تین سو سال قبر میں رہنے والا آدمی - اردو کہانی

urdu story

تین سو سال قبر میں رہنے والا آدمی - اردو کہانی

شاہ عبدالعزیزؒ کے پاس ایک آدمی آیا بڑا عجیب سا دیکھتا تھا ایسے کپڑے پہنے تھے جیسے پرانے زمانے کا کوئی مالدار شحض ہو کہنے لگا حضرت مجھے ایک مسلہ ہے شاہ عبدالعزیزؒ نے پوچھا کیا مسلہ ہے کہنے لگا میں بہت مالدار تھا بڑی عیش عیشرت میں زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن آقا نے مجھے نوکری سے نکال دیا پیسے حتم ہوگئے فقر کا وقت آگیا میں اپنے گھر چلا آیا پیسے نہیں تھے تو گھر والوں نے عزت دینا چھوڑ دیا
 میرے بچے مجھے ملامت کرنے لگے کہ گھر میں بیکار پڑے رہتے ہو کوئی کام کیا کرو میں گھر والوں پر بوجھ بن گیا ایک دن غصے میں گھر سے نکلا ایک گھوڑا تھا اور کچھ کپڑے لیے جانے لگا تو گھر والے رونے لگے کہ آپ کدھر جارہے ہے لیکن میں نا روکا اور سفر کرنے لگا کافی سفر کرنے کے بعد ایک جگہ انتظار گاہ میں بیٹھ گیا وہاں کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھی کچھ عورتیں مسافر تھی اور کچھ عورتیں جسم فروش تھی جو وہاں انتظار گاہ میں مسافروں کے لیے بیٹھی ہوتی تھی اور مسافروں کو اپنا جسم بیچتی تھی کہتے ہے میں وہی پر پریشان بیٹھا تھا کہ ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ کیا چاہئے میں نے کہا کہ میں مسافر ہوں میرے پاس کچھ نہیں اگر کھانے کو کچھ ہو تو دے دو

 وہ میرا مقصد نہیں سمجھی انہوں نے کھانے کو دیا تو کچھ عورتیں آگئی اور کہنے لگی رات کے لیے کیا ارادہ ہے میں نے کہا میرے پاس آگے سفر کرنے کے بھی پیسے نہیں جو کھانا دیا ہے اس کے بدلے مجھ سے کوئی مزدوری کروالو اتنے میں ایک عورت آئی اور مجھ سے باربار پوچھنے لگی کہ آپ کیوں پریشان ہو تو میں نے پورا واقعہ بتا دیا کہ گھر والوں نے گھر سے نکال دیا میں کہیں مزدوری ڈھونڈنے کے لیے نکلا ہو اور میرے پاس پیسے بھی نہیں تو اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے طرف لے جانے لگی 
میں نے کہا کہ میں اپکے ساتھ نہیں جا سکتا میں غریب بندہ ہو وہ مجھے زبردستی کھنچ کر گھر کے اندر لے گئی اور کہنے لگی کہ گھبراٶ نہیں مجھے اپکے حال پر ترس آگیا میں جسم مجبوری میں بیچتی ہو وہ مجھے کمرے میں لے گئی اور ایک تھیلی نکالی اس میں دس دینار تھے وہ مجھے دیے اور کہنے لگی یہ پیسے میں نے جسم بیچ کر نہیں کمائے میں نے مزدوری کرکے کمائے ہے یہ پیسے میں نے اپنے کفن دفن کے لیے رکھے تھے کہ میں نے ساری عمر جسم فروشی کرکے پیسے کمائے ہے لیکن اپنا کفن حرام کے پیسے سے نہیں لونگی اس لیے میں نے مزدوری کر کے کمائے ہے یہ پیسے آپ لے لو اگر اپکے پاس ہوئے تو دے دینا اگر نا ہوئے تو ساری زندگی گناہوں میں گزری ہے اگر حرام کے پیسوں کے کفن میں دفن ہوئی تو کوئی بات نہیں۔دس دینار لے کر میں وہاں سے چل دیا کہ ایک جگہ ایک مالدار آدمی کو دیکھا میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ حضرت مسافر اور غریب آدمی ہو کوئی مزدوری چاہئے وہ کہنے لگا کون سا کام کر سکتے ہومیں نے کہا ہر کام کر سکتا ہو فقر و فاقہ اورپریشانیوں کا مارا ہوا ہو ایک عورت سے دس دینار قرض لے کر آیا ہو جو بھی کام بولو گے کرونگا انہوں نے مجھے اپنے ساتھ مزدوری پر رکھ لیا اللہ نے مجھے فہم اور سمجھ ذیادہ عطا کی تھی میں اسکا حاص آدمی بن گیا اس کے پاس جو بھی آتا وہ مجھے دیتا
 ایک زمانہ گزرا کہ مجھے گھر سے ایک خط مو صول ہوا کہ بچوں کی شادی کے لیے پیسے بھیج دو میں نے حط ساتھ لیا اور کچھ ہاتھی اور اونٹ ساتھ لے کر نکلا آٹھ ہزار دینار میرے پاس تھے ( اس وقت اٹھ ہزار دینار آج کے مطابق کروڑوں بنتے ہے ) اٹھ ہزار دینار ایک تھیلی میں لے کر چل پڑا جب اسی انتظار گاہ پر پہنچا تو میں نے وہاں کے عورتوں سے پوچھا کہ یہاں فلاں عورت رہتی تھی وہ کہنے لگے کہ ہاں وہ تو بیمار ہے بستر پر پڑی ہے فقر و فاقہ میں ہے کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا ہم سے جو بچتا ہے اسے کھانے کو دیتے ہے میں نے کہا مجھے وہاں لے چلو جب اسکے پاس پہنچا تو وہ بہت برے حال میں تھی میں نے کہا اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں آگیا ہو اپکو جو چاہئے بولو تو وہ کہنے لگی مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں میں توبہ کر چکی ہو میرا وقت آچکاہے جسم کمزور ہو چکا ہے بستر مرگ پر ہو مجھ پر بس اتنا احسان کر دینا کہ میرے مرنے تک میرے پاس رہو اور اسی دس دینار سے جو میں اپکو دیے تھے میرے کفن دفن کا انتظام کر کے چلے جانا
میں نے کہا ٹھیک ہے میں وہی اس کے پاس رہنے لگا کچھ ہی ہفتے گزرے تھے کہ اس کا انتقال ہو گیا میں نے اس دس دینار کے مقابلے میں کئی گنا ذیادہ پیسے اس کے کفن دفن پر لگا دیئے۔پیسوں کی تھیلی میں اپنے پاس رکھتا اسے دفن کر کے میں واپس آکے سو گیا۔رات کو ایک خوفناک خواب آیا اور میں گھبرا کے اٹھ بیٹھا دیکھا تو پیسوں کی تھیلی پاس نہیں تھی میں نے بہت ڈھونڈا لیکن کہیں نہیں ملی سوچنے لگا کہ کہاں گئی کہ یکدم یاد آیا کہ وہ تو قبر کے اندر رہ گئی پیسے بہت ذیادہ تھے تو میں نے قبر کھودنے کا ارادہ کر لیا قبر ابھی تازہ تھی میں نے کھودنا شروع کر دیا جب مٹی ہٹا کر دیکھا تو قبر کے اندر سے تھیلی اور عورت دونوں غائب تھےمیں بڑا حیران ہواکہ عورت کدھر گئی
 میں نے اور کھودنا شروع کیا کہ شاید مٹی ذیادہ ڈال دی ہو اور وہ نیچے ہو کافی مٹی ہٹانے کے بعد میں نے ایک منظر دیکھا سامنے ایک دروازہ تھا میں نے اندر جھانک کر دیکھا تو سامنے عالی شان محل دیکھائی دیے سامنے تحت پر ایک حوبصورت شہزادی بیٹھی تھی میں گھبرا گیا کہ شاید میں کسی اور دنیا میں آگیا ہو اگر بادشاہ نے دیکھ لیا تو سر قلم کر دےگا میں بھاگنے لگا تھا کہ نوکروں نے پکڑا اور شہزادی کے پاس لے گئے۔وہ کہنے لگی آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں نے کہا نہیں!کہنے لگی میں وہی عورت ہو جس کو آپ نے اپنے ہاتھوں سے دفنایا تھا میں نے پوچھا یہ سب کیسے ہوا کہنے لگی میں نے ساری عمر جسم بیچا تھا اللہ کا سامنا کرتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی کہ میرا یہ پالید اور گندا جسم اس قابل نہیں کہ میں اللہ کے سامنے کھڑی ہو سکو۔اللہ رب العزت نے فرمایا شرمانا نہیں آپ نے میرے نام پر غیرت کی ہے میرے مجبور بندے کی مدد کی ہے آج دس دینار کے بدلے میں نے اپکو جنت عطا کی ہے۔
کہتے ہے میں نے قبر میں تین ساعت گزارے تو اس عورت نے کہا جلدی یہاں سے نکلو اگر تھوڑی دیر اور روکے تو دنیا کا نظام بدلا ہوا ہوگا۔میں قبر سے نکلا تو دنیا بدل چکی تھی لوگوں کے کپڑے بدل چکے تھے جو انتظار گاہ تھی وہاں پر عالی شان عمارت کھڑی تھی۔سب کچھ بدلہ ہوا تھا تھیلا میرے ہاتھ میں تھا میں حیران و پریشان کھڑا تھا۔وہی پر ایک باباجی کھڑے تھے میں نے پوچھا بابا یہاں ایک انتظار گاہ ہوا کرتی تھی تو وہ کہنے لگا مجھے معلوم نہیں او میں تمہیں اپنے والد کے پاس لے چلو شاید اسے پتہ ہو میں وہاں گیا تو ایک نہایت عمر رسیدہ شحض چارپائی پر لیٹا تھا میں نے ان سے پوچھا کہ بابا یہاں پر ایک انتظار گاہ ہوا کرتی تھی تو وہ کہنے لگا بیٹا میں نے حود تو نہیں دیکھا لیکن اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ یہاں ایک انتظار گاہ ہوا کرتی تھی جہاں پر جسم فروش عورتیں رہا کرتی تھی وہاں پر ایک بدکار عورت تھی جس کی قبر میں ایک شحض اترا تھا تین سو سال ہوگئے وہ شحض واپس نہیں نکلا تو میں نے کہا کہ بابا وہ شحض میں ہی ہو تو بابا نے انکھوں کو انگلیوں سے کھول کے مجھے دیکھا شاید اسکی نظر کمزور ہوگئی تھی یا اسے یقین نہیں آرہا تھا میں نے بابا جی کو وہ پیسے دیکھائے تو وہ بولا کہ ان پیسوں کا مجھے بھی نہیں معلوم کہ کس زمانے کے ہے یہاں ایک محدث رہتا ہے شاہ عبدالعزیزؒ اس کا نام ہے اسی کے پاس چلے جاو تو وہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒکے پاس چلا گیا اور سارا واقعہ بیان کیا تو اس نے فرمایا کہ اپکے زمانے کے لوگ یہاں نہیں ہے آپ مکہ مکرمہ چلے جاو اور وہاں عبادت کرتے رہو وہ شحض مکہ مکرمہ چلا گیا وہاں بیت اللہ میں عبادت کرتا رہا اور وہی پر وفات پائی اسے جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔


آنکھیں بھیگ جاتی ہیں (مکمل اردو کہانی)

خطرناک بچھو اور یہودی کا قصہ

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں