خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 4

 خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 1


Sublimegate Urdu Font Stories

 خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 4


احمر کا اُسے دیکھ کر گلا خشک ہوجاتا ہے وہ چلانا چاہتا ہے پر آواز حلق میں ہی پھنس جاتی ہے احمر اپنی پوری طاقت مجتماع کرکے کھڑا ہوتا ہے اپنی ٹوٹی ٹانگ کوگھسیٹتا ہوا دوسری طرف جانے لگتا ہے اس وقت وہ اپنی تکلیف بھول جاتا ہے جو اسے ہورہی تھی وہ۔بس اپنی جان بچانا چاہتا تھا وہ بار بار پیچھے دیکھتا وہ ڈھانچہ بھی گرتا پڑتا اس کے تعاقب میں آرہا تھا وہ۔ایک ٹانگ پہ اچھل کے جارہا تھا دوسری ٹانگ لٹکی ہوٙئی تھی اچانک اسکا پیر ایک جھاڑی سے الجھا اور وہ منہ کے بل زمیں پر۔گرا اسکے حلق سے دل سوز چیخ نکلی اسکے دوسرے پیر میں۔بھی۔موچ آگئی چہرہ بھی شدید زخمی ہوگیا تھا جس سے خون رس رہا تھا اس نے زخمی چہرے کے ساتھ پیچھے دیکھا وہ کنکال اس کے۔نزدیک پہنچ گیا تھا وہ۔دونوں ہاتھوں کے استعمال۔سے اپنے وجود کو کھنچنے لگا ۔۔۔

ڈرو نہیں میرے بچے میرے پاس آو مجھے بس تمہارے جسم کا لباس چاہیے تم۔امر۔ہوجاو گے تاریخ میں تمہارا نام لکھا جائے گا کہ۔کس طرح تو نے شیطان کو اپنے جسم کی بھینت چڑھا دی کنکال کہتا ہوا اسکا ایک پاوں۔پکڑ لیتا ہے ۔۔۔
چھوڑ دو مجھے کون ہو تم پلیز مجھے جانے دو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں خدا کے واسطے مجھے جانے دو احمر منت سماجت کرتا ہے ۔۔

کنکال ہنستہ ہے خدا کے لیے چھوڑ دوں اس نے مجھے نہیں۔چھوڑا تو میں تمہیں اس کے لیے کیوں چھوڑوں کئی صدیوں سے میں زندہ دفن رہا زمین کے اندر تو نے ہی تو مجھے آزاد کرایا ہے آب ایک اور چھوٹا سا کام۔کردو پھر تم آزاد ہو کنکال اس پر جھپٹتا ہے احمر کی چیخیں پورے جنگل کی خاموشی کے ارتقاع کو توڑتی ہوئی مدھم ہوجاتی ہیں کنکال احمر کے جسم کا سارا خون۔پی جاتا ہے جس سے ڈھانچے میں خون کی نالیوں کا ایک جال۔بنا شروع جاتا ہے اسکا دل بھی بن جاتا ہے اور دھڑکنے لگتا ہے پھر احمرکو نوچ نوچ کر کھا جاتا ہے جس کے ساتھ ہی کنکال کی ہڈیوں پہ ماس کے لوتھڑے بننے لگتے ہیں احمر کا بس ڈھانچہ ہی رہ جاتا ہے اور کنکال۔۔آب مکمل گوشت پوست کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے وہ احمر کی چمڑی پہن لیتا ہے جس سے وہ۔احمر کی طرح دیکھنا شروع ہوجاتا ہے آب اچھا محسوس کر رہا ہوں وہ۔لمبی سانس لے کر ہوا کو اندر کھنچتا ہے اور خارج کرتا ہے وہ ملبے کی طرف بڑھتا ہے اور ہاتھ اٹھاتا ہے اے برُائی کے رُحِ رواں میرے مالک میں تیرے نام سے یہ کلیسا۔بناتا ہوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ ملبہ پھر سے کلیسا بن جاتا ہے وہ۔اس میں۔داخل۔ہوتا ہے برائی کی طاقتوں آو میرے ساتھ برائی پھیلانے میں مدد کرو اور بری طاقتیں۔کلیسے میں۔اترنا شروع ہوتی ہیں
 
صلہ کو ہوش آتا ہے وہ اپنے ۔اردگرد دیکھتی ہے پولیس والے کی سر کٹی لاش جس کا خون فرش پر بہہ کر جم گیا تھا سر باڈی سے تھوڑا دور پڑا تھا جس پر۔مکھیاں بنبنا رہی تھیں اسکی آدھ کھلی آنکھیں عجیب منظر پیش کررہی تھیں جیسے دیکھ کر صلہ کو اُلٹی آگئی اور وہ باہر بھاگی اس ساری صورت حال میں وہ بچوں کو فراموش کر چکی تھی انکی یاد آنے پر وہ اوپر سر پٹ بھاگی دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھولا اسکا دل اسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آجائے گا سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے اوسان حطا ہوگئے ستارہ اور عماد اپنے بستروں پر بے سود پڑے تھے وہ لرزتی ٹانگوں کے ساتھ آگے بڑی اسکی ٹانگیں جواب دے چکی تھی اس نے بیڈ کا سہارہ لیا اور اور ستارہ کے سرہانے پہنچی ستارہ اس نے کپکپاتی آواز کے ساتھ اسے ہلایا ستارہ نے کسمسا کے صلہ کو دیکھا ماما اسکے پکارنے پر صلہ کی جان میں جان آئی میری۔بچی پھر اس نے عماد کو بولایا وہ۔بھی اٹھ کر بیٹھ گیا اس نے دونوں کو گلے لگالیا ۔۔

کیا ہوا ماما آپ اتنی پریشان کیوں ہیں اور یہ آپ کے چہرے اور کپڑوں پر کیا لگا ہوا ہے ستارہ نے پوچھا صلہ نے اپنے کپڑے دیکھے جن پر خون جم کر کالا ہوگیا تھا
اسے پھر سے سب یاد آنے لگا تھا پولیس والا قانطہ اور اللہ رکھا اس نے مجھے ماما کہا صلہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے وہ کیا کہہ رہی تھی وہ میرا بچہ نہیں ہے وہ کون تھی اسے نے احمر کو فون کیا ۔۔

خون سے لت پت انسانی ڈھانچے کے پاس پڑا فون مسلسل بج رہا تھا ۔۔۔
صلہ۔نے جھنجلا کر فون پھینکا احمر فون کیوں نہیں اٹھا رہا پتہ نہیں کہاں ہے وہ اسے فقیر ملنگ یاد آیا ۔۔او نہیں تو وہ سچ کہہ رہے تھے اس گھر میں آصیب ہیں ۔۔۔
مجھے انہیں ڈھونڈنا ہوگا لیکین کہاں بچوں یہی رہنا اپنے کمرے میں جب تک میں نہ آوں۔۔۔۔ وہ منہ پہ پانی کے چھینٹے مارتی ہے اسی اثناء میں باہر کا دروازہ کھڑکتا ہے اسے لگا احمر ہوگا وہ بھاگ کر دروازہ کھولتی ہے لیکین سامنے اسی ملنگ کو دیکھ کر ٹھٹھک جاتی ہے آپ یہاں کیسے ۔۔۔اسکی بات سنے بغیر ملنگ اسے پیچھے ہٹاتا اندر جاتا ہے کہاں ہے وہ بچہ ملنگ درشتگی کے ساتھ صلہ۔سے پوچھتا ہے صلہ۔جو ملنگ کے یوں خود ہی آجانے سے دل ہی دل میں خوش ہورہی تھی۔ملنگ کی بات سن کر اسکے چہرے کے تاسرات بدل گئے تھے نرمی کی جگہ سختی نے لے لی تھی آپ کیوں پوچھ رہے ہیں اسکے بارے میں۔آپ کا کیا تعلق میرے بچے سے صلہ کی ممتا نے زور مارا اس نے سخت لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔
وہ تمہارا بچہ نہیں ہے بے وقوف لڑکی وہ عفریت کا بچہ ہے جن زاد ہے وہ مجھے بتاو کہاں ہے وہ ملنگ غصے سے کہتا ہے ۔۔۔
وہ میرا بچہ ہے سنا آپ نے اس نے میری کوکھ سے جنم لیا ہے آپ کو کوئی حق نہیں بنتا آپ میرے بچے کے بارے میں ایسا بولیں صلہ۔بھی آگے سے اسی۔لہجہ میں بات کرتی ہے ۔۔۔

تم۔ایسے نہیں مانوگی سامنے آو اور ایسے سچ بتاو ایک ہوا کہ جونکا اندر آتا ہے اور وہ اسی روپ میں ظاہر ہوتی ہے جس سے صلہ۔ڈر کر سیڑھیوں سےگیرتی ہے
تمممم وہی ہو۔۔۔۔۔ صلہ اسے پہچان جاتی ہے
یہ سچ ہے وہ تمہار بچہ نہیں ہے تمہارا بچہ اسی ٹائم مر گیا تھا جب تم سیرھیوں سے گیری تھی وہ میرا بچہ ہے مطلب عفریت کی سنتان وہ ایک جن زاد ہے میں نے ہی اسے تمہاری کوکھ میں رکھا تھا اور یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی مجھے نہیں پتہ تھا کہ میری اس نادانی کی وجہ سے انسانیت خطرے میں آجائیگی جن زادی گلوگیر لہجے میں اسے بتاتی ہے ۔۔۔
مجھے نہیں پتہ تم سب کیا کہہ رہے ہو میں بس یہ جانتی ہوں کہ۔وہ میرا بچہ ہے اور مجھے اسے بچانا ہے اسے ہماری کام والی لے گئی ہے جو پتہ نہیں کیا عناپ شناپ بک رہی تھی اس نے میرے سامنے ایک پولیس والے کوجادو سے بلایا اور پھر جادوسے اس کا سر تن جدا کر دیا اور پھر اور پھر میرا اللہ۔رکھا بولا اس نے مجھے ماما کہا مجھے یقین نہیں۔آرہا کہ اس نے مجھے ماما کہا تھا اور بیٹھ کر رونے لگی ۔۔
ملنگ سارا گھر دیکھتا ہے اس کا مطلب وہ جادو گرنی اسے لے گئی ہے ہمیں۔دیر ہوگئی ہے وہ۔اسے پادری کے پاس لے گئی ہے ہمیں کچھ کرنا ہوگا اتنے میں سلمان اندر آتا ہے وہ گھر کا حال اور ان سب کو دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے بھابھی کیا ہوا آپ کو اور یہ ملنگ یہاں کیا کر رہا ہے اسکی نظر سر کٹے پولیس والے پر پڑتی ہے وہ سر سے ٹوپی اتارتا ہے اور اس کے پاس جاتا ہے او میرے خدا یہ پولیس اچانک تھانے سے غائیب ہوگیا تھا اور یہاں اسکی لاش پڑی ہے یہ سب کیا صلہ بھابھی ۔۔۔
میں بتاتا ہوں ملنگ آگے بڑتا ہے اور اسکا ہاتھ پکڑتا ہے اسکی آنکھوں کے آگے سب کچھ ایک فلم کی طرح چلنے لگتا ہے تھوڑی دیر بعد ملنگ اسکا ہاتھ چھوڑ تا ہے سلمان جھٹکے سے پیچھے ہٹتا ہے یہ کیا تھا یہ سب ہوا ہے شاید تم ہماری باتوں پہ یقین نہ کرتے اس لیے تمہیں دیکھا دیا ہے
احمر کہاں ہے سلمان وہ آب تک گھر کیوں نہیں آیا ہمارے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا ہے اور اسکی کوئی خبر نہیں میں نے کتنے فون کیے اسے پر وہ جواب نہیں۔دے رہا صلہ روتے ہوے پوچھتی ہے ۔۔۔
وہ گھر نہیں۔ہے کیا میں بھی اسے ڈھونڈ رہا ہوں جنگل میں مجھے یہ اسکا موبائیل ملا ہے اور جہاں سے مجھے یہ ملا ہے وہاں سلمان خاموش ہوجاتا ہے ۔۔۔
صلہ اٹھ کر اسکے پاس آتی ہے وہاں کیا سلمان بولو وہاں کیا تم خاموش کیوں ہوگئے بتاو مجھے وہ اسکے دونوں بازو پکڑ کر ہلاتی ہے ۔۔۔
وہاں۔ایک ۔۔۔۔ وہاں ایک انسانی ڈھانچہ پڑا تھا جس کا گوشت نوچ لیا گیا تھا جیسے گدھ کیسی مردار جانور سے گوشت نوچ لیتے ہیں سلمان نے خود پر ضبط رکھتے ہوے بتا دیا ۔۔۔۔
صلہ نے سلمان کے بازو جٹکے سے چھوڑے اور اس سے دور ہٹتی گئی جیسے سلمان کو چھوت کی بیماری ہو اسکا چہرہ پتھرا گیا تھا بنا تاثر کے چہرے کے ساتھ وہ سلمان کو دیکھ رہی تھی
نہیں وہ احمر نہیں ہوسکتا وہ کوئی اور بھی تو ہوسکتا ہے شاید کیسی نے اسکا موبائیل چرا لیا ہو ہے نہ وہ پاگلوں کی طرح اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی وہ احمر نہیں ہوسکتا ۔۔۔
بھابھی ہوش کریں سنبھالیں خود کو سلمان آگے بڑھ کر اسے تسلی دیتا ہے ۔۔
ملنگ آنکھیں بند کرتا ہے اور اس جگہ کو دیکھتا ہے جہاں وہ ڈھانچہ پڑا ہے وہ ۔۔ وہ آب اس دنیا میں نہیں ہے شیطان کے پیروکار نے اسکا جسم چرا لیا ہے ملنگ کھوئے انداز میں کہتا ہے اور پھر آنکھیں کھول لیتا ہے شیطان کے پیروکار نے کلیسا پھر کھڑا کر لیا ہے باہر کالے بادل چھانے لگتے ہیں تیز ہوایں چلنے لگتی ہیں
جنہیں دیکھ کر ملنگ کہتا ہے اور وہ شیطانی طاقتوں کو اکٹھا کر رہا ہے ہمیں جلدی کرنی چاہیے اس بچے کو ڈھونڈ کر مارنا ہوگا چلو وہ جن زادی کو لے کر چلا جاتا ہے صلہ کے کلیجے کو ہاتھ پڑتا ہے وہ میرے بچے کو مار دیں گے وہ بڑبڑاتی ہے اسے سب کچھ بول جاتا ہے یاد رہتا ہے تو یہ کہ اسے اپنے بچے کو بچانا ہے وہ جھٹکے سے کھڑی ہوتی ہے اور سلمان کو دھکا دیتی باہر بھاگتی ہے ۔
بھابھی رکیے آپ کہاں جارہی ہیں سلمان بھاگ کر صلہ کو پکڑتا ہے چھوڑ دو سلمان مجھے میں اپنے بچے کو بچانے جارہی ہوں یہ سب لوگ اسے مار دیں گے مجھے کیسی بھی طرح اپنے بچے کو بچانا ہے صلہ سلمان کی گرفت سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہے ۔۔
ٹھیک ہے صلہ بھابھی اسے کچھ نہیں ہوگا ہم۔ اسے شیطان کے چُنگل سے چھڑا لیں گے تم ہوش سے کام لو میں بھی چلوں گا ساتھ تمہارے ہم۔ دونوں مل کر مقابلہ کریں گے ان کے ساتھ سنا تم نےسلمان اسے یقین دلاتا ہے وہ بچوں کو اکیلا گھر میں چھوڑ کر جنگل کی طرف جاتے ہیں ۔۔
. . . . . ********
پادری نے لمبا سا کالا چولا پہنا ہے اور وہ شیطان کی بڑی مورتی کے سامنے کھڑا ہے
اس کے اددگرد شیطانی طاقتیں اسکے حکم کی۔ منتظر ہیں ۔۔۔
اے میرے مالک برائی کے روح رواں ہم تیری پرستیش کرتے ہیں تو ہمیں طاقت دے کہ ہم برائی کو پھیلا سکیں۔ اور اچھائی کو مٹاسکیں سب لوگ تیری ہی پرستیش کریں اور زمیں پر تیرا ہی بول بالا ہو وہ۔ہوا میں ہاتھ اٹھائے شیطان کو پکارتا ہے ۔۔۔
قانطہ بچہ لیے وہاں آتی ہے شیطان نے تیری سن لی وہ پادری کو پکارتی ہے وہ مڑ کر دیکھتا ہے تو یہ ہے وہ بچہ جو میری مدد کرے گا برائی پھیلانے میں وہ۔اسکے قریب جاتاہے بچہ اپنی گول گول آنکھوں سے خیران پریشان اسے دیکھتا ہےوہ پادری کو احمر۔ سمجھتا ہے بابا وہ ہاتھ اسکی طرف بڑھاتا ہے ۔۔۔
پادری عجیب نظروں سے اسے دیکھتا ہے یہ مجھے بابا کہہ رہا ہے وہ پریشان ہوکر قانطہ کو دیکھتا ہے ۔۔
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جس کے جسم کا لباس تو نے چرایا ہے یہ اسکے گھر پیدا ہوا تھا اور یہ تمہیں اپنا باپ سمجھ رہا ہے قانطہ اس کے کان میں۔ سرگوشی کرتی۔ ہے ۔۔۔
پادری اسے پکڑ کر ہوا میں بلند کرتا ہے یہ تو بہت اچھا ہوا تو پھر یہ ہماری بات ضرور مانے گا یہ ہے شیطان کا بیٹا وہ۔ چلاتا ہے اسکے ساتھ ہی ساری بری۔ طاقتیں بھی دہاڑنے لگتی ہیں جس سے درودیوار کانپ اٹھتے ہیں مائیں۔ اپنے بچوں کو سینے سے لگالیتی ہیں لوگوں میں
خوف و حراس پھیل۔ جاتا ہے ہر چیز کانپنے لگتی ہے کالے بادل گول چکروں میں علاقے کا محاصرہ کر لیتے ہیں ۔۔۔
جاو شیطان۔ کے سننان کی تیاری کرو بچوں کو اٹھا لاو ان کے خون سے شیطان کو ابیشیکھ دیا جائے گا پادری شیطان کے پیروکار جنات کو حکم دیتا ہے وہ اڑتے ہوے آبادی کی طرف جاتے ہیں اور لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور بچوں کو اٹھا کر کلیسے کی طرف لے جانے لگتے ہیں۔ ایک کریہا شکل جن صلہ کے گھر بھی داخل ہوتا ہے وہ بچوں کی خوشبو سونگتا ہوا انکے کمروں۔ تک جاتا ہے بچے ڈر کے مارے الماری میں۔ چھپ جاتے ہیں۔ جن۔ کمرے میں چاروں طرف سونگھتا ہو بلغم۔ زدہ بھاری آواز میں۔ کہتا ہے مجھے تمہاری خوشبو آرہی ہے تم۔ مجھ سے چھپ نہیں۔ سکتے میں تجھے ڈونڈ لوں گا ۔۔۔
بچے الماری کی درز سے اس کریہا شکل بھیانک جن کو دیکھتے ہیں جس کامنہ کیسی چھپکلی کی ماند تھا عماد کی چیخ نکلنے لگتی ہے ستارہ اسکے منہ پہ۔ ہاتھ رکھ دہتی ہے جن تیز سانسوں اور زور سے دھڑکتے دل کی آہٹ سن لیتا ہے وہ الماری کی طرف بڑتا ہے اور اسکے پٹ کھول دیتا ہے ڈھونڈ لیا۔ ۔۔۔
ستارہ اور عماد کی چیخوں سے پورا گھر گونج اٹھتا ہے وہ ان کو اٹھا کر لے جاتا ہے
صلہ اور سلمان جنگل میں پہچتے ہیں وہاں انہیں۔ دو بزرگ میاں بیوی نظر آتے ہیں وہ۔ انکے پاس جاتے ہیں ۔۔
بزرگ خاتوں لیٹی ہوئی ہوتی ہیں اورکافی بری حالت میں کھانستی ہیں صلہ انکے پاس بیٹھتی ہے انہیں کیا ہوا ہے بابا جی بزرگ سے پوچھتی ہے ۔۔
بیٹا یہ بہت بیمار ہے اگر اسے کیسی ڈاکٹر کو نہ دیکھا تو یہ مر۔ جائے گی اور ہماری کوئی اولاد بھی نہیں۔ جو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائے اور میری۔ بوڑھی ہڈیوں میں۔ اتنا دم۔ نہیں کہ میں اسے کہیں لے جاوں میں خود معزور ہوں بیٹا یہ ادھر ہی تڑپ تڑپ کر مر جائے گی اور میں بھی بزرگ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر جھریوں زدہ چہرے میں جزب ہوجاتے ہیں۔
صلہ کو ان پر ترس آجاتا اور خوفِ خدا کی وجہ سے وہ انہیں ہاسپٹل پہچانے کا سلمان کو کہتی ہے سلمان تذبز کا شکار ہوتا ہے وہ صلہ کو کہتا ہے کہ ہمیں جلدی وہاں پہچنا ہے اور ہاسپٹل یہاں سے دوسری سمت ہے اگر ہم۔ وہاں گئے تو بہت دیر ہوجائےگی
تو کیا ان کو مرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کرے گا کہ میں نے کیسی کی مدد نہیں کی خالانکہ میں کرسکتی تھی صلہ ان بوڑھے اور لاچار میاں بیوی کو دیکھ کر کہتی ہے۔۔
ٹھیک ہے پھر ہمیں انکو جلدی۔ ہاسپٹل چھوڑ کر آنا ہوگا سلمان آگے بڑھ کر بوڑھی عورت کو اٹھا کر جیپ کی پچھلی سیٹ میں بیٹھاتا ہے اور پھر بزرگ کو اور دونوں۔بھی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سلمان۔ جیپ سٹارٹ کرنے لگتا ہے بوڑھا اسکو بتاتا ہے کہ میں ایک راستے کو جانتا ہوں جو شارٹ کٹ ہے ہم ہاسپٹل۔ جلدی۔ پہنچے گے۔۔ ٹھیک ہے بابا جی بتایے سلمان بزرگ کے بتاے ہوے راستے پر جیپ دوڑا دیتا ہے کالے بادلوں نے ہر طرف اندھیرا کر۔ دیا تھا سلمان نے جیپ کی ہیڈ لائٹ جلا رکھی تھیں۔ دائیں۔ بائیں۔ کچھ نظر نہیں۔ آرہا تھا راستہ کافی اوبھڑ کھابڑ تھا شاید وہ پہاڑی۔ راستے سے جارہے تھے کافی دیر ڈرائیو کرنے کے بعد سلمان نے بزرگ سے پوچھا آپ نے ہمیں۔ کس راستے پر ڈال دیا ہے آپ بول تو نہیں گئے راستہ ۔۔
نہیں۔ بیٹا میں کچھ نہیں بولا یہ ہی راستہ ہے تم گاڑی چلاتے رہو ۔۔۔۔ سلمان نے آنکھیں چھوٹی کرکے غور کیا تو اسے معلوم۔ ہوا کہ وہ تو بڑے پہاڑوں کی طرف آگئے ہیں اس نے جٹکے سے جیپ روکی بابا جی آپ۔ ہم۔ سے مزاق کررہے اسنے پیچھے دیکھ کر کہا آدھی بات اسکے منہ میں۔ راہ۔ گئی کیوں کہ پیچھلی سیٹیں خالی۔ تھیں سلمان کا رنگ فق ہوگیا وہ ابھی تک بت بنا پیچھے دیکھ رہا تھا جب صلہ۔ نے زور سے اس کا کندھا ہلایا سلمان نے صلہ کی طرف دیکھا جو سامنے دیکھ رہی تھی اس نے سامنے اشارہ کیا سلمان نے سامنے دیکھا
دو سفید پوش بزرگ جن کے چہرے نورانی تھے سامنے کھڑے تھے انکے جسموں سے سفید روشنی پھوٹ رہی تھی باہر آو نیک دل انسانوں دونوں نے یک زبان ہوکر کہا
سلمان۔ اور صلہ۔ کیسی ٹرانس میں باہر نکلے عجیب بات تھی دونوں کو ان۔ سے ڈر نہیں لگ رہا تھا
یہ وہی سفید پوش درویش تھے جنہوں نے پادری کو زندہ غرق کیا تھااور گاوں کو ہلاک ۔
ہم تمہیں۔ آزما رہے تھے کہ تم لوگ رحم دل اور نیک انسان ہو کہ نہیں تم۔ لوگ آزمائش پر۔ پوراا ترے تمہارا دل صاف شفاف اور چڑیا کی طرح نرم ہے ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اچھائی ابھی زندہ ہے
تم جہاں جارہے ہو وہاں کوئی معمولی انسان ٹک نہیں سکتا اور تم نہتھے برائی کا مقابلہ نہیں کرسکتے یہ سب قسمت کے کھیل۔ ہیں ثابت قدم رہو گے تو بچ جاو گے اگر تمہارے قدم لڑکھڑا گئے تو مارے جاو گے وہ انہیں ایک سبز کپڑے میں لپٹی کوئی چیز دیتے ہیں سلمان اسے پکڑ کر کپڑا ہٹاتا ہے وہ اندر سے روشنی کی طرح چمکتا ایک خنجر نکلتا ہے جس پر کچھ آیات لکھی ہوتی ہیں وہ خنجر ہوا میں بلند کرتا ہے جو اندھیرے کو چیر کر روشنی پیدا کرتا ہے ۔۔
اسے اپنے پاس رکھو کھبی یہ تمہارے کام آئے گا اس شیطان کے پیروکار کا حاتمہ صرف وہ عفریت کا بچہ ہی کرسکتا ہے اور کوئی نہیں اور اگر وہ اسکی مدد کرتا ہے تو اس بچے کو اس خنجر سے ہلاک کرنا ہوگا نہیں تو برائی اچھائی پر غالب آجائے گی درویش کی بات سن کر۔ صلہ۔ کے دل۔ پر۔ گھونسہ پڑتا ہے وہ ضبط سے آنکھیں میچتی ہے کہتی کچھ نہیں ۔۔
درویش اسکی خالت سے واقف ہوتے ہیں میری۔ بچی حق کی راہ پر۔ بہت سی قربانیاں۔ دینی پڑتی ہیں۔ جو انسان قربانی یا ایثار کا جزبہ نہیں رکھتا وہ کبھی بھی دنیا یا آخرت میں کامیاب نہیں ہوسکتا اللہ اپنے نیک بندوں سے آزمائشیں مانگتا ہے ۔ جو بندہ اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے آزمائش پر۔ پورا اترتا ہے وہ ہی دنیا وآخرت میں سرخرو ہوتا ہے
آب جاو تمہارا کڑا وقت شروع ہوچکا ہے
وہ۔ واپس مڑ کر گاڑی میں بیٹھتے ہیں سامنے دیکھتے ہیں ان کو وہاں کوئی نظر نہیں آتا وہ جگہ سنسان ہوتی ہے جہاں تھوڑی دیر پہلے وہ سفید پوش کھڑے تھے
یہ کیا ہورہا ہے سلمان میری سمجھ میں کچھ نہیں۔ آرہا یہ کس قربانی کی بات کررہے تھے اور یہ کون تھے کہاں سے آئے کہاں گئے لگتا ہےمیں پاگل۔ ہوجاوں گی صلہ اپنا چہرہ گود میں گیرا لیتی ہے ۔
سب اللہ کے رحم۔ وکرم پہ چھوڑ دو
سلمان جیپ سٹارٹ کرکے جنگل میں کلیسے کا رخ۔ کرتا ہے ۔۔
*********
ادھر ملنگ اور خداِ یکتہ پر ایمان رکھنے والے جنات کلیسے کے باہر پہنچتے ہیں۔
ملنگ پادری کو للکارتا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اللہ کے خضور معافی مانگے
پادری بچے سمیت باہر آتا ہے ملنگ یہ دیکھ کر خیران ہوجاتا ہے کہ وہ بلکل احمر کی طرح دیکھتا ہے اس بار
ہاہاہاہا کیا کہا کہ میں اس سے معافی مانگوں نہیں آب ایسا نہیں ہوگا پہلے میں کمزور تھا لیکین اب میں بہت طاقتور ہوگیا ہوں مجھے شیطان نے بے پناہ طاقتیں دیں ہیں برے اوپر سے یہ بچہ جو کمال کی طاقتیں رکھتا ہے یہ میری حفاظت کرے گا تم۔ میرا کچھ نہیں بگاڑ پاو گے اس دفعہ میں۔ امر ہوجاوں گا ہمیشہ ہمشہ کے لیے وہ طاقت کے نشے میں چور ایک بلند قہقہہ لگاتا ہے ۔۔
ملنگ جنات کو اس پر حملہ کرنے کو کہتا ہے جنات آگے بڑھتے ہیں پادری بچے کو کہتا ہے میرے بچے ان سب نافرمانوکو میرا غلام بنا دو بچے کے ہاتھ سے بجلیاں نکلتی ہیں اور وہ ان جنات پر گیراتا ہے جس سے وہ سب پادری کے قدموں میں گیر جاتے ہیں اور اس بڈھے کو کلیسے کے باہر ٹانگ دو تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں کہ جو بھی شیطان کی نافرمانی کرے گا اسکا یہی انجام ہوگا پادری طیش میں آکر کہتا ہے ۔۔ بچہ پھر جادو سے ملنگ کو کلیسے کے باہر ٹانگ دیتا ہے ۔۔
جنات آبادی سے بچے اٹھا لائے تھے پادری نے ان۔ میں سے دو بچے نکالے اور باقیوں کو جادو سے ہپنوٹائز کرکے انکے دماغوں کو کنٹرول کر لیا تاکہ آئندہ شیطان کی بھینت چڑھا سکیں پادری نے ان دو معصوموں کے خون سے شیطان کی مورتی کو دھویا اور باقیوں کو شیطان کو سجدہ کرنے کو کہا عماد ستارہ اور باقی بچے شیطان کے آگے سر جھکانے لگے ۔۔
میرے مالک برائی پھیلانے کا وقت آگیا ہے بہت جلد سب لوگ آب تیری پرستش کیاکریں گے پادری گھٹنوں کے بل۔ بیٹھ کر ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے اسکو دیکھ کر ساری بری طاقتیں گھتنوں کے بل بیٹھ جاتی ہیں
کلیسے کے اوپر بادل۔ گہرے کالے رنگ کے منڈلانے لگتے ہیں بارش تیز ہوا کے ساتھ برسنے لگتی ہے ہر طرف پانی اور کیچڑ ہوجاتا ہے زمین پھٹنے لگتی ہے اور نیچے پتال لوک سے عجیب وغریب مخلوق کیچڑ سے۔ لت پت باہر آنے لگتی ہیں ۔۔
اُدھر سلمان اور صلہ بھی کلیسے کہ پاس پہنچ جاتے ہیں زمیں سے نکلتی عجیب وغریب اور ہیبتناک چیزوں کو دیکھ کر صلہ اور سلمان ڈر جاتے ہیں یہ کیا بلائیں ہیں آف میرے خدایا صلہ انکودیکھ کہ منہ دوسری طرف کرلیتی ہے اتنی ڈراونی اور کریہہ۔۔ سلمان بھاگ کرجیپ سے وہ سبز رنگ کے کپڑے میں لپٹا خنجر نکالتا ہے اور صلہ کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑتا ہے صلہ اپنے مہرباں کی طرف دیکھتی ہے جس کے خوبصورت چہرے سے بارش کا پانی ابشار کی طرح بہہ رہا تھاوہ بنا کیسی رشتے کے اس کی مدد کر رہا تھا سلمان اسے اپنی طرف دیکھتے پاکر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہتا ہے چلیں جیسے وہ سر ہلا کر ہاں کہتی ہے ایک ہاتھ میں خنجر دوسرے میں صلہ کا ہاتھ پکڑے وہ کلیسے کی طرف بڑھتا ہے کے اچانک ایک چھ ٹانگوں والا بھیڑیے نما جانور زمیں سے نکل کرانکے سامنے آجاتا صلہ میرے پیچھے رہنا وہ دونوں ہاتھوں سے خنجر تھامتا ہے ۔۔
وہ بھیڑیے نما جانور انکی طرف دوڑتا ہے سلمان خنجر پوری قوت سے گھماتا ہے اور اسکا سر تن سے جدا کر دیتا ہے وہ وہی تڑپ کر مٹی میں مل جاتا ہے چلو وہ اپنا ہاتھ صلہ کے آگے پھیلاتا ہے جیسے بنا تامل وہ تھام لیتی ہے بارش کے ساتھ آسمانی بجلی بھی چمکنے لگتی ہے پھسلن زدہ راستے سے گزرتے ہوے صلہ پھسل کر کمر کے بل گیرتی ہے اسکا ہاتھ سلمان سے چھوٹ جاتا ہے تبھی صلہ کے نیچے زمیں پٹھتی ہے اور دو ہاتھ اسے پیروں سے تھام لیتے ہیں کوئی چیز اسے زمین کے اندر کھنچنے لگتی ہے صلہ چلاتے ہوے اس میں دھنس جاتی ہے سلمان نے خنجر پھینک کر بھاگ کےصلہ کے ہاتھ پکڑے اور۔ زور سے کھنچنے لگا وہ پوری طاقت لگا کر بھی اسے اوپر نہیں کھینچ پارہا تھا صلہ آہستہ آہستہ زمیں کے اندر جارہی تھی۔۔
سلمان مجھے بچاوسلمان صلہ چیخ رہی تھی سلمان نے کچھ سوچ کر صلہ کے ہاتھ چھوڑے اور جنجر اٹھا کر دھڑاڑ میں چھلانگ لگادی دھڑاڑ پانی سے بھر رہی تھی نیچے ایک کنکال جس کی ٹانگیں نہیں تھیں وہ صلہ کو نیچے کھنچ رہا تھا سلمان نے خنجر کے وار سے اسکے بازو بھی کاٹ دیے صلہ رینگتے ہوے باہر نکلی اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا کنکال کے کٹے ہوے ہاتھوں نے ابھی بھی اسکی ٹانگوں کو تھام رکھا تھا اس نے جلدی سے کانپتے ہوے ہاتھوں سے انکی گرفت سے اپنے پیر آزاد کراے سلمان نے باہر نکل کر صلہ کو اٹھایا جو ابھی تک کانپ رہی تھی چلو صلہ جلدی کرو ہمیں چرچ جلدی پہچنا ہے وہ ان کریہہ جانوروں سے بچتے بچاتے چرچ کے سامنے پہنچے جہاں ملنگ کو رسیوں سے جھکڑا گیا تھا بابا جی آپ کی یہ خالت کیس نے کی سلمان آگے بھڑا وہ شیطان کا پیروکار آب اور بھی طاقتور ہوگیا ہے اور اسکی وجہ ہے وہ عفریت کا بچہ جب تک وہ اسکے ساتھ ہے ہم اسکا کچھ نہیں۔ بگاڑ سکتے اس نے اچھے جنات کو بھی اپنا غلام بنالیا ہے ملنگ کی اچانک نظر خنجر پر پڑتی یے یہ تمہیں کہاں سے ملا اس سے توکیسی بھی شیطانی طاقت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے۔۔
سلمان انہیں سارا واقعہ سناتا ہے ۔۔
تو پھر یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو جاو اندر اور اس کے ناپاک شر سے زمین کوپاک کردو ۔۔
صلہ اور سلمان اندر جاتے ہیں ٹھٹھک کر رک جاتے ہیں سامنے کانطہ کھڑی نظر آتی ہے وہ انہیں دیکھ کر مکررو ہنسی ہنستی ہے ۔۔اپنی موت کے منہ میں خود ہی مرنے چلےآئے بے وقوف انسان اگر بچنا چاہتے ہوتو شیطان کو سجدہ کرو میں تمہیں بخش دوں گی
وہ تو وقت ہی بتاے گا کون عقل مند ہے اور کون بے وقوف اور کون کیسے مارتا ہے سلمان صلہ کوایک ہاتھ سے پیچھے رہنے کا کہتا ہے
تو چلو پھر دیکھ لیتے ہیں قانطہ ایک ہاتھ اٹھاتی ہے اور پاس پڑا ایک مجسمہ اسکی طرف پھینکتی ہے جسے سلمان بروقت جھک کر اسکا وار ناکام بناتا ہے اگر تم اتنا ہی دم۔ ہے تو مجھ سے جادو کے بغیر لڑ کر دیکھا پھر میں مانوں تو کتنی طاقتور ہے سلمان اایک چال چلتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ اس سے جیت نہیں سکتا اپنا لک آزمانے میں کیا برائی ہے ۔۔
قانطہ اسکے دام میں آجاتی ہے اور اس سے جادو کے بغیر لڑنے کے لیے رضا مند ہوجاتی ہے وہ سمجھتی ہے کہ ایک عام سا آدم۔ زاد اسکا کیا بگاڑ لے گا وہ اپنی چھڑی کو تلوار میں بدلتی ہے صلہ بھاگ کر ایک پیلر کے پیچھے چھپ جاتی ہے وہ دونوں گول گول گھومتے ہوے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں پھر بھاگ کر ایک دوسرے پر خنجر اور تلوار سے حملہ کرتے ہیں پاک خنجر جیسے ہی ناپاک تلوار سے ٹکراتا ہے تلوار دو ٹکروں میں ٹوٹ جاتی ہے قانطہ کی ساری طاقت اس چھڑی سے تھی
تلوار کو دو ٹکروں میں ٹوٹتا دیکھ وہ ٹوٹی تلوار سے پاگلوں کی طرح سلمان پر حملہ کردیتی ہے سلمان اسکے ہر وار کا بھرپور جواب دیتا ہے وہ پوری طاقت سے جوابی حملہ کرتا ہے قانطہ اسکا خنجر والا ہاتھ مظبوطی سے پکڑ لیتی ہے اسکی پکڑ اتنی مظبوط ہوتی ہے کہ خنجر اسکے یاتھ سے چھوٹ جاتا ہے وہ سلمان کو گلے سے پکڑ کر ہوا میں بلند کرتی ہے سلمان کا سانس اکھڑنے لگتا ہے وہ کیسی پرندے کی طرح پھڑپھڑاتا ہے صلہ کی جان حلق میں جاتی ہے اسکو سمجھ نہیں وہ کیا کرے اسے زمیں پر پڑا خنجر نظر آتاہے پھر اس میں اتنی طاقت پتہ نہیں کہاں سے آجاتی ہے وہ بھاگ کر خنجر اٹھاتی ہے اور وہ خنجر قانطہ کے بازو پر مارتی ہے قانطہ تنفر سے صلہ کو دیکھتی ہے اسکی نظروں سے ڈر سے صلہ الٹے پاوں پیچھے ہٹنے لگتی ہے قانطہ آدھ مرے سلمان کو پرے پھینکتی ہے اور صلہ کی طرف بڑھتی ہے بے وقوف لڑکی میں ان کھلونوں سے مر جاوں گی وہ غصے سے پھنکارتی ہے اچانک اسکے بازو پر جلن ہونے لگتی ہے وہ رک کر بازو دیکھتی ہے جہاں خنجر کا کٹ لگا تھا یہ کس چیز سے مارا ہے مجھے وہ چیخنے لگتی ہے اسکا جسم سرمے کی طرح زمیں پر گیرنے لگتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے قانطہ سرمے کا ڈھیر بن جاتی ہے وہ بھاگ کر سلمان کے پاس جاتی ہےاسکی اکھڑی اکھڑی سانسیں چل رہی ہوتی ہیں سلمان آنکھیں کھولو سلمان میں آب تمہیں کھونا نہیں چاہتی وہ روتے ہوے دونوں ہاتھوں سے زور زور سےاسکا سینہ دباتی ہے سلمان کھانستے ہوے دوہرا ہوجاتا ہے اسکی سانسیں روانی سے۔ چلنے لگتی ہیں وہ خود پر جھکی صلہ کو دیکھتا ہے جس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو ہوتے ہیں وہ بھیگی آنکھیں سلمان کے دل میں۔ اتر جاتی ہیں
کچھ یاد آنے پر وہ۔ جلدی سے سیدھا ہوتا ہے وہ چڑیل کہاں گئی سلمان چاروں طرف دیکھتا ہے ۔۔۔
وہ اپنے انجام کو۔ پہنچ گئی ہے صلہ آنسو صاف کرکے بتاتی ہے ۔۔
سلمان اسکی طرف دیکھتا ہے تم۔ نے چڑیل کو مار دیا اکیلے مجھے یقین نہیں ہورہا ۔۔
یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا کہ وہ طاقت مجھ میں۔ کہاں۔ سے آگئی صلہ خنجر سلمان کو واپس کرتے ہوے مسکراتی ہے
اور وہ چرچ میں داخل ہوتے ہیں ۔
سامنے کا منظر سلمان اور صلہ کے لیے ناقابل یقین ہوتا ہے ۔
احمر تم۔ زندہ ہو صلہ پادری کو۔ دیکھ کر کہتی ہے ۔۔
ہاں میری جان میں۔ زندہ ہوں احمر کی کھال میں۔ پادری بولتا ہے۔ ۔
ماما اللہ رکھا پادری کے پیچھے سے نکل کر ارتا ہوا صلہ کے گلے لگ جاتا ہے میرا بچہ اسے دیکھ کر صلہ کی جان میں۔ جان آتی ہے وہ اسے بے تحاشہ چومتی ہے تم۔ ٹھیک ہو چلو احمر یہاں۔ سے چلتے ہیں یہاں۔ رکنا ٹھیک نہیں وہ گھومتی ہے
نہیں ہم یہاں۔ سے نہیں۔ جائیں گے احمر کی بات سن کر صلہ کے بڑھتے قدم رک جاتے ہیں وہ اللہ رکھا کو سینے سے لگائے گھومتی ہے۔۔۔
احمر اس کے پاس آتا میری ملکہ آب ہم یہاں رہیں گے اس کلیسا کے اندر آب یہی ہمارا گھر ہے ۔۔۔
صلہ ٹھٹھکتی ہے احمر کبھی اسے ملکہ نہیں بلاتا تھا نہیں احمر ہم یہاں نہیں۔ رہ سکتے ہمارے بچے گھر پر اکیلے ہیں اور یہ شیطان کے پیروکار کا چرچ ہے تم چلو یہاں سے ۔۔
میں ہوں شیطان کا پیروکار اور تم بھی شیطان کے بیت کر لو ہم اس دنیا پر راج کریں گے وہ اسے بانہوں سے پکڑتا ہے اس کے چھونے سے وہ اجنبیت محسوس کرتی ہے اس کے اندر وہ احساس پیدا نہیں ہوتا جو خاوند کے چھونے سے بیوی کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹتی ہے تم میرے احمر نہیں ہوسکتے ۔۔
سلمان صلہ کی طرف حیرانگی سے دیکھتا ہے جو کافی دیر سے پیچھے خاموش کھڑا تھا ۔۔
ہاں میں نہیں ہوں وہ پر اس سے کیا فرق پڑتا ہے تم میری ملکہ بن کر ہمیشہ کے لیے امر ہوجاو گی آجاو میرے پاس پادری بانہیں پھیلا کر کہتا ہے۔۔
دور رہو مجھ سے میں تھوکتی ہوں تمہاری امریت پہ وہ اسکے منہ پر تھوکتی ہے جسے وہ غصے سے صاف کرتا ہے بے وقوف لڑکی یہ تم نے اچھا نہیں کیا وہ بچے کو اس سے چھین کر الٹا ہاتھ اسے رسید کرتا ہے جس سے وہ اوڑ کر شیطان کے مجسمے کے آگے گیرتی ہے سلمان اسکی طرف خنجر لیکر بڑھتا ہے پادری اسے اٹھا کر دیوار میں دے مارتا ہے صلہ سر اٹھاتی ہے اسے سامنے کچھ بچے شیطان کے آگے جھکتے دیکھائی دیتے ہیں جن میں ستارہ اور عماد بھی ہوتے ہیں وہ بھاگ کر انکے پاس جاتی ہے پر وہ ہوش سے بیگانہ ہوتے ہیں ستارہ عماد ہوش میں آو یہ کیا کررہے ہو یہ گناہ ہے ایسا مت کرو پر وہ مسلسل سجدے کیے جاتے ہیں پادری زور دار قہقہہ لگاتا ہے اچھا تو یہ بچے تیرے ہیں آب تو اور بھی مزہ آئے گا تجھے جھکانے میں وہ ستارہ کواپنے پاس بولاتا ہے وہ۔ کیسی روبورٹ کی طرح چل کر اس کے پاس جاتی ہے صلہ اسے روکتی ہے پر وہ اسکی بات نہیں سنتی پادری اسے کہتا ہے کہ اپنا ایک ہاتھ کاٹ لے یہ سنتے ہی صلہ کا دل کیسی نے مٹھی میں بینچ لیا وہ اٹھنا چاہتی ہے پر اٹھ نہیں پاتی اسکا نچلا حصہ پیرالائز ہوجاتا ہے ستارہ ایک تیزدارا آلہ اٹھاتی ہے اور اس سے اپنا ایک ہاتھ کاٹ لیتی ہے اسکے بازوں سے خون فوارے کی طرح نکلنے لگتا ہے صلہ چلاتی ہے نہیں ایسا مت کرو پر ستارہ پھٹی پھٹی نظروں سے خون
بہتا دیکھتی ہے اگر تم شیطان کو سجدو کرو تو میں یہ سب روک سکتا ہوں پادری صلہ کو کہتا ہے ۔۔
نہیں میں ایسا کبھی نہیں کروں گی تم۔ چاہو تو مجھے مار لو جتنی ازیت دینی ہے مجھے دے لو پر میرے بچوں کو چھوڑ دو صلہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔ ۔
تمہیں میں اتنی جلدی موت نہیں دوں گا جب تک تم۔شیطان کو سجدہ نہیں۔ کرو گی تمہیں موت بھی نہیں آئے گی تم۔ ان سب کو مرتا دیکھو گی اور انکی موت کی زمہ دار تم ہوگی صرف تم پادری ایک بڑی سی کرسی پر بیٹھتا ہے بچہ گول گول آنکھوں سے سب دیکھتا ہے پر وہ فیصلہ نہیں کر پارہا ہوتا تذبز کا شکار نظر آتا ہے
ستارہ کا سارا خون بہہ جاتا ہے جس سے وہ بے جان ہوکر گیر جاتی ہے میری بچی صلہ کا رو رو کر برا حال ہوجاتا ہے ۔۔
آبھی بھی وقت ہے شیطان کو سجدہ کر لو پادری صلہ کو کہتا ہےاور عماد کو اپنے پاس بلاتا ہے ۔۔
چھوڑ دو میرے بچے کو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں انکی جگہ میرا سر قلم کر دو میں آف بھی نہیں کروں گی انکو جانے دو رحم کرو ان پر ان معصوموں نے تمہارا کیا بگاڑہ ہے ۔ صلہ آنسو سے تر چہرے کے ساتھ کہتی ہے ۔۔
پادری عماد کو جادوکے اثر سےآزاد کرتا ہے مکمل ہوش میں آنے کے بعد عماد رونے لگتا ہے ماما پاپا یہ ستارہ کو کیا ہوا ہے اسکا ہاتھ کس نے کاٹ دیا ہے وہ صلہ کے پاس جانا چاہتا ہے پر پادری اسے گلے میں بازو ڈال کر روک لیتا ہے رکو میرے بچے پہلے اپنی ماما کو بولو جو پاپا کہتے ہیں وہ مان لےپھر تم انکے ہاس جاسکتے ہو پادری اسکے کان کو۔ منہ لگاتاہے ۔۔۔
دور رہومیرے بچے سے پلید خیوان نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا صلہ روندے ہوےگلے کے ساتھ چیختی ہے لاکھ کوشش کے باوجود وہ حرکت نہیں کرپاتی۔ ۔
ماماپلیز پاپا جو کہتے ہیں آپ وہ مان لیں عماد روتے ہوے صلہ کو کہتا ہے۔ ۔
یہ تمہارے پاپا نہیں ہیں عماد یہ شیطان ہے شیطان صلہ چلاتی ہے ۔۔ پادری ایک چاکو کے ساتھ عماد کے گال پر کٹ لگاتا ہے جس سے خون۔ کی ایک لکیر پیدا ہوتی ہے عماد درد سے چیختا ہے اسکی گال سے خون بہہ کر شرٹ پر گرنے لگتا ہے پھر وہ اسکا ایک کان کاٹ دیتا ہے مامااااااا۔ ۔۔۔ وہ صلہ کو پکارتا ہے اسکی درد بھری آواز سے صلہ کا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے میرے بچے میں مجبور ہوں میں کچھ نہیں کرسکتی صلہ کو درویش کی بات یاد آتی ہے حق کی راہ پر قربانیاں دینی پڑتی ہیں صلہ منہ اوپر کرکے خالق کو پکارتی ہے یااللہ ہماری مدد فرما جیسے تو نے
یونسؑ علیہ سلام کی مچھلی کے پیٹ میں کی تھی ابراہیمؑ علیہ سلام کی آگ میں کی تھی یوسفؑ علیہ سلام کی کنویں میں کی تھی عیسیٰ علیہ سلام کی صلیب پہ کی تھی موسیٰ علیہ سلام کی نیل میں کی تھی تو اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا ہم پر رحم فرما اس شیطان نما حیوان کو عبرت کا نشاں بنادے مجھے اتنا نہ آزما میری آزمائش میں نرمی فرما بے شک تو ہر چیز پہ قادر ہے اگر یہ میرے ایمان کی آزمائش ہے تو میں اپنے بچے اپنا شوہر اپنی جان سب کچھ تجھ پر قربان کرتی ہوں مرتے وقت میرے لبوں پر میرے سوہنے نبی پاک کا کلمہ ہو میں پناہ مانگتی ہوں شیطان مردود سے اور سجدہ ریز ہوجاتی ہے آنکھیں شدتِ غم سے سرخ ہوجاتی ہیں اور ان سے آنسو متواتر سے بہتے ہیں ۔۔
وہ۔ سنتا ہے جو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے
ایک ماں کی دعا عرش پر پہنچ جاتی ہے
اور اللہ کی مدد اپنے نیک بندوں کے لیے ضرور پہچتی ہے
ہاہاہاہاہاہا غرور سے بھرا قہقہہ بلند ہوتا ہے
پکار لے پکار لے جیسے پکارنا ہے پکار لے یہاں تیری مدد کو کوئی بھی آنے والا نہیں تجھے شیطان کو سجدہ کرنا ہی ہوگا وہ عماد کے گلے پر تیزدار چاکو چلا دیتا ہے
عماد زمین پر تڑپنے لگتا ہے
صلہ سجدے سے سر نہیں اٹھاتی وہ اللہ کی مدد کی منتظر ہے۔۔
سراٹھاو بے وقوف لڑکی یہاں تیری مدد شیطان کے علاوہ کوئی نہیں کرے گا وہ صلہ کے پاس جاکے بیٹھتا ہے لگتا ہے تو نہیں مانے گی میرے بچے اٹھا وہ خنجر اور کاٹ دے سر اس نافرمان کا پادری صلہ کے پاس بیٹھے بیٹھے بچے کو کہتا ہے وہ سلمان کے پاس پڑا خنجر اٹھاتا ہے اور انکی طرف بڑھتا ہے
اپنے آپ کو خدا کہنے والےنمرود کو ایک مچھر سے مروانے والے کی مدد آپہنچی
جس کو بڑا زعم تھا نیل میرے حکم سے بہتا ہے اسکو اسی میں غرق کرکے عبرت کا نشان بنانے والے کی مدد آپہنچی
دیو ہیکل ہاتھیوں کو جھنگ کے میدان میں نھنھے ابابیلوں سے مروانے والے کی مدد آپہنچی
صلہ سر اٹھا کر بھیگی آنکھوں سے اللہ رکھا کو دیکھتی ہے بچہ بھی اسے دیکھتا ہے
شاباش میرے بچے کاٹ دو گردن ایک ہی جھٹکے سے پادری بچے کو کہتا ہے
میرے بچے صلہ ممتا سے لبریز لہجے میں پکارتی ہے
اور فیصلہ ہوجاتا ہے بچہ خنجر اٹھا کر ایک ہی جھٹکے میں سر تن سے جدا کر دیتا ہے باہر آسمان پر بجلیاں کڑکتی ہیں بادل اور زوروشور سے برسنے لگتا ہے
صلہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے پادری کی سر کٹی لاش کو جلتا دیکھ رہی ہوتی ہے شیطانی طاقتیں چیخنے چلانے لگتی ہیں پورا جنگل آہو و پکار سے گونج اٹھتا ہے
ذمین سے نکلتی عجیب مخلوق پھر سے ذمین کے اندر گھسنے لگتی ہیں
صلہ اللہ رکھا کو بانہوں میں بھینچ لیتی ہے میرے بچے تو نے ثابت کر دیاکہ تو میرا ہی بیٹا ہے وہ سجدہ شکر بجا لاتی ہے
جنات آزاد ہوجاتے ہیں اور صلہ اور بچے کے گرد اکٹھا ہونے لگتے ہیں ملنگ بھی آزاد ہوکر وہاں آجاتا ہے تبھی عفریت شیطان کے مجسمے سے آواز آتی ہے تو نے میری نافرمانی کی ہے اسکی سزا تم کو اور تمہاری ماں کو۔ ضرور ملے گی تمہاری ساری طاقتیں چھین کر تم دونوں ماں بیٹے کو پتال لوک میں قید کرتا ہوں
اور آواز آنا بند ہوجاتی ہے صلہ ڈر جاتی ہے وہ ملنگ کی طرف دیکھتی ہے وہ آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ہم کچھ نہیں کرسکتے زمین بچے اور جن زادی کو نیچے کھنچنے لگتی ہے صلہ پریشان ہوجاتی ہے میں ماں ہوں اسکی وہ نہیں وہ چلاتی ہے وہ اپنے دو بچےاور شوہر کھوچکی ہے وہ اسے کھونا نہیں چاہتی ۔۔
تم اسکی حقیقی ماں نہیں تھیں ملنگ کہتا ہوا باہر جانے لگتا ہے جنات بھی غائیب ہونے لگتے ہیں اسکے ساتھ خنجر بھی غائیب ہوجاتا ہے۔ ۔
صلہ وہاں زمیں کو ہاتھوں سے ٹٹولتی ہے ہے جہاں سے اللہ رکھا اندر گیا تھا سلمان کو ہوش آتا ہے وہ صلہ کو زمین کے چھوتے دیکھتا وہ بڑی مشکل سے اٹھتا ہے اور صلہ کے پاس جاتا ہے یہاں ابھی کیا ہوا تھا وہ صلہ سے پوچھتا ہے صلہ اسے سب بتاتی ہے اور سلمان روتی ہوئی صلہ کو گلے سے لگا لیتا ہے وہ کلیسا سے باہر نکلتے ہیں بارش مسلسل اور لگاتار برس رہی ہے انکے باہر نکلتے ہی کلیسا زمیں بوس ہوجاتا ہے جیسے جیسے بارش برس رہی ہے انکے دماغ سے ساری پرانی یادیں بھی مٹ رہی ہیں
سلمان صلہ کا ہاتھ تھام لیتا ہے کھبی نہ چھوڑنے کے لیے ۔۔
اور میں اللہ عزوجل کا نام لے کر اس ناول کااختتام کرتا ہوں اس میں جو غلطی قطاحی ہوئی میں۔ اس سے توبہ کرتا ہوں اور اللہ توبہ کرنے والے کو۔ پسند کرتا ہے
ختم شُد

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

 صحبت کا اثر

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں