی؟“
میں نے یو نہی پوچھ لیا تھا حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک بدروح ہے وہ بہت کچھ کر سکتی ہے۔ کہنے لگی۔’’ یہ سانپ تو ہر وقت میرے ساتھ رہتا ہے۔“ ” مگر وہ تو اب غائب ہو گیا ہے ۔‘‘میں نے کہا۔
وہ بولی۔” غائب ہو کہ وہ واپس میرے پاس آ گیا ہے ۔‘‘ اور اس نے اپنے بالوں کی لٹ ہٹا کر مجھے دکھائی تو سانپ اس کے بالوں میں موجود تھا۔ مجھے اس سے اور زیادہ خوف محسوس ہونے لگا مگر وہ میرے لئے بے ضرر تھی۔ وہ میری ساتھی تھی اور ہم ایک دوسرے کے دوست بن چکے تھے۔ ہمیں کمرے میں آۓ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ باہر ایک پولیس انسپکٹر دو سپاہی اور ان کے ساتھ ہوٹل کا مینجر کھڑا تھا۔
پاتالی بھی دروازے میں آگئی۔” کیا بات ہے ؟‘‘ اس نے پوچھا۔ انسپکٹر پولیس نے کہا۔ پولیس کو رپورٹ لکھوائی گئی ہے کہ ڈسکو روم میں جو آدمی سانپ کے ڈسنے سے مر گیا ہے وہ سانپ تم نے نکال کر اس پر پھینکا تھا۔‘‘ پاتالی نے کہا۔ اندر آجائیں۔“
سپاہی، مینجر اور پولیس انسپکٹر کمرے میں آگئے ۔ پاتالی نے انہیں بٹھایا اور کہا۔’’یہ رپورٹ کس نے لکھوائی ہے ؟“
پولیس انسپکٹر نے کہا۔ ’’اس آدمی نے لکھوائی ہے جس نے اپنی آنکھوں سے تمہیں اپنے سر سے سانپ نکال کر اس شخص پر پھینکتے دیکھا ہے۔“ پاتالی نے کہا۔ انسپکٹر صاحب! یہ بالکل جھوٹ ہے۔ میں کوئی جادو گرنی نہیں ہوں کہ میرے بالوں میں سانپ لپٹا ہوا ہے ۔‘‘ پولیس انسپکٹر نے کہا۔ "شریمتی جی ! تین اور آدمیوں نے آپ کے خلاف گواہی دی ہے ۔ آپ کو ہمارے ساتھ پولیس سٹیشن چلنا ہوگا۔ “ پاتالی نے کہا۔ ”مجھے پولیس سٹیشن جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ تشریف لے جائیں۔“ پولیس انسپکٹر کو غصہ آگیا۔ اس نے کہا۔’’ایسی بات ہے تو ہم آپ کو گر فتار کر کے لے جائیں گے ۔“
پاتالی مسکرائی۔ کہنے لگی۔’’انسپکٹر صاحب ! ابھی تک اس دنیا میں ایسا آدمی پیدا نہیں ہوا جو مجھے گرفتار کر کے تھانے لے جائے۔“ میں یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہاں بھی کوئی ڈرامہ ضرور ہوگا۔ آخر وہی ہوا۔ پولیس انسپکٹر نے کہا۔” تو پھر میں آپ کو گرفتار کرتا ہوں۔“ اس نے ایک سپاہی کو حکم دیا۔ گنگارام اشرمیتی کو ہتھکڑی لگا دو۔ “ میں پاتالی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پاتالی بڑے سکون کے ساتھ صوفے پر بیٹھی اس سپاہی کو دیکھ رہی تھی جس کو اسے ہتھکڑی لگانے کے لئے کہا گیا تھا۔ سپاہی اپنی پیٹی کو ادھر ادھر ٹولنے لگا۔
پولیس انسپکٹر نے پوچھا۔ کیا د یکھ رہے ہو ؟"
سپاہی نے کہا۔ سر ! ہتھکڑی ھلکڑی نہیں مل رہی۔“
کیا کہہ رہے ہو ؟‘‘ پولیس انسپکٹر نے کہا۔ ” تم لے کر نہیں آئے تھے ؟“ ”سر لے کر آیا تھا مگر اب نہیں مل رہی۔‘‘ سپاہی نے کہا۔ انسپکٹر نے دوسرے سپاہی کو حکم دیا کہ شریمتی کو ہتھکڑی لگاؤ۔ دوسرے سپاہی نے بھی اپنی پیٹ کو دیکھا تو اس کی ہتھکڑی بھی غائب تھی۔ پولیس انسپکٹر نے غصے میں کہا۔ " تمہاری ہتھکڑی کہاں چلی گئی ہے ؟“
دوسراسپاہی بولا۔ ”سر ! میں نے خود ہتھکڑی بیلٹ کے ساتھ باندھی تھی۔ پت نہیں کہاں چلی گئی ہے ۔
انسپکٹر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پاتالی سے کہا۔ ’’ آپ خاموشی سے ہمارے ساتھ پولیس سٹیشن چلے چلیں۔ اور نہ ہمیں آپ کو اٹھا کر لے جانا پڑے گا۔“ پاتالی نے کہا۔ ’’اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جہاں آپ کے سپاہیوں کی ہتھکڑیاں غائب ہوئی ہیں وہاں آپ بھی غائب ہو جائیں تو بے شک مجھے اٹھا کر لے چلیں۔ “ پولیس انسپکٹر سمجھ ہی نہیں سکتا تھا ۔۔کہ پاتالی کیا کہہ رہی ہے۔
انسپکٹر نے آگے بڑھ کر پاتالی کا بازو پکڑنا چاہا تو اس نے انسپکٹر کے بازو کو پیچھے جھٹگ دیا۔ جیسے ہی اس نے انسپکٹر کا بازو جھٹکا انسپکٹر غائب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ہوٹل منیجر اور دونوں سپاہی ڈر کے بت سے بن کر رہ گئے۔ ان کی آنکھوں میں دہشت ہی دہشت تھی۔ پاتالی غضب ناک ہو چکی تھی۔ اس نے دونوں سپاہیوں کو بھی ہاتھ کے اشارے سے غائب کر دیا۔ اب وہاں صرف مینجر رہ گیا تھا۔ وہ پاتالی کے قدموں میں گر پڑا اور گڑ گڑا کر بولا ۔ ’’دیوی! مجھے شاما کر دو۔ میں نہیں آنا چاہتا تھا تھانیدار مجھے زبردستی ساتھ لے آیا تھا۔“
پاتالی نے کہا۔’’ اٹھو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گی۔“ منیجر بے چارہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی۔ پاتالی نے کہا۔ ” جاؤ ۔ “ منیجر کانپتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
پاتالی نے میری طرف دیکھا اور بولی۔ " یہ پولیس والے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں ؟ میں ان کی خصلت کو اچھی طرح جانتی ہوں ۔ یہ کمزور کو دیکھ کر اس پر ظلم کرنے لگتے ہیں۔ اب یہ انسپکٹر کبھی کسی کمزور پر ظلم نہیں کر سکے گا۔“۔ میں نے پوچھا۔’’ یہ سپاہی اور انسپکٹر غائب ہو کر کہاں گئے ہیں ؟“
پاتالی نے کہا۔’’ یہاں سے سینکڑوں میل دور اس وقت راجستھان کے صحراؤں میں بھٹکتے پھر رہے ہوں گے ۔‘‘ پھر کہنے لگی۔’’اب میرا یہاں سے دل بیزار ہو گیا میں نے کہا۔” میرا بھی یہاں رہنے کو دل نہیں چاہتا۔ میرا خیال ہے ہمیں کسی دوسرے ہوٹل میں چلے جانا چاہئے ۔ “ ہم اسی وقت ہوٹل چھوڑ کر باہر آگئے۔ مینجر وغیرہ کی جرات نہ ہوئی کہ ہم سے پوچھتا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں کیوں جا رہے ہیں۔ ہم نے ٹیکسی لی اور ایک دوسرے بڑے ہوٹل میں آگئے ۔
اس ہوٹل میں ہم نے ابھی ایک دن ہی گزارا تھا کہ سورج غروب ہونے کے بعد درگا کی بدروح ظاہر ہو گئی۔ ہم اس وقت ہوٹل کے سوئمنگ پول کے پاس ایک طرف آرام سے کرسیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ درگا کی بدروح کو دیکھتے ہی پاتالی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’درگا میا!‘‘ - درگا نے کہا۔ میں جس چیز کا سراغ لگانے گئی تھی اس کا سراغ لگا لیا ہے ۔‘‘
پھر وہ بھی ہمارے پاس آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی ۔ ” مجھے بدروحوں کی سردارنی مالینی نے وہ جگہ بتا دی ہے جہاں نتالیا نے اپنی کھوپڑی چھپائی ہوئی ہے۔ اب ہمیں وہاں جانا ہوگا۔‘‘
پاتالی نے پوچھا۔ ” وہ جگہ کون سی ہے درگا میا؟‘‘ درگا کہنے لگی۔ ’’یہاں سے جنوب کی طرف لنکا کا ملک ہے۔ لنکا کے ملک میں کرونا پلی کا گھنا جنگل ہے۔اس جنگل میں ایک بودھ مٹھ ہے جہاں بھکشو لوگ دن رات تپسیا کرتے ہیں ۔اس بودھ مٹھ کے پاس ایک ٹیلہ ہے ۔ اس ٹیلے میں ایک غار ہے ۔ اس غار میں تین اندھیری کوٹھڑیاں ہیں۔ تیسری کوٹھڑی میں ایک لوہے کا صندوق پڑا ہے ۔ نتالیا کی کھوپڑی اس صندوق کے اندر ہے ۔“
پاتالی نے پوچھا۔ ’’درگا میا! وہاں کون کون سی بدروحیں پہرہ دیتی ہیں ؟“ درگا نے کہا۔ ’’وہاں تین بدروحیں ہر وقت پہرے پر موجود رہتی ہیں۔ وہ غار کے دہانے پر بیٹھی رہتی ہیں۔ یہ نتالیا کی سب سے خطرناک بدروحیں ہیں۔ ان پر قابو پانا ہمارے بس میں نہیں ہے ۔“
" تو پھر ہم کیسے غار میں داخل ہوں گے ؟‘‘پاتالی نے پوچھا۔
درگا نے جواب میں کہا۔’’ان بدروحوں کا توڑ میں مالینی سے لے آئی ہوں۔“
”وہ کیا ہے درگا میا‘‘ پا تالی نے سوال کیا۔
درگا نے کہا۔ ”وہ میں تمہیں اس وقت بتاؤں گی جب ہم غار کے قریب جنگل میں پہنچ جائیں گے ۔“
پاتالی کہنے لگی ۔’’ ہمیں اس وقت ملک لنکا کی طرف روانہ ہو جانا چاہئے۔“
درگا میا نے کہا۔ ”نہیں، ہم شام کے وقت چلے تو رات کو وہاں پہنچیں گے۔ ہم کل صبح کے وقت یہاں سے نکلیں گے ۔ میں صبح آؤں گی تم تیار رہنا۔“ اس کے بعد درگا چلی گئی۔
دوسرے دن صبح کے وقت وہ ہمارے کمرے میں پہنچ گئی۔ کہنے لگی۔”کیا تم لوگ تیار ہو ؟“
پاتالی نے کہا۔ ” میں تیار ہوں۔‘‘
میں نے کہا۔’’ میں بھی تیار ہوں۔‘‘
درگا نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”تم انگوٹھی نکال کر پہن لو۔“ عین اسی وقت ہوٹل بواۓ ناشتے کے بل پر میرے دستخط کروانے کے لئے کمرے میں آ گیا۔ درگا بدروح کو وہ نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ وہ غائب تھی ۔ میں اور پاتالی ابھی غائب نہیں ہوئے تھے۔ پاتالی نے بل پر دستخط کرنے کی بجاۓ پرس میں سے ایک ہزار روپے کا نوٹ نکال کر بل کے ساتھ رکھ دیا اور ہوٹل بوائے سے کیا۔ ’’ہم جا رہے ہیں۔ یہ کل کے ناشتے ، رات کے کھانے اور دو پہر کے کھانے اور آج صبح کے ناشتے کا بل ہے۔
ہو ٹل بوائے نے کہا۔ میں ابھی باقی پیسے لے کر آتا ہوں۔ پاتالی نے کہا۔’’ باقی کے پیسے تم رکھ لینا۔ یہ تمہاری ٹپ ہے ۔“ ہوٹل بواۓ حیران سا ہو کر رہ گیا کیونکہ اسے کافی ٹپ مل رہی تھی۔ وہ آرام
آرام سے ناشتے کے برتن اٹھا اٹھا کر ٹرے میں رکھنے لگا۔
درگا نے کہا۔’’ پاتالی اور شیروان! دیر نہ کرو نکل چلو۔“ اس کی آواز ہوٹل بواۓ نہیں سن سکتا تھا۔ پاتالی نے مجھ سے کہا۔ انگوٹھی پہن
لو۔“
میں نے انگوٹھی نکال کر پہن لی اور ایک دم غائب ہو گیا۔ ہوٹل بوائے کی ہماری طرف پیٹھ تھی اس کے ساتھ پاتالی بھی غائب ہو گئی۔اسی لمحے ہوٹل بواۓ نے پیچھے مڑ کر کہا۔ " بیگم صاحب ....."
وہ کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ ہم دونوں میں سے کمرے میں کوئی نہیں ہے تو وہ صرف حیران ہی نہیں دہشت زدہ بھی ہو گیا تھا۔ ہم کمرے سے نکل گئے ۔۔
میں درگا کو بھی دیکھ رہا تھا اور پاتالی کو بھی غیبی حالت میں دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے غیبی حالت میں دیکھ رہی تھی۔ درگا ہمیں ہوٹل کی چھت پر لے آئی۔ سورج طلوع ہو چکا تھا۔ درگا نے کہا۔ ” تم دونوں میرے پیچھے پیچھے پرواز کرو گے۔“ اور درگا فضا میں بلند ہو گئی۔ اس کے بعد پاتالی فضا میں بلند ہوئی اور اس کے پیچھے میں بھی فضا میں اوپر کو اٹھ گیا۔ پاتالی نے میرا ہاتھ نہیں پکڑ رکھا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’اب تم میرے ساتھ میرا ہاتھ پکڑے بغیر بھی اڑ سکو گے ۔“ ہماری رفتار اتنی نہیں تھی جتنی روہنی کی پرواز کرتے وقت ہوا کرتی تھی۔اس کے باوجود ہم کافی تیز رفتاری سے پرواز کر رہے تھے۔
ہمارا رخ ہندوستان کے جنوب کی طرف تھا۔ سری لنکا کا ملک ہندوستان کے جنوب میں واقع ہے ۔ ہم آہستہ آہستہ فضا میں کافی بلندی پر آکر پرواز کر رہے تھے۔ نیچے سے ہندوستان کے شہر ، دریا، پہاڑ اور جنگل آتے اور گزر جاتے تھے۔ ہندوستان کی تکون کے قریب پہنچے تو بادلوں کے بڑے بڑے ٹکڑوں نے ہمیں گھیر لیا۔ ہندوستان کے جنوب میں بڑی بارشیں ہوتی ہیں اور اکثر بادل چھاۓ رہتے ہیں۔ ایک جگہ ہم بادلوں کے ذرا نیچے ہو کر جار ہے تھے کہ ہم پر بارش کی بوندیں پڑنے لگیں۔ پاتالی نے کہا۔’’بارش ہو رہی ہے ۔‘‘ میں نے کہا۔ ” میں بھی بھیگ رہا ہوں ۔
پاتالی نے کہا۔ درگا میا! ہم بادلوں کے اوپر جار ہے ہیں۔ اور ہم غوطے لگا کر آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھتے چلے گئے اور پھر بادلوں کے اوپر آگئے ۔ بادلوں کے اندر سے گزرتے ہوۓ مجھے دھچکے بھی لگے اور بادلوں کے اوپر دھوپ نکلی ہوئی تھی۔اس طرح ہم بھارت کی جنوبی تکون کو عبور کر گئے ۔ سری لنکا اور انڈیا کے در میان سمندر ہے جس کی لمبائی تقریبا پچیس تیس میل ہوگی۔ جب ہندوستان اور لنکا انگریزوں کے قبضے میں تھا تو مسافر مدراس سے ہندوستان کی تکون کے آخری ساحلی شہر دھنش کوڑی تک ٹرین میں سفر کرتے تھے۔ دھنش کوڑی سے وہ ایک چھوٹے سمندری جہاز میں سوار ہو کر لنکا کے شمالی ساحل کی چھوٹی سی بندرگاہ ٹالی منار پہنچتے تھے۔
وہاں ایک ٹرین کولمبو جانے کے لئے تیار ہوتی تھی۔ مسافر اس ٹرین میں بیٹھ جاتے تھے اور وہ ٹرین ایک رات اور تقریبا ایک دن کے سفر کے بعد کولمبو پہنچ جاتی تھی۔ مگر ہمیں نہ تو ٹرین میں بیٹھنے کی ضرورت تھی اور نہ سمندری جہاز میں سوار ہونے کی مجبوری تھی۔ ہم تو بوئنگ جہاز کی طرح ہوا میں پرواز کر رہے تھے اور ہماری رفتار بوئنگ جہاز سے دو گنا زیادہ تھی چنانچہ ہم دوپہر ہونے سے پہلے پہلے سری لنکا کے ملک کی سرحد عبور کر گئے ۔
پاتالی نے درگا سے پوچھا۔ ”درگا میا! کرونا پلی کا جنگل کس طرف کو ہے ؟“
درگا نے جواب دیا۔ ” میں اسی طرف جار ہی ہوں۔“ کرونا پلی کا جنگل سری لنکا کے مشرقی ساحل پر واقع تھا۔ سری لنکا کا ملک ایک بہت بڑا جزیرہ ہے اور اس کے چاروں طرف سمندر ہے۔ یہ گرم مرطوب ملک ہے اور یہاں بارشیں بہت ہوتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ملک گھنے جنگلوں سے بھرا ہوا ہے۔ سری لنکا کا مذہب بدھ مت ہے اور اس ملک میں بدھ مت کے بہت عالیشان مندر ہیں۔ ان کو مندر نہیں کہا جاتا بلکہ پگوڈا کہا جاتا ہے ۔ بدھ مت کے پجاریوں کو بھی پجاری نہیں بلکہ بھکشو کہا جاتا ہے ۔
جس وقت ہم سری لنکا کے ملک کی فضا میں داخل ہوئے تو آسمان بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔ چونکہ بارش نہیں ہو رہی تھی اس لئے ہم بادلوں کے اوپر پرواز کرنے کی بجائے بادلوں کے نیچے زمین سے کافی بلندی پر اڑ رہے تھے۔ مجھے نیچے ناریلیوں کے جھنڈوں کے جھنڈ دکھائی دے رہے تھے۔ ان جنوبی علاقوں میں ناریل کا درخت بہت
پایا جاتا ہے ۔ ہمارے نیچے سے جنگل ہی جنگل گزر رہے تھے۔ اتنے گھنے جنگل میں نے ہندوستان میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ سیاہ بادلوں نے ان پر سایہ ڈال کر اندھیرا سا کر رکھا تھا۔
ہمارے آگے آگے درگا ہدروح پرواز کر رہی تھی۔ اس کے پیچھے میں اور پاتالی اڑ رہے تھے ۔ کافی دیر تک جنگلوں کے اوپر پرواز کرنے کے بعد درگا ایک جگہ پہنچنے کے بعد نیچے آنا شروع ہو گئی۔ ہم بھی اس کے ساتھ ہی نیچے آنے لگے ۔ ہم اتنا نیچے آ گئے کہ مجھے درختوں کے اوپر والی شاخیں صاف نظر آرہی تھیں۔ کچھ دور تک ہم اس طرح درختوں سے ڈیڑھ سو فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے چلے گئے۔ درگا اور نیچے آ گئی۔ ایک جگہ اس نے جنگل کے اوپر گول دائرے میں چکر لگایا اور فضا میں ساکت کھڑی ہو گئی جس طرح کہ ہیلی کاپٹر ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ ہم بھی اسی طرح اس کے ساتھ فضا میں کھڑے ہو گئے ۔
درگا نے نیچے اشارہ کرتے ہوئے پاتالی سے کہا۔’’اس وقت ہم کرونا پلی کے جنگل کے عین اوپر ہیں۔ یہاں سے کرونا پلی کا جنگل شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک دریا بہتا ہے ۔ ہم دریا کے دوسرے کنارے پر اتر جائیں گے ۔ "
یہ کہہ کر وہ مشرق کی جانب اڑنے لگی۔ درخت ہمارے نیچے سے تیزی کے ساتھ پیچھے کو جا رہے تھے۔ پھر نیچے ایک دریا دکھائی دینے لگا۔ دریا کی چوڑائی زیادہ نہیں تھی مگر صاف نظر آ رہا تھا کہ اس کے پانی کی رفتار کافی تیز ہے۔ دریا میں کئی چٹانیں بھی تھیں جن کے ساتھ دریا کی موجیں ٹکرا کر تیزی سے آگے نکل رہی تھیں۔
درگا دریا کے دوسرے کنارے پر درختوں کے درمیان اتر گئی۔ ہم بھی اس کے ساتھ ہی اتر گئے۔ بڑا گھنا جنگل تھا۔ چاروں طرف درخت ہی درخت تھے۔ سیاہ بادلوں کی وجہ سے وہاں اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ درگا ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ ایک طرف دیکھ کر بولی۔ بودھ بھکشوؤں کا مٹھ اس طرف ہے۔ چلو اس طرف چلتے ہیں۔۔۔
ہم درگا کے پیچھے چلنے لگے ۔ ہم غائب تھے مگر اس طرح چل رہے تھے جس طرح عام انسان چلا کرتے ہیں لیکن وزن کم ہو جانے کی وجہ سے میرے پاؤں جیسے اپنے آپ اٹھ رہے تھے اور زمین پر اچھی طرح لگتے نہیں تھے۔ یہ بھی عجیب قسم کا تجربہ تھا۔ اس طرح آدمی خواب میں چلا کرتا ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا اور آدمی چل رہا ہوتا ہے۔
راستے میں ایک چھوٹا سا پہاڑی نالہ آیا۔ ہم اس کے اوپر سے گزر گئے۔ اس کے بعد درختوں کے جھنڈ آگئے۔ ان کے آگے زمین سے باہر نکلی ہوئی تین چار چٹانیں تھیں جن پر بارش نے سبرز نگار لگا دیا ہوا تھا۔ یہ چٹانیں جنگل میں ایسے بھوتوں کی مانند کھڑی تھیں جو کسی طلسم کے اثر سے پتھر بن گئے ہوں۔ درگا ہمیں لے کر ان چٹانوں میں سے بھی گزر گئی۔اس کے آگے مجھے ناریل اور کیلے کے درختوں کے جھنڈ میں ذرا اونچائی پر ایک بودھی مٹھ کا کلس دکھائی دیا۔
درگا نے پاتالی کو وہ کلس دکھاتے ہوئے کہا۔ " یہ ہے وہ بودھی مٹھ جس کے پیچھے وہ ٹیلہ ہے جس کے غار میں نتالیا نے اپنی کھوپڑی چھپائی ہوئی ہے ۔۔۔
ہم مٹھ کے پہلو سے ہو کر گزر گئے۔ مٹھ پر گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مٹھ کے پیچھے کچھ فاصلے پر ایک ٹیلہ نظر آیا جو جنگلی جھاڑیوں اور درختوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ درگا رک گئی۔ کہنے لگی ۔’’پاتالی! یہاں سے آگے نتالیا کی ان بدروحوں کی سرحد شروع ہو جاتی ہے جو اس کی کھوپڑی کی حفاظت کر رہی ہیں ۔"
یہ کہہ کر درگا ہمیں اور پیچھے اس جگہ لے آئی جہاں مٹھ میں تپسیا کرنے والے بودھ بھکشوؤں نے ایک جھونپڑی بنا رکھی تھی۔ جھونپڑی کے پیچھے گھنا جنگل تھا جہاں ایک چھوٹا سا پہاڑی نالہ بہہ رہا تھا۔ اس نالے کے کنارے ایک جگہ سیاہ چٹان نالے کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ درگا ہمیں اس چٹان کے پاس لے آئی۔ چٹان کے نیچے ایک قدرتی شکاف بنا ہوا تھا۔ یہ چھوٹے سے غار کی طرح تھا۔
درگا نے کہا۔ ” یہاں بیٹھ جاتے ہیں ۔‘‘ ہم چٹان کے نیچے دس بارہ فٹ اندر کو بنے ہوۓ شگاف میں بیٹھ گئے۔ ۔ پاتالی کہنے لگی۔ ’’درگا میا! کیا آپ بتائیں گی کہ آپ مالینی سے ان بدروحوں کے طلسم کو توڑنے کے لئے کون سا منتر لائی ہیں ؟“
درگا نے ایک منٹ تک کوئی جواب نہ دیا۔ پھر بولی۔ "پاتالی! اب جو کچھ کرنا ہے تمہیں ہی کرنا ہے۔ یہ کس قدر خطرناک ہے اور تمہیں کس قدر احتیاط سے یہ کام کرنا ہوگا اس کا تمہیں اندازہ ہو گیا ہوگا۔ ۔۔ پاتالی نے کہا۔ ”درگا میا! میں آپ کی ہدایت کے مطابق کام کروں گی۔ اگر اس میں میری جان بھی چلی جاۓ تو پرواہ نہیں کروں گی۔“ آپ ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بدروحیں تو پہلے ہی مر چکی ہوتی ہیں۔ یعنی مرے ہوۓ کافروں کی بدروحیں ہوتی ہیں پھر یہ دوبارہ کیسے مر سکتی ہیں۔
یہ فلسفہ مجھے ایک بار روہنی نے سمجھایا تھا۔ ان بت پرست ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اگر اپنے برے کرموں کی وجہ سے کوئی بت پرست عورت یا مرد مرنے کے بعد بدروح بن جاتا ہے تو وہ آدھا زندہ ہوتا ہے ۔ اگر کسی طاقتور بدروح کے حملے سے کمزور بدروح آگ میں جل کر راکھ ہو جاتی ہے تو اس بدروح کی راکھ ایک ہزار سال تک جنگلوں ، میدانوں، دریاؤں اور سمندروں میں جہاں جہاں اس کے ذرے جاتے ہیں بھٹکتی رہتی ہے۔ ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد وہی راکھ ایک بار پھر اکٹھی ہو کر بدروح کی شکل میں جنم لیتی ہے اور دوبارہ بھٹکنے لگتی ہے ۔ عجیب مضحکہ خیز اور خرافات کا فلسفہ ہے ۔ مگر بتوں کو پوجنے والے کافر اس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں ۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 31

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں