آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام - پارٹ 3

 Urdu Story


Sublimegate Urdu Font Stories

 آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام اردو کہانی - پارٹ 3


اب میرا دوست مجھے اسی قسم کے دیسی ہوٹلوں میں بھی لے جانے لگا تھا۔ پاکستان کی نئی نسل اب جوق در جوق ان ہوٹلوں میں جانے لگی تھی۔ ان ہوٹلوں میں یورپ کے آوارہ نوجوان بھی آتے تھے جنہیں آپ ہپی کہتے ہیں۔ ان میں چند ایک شائستہ قسم کے تہذیب یافتہ نوجوان بھی ہوتے تھے جو ہمارے ساتھ چرس پیتے، ناچتے اور ہر قسم کی بدتمیزی کا ساتھ دیتے تھے۔ ہم اپنے آپ کو یہ فریب دیا کرتے تھے کہ جو کام امریکہ کے مہذب لوگ کرتے ہیں وہ بُرا نہیں ہو سکتا۔ انگریزی تعلیم نے ہمارے ذہنوں کو انگریزوں کا غلام بنا دیا تھا۔ ہم خود کو ان پاکستانیوں سے برتر سمجھتے تھے جو ہماری طرح ماڈرن اور ایڈوانس نہیں ہوتے تھے مگر ٹھوکریں کھا کر پتہ چلا کہ ہم کمتری کی پستیوں میں رہتے تھے۔ بعد میں مجھ پر یہ راز کھلا کہ جو غیر ملکی ہپی اور شائستہ امریکی ہمارے ساتھ ناچا کرتے تھے وہ اسی مقصد کے لئے پاکستان بھیجے گئے تھے کہ پاکستان کی نئی نسل کو ذہنی، اخلاقی اور قومی لحاظ سے تباہ کر دیں اور بدکاری کے ایسے جراثیم پھیلائیں کہ نوجوان خود کو پاکستانی اور مسلمان کہنا عیب سمجھیں۔ ہم اچھی تعلیم سیکھنے کی کوشش کرتے رہے اور خود بڑا ثابت کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہے مگر دشمن کی سازش کو سمجھ ہی نہ سکے اور دشمن اپنی چال کامیابی سے چل گیا۔

میں اخبارات میں پڑھتی تھی کہ ہماری نئی نسل مغربی رنگ میں رنگی جا رہی ہے اور بے حیائی کی وباء پھیل رہی ہے۔ مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کی چیخ و پکار بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر اسی رفتار سے نئی نسل میں بے حیائی اور آوارگی بڑھتی جا رہی تھی۔ ہم لڑکیاں امیر زادوں کی کاروں میں چیخ چیخ کر قہقہے لگاتی قوم کی نظروں کے سامنے سے زناٹے سے گزر جاتی تھیں۔ ہمیں کبھی کسی نے نہیں روکا تھا۔ نہ کبھی ٹوکا تھا۔ اب جا کر ان ہوٹلوں میں دیکھو پہلے زیادہ نوجوان وہاں چرس اور شراب پیتے ہیں، ناچتے کودتے ہیں، بدکاری کرتے ہیں۔ نئی نسل بری طرح تباہ ہو رہی ہے۔ اگر آپ اب ان نوجوانوں کو دیکھ لیں تو کہیں گے کہ یہ پاکستانی نوجوان نہیں ہیں بلکہ کسی یورپی ملک سے آئے ہوئے ہیں۔ جو اتنے قیمتی کپڑے پہن کر ہمارے ملک میں اخلاقی تباہی پھیلانے کے لئے آئے ہیں۔ یہ ہماری نئی نسل ہے جو پاکستان میں ہی امریکن بن گئی ہے۔
میں آپ کو ان لڑکیوں کے پتے نہیں بتا سکتی جو امریکن بن کر پاکستان کی سڑکوں اور ناجانے کہاں کہاں ذلیل و رسواء ہوتی پھر رہی ہیں۔ میں صرف اپنی کہانی سنا سکتی ہوں۔
میں تھرڈ ائیر میں فیل ہو گئی تھی جس کا مجھے کوئی غم نہیں تھا۔ میں دراصل ابھی اسی کالج میں رہنا چاہتی تھی۔ میرے رشتے آنا شروع ہو گئے۔ مجھے کوئی بھی رشتہ پسند نہیں آتا تھا کیونکہ میں آزاد رہنا چاہتی تھی۔ میرے والد کو ایک لڑکا پسند آ گیا۔ انہوں بات پکّی کر دی۔ انہوں نے یہ شرط بھی عائد کر دی کہ لڑکی پردے میں رہے گی۔ میں نے والد صاحب کو صاف کہہ دیا کہ میں اس گھر میں نہیں جاؤں گی۔ ایک تو وہ بہت شریف سا لڑکا تھا مجھے شوخ قسم کے لڑکے پسند تھے۔ دوسرا میں پردے کو بہت بڑی پابندی سمجھتی تھی۔ ہمیں یہ سوچ دی گئی تھی کہ پردہ غریب گھرانوں کی لڑکیاں اور پسماندہ لڑکیاں کرتی ہیں۔ ہم تو ماڈرن تھیں۔ مگر آج دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کاش کوئی ہمیں پردے میں رہنا سکھا دیتا۔ کتنی خوش قسمت ہوتی ہیں وہ لڑکیاں جو گھر کی چار دیواری اور پردے میں رہتی ہیں اور ان کو صرف ان کا خاوند ہی چھو سکتا ہے۔ کسی بھی قوم کو شکست دینا چاہتے ہو تو بڑے بڑے ٹینک اور بم بنانے کی ضرورت نہیں۔ بس اس قوم کے نوجوانوں میں آزادی کے نام پر فحاشی پھیلا دو۔ وہ قوم ایسی بُری طرح تباہ ہو گی کہ نہ مرے گی اور نہ زندہ رہ سکے گی۔
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر سنا اول، طاؤس و رباب آخر

اے ساقیِ مغرب تیرا ناس ہو تو، لاتا ہے خمار اول، دیتا ہے شراب آخر
ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنے ہونے والے خاوند کو راستے میں روک کر صاف کہہ دوں کہ اپنے جیسی کوئی لڑکی ڈھونڈ لو اور مجھے بھول جاؤ مگر میں ایسا نہ کر سکی۔

میں خود کو تمام بندھنوں سے آزاد سمجھتی تھی اور یہ بھول ہی گئی تھی کہ انسان قدرت کے قانون کا قیدی ہے۔ یہاں ہر خطا کی سزا بھی ملتی ہے۔ اس سزا کا احساس مجھے اس دن ہوا جب مجھے بڑی زور کی قے آئی۔ جی اتنا متلایا کہ سنبھلنا مشکل ہو گیا۔ میں نے اس کیفیت کا اظہار اپنی ایک سہیلی سے کیا تو اس نے کہا۔ "میں نے تمہیں سمجھایا بھی تھا کہ اختیاط کرنا۔ مجھے لگتا ہے تم نے اختیاط نہیں کی۔ میں تو سمجھی تھی کہ تم کون سا بچی ہو۔ اختیاط کر رہی ہو گی۔"

اس نے ٹھیک کہا تھا۔ ہوٹلوں میں جمع ہونے والی تین چار تجربہ کار لڑکیوں نے مجھے خبردار کیا تھا کہ نشے کی حالت میں اندھی نہ ہو جانا۔ انہوں نے مجھے گولیاں بتائی تھیں اور دو اور طریقے بھی بتائے تھے۔ مگر میرا دوست بہت ہی خود سر اور وحشی تھا وہ کوئی بات سنتا ہی نہیں تھا۔ میں ماں بننے والی تھی۔
یہاں میں معاشرے کی ایک اور بدعت بتا دیتی ہوں۔ ہمارے ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کی کھلم کھلا پبلسٹی نے بدکاری میں بہت اضافہ کیا ہے۔ غیر شادی شدہ لڑکی کو ماں بننے کا خطرہ بدکاری سے باز رکھتا تھا۔ مگر سرکاری طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے جو مراکز کھول دئیے گئے ہیں وہاں سے کوئی بھی لڑکی خود کو شادی شدہ ظاہر کر کے اختیاط کا سامان اور ہدایات لے سکتی ہے۔ اختیاطی تدابیر کا ذکر سرکاری اشتہارات اور لٹریچر میں بھی بہت ہوتا ہے۔ دوا فروشوں کی دکانوں میں ضروری دوائیوں اور سامان کی اتنی کھلی نمائش ہوتی ہے کہ نوجوان لڑکیاں بھی خریدنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتیں۔ سرکاری مراکز میں کام کرنے والی عورتیں مجھ جیسی لڑکیوں کو یہ سامان چوری چھپے لا دیتی ہیں اور پیسے کماتی ہیں۔

ہم جو لڑکیاں ہوٹلوں میں یا دوستوں کے ساتھ کاروں میں شہر سے دور جایا کرتی تھیں، ایسا سامان ساتھ رکھا کرتی تھیں۔ مگر دو چار نشے میں اور اپنے دوست کی بے صبری کی وجہ سے اختیاط نہ ہو سکی۔ جس کا نتیجہ سامنے آ گیا تھا۔ میری سہیلی نے مجھے گولیاں دیں۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا تو اس نے دو انجکشن لگوا دئیے۔ ان دوائیوں کا اثر یہ ہوا کہ دل ڈولنے لگا اور چکر آنے لگے۔ میری حالت نہ سنبھل سکی۔ مختلف دوائیاں کھاتے کھاتے وقت گزر گیا۔ میرے دوست نے مجھے ایک لیڈی ڈاکٹر کا پتہ دیا۔ وہ خود میرے ساتھ نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس نے کہا کہ آپریشن میں جتنا بھی خرچہ آئے گا میں ادا کروں گا۔ پیسوں کی تو میرے پاس بھی کمی نہیں تھی۔ میں اس لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔ اس کا حلیہ اور انداز بتا رہا تھا کہ وہ کسی پہلو سے بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔ اس نے میرے چہرے سے ہی پہچان لیا کہ میں کیوں اس کے کلینک میں داخل ہوئی ہوں۔ میرے جیسی کئی لڑکیاں اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھیں۔ مجھے دیکھ کر یوں مسکرائی جیسے پہلے سے جانتی ہو۔
میں نے زرا جھجھک کر اور قدرے ہکلا کر بات کی تو اس نے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا۔

"میں سمجھ گئی ہوں۔ تم بن بیاہی ماں بننے والی ہو۔ شادی شدہ تو نہیں ہو؟"
میں نے کہا۔ "نہیں" وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئی اور بولی۔ "ڈاکٹر صاحب ایسا کام کرتے تو نہیں مگر میں نے ان کو راضی کر لیا ہے۔ آپ کو ڈاکٹر صاحب جیسے کہیں گے ویسے ہی کرنا۔ اگر ڈاکٹر صاحب بگڑ گئے تو انکار کر دیں گے۔ تم جانتی ہو کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ گبھرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بس تھوڑی سی دیر تکلیف ہو گی۔"
میں ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ وہ ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ اس نے مجھے اپنے پاس پڑے سٹول پر بٹھا کر میرا پیٹ دبا کر دیکھنا شروع کر دیا۔ پھر پوچھا۔ "کتنا وقت گزر گیا ہے؟" میں نے بتایا کہ ڈیڑھ ماہ ہو گیا ہے۔ میں ڈر رہی تھی کہ وہ مجھے ڈانٹے گا اور وعظ دے گا مگر وہ بڑے پیار سے بولا۔ "تمہاری خوبصورتی اور جوانی پر ترس آتا ہے۔ ورنہ میں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا۔ یہ جرم ہے۔ اگر میں نے ایسا کام کیا تو جیل چلا جاؤں گا۔"

"کیا اس میں جان کا خطرہ ہے؟" نے گبھرا کر پوچھا۔
"بالکل بھی نہیں۔" ڈاکٹر نے کہا۔ "بس زرا سی تکلیف ہو گی اور پھر ایسے ہو جائے گا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ میں ڈرتا صرف اس لئے ہوں کہ یہ کام قانون کے خلاف ہے۔"

میں نے جھک کر اس کے گھٹنے پکڑ لئے اور میرے آنسو نکل آئے۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ میں منت سماجت کرتی رہی۔ اس نے اٹھ کر اندر سے دروازے کو لاک کر دیا اور مجھے پردے کے پیچھے لے گیا۔ مجھے ایک بیڈ پر لٹا دیا اور کہا کچھ معائنہ کر لوں پھر بتاتا ہوں۔ یہ بیڈ ہسپتالوں والا بیڈ تھا۔ ڈاکٹر نے میری شلوار اتار دی۔ وہ کافی دیر تک معائنہ کرتا رہا۔ پھر کہتا۔ "پانچ سو روپے فیس ہو گی۔ کیا ابھی ادا کر سکتی ہو؟"
"ابھی تو نہیں دے سکتی۔" میں نے زرا جھجھکتے ہوئے کہا۔ "اور پانچ سو روپے تو بہت زیادہ رقم ہے۔"
یہ 1958ء کی بات ہے جب پنچ سو روپے بہت بڑی رقم تھی۔
"نہیں دے سکو گی؟ ڈاکٹر نے کہا۔ "دو تین قسطوں میں دے دو گی؟"
"میں علاج بھی تو دو تین قسطوں میں ہی کروں گا۔" ڈاکٹر نے عجیب سی مسکراہٹ سے کہا۔ "فیس کی پہلی قسط وصول کر لیتا ہوں۔" میں ابھی لیٹی ہوئی تھی۔ "تم بذاتِ خود پانچ ہزار روپے کی ہو۔ میں نے اپنی فیس بتائی ہے مانگی تو نہیں نا؟ آپ پریشان نہ ہوں۔ میں اتنی خوبصورت لڑکی کو تباہ نہیں ہونے دوں۔"

پھر ڈاکٹر نے اتنی پیاری باتیں کیں کہ میری ساری گبھراہٹ دور ہو گئی۔ اس نے ابھی میری شلوار اوپر نہیں کی تھی۔ وہ میرے اوپر چڑھ گیا اور اپنی بھی شلوار اتار دی۔ میری شلوار بھی پوری اتار دی۔ پھر میری قمیض اوپر کر کے میری ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ سے کھیلنے لگا اور مجھے بہلانے لگا۔ پھر میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو چوسنے لگا۔ مجھ پر خمار سا چڑھ گیا تھا۔ مجھے پتہ نہ چل سکا کہ کب اس نے اپنی میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ڈال دی اور دے رہا تھا۔ مجھے تکلیف ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ کر رہا ہے۔ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ میں نے اسے بالکل بھی نہ روکا۔ میں نے بُرا بھی نہ مانا۔ جب وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کر چکا تو میری شلوار اوپر کر کے اور خود بھی کپڑے پہن کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے جاتے ہوئے دو گولیاں دیں۔ ایک اسی وقت کھانی تھی اور دوسری رات کو کھانی تھی۔ ڈاکٹر نے الوداع کرتے ہوئے کہا۔ "کل پھر اسی وقت آ جانا۔"

دوسرے دن گئی تو اس ڈاکٹر نے پھر پیار بھری باتیں کرتے کرتے مجھ سے فیس کی دوسری قسط وصول کر لی اور اپنا کام کر لیا۔ دوسرے دن اس نے ایک انجکشن لگا دیا اور اگلے دن پھر آنے کو کہا۔ وہ شیطان تھا۔ وہ مسلسل چھے دن تک میرے ساتھ بدکاری کرتا رہا۔ روز کوئی نہ کوئی انجکشن لگا دیتا مگر کچھ فائدہ نہ ہوتا تھا۔ چھٹے دن تو میں رو پڑی اور اس کی منتیں کرنے لگی کہ میرا کوئی علاج کرو۔ مجھے شک ہو گیا تھا کہ وہ میرے جسم کے ساتھ کھیلنے کے سوا کچھ نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر نے بہانہ کیا کہ ایک انجکشن مارکیٹ سے نہیں مل رہا، امید ہے کل مل جائے گا۔ میں نے اپنے دوست کو ڈاکٹر کی کرتوت بتائی مگر میرے دوست نے بھی بے رخی دکھائی۔ میں نے اپنے دوست سے کہا۔ "یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے اب جان مت چھڑاؤ۔ کوئی حل نکالو۔"

"یہ میرے اکیلے کا نہیں ہے۔" میرے دوست نے بگڑ کر کہا۔ "تم جس جس کے ساتھ کاروں میں اور باغوں میں جاتی رہی تھی ان سے بھی پوچھو جا کر۔ پتہ نہیں کس کا بچہ ہے اور میرے پاس آ گئی ہو۔" یہ کہہ کر وہ چل پڑا۔
میری ماں بھانپ گئی تھی کہ میری بیٹی کاروں کی سواری کی کیا قیمت ادا کرتی رہی ہے۔ شاید میری ماں نے دل ہی دل میں اعتراف کر لیا تھا کہ بیٹی کو اس حال تک پہنچانے میں میرا بھی ہاتھ ہے۔ ماں نے مجھے الگ کمرے میں بلایا اور دو چار باتیں پوچھی جن کا میں نے سچ سچ جواب دے دیا۔ میں نے ماں کو یہ بھی کہہ دیا کہ جہاں رشتہ پکا ہوا ہے وہاں دن مقرر کر دو اور کوشش کرو کہ جلد از جلد شادی ہو جائے۔
یہ میرا وہی امیدوار تھا جو مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ میرے گناہوں نے ہتھیار ڈلوا دئیے اور میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اس لڑکے کو ہر صورت قبول کر لوں گی۔ برقعہ پہن لوں گی۔ پردے میں بھی رہوں گی۔ باورچی خانے میں قید رہ لوں گی۔ مغرب کے کلچر کے حسین فریب پر لعنت بھیجو گی۔ میرے دوست نے اور اس ڈاکٹر نے اس جھوٹی چکا چوند سے متنفر کر دیا تھا۔ میرے گناہوں نے مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا تھا۔ میری ماں نے جب میرا فیصلہ سنا تو بہت خوش ہوئی۔ ماں نے والد صاحب کو اصل بات تو نہ بتائی مگر یہ خوشخبری سنا دی کہ بیٹی شادی کے لئے راضی ہو گئی ہے۔ والد نے فوراً جا کر دن مقرر کر دئیے۔ میری خواہش تھی کہ آج ہی بارات آ جائے مگر دس دن بعد آئی۔ مجھے ایسی گولیاں مل گئی تھیں جن سے ابکائیاں رک گئی تھیں۔ میں دس دن تک گھر سے نہیں نکلی۔ میں شراب، چرس اور ہیروئن کی بھی نشئی بن گئی تھی۔

 آوارگی اور عیاشی بھی نشے کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ نشے نہیں اترتے لیکن میرا تجربہ بالکل ہی مختلف تھا۔ میں نے اپنے مزاج میں کوئی تلخی محسوس نہیں کی۔ صرف ارادہ تھا اور نیت کی پختگی۔ میں نے جو ٹھوکر کھائی تھی وہ مجھے راہِ راست پر لے آئی تھی۔ مگر ایک یہ ڈاکٹر تھا جس سیدھے راستے کی چٹان بن گیا تھا۔ اگر وہ میرا کیس لینے سے انکار کر دیتا تو مجھے افسوس نہ ہوتا۔ مگر اس نے مجھے دھوکا دیا اور میری مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ میرے سینے میں انتقام کا شعلہ بھڑکتا تھا جو مجھے ہی جلا کر سرد کر دیتا تھا۔ ایک بار تو دل میں آئی کہ ڈاکٹر کے گھر کا پتہ معلوم کر کے اس کی بیوی کو بتاؤں کہ تمہارا خاوند ڈاکٹر نہیں ڈاکو ہے۔ عصمتوں کا لٹیرا ہے۔ مگر میرے گناہ مجھے شرمسار کر کے میرا غصہ ٹھنڈا کر دیتے۔ میں اکثر سوچا کرتی ہوں کہ مجھ جیسی کتنی گناہ گار لڑکیاں عیسائیوں کے جال میں پھنس گئی ہوں گی۔

ان دس دنوں میں جو سوال مجھے بار بار پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ اپنے خاوند کو اپنے متعلق بتا دوں یا نہیں؟ کبھی دل کرتا کہ اپنے خاوند کو سب کچھ بتا دوں اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر یقین دلاؤں کہ آئندہ ہمیشہ شریف با پردہ اور وفادار بیوی بن کر رہوں گی۔ مگر مجھ میں اعترافِ گناہ کی جرآت نہیں رہی تھی اور میں ایسی جرآت کے نتائج سے بھی ڈرتی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میرا گناہ جو میری کوکھ میں پل رہا تھا، چھپا رہے گا بھی یا نہیں؟ میرے ارادے اور میری قسم اس کچے دھاگے سے لٹک رہے تھے۔ میرا کوئی ہم راز نہیں تھا۔ ماں نے میری حالت پہچان لی تھی مگر مجھے کوئی مشورہ نہیں دیا تھا۔

پھر وہ رات بھی آ گئی کہ میں حجلہ عروسی میں بیٹھی اپنے خاوند کا انتظار کر رہی تھی اور تھر تھر کانپ رہی تھی۔ میرے آنسو بہے جا رہے تھے۔ جب دولہا کمرے میں داخل ہوا تو جو اقبالِ جرم کی جو زرا سی ہمت تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ ایک ایک لمحہ ایک ایک گھنٹے جتنا طویل ہو رہا تھا۔ مجھ دکھ یہ ہو رہا تھا کہ وہ مجھے نئی نویلی کنواری دلہن سمجھ رہا تھا۔ میں اس کے لئے کتنا بڑا فریب بنی ہوئی تھی۔ لیکن میں اتنا حسین فریب تھی کہ وہ کچھ بھی نہ جان سکا۔ یہ میری ایکٹنگ کا کمال تھا کہ اسے زرا بھی شک نہ ہو سکا کہ ایسی کئی شادیاں، ہوٹلوں، کاروں اور باغوں میں کر چکی ہوں۔ جب پہلی صبح ہوئی تو دولہے کی باتوں سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ میرا خاوند بہت زیادہ سیدھا سادہ ہے۔ اسے مجھ پر زرا سا بھی شک نہیں ہوا تھا۔
اس کی عمر 28 سال تھی۔ میں اس کی زندگی میں پہلی لڑکی تھی۔ میری عمر 22 سال تھی۔ وہ میری زندگی میں پہلا مرد نہیں تھا۔ جو کچھ میں جانتی تھی اسے اس کا دسواں حصہ بھی معلوم نہیں تھا۔ مجھے اس کی سادگی پر ترس آیا۔ وہ یا تو اس قدر سادہ تھا کہ اسے عورت کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا یا اسے مجھ سے اتنی زیادہ محبت ہو گئی تھی جس نے اس کی زبان اور آنکھیں بند کر دیں۔ دونوں میں سے جو بھی صورت تھی مگر مجھے وہ آدمی اتنا پیارا لگا کہ میں نے اپنی باقی ساری زندگی اس کی غلامی میں اور اس کی مرضی کے مطابق گزارنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ میں نے اس مرد میں جو خلوص اور بے ساختگی دیکھی میں اس سے نا آشنا تھی۔ خدا کی قسم مغرب کے بے حیا کلچر میں مجھے کبھی بھی ایسی روحانی لذت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ برقعوں میں لپٹی ہوئی سیدھی سادی شریف لڑکیاں جو صرف ایک خاوند کی ہو کر رہ جاتی ہیں وہ کس قدر خوش قسمت ہوتی ہیں۔ میں انہیں حقیر سمجھتی تھی مگر وہ کس قدر عظیم ہوتی ہیں۔میرا دولہا میری محبت اور خوبصورتی میں اس قدر اندھا ہو گیا کہ اسے میری اندرونی حالت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اس کو شک تک بھی نہیں ہوا کہ میں جس پہلے بچے کو جنم دوں گی وہ اس بچے کا باپ نہیں ہو گا۔

 حقیقت یہ تھی کہ مجھے خود کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس بچے کا باپ کون ہے؟ کبھی کبھی مجھے یہ خیال خون کے آنسو رلاتا تھا کہ میں اتنے پیارے خاوند کو ہمیشہ دھوکے میں رکھوں گی۔ یہ دھوکا میرے ضمیر میں کانٹے کی طرح اترا رہے گا۔ مگر خدا نے میرے خاوند کو اس دھوکے سے جلدی ہی آزاد کر دیا۔ وہ اس طرح کے میرے دولہے کی ماں اور خالہ بھانپ گئی کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ میری حالت کے علاوہ ان کے پاس یہ ثبوت بھی تھا کہ میرے والد نے بڑی عجلت میں شادی کی تھی۔ اس سے پہلے میرے سسرال والے دو بار دن مقرر کرنے آئے تھے مگر میرے والد نے ٹال مٹول کر دی تھی کیونکہ اس وقت میں راضی نہیں ہو رہی تھی مگر اب میری حالت کو دیکھ کر میری ساس کو کچھ شک سا ہوا کہ اتنی جلدی میں دن کیوں مقرر ہوئے۔

میری ساس نے ایک بوڑھی اور تجربہ کار دائی کو بلا لیا۔ دائی نے مجھے اچھی طرح دیکھا۔ اگر دائی اکیلی ہوتی تو میں اسے منہ مانگی رشوت دے کر اپنی مرضی کی بات کہلوا لیتی اور بچے کی پیدائش کے وقت بھی دائی کو اچھی خاصی رقم دے کر کہلوا لیتی کہ بچہ جلدی پیدا ہو گیا ہے۔ مگر میری ساس میرے سر پر ہی کھڑی رہی۔ دائی نے مجھے اچھی طرح دیکھنے کے بعد میری ساس کو عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ دونوں کمرے سے باہر نکل گئیں۔ ساس نے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا۔ اس رات میرا خاوند بھی کمرے میں میرے پاس نہیں آیا۔ دوسرے دن میرے بلانے پر بھی خاوند نے مجھ سے بات نہ کی۔ تیسرے دن میری ساس نے مجھے گھر بھیج دیا۔ چار پانچ دنوں بعد میرے خاوند کی ماں اور خالہ میرے گھر آئی اور میری والدہ کو ایک کمرے میں الگ لے گئی۔ کافی دیر تک باتیں کرتی رہیں۔ تقریباً دو گھنٹے بعد وہ باہر نکلی اور چلی گئیں۔ میں کمرے میں گئی تو میری ماں رو رہی تھی۔ میں سمجھ گئی کہ کیا باتیں ہوئی ہوں گی۔ میری ماں نے مجھے بہت برا بھلا کہا۔ شام کو والد صاحب گھر آئے تو ماں نے اسے بتایا۔ میرے والد صاحب میرے پاس آئے اور مجھے نفرت بھری نظروں سے دیکھا اور ننگی گالیاں دیں۔ ایسی ننگی گالیاں میں نے کبھی زندگی میں بھی نہیں سنی تھیں۔
میری شادی کو ابھی پندرہ دن ہی ہوئے تھے کہ طلاق ہو گئی۔ میری ماں نے غصے سے کہا۔ "ہم حق مہر اور ماہوار خرچ کا تقاضا کریں گے " میں بول پڑی۔ "نہیں۔۔۔ طلاق کی ذمّہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ میں حق مہر اور ماہوار خرچ نہیں لوں گی۔ یہ تو ان لوگوں کی شرافت ہے کہ انہوں نے میرے والد کا دیا ہوا تمام زیور، کپڑے اور دیگر سامان واپس دے دیا ہے۔ چار دیواری کی دنیا میں یہ سب کچھ معمولی نہیں تھا۔"

ہم خود کو محلے میں امیر اور ایڈوانس سمجھتے تھے۔ میں جو پاکستان میں ہی ایک امریکن لڑکی بن گئی تھی، قابلِ نفرت لڑکی بن گئی تھی۔ میرے خاوند نے مجھے پندرہویں روز ہی بدکاری کے الزام میں طلاق دے دی تھی۔ محلے کی عورتیں ہمدرد بن کر ہمارے گھر آنے لگیں۔ وہ اوپر سے نیچے مجھے غور سے دیکھتی تھیں۔ میرے سامنے میرے سسرال کو بُرا بھلا کہتی تھیں مگر باہر جا کر میرے خاندان کو ذلیل کرتی تھیں۔ میں سب کے لئے ایک تماشا بن گئی تھی۔

میرے والد نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی۔ میرے ہاتھ کا پانی بھی حرام قرار دے دیا۔ جب کبھی مجھے دیکھتے تو قہر بھری نظروں سے دیکھتے۔ میرا بھائی جس نے برقعہ جا مذاق اڑایا تھا اور مجھے آزاد اور ماڈرن بنایا تھا، میرا دشمن ہو گیا تھا۔ میرے چھوٹے بھائی نے تو ایک دن مجھے پیٹا بھی تھا۔ بڑا بھائی بھی بات بات پر مجھے ڈانٹنے لگتا تھا۔ محلے کی ماؤں نے اپنی بیٹیوں کو میرے پاس آنے سے روک دیا تھا۔ میں تنہا رہ گئی تھی۔ سیدھے راستے پر آنے کی قسم چکنا چور ہو گئی تھی۔ ساری عمر خاوند کی غلام رہنے کے خواب بھی ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ اگر وہ بدکار ڈاکٹر ہی میری مدد کر دیتا تو آج پاکستان میں ایک طوائف کم ہو جاتی۔ میں ایک کمرے میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔ کبھی کبھی یوں لگتا کہ میرے گھر کی دیواریں اور دروازے بھی مجھ پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ میں اکیلی بیٹھ کر روتی رہتی تھی۔ مجھے خود سے بھی نفرت ہو گئی تھی۔ میں نے سب کے گناہ اپنے ضمیر پر ڈال دئیے تھے۔
چند دنوں بعد ماحول کی پھٹکار اور حقارت نے مجھ پر واضح کردیا کہ اس گھر اور محلے میں میری کوئی جگہ نہیں ہے۔ آنے والے دن مجھے مزید خوفزدہ کر رہے تھے۔ میری حالت اس قیدی جیسی ہو گئی تھی جسے سزائے موت سنا دی گئی اور تختہ دار کے سامنے کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا ہو۔

 میں نے ایک دن ارادہ کیا کہ مر جاتی ہوں۔ میری نجات کا ایک یہ ہی ذریعہ رہ گیا تھا۔ میں نے سوچ کر ایک روز گھر والوں کے سامنے گھر سے نکل گئی۔ مجھے امید تھی کہ گھر والے مجھے روکیں گے اور مجھے باہر نہیں جانے دیں گے۔ مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ مجھے کسی نے بھی نہ روکا۔ مجھے اس بات پر بھی غصہ آیا۔ دکھ بھی ہوا کہ گھر والوں کی نظر میں میری اتنی بھی اہمیت نہیں ہے کہ مجھ سے پوچھ ہی لیں کہاں جا رہی ہو؟ میری حالت تو اس مسافر جیسی ہو گئی تھی جو مسافر خانے میں آیا اور چلا گیا۔ کسی نے میری طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ مجھے یہ خیال بھی آیا کہ شاید میرے والدین اور بھائیوں کو پتہ چل گیا ہے کہ میں خود کشی کرنے جا رہی ہوں۔ اس لئے نہیں روکا اور خوش ہو رہے ہوں گے کہ شکر ہے اس ناپاک وجود سے جان چھوٹ جائے گی۔

میں خود کشی کرنے جا رہی تھی۔ میں ریل گاڑی کے نیچے لیٹ جانے کے لئے جا رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ گھر والوں نے مجھے باہر جانے سے کیوں نہیں روکا؟ میرا دماغ ماؤف تھا۔ کردار میں پختگی نام کی کوئی چیز نہیں تھی جو مجھے ہوش ٹھکانے رکھ کر یکسوئی سے سوچنے دیتی۔ جو بھی سوچ آتی تھی الٹی آتی تھی۔ میں سوچوں کی آندھیوں میں تنکے کی طرح اڑتی جا رہی تھی۔ اچانک میرے ذہن میں دھماکہ ہوا اور ذہن خالی ہو گیا۔ میں نہیں بیان کر سکتی کہ وہ ذہنی کیفیت کیسی تھی۔ میں ریلوے لائن کی طرف جاتے جاتے وہاں پہنچ گئی جہاں سے میری تباہی شروع ہو گئی۔ مجھے وہ ہی دوست پناہ دے سکتے تھے جو میری طلاق کے ذمّہ دار تھے۔ میرے ہونے والے بچے کا باپ انہیں میں سے تھا۔ وہ میرے حسن کے شیدائی، میرے جسم کے پرستار اور میری مغربی اداؤں کے پروانے تھے۔

میں ہوٹل کے تہہ خانے میں گئی تو وہاں سب موجود تھے۔ میں ایک مہینہ غیر حاضری کے بعد واپس آئی تھی۔ ایک مہینے میں وہاں کئی اور لڑکیوں اور لڑکوں کا اضافہ ہو گیا تھا۔ پہلے سے زیادہ رونق تھی۔ میرا دل کیا ان لڑکیوں کو چلّا کر کہوں بھی تمہارے چہرے پر معصومیت ہے۔ ابھی تم کنارے پر ہو۔ میرا حشر دیکھو، میرا انجام دیکھو۔ دولت، فیشن اور مغرب کی بھول بھلیوں میں گم ہو جانے سے پہلے یہاں سے بھاگ جاؤ۔ مجھے وہ وقت یاد آیا جب میں پہلی بار یہاں آئی تھی تو کئی مردانہ سینوں نے مجھے اپنے ساتھ لگا کر نچایا تھا۔ ساڑھے چار سال تک میں اس ہوٹل میں جاتی رہی تھی مگر ایک ہی دن پہلے کی بات معلوم ہوتی تھی۔ جس نے میری زندگی جہنم بنا دی تھی۔

اس عرصے میں اخبارات میں لکھا جا رہا تھا۔ مسجدوں میں واویلا ہو رہا تھا کہ نئی نسل مغرب کی تقلید میں تباہ ہو رہی ہے۔ مگر اس تباہی کو روکنے کی کوشش کسی نے بھی نہ کی۔ میں آپ کو وہ ایڈیٹر، کالم نویس اور رائٹرز دکھا سکتی ہوں جو نوجوانوں کی تباہی کا لفظی رونا روتے ہیں مگر ان کی خود کی شامیں ان ہوٹلوں میں ناچتے اور شراب پیتے گزرتی ہے۔ میں آپ کو ایسے سیاسی لیڈر دکھا سکتی ہوں جو پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا نعرہ لگاتے ہیں مگر وہ بھی مجھ جیسی لڑکیوں کے ہاتھوں سے شراب پیتے ہیں اور ان کے ساتھ راتیں گزارتے ہیں۔ میں نے عوام کے غم میں گھلنے والوں کو یورپی ہوٹلوں میں عیش کرتے دیکھا ہے جو مغلیہ سلطنت کے بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ انہی ایڈیٹروں، رائٹروں اور لیڈروں کے دم قدم سے تہہ خانوں کی رونق بڑھ گئی تھی۔ ان ساڑھے چار برسوں میں پاکستان نے اس میدان میں بڑی تیزی سے ترقی کر لی تھی۔ پاکستان کے مغرب زدہ چہروں میں غیر ملکی چہروں کا اضافہ ہو گیا تھا۔ چرس کی جگہ امریکہ سے ایل ایس ڈی، ہیروئین اور میری جؤانا آ گئی تھی۔ پاکستانی لڑکے اور لڑکیاں امریکی لب و لہجے میں انگریزی بولنے لگے تھے۔ موسیقی بدل گئی تھی۔ ڈانس بدل گیا تھا۔ لڑکے اور لڑکیوں میں جو جھجھک اور پکڑے جانے کا خوف تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔

میں وہاں تماشائی بن کر نہیں گئی تھی۔ میں وہاں پناہ ڈھونڈنے گئی تھی۔ میرا وہ دوست بھی وہاں تھا جس نے مجھے لیڈی ڈاکٹر کا پتہ دیا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا اور کترانے لگا۔ وہاں اور لڑکے بھی تھے۔ ان میں وہ لڑکے بھی تھے جن کے ساتھ کاروں میں شہر سے باہر جا چکی تھی۔ وہ لڑکا بھی تھا جس کے ساتھ باغ کے ایک کونے میں چار پانچ بار گئی تھی۔ ان سب کو پتہ چل گیا کہ اب میں لڑکی نہیں ہوں بلکہ ماں بننے والی ہوں۔ وہ سب مجھ سے نظریں چرانے لگے۔ کچھ نئے نوجوان بھی تھے جو مجھے نہیں جانتے تھے ان کے لئے میں ایک خوبصورت لڑکی اور نیا چہرہ تھی۔ میرے جسم میں کشش ابھی باقی تھی۔ تین چار لڑکے بیک وقت میری طرف آئے۔ میرا دل کیا کہ ان کے چہروں پر تھوک دوں۔ مگر تھوک کر جاتی کہاں۔ میں تو خود ان کے پاس پناہ ڈھونڈنے آئی تھی۔ ہوٹل کے تہہ خانے میں جا کر میرا دماغ سوچنے کے قابل ہو گیا۔ گھر کی زہریلی گھٹن اور گھر والوں کے نفرت بھرے رویے نے میرا دماغ ماؤف کر دیا تھا۔ جب میں ہوٹل کے تہہ خانے میں پہنچی تو وہاں مغربی موسیقی، ناچ کی دھما چوکڑی اور ہر قسم کے منشیات کی بُو تھی۔ میرا دماغ ٹھکانے آ گیا اور ایک نوجوان نے میرے پاس آ کر پوچھا۔ "کیا پئیں گی؟"
میں نے جذباتی ہو کر کہا۔ "کوئی بڑی ہی سٹرانگ چیز۔"

یہ مکالمے ہم نے امریکی لب و لہجے کی انگریزی میں بولے تھے۔ وہ سمجھ گیا اور ایک سیگریٹ لے آیا۔ میں نے تین چار کش لگائے تھے کہ سارے دکھ ختم ہو گئے۔ دماغ صاف ہو گیا اور میں نے نجات کی راہ سوچ لی۔ خود کشی کو ایک بھونڈا مذاق سمجھ کر ذہن سے نکال دیا۔ مجھے سسرال والوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ میکے والوں نے بھی قبول نہیں کیا تھا۔ مگر میں نے خود کو قبول کر لیا اور سوچ لیا کہ آگے کیا کرنا ہے۔

میں نے ان نوجوانوں کا جائزہ لیا جو مجھے اپنی طرف گھسیٹ رہے تھے۔ ان میں سے ایک ایسا تھا جو میرے مطلب کا تھا۔ نشے والے سگریٹ کا کش لگا کر میری شگفتگی اور مغربی اداکاری عود آئی تھی۔ میری خوبصورتی کی کشش بھی عود آئی تھی۔ یہ نوجوان دراصل نوجوانی کی حد سے آگے چلا گیا تھا۔ چالاک اور ہوشیار معلوم نہیں ہوتا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک جاگیر دار کا بیٹا ہے اور یہاں کالج پڑھنے آیا ہوا ہے۔ دیہاتی ہے اور دولت کے زور پر امریکن بن گیا ہے۔ میں ایسے ہی کسی نوجوان کو پھانسنا چاہتی تھی۔ اس کے بارے میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ایک کوٹھی میں رہتا ہے۔ اس نے اپنے ساتھ تین لڑکے رکھے ہوئے تھے کھانا پکانے کے لئے خانساماں ہے۔

میں نے اس میں دلچسپی کا اظہار کیا اور اسے باہر لے گئی۔ ہم ایک باغ میں جا کر بیٹھ گئے۔ میں نے اس سے محبت کا اظہار کیا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا اور فلمی ہیرو بن گیا۔ ہم نے شادی بھی طے کر لی۔ میں نے اسے کہا کہ کل آپ کی کوٹھی میں ملوں گی۔ اسے اگلے دن ملنے کا وقت بتا کر گھر واپس آ گئی۔ گھر والوں میں سے کسی نے بھی نہ پوچھا کہ اتنی دیر کہاں تھی؟ کسی نے تو یہ بھی نہیں پوچھا کہ کچھ کھایا پیا بھی ہے یا نہیں؟ میرا کمرہ الگ تھا۔ میں اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی اور بہت دیر تک اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتی رہی۔ معلوم نہیں کتنے بجے آنکھ لگ گئی۔

دوسرے دن اس جگہ پہنچ گئی جس جگہ ہمارے ملنے کا طے تھا۔ وہ وقت سے پہلے ہی وہاں کھڑا تھا۔ ہم کار میں بیٹھے اور اس کی کوٹھی میں چلے گئے۔ میں نے اس کی کوٹھی میں اس کے ساتھ تین بار ملاقات کی۔ اس دوران اس کے متعلق سب کچھ معلوم کر لیا۔ اس کا باپ بہت ہی امیر جاگیر دار تھا۔ یہ اپنے باپ کا لاڈلا اور خود سر بیٹا تھا۔ میں نے چوتھی ملاقات میں اسے کہا۔ "تم میرے ساتھ شادی کرنے کو بے تاب ہو مگر میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتی۔ میرے پیٹ میں گناہوں کا پھل پک رہا ہے۔ دوسرا مہینہ مکمل ہونے کو ہے۔ اسی بنا پر میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ کیا تم مجھے اس حالت میں قبول کر لو گے؟"
وہ سوچ میں پڑ گیا۔ میں نے زمین پر بیٹھ کر اس کے پاؤں پکڑ لئے اور کہا۔ "خدا کے لئے مجھے اس حالت میں قبول کر لو۔ مجھے ان دوستوں نے بھی ٹھکرا دیا ہے جنہوں نے مجھے اس حالت تک پہنچایا تھا۔ گھر والوں نے بھی مجھے اچھوت قرار دے دیا ہے۔ "

روتے ہوئے میں نے ڈاکٹر کی بدکاری کے متعلق بھی بتا دیا۔ پھر اپنے خاوند کے متعلق بھی بتا دیا۔ میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تم نے بھی ٹھکرا دیا تو میں خود کشی کر لوں گی۔ پھر میں نے یہ بھی کہا۔ "کیا میں یہ سمجھو کہ تمہاری محبت فریب تھا اور تم مجھے صرف جسمانی عیاشی کے لئے استعمال کر رہے تھے؟"
"میں ماں بہن کی گالی برداشت کر لوں گا۔" اس نے کہا۔ "مگر بے وفائی کا طعنہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ہم لوگ اس طعنے پر سر کھول دیتے ہیں۔ سولی پر چڑھ جاتے ہیں۔"

وہ اصل دیہاتی علاقے کا تھا۔ شہری تہذیب کا تو اس نے اپنے اوپر بہروپ چڑھا رکھا تھا۔ وہ دیہاتی کلچر کی مخصوص غیرت میں آ گیا اور کہا۔ "جس طرح تم نے مجھے دھوکے میں نہیں رکھا میں بھی تمہیں دھوکے میں نہیں رکھوں گا۔ میں تمہارے ساتھ شادی نہیں کروں گا کیونکہ اس حالت میں تجھے اپنی برادری میں نہیں لے جا سکتا۔ مگر تمہیں اپنی کوٹھی میں رکھوں گا اور آخری دم تک تمہاری حفاظت میں رکھوں گا۔ کیا تم گھر سے بھاگنا چاہتی ہو؟ اگر ایسا ہے تو آپ میرے پاس آجاؤ۔"
مجھے یہ دکھ ہوا کہ جس طرح میں نے اسے پھانسنے کی کوشش کی اس میں کامیاب نہیں ہوئی مگر خوشی یہ ہوئی کہ اس نے مجھے دھوکے میں نہیں رکھا۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر فیصلہ کر لیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں کل ہی آ جاؤں گی۔
میری زندگی کا وہ دن طلوع ہوا۔ جب میں گھر سے نکلی اور آج تک گھر واپس نہیں گئی۔ لڑکیاں گھروں سے ڈولی میں نکلا کرتی ہیں مگر میں گھر سے چوروں کی طرح نکلی۔ گھر سے کچھ رقم چُرا لی اور اپنے زیورات اٹھا کر پرس میں ٹھونس لئے۔ اس پرس اور پہنے ہوئے کپڑوں کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ میں نے گھر سے دور جا کر پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ گھر رشوت کے زور پر امیر اور ماڈرن بنا تھا۔ رشوت کے سانپ نے مجھے ڈس لیا تھا۔ میں جس نے گھر آباد کرنا تھا اور پاکستان کے وارثوں کو پیدا کرنا تھا، اس منزل کی طرف چل پڑی تھی جہاں میرے جیسی ہزاروں لڑکیاں اپنا گھر اجاڑ چکی تھیں اور پاکستان کے وارثوں کو پاکستان کے نام سے ناواقف کر چکی تھیں۔
میں اس کوٹھی میں چلی گئی۔ وہ لڑکا کالج گیا ہوا تھا۔ خانساماں نے میری اچھی خاصی خاطر تواضع کی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ لڑکا آ گیا۔ اس کے ساتھ تین لڑکے بھی تھے۔ وہ جابر اور حاکم قسم کا لڑکا تھا۔ میں نے اسے الگ لے جا کر پرس کھولا اور سارے پیسے اور زیورات اس کے آگے رکھ دئیے۔ یہ لے لو۔ میرے پاس یہ ہی کچھ ہے۔ اس نے بڑے اطمینان سے پیسے اور زیورات پرس میں ڈال کر کہا۔ "مجھے بے غیرت نہ سمجھو۔ مجھے اپنی ضرورتیں بتاؤ۔" پھر اس نے مجھے میرا کمرہ دکھایا۔

اگر میں آپ کو تفصیل سے بتانا شروع کروں کہ ان چار لڑکوں نے مجھے آٹھ نو مہینے اپنے پاس کس طرح رکھا تو آپ یقین نہیں کریں گے۔ کیونکہ آپ بھی انہی ایڈیٹروں میں سے ہیں جو صرف لکھا کرتے ہیں کہ ہمارا نوجوان طبقہ گمراہ ہو رہا ہے۔ اگر آپ یقین کر لیں گے تو میں ان چار لڑکوں کے متعلق آپ کو بتا دیتی ہوں۔ مگر مختصر بتاؤں گی۔ یہ وہ چار امیر زادے تھے جو آوارہ تھے مگر میرے سامنے انہوں نے کبھی آوارگی کا اشارہ بھی نہیں کیا تھا۔

صرف ایک واقعہ سنا دیتی ہوں۔ اس کوٹھی میں میری دوسری رات تھی۔ میرے اس دوست کا کمرہ الگ تھا اور باقی تین لڑکوں کا ایک ہی کمرہ تھا۔ آدھی رات کو میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے فوراً اس شہزادے کا خیال آیا جس نے مجھے اتنی دلیری سے پناہ دی تھی۔ اس کے انداز سے مجھے اطمینان ہو گیا تھا کہ وہ آخری دم تک میرا ساتھ دے گا۔ مگر اس نے اپنا رویہ بدل لیا تھا۔ پہلے وہ مجھے پاگلوں کی طرح چاہتا تھا بلکہ چاٹتا تھا مگر اب وہ بات نہیں رہی تھی۔ میں اس کی احسان مند تھی۔ اس نے زیورات اور پیسے لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ میں اسے کچھ نہ کچھ معاوضہ ضرور دینا چاہتی تھی۔ میرے پاس خوبصورت جسم کے سوا تھا ہی کیا۔ یہ ایسی متاع تھی جو میں پہلے ہی لٹا چکی تھی۔ شرم و حجاب کا تو میرے پاس وجود ہی نہیں تھا۔ میں اس کوٹھی میں اپنی کچھ حیثیت بنانا چاہتی تھی اور وہ حیثیت داشتہ کی ہی ہو سکتی تھی۔ میں اپنے کمرے سے نکلی اور اس کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ گہری نیند سویا ہوا تھا۔ میں نے آہستہ سے اس کی رضائی اٹھائی اور اس کے ساتھ لیٹ گئی۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے میرے منہ پر ہاتھ پھیرا تو بدک کر اٹھ بیٹھا اور کہا۔ "میرے کمرے سے فوراً نکل جاؤ۔"

میں نے اس کے گلے میں بازو ڈال کر پوچھا۔ "یہ بے رخی کیوں؟"
"مجھے نہیں معلوم کہ میں شریف آدمی ہوں یا نہیں۔" اس لڑکے نے کہا۔ "لیکن تمہارا جسم مجھ پر حرام ہو چکا ہے کیونکہ میں نے تمہیں پناہ دے دی ہے۔ تم نے مجھے طعنہ دیا تھا کہ میں تمہیں صرف جسمانی عیاشی کے لئے اپنے پاس لایا تھا۔ میں ثابت کروں گا کہ میں کمینہ انسان نہیں ہوں۔ وہ کون سا نشہ ہے جو ہم چاروں نہیں کرتے اور کون سی بدکاری ہے جو ہم نہیں کرتے لیکن ہم چاروں کے لئے تم ایک خوبصورت لڑکی نہیں بلکہ ایک پناہ گزیں ہو۔ تم فوراً میرے کمرے سے نکل جاؤ۔"
میں نے بہت کوشش کی کہ وہ مجھے اپنے بستر سے نہ اٹھائے مگر مجھے اٹھنا پڑا اور میں کمرے سے نکل آئی۔ میں نے ان کو معاوضہ دینے کا ایک اور طریقہ سوچ لیا۔ میں ایک صبح اٹھی اور ان چاروں کی رضائیاں تہہ کرنے لگی مگر انہوں نے اس سے بھی روک دیا۔ پھر میں ان کے کمروں کی جھاڑ پونچھ کرنے لگی مگر انہوں نے اس سے بھی روک دیا۔ (میری پیاری بہنوں۔۔۔! جب میرا جسم میری مرضی اور عورتوں کی آزادی کا نعرہ لگاؤ گی تو یہ ہی حال ہو گا۔ اگر عزت چاہتی ہو تو اسلام کی لگائی ہوئی پابندی قبول کر لو۔) میں نے ضد کی کی میں کوئی نہ کوئی کام ضرور کروں گی مگر اس امیر زادے نے مجھے ڈانٹ دیا۔ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ وہ کوئی شریف لڑکے نہیں تھے۔ وہ اپنے والدین کی اندھی دولت مجھ جیسی لڑکیوں پر اور شراب پر پانی کی طرح بہاتے تھے۔ کالج تو عیاشی کا ایک بہانہ تھا۔ لیکن میرے لئے وہ شریف بن گئے تھے۔ میری دیکھ بھال کرتے تھے اور میری ضروریات پوری کرتے تھے۔ وہ میرے ساتھ بے تکلفی سے گپ شپ بھی کرتے تھے اور تاش بھی کھیلتے تھے مگر کبھی بدتمیزی یا بیہودہ مذاق نہیں کیا تھا۔

یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ گمراہ ہو گئے ہیں۔ وہ سچ میں گمراہ تھے۔ لیکن ان کے اندر کا کردار ابھی زندہ تھا۔ وہ میرے پاس آ کر سیدھے راستے پر آ جاتے تھے۔ یہ تو معاشرے کے بزرگوں کا کام ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کے کردار کا تحفظ کریں اور انہیں سیدھی منزل دکھائیں۔ اگر آپ فلسفہ اور نفسیات پڑھے ہوئے ہیں تو خود ہی تجزیہ کر لیں کہ ان چاروں نوجوانوں کا کردار دو متضاد قسم کا کیوں تھا۔ آپ کو ایک واقعہ سنا رہی ہوں لیکن آپ کو آئینہ دکھا رہی ہوں کہ ہماری سوسائٹی کا اصل چہرہ دیکھ لیں۔

میں ان لڑکوں کے پاس آئی تو انہوں نے مجھے اس مصیبت سے نجات دلانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم آپ کو بچہ ضائع کرنے کے لئے کسی بھی ڈاکٹر کے پاس نہیں بھیجیں گے کیونکہ یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ میں خود بھی اب کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی۔ کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ پہلے ڈاکٹر کی طرح دوسرا ڈاکٹر بھی میری مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھائے گا۔ پہلے میرے ذہن میں ڈاکٹر کا تصور بہت ہی پاک اور معزز تھا مگر اس ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد یہ بت ٹوٹ گیا تھا۔ جاگیر دار کا بیٹا بہت منجھا ہوا تھا۔ جو لڑکیاں اپنی تہذیب سے بھاگ کر مغرب کے ننگے کلچر میں گم ہو جاتی ہیں، ان میں سے بیشتر میری طرح مصیبت میں گرفتار ہو جاتی ہیں۔ کچھ لڑکیاں چوری چھپے ایبارشن کرا لیتی ہیں یا عیسائیوں کے کسی ہسپتال میں بچہ پیدا کر کے انہی کے حوالے کر آتی ہیں۔ اس امیر زادے نے مجھے بھی ایسے ہی ایک ہسپتال کا راستہ دکھا دیا۔ یہ ہسپتال انگریزوں نے پاکستان اور ہندوستان میں بنائے تھے۔ یہ ہسپتال خاص طور پر ان مسلمان لڑکیوں اور طوائفوں کے لئے بنائے گئے تھے جو زنا کر کے بچہ ضائع نہیں کر پاتی اور پریشان ہوتی ہیں۔ عیسائی ان کی فری ڈلیوری کرتے ہیں مگر جو بچہ پیدا ہوتا ہے اسے خود رکھ لیتے ہیں اور اسے عیسائی نظریات پڑھاتے ہیں اور اسلام کی دشمنی سکھاتے ہیں۔ بعد میں ان بچوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ یہ بچے اپنی جان پر کھیل کر مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان بچوں میں سے بعض کو جعلی پیر بنا کر مسلمان ملکوں میں اور خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں بھیج دیتے ہیں جو اسلام کا حلیہ بگاڑتے ہیں۔ اسلام نے جو چیزیں حرام کی ہیں ان کو حلال ثابت کرنے کے لئے دلائل ڈھونڈتے ہیں۔ مسجد کے منبر پر بیٹھ کر مسلمانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے لڑواتے ہیں اور جو اصل اسلام پیش کرے ان پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔ انگریز مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوا کر اتنا مصروف کر دیتے ہیں کہ وہ عیسائیوں کے خلاف جہاد کو بھول ہی جاتے ہیں۔ جب مسلمان آپس میں لڑتے ہیں تو مسلمان کمزور ہو جاتے ہیں اور انگریز مسلمانوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھتے ہیں۔

میں جب عیسائیوں کے ایک ہسپتال میں گئی جو لاہور میں واقع ہے۔ میری ملاقات ایک لیڈی ڈاکٹر سے ہوئی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں غیر شادی شدہ ہوں اور ماں بننے والی ہوں۔ اس لیڈی ڈاکٹر کا چہرہ مسرت سے کِھل اٹھا اور اس نے میرے ساتھ اتنی پیاری باتیں کیں کہ میرے ذہن سے یہ نکل ہی گیا کہ میں نے کوئی گناہ بھی کیا ہے۔ میری اذیت میں نمایاں کمی آ گئی۔ اتنا پیار اور خلوص تو میری سگی ماں میں بھی نہیں تھا۔ اس عیسائی لیڈی ڈاکٹر کو اس کام کی بہت ہی زیادہ ٹریننگ دی گئی تھی۔ اس نے بڑے پیار سے کہا۔ "تم سے نادانی میں گناہ ہو گیا ہے۔ اپنے آپ کو اندر ہی اندر کھاتی جلاتی نہ رہو۔ ہم تمہیں اس گناہ کی سزا سے صاف بچا لیں گے۔"
"بچے کو کہاں لے کر جاؤں گی؟" میں نے پوچھا۔
"لے جاؤ گی کہاں؟" اس نے ہنس کر کہا۔ "آپ کا بیٹا یہیں رہے گا۔ تم یہاں سے اتنی زیادہ صحت مند ہو کر نکلو گی کہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ خوبصورت اور صحت مند نظر آؤ گی۔"

اس کے اتنے زیادہ پیار اور خلوص نے مجھے اس کا گرویدہ بنا دیا۔ میرے رکے ہوئے آنسو بہہ نکلے۔ میں نے اس کو بہت سی دعائیں دیں۔ جب اسے بتایا کہ میں گھر سے بھاگی ہوئی ہوں اور عارضی طور پر غیر شادی شدہ افراد کے ساتھ رہتی ہوں تو اس نے بڑے پیار سے کہا۔ "تمہارا یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ تم پریشان نہ ہونا کہ بچے کی پیدائش کے بعد کہاں جاؤ گی اور کہاں رہو گی؟ ہم تمہیں باعزت طریقے سے اپنے پاس رکھیں گے۔ باعزت روزگار لے کر دیں گے اور کسی معزز مرد کے ساتھ تمہاری شادی کروا دیں گے۔ تم صرف عیسائی ہو جانا۔"
میں خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی۔ جب اس نے عیسائی ہونے کی دعوت دی تو میں اس طرح چونکی جیسے کسی نے بے خبری میں مجھے سوئی چبھو دی تھی۔ میرا کوئی مذہب نہیں رہا تھا۔ میں اپنے مذہب اور کلچر کی مفرور تھی۔ لیکن جب اس لیڈی ڈاکٹر نے مجھے مذہب تبدیل کرنے کا کہا تو مجھے اتنا صدمہ ہوا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ عصمت سے بھی زیادہ قیمتی چیز مانگ لی ہے مجھ سے۔ میرے پاس صرف یہ ہی چیز رہ گئی ہے۔ کیا یہ بھی لٹا دوں؟ نہیں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ میرے دل سے آواز آئی۔مگر میں اس کے سامنے صاف انکار نہیں کر سکتی تھی کیونکہ میری نجات اسی چھت کے نیچے تھی۔ میں نے اسے جھوٹ بول دیا کہ بچے کی پیدائش کے بعد مسلمان ہو جاؤں گی۔

لیڈی ڈاکٹر نے میرا چیک اپ کیا اور پھر ہر پندرہ دن بعد چیک اپ کروانے کے لئے آنے کو کہا۔ میں وہاں سے مطمئن ہو کر نکلی۔ میرا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ مگر ایک مسئلہ ابھی بھی باقی تھا کہ بچے کی پیدائش کے بعد کہاں جاؤں گی۔ ان چاروں میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کر سکتی تھی۔ مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ ایسی باتیں سوچتی سوچتی میں کوٹھی تک پہنچ گئی۔ میں نے اس امیر زادے کو بتایا کہ لیڈی ڈاکٹر نے کیا کہا ہے اور میں نے کیا سوچا ہے۔ اس نے مجھے تسلی دی کہ وقت آئے گا تو دیکھی جائے گی۔ وقت گزرتا گیا۔ میں ہر پندرہ دن بعد چیک اپ کروانے چلی جاتی تھی۔ وہ لیڈی ڈاکٹر ہر بار میرا استقبال اس طرح سے کرتی جیسے کوئی ماں سسرال سے گھر آنے والی بیٹی کا کرتی ہے۔ اس لڑکے نے مجھے ایک برقعہ خرید دیا تھا۔ میں اس کوٹھی میں ایک راز بن کر رہتی رہی۔ آخر وہ دن بھی آ گیا جو میرے لئے قیامت سے کم نہیں تھا۔ لیڈی ڈاکٹر نے مجھے دو دن پہلے ہی ہسپتال میں داخل کر لیا۔ مجھے ایک پرائیویٹ کمرے میں رکھا گیا۔ رات کے وقت میں نے ایک بچے کو جنم دیا۔ بڑا ہی خوبصورت بچہ تھا۔ جب گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں خوش ہوتی ہے اور مٹھائی بانٹی جاتی ہے مگر میں نے بچے سے منہ پھیر لیا۔ میں اپنے گناہوں کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ میں نے نرس کو روتے ہوئے کہا۔ "بچہ یہاں سے لے جاؤ میں اسے نہیں دیکھنا چاہتی۔"
مسلمان ماں اور مسلمان باپ کا بچہ ایک صلیبی نرس یہ کہتے ہوئے لے گئی۔ "یہ بڑا ہو کر مبلغ بنے گا۔ صلیب کا دفاع کرے گا۔ اس کی تربیت فادر اپنی نگرانی میں کرے گا۔" اس گناہ تک مجھے اس سکول نے پہنچایا تھا جس پر میرے والدین فخر کرتے تھے۔ جب نرس بچے کو لے کر جا رہی تھی تو بچہ رویا۔ میں زمین اور آسمان کی ساری موسیقی اس بچے کے رونے پر قربان کر دوں۔ میرے دل میں آیا کہ اٹھ کر نرس کے ہاتھ سے بچہ چھین کر اپنے سینے سے لگا لوں۔ اس کو چوم لوں۔ لیکن میں نے اس ماں کا گلا بے دردی سے گھونٹ دیا جو میری ذات کے اندر بیدار ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے دی کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے، میرے گناہ کا بچہ ہے۔ میرے جسم سے گناہ الگ ہو گیا ہے اور اب میرا جسم پاک ہو گیا ہے۔ میں نے سب کے گناہ اپنے سر لے لئے۔ میں نے اپنے ماں باپ کا گناہ بھی اپنے سر لے لیا جنہوں نے مجھے ایسے سکول میں داخل کروایا تھا۔ میں نے ان اساتذہ کے گناہوں کو بھی اپنے سینے میں لے لیا جنہوں نے سرکاری سکولوں کو تباہ کر دیا تھا ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ مسلمان اپنے بچوں کو عیسائیوں کے سکولوں میں داخل کرواتے۔ جب ہم سکول میں داخل ہوئے تھے تو ہمارے ذہن کچے تھے۔ عیسائی اساتذہ نے ہمارے ذہنوں میں ایسی چیزیں بھر دیں تھی کہ ہم ان غلیظ سکولوں پر فخر کرتے تھے۔ ان لوگوں کا گناہ بھی اپنے ذمّے لے لیا جنہوں نے پاکستان میں فحاشی والی اور ننگی فلمیں چلانے کا انتظام کیا تھا۔ ان فلموں کو دیکھ کر میری شہوت بیدار ہو گئی تھی۔

 میرے گھر والوں نے میری اتنی بھی نگرانی نہ کی کہ میں کہاں جاتی ہوں یا کس کے ساتھ جاتی ہوں۔ کاش مجھے کوئی تو پوچھ گچھ کرتا۔ میں نے ان لوگوں کے گناہ بھی اپنے ذمّے لے لئے جنہوں نے گندی کہانیوں اور تصویروں والے ناول چھاپے تھے۔ جب سب کے گناہ میری کوکھ میں اتر گئے تو سب نے مجھ پر تھوک کر مجھے دھتکار دیا۔

علماء کے فتوے کے مطابق سزا مجھے ہی ملنی چاہیے۔ سنگسار مجھے ہی کرنا چاہیے۔ لیکن یہ نہ بھولیے کہ میں تھرڈ ائیر تک پڑھی ہوں۔ میں نے ابتدائی تعلیم ایک انگریزی میڈیم سکول میں حاصل کی ہے۔ میں کوئی کوٹھے میں بیٹھنے والی طوائف نہیں ہوں۔ غیر ملکی اور پاکستانی دانشوروں، سیاست دانوں اور اینکر پرسن کے ساتھ بھی بیٹھی ہوں۔ میں نے ان کے ساتھ راتیں گزاری ہیں۔ میں بہت جانتی ہوں اور سمجھتی ہوں۔ میں نے ان کے صرف ننگے جسم ہی نہیں دیکھے بلکہ ننگے ضمیر بھی دیکھے ہیں۔ اب اگر آپ نے میرا منہ کھلوا ہی دیا ہے تو زرا تفصیل سے بتا دیتی ہوں۔

میں ہسپتال کی بات بتا رہی تھی جہاں مجھے عیسائی بنانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ جب صبح سورج طلوع ہو رہا تھا تو ایک پادری ہاتھ میں موم بتی اٹھائے میرے کمرے میں آیا۔ اس نے موم بتی میرے اوپر گھمائی اور کچھ پڑھتے ہوئے چلا گیا۔ اگلے دن وہی پادری پھر آیا اور وہی عمل دہرایا۔ میں اتنی بد قسمت تھی کہ صبح سب سے پہلے میرے کان میں ایک منحوس پادری کی آواز پڑتی تھی۔ ایک ہفتہ تک یہ ہی عمل جاری رہا اور ایک ہفتے بعد میں بالکل ٹھیک ہو گئی تھی مگر مجھے چھٹی نہیں دی جا رہی تھی۔ ہر روز شام کو لیڈی ڈاکٹر میرے پاس آتی اور میری ذہن سازی کرتی تھی۔ اس کی باتوں میں اتنا پیار ہوتا تھا کہ مجھے اس کی باتیں سچ معلوم ہوتی تھیں۔ وہ مختلف دلائل کے ذریعے مجھے عیسائی بننے پر قائل کر رہی تھی۔ انہوں نے میری شادی کا بھی بندوبست کر دیا تھا۔ میں پوری طرح ان کے جال میں پھنس گئی تھی۔ میں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا صرف زبان سے اقرار باقی رہ گیا تھا۔ مجھے ہسپتال میں داخل ہوئے بیس دن ہو گئے تھے۔ میں رات کو یہ سوچ کر سوئی تھی کہ صبح پادری کے ہاتھ پر عیسائیت قبول کر لوں گی۔

رات کو سوئی تو خواب میں دیکھا بہت سے مکان جل رہے ہیں۔ میرا وہ مکان بھی جل رہا تھا جو ہم ہندوستان میں چھوڑ آئے تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ سکول بھی جل رہا تھا جہاں میں نے پہلا پارہ پڑھا تھا۔ میں اکیلی اندھیرے میں بھاگی جا رہی تھی۔ میں چھے سات سال کی بچی تھی۔ دو سکھ میرے پیچھے دوڑے آ رہے تھے۔ میں دوڑتی ہوئی گر پڑی اور میری آنکھ کھل گئی۔ اتنی زیادہ گبھراہٹ تھی کہ خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ سر سے پاؤں تک سارا جسم کانپ رہا تھا۔ میں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ہاتھ لمبا کر کے بتی جلائی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے تھوڑی سی سمجھ آئی کہ میں ہندوستان کے کسی کھیت میں نہیں بلکہ ہسپتال میں پڑی تھی۔ میں کلمہ پڑھ رہی تھی۔ اچانک مجھے جھٹکا لگا جب مجھے یاد آیا کہ میں عیسائی بننے والی ہوں اور کسی عیسائی مرد کے ساتھ شادی کروں گی۔

 میں ہمیشہ کے لئے ان کی غلام ہو جاؤں گی۔ میں نے دیکھا تو سامنے دیوار کے ساتھ میرا برقعہ لٹک رہا تھا۔ سرہانے کے نیچے پرس پڑا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اٹھی اور برقعہ پہنا پرس اٹھا کر باہر نکل گئی۔ مجھے معلوم نہیں کیا ٹائم ہوا تھا۔ ہسپتال میں مکمل خاموشی تھی۔ میں بڑے دروازے سے باہر نکل گئی۔ ہسپتال کا چوکیدار مجھے دیکھتا رہا۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتی جا رہی تھی۔ سڑک ویران تھی۔ تھوڑی دور جا کر مجھے تانگہ مل گیا۔ تانگے والے کو منہ مانگے پیسے دے کر کوٹھی میں چلی گئی۔ وہاں چاروں لڑکے تھوڑی دیر پہلے ہی باہر سے آئے تھے۔ کوٹھی میں جا کر پتہ چلا کہ رات کا ایک بج گیا تھا۔ وہ حیران ہوئے کہ آدھی رات کے وقت کیوں آئی ہو تو میں نے ساری بات بتا دی۔ وہ بھی مسلمان تھے مگر میرے اس کارنامے پر عش عش کر اٹھے۔

مجھے یہ مسئلہ پریشان کرنے لگا کہ اب میں کیا کروں اور کہاں رہوں؟ ان لڑکوں کے پاس زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی تھی۔ میں خود بھی ان کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں رہنا چاہتی تھی۔ ان میں سے کوئی بھی میرے ساتھ شادی کو بھی تیار نہیں ہو رہا تھا۔ میں اب کسی کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔ ان لڑکوں کا یہ احسان ہی بہت بڑا تھا کہ اتنا عرصہ مجھے پناہ دی اور چھپائے رکھا۔ اب میں انہیں زیادہ آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ کبھی کبھی جی میں آتا کہ گھر واپس چلی جاؤں۔ مگر کچھ وسوسے اور خدشے مجھے گھر جانے سے روک دیتے تھے۔ میں نے جاگیردار کے بیٹے سے کہا مجھے کوئی اچھی سی نوکری مل جائے تو میں اپنا خرچہ خود اٹھا لوں گی اور رہائش کا بند و بست بھی کر لوں گی۔ اس نے مجھے تسلی دی کہ آپ کے لئے کوئی اچھی سی نوکری ڈھونڈ دوں گا۔ مگر رہائش کا مسئلہ زرا ٹیڑھا تھا۔

مجھے یہ تو امید کہ مجھے نوکری جلدی مل جائے گی کیونکہ میری تعلیم اچھی تھی اور انگریزی بھی روانی سے بول سکتی تھی۔ میری شکل وصورت اور جوانی بھی ایسی تھی کہ کوئی پتھر دل ہی مجھے ٹھکرا سکتا تھا۔ مگر مجھے مستقل رہائش کے مسئلے نے پریشان کیا ہوا تھا۔ ہمارے ملک میں عورتیں مویشیوں کی طرح کام کر سکتی ہیں مگر اکیلی نہیں رہ سکتی۔ ہر عورت کو ایک مرد کے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عورت ذات جتنی مرضی کوشش کر لے بغیر خاوند کے نہیں رہ سکتی۔ اور خاوند بھی ایسا جو شریف اور معزز ہو۔ جو عورت کی عزت کرنا جانتا ہو۔ ایسا شوہر تب ہی حاصل ہو سکتا ہے اگر لڑکی اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے والی ہو۔ اسلام کی پابندیاں قبول کرنے والی ہو۔

 یہ ہی وجہ ہے کہ لبرل لڑکیاں زندگی کے چند ایام تو ہنسی خوشی گزار سکتی ہیں مگر ہمیشہ خوش نہیں رہ سکتی۔ آپ کسی بھی لبرل لڑکی کو دیکھو گے تو وہ آپ کو خوش نظر آئے گی مگر جب اس کی کہانی سنو گے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ اس سے زیادہ دکھی دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ کوئی شریف لڑکا ڈھونڈ کر اس سے شادی کر لوں گی۔ اس کی غلامی کو اپنے لئے فخر سمجھوں گی۔ اپنی ساری زندگی اس کے قدموں میں گزار دوں گی۔ مگر مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ شریف لڑکے صرف شریف لڑکیوں کو ہی ملتے ہیں۔ ہر لڑکی کو اس کے گناہ کی سزا ضرور ملتی ہے۔ یہ سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں تو ہو گی ہی۔ میں یہ پیغام اپنی ان بہنوں کو دینا چاہتی ہوں جو آج بھی بوائے فرینڈ کے لئے نکلتی ہیں۔اس جاگیردار کے بیٹے نے پانچ روز بعد ایک پرائیویٹ فرم کا پتہ دیا اور کہا کہ وہاں کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو سیکرٹری کی ضرورت ہے۔ میں دوسرے ہی دن اس کے دفتر پہنچ گئی۔ وہ شکل وصورت سے شریف اور نیک لگتا تھا۔ اس کی عمر 55 سے 60 سال لگتی تھی۔ میں اس کے دفتر میں داخل ہوئی تو پہلے تو وہ چونک گیا پھر پھٹی پھٹی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ بدک کر نارمل ہو گیا۔ مجھے بیٹھنے کو کہا اور ہکلا کر بولا۔ "جی ہاں مجھے سیکرٹری کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو میرے ساتھ کوئی مشکل تو نہیں آئے گی؟..." میں اس کی بات سے لفظ "مشکل" تو نہیں سمجھ سکی۔ میں نے کہا میں نےB.A پورا تو نہیں کیا مگر B.A والوں سے زیادہ پڑھی لکھی ہوں۔ آپ کو میرا کام پسند آئے گا۔

"آپ بُرا تو نہیں مانیں گی؟" اس نے ایسے لہجے میں کہا جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ عورتوں کے معاملے میں اناڑی ہے۔
"آپ کے دل میں جو بھی ہے کہہ دیں۔ میں بُرا نہیں مناؤں گی۔ میں ایک مجبور لڑکی ہوں۔ اپنے سہارے پر کھڑی ہونا چاہتی ہوں۔"
"میرے دل میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔" اس نے کہا۔ "مجھے دراصل اتنی خوبصورت اور جوان لڑکی کی ضرورت نہیں تھی۔" وہ گہری سوچ میں کھو گیا۔ پھر بولا۔ "بہرحال آپ کو رکھ لیتا ہوں۔ آپ برقعہ اتار دیں۔ میں آپ کو تین سو روپے ماہوار تنخواہ دوں گا۔"
میں نے یہ تنخواہ قبول کر لی۔ اس نے میرا ایڈریس پوچھا تو میں نے اسی کوٹھی کا پتہ بتا دیا جہاں میں پناہ لئے ہوئی تھی۔ پھر اس نے مجھ سے ذاتی باتیں پوچھنا شروع کر دیں۔ مجھے اس کی جس بات نے متاثر کیا وہ اس کا خلوص تھا۔ میری مجبوری سنے بغیر ہی اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ "ایسی لڑکی کسی مجبوری کی وجہ سے ہی نوکری کرتی ہے۔" اس کی باتوں سے مجھے باپ کی شفقت نظر آ رہی تھی۔ میں نے اسے باپ کا درجہ دے دیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ کچھ دنوں تک اس سے رہائش کے لئے بات کروں گی اور اگر اس کے بچے پڑھتے ہیں تو میں پڑھا بھی دوں گی۔ وہ میرے ساتھ بڑی میٹھی باتیں کر رہا تھا۔
میں گھر سے بھاگی ہوئی تھی اور سہارا ڈھونڈ رہی تھی۔ مگر یہ میرا اپنا ہی شہر تھا اور مجھے ڈر تھا کہ میرا بھائی یا باپ مجھے ادھر دیکھ لے گا۔ اس کے لئے میں نے ہمیشہ برقع میں رہنا شروع کر دیا تھا۔

میں نے اس سے کہا مجھے میرا کام سمجھا دو۔ اس نے کہا۔ "ساری عمر کام ہی کرنا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں تمہارے اندر گبھراہٹ اور خوف ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب تک تم میرے پاس رہو خوش باش رہو۔" اور اس طرح کی ایک دو اور میٹھی باتیں کیں تو میرے آنسو نکل آئے۔ میں نے کہا۔ "میں بے سہارا اور دھتکاری ہوئی لڑکی ہوں۔ مجھے سر پر آپ جیسے کسی بزرگ کا دستِ شفقت اور چھت کی ضرورت ہے۔ جو میرے گناہ گار وجود کو دنیا کی نظروں سے چھپا لے۔ میں ایک بڑا گندہ راز ہوں۔ آپ اسے اپنے سینے میں اور چھت تلے رکھنا گوارا نہیں کریں گے۔"

یہ میری ایک دکھتی رگ تھی جو میں نے خود اس کے ہاتھ میں دے دی۔ اس نے کہا۔ "تمہیں کچھ دنوں تک پتہ چلے گا کہ میں کیا ہوں۔ میں تمہیں تمہارے راز سمیت اپنے سینے میں چھپا لوں گا۔ بات زرا کھل کر کرو۔ میرا دستِ شفقت اپنے سر پر ہی سمجھو۔"

اس کی بزرگی میرے اعصاب پر غالب آ چکی تھی۔ میں نے اسے یہ تو نہ بتایا کہ میں ایک بچہ جن کر عیسائیوں کے پاس چھوڑ آئی ہوں۔ اس کے علاوہ باقی سب کچھ بتا دیا۔ میں نے کہا۔ "میں تمہیں یہ تو نہیں بتا سکتی کہ اپنا جسم کتنے آدمیوں کو کتنی بار دے چکی ہوں۔" میں اس کے چہرے پر دیکھا تو کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
میں تمہیں پاک ہی سمجھتا ہوں۔ تمہاری بدقسمتی یہ ہے کہ تم بہت خوبصورت ہو۔ میں جہاندیدہ آدمی ہوں۔ میں نے اچھے بُرے لوگ دیکھے ہوئے ہیں۔ خوبصورتی کئی طرح کی ہوتی ہے مگر تمہاری خوبصورتی اور جسم میں کشش ہے۔ کوئی آدمی تجھے دیکھ لیتا ہے تو بے قابو ہو جاتا ہے اور تجھے پا لینے کے لئے اپنی جان اور دولت داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ "

"مگر مجھے جنسیت سے چِڑ ہو گئی ہے۔" میں نے کہا۔ "میں تو کبھی غصے میں آ کر اپنے ناخنوں سے اپنا چہرہ نوچ لوں گی اور اتنا بھیانک بنا لوں گی کہ جو لوگ مجھے دیکھ کر بے قابو ہوتے ہیں وہ مجھے دیکھ کر نفرت کرنے لگے گے۔" میرے ذہن میں ایک ترکیب آ گئی ہے۔ میں نے کہا۔ "میرے چہرے پر کشش بدکاری والے ماحول سے آئی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے چہرے پر پاکیزگی کا تاثر ہو۔ آپ مجھے ایسا کوئی وظیفہ بتا دیں جو میں پڑھتی رہوں۔ جیسے کہ آیت کریمہ۔ میں گناہوں میں ڈوبی ہوئی ہوں مگر اس حقیقت کی منکر نہیں ہوں کہ نجات نماز، روزے اور قرآن میں ہے۔ "

ایسی باتیں کرتے کرتے ہمارے درمیان کوئی حجاب نہ رہا۔ میں اسے باپ ہی سمجھتی رہی۔ میری نظر میں اس کی عظمت اور بلند مقام تھا۔ اس نے مجھے نماز کی نصیحت کی اور وظیفہ بتانے کا بھی وعدہ کیا۔ کھانا کا وقت ہو گیا تھا۔ اس نے ایک بڑے ہوٹل سے بڑا ہی پُر تکلف کھانا دفتر ہی منگوا لیا اور مجھے اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا۔ اس کا دفتر بڑا خوبصورت اور کشادہ تھا۔ ایک طرف صوفہ سیٹ اور دیوان تھا۔ میں بُرقعہ اتار چکی تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے اس کی بیوی بچوں کے متعلق پوچھا۔ اس نے بتایا کہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بیوی زندہ ہے۔ بیوی کا نام ایسے لہجے میں لیا جیسے کسی کڑوی چیز کو کھاتے ہوئے منہ بنا لیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ بیوی سے نالاں تھا۔

"میں زندہ دل ہوا کرتا تھا۔" اس نے کہا۔ "مگر اس بیوی نے تو جوانی میں ہی مردہ کر دیا۔" اس نے بیوی کے خلاف شکایتوں کا دفتر ہی کھول دیا۔ اس کی باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ بڑا ہی مظلوم انسان ہے اور بڑی دکھی زندگی گزاری ہے۔ اس نے بتایا کہ میں دن رات محنت کرتا ہوں اور یہ کارخانہ اسی محنت کا نتیجہ ہے مگر مجھے کبھی روحانی سکون نہیں ملا۔ اس نے ایسی باتیں کیں کہ میرے دل میں اس کے لئے ہمدردی پیدا ہو گئی۔

پہلا دن تو سارا باتوں میں ہی گزر گیا۔ دوسرے دن میں دفتر گئی تو اس نے میرا دوستوں کی طرح استقبال کیا۔ میں نے پوچھا کہ دفتر میں میرے بیٹھنے کی جگہ بتا دو۔ اس نے کہا۔ "کیا میرے سامنے بیٹھنا پسند نہیں تمہیں؟ تمہاری یہ ہی جگہ ہے۔" اس نے مجھے ڈیوٹی کے متعلق کچھ باتیں بتائیں اور کاروبار کی معلومات دیں۔ ٹیلی فون سننا اور جواب دینا سکھایا۔ اپنی ذاتی خط و کتابت کی فائل دکھائی۔ سب سے ضروری بات جو اس نے بتائی وہ یہ تھی کہ مال کے زیادہ تر خریدار سرکاری افسر ہوتے ہیں جو گاہے بگاہے فون کرتے رہتے ہیں۔ انہیں خوش رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ مال انہی کے ذریعے فروخت ہوتا ہے۔ آدھا دن کاروبار کی باتوں میں گزر گیا۔ دوپہر کا کھانا ہوٹل سے آیا جو ہم نے ساتھ بیٹھ کر کھایا اور پھر ذاتی باتیں شروع ہو گئیں۔

"میری ایک بات کو غلط نہ سمجھنا۔" اس نے کہا۔ "تم نے اپنے دل کی باتیں میرے آگے رکھ دیں اور میرے ذہن میں جو تھا وہ آپ کے آگے رکھ دیا۔ میں نے ایسی باتیں کبھی کسی سے نہیں کیں مگر تمہاری باتوں اور انداز سے میں نے محسوس کیا کہ تم اس قابل ہو کہ تمہیں ہم راز بنا لوں۔ پہلے میں ہر وقت پریشان رہتا تھا مگر تمہیں دیکھ کر میری پریشانی ختم ہو گئی ہے۔ تم مجھے غلط سمجھ بیٹھو گی مگر میں صاف گو آدمی ہوں۔ میرے دکھوں کا علاج تم ہی ہو۔ میں تمہیں جسمانی عیاشی کا ذریعہ نہیں بناؤں گا۔ تمہاری حفاظت کروں گا۔ بس ایک کرم کرنا مجھے غلط نہ سمجھنا اور دور بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔"

اس کا انداز ایسا تھا کہ اس کا ایک ایک لفظ میرے دل میں اترتا جا رہا تھا۔ کیونکہ میرے لئے وہ میرا باپ تھا اس لئے میں اس سے کیوں دور بھاگتی۔ یہ دن بھی گزر گیا۔
تیسرے دن چار بج گئے تھے۔ اس کے دفتر کا سارا سٹاف چھٹی کر گیا تھا۔ چپڑاسی کو روکا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اکھڑا اکھڑا اور تھکا ہوا تھا۔ میں نے خیریت پوچھی تو اس نے کہا۔ "جسم کی تو پرواہ نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ روح تھک گئی ہے۔ اس کا علاج میرے گھر میں ہونا چاہیے تھا مگر میں گھر جانے سے گبھراتا ہوں۔ بیوی ایسا سلوک کرے گی کہ رہی سہی سکت بھی ختم ہو جائے گی۔ اس نے بڑی درد ناک سی آہ لے کر کہا۔ "لوگ کہتے ہیں کہ شراب تھکے ہوئے اعصاب کو سہلا دیتی ہے لیکن گناہ کرنے سے طبیعت گبھراتی ہے۔"

وہ اٹھا اور صوفے پر جا بیٹھا۔ وہ میرا محسن تھا اور مشفق باپ کی طرح تھا۔ اس کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہ گئی۔ اس نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور انگلیاں میرے بالوں میں الجھا لیں۔ پھر یہ انگلیاں میرے بالوں میں رینگنے لگی۔ اس نے کہا۔ "مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں تم سے زیادہ دکھی ہوں مگر تم سچی ہو۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ تمہارے دکھ کس طرح اپنے دل میں ڈال لوں۔" اس نے مجھے اپنے قریب کر لیا اور میرا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔ "میں تصدیق نہیں کر سکتا کہ کسی لڑکی کے بال اتنے ریشمی ہو سکتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ تم جیسے پھول کو سینے سے لگا کر حیوانی خیال کس طرح آ سکتا ہے۔ تم تو پھول ہو جس کی خوشبو روح پر نشہ طاری کرتی ہے۔ اس پر فی الواقع نشہ طاری ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے اس کی کوئی بات بُری نہیں لگ رہی تھی کیونکہ اس نے کوئی حیوانی بات نہیں کی تھی۔ مجھے ابھی تک ایسا شک نہیں ہوا تھا کہ اس کی نیت میں فتور ہے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے میرا چہرہ اوپر اٹھایا اور میری آنکھوں کو باری باری چوما اور کہا۔ "میں خدا کی قدرت کے حُسن کی داد کس طرح دوں۔

" مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی شفیق باپ اپنی بیٹی کو سینے سے لگا کر پیار کر رہا ہو۔ مجھے سکون محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے میرے گال اپنے گالوں سے لگا لئے اور زرا سی دیر بعد اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی مرد کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر تھے مگر فرق تھا۔ بہت فرق تھا۔ میں یہ ایک باپ کے ہونٹ سمجھ رہی تھی۔ اس میں حیوانیت نہیں تھی۔ مجھے یہ بھی اطمینان ہوا کہ اس نے مجھ پر جو احسان کیا ہے اس کے عوض اسے سکون دے رہی ہوں۔ اس کا احسان یہ نہیں تھا کہ اس نے مجھے نوکری دی۔ بلکہ اصل احسان یہ تھا کہ اس نے میرے درد کو اپنا درد سمجھا تھا۔ میری پریشانی کو ختم کرنے میں مدد کی تھی۔ اس نے کہا تھا۔ "تم بے قصور ہو۔ تم پاک ہو۔"
جب اس کے دفتر سے نکلی تو رات ہو چکی تھی۔ اس کی روح کو سکون ملا تھا یا نہیں مگر میری روح کو بہت سکون ملا تھا اور محسوس ہوا تھا کہ آج مجھے میرے باپ نے پیار کیا ہے۔
اس کے بعد ہر روز شام کو وہ روحانی تھکن محسوس کرنے لگا۔ صوفے پر نڈھال ہو کر بیٹھ جاتا اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیتا، میری گالوں کو، میری آنکھوں کو اور میرے ہونٹوں کو چوم چوم کر دیوانہ ہوتا رہتا۔ آٹھ دن ہو گئے تھے وہ روز ایسے ہی کرتا تھا۔ آٹھویں روز وہ صوفے پر لیٹ گیا اور مجھے کہا دیوان پر لیٹ جاؤ۔ زرا آرام کر لو۔ میں لیٹ گئی۔ وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ فوراً سو گیا۔ تھوڑی دیر بعد میری بھی آنکھ بھی لگ گئی۔ کچھ دیر بعد میری آنکھ کھل گئی۔ وہ میرے ساتھ اس طرح لیٹا ہوا تھا کہ اس کا ایک بازو میری گردن کے نیچے تھا۔ میرا منہ اس کے منہ کے ساتھ لگا ہوا تھا اور میری ٹانگیں اس کی ٹانگوں کے اوپر تھیں۔ میں بدک تو گئی مگر سنبھل گئی۔ روز مرہ کی بے تکلفی کے مطابق ہنس پڑی۔ اس نے دوسرا بازو بھی میری گردن کے گرد لپیٹ کر مجھے اپنے اوپر ڈال لیا۔ تب میں نے دیکھا کہ اس کی سانسیں اُکھڑی ہوئی تھی اور آنکھوں میں غیر معمولی لالی تھی۔ اب یہ شخص وہ نہیں رہا تھا جسے میں اپنا باپ مان چکی تھی۔ مردوں کی اس حالت سے میں اچھی طرح واقف تھی۔ پھر بھی میں نے خود کو فریب دے دیا کہ یہ شخص آوارہ نوجوانوں جیسا یا بدکار ڈاکٹر جیسا نہیں تھا۔ یہ ان سے بہت بلند ہے مگر جلد ہی اس نے مجھے اس فریب سے نکال دیا۔ مجھے ٹانگوں میں کچھ محسوس ہوا۔ میں نے ٹانگوں کی طرف دیکھا تو وہ میری شلوار کا ناڑا کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں ایک ہی جھٹکے سے اس کے بازو سے نکل کر اٹھ بیٹھی۔ مجھے اتنا درد ہوا جیسا اس نے میرے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہو۔ میرے ہونٹ کانپنے لگے۔ میری زبان بند ہو گئی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مجھ کیا ہو گیا ہے۔ وہ دیوان پر نڈھال پڑا تھا جیسے اسے بھی صدمہ ہوا ہو۔ التجا کے لہجے میں اس کے ہونٹوں سے سسکی نکلی۔۔۔۔۔"نہیں۔۔۔۔"

میں پھٹ پڑی اور کہا۔ "میں اپنے باپ کو ناپاک نہیں ہونے دوں گی۔ میں اپنے ناپاک جسم کی غلاظت کے چھینٹے آپ پر نہیں پڑنے دوں گی۔"
میری آواز میں شاید ہذیانی کیفیت تھی۔ وہ اٹھا اور مجھے گلے لگا کر کہا۔ "مجھے معاف کر دو۔ تم وہ شراب ہو جسے دیکھ کر زاہد کی قسم بھی ٹوٹ جاتی ہے۔"
اس کے بعد معلوم نہیں میں وہ کیا کہتا رہا۔ میں معصوم بچے کی طرح اس کے سینے پر سر رکھ کر بہت دیر تک روتی رہی۔ مجھے اس وقت سمجھ آیا کہ اسلام نے جو پابندی لگائی ہے کتنی ضروری ہے۔ روتے ہوئے میری ہچکی بند گئی۔ اس نے مجھ سے معافی مانگی اور مجھے بہلانے لگا۔ جب میری طبیعت سنبھل گئی تو میں نے کہا۔ "آپ نے خود پر یہ بھوت صرف اس لئے سوار کیا کہ آپ کو میرے گناہوں کا علم ہو گیا تھا مگر آپ نے یہ نہیں سوچا کہ میں نے سچی توبہ کر لی ہے۔ میں نے تو آپ کو یہ کہا تھا کہ مجھے کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ میرے چہرے پر پاکیزگی کا تاثر آئے اور اپنے ضمیر سے گناہوں کا بوجھ دھو ڈالوں۔ میں تو آپ کو اپنا پیر استاد اور باپ سمجھ بیٹھی تھی۔"

اس نے مجھے آگے نہ بولنے دیا اور کہا۔ "مجھے اب بھی وہی سمجھو۔ دیکھو میں بھی انسان ہوں۔ فرشتہ نہیں ہوں۔ نیکی اور بدی کے درمیان صرف ایک لکیر ہوتی ہے۔ تمہیں لیٹا ہوا دیکھا تو تم اتنی خوبصورت لگی کہ میں حیوان بن گیا۔ مجھے معاف کر دو۔"
میں نے اسے معاف تو کر دیا مگر دل میں ایک خلش سی بیٹھ گئی کہ مرد کتنا کمزور ہوتا ہے۔ میں تو اتنی کمزور نہیں تھی۔ میں تو بہت سے نشے کی عادی ہو گئی تھی۔ لوگوں سے سنا تھا کہ کوئی بھی نشہ نہیں چھوڑ مگر میں نے صرف ارادہ کیا اور سب کچھ بھول گئی تھی۔

اس رات میں صحیح طرح سو نہیں سکی تھی۔ بار بار تلخ سا خیال آ کر مجھے جگا دیتا تھا کہ عورت ہونا اور پھر خوبصورت ہونا کتنی بڑی بد قسمتی ہے۔ ایک لڑکی تو اپنی باپ کے عمر کے مرد کی ہوس سے بھی نہیں بچ سکتی۔
میں مجبور تھی۔ صبح ہوئی تو دفتر جانے کو دل نہیں کر رہا تھا مگر پھر بھی چلی گئی۔ اس نے مجھے سنبھال لیا اور وہ خود بھی سنبھل چکا تھا۔ وہ جہاندیدہ اور منجھا ہوا آدمی تھا۔ اس نے مجھے الفاظ اور گفتگو کے طلسم میں الجھا لیا۔ دو دن گزر گئے۔ تیسرے دن ایک سرکاری افسر اس دفتر میں آیا۔ میرے ڈائریکٹر نے اس کے ساتھ میرا تعارف کرایا۔ وہ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ نظریں آج بھی مجھے یاد ہیں۔ میرا ڈائریکٹر اس سرکاری افسر کو لے کر باہر چلا گیا اور وہ کافی دیر تک فیکٹری کا دورہ کرتے رہے۔ میں دفتر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ کوئی کام نہیں تھا۔ میز پر درازوں کی چابیاں پڑی تھیں۔ میں نے دراز کھولے تو دراز کے اندر ننگی تصویریں تھیں۔ یہ وہی تصویریں تھیں جو مجھے سکول فیلو دکھایا کرتے تھے۔ میری تباہی میں ان تصاویر کا بھی اہم کردار تھا۔ البتہ مجھے حیرت ہوئی کہ اس جیسے بزرگ کو ان تصاویر کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ میں نے تصویریں دیکھ کر واپس دراز میں رکھ دیں اور دراز بند کر دیا۔

 میں اس سوچ میں گم ہو گئی کہ یہ بزرگ کتنا بڑا فریب ہے۔ اس نے پہلے میرے سامنے خود کو مظلوم اور دکھی ثابت کیا اور میری ہمدردیاں جیت لی۔ اس نے میرے اعصاب پر اپنی شفقت کا رنگ جما کر مجھے اپنی پاکیزگی کے جال میں الجھا لیا اور پھر آہستہ آہستہ مجھے اس مقام تک لے آیا جہاں میں بلا چوں چراں اپنا آپ اس کے حوالے کر دیتی۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ یہاں سے چھوڑ جاؤں گی مگر جاؤں کہاں؟ جب وہ سرکاری افسر چلا گیا تو میرا ڈائریکٹر واپس دفتر آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ یہ پاکستان کا بہت بڑا سرکاری افسر ہے۔ اس کی وجہ سے میری فیکٹری کا مال بہت زیادہ بِکتا ہے۔ اب بھی وہ دو لاکھ کے سامان کا آرڈر دینے آیا تھا مگر اس نے ایک شرط رکھ دی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ اس کے ساتھ فلاں ہوٹل میں کھانا کھائیں۔ وہ آپ کے ساتھ گپ شپ کرنا چاہتا ہے۔ آپ کی تنخواہ بھی تیس سو سے بڑھا کر چار سو کر دی جائے گی۔

"آپ نے اسے بتایا نہیں کہ میں کسی سے نہیں ملتی؟" میں نے پوچھا۔
"میں نے بتایا تھا" ڈائریکٹر نے کہا۔ "مگر اس نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔ اس نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اگر تم نہیں جاؤ گی تو وہ مال کا آرڈر دینا بند کر دے گا۔"
"کیا اس نے مجھے رشوت کے طور پر مانگا ہے؟" میں نے پوچھا۔
"یہ ہی سمجھ لو۔" ڈائریکٹر نے کہا۔ "لیکن میں تمہیں زبردستی نہیں بھیج سکتا۔ مگر میری خاطر قربانی دے دو۔ اگر وہ آرڈر مل جائے گا تو مجھے ایک لاکھ تیس ہزار کا منافع ہو جائے گا۔ آپ چلی جاؤ۔ آپ پانچ ہزار روپے صرف ہوٹل میں جانے کے دے دوں گا۔"

میں نے انکار کر دیا۔ اس نے مجھے دو ہزار روپے ایڈوانس دینے کی بھی پیشکش کی۔ یہ رقم میرے لئے بہت بڑی رقم تھی مگر میں توبہ کر چکی تھی۔ وہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں یہ سوچنے لگی کہ پاکستان کیوں بنایا تھا؟ پاکستان تو اسلامی ریاست بنانی تھی مگر یہاں سرکاری افسر سرکاری خزانے کو بدکاری کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ غریب عوام کا پیسہ سرکاری افسر رشوت اور بدکاری پر خرچ کر رہے تھے۔ جن لوگوں نے پاکستان بنانے کے لئے قربانیاں دیں تھیں وہ قیامت والے دن ان افسروں کا گریبان پکڑیں گے اور ایک ایک چیز کا حساب لیں گے۔ ایک لاکھ سے زائد نوجوان لڑکیوں نے اپنی عصمت کی قربانی دے کر یہ ملک بنایا تھا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں مردوں نے جان کی قربانی دے کر اس ملک کو سیراب کیا تھا۔ کتنے ہی معصوم بچے جو ابھی بول بھی نہیں سکتے تھے اس ملک پر قربان ہو گئے۔ مگر ہم نے پاکستان کی کیا قدر جانی؟

ڈائریکٹر سمجھا کہ مجھے جانے کے لئے سوچ رہی ہوں۔ وہ بولا۔ "زیادہ نہ سوچو۔ چلی جاؤ۔ دو ہزار روپے ابھی مجھ سے لے لو۔ وہ سرکاری خزانے سے پانچ ہزار روپے نکال چکا ہے جو آپ کو دے گا۔ اس کے علاوہ آپ کو گفٹ بھی دے گا۔ آپ نے اس کے پاس ساری رات تو نہیں رہنا۔ ویسے بھی آپ کونسا پہلی بار کسی مرد کے پاس جا رہی ہو۔"
"یہ تو میں سوچ چکی ہوں کہ سارا پاکستان بھی مل جائے پھر بھی نہیں جاؤں گی۔" میں نے جواب دیا۔ میں نے برقعہ اٹھایا اور جتنے دن کام کیا تھا اس کی تنخواہ بھی نہیں لی اور دفتر سے باہر نکل آئی۔ میں وہاں سے نکل کر ایک باغ میں چلی گئی اور ایک کونے میں پڑے بینچ پر بیٹھ گئی۔ میں نے نقاب نیچے گرایا ہوا تھا۔ میں سوچنے لگی کہ عورت کیا کر سکتی ہے؟ کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے؟ عورت ایک کھلونا ہے جسے پیسے والے خرید لیتے ہیں اور پھر اس سے دل بہلاتے ہیں۔ مجھے گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ یہ میرے ہی گناہوں کی سزا تھی جو مجھے مل رہی تھی۔ میں نے اسلام کی پابندی کو قید سمجھا تھا اور لبرل لڑکی بننے کی کوشش کی تھی۔ پہلے میرے دل میں خیال آیا کہ میں اس افسر کے پاس چلی جاتی ہوں۔ ایک رات برداشت کر لوں گی مگر اتنے پیسے مل جائیں گے کہ آسانی سے لاہور میں بڑا گھر لے سکتی ہوں۔ مگر کوئی غیبی طاقت تھی جو مجھے روک رہی تھی۔ لہذا میں نے اپنا ارادہ تبدیل کر لیا۔ وہاں سے اٹھی اور ان لڑکوں کی کوٹھی میں چلی گئی جو تھے تو آوارہ مگر میرے لئے محافظ تھے۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام  اردو کہانی - پارٹ 4

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں