پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 31

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 31


پاتالی کا جرات آموز بیان سن کر درگا بدروح نے اسے کہا۔ ” پاتالی! تمہارے مرنے سے کچھ نہیں ہوگا الٹا ہمیں نقصان پہنچے گا۔ تمہیں مرنا نہیں ہوگا تمہیں بدروح کی حالت میں غار میں داخل ہو کر اپنی تمام شیطانی عقل اور شیطانی طاقت سے کام لے کر غار کے اندر تیسری کوٹھڑی میں داخل ہو کر نتالیا کے آسیب کی کھوپڑی کے دو کھڑے کرنے ہوں گے اور کھوپڑی کے دونوں ٹکڑے لے کر تم یہاں میرے پاس آؤ گی۔ یہ میرا تمہیں حکم ہے۔‘‘

پاتالینے کہا۔ ”درگا میا میں مروں گی نہیں۔ اگر مرنا ہی پڑ گیا تو مجھ پر وشواش رکھو۔ میں نتالیا کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے کر کے دونوں ٹکڑے آپ کو دے کر مروں گی۔۔
درگا نے کہا۔” شاباش! میں یہی چاہتی ہوں۔ اب جو منتر میں تمہیں بتانے والی ہوں اس کو غور سے سنو۔ میرے سامنے آکر بیٹھ جاؤ۔“ پاتالی درگا کے سامنے بیٹھ گئی۔ درگا نے اس کے ماتھے پر اپنی انگلیاں رکھ دیں اور کہا۔ میں جو منتر اپنے دل میں پڑھوں گی تم اسے اپنے دل میں دہراتی جانا۔" اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ میں درگا بدروح کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں کوئی خاص منتر پڑھ رہی تھی جو پاتالی کے دماغ میں درگا کی انگلیوں کے ذریعے منتقل ہو رہا تھا۔

درگا نے انگلیاں پیچھے ہٹا لیں اور پاتالی سے پوچھا۔ ” کیا تم نے منتر کو سن لیا
پاتالی نے کہا۔ ’’سن لیا ہے درگا میا!‘‘
اسے اچھی طرح سے یاد کر لو ۔ درگا نے کہا۔ پاتالی نے کہا۔ "درگا میا! مجھے منتر یاد ہو گیا ہے ۔ میں اسے کبھی نہیں بھولوں گی۔
درگا بدروح کہنے لگی ۔ ” آج آدھی رات کے وقت تم یہاں سے نکل کر ٹیلے کی طرف جاؤ گی اور اس منتر کو پڑھ کر دائیں بائیں اور آگے پھونکتی جاؤ گی ۔اس منتر کا یہ اثر ہوگا کہ بدروحیں نہ تمہیں دیکھ سکیں گی ، نہ تمہارے سانس کی آواز سن سکیں گی اور نہ تمہارے جسم سے نکلنے والی بدبو سونگھ سکیں گی۔ یہ بدروحوں کی مہارانی کا خاص منتر ہے جو مالینی نے مجھے خاص طور پر دیا ہے۔ اس طرح تم غار میں داخل ہو جاؤ گی۔
غار کے اندر تم تیسری کوٹھڑی کے پاس جا کر اس کے دروازے کے دائیں بائیں یہی منتر پڑھ کر پھونکو گی۔ پھر تم کوٹھڑی میں داخل ہو جاؤ گی۔ کوٹھڑی کے اندر کونے میں وہ صندوق پڑا ہے جس میں نتالیا کی کھوپڑی بند ہے ۔ تم صندوق پر بھی یہی منتر پڑھ کر پھونکو گی اور بند صندوق میں ہاتھ ڈال کر اندر سے نتالیا کی کھوپڑی نکال لو گی . . . . یہ بڑا نازک لمحہ ہوگا۔ اگر تم سے ذرا سی بھی غلطی ہو گئی ،اگر تم ذرا سی بھی لڑکھڑ ا گئی تو یاد رکھو تمہیں تو جل کر راکھ ہونا ہی ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہم نتالیا کے آسیب کی قید سے روہنی کو کبھی نہ چھٹرا سکیں گے ۔ “

پاتالی نے کہا۔ ’’درگا میا! آپ بے فکر ر ہیں ۔ میں نہ لڑکھڑاؤں گی اور نہ کوئی غلطی کروں گی۔“
درگا کہنے لگی ۔ ” تمہیں کھوپڑی کو صندوق میں سے نکالنے کے بعد ایک لمحے کا انتظار کئے بغیر فورا اس کو دو ٹکڑے کر دینا ہوگا۔ کھوپڑی کے ٹوٹتے ہی تمہیں آ سیبی بدروحوں کی ڈراؤنی آوازیں سنائی دیں گی۔ ہر طرف چیخ و پکار مچ جاۓ گی۔ ڈراؤنی شکل والی بدروحیں تم پر حملہ کر دیں گی مگر تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ تم مالینی کا منتر پڑھ پڑھ کر پھونکتی جاؤ گی اور کھوپڑی کے ٹکڑے لے کر غار سے باہر آجاؤ گی اور سیدھی یہاں ہمارے پاس پہنچو گی۔
یہاں آجانے کے بعد سب چیخ و پکار اور ڈراؤنی آوازیں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی۔“
پاتالی بڑے غور سے درگا بدروح کی باتیں سن رہی تھی۔ جب درگا نے اپنی بات ختم کی تو وہ کہنے لگی۔ ایسا ہی ہوگا درگا میا۔ ‘‘ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ کاش ایسا ہی ہو اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ روہنی کو نتالیا کے آسیب سے تو پھر کوئی نہیں چھڑا سکے گا اور اگر وہ آزاد نہ ہوئی تو میں نتالیا کے آسیب کی زد میں ہی رہوں گا۔ وہ مجھے اکیلا پا کر کسی بھی وقت مکاری سے میرا تعویذ حاصل کر کے مجھے اٹھا کر لے جا سکے گی اور اس بار میں اس کی قید میں چلا گیا تو پھر سواۓ خدا کی ذات کے مجھے کوئی اس کی قید سے نہیں نکال سکے گا۔

ہم سارا دن غیبی حالت میں چٹان کے شگاف یا غار کے اندر بیٹھے رہے۔ سورج غروب ہو گیا۔ جنگل میں شام کا اندھیرا چھا گیا۔اس کے بعد اندھیرا رات کی تاریکی میں بدل گیا۔ جنگل پر ایسی خاموشی چھا گئی کہ مجھے اس خاموشی سے خوف محسوس ہونے لگا۔ میں ان دو خطرناک بدروحوں میں گھرا ہوا خاموش بیٹھا رہا اور سوچنے لگا کہ فیروز! تمہارے ساتھ یہ کیا ہو گیا ہے ۔ نہ تم ویران محل میں اس مرتبان کو کھولنے کی حماقت کرتے اور نہ آج اس حالت کو پہنچتے اور نہ ان بدروحوں کے چنگل میں پھنستے ۔

مگر مجھ سے یہ حماقت سر زد ہو گئی تھی اور اب میں اس کی سزا بھگت رہا تھا۔ جب رات کافی گہری ہو گئی تو درگا نے پاتالی سے کہا۔ ”جو منتر میں نے تمہارے دل میں ڈالا ہے اس کو اپنے دل میں دہراؤ۔“ پاتالی ایک دو سیکنڈ خاموش رہی۔ پھر کہا۔ درگا میا! میں نے منتر تین بار دہرالیا۔۔
درگا اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ پاتالی کے ساتھ میں بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ درگا نے مجھ سے کہا۔’’شیروان ! تم بیٹھے رہو ۔‘‘
میں بیٹھ گیا۔ درگا نے پاتالی کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور کچھ پڑھ کر اس کے چہرے پر پھونک مار کی اور کہا۔ ” جاؤ۔‘‘
پاتالی نے دونوں ہاتھ جوڑ کر درگا کے آگے اپنا سر جھکایا اور رات کے اندھیرے میں چٹان کے شگاف میں سے نکل کر جنگل کے درختوں کی طرف چل دی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے درگا سے پوچھا۔ ’’اگر فرض کر لیا کہ پاتالی سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے اور یہ کام اس سے نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا؟“ ۔ درگا نے کہا۔ " یہ اس وقت سوچوں گی ۔ابھی تم خاموشی سے بیٹھے رہو ۔“ پھر جانے درگا کے دل میں کیا خیال آیا۔ وہ مجھ سے کوئی بات کئے بغیر درختوں کی طرف چل پڑی۔ دو تین قدم چلنے کے بعد رک کر میری طرف دیکھا اور میرے پاس آکر کہنے لگی۔ اس جگہ سے باہر مت آنا۔“

اس نے چٹان کے شگاف کے آگے نصف دائرے کی شکل میں پاؤں سے ایک لکیر ڈال دی اور کہا۔ ”جب تک تم اس لکیر کے اندر ہو تمہیں کسی بدروح کا آسیب نہیں چھو سکے گا۔ اگر ڈر کر اس لکیر سے باہر آگئے تو پھر میں ذمہ دار نہیں ہوں گی۔“ یہ کہا اور وہ جنگل کی تاریکی میں اس طرف چل پڑی جس طرف پاتالی گئی تھی۔ میں وہاں اکیلا بیٹھا رہا۔ دل میں طرح طرح کے خیال آرہے تھے کہ ابھی جنگل میں نہ جانے کیا کچھ نہیں ہوگا۔ خدا جانے کیسی کیسی چیخیں بلند ہوں گی۔
کیسی کیسی ڈراؤنی آوازیں آنے لگیں گی۔ آخر یہ بدروحوں کی جنگ تھی۔ دو بلیوں کی لڑائی ہوتی ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں اور یہ تو ایک بدروح اور ایک خطرناک بدروح کے آسیب کی جنگ ہے۔“
نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ گھڑی میرے پاس نہیں تھی۔ جنگل پر ایک دہشت ناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اچانک اندھیرے میں ، میں نے درگا کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ وہ تیز تیز قدموں سے نہیں بلکہ زمین سے دو فٹ بلند ہو کر اندھیرے میں تیرتی ہوئی میری طرف آرہی تھی۔ چٹان کے شکاف میں آکر وہ میرے پاس شگاف کے کنارے کھڑی ہو گئی۔ کہنے لگی۔ "میں نے پاتالی کو بدروحوں کے علاقے میں داخل ہوتے دیکھ لیا ہے ۔ وہ بالکل ٹھیک کام کر رہی ہے۔ مالینی کے منتر نے پورا اثر دکھایا ہے۔
میں نے کہا۔’’درگا! تمہیں پاتالی کے ساتھ جانا چاہئے تھا۔“ اس نے کہا۔’’ ہم بدروحوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ ہم اس حد کے اندر نہیں جا سکتیں۔۔۔
میں نے کہا۔ لیکن اگر پاتالی تمہاری غلام بدروح جاسکتی ہے تو تم کیوں نہیں جا سکتی ۔۔
درگا نے کہا۔ ”یہ تم نہیں سمجھ سکو گے ۔ اس کو سمجھنے کے لئے تمہیں خود بدروح کی شکل میں جنم لینا ہوگا۔‘‘
میں نے بے اختیار کہا۔ ’’خدا اس عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے۔“ درگا کہنے لگی ۔ ” تم مسلمانوں کی یہ بات بھی مجھے پسند ہے کہ تم ہر لمحے اپنے خدا کو یاد رکھتے ہو اور اس کی پناہ مانگتے ہو۔
میں کچھ کہنے لگا تو درگا نے سرگوشی کی ۔’’شی ! خاموش!‘‘ میں کچھ کہتے کہتے چپ ہو گیا۔ درگا نے کوئی آواز سنی تھی جو میں نہیں سن سکا تھا لیکن اس کے بعد جو آواز آئی وہ میں نے ضرور سنی۔ یہ آواز ایسی تھی جیسے کوئی جوالا مکھی پھٹ پڑا ہو۔ ایک دھماکہ تھا۔ ایسا دھماکہ جس نے اس چٹان کو ایسے ہلا دیا جیسے بھیانک زلزلہ آ گیا ہو۔ درگا نے کہا۔’’گھبرانا مت شیروان! پاتالی نے نتالیا کے آسیب پر حملہ کر دیا ہے۔“
میں بھی اپنی جگہ سے ہل گیا تھا۔ مگر اپنے آپ کو پوری طرح سے قابو میں رکھے ہوئے تھا۔ خوفناک دھماکے کے بعد جنگل میں ایک سناٹا چھا گیا۔ پھر اچانک جنگل ایک بھیانک چیخ کی آواز سے گونج اٹھا۔ درگا نے اونچی آواز میں کوئی منتر پڑھ کر پھونکا اور کہا۔ ”
پاتالی! پیچھے مت ہٹنا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔“ اس چیخ کے بعد ایک بار پھر گہری خاموشی چھا گئی۔ چند سیکنڈ کے بعد جنگل میں سے پاتالی کی آواز سنائی دی ۔’’درگا میا! میں نے کام کر دیا ہے۔ درگا کے حلق سے خوشی کی چیخ بلند ہوئی ۔ اس نے کہا۔’’ پاتالی پاتالی!‘‘ دوسرے لمحے پاتالی ہمارے سامنے کھڑی تھی ۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں وحشت برس رہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ ڈرگا کے آگے کر دیئے ۔ اس کے ایک ہاتھ میں کھوپڑی کا ایک ٹکڑا تھا اور دوسرے ہاتھ میں کھوپڑی کا دوسرا ٹکڑا تھا۔ کہنے لگی۔ درگا میا یہ نتالیا بدروح کی کھوپڑی ہے ۔“
درگا نے خوش ہو کر پاتالی کا منہ چوم لیا۔ یہ سن کر کہ یہ نتالیا بدروح کی کھوپڑی ہے میری جان میں جان آگئی۔ درگا نے کہا۔ ”شیروان! تمہیں مبارک ہو۔ نتالیا بدروح کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمہیں چھٹکارا مل گیا ہے ۔“ میں نے پاتالی اور درگا دونوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا۔’’مگر روہنی کہاں ہے ؟
درگا نے کہا۔’’اس کی فکر نہ کرو۔ وہ بھی بہت جلد تمہارے پاس آجاۓ گی۔“ پھر درگا مجھے اور پاتالی کو لے کر چٹان کے شگاف سے باہر آگئی۔ اس نے پاتالی سے کہا۔ " نتالیا کی کھوپڑی کے ٹکڑے زمین پر رکھ دو۔“ پاتالی نے کھوپڑی کے دونوں ٹکڑے زمین پر رکھ دیئے ۔ درگا نے کوئی منتر پڑھ کر اس پر پھونکا۔ اچانک کھوپڑی کے دونوں ٹکڑوں کو آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے کھوپڑی کے دونوں ٹکڑے راکھ بن گئے۔
درگا نے پاتالی سے کہا۔’’اس راکھ کے اوپر مٹی ڈال دو۔‘‘ پاتالی نے راکھ پر مٹی ڈال دی۔ درگا نے میری طرف دیکھا اور کہا۔ ”شیروان! تم بڑے خوش قسمت ہو کہ تمہیں ایک بدروح سے ہی نہیں بلکہ بدروح کے خطرناک آسیب سے نجات مل گئی ہے۔ایک مصیبت سے ہمیشہ کے لئے تمہارا اور روہنی کا پیچھا چھوٹ گیا ہے۔
اب تمہارا صرف ایک ہی دشمن باقی ہے اور وہ ہے پجاری رگھو کی بدروح ..... جو روہنی کو اس لئے دوبارہ اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس کی بدروح ہے اور چونکہ تم نے اس کی غلام بدروح کو آزاد کر دیا تھا اس لئے وہ تمہیں ہلاک کر کے تم سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتا ہے ۔ میں نے کہا۔ ” کیا پجاری رگھو کی بدروح سے چھٹکارا پانے کے لئے تم ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔۔
درگا نے کہا۔ ’’ پجاری رگھو کا مقابلہ کر نے کے سلسلے میں میری کچھ مجبوریاں ہیں ۔ اسے تم نہیں سمجھ سکو گے۔ یہ میں روہنی کو بتاؤں گی۔“ میں نے کہا۔’’مگر روہنی کہاں ہے ؟‘‘ ”ویران محل میں چل کر بتاتی ہوں ۔‘‘درگا نے کہا۔
اسی رات ہم سری لنکا کے کرونا پلی کے جنگلوں سے نکل کر جے پور کی طرف روانہ ہو گئے ۔ ہم واپس بھی اسی طرح آۓ جس طرح گئے تھے یعنی ہم ہوا میں پرواز کر رہے تھے ۔ درگا بدروح آگے آگے تھی۔ میں اور پاتالی پیچھے تھے۔ رات کے اندھیرے نے چھٹنا شروع کر دیا تھا کہ ہم جے پور کے ویران محل میں پہنچ گئے۔ درگا ہمیں اپنے آسیبی تہہ خانے میں لے آئی۔ اس نے مجھ سے کہا۔ ”شیروان! یہاں سے ہمارا اور تمہارا ساتھ ہمیشہ کے لئے ختم ہوتا ہے۔ آج کے بعد ہماری ملاقات نہیں ہوگی۔
میں نے کہا۔ ”لیکن ابھی تو مجھے روہنی سے بھی ملنا ہے اور رگھو پجاری سے بھی نجات حاصل کرنی ہے ۔ “
درگا نے کہا۔’’اس بارے میں ، میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتیں۔“
تو پھر کون مدد کرے گا ؟“ میں نے کہا۔
درگا کہنے لگی۔ ”روہنی تمہاری مدد کرے گی۔ تمہارا خدا تمہاری مدد کرے گا۔ اب معاملہ روہنی اور تمہارے خدا کے ہاتھ میں ہے ۔“ میں چپ ہو گیا۔ میں نے پوچھا۔ ’’مگر روہنی کہاں ہے ؟ وہ یہاں کیوں نہیں آئی۔ وہ تو اب نتالیا کے آسیب کی قید سے آزاد ہو چکی ہے ۔ " درگا نے کہا۔ " تم بھول گئے ہو کہ روہٹی اب بدروح نہیں رہی۔ اس کے وہ برے کرم جو اس کے زندگی میں گناہوں سے اس کی روح کے ساتھ چمٹ گئے تھے اب اس کی روح سے الگ ہو چکے ہیں ۔
جتنی سزا اس نے بھگتنی تھی بدروح کی شکل میں اس نے بھگت لی ہے ۔ وہ پہلے بھی اتنی گھناؤنی بدروح نہیں تھی اور ہماری طرح اس نے مرنے کے بعد بدروح کی حیثیت سے جنم نہیں لیا تھا کیونکہ وہ مرنے سے پہلے مسلمان ہو چکی تھی اور مسلمانوں میں دوسرا جنم نہیں ہوتا۔ ہاں ایک روح کو اس کے برے اعمال کی سزا ضرور ملتی ہے ۔ روہنی یعنی سلطانہ کی روح کو بھی اتنی ہی سزا مل رہی تھی لیکن ایک خاص مدت گزر جانے کے بعد اس کی روح کے گناہ ڈھل گئے ہیں اور اب وہ ایک نیک روح بن چکی ہے۔
چونکہ وہ نیک روح بن چکی ہے اس لئے نہ وہ ہمارے قریب آسکتی ہے اور نہ ہم اس کے قریب جاسکتیں ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جہاں روشنی ہو جاتی ہے وہاں اندھیرا نہیں ٹھہر سکتا۔ روہنی سلطانہ اب روشنی ہے اور ہم اندھیرے ہیں ۔ ہم اس کے پاس نہیں جاسکتیں ۔اندھیرا روشنی کے پاس نہیں جا سکتا اور روشنی ہمارے پاس آئی تو ہم غائب ہو جائیں گی کیونکہ ہم اندھیرے کی مخلوق ہیں ۔ میراخیال ہے کہ اب تم میری بات اچھی طرح سے سمجھ گئے
ہوگے۔“
درگا نے مجھے اتنی وضاحت کے ساتھ کھول کر سمجھایا تھا کہ ساری حقیقت میری سمجھ میں آگئی تھی۔ میں نے کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے خود ہی روہنی سے جا کر ملنا ہوگا۔“
ہاں۔‘‘درگا نے کہا۔
”وہ مجھے کہاں ملے گی ؟‘‘میں نے پوچھا۔ درگا نے کہا۔ ’’یہ میں تمہیں بعد میں بتاؤ گی کہ روہنی تمہیں کہاں ملے گی۔ ابھی میں تمہیں ایک ایسی چیز دینا چاہتی ہوں جو تمہارے دشمن پجاری رگھو کا ناش کر نے میں تمہاری مدد کرے گی۔ تمہارے پاس پاتالی کی انگوٹھی بھی ہے جس کو پہن کر تم غائب ہو سکتے ہو۔ تمہارے بازو پر کالے جادوگر کا تعویذ بھی بندھا ہوا ہے۔ اب میں تمہیں ایک منتر بتاتی ہوں۔ یہ ایک لفظ کا منتر ہے ۔ اس کو تم اس وقت پڑھوں گے جب تمہیں روہنی کہے گی ۔ اب میں تمہیں وہ منتر بتاتی ہوں۔ اپنا کان میرے قریب
کرو۔“
میں نے اپنا کان درگا کے منہ کے قریب کیا تو اس نے مجھے ایک لفظ کا منتر بتایا۔ یہ لفظ ، یہ شبد مجھے اس وقت یاد تھا مگر عجیب بات ہے کہ اب بالکل یاد نہیں رہا۔ اس کے بعد درگا کہنے لگی۔ اب میں تمہیں بتاتی ہوں کہ روہنی تمہیں کہاں ملے گی۔“ اس نے کہا۔’’روہنی سلطانہ کی نیک روح کہاں رہتی ہے؟ یہ مجھے نہ معلوم ہے نہ میں معلوم کر سکتی ہوں۔ مگر میں تمہیں اتنا بتا سکتی ہوں کہ وہ تمہیں کہاں ملے گی۔ یہاں سے تم بھارت کی راجدھانی دہلی جاؤ گے ۔ دہلی میں شہر کے شمال کی جانب مغلیہ زمانے کی ایک قدیم مسجد ہے ۔ اسے بڑی مسجد کہا جاتا ہے۔
بڑی مسجد کے قریب ہی ایک ندی بہتی ہے ۔ ندی کے کنارے سنگ مرمر کی ایک پرانی بارہ دری ہے ۔ رات کے وقت تم اس بارہ دری میں جاکر بیٹھ جاؤ گے ۔ روہنی سلطانہ تمہیں وہیں آ کر ملے گی .....“
میں نے کہا۔ ” کیا میں غائب حالت میں دہلی جاؤں گا یا انگوٹھی اتار کر جانا ہوگا۔ کیونکہ میں غائب ہو کر خود نہیں اڑ سکتا۔“
درگا نے کہا۔ ’’اگر تم اڑ کر جانا چاہتے ہو تو اڑ کر بھی جا سکتے ہو۔ تمہیں صرف یہ کہنا ہوگا مجھے دہلی لے چل اور پاتالی کی انگوٹھی کا طلسم تمہیں ہوا میں اڑاتا ہوا دہلی پہنچا دے گا۔ راستے میں اگر تم کسی جگہ اترنا چاہو تو تمہیں صرف یہ کہنا ہوگا میں نیچے اترنا چاہتا ہوں اور تم اپنے آپ نیچے اتر آؤ گے ۔ اگر تم زندہ انسانی شکل میں ریل گاڑی کے ذریعے سفر کرنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ہے ۔“ میں نے کہا۔ " میں ریل گاڑی میں کیسے سفر کر سکتا ہوں۔ میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیں ہے اور میں پاتالی کی طرح پرس میں سے کرنسی نوٹ بھی نہیں نکال سکتا۔“
درگا کہنے لگی۔ ’’ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ جب تم یہاں سے جاؤ گے تو تمہاری جیب میں سب کچھ ہوگا۔ تم جتنے پیسے نکالنا چاہو گے جیب میں ہاتھ ڈال کر نکال سکو گے۔“
میں نے کہا۔ ” پھر میں ٹرین کے ذریعے ہی سفر کروں گا۔“ درگا نے کہا۔ " ٹھیک ہے۔ تو تمہیں گاڑی میں ہی سفر کرنا۔ اب صبح ہونے والی ہے۔ میرا واپس جانے کا وقت ہو گیا ہے ۔ پاتالی بھی میرے ساتھ ہی جاۓ گی۔“ درگا نے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ کہنے لگی۔ میں تمہارے زندہ انسانوں کے طریقے سے ہی تم سے جدا ہونا چاہتی ہوں۔“ پاتالی نے بھی مجھ سے ہاتھ ملایا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ کہنے لگی۔ ’’شیروان ! تمہارے ساتھ میرے بڑے اچھے دن گزرے ہیں۔ خاص طور پر ماڈرن ہوٹلوں میں گزارے ہوئے لمحے مجھے ہمیشہ یاد ر ہیں گے ۔" میں نے مسکراتے ہوۓ کہا۔’’پاتالی! یہ دن مجھے بھی یاد آیا کریں گے ۔
“ میں کچھ اور کہنے لگا تو درگا اور پاتالی دونوں ایک ساتھ غائب ہو گئیں۔ میں تہہ خانے سے باہر نکل آیا۔ پاتالی کی انگوٹھی میری انگلی میں ہی تھی اور میں غیبی حالت میں تھا۔ درگا کا بتایا ہوا شبد بھی مجھے یاد تھا۔ یہ شبد مجھے روہنی سلطانہ کو جا کر بتانا تھا اور اس نے اس سلسلے میں میری راہ نمائی کرنی تھی ۔ پاتالی کی انگوٹھی کے طلسمی اثر سے میں غیبی حالت میں چل بھی سکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ چلتے ہوۓ میرے جسم کا بوجھ آٹھ گنا کم ہوتا تھا اور زمین پر چلتے ہوئے میرے پاؤں ذرا سی کوشش کے ساتھ ہی اوپر کو اٹھ جاتے تھے اور پھر بڑے آرام سے زمین پر پڑتے تھے۔
پہلے میں نے سوچا کہ اسی طرح چلتے ہوئے سٹیشن تک جاتا ہوں لیکن پھر خیال آیا کہ سٹیشن کا فی دور ہے مجھے جلدی پہنچنا چاہئے ہو سکتا ہے اس وقت دہلی جانے والی کوئی گاڑی مل جاۓ ۔ چنانچہ میں نے آہستہ سے کہا۔’’ میں اڑنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ میں اپنے آپ زمین سے بلند ہونا شروع ہو گیا۔ جب میں زمین سے چھ سات منزلہ بلند ہو گیا تو میں نے کہا۔ ” بس میں اس بلندی پر اڑنا چاہتا ہوں۔“ میں وہاں قائم ہو گیا اور آگے کی طرف اڑنے لگا۔ اڑتے ہوۓ رخ بدلنے کی خاطر مجھے بازوؤں کو دائیں یا بائیں کرنا پڑتا تھا۔
سٹیشن کا راستہ مجھے معلوم تھا۔ اس وقت صبح ہو چکی تھی۔ اچانک مجھے خیال آ گیا کہ دیکھنا چاہئے درگا نے میری جیب میں اپنے طلسم کے زور سے کتنے پیسے ڈالے ہیں ۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو مجھے اپنا بڑہ پھولا ہوا لگا۔ کھول کر دیکھا تو اس میں سو ، سو کے کتنے ہی نوٹ تھے ۔ میں نے بٹوا بند کر کے جیب میں رکھ لیا۔ میں بڑی جلدی ریلوے سٹیشن پہنچ گیا۔ معلوم ہوا دہلی جانے والی گاڑی دو گھنٹے بعد چلے گی۔ یہ میں نے گاڑیوں کی آمدورفت کے بورڈ پر پڑھا۔۔۔
میں نے سوچا کہ ناشتہ کر لینا چاہئے ۔ اس کے لئے میرا اصلی حالت میں واپس آنا ضروری تھا۔ سٹیشن پر کافی لوگ تھے ۔ میں ان کے سامنے ظاہر نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میں ویٹنگ روم کے باتھ روم میں چلا گیا۔ ابھی میں باتھ روم میں داخل ہوا ہی تھا کہ ایک مسافر اندر آگیا اور اس نے باتھ روم کا دروازہ بند کر دیا۔ وہ یہی سمجھا کہ باتھ روم خالی ہے کیونکہ میں اسے دکھائی تو دے نہیں رہا تھا۔ میں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا۔ اس مسافر نے جیب سے پستول نکالا اور اس میں گولیاں بھرنے لگا۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا کہ یہ تو کسی کو قتل کرنے والا ہے۔
گولیاں بھر کر اس نے پستول جیکٹ کی اندر والی جیب میں رکھا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیا اور دھیمی آواز میں اپنے آپ سے کہا۔ "ست پرکاش ! تم نے میری محبت پر ڈاکہ ڈالا ہے اور میری محبوبہ سے شادی کر کے اب ہنی مون منانے جار ہے ہو ۔ مگر میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔“
اتنا کہہ کر وہ دروازہ کھول کر غسل خانے سے نکل گیا۔ نہ جانے کیوں میں نے اسی وقت دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں اس شخص کو کسی نئی نویلی دلہن کا سہاگ اجاڑنے نہیں دوں گا۔ میں اس غیبی حالت میں باتھ روم سے نکل کر اس آدمی کے پیچھے چل پڑا۔ یہ سانولے رنگ کا گھنگریالے بالوں والا آدمی تھا۔ عمر تیس پینتیس کے درمیان ہوگی شکل ہی سے جرائم پیشہ لگتا تھا۔ یہ آدمی پلیٹ فارم پر ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ میں بھی اس کے پاس آ گیا۔ وہ بڑے غور سے مسلسل پلیٹ فارم کے گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں سے مسافر داخل ہو رہے تھے۔
ایسے لگتا تھا کہ اسے کسی کا انتظار ہے۔ میں بھی گیٹ کی طرف دیکھنے لگا۔ اتنے میں گیٹ پر ایک ریشمی ساڑھی میں ملبوس لڑکی ایک سوٹڈ بوٹڈ نوجوان کے ساتھ داخل ہوئی۔ ایک ملازم ان کے ساتھ تھا جس نے دو سوٹ کیس اٹھا رکھے تھے۔ یہ نو بیا جوڑا لگتا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی پستول والا آدمی جلدی سے آڑ میں ہو گیا۔ میں سمجھ گیا کہ اسے اس جوڑے کا انتظار تھا۔ پلیٹ فارم پر آ کر ملازم نے سوٹ کیس رکھ دیئے ۔ لڑکی نے زیور پہن رکھے تھے۔ اس کے خاوند نے اس کو کچھ کہا اور ملازم کو ساتھ لے کر گیٹ سے باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی پستول والا آدمی تیز تیز چل کر لڑکی کی طرف بڑھا۔ میں بھی اس کے ساتھ ہی گیا۔
اس آدمی کو دیکھ کر نو بیا ہتا دلہن پریشان ہو گئی۔ کہنے گئی۔ راکیش! تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔ ست پرکاش ریزرویشن کروانے گیا ہے اس نے دیکھ لیا تو بہت برا ہوگا۔“
پستول والے آدمی نے کہا۔ ”گوری! تم نے میری محبت کو دھوکا دیا ہے اور مجھے چھوڑ کر ست پرکاش سے شادی رچالی ہے ۔ لڑکی نے کہا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا راکیش! بھگوان کے لئے چلے جاؤ۔ میری زندگی برباد نہ کرو۔“
پستول والے آدمی کا نام راکیش تھا۔ وہ کہنے لگا۔ ”گوری ! اب بھی وقت ہے میرے ساتھ بھاگ چلو۔ ہم بمبئی جا کر نئی زندگی شروع کریں گے ۔ لڑکی سخت گھبرائی ہوئی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’راکیش ! میں تیرے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ بات ختم ہو چکی ہے ۔‘‘ راکیش نے غصے میں آکر کہا۔’’بات کو تو میں ختم کروں گا۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہاں سے واپس چل پڑا۔ میں اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا کہ اگر اس نے پستول نکال کر لڑکی کو گولی مارنی چاہی تو میں اس کے ہاتھ سے پستول چھین لوں گا اور اسے ایسا سبق سکھاؤں گا کہ پھر کبھی اس نو بیا ہتا جوڑے کو پریشان نہ کر سکے گا۔
مگر اس نے ایسی کوئی حرکت نہ کی ۔ حقیقت میں وہ یہاں اس لڑکی کے خاوند کو قتل کرنے کا ارادہ لے کر آیا تھا۔ اب مجھے نو بیا ہتا دلہن کے خاوند کو اس بد معاش سے بچانا تھا۔
یہ شخص پلیٹ فارم پر لوہے کے ایک ستون کے پیچھے چپ کر بیٹھ گیا تھا۔ میں اس کے سر پر موجود تھا۔
لڑکی کا خاوند ست پرکاش آ گیا تھا اور اسے ٹکٹ نکال کر دکھا رہا تھا۔ شاید اس نے سیٹوں کی ریزرویشن کروائی تھی۔ میرا ست پرکاش کو جا کر یہ کہنا کہ ایک آدمی اس کو قتل کرنے والا ہے اور وہ پولیس کو اطلاع کر دے بیکار تھا۔ اول تو میں غیبی حالت میں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ست پرکاش میری آواز سن کر ڈر جاتا۔ میں پستول والے راکیش کی جیب سے پستول چھین کر اسے مار کر وہاں سے جا سکتا تھا مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ پھر کسی وقت ست پرکاش کو ہلاک کر سکتا تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ میں اس وقت تک اس پستول والے شخص کے خلاف کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھانا چاہتا تھا جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا کہ وہ ست پرکاش پر قاتلانہ حملہ کرنے والا ہے۔
وقت گزرتا گیا۔ اتنے میں دپلی جانے والی ٹرین آ کر پلیٹ فارم پر کھڑی ہو گئی۔ مسافر ٹرین کی طرف لپکے۔ نو بیاہتا جوڑا بھی ایک بوگی میں سوار ہو گیا۔ میں بھی ان کے ساتھ ہی اس بوگی میں چڑھ گیا۔ یہ کاریڈور والی ٹرین تھی۔ چھوٹے چھوٹے کمپارمنٹس تھے جن کے آگے راہ داری تھی ۔ نو بیا ہتا جوڑا ایک کمپارٹمنٹ کے باہر لکھا ہوا نمبر پڑھ کر اس میں داخل ہو گیا۔ میں باہر کاریڈور میں کھڑکی کے پاس کھڑا رہا۔ میاں بیوی نے اپنے کیبن میں داخل ہونے کے بعد دروازہ بند کر دیا تھا۔ قاتل مجھے کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ راہ داری ایسی تھی کہ ٹرین کے پہلے ڈبے سے لے کر انجن تک چلی گئی تھی۔ قاتل نہ باہر پلیٹ فارم پر تھا اور نہ راہ داری میں نظر آ رہا تھا ۔۔
کچھ دیر کے بعد انجن نے سیٹی دی اور پھر ٹرین چل پڑی۔ مجھے یقین تھا کہ قاتل ٹرین میں سوار ہو چکا ہے ۔اب مجھے اس کے نمودار ہونے کا انتظار تھا۔ غائب ہونے کے بعد میری یہ حالت ہو جاتی تھی کہ نہ مجھے تھکان محسوس ہوئی تھی، نہ بھوک لگتی تھی ، نہ پیاس لگتی تھی۔ میں ایک ہی جگہ گھنٹوں کھڑا رہ سکتا تھا۔ چنانچہ میں نو بیا ہتا جوڑے کے کیبن کے باہر راہ داری میں ٹرین کی کھڑکی کے پاس کھڑا تھا اور قاتل کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ ٹرین دہلی جا رہی تھی اور مجھے بھی دہلی جانا تھا۔
جے پور سے دہلی ٹرین میں سفر کرتے ہوئے راستے میں الور اور ریواڑی دو بڑے سٹیشن آتے ہیں ۔ ریواڑی کے بعد دہلی آ جاتا ہے ۔ یہ کوئی زیادہ لمبا فاصلہ نہیں ہے ۔ مجھے احساس تھا کہ اگر قاتل نے ست پرکاش کو قتل کرنا ہے تو وہ کچھ دیر کے بعد آ جاۓ گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دور سے مجھے قاتل آتا دکھائی دیا۔ وہ راوداری میں ٹرین کی کھڑکیوں کے قریب ہو کر اس کیبن کی طرف آرہا تھا جو نو بیاہتا جوڑے کا کیبن تھا اور جو اس وقت کیبن میں موجود تھے ۔ قاتل نے دونوں ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال رکھے تھے ۔۔۔
مجھے معلوم تھا اس کے ایک ہاتھ میں جیب کے اندر پستول ہے۔ وہ میرے قریب آکر رک گیا۔ مجھے تو وہ دیکھ نہیں سکتا تھا۔ میرے سوا کاریڈور میں اس وقت کوئی نہیں تھا۔ ٹرین پوری رفتار سے جا رہی تھی۔ وہ یہی سمجھا کہ کاریڈور خالی ہے۔ پھر بھی قاتل نے دائیں بائیں دیکھا اور اسی طرح جیب میں ہاتھ ڈالے نو بیاہتا جوڑے کے کیبن کی طرف بڑھا۔ میں بھی اس کے ساتھ آگے ہو گیا۔ اس نے کیبن کے دروازے پر دستک دی۔ دوسری بار دستک دینے پر ست پرکاش نے دروازہ کھول کر قاتل کو دیکھا تو حیران ہو کر بولا۔”تم ؟‘‘ اس کا مطلب تھا کہ وہ راکیش کو جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ وہ اس کی بیوی سے محبت کی کرتا تھا۔ قاتل نے کہا۔ ’’ہاں! میں ۔‘‘
اس کے ساتھ ہی قاتل نے جیب سے پستول نکال لیا اور ست پرکاش کو اندر کی طرف دھکا دیا۔ وہ اس پر فائر کرنے ہی والا تھا کہ پستول اس کے ہاتھ سے اچھل کر غائب ہو گیا۔ ست پرکاش نے فورا کیبن کا دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا دی۔
قاتل ہکا بکا سا کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ پستول کہاں چلا گیا۔ میں نے اسے کہا۔”راکیش! تمہارا پستول میرے پاس ہے۔“ ۔ قاتل نے حیرت زدہ ہو کر دائیں بائیں دیکھا۔ اسے کوئی آدمی نظر نہ آیا تو وہ گھبرا گیا۔ میں نے کہا۔ " میں تمہارے پاس ہی کھڑا ہوں مگر تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔“ قاتل گھیر راوداری میں آگے کی طرف بھاگ اٹھا۔ میں بھی اس کے ساتھ ہی گیا۔ میں اس کے بالکل ساتھ لگا ہوا تھا۔ میں نے کہا۔’’ تم بھاگ کر کہاں جاؤ گے ؟ تم جہاں جاؤ گے میں وہاں موجود ہوں گا۔“
وہ رک گیا۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔ لرزتے ہونٹوں کے ساتھ بولا۔ ”تم . . . . . تم کون ہو ؟“
میں نے کہا۔ ” میں یم دوت ہوں۔“ یم دوت ہندی بلکہ سنسکرت میں موت کے ایلچی کو کہتے ہیں۔ یہی یم دوت ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق موت کے وقت جان نکالنے آتا ہے ۔ یم دوت کا نام سن کر قاتل انجن کی طرف دوڑ پڑا۔ میں اس کے ساتھ ہی تھا۔ میں نے کہا۔ ” میں تمہاری جان نکالنے آیا ہوں ۔ تم یم دوت سے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہو ؟“ اس آدمی کو اور تو کچھ نہ سوجھا اس نے کھڑکی میں سے باہر چھلانگ لگا دی۔ اس وقت آگے کوئی سٹیشن آرہا تھا اور ٹرین کی رفتار ہلکی ہو گئی تھی۔
باہر ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے اور جنگلی جھاڑیاں تھیں۔ وہ ان پر جا کر گر پڑا۔ میں بھی کھڑکی سے نکل کر ہوا میں اڑتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔ قاتل ریت پر سے اٹھا اور لنگڑاتا ہوا ایک طرف کو بھاگا۔ میں نے اس کی گردن دبوچ کر اسے نیچے گرا دیا اور کہا۔’’اب میں تمہاری جان نکالنے لگا ہوں ۔‘‘
قاتل رونے لگا۔ ’’ہاتھ جوڑ کر گڑ گڑاتے ہوئے بولا۔” یم دوت مہاراج! میری جان نہ نکالیں۔ میں ابھی نہیں مرنا چاہتا۔‘‘ میں نے کہا۔ ” تم قاتل ہو ۔ اگر میں وقت پر نہ آ جاتا تو تم نے ست پرکاش کو قتل کر دینا تھا۔ تم قاتل ہو۔ تمہاری سزا موت ہے۔“ وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ ” مجھے نہ ماریں یم ڈوت مہاراج! مجھے نہ ماریں۔ میں ست پرکاش کے پاؤں پڑ کر اس سے معافی مانگ لوں گا۔ میری جان بخشی کر دیں۔ “ میں نے کہا۔ ’’اگر تم دل سے وعدہ کرو کے آئندہ کبھی ست پرکاش کو قتل کرنے کا خیال دل میں نہیں لاؤ گے تو میں یم دیوتا کے آگے سفارش کر کے تمہاری جان بخشی کروا دوں گا۔“
قاتل راکیش کو میں دکھائی تو دے نہیں رہا تھا اس نے میری آواز کے رخ دیکھ کر بولا۔ ”یم دوت مہاراج! میں دل سے وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی بھول کر بھی میں است پرکاش یا اس کی بیوی کو نقصان پہنچانے کا خیال بھی دل میں نہیں لاؤں گا۔‘‘
میں نے کہا۔’’ تم ان کے سامنے بھی کبھی نہیں جاؤ گے ۔“ قاتل نے گڑ گڑا کر کہا۔ ” میں ان کے سامنے بھی کبھی نہیں جاؤں گا۔“ میں نے کہا۔ یادر رکھو! اگر تم اپنے وعدے سے پھر گئے تو میں اس وقت تمہارے پر پہنچ کر تمہارا گلا گھونٹ کر تمہاری جان نکال کر لے جاؤں گا اور تمہارا اگلا جنم بندر کا ہوگا۔
قاتل تھر تھر کانپ رہا تھا۔ " نہیں نہیں مہاراج ! میں ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔“ میں نے اس کی گردن پر زور سے ایک مکا مارا۔ وہ زمین پر گر پڑا اور ہاتھ جوڑ کر تھر تھر کانپنے لگا۔ میں نے کہا۔ ”میں تمہاری سفارش کرنے یم دیوتا کے پاس جا رہا ہوں۔ اگر یم دیوتا نے تمہاری جان بخشی کر دی تو میں تمہاری جان نکالنے نہیں آؤں گا لیکن اگر تم نے اس نوبیا ہتا جوڑے گوری اور ست پرکاش کو نقصان پہنچانے کا سوچا تو میں اس وقت آکر تمہارا گلا گھونٹ دوں گا۔“
ریت پر پڑے پڑے ہاتھ جوڑے کانپتے کپکپاتے ہوۓ قاتل نے کہا۔ ”نہیں ۔ نہیں۔ میں ایسا نہیں کروں گا۔ اگلے جنم میں بھی ایسا نہیں کروں گا۔“ میں نے قاتل کی ٹانگیں بچا کر ریت پر پستول سے دو فائر گئے اور کہا۔ " یہ میری نشانی ہے کہ میں جارہا ہوں۔‘‘ میں وہاں سے پرواز کر گیا۔ اب مجھے دہلی کی طرف جاتی ہوئی ٹرین کو پکڑنا تھا کیونکہ مجھے دہلی کا فضائی راستہ معلوم نہیں تھا۔ میں فضا میں راستے سے بھٹک سکتا تھا۔ میں نے ریلوے لائن کے اوپر پرواز شروع کر دی۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے ٹرین نظر آ گئی۔ میں ایک کھڑکی میں سے ٹرین میں داخل ہو کر راہ داری کے آخری ڈبے کی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔
مجھے نو بیاہتا جوڑے کے کیبن میں جا کر انہیں تسلی دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ اب قاتل راکیش اس جوڑے کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔
میں دہلی پہنچ گیا۔ درگا نے کہا تھا کہ ’’دہلی کے شمال کی جانب مغلیہ زمانے کی ایک قدیم مسجد ہے ۔ اسے بڑی مسجد کہا جاتا ہے۔ بڑی مسجد کے قریب ہی ایک ندی بہتی ہے ۔ ندی کے کنارے سنگ مرمر کی ایک پرانی بارہ دری ہے ۔ تم اس بارہ دری میں جا کر بیٹھ جاؤ گے۔ مگر تم رات کے وقت جاؤ گے ۔روہنی تمہیں وہیں آکر ملے گی۔‘‘ اس کی ہدایت کے مطابق میں دہلی شہر کے شمال کی جانب پرواز کرتا آگیا۔ یہاں مجھے مغلیہ طرز تعمیر کی ایک قدیم مسجد کا گنہد دکھائی دیا۔
میں نیچے اتر آیا۔ مسجد کے صحن میں ایک بزرگ بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ میں سر جھکاۓ خاموشی سے گزرتا ہوا مسجد کے عقب میں آگیا۔ دیکھا کہ نیم کے گھنے درختوں کے درمیان ایک ندی بہہ رہی تھی۔ ندی کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک بارہ دری پر نظر پڑی۔ میں قریب چلا گیا۔ یہ سنگ مر مر کی بارہ دری تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی حالت شکستہ ہو رہی تھی۔
اس بارہ دری میں رات کے وقت روہنی نے مجھ سے ملنا تھا۔ میں نے بارہ دری دیکھ لی تھی۔ وہاں سے پرواز کرتا ہوا شہر کی طرف آ گیا۔ مجھے سارا دن کسی جگہ گزارنا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ وقت کسی اچھے سے ہوٹل میں بیٹھ کر گزارنا چاہئے ۔ دہلی کے ہوٹلوں سے اب میں اچھی طرح واقف ہو گیا تھا۔ میں ایک ماڈرن ہوٹل کے احاطے میں موقع دیکھ کر اتر گیا اور انگوٹھی اتار کر جیب میں رکھ لی اور ظاہر ہو گیا۔ میں پارکنگ میں گاڑیوں کے پیچھے ظاہر ہوا تھا۔ کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔
میں نے اس ہوٹل میں ایک کمرہ لے لیا۔ سب سے پہلے اعلی قسم کا کھانا منگوا کر کھایا پھر کمرے میں سو گیا۔ تیسرے پہر سو کر اٹھا، غسل کیا، کپڑے تبدیل کئے اور چائے منگوا کر پی اور کمرے میں بیٹھا ٹی وی کے پروگرام دیکھتا رہا۔ جب رات ہو گئی تو تھوڑا بہت ڈنر کیا اور کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ جب رات کے گیارہ بجے تو میں نے انگوٹھی پہنی اور غائب ہو کر کمرے کی کھڑکی میں سے نکل کر شہر کے شمال کی طرف پرواز کر گیا۔
چاندنی رات تھی۔ ہر طرف چاندنی کا سنہری غبار سا پھیلا ہوا تھا۔ قدیم مغلیہ مسجد پر ایک پر حلال نقذ بن جھلک رہا تھا۔ میں مسجد کے قریب ہی پرانے باغ میں اتر گیا۔ یہ مغلوں کے زمانے کا باغ تھا جس میں جگہ جگہ سرو کے درخت خاموش کھڑے تھے۔ باغ جہاں ختم ہوتا تھا وہاں ندی کے کنارے سنگ مرمر کی بارہ دری چاندنی رات میں بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔
میں بارہ دری میں آکر بیٹھ گیا اور سلطانہ کا انتظار کرنے لگا۔ اب میں روہنی کو اس کے ہندو نام روہنی سے نہیں یاد کروں گا بلکہ اس کو اس کے اسلامی نام سلطانہ سے یاد کروں گا۔ آپ سے گزارش ہے کہ جب میں سلطانہ کا نام لوں تو آپ سمجھ جائے گا کہ میرا مطلب روہنی ہی سے ہے جو گناہوں کی بخشش کے بعد اب ایک اچھی روح بن چکی ہے ۔
کچھ دیر تک میں بارہ دری میں بیٹھا رہا۔ پھر سوچا کہ اٹھ کر ندی کنارے خوبصورت چاندنی رات کی سیر کرتا رہا۔۔ ۔ جب سلطانہ بارہ دری میں نمودار ہوگی تو اس کے پاس آ جاؤں گا۔ میں بارہ دری سے اتر کر ندی کی طرف چلا ہی تھا کہ مجھے مسجد کی جانب سرو کے درختوں میں ایک سفید انسانی ہیولا دکھائی دیا۔ میں وہیں رک گیا۔ سفید سایہ آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک مجھے ایک ایسی خوشبو محسوس ہوئی جو سلطانہ کی روح کی بخشش کے بعد مجھے اس کے سفید لباس میں سے آتی اکثر محسوس ہوا کرتی تھی۔
میں سمجھ گیا کہ یہ سلطانہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ میں بھی اس کی طرف بڑھا۔ وہ سلطانہ ہی تھی۔ اس کے چہرے پر چاندنی نور بن کر جھلک رہی تھی۔ وہ میرے پاس آکر لگ گئی اور مسکراتے ہوئے بولی۔ "شیروان!
اللہ کی رضا اور تمہاری کوشش سے آخر مجھے نتالیا کے آسیب سے رہائی مل ہی گئی ۔ " میں نے کہا۔ ’’سلطانہ ! نتالیا کا آسیب نتالیا کو ساتھ لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جل کر بھسم ہو چکا ہے ۔ اب وہ ہمیں کبھی کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی۔‘‘ سلطانہ بولی ۔’’ہاں شیروان! میں جانتی ہوں ۔ اللہ نے ہم پر بڑا کرم کیا ہے
کہ ہمیں ایک بہت بری شیطانی عورت کے آسیب سے نجات مل گئی ہے ۔ “ میں نے کہا۔ ”لیکن سلطانہ !! ابھی پجاری رگھو کی بدروح ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔ شاید اب وہ تمہارا تو کچھ نہ بگاڑ سکے گی لیکن اگر میں اس کے پھندے میں آ گیا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی۔‘‘
سلطانہ نے کہا۔ ’’اللہ نے چاہا تو اس بدروح سے بھی تمہارا پیچھا چھوٹ جائے گا اور تم پھر سے ایک سادے نارمل انسان کی طرح زندگی بسر کرنے لگو گے۔“ میں نے کہا۔ ’’درگا اور پاتالی نے میرا بڑا ساتھ دیا تھا۔ درگا نے مجھے ایک لفظ بھی یاد کرا دیا ہے ۔ اس نے کہا تھا کہ اسے یاد کر لو اور یہ لفظ اگر تم رگھو کی بدروح کے سامنے دہراؤ گے تو اس کا ناش ہو جائے گا اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ سلطانہ ہی تمہیں بتاۓ گی کہ یہ لفظ تمہیں کب اور کہاں بولنا ہے ۔‘‘
سلطانہ کہنے لگی۔" ہاں ۔ اس نے ٹھیک کہا ہے ۔ میں تمہیں سب کچھ سمجھا دوں گی۔ چلو بارہ دری میں چل کر بیٹھتے ہیں۔“ ہم سنگ مرمر کی بارہ دری میں آکر بیٹھ گئے۔ میں نے سلطانہ سے پوچھا۔ سلطانہ ! میرا دشمن پجاری رگھو ہمارے خلاف جو کوئی نئی سازش تیار کر رہا ہے کیا تم اس سے باخبر ہو ؟“
سلطانہ نے کہا۔ ”شیروان ! جب سے اللہ تعالی کے حضور میرے گناہوں کی بخشین ہوئی ہے اور میں ایک اچھی روح بن گئی ہوں میں رگھو ، درگا اور پاتالی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہوں۔ میرے گناہ کا آخری مرحلہ وہ تھا جب میں نتالیا کے آسیب کی قید میں تھی۔ جب خدا نے مجھ پر اپنی رحمت نازل فرمائی تو میرے گناہ کا آخری مرحلہ بھی گزر گیا اور میں نتالیا کے آسیب سے آزاد ہو گئی۔ اب اگر نتالیا کا آسیب زندہ بھی ہوتا تو میرے قریب آنے سے پہلے ہی جل کر راکھ ہو جاتا۔ ( یہ تو سلطانہ پہلے بھی کہا کرتی تھی لیکن خیر چھوڑو کہانی ہے کون سا سچ میں ہوا ہے ) یہی حال پجاری رگھو کی بدروح کا ہے۔ جیسا کہ میں نے شاید پہلے بھی تمہیں بتایا تھا کہ اچھی روح اور بری روح کے درمیان فرق یہ ہوتا ہے کہ اچھی روح روشنی ہے اور بدروح اندھیرا ہے اور روشنی اور اندھیرا کبھی اکٹھے نہیں ہوتے۔“
میں نے کہا۔ " تو پھر تم پجاری رگھو سے مجھے کیسے بچا سکو گی؟ میں تو ایک عام انسان ہوں ۔ رگھو ایک بدروح ہے جس کے پاس جادو کی طاقت ہے۔“ سلطانہ کہنے لگی۔ ’’ تمہارے پاس ایمان کی طاقت ہے جس کا مقابلہ دنیا کا بڑے سے بڑا اور برے سے برا جادوگر بھی نہیں کر سکتا۔ ایمان کی طاقت کے آگے کوئی بدروح نہیں ٹھہر سکتی۔ تم خدا پر بھروسہ رکھو اور پھر تمہاری راہ نمائی کو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم بہت جلد اس بدروح کو بھی اس کے آخری عبرت ناک انجام تک پہنچا دو گے ۔ صرف تمہیں تھوڑی سی جرات سے کام لینا ہوگا۔‘‘
میں نے کہا۔’’یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے ۔ میں جرات نہ بھی کروں تو بھی مجھے جرات کرنی ہی پڑے گی۔ اس کے علاوہ اپنے اللہ پر میرا ایمان چٹان کی طرح مضبوط ہے ۔ چنان کسی طوفان میں اپنی جگہ سے گر کر ٹوٹ سکتی ہے لیکن میرا ایمان اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔“
سلطانہ نے خوش ہو کر کہا۔ ’’شیروان! تمہاری یہ بات سن کر مجھے روحانی سکون ملا ہے ۔ گوشت پوست کے جسم میں ہونے کی وجہ سے تمہارے ساتھ کچھ کمزوریاں ، کچھ مجبوریاں بھی لگی ہوئی ہیں ۔ لیکن جو آدمی نیکی کے راستے پر چلتا ہے اللہ کے حکم سے نیکی کی غیبی طاقتیں اس کی مدد کرتی رہتی ہیں۔“ میں نے پوچھا۔ ” مجھے کیا کرنا ہوگا؟“
سلطانہ کہنے گئی ۔ " تم وہی کرو گے جو میں تمہیں کہوں گی۔“
میں بارہ دری میں سلطانہ کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس نے کہا۔ ”تم یہی پوچھنا چاہتے ہو کہ تمہارے دشمن رگھو نے تمہارے خلاف اب کون سا نیا پھندا تمہیں پھنسے کے لئے تیار کیا ہے ۔ میں تمہیں یہ کہوں گی کہ وہ جتنے پھندے چاہے تیار کر لے لیکن اگر تم اپنی جگہ پر ثابت قدم رہو گے اور تھوڑی سی جرات سے کام لو گے تو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘
مگر یہ شیطانی بدروح کہاں پر ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ سلطانہ نے کہا۔ ” پجاری رگھو کی بدروح ہمارے اس روہت گڑھ والے پرانے قلعے کے محل میں ہے جہاں اس نے مجھے قتل کر کے میری روح کو قید کیا تھا اور جہاں سے تم نے میری روح کو اس کی قید سے آزاد کیا تھا اور پھر وہ تمہارا دشمن بن گیا تھا۔“ میں نے کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے ایک بار پھر اسی جگہ پر جانا ہوگا جہاں سے میری مصیبتوں کا آغاز ہوا تھا۔“
سلطانہ نے جواب دیا۔ ’’ہاں شیروان ! تمہیں وہیں جانا ہوگا۔ میں نے تشویش کے ساتھ کہا۔ ”کہیں ایسا نہ ہو کہ میں پھر کسی پہلے سے بھی بڑی مصیبت میں پھنس جاؤں۔“
سلطانہ نے کہا۔ ” نہیں شیروان! ایسا نہیں ہوگا۔ تم یوں سمجھ لو کہ جہاں سے تمہاری مصیبتوں کا آغاز ہوا تھا وہی تمہاری تمام مصیبتوں کا خاتمہ ہو جاۓ گا۔“ ”خدا کرے کہ ایسا ہو ۔‘‘ میں نے کہا۔
سلطانہ بولی ۔”یقین رکھو۔ ایسا ہی ہوگا۔‘‘ میں نے کہا۔’’اس کا مطلب ہے کہ یہاں سے مجھے قلعہ روہت گڑھ کے ویران محل میں جانا ہوگا۔ “
سلطانہ نے کہا۔ ’’ہاں۔ مگر تم اکیلے نہیں ہو گے۔ ایک خاص حد تک میں
تمہارے ساتھ ہوں گی۔ پھر اس کے بعد بھی میں تمہیں دیکھ رہی ہوں گی اور تمہاری راہ نمائی کر رہی ہوں گی۔“
” ہمیں اس آخری مہم پر کب روانہ ہونا ہوگا ؟“ سلطانہ نے کہا۔ ”کل منگل کی رات ہے ۔ پجاری رگھو کی بدروح ہر منگل کی رات کو پرانے محل کے بڑے کمرے میں آکر تمہارے اور میرے خلاف خطرناک خفیہ منتروں کا کیر تن کرتی ہے۔ اگر چہ اسے معلوم ہے کہ میں اب اس کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہوں لیکن وہ اب بھی مجھے دوبارہ قابو کرنے کے جتن کئے جا رہا ہے۔ البتہ تمہارے بارے میں تو اسے یقین ہے کہ اس بار تم اس کے حملے سے نہیں بچ سکو گے۔ تم کل اس وقت یہاں آجانا۔ ہم یہیں سے قلعہ روہت گڑھ والے پرانے محل کی طرف روانہ ہو جائیں گے ۔“
اس کے بعد میں تھوڑی دیر تک سلطانہ کے پاس بیٹھا رہا۔ پھر کل آنے کا کہہ کر وہاں سے اپنے ہوٹل واپس آگیا۔ مجھے ایک تشویش سی لگ گئی تھی کیونکہ اس سے پہلے میرا کبھی کسی بدروح سے آمنے سامنے کا مقابلہ نہیں ہوا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے ایک بہت ہی خطرناک بدروح کے سامنے جانا پڑ رہا تھا۔ اگر چہ سلطانہ نے مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ ہوگی اور میرا دل بھی مضبوط تھا۔ لیکن پھر بھی انسان کمزور ہوتا ہے اور جان اس کو پیاری ہوتی ہے۔
میں سوچتا کہ اگر مجھ سے ذرا سی بھی غفلت ہو گئی یا عین وقت پر سلطانہ میری مدد کو نہ پہنچ سکی یا درگا کا بتایا ہوا طلسمی لفظ کار گر ثابت نہ ہوا تو میں تو مارا جاؤں گا۔
اگلے دن میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں ہی رہا اور خدا سے دعا مانگتا رہا کہ یا خدا - اس آخری مہم میں بھی میری مدد فرمانا ..

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 32

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں