پنڈت اور جنات - پارٹ 1

horror stories
 

Sublimegate Urdu Font Stories

پنڈت اور جنات - پارٹ 1

رات کی خاموشی ہر سو مسلط تھی اور آسمان کی سیاہ
چادر پر پورا چاند چمک رہا تھا۔
دور تک سکوت کا راج تھا۔ ہلکی ہوا کے دوش پر درخت
کی شاخیں ہولے ہولے چھوم رہیں تھیں
اچانک مجھے کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی جیسے کوئی درخت کے سوکھے پتوں پر چہل قدمی کررہا ہو.
میں اس وقت مندر کی چھت پر تھا

میں نے نیچے جھانک کر دیکھا تو وہاں کسی ان دیکھی
مخلوق کے پیروں کے نشان یوں بنتے جارہے تھے جیسے
کوئی دھیرے دھیرے چہل قدمی کے انداز میں چل رہا ہو.
وہ نشان ایک پراسرار نسوانی ہستی کے تھے جو اپنے پشت کے رخ پر چل رہی تھی ۔اس کے پاؤں الٹے تھے۔
کیونکہ بھری بھری زمین پر پیروں کے نشانات الٹے بنتے جارہے تھے۔ ۔۔۔۔۔ بلاشبہ اس مخلوق کا تعلق افریت سے تھا۔
اور اس کا رخ مندر کے اس کمرے کی طرف تھا
جہاں یاتری رہتے تھے جو اپنی منتوں کے لئے دور دراز علاقوں سے آتے تھے اور یہاں قیام کرتے تھے۔
اس وقت اگر کوئی آدم زاد ان ابھرنے والے الٹے پیروں کے نشانات کو دیکھ لیتا تو دہشت سے اس کے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کا، آخری بار دھڑکنے کے بعد رک جانا
یقینی تھا۔

دوسرے ہی لمحے مجھے اس کمرے سے کسی کے سسکنے
کی آوازیں آنے لگی شاید کوئی شدید تکلیف میں مبتلا تھا
وہ افریت اسے ایذا پہنچا رہی تھی۔
شریر جنات کا یہ کھیل میرے لئے کوئی نئی بات نہ تھی
اس لئے میں کروٹ بدل کر دوبارہ لیٹ گیا
یہ مندر کبھی برسوں سے ویران حویلی تھی۔
جہاں میں نے بسیرا کر لیا تھا۔ لیکن پھر حکومت نے اسے ایک مندر اور اناتھ آشرم (یتیم خانہ) بنانے کی منظور دے دیدی جہاں اب بیواؤں اور داسیوں اور بچوں کے ساتھ
یہاں کے بڑے پجاری شنکر لال اور مہاویر رہنے لگے تھے
مندر کے سارے امور کی نگرانی مہاویر کرٹا۔
بڑے پجاری نے اسے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔
مندر بن جانے کے بعد میں نے یہ حویلی چھوڑنے کا فیصلہ
کرلیا تھا۔ کیونکہ انسان اور شیطان دونوں ہی سے ہم
اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ہماری دنیا میں شیطان سے زیادہ
خطرناک انسان کو سمجھا جاتا ہے۔
بچپن ہی سے ہمیں انسانوں سے دور رہنے کی تاکید کی
جاتی ہے۔ اور ہم سے قسم لی جاتی ہے کہ ہمیں انسانوں
کے کسی بھی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرنی ہے۔
اس کے باوجود اکثر جنات اس تاکید کی پرواہ نہیں کرتے اور قسم توڑ دیتے ہیں کیونکہ

انہیں انسانوں کے ساتھ شرارتیں کرنے میں مزا آتا ہے
کچھ جنات کو آدم زادیوں کے حسن کی کشش بھی
انہیں قسم توڑنے پر مجبور کرتی ہے
یوں وہ انسانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
ہمارا قبیلہ ایسے جنات کو اپنی برادری سے الگ کردیتا ہے
قسم توڑنے کی وجہ سے یہ جنات عاملوں اور جادگروں کے قبضے میں بھی آسانی سے آجاتے ہیں اور یوں وہ زندگی بھر ان عاملوں کی غلامی کرتے ہوئے ان کے جائز اور ناجائز کام کرنے لگتے ہیں نافرمانی کی صورت میں یہ عامل انہیں
اپنی شیطانی طاقت سے جلا دیتے ہیں۔
یقیناً آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں ایک مسلمان جن زاد ہوکر
اب تک اس مندر میں کیا کر رہا ہوں ؟
تو اس کے پیچھے ایک کہانی ہے ۔
مہاویر کی کہانی جو آنے والے وقت کا پنڈت تھا۔


مندر کے چپوترے پر پنڈت پجاریوں اور بھگتوں کی ٹولیاں ادھر آدھر جمع تھیں ان میں نوجوان بھی تھے ادھیڑ عمر والے بھی تھے اور کچھ ایسے بوڑھے بھی تھے جو قبروں میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے۔ چبوترے کے اطراف زمین پر بڑے بڑے پھل پھول دار درخت موجود تھے، پاکھوں کے ساتھ قسم قسم کی مورتیاں رکھی نظر آرہی تھیں بائیں جانب ایک خوبصورت لان تھا جس پر کنواری پجارنیں جو مندر کے لئے وقف کی گئی تھی اور داسیاں جو آپس میں بیٹھی کھسر پھسر کر رہی تھی۔
مندر کے بڑے پجاری شنکر لال اور مہاویر جیسے ہی منڈپ میں داخل ہونے تو ایک ہلچل سی مچ گئی ہر شخص اس کی پزیرائی میں پیش پیش تھا۔
کنواری پجارنوں کی نظریں بار بار مہاویر پر اٹھ رہی تھیں،
وہ ایک بائیس سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا
اس کے بدن پر صرف گیروے رنگ گی لنگوٹی، ماتھے پر
سرخ رنگ کا تلک اور گلے میں بہت ساری مالائیں تھی
بڑے پجاری شنکر لال کے ساتھ ساتھ لوگ مہاویر کے
پیروں کو بھی عقیدت سے چھونے لگے تھے۔
کچھ ہی لمحے میں اسٹیج پر لڑکیوں نے بھجن گانا شروع
کئے تو ہر طرف سے تالیاں پیٹنے کی آوازیں انا شروع ہوگئی
مہاویر نے مسکرا کر اس وقت حلق پھاڑتے تماشائیوں کی طرف دیکھا پھر اس کی آنکھیں ایک سولا سالہ خوبصورت
دوشیزہ پر جم گئیں جو اس کو اپنی طرف دیکھتے پاکر
زور زور سے تالیاں پیٹ رہی تھی
دونوں کی آنکھیں صرف ایک لمحے کو ٹکرائیں

مہاویر اس کی طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا تو وہ شرما کر دوہری ہوگئی۔
اور پھر مہاویر نے شنکر لال کی طرف دیکھا جو اس وقت
اسے غصیلی نظروں سے گھور رہا تھا۔
"میرا خیال ہے اب بھوجن ( لنگر) شروع کروادیا جائے"
مہاویر نے بوکھلا کر بڑے پجاری کی طرف دیکھا اور
منڈپ سے نکل کر ہجوم کی طرف بڑھا
لنگر شروع کر دیا گیا۔ مہاویر ہجوم میں کھڑا اپنے ہاتھوں سے لوگوں میں لنگر بانٹ رہا تھا اور لوگ اسے دعائیں
دے رہے تھے۔
میں اس وقت چھت پر کھڑا مہاویر کی طرف دیکھ رہا تھا
اور سوچ رہا تھا کہ ھندو مذہب میں تو زات پات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے جبکہ مہاویر زات پات کا فرق کئے بغیر
ہر دکھی انسان کی خدمت کرتا اور ان کا درد اپنے من میں محسوس کرتا تھا اس لئے لوگ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
کیا خدا ایک مشرک کی یہ نیکی قبول کرے گا؟ ۔۔۔۔۔
میرے من میں سوال اٹھتا اور پھر خود ہی اس سوال کا
جواب مل جاتا کہ " خدا تو سارے گناہوں کو معاف کرنے
کا وعدہ فرما چکا ہے لیکن وہ شرک کو کبھی معاف نہیں
کرے گا۔ لہذا ایسے لوگ چاہے کتنی بھی نیکیاں کریں, نظر نذرانے چڑھائیں اگر من میں زرا سی بھی غیر اللہ
کی محبت ہوگی تو خدا کیسے قبول کرسکتا ہے۔


رات کی پوجا ختم ہوئی تو سب پجاری اور داسیاں اپنے
اپنے حجروں میں چلے گئے البتہ مہاویر بڑے پجاری کے حجرے میں تھا اور اس کے پیر دبا رہا تھا
وہ رات کو سونے سے پہلے ہمیشہ شنکر لال کے پیر دبایا کرتا
"میں تمہارا اس گاؤں کی چھوری کے ساتھ آنکھ مٹکا دیکھ
رہا تھا مہاویر " شنکر لال نے اسے گھورتے ہوئے کہا
"ارے نہیں مہراج ،، میں تو ہجوم کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا" مہاویر نے ہکلا کر کہا
"ہجوم کی طرف؟ یا ہجوم میں کھڑی اس حسینہ کی
طرف؟ جو تمہں بار بار اشارے کر رہی تھی"
پجاری نے اسے ٹوکا
"مت بھولو کہ ہم برہمچاری ہیں اور یہ عورت زات ہمارے
لئے کسی زہریلے ناگ سے کم نہیں ہوتی جو اپنی اداؤں سے عشق کا زہر دے کر ایک یوگی کو کشٹ مبتلا کردیتی ہیں۔ اور یہ بات تم اپنی گرہ سے باندھ لو
"مہراج میں تو آپ کی دی ہوئی تربیت میں ہی پل کر جوان ہوا ہوں ۔ آپ ہی میرے باپ ہیں اور آپ ہی میرے
استاد اور گرو ہیں میں بھلا آپ کی دی ہوئی تعلیم سے کیسے مونہہ موڑ سکتا ہوں" مہاویر نے مودبانہ لہجے میں کہا

"ہاں میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں ، لیکن تم اس وقت
بچے تھے اور اب جوان ہو، گاوں کی اکثر ناریوں کو میں
تمہارے پیچھے منڈلاتے ہوئے دیکھ چکا ہوں
اس لئے مجھے تمہاری فکر رہتی ہے"
"آپ چنتا کیوں کرتے ہیں مہراج، میں اپنے دھرم سے بھٹک کر گناہ کے کسی ایسے راستے کو نہیں اپناؤں گا جو ہمیشہ
میرے ضمیر کو کچوکے لگاتا رہے۔
شنکرلال کے حجرے سے نکل کر مہاویر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کردیا۔ کمرے کی تنہائی میں
اس نے اپنے چہرے پر سے خاکساری کی نقاب اتار پھینکی
اب وہ ایک عام لڑکا تھا جن کے اپنے جذبات ہوتے ہیں
جنہیں مہاویر نے یوگیوں کی طرح دبائے رکھا تھا
وہ لیٹ کر اس لڑکی کے باری میں سوچ رہا تھا نہ جانے وہ کون تھی اور وہ کتنی محبت سے اسے دیکھ رہی تھی

پگلی ،شاہد یہ نہیں جانتی تھی کہ ھم یوگیوں کی
زندگی میں تو صرف تنہائی اور گوشہ نشینی ہوتی ہے
دنیاوی لذتیں تو ہم پر حرام ہوتی ہیں۔"
لیکن اس نے کچھ پنڈتوں کو رات کو چوری چھپے داسیوں
کے حجروں میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے کیونکہ وہ
اپنے جذبات کو لگام نہیں دے پاتے ہیں۔
کیا مجھے بھی ایسا کوئی راستہ اختیار کرنا چاہئے؟
اس تنہائی اور عبادت کے صلہ میں کیا مجھے ایسی حسینہ
کی گرم آغوش نہ ملنے چاہیے جس کے ریشمی بالوں میں
انگلیاں پھیرنے کی اجازت ہو ۔۔۔۔۔۔ لیکن لعنت ہو مجھ پر ۔۔۔
یہ میں کیا سوچ رہا ہوں یہ میرے من میں کیسے خیالات
اور وسوسے اٹھ رہے ہیں ۔۔۔ توبہ ۔۔ توبہ ۔۔توبہ
لعنت ہو تجھ پر اے شیطان تو مجھے بھٹکا رہا ہے۔
میں ایسی سخت عبادتیں کروں گا کہ میرے جذبات مردہ
ہوجائیں۔ اور کوئی خوبصورت سے خوبصورت لڑکی بھی
میرے ان مردہ جذبات میں روح نہ پھونک سکے گی۔"
اور پھر مہاویر کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا کیونکہ کوئی
اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔
دستک تین دفعہ آہستہ آہستہ دی گئی تھی
مہاویر بڑی مشکل سے خیالات کے بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔
"کون ہے؟ آخر کار اس نے پوچھا
"میں ہوں چھوٹے مہراج،" یشودھا نے جواب دیا جو مندر کی بوڑھی داسی تھی۔
مہاویر نے اٹھ کر دروازا کھولا

"شما کیجیے گا چھوٹے مہراج اس سمے آپ کو تکلیف دی"
یشودھا نے گھبراتے ہوئے کہا
"کوئی بات نہیں ماتا جی، لیکن معاملا کیا ہے؟ آپ کافی پریشان لگ رہی ہیں" مہاویر نے نرمی سے پوچھا
"ایک چھوٹی سی سمسیا ہے مہراج، مندر کے مہمان خانے
میں پچھلے ایک ھفتے سے ایک پریوار ٹھہرا ہوا ہے
جو رامپور سے آیا ہے ان کا بیٹا کسی پراسرار بیماری میں مبتلا ہے اور وہ راتوں کو عجیب وغریب آوازیں نکالتا ہے
جس وجہ سے ہمارے دوسرے یاتری خوفزدہ اور پریشان
ہورہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ لڑکے پر کسی بدروح کا سایا ہے۔
تو میں چاہتی ہوں اس پریوار کو کسی اور کمرے میں
منتقل کردوں۔ اس کے لئے آپ کی اجازت چاہئے"
"ٹھیک ہے آپ چلیے، میں بھی مہمان خانے کی طرف آتا ہوں
مہاویر مہمان خانے کا دروازا کھول کر اندر داخل ہوا
جو یاتریوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا
تو وہ چونک پڑا کیونکہ وہاں بوڑھے بتی پتنی کے ساتھ وہی خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جو مہاویر کو دیکھ کر
مسکراتے ہوئے تالیاں پیٹ رہی تھی۔
مہاویر کو دیکھ کر وہ لوگ ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑے ہوگئے۔ مہاویر نے انہیں نمسکار کیا اور پوچھا
"پدھارئے کیا سماچار ہیں؟ اور کہاں سے آئے ہیں آپ"
بوڑھے نے مایوسی سے مہاویر کی طرف دیکھا
" میرا نام گووند رام ہے سرکار اور یہ میرا بیٹا گوپال ہے
اور ھم رام پور سے آئے ہیں" گووند رام نے کہا
"کیا ہوا ہے آپ کے بیٹے کو؟" مہاویر نے پوچھا
"کیا بتاؤں مہراج، میرا ایک بیٹا گوپال اور ایک بیٹی ہے۔
گوپال بہت دن سے بیمار ہے۔ بھگوان اسے شکتی ہی نہیں
دیتے۔ بیماری روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ بڑے بڑے ویدو
اور سادھوؤں سے جھاڑ پھونک کروائی پر سب کچھ بیکار۔
کوئی آپائے سمجھ میں نہیں اتا، میں اپنے جگر کے ٹکڑے
کو کہاں لے جاوں. گووند رام نے مایوسی میں کہا
"آپ چنتا نہ کریں" مہاویر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا بھگوان نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن یہ بتائیے کہ

آخر یہ سب کیسے ہوا؟
مہاویر کے اس سوال پر گووند رام نے نفرت سے ہونٹ سکیڑ لئے اور بے بسی سے چاروں طرف دیکھنے لگا جہاں دوسرے لوگ اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہیں تھیں اور مہاویر کو محسوس ہوا کہ وہ شدید خوفزدہ ہے اور اس کا تیز تیز چلتا ہوا سانس اس بات کی ترجمانی کر رہا تھا کہ کوئی اہم بات
ہے لیکن وہ لوگوں کے سامنے کچھ کہنے سے کترا رہا تھا
مہاویر اس کو مہمان خانے سے باہر لے کر اگیا۔
"تم غالباً مجھے کچھ بتانا چاہتے ہو" مہاویر نے اس سے اکیلے میں نرمی سے پوچھا۔
"ہاں سرکار، لیکن اس سے قبل کہ میں آپ سے کچھ کہوں
آپ سے بنتی (درخواست) کرتا ہوں کہ آپ اس کا ذکر کسی اور سے نہیں کریں گے" گووندرام کی آنکھوں میں آنسوں اگئے
"گھبراؤ نہیں گووندرام' مہاویر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا
"تم مجھ پر اعتماد کرسکتے ہو اور میں کوشش کروں گا کہ تمہارے کام آسکوں۔ "
گووندرام تشکرانہ نظروں سے خاموش کھڑا مہاویر کی طرف دیکھتا رہا۔پھر اس نے جو بات بتائی وہ مہاویر کے لئے

دکھی اور حیرت انگیز تھی۔ گووندرام کے بیان کے مطابق
رام پور میں ایک کالی ماتا کا مندر ہے۔ جہاں کا پجاری
کالی چرن جو بے پناہ شیطانی شکتیوں کا مالک ہے
اور وہ وقتاً فوقتاً گاؤں کی کسی خوبصورت کنواری لڑکی
کو مندر میں رات گزارنے کے لئے طلب کرتا ہے۔
اور یہ بات کالی کے مندر کے پجاری اور بھگت ہی جانتے ہیں کہ کالی چرن اس لڑکی کے ساتھ کالی ماتا کہ نام پر
پوری رات خود عیاشی کرتا ہے۔
گووندرام بھی کالی چرن کا سیوک تھا۔ ایک شام پوجا کے لئے جب گووندرام مندر گیا تو کالی چرن نے اسے کہا کہ
کالی ماتا نے آج رات تمہاری بیٹی سیتا کو طلب کیا ہے۔
لیکن جب گووندرام نے کالی چرن کا حکم ماننے سے انکار کیا تو کالی چرن آگ بگولہ ہوگیا کیونکہ سیتا اپنے گاؤں کی
سب لڑکیوں میں سندر تھی اور پجاری کی اس پر نظر تھی
"گووندرام تم نے کالی کا اپمان کیا ہے اور اس کی سزا
تمہارے پورے پریوار کو بھگتنی پڑے گی" کالی چرن نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا
" جب تک تو اپنی بیٹی کی بلی نہیں دے گا تب تک
کالی کا شراپ تمہاری اولاد پر مسلط رہے گا"
مہاویر حیرت اور غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا
"تم نے کالی چرن کی کسی سے شکایت کیوں نہ کی؟
"میں بہت غریب آدمی ہوں مہراج، پجاری کی شکایت
کر کے میں اس کے بھگتوں سے دشمنی نہیں لے سکتا اور
میں اس کی کالی طاقتوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوں اس سے ٹکر لینا میرے تو کیا کسی کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اس لئے میں نے وہ گاؤں ہی چھوڑ دیا۔
"کیا تم نے یہاں مہراج شنکر لال سے اپنے بیٹے کی بیماری
کے سلسلے میں بات کی ہے؟ مہاویر نے پوچھا

"جی مہراج بات ہوئی تھی۔۔ لیکن انہونے بھی اس سلسلے
اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور اشاروں میں مجھے یہ بھی بتادیا کہ گوپال کا بچنا مشکل ہے کیونکہ اس پر کسی
خونی آتما کا سایا ہے جو مسلسل اس کا خون پی رہی ہے۔
لیکن چاہے کچھ بھی ہو جائے میں اپنے بیٹے کو قربان کر سکتا ہوں لیکن اس عیاش پجاری کی تسکین کے لئے
اپنی معصوم بیٹی کی بلی نہیں دوں گا۔" گووندرام نے کہا
مہاویر نے ایک نظر گووندرام کے بیٹے گوپال پر ڈالی
جو چٹائی پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھی
اور اس کے مونہہ سے کف بہہ رہا تھا
مہاویر کمرے سے باہر نکل آیا اور وہ سیدھا بڑے پجاری شنکرلال کے حجرے میں داخل ہوا جو اس وقت سونے کی
تیاری کر رہا تھا۔ مہاویر نے اسے گووندرام کے بارے میں
بتایا اور ساتھ ہی کالی چرن کے بارے میں بھی پوچھا۔
شنکرلال نے اسے بتایا کہ وہ گووندرام سے مل چکا ہے
اور وہ اس کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ لہذا گووندرام کو
کالی چرن کی بات ماننے کے علاؤہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا
کیونکہ کالی چرن کے شراپ سے ٹکرانا کسی یوگی کے بس کی بات نہیں ۔ اس نے کالی ماتا کے سارے جاپ مکمل کر لئے ہیں اس لئے اسے دیوی دیوتاؤں کی شکتی حاصل ہے
اور جنات کے قبیلے اس کی غلامی کرتے ہیں۔"
مہاویر حیرت سے شنکرلال کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا
اس کے ذہن میں دیوی دیوتاؤں کے متعلق کئی سوال پیدا ہوئے لیکن وہ خاموشی سے شنکرلال کے چہرے پر نمودار
ہونے والی بےبسی کو دیکھ رہا تھا۔


میں اس وقت چھت پر فجر کی نماز پڑھ رہا تھا
جب میں نے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنی، شاید کوئی
سیڑھیوں سے چھت پر آرہا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو
وہ مہاویر تھا۔ وہ اکثر فجر کے وقت چھت پر آجاتا اور
آسمان کی طرف دیکھتا رہتا تھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہوں اس کے من میں ایک عجیب ہیکلی تھی
لیکن آج وہ مجھے کچھ زیادہ پریشان نظر آرہا تھا
اور وہ بے بسی اور التجائیہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے کس کو پکار رہا ہو
دیوی دیوتاؤں کے خلاف اس کے من میں مچی توڑ پھوڑ
اور بغاوت کو تو میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا
پھر وہ آج کس کو پکار رہا تھا؟ کیا وہ خدا کو پکار رہا تھا؟
میں یہ فیصلہ نہ کرسکا۔
اچانک نیچے حویلی میں رونے کی آوازیں آنے لگی
شاید گووندرام کا بیٹا مر چکا ہو
مہاویر تیزی سے دوڑتا ہوا نیچے چلا گیا تو میرا بھی تجسس بڑھا اور میں بھی اس کے پیچھے گیا
گووندرام کی پتنی اپنے بیٹے کے قریب بیٹھی دھاڑیں مار مار کر رورہی تھی اور گووندرام ہاتھ باندھے مہاویر سے
التجا کر رہا تھا" لگتا ہے میرے بیٹے کا آخری وقت ہے
بڑے بجاری نے تو میرے بیٹے کو آشیرباد تک نہیں دیا
اور وہ چلے گئے۔ آپ ہی میرے بیٹے کو آشیرباد دے دیجیے
تاکہ اس کی آتما آسانی سے نکل سکے اور اسے شانتی ملے
سب لوگ حیران ہوکر مہاویر کی طرف دیکھ رہے تھے
کیونکہ بڑے بجاریوں اور میاپرشوں سے کم عمر ہونے
کی وجہ سے اسے کسی کو آشیرباد دینے کا حق نہیں تھا
اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ پیچھے ہٹالیا
پھر اس نے دیکھا کہ لڑکے کا سانس رک رک کر چل رہا تھا۔
مہاویر سے رہا نہ گیا اور اس نے گووندرام کا دل رکھنے
کے خاطر آگے بڑھ کر آشیرباد کے لئے اپنا ہاتھ لڑکے کے سر پر رکھ دیا۔۔
میں جانتا تھا کہ لڑکے کے جسم پر اس افریت نے قبضہ
کر رکھا ہے جیسے میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا
انسانی معاملات میں دخل اندازی کر کے میں اپنی قسم
توڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن افریت اور جنات سے ٹکر لینا
میرے اختیار میں تھا۔ اس لئے میں نے خدا کا نام لیا اور
مہاویر کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
اسی لمحے لڑکے نے خوفناک بھاری نسوانی آواز کے ساتھ
آنکھیں کھولیں اور خونخؤار نگاہوں سے مہاویر کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا " کون ہے تو ۔۔۔۔ کون ہے تو۔۔"
مہاویر اور دوسرے لوگ خوف سے پیچھے ہٹ گئے
لڑکا پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا
شاید مجھے تلاش کر رہا تھا۔ جبکہ میں اس کے سامنے ہی کھڑا تھا اور میں نے غصہ سے اسے کہا
"تو اپنی خباثتوں سے باز اجا اور اس معصوم کی جان چھوڑ دے۔ ورنہ خدا کی قسم میں تجھے جلا کر راکھ کر دوں گا"
"مممممممم مجھے شما کردو مہراج، شما کردو مجھے"
وہ خوف اور تکلیف سے چلائی کیونکہ لڑکے کا جسم
اس افریت کے لئے جہنم کی آگ بنتا جارہا تھا وہ دہشت
ناک آواز کے ساتھ دھواں بن کر اس کے جسم سے نکلی
اور تحلیل ہوگئی۔
لوگ حیرت اور خوف سے اس سرخ دھوئیں کو دیکھ رہے تھے۔ دوسرے ہی لمحے لڑکا اپنے باپ کو اپنی آواز میں پکار کر اس سے لپٹ گیا۔ گووندرام اور اس کی پتنی روتے ہوئے
مہاویر کے قدموں میں گر گئے " آپ بہت بڑے مہاپرش
ہیں مہراج۔ پورا مندر زور دار نعروں سے گونج اٹھا
مہاویر میراج کی۔ جے ۔۔ مہاویر مہراج کی جے
مہاویر بوکھلا کر چاروں طرف دیکھنے لگا
اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا
"یہ سب کیا تھا؟"
فرشتہ جنہیں خدا نے اپنی عبادت کے لئے نور سے پیدا کیا
جبکہ انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا اور ہمیں آگ کی لپٹ سے پیدا کیا
صرف انسان اور جنات میں ہی ایک بات مشترک ہے
اور وہ ہے فہم و ادراک کی صلاحیت یعنی صرف
ہم دونوں ہی اچھے اور برے راستے کا انتخاب خود کرتے ہیں
جنات انسانوں سے چند چیزوں میں مختلف ہے
ان میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جنوں کی حقیقت
انسان کی حقیقت سے مختلف ہے۔
ہمیں جن اس لئے کہا جاتا ہے کہ ھم انسان کو ایسی جگہوں
سے دیکھ سکتے ہیں جہاں سے وہ ہمیں نہیں دیکھ پاتے ہیں
اس کے علاؤہ اللہ تعالیٰ نے جنات کو ایسی قوت اور صلاحیتیں عطا کی ہیں جن کے متعلق انسان سوچ بھی
نہیں سکتا جن میں ایک طاقت یہ بھی ہے کہ ھم پلک جھپکتے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ بھی سکتے
ہیں اور دیکھ بھی سکتے ہیں۔
اور اس وقت میں مندر کی چھت سے دو سو کلومیٹر دور رامپور کے پہاڑوں میں واقع کالی کے مندر کو دیکھ رہا تھا
جہاں کا پجاری کالی چرن جس کے مکروہ چہرے کو چیچک کے داغوں نے ضرورت سے زیادہ بھیانک بنادیا تھا
اس وقت وہ خونخوار نگاہوں سے اپنے منڈپ میں جلائی گئی آگ میں تیل چھڑکتے ہوئے کوئی منتر پڑھ رہا تھا
اس کے گنجے سر پر پیچھے سے صرف ایک چوٹی اور اس کے بدن پر صرف ایک دھوتی تھی
رات کے اندھیرے نے مندر کو حد درجہ پراسرار بنا دیا تھا
یہ قدیم مندر ایک پہاڑی کی غار میں بنایا گیا تھا
یاتریوں کو وہاں تک پہنچنے میں کافی دشواریوں کا
سامنا کرنا پڑتا تھا
منتر پڑھتے پڑھتے اچانک پجاری دھاڑا۔
"منگلا، کہاں ہو؟ فورا حاضر ہوجاو"
شکل کی طرح اس کی آواز بھی خوفناک تھی۔
یکایک ہوا کا تیز چھونکا آیا اور تمام چراغ گل ہوگئے
اب مندر کے اس کمرے میں ایسی تاریکی تھی کہ ہاتھ کو
ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن پجاری نے ذرا برابر بھی
اس اعصاب شکن تاریکی کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ
وہ ظلمت کا پیروکار اور ابلیس کا ایک بہت بڑا نمائندہ تھا اور ظلمت کے پجاری صرف نور سے ڈرتے ہیں
تاریکی سے نہیں۔

اچانک مندر میں سوکھے پتوں کی سرسراہٹ کی آواز گونجی اور بجھے ہوئے چراغ دوبارہ روشن ہوگئے۔
لیکن اب کی بار پجاری مندر میں اکیلا نہیں بلکہ اس کے سامنے منگلا سر جھکائے، بیٹھی ہوئی تھی۔
جنات کی دس قسمیں ہوتی ہیں انہیں میں سے ایک قسم
عفاریت کی ہے جو افریت کی جمع ہے۔ منگلا بھی عفریت سے تھی یہ بہت زوردار اور لڑاکا ہوتے ہیں جن کی خوراک صرف خون ہوتی ہے ۔ لیکن اس وقت اس کے چہرے پر خوف اور تردد کی ملی جلی کیفیت طاری تھی۔
پجاری اسے دیکھتے ہی خونخوار لہجے میں غرایا
"کون ہے وہ جس نے تمہاری یہ حالت کی ہے
بتاؤ کون ہے وہ جس نے کالی چرن کے شڑاپ سے ٹکرانے
کی ہمت کی ہے"
"وہ ایک عام پنڈت تھا مہراج لیکن لگتا ہے اس کے پیچھے
کوئی بہت بڑی شکتی ہے" منگلا نے کہا
"کیسی شکتی؟ اور وہ کہاں سے آیا ہے"
"اس کا نام مہاویر ہے اور مندر کے بڑے بجاری کا بیٹا بنا ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ کہ وہ اس کا بیٹا نہیں ہے اور نہ ہی
وہ برہمن جات سے ہے۔ وہ ایک اناتھ (یتیم) تھا
جس کی پرورش شنکر لال نے کی ہے۔
اب اس کے پیچھے کس ہستی کا ہاتھ ہے، باوجود کوشش
کے نہ میں اسے دیکھ پارہی ہوں اور نہ جان پارہی ہوں
وہ کوئی بہت بڑی ہستی ہے مہراج جس کی گرجدار آواز
میرے کانوں میں جیسے صور پھونک رہی تھی
اور مجھے اس لڑکے کے شریر (جسم) کو آزاد کرنا پڑا۔
"مجھے وہ شکتی چاہیئے " کالی چرن نے اسے گھورا
"سن رہی ہو تم؟ مجھے وہ شکتی چاہیئے، اس کے لئے
چاہے اس پنڈت کا بلیدان ہی کیوں نہ کرنا پڑے"
"گستاخی معاف کیجئے گا مہراج ۔۔۔۔۔۔۔
اپ اس لڑکے کو بھول ہی جائیں تو بہتر ہے"
"کیا بکواس کر رہی ہے؟ "پجاری غرایا
"ٹھیک کہہ رہی ہوں مہراج ۔۔ اس لڑکے کا خیال اپنے من سے نکال دیجئے ورنہ آپ پچھتائیں گے
میرا دل کہتا ہے کہ اگر آپ نے اس سے پنگا لیا
تو وہ نوجوان آپ کے لیے
سانپ کے مونہہ میں چھپکلی کی طرح ثابت ہوگا
جسے آپ نہ نگل سکے گے اور نہ ہی اگل سکے گے"
"خاموش ہوجا کتیا" کالی چرن دھاڑا
"شائد تم بھول رہی ہو کہ تمہاری یہ زندگی میری ہی دی ہوئی سوغات ہے۔ میں جب چاہوں تمہیں جلا کر بھسم کرسکتا ہوں اس لیے اپنی اوقات میں رہ کر بات کیا کرو"
"شما کردیجیے مہاراج" منگلا نے کسمسا کر کہا
"اس سے پہلے کہ میں تجھے کوئی عبرتناک سزا دوں
میں تمہیں ایک ھفتے کی مہلت دیتا ہوں
مجھے اس پنڈت اور اس کی شکتی کی پوری جانکاری
چاہیے" کالی چرن نے غصیلے لہجے میں کہا
کالی چرن کی بات سن کر ایک لمحے کیلئے منگلا سرتاپا لرز
اٹھی مگر پھر سنبھل کر بولی
"مہراج میں آپ کو وچن دیتی ہوں میں اس پنڈت اور اس
کی شکتی کو کھوج نکالو گی اور اسے آپ کے چرنوں میں
لا پھینکوں گی" اور پھر وہ دھواں بن کر تحلیل ہوگئی
منگلا کے جانے کے بعد کالی چرن کی تنگ پیشانی پر سوچ
کی لکیریں ابھر ابھر کر ڈوبنے لگی۔
شاید وہ کسی گہری سوچ میں گھر گیا تھا
اس نے اپنی ساری عمر کالی طاقتیں حاصل کرنے کے لئے
نہ جانے کون کون سے جاپ مکمل کیے
اور مہاویر جیسا کل کا بالک (بچہ) اتنی آسانی سے ایسی
کون سی شکتی حاصل کر گیا کہ منگلا جیسی افریت
بھی اس سے خوفزدہ ہے۔
ضرور اس کے پاس کوئی پراسرار طاقت ہوگی۔"
پھر اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ اگئی
مہاویر چھت پر کسی گہری سوچ ڈوبا ہوا تھا
اچانک اسے اپنے پیچھے قدموں کی آواز آئی
"مہاویر ، کس سوچ و چار میں پڑے ہو ؟
پڑے بجاری شنکرلال نے اسے آواز دی
"ارے مہراج آپ نے یہاں آنے کی کیوں کشٹ اٹھائی
مجھے بلوا لیا ہوتا "
مہاویر خیالات کے بھنور سے نکل کر بولا
"مہاویر ۔۔۔ ہم محسوس کر رہے ہیں کہ گووندرام کے بیٹے
کے واقعے کے بعد تم کچھ کھوئے کھوئے سے رینے لگے ہو
کیا کوئی سمسیا ہے؟
"ہاں مہراج ۔۔اس واقعے کہ بعد تو لوگوں نے میرے بارے
میں زمین آسمان کے قلابے ملا رکھے ہیں جیسے میں
کوئی بہت بڑا دیوتا ہوں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں
تو ایک معمولی انسان ہوں
میں نے کوئی چمکتکار نہیں دکھایا تھا۔
وہ لڑکا کیسے ٹھیک ہوا اس کے بارے میں تو میں خود
نہیں جانتا"
یہ سن کر شنکرلال مسکرایا اور بولا
"مہاویر ، ان دیوی دیوتاؤں کے بارے میں ھم منش زات
بھلا کیا جانے، یہ دیوتا کبھی کبھی ھمارے کرموں سے خوش ہوکر ہمیں اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ دان کردیتے ہیں۔ تم خوشنصیب ہو کہ تمہیں دیوتاؤں کا دان ملا ہے۔
اور اب یہ باتیں چھوڑو اوودھیہ سے مہان جوگی مدھولال
اپنے چیلوں کے ساتھ یہاں درشن دینے آرہے ہیں۔
ہمیں ان کی سیوا کا بندوست کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
جوگی مدھوبالا اپنے چیلوں سمیت جیسے ہی مندر میں داخل تو لوگوں نے اسے گھیر لیا اور جھک کر اس کے پیروں کو چھونے لگے وہ ایک ہٹا کٹا اور بھاری بھرکم شخص تھا
اسے دیکھ مندر میں رام رام کی آوازیں گونجنے لگی
مندر کے بڑے پجاری شنکرلال نے بھی مدھولال کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ہرنام کیا تو مہاویر کو مدھولال کی بڑائی
کا احساس ہوا اور اس نے بھی جھک کر اسے پرنام کیا۔
"بڑے عرصے کے بعد درشن دیئے جوگی مہراج!"
بڑے پجاری شنکرلال نے بڑی عقیدت سے کہا "اب آئے ہو تو
کچھ دن دیوی کے چرنوں میں بھی ٹک کر بیٹھنا"
" ابھی کجھ کام باقی رہ گیا ہے اس لئے ہمیں کہیں دور جانا ہے بالمپور سے گزر رہے تھے تو سوچا تمہارے درشن کرتے جائے" جوگی نے شنکرلال کی سمت دیکھتے ہوئے کہا
"سمے ملا تو دوبارہ اطمینان سے آؤں گا"
پھر اس نے مہاویر کی طرف کنکھیوں سے دیکھا
"ایک دو روز تو سیوا کرنے کا موقع دوگے؟
بڑے پجاری نے اسرارِ کیا تو جوگی نے صرف ایک دن کی ہامی بھری۔ پھر شنکرلال نے مہاویر کا تعارف کرایا تو جوگی
نے غور سے مہاویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"شنکرلال تمہاری بات ہی کچھ اور ہے۔ تم جس کے سر پر
اپنا ہاتھ رکھ دیتے ہو وہ کندن بن جاتا ہے"
پھر اس نے مہاویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"میں نے اپنے سیوکوں سے تمہارے بارے میں بہت کچھ
سن رکھا ہے بالک کون سا جاپ کر رکھا ہے تم نے؟"
"نہیں جوگی مہراج میں نے تو آج تک کسی دیوتا کا کوئی جاپ نہیں کیا " مہاویر نے مسکرا کر جواب دیا
"بس لوگوں کی سیوا کو ہی اپنا دھرم بنا لیا ہے"
اس رات جوگی مدھولال ان کا مہمان تھا، رات کے کھانے کے
دوران بھی اس کی نگاہیں بار بار مہاویر کی سمت اٹھ رہی تھی وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں کے
رنگ بار بار بدلتے محسوس ہورہے تھے۔
مجھے اس وقت ہنسی آرہی تھی کیونکہ میں جانتا تھا
کہ وہ یہاں کس کے ایماں پر اور کیا تلاش کرنے آیا ہے
وہ مہاویر کو کوئی پراسرار شخصیت سمجھ رہا تھا
وہ بار بار اپنی جادوئی طاقت سے مہاویر کے من میں جھانکنے اور اس کے خیالات پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا
اور میں نے مہاویر کو اپنے حصار میں لے کر جوگی کی
ہر اس کوشش کو ناکام بنادیا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا
کہ جوگی، مہاویر کی اصلیت اور اس کی حقیقت کے
بارے میں کچھ بھی جان سکے۔
جوگی کے لئے ایک کمرے کا بندوست کیا گیا
اور پھر جیسے ہی مہاویر نے اجازت چاہی تو جوگی نے کہا
" بالک میں تمہارے اندر ایک بہت بڑی شکتی کو محسوس
کر رہا ہوں۔ اس لئے میں چاہتا ہوں تم ہمارے گروہ میں شامل ہوجاو میں تمہیں ایک ایسا جاپ بتاؤں گا کہ
پوری دنیا تمہارے قدموں میں ہوگی،
"ہاں۔۔ ہاں کیوں نہیں" شنکرلال نے مہاویر کے طرف دیکھتے ہوئے کہا
"ارے نہیں مہراج" مہاویر نے بوکھلا کر انکار کیا
"میں تو اپنی اس چھوٹی سی دنیا میں خوش ہوں
مجھے کسی جاپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے
اور نہ ہی میں دنیا کو اپنی قدموں میں رکھنے کی کوئی
اچھا (خواہش) رکھتا ہوں"
جوگی کو جواب دے کر مہاویر خاموشی سے کمرے سے نکل گیا اور جوگی برا سا منہ بنا کر اسے دیکھتا رہ گیا
"شما کردو مہراج" بڑے پجاری نے آگے بڑھ کر کہا
یہ ابھی جوان ہے شریر میں گرم گرم خون دوڑ رہا ہے
ابھی اسے ان شکتیوں کی اہمیت کے بارے میں معلوم نہیں٫
جب سوجھ بوجھ اجائے گی تو یہ بھی آپ کے چرنوں
میں ڈنڈوت کرے گا
صبح صبح جب لوگ گنگا پر پراتھنا (عبادت) کے بعد واپس
جانے لگے اور رش کم ہوا تو آخر میں مہاویر گھاٹ پر اترا
اور اشنان (نہانے ) کرنے کے بعد قریب ہی باغ میں آگیا
گنگا ندی کے قریب ہی یہ خوبصورت باغ تھا
اور یہ وقت بھی ایسا تھا جو اس کی خوبصورتی میں
اضافہ کر رہا تھا نیلا اور صاف آسمان اور ہوا کے فرحت
بخش جھونکے نارنگی کے پیڑوں میں سرسرا رہے تھے
اور پھولوں کی مست کن خوشبو اور اور درختوں
پر بلبل چہچارہی تھی
اپنے خیالات میں کھویا ہوا مہاویر سر جھکائے جارہا تھا
یکایک وہ ٹھٹھک گیا اسے لگا جیسے باغ میں کوئی
اور بھی موجود ہے اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کی نظر
اس لڑکی پر پڑی جو ہاتھ میں پھولوں کی ٹوکری لیے
اس کے سمت بڑھ رہی تھی۔
مہاویر آنکھیں پھاڑے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا
تبسم کی ہلکی سی لکیر اس کے ہونٹوں پر بکھری ہوئی تھی
سیاہ ریشمی بالوں کے درمیان اس کا چہرا یوں لگ رہا تھا
جیسے وہ پورن ماشی کی چمکتی کرن ہو
وہ دم بخود ٹکٹکی باندھے اسے تکے جارہا تھا وہ
اس کے غزالی آنکھوں کے سحر میں جیسے کھو کر رہ گیا
وہ اسے پہلے بھی لوگوں کے ہجوم کے درمیان دیکھ چکا تھا
لیکن آج وہ مجسم قیامت بنی اس کے روبرو کھڑی تھی
"پرنام مہراج " اس نے آگے بڑھ کر اس کے پیروں کو چھوا
تو مہاویر کو اپنے بدن میں جیسے جھرجھری سی محسوس ہوئی
"کیا تم گووندرام کی بیٹی ہو؟ " مہاویر نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے پوچھا
"جی مہراج میں سیتا ہوں" اس کی آواز میں پہاڑی جھرنوں جیسا جلترنگ تھا
اب کسی طبیعت ہے گوپال کی؟
"وہ تو بلکل ٹھیک ہے مہراج ۔۔ لیکن آج میں ایک اور درخواست کے لئے حاضر ہوئی ہوں
میری ایک عزیز دوست سخت بیمار ہے
کیا آپ اس کی صحتیابی کے لئے پراتھنا کر سکتے ہیں؟"
"میرے اختیار میں جو کچھ ہوگا ضرور کروں گا"
مہاویر نے مسکرا اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"ویسے کون سی بیماری لگی ہے تمہاری دوست کو"
سیتا نے ایسے نظریں جھکا لیں جیسے سوچ رہی ہو کہ
وہ بات کیسے اور کہاں سے شروع کرے اور پھر بولی
" وہ اپنی زندگی کے عین بہار میں غموں کے بوجھ تلے دب گئی ہے"
"کیسے غم؟ مہاویر نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"مہراج ! بدقسمتی سے وہ پریم کر بیٹھی ہے
ایک ایسے مرد سے جو تمام خوبیوں کا مالک ہے
اور یہی پریم روگ اس کی تباہی کا باعث بن گیا ہے"
وہ چند لمحہ خاموش رہی اور گہرا سانس لے کر مہاویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا " اس کا مردانہ حسن ، اس کا بے داغ
کردار، اس کی قابلیت، شرافت، ذہانت اور خوش طبعی
ایسی ہے جو پتھر میں بھی پریم کا جزبہ موجزن کرسکتی ہے۔ میری دوست نے اسے دیکھا اور اس سے محبت کرنے کی
جرئت کر بیٹھی۔ لیکن اسے اپنا بنانے کی جرئت نہ کرسکی"
"اگر اس کی محبت اتنی شدید ہے تو پھر اسے اپنا بنانے
میں کون سی رکاوٹیں حائل ہیں؟ مہاویر نے حیرت سے پوچھا
"مہراج ۔۔۔ وہ ادمی ایک برہمن یوگی ہے
اور میری دوست اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ اسے کبھی
سویکار نہیں کریگا"
مہاویر چونک پڑا اور چند ثانیوں کے لئے خاموشی چھاگئی
"پھر تو تمہاری دوست نے اپنے لئے غلط آدمی کا انتخاب کیاہے، کیونکہ ایک یوگی کے لئے کسی لڑکی کے بارے میں
سوچنا یا اس کی تمنا کرنا پاپ ہوتا ہے
اس لئے مجھے تمہاری دوست پر دیا(رحم) آرہی ہے"
"لیکن مہراج وہ اس سے اس کا دھرم چھیننا نہیں چاہتی
نہ ہی وہ اس سےاپنی آرزو پوری کرنا چاہتی ہے
وہ صرف اس کے دل کی مالکن بننا چاہتی ہے
نہ کہ اس کے جسم کی ۔

وہ ہوس پرست یا عیاش لڑکی نہیں جو اس سے لطف اندوز
ہونے کے لئے اس کے قریب ہونا چاہتی ہو"
پھر وہ مہاویر کے قریب آکر اس کی آنکھوں میں دیکھتے
ہوئے بولی "وہ بچاری تو خود کو اس کے قابل ہی نہیں
سمجھتی وہ تو بس اس کی داسی بن کر رہنا چاہتی ہے."
مہاویر اس قدر حیران اور پریشان ہوگیا کہ اس کی سمجھ
میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کی باتوں کا کیا جواب دے
وہ تو یہ فیصلہ بھی نہ کرسکا کہ سیتا اپنی دوست کی
بات کر رہی ہے یا اپنی، کیونکہ اس کی آنکھوں کی نمی
اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ وہ اپنے دل کی کیفیت
بیان کر رہی ہے اور جس آدمی کا وہ زکر کر رہی ہے
وہ خود مہاویر ہی ہے۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

پنڈت اور جنات اردو کہانی - پارٹ 2

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں