وہ یقین کا ایک نیا سفر ۔ حصہ اول


ڈاکٹر زوبیہ خلیل! آپ یہاں جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں۔
مسلسل خاموش بیٹھے اس بے پناہ بارعب شخصیت کے مالک بندے نے اچانک سوال کیا تھا انٹرویو میں بیٹھے تین افراد میں سے مسلسل دوہی افراد اس سے سوالات کر رہے تھے اس نے چونک کر وضاحت طلب نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔
میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے جو آپ پشاور چھوڑ کر اس دور افتادہ بستی میں جاب کرنا چاہتی ہیں؟
اس نے خود ہی اپنی بات کی وضاحت کر دی۔
یہ اس کا پہلا انٹرویو نہیں تھا ۔وہ اس سے پہلے بے شمار جگہوں پر دے چکی تھی ملازمت کرنا بھی نیا تجربہ نہیں تھا ۔ مگر یہاں اپنے بالکل سامنے اس وسیع میز کے پیچھے بیٹھے اس بندے میں پتہ نہیں ایسی کیا بات تھی کہ وہ تھوڑی سی نروس ہو گئی۔حالانکہ وہ خود کو تیار کر کے آئی تھی ایسے سوالات کے لیے مگر اس وقت معلوم نہیں کیوں ایسے لگا تھا جیسے وہ اس سے جھوٹ نہیں بول پائے گی ۔وہ اپنی ذہین آنکھوں سے نہ صرف اس کا جھوٹ پکڑ لے گا بلکہ شاید ساری سچائی بھی جان لے ۔اس نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا۔
اس لیے کے آپ کے ایڈ میں دیا گیا سیلری پیکیج اور دیگر مراعات میرے لیے Attractive تھیں ۔میں ہاوس جاب کے بعد پچھلے ایک سال کے دوران گورنمنٹ جاب حاصل کرنے کے لئے خاصی کوشش کر چکی ہوں ۔جس میں سوائے ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔
اگر پرائیویٹ جاب ہی کرنی ہے تو ایسی جگہ کیوں نہ کروں جہاں مجھے میری محنت کا بہتر معاوضہ مل رہا ہو۔
گھر سے سوچ کر آئے ہوئے انسان دوستی خدمت خلق وطن خدمت اور دکھی انسانیت کا دور قسم کے الفاظ اسے یکسر بھول گئے تھے ۔ جھوٹ تو خیر اب بھی اس نے بولا تھا مگر گھر سے سوچ کر آئی ہوئی دھواں دھار تقریر وہ نہیں کر پائی۔اس کے چہرے پر اپنی بات کا ردعمل دیکھنا چاہا تو سوائے سپاٹ چہرے کے کچھ نظر آیا ۔یہ یقیناً انٹرویو کا آخری سوال تھا ۔ کیونکہ اس سوال کا جواب دیتے ہی اسے اجازت مل گئی تھی ۔بلاشبہ یہ اس کی زندگی کا سب سے طویل انٹرویو تھا ۔
دائیں طرف بیٹھی خاتون ڈاکٹر سے ہاتھ ملا کر بقیہ دونوں حضرات کو خدا حافظ کہتی بیگ کندھے پر ڈال کر کمرے سے نکل گئی ۔
انٹرویو کے دوران خاتون نے بھی اور دوسرے ڈاکٹر صاحب نے بھی بات چیت کے ساتھ ساتھ فائل میں لگی اسکی سند کا بغور جائزہ لیا مگر وہ عجیب آدمی تھا اس نے نہ تو فائل کو ہاتھ لگایا نہ ہی پیشہ وارانہ سوال کیا حالانکہ وہ دونوں اس سے بہت سے سوالات کرتے رہے تھے ۔
کتنا عجیب سا تھا وہ بندہ ۔ بظاہر یوں لگ رہا تھا جیسے کہیں کھویا ہوا ہو لیکن ایسا تھا نہیں ۔گھر آنے کے بعد بھی کافی دیر تک وہ اس کے بارے میں سوچتی رہی۔
وہ پوری طرح وہاں موجود تھا اور میرے ہر انداز اور ہر ہر جملے کو تول رہا تھا ۔اندازہ لگا رہا تھا کہ میں کتنے پانی میں ہوں ۔مجھے اپنے پیشے سے متعلق کتنی معلومات ہیں۔ اسے کاغذوں پر لکھی ڈویثرن اور گریڈز میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ میرے اندر موجود ہر اچھائی ہر برائی ہر خوبی اور ہر خامی کو دیکھ رہا تھا، کھوج رہا تھا۔
کیسا رہا تمہارا انٹرویو؟
خالہ امی نے اس کی شکل دیکھتے ہی سوال کیا۔
بس، دعا کریں وہاں موجود ایک صاحب سے میں نے پوچھا تھا وہ بتا رہا تھا میرے علاوہ بھی تین لیڈی ڈاکٹرز انٹرویو دے چکی ہیں اور آج بھی میرے آنے کے بعد بھی دو اور ڈاکٹر کو انٹرویو کے لئے آنا تھا۔
وہ تھکے ہارے انداز میں کہتے ہوئے بستر پر گر گئی۔
خوامخواہ درد سر لے رہی ہو تم۔ اچھی بھلی تو چل رہی تھی یہاں تمہاری جاب چلو بھئی مانا کہ بہت عالیشان نہیں ہے لیکن نہ سے ہاں تو ہے پھر الله نے چاہا تو یہی پر اچھی جاب مل جائے گی۔
اسے اس لمحے خالہ امی پر بہت ترس آیا حالانکہ دل سے وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ اسے وہاں جاب مل جائے لیکن بے چاری مجبور تھیں۔
تقریبا پندرہ دن پہلے اس کی نظر اخبار میں دیے گئے اشتہار پر پڑی تھی ان دنوں وہ اسی ادھیڑبن میں مصروف تھی کہ ایسا کیا کرے کہ یہاں سے چلی جائے اور خالہ امی کا بھرم بھی رہ جائے ۔ایک سال پہلے جب وہ کراچی سے پشاور خالہ امی کے پاس آئی تھی تو اس نے سکھ کا سانس لیا تھا وہاں کے گھٹن اور اجنبی ماحول سے نکل کر یہاں کے اپنائیت بھرے ماحول میں اسے بہت اطمینان نصیب ہوا تھا ۔
خالو کو کچھ سال ہوئے تھے فوت ہوئے
خالہ امی کا گھرانہ ایک مڈل کلاس گھرانہ تھا دو بڑی بیٹیوں کی شادی وہ کر چکی تھیں اور اب گھر میں محسن بھائی اور شہلا کے بچے تھے اس نے ان کے گھر کو اپنا گھر سمجھ لیا تھا محسن بھائی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شہلا کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شرارتیں وہ پچھلی ہر بات بھول چکی تھی تھوڑی کوشش کے بعد اسے پرائیویٹ ہسپتال میں جاب بھی مل گئی تھی ۔خالہ امی کی محبت ایک جگہ مگر وہ ان پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی اسے اندازہ تھا کے محسن بھائی کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ ان پر اپنا بار بھی ڈال دے ۔خالہ امی شہلا کی شادی کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف رہتی تھی ایسے میں وہ اپنی وجہ سے ان لوگوں پر کوئی بوجھ ڈالنا ہر گز منظور نہیں تھا جاب مل جانے پر اس نے سکون کا سانس لیا.
زندگی بہت سکون سے گزر رہی تھی جب تک محسن بھائی کی شادی نہیں ہو گئی تھی ۔ان کی شادی ہوتے ہی زوبیہ کا سارا سکھ چین جاتا رہا۔ روبی بھابی کو شروع دن سے ہی پتہ نہیں اس سے کیا دشمنی ہو گئی تھی شروع میں تو وہ ان کے رویے کو سمجھ نہیں سکی۔مگر جب آگے پیچھے کئی مرتبہ طنزیہ جملے کسے تو وہ حیران رہ گئی ۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کس بات پر خار ہے۔ اپنی طرف سے اس نے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی کوشش کارآمد ثابت نہیں ہو سکی۔ شروع والے طنزیہ الفاظ براہ راست کاٹ دار گفتگو میں تبدیل ہو گئے ۔
یہاں تک تو اس نے برداشت کیا تھا وہ ان کی باتوں پر خاموشی اختیار کر کے جھگڑے کو طویل نہیں ہونے دیتی تھی ۔ یہی کہ وہ اکیلی کب تک لڑے گی آخر خود ہی ہمت ہار جائے گی ۔مگر اسکی خام خیالی جلد ہی غلط ثابت ہوئی ۔پہلے محسن بھائی بعد میں شہلا کو بھی انہوں نے اس انداز سے دل برگشتہ کیا اور وہ دیکھتی رہ گئی ۔ایک گھر میں رہتے ہوئے محسن بھائی سوائے سلام کے جواب کے اس سے کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ کتنا برا لگ رہا تھا ان کا رویہ اسے۔ وہ اسے نظرانداز کر کے خالہ امی سے پہلے کی طرح بات کرتے اسے یوں سمجھتے جیسے وہ موجود ہی نہیں۔
ابھی وہ محسن بھائی کے سلوک سے افسرده تھی کہ شہلا کو بھی اس نے بدگمان کردیا۔ وہ اس دن کلینک سے خلاف معمول جلدی آ گئی تھی لاؤنج میں بیٹھے بھابی اور شہلا نے اسے نہیں دیکھا تھا اندر داخل ہوتے ہی اپنا نام سن کر وہ ٹھٹک کر رہ گئی ۔
اس لڑکی کے ہوتے ہوئے تمہاری شادی کبھی نہیں ہو سکتی ۔سوچو ایسی کیا بات ہے کہ ایک بار آنے کے واپس پلٹی ہی نہیں امی بھی اسی وجہ سے سخت پریشان ہیں ابھی پرسوں جو رشتہ محسن کے دوست کے گھر سے آیا تھا پتہ ہے ان لوگوں نے کیا کہا ہے
وہ شہلا کے پاس بیٹھی ہمدردانہ انداز میں کہہ رہی تھی۔ وہ سر جھکائے ان کی باتیں سن رہی تھی..
اس لڑکے کی والدہ نے کہا ہے کہ آتے ہوئے جس لڑکی کو گیٹ پر دیکھا تھا اس کا رشتہ ہو جائے تو ہمیں بہت خوشی ہو گی۔ حالانکہ تم کوئی شکل کی بری نہیں ، نہ وہ کوئی حور پری ہے مگر ایسی لڑکیوں کو مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے سب گر آتے ہیں کچھ تو ادا دکھائی ہو گی جو گیٹ پر دیکھ کر ہی عاشق ہو گیا۔
وہ کھڑی سب سن رہی تھی۔ کانوں میں صرف دو الفاظ بار بار گونج رہے تھے "ایسی لڑکیاں" ااس کا دل چاہا وہ ان کا گربان پکڑ کر پوچھے کیسی لڑکیاں وہ کس قسم کی لڑکیوں کا ذکر کر رہی تھی ۔
اس رات وہ کتنے عرصے بعد اپنے رب سے شکوہ کناں ہوئی تھی۔
کب میری سزا معاف ہو گی ۔آخر کب؟ تو بہت غفور الرحیم ہے اگر بندہ سچے دل سے توبہ کرے تو تُو اس کے سب گناہ معاف کر دیتا ہے اور میں اتنے برس سے اپنے گناہ کی معافی مانگ رہی ہوں مجھ پر رحم فرما کیا میرا ماضی کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا جو میری زندگی کے شرمناک باب رد نہیں ہو سکتے آخر یہ ذلت کب تک سہنی پڑے گی؟
اپنے آنسو اپنے اندر چھپا کر وہ سب کاموں میں حصہ لے رہی تھی جو اس نے اس گھر کو اپنا ماننا شروع کر دیا تھا وہ کفایت ختم ہو گئی تھی شہلا برائے نام بات کرتی کوئی ضروری ہو تو۔ خالہ امی کا رویہ بس پہلے جیسا تھا۔ وہ لوگوں کے ساتھ میل جول میں خاصی روکھی مشہور تھی وہ رشتے والے کیا کوئی بھی مہمان آتا تو ڈرائینگ روم میں پھٹکتی بھی نہیں تھی ایسے میں اس پر الزام کہ شہلا کے رشتے۔۔۔۔ اسے سوچ کر بھی شرم آ رہی تھی ۔کتنا گھٹیا الزام لگایا تھا۔ اس کا بہت بار دل چاہا کہ شہلا کو سمجھائے۔
ق پیاری شہلا تم اداس اور نا امید مت ہو جب تمہارے نصیب کھلیں گے ہر رکاوٹ آپ ہی آپ دور ہو جائے گی اور ضروری نہیں آنے والے تمہیں نا پسند کر دیتے ہیں ہو سکتا ہے ابھی درست وقت نہیں آیا جو الله نے تمہاری شادی کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔
مگر وہ ایک دم اتنی دور ہو گئی تھی کہ چاہتے ہوئے بھی بات نہیں کر پا رہی تھی ۔ اس روز وہ کلینک سے واپس آ رہی تھی جب رشتے والوں نے اسے گیٹ پر دیکھا تھا اور سوائے رسمی سلام دعا کے بالکل بھی نہیں رکی تھی مگر بھابی نے جو نفرت کا بیج بویا وہ پھیل رہا تھا۔ وہ چپ چاپ سب دیکھ رہی تھی مگر کسی انتہائی فیصلے کا اس نے نہیں سوچا جب تک بھائی محسن کی طرف سے انتہائی گھٹیا الزام نہیں لگایا گیا ۔ اس دن بس اتنا ہوا تھا تیز بارش میں اسے گھر آنا مشکل لگ رہا تھا اس نے محسن بھائی کو فون کر کے کہا تھا کہ واپسی میں اسے پک کر لیں۔ اسے اور محسن بھائی کو ایک ساتھ آتا دیکھ کر بھابی نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ان کے کمرے سے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھی وہ باآسانی سن پا رہی تھی۔
شرم آنی چاہیے تمہیں ایسا الزام لگاتے ہوئے۔
وہ بھابھی سے بھی اونچا بول رہے تھے۔
شرم آپ کو آنی چاہئیے جو گھر میں پاکباز حیادار بیوی کے ہوتے ہوئے بدچلن کے ساتھ گلچھڑے اڑا رہے ہو۔
وہ ساری رات اس ذلت میں بے آواز روتی رہی۔اسے کیا کرنا تھا وہ بالکل نہیں جانتی تھی مگر یہ طے تھا کہ اب یہاں نہیں رہنا۔ اگلے دن خالہ امی اسے خود سے نظریں چراتی اسے مزید شرمندہ کر گئی ۔ وہ سارا دن سوچتی رہی، کبھی ہاسٹل رہنے کا ، کبھی سوچتی کہیں گیسٹ کے طور پر رہنے لگے۔ کوئی بات اسے دل میں بیٹھ نہیں رہی تھی ۔اس شہر میں رہ کر ہاسٹل میں رہنا بہت مشکل تھا۔خالہ امی کو اپنے ملنے ملانے والوں کے سامنے کتنی شرمندگی ہوتی ہو گی۔
زوبیہ تو اب میرے ہی گھر سے رخصت ہو گئی ۔ماہ طلعت کی بیٹی ہے اس کے احسانات مرتے دم تک نہیں اتار سکتی اور اب اسی پیاری ماہ طلعت کی لاڈلی بیٹی ہاسٹل میں رہتی تو لوگ دس طرح کی باتیں کرتے۔
وہ جتنا سوچ رہی تھی دماغ اتنا الجھ رہا تھا مگر اسی روز رات اخبار دیکھتے ہوئے جب اس کی اشتہار پر نظر پڑی تو ایسا لگا جیسے اس کے مسٔلے کا حل نکل آیا۔اس نے اگلے ہی روز اپنی سی وی پوسٹ کر دی اور بے تابی سے جواب کا انتظار شروع کر دیا ۔اسے وہاں سے کال آنے کی کافی امید تھی ۔اس طرح کسی بستی دور میں لیڈی ڈاکٹر کا جانا بہت ہی مشکل تھا
وہاں سے انٹرویو کے لئے کال آئی تب اس نے خالہ امی کو اس کے بارے میں سب بتا دیا۔انہوں نے اوپرے دل سے ڈانٹا ڈپٹا مگر صاف لگ رہا تھا وہ اسکے چلے جانے میں خوش ہیں۔ شاید آج کل وہ خود بھی اس سے یہی کہنے والی تھی مگر کہہ نہیں پا رہی تھی ۔ کیسے کہہ دیتی واپس اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ وہ جس کی ماں نے اس پر بے شمار احسان کر رکھے تھے۔ اسے اپنے گھر سے جانے کا کیسے حکم سنا دیتی۔اسے خالہ امی پر بہت ترس آتا تھا۔ ایک طرف وہ اولاد کے ہاتھوں مجبور تھی، دوسری طرف احسان کا بوجھ۔ گھر کا ماحول ویسے بھی کشیدہ چل رہا تھا ۔نہ بھابھی ، نہ شہلا ، نہ ہی محسن بھائی اس سے بات کرتے۔ وہ مجرموں کی طرح رہ رہی تھی ۔ کئی بار خیال آیا کہ اگر وہاں سے کال نہیں آئی تو کیا ہو گا ؟
انٹرویو دینے کے پانچ دن بعد اس نے ڈاکٹر آصفہ علی کی کال ریسیو کی۔
آپ پہلی تاریخ سے جوائن کر سکتی ہیں ۔
وہ آواز سے پہچان گئی۔ انٹرویو کے وقت ڈاکٹر آصفہ وہی تھیں۔ جلدی سے سب تیاری کر کے وہ جانے کے لیے تیار ہو گئی ۔ایک اور دربدری ایک اور جلا وطنی۔
ویک اینڈ پر ضرور آیا کرنا۔
اسے ائیرپورٹ چھوڑنے محسن بھائی آئے تھے ۔ اس کے اس طرح جانے سے وہ بہت شرمندہ نظر آ رہے تھے۔ ان کا شرمسار لہجہ رویہ اسے بھی شرمندہ کر رہا تھا ۔رخصت ہوتے ہوئے جب اس نے بھابھی کو سلام کیا۔ وہ بنا جواب دیے اپنے کمرے میں گھس گئی۔ شہلا البتہ اسے خالہ امی کے ساتھ گیٹ تک چھوڑنے آئی۔وہ رسماً بولی۔
چھیٹوں میں ضرور آنا۔
اس نے بھی رسماً ہامی بھر لی۔
جہاز میں اردگرد لاتعلق بیٹھے اسے برسوں پہلے پڑھی نظم یاد آنے لگی۔
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
وہ سب سوچوں کو جھٹک کر ذہن کو پرسکون رکھنا چاہتی تھی ۔ ہر فکر سے آزاد ہو کر اس سر زمین میں کھو گئی جو قدرتی حسن سے مالا مال تھی.
گاڑی اس پر شکوہ عمارت کے سامنے رکی تو وہ ہر سوچ سے آزاد ہو کر اس قدیم و جدید عمارت کو بےخود دیکھ رہی تھی اس کا انٹرویو پشاور میں ہی ہوا تھا ۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ ان لوگوں نے پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال کا انتخاب کیا۔ یہاں آنے سے پہلے اس نے ذہن میں جو ہسپتال کا خاکہ بنایا تھا وہ اس سے کئی گنا حسین اور دل کش تھا۔
اندر داخل ہونے پر ڈاکٹر آصفہ نے گلے لگا کر گرم جوشی سے استقبال کیا ۔
ویلکم ڈاکٹر زوبیہ!
وہ پچاس ساٹھ کے بیچ ہوں گی۔ کالے رنگ کا سوٹ، اسکے اوپر بڑی سی شال، ہلکی پھلکی جیولری میں وہ بہت گریس فل لگ رہی تھی ۔ انٹرویو والے دن کے سردسپاٹ تاثرات کی جگہ آج خوشگوار مسکراہٹ نے لی ہوئی تھی ۔
سفر میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟
ڈرائیور سہی وقت پر پہنچا کہ نہیں؟
وہ اپنائیت سے ساتھ لے کر چل رہی تھی۔ ساتھ سوال و جواب کا سلسہ جاری تھا ۔ ان کی باتوں کے جواب کے ساتھ وہ گردو پیش کا جائزہ بھی لے رہی تھی ۔اس سے بات کرتی ہوئی ڈاکٹر آصفہ ایک کمرے میں داخل ہوئی ڈاکٹر شہزور علی نے کھڑے ہو کر استقبال کیا ۔
سفر میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟
ان کے لہجے میں بزرگانہ شفقت تھی ۔وہ ان لوگوں کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئی۔ ڈرائیور سے لے کر اب تک سب کا رویہ بہت پرخلوص تھا اور مہمان نواز بھی۔ ایسا لگ رہا تھا وہ ملازمت کے لئے نہیں دعوت پر آئی ہو۔اس سے بات کرتے وقت تھوڑی تھوڑی دیر میں ڈاکٹر آصفہ کو چھیڑ رہے تھے۔
یہ خاتون اصل میں میری بیگم بھی ہیں۔
وہ حیرت سے مسکرا دی تو وہ بھی مسکرانے لگے ۔
اسفند یار کو ہیلتھ منسٹری میں کچھ کام تھا اس لیے وہ اسلام آباد گیا ہوا تھا ۔شاید کل تک آ جائے۔ اب آپ کو پتہ ہی ہے کسی بھی ادارے کالج سرکاری پرائیویٹ ہو یونیورسٹی جب تک اسلام آباد سے تعلقات سہی نہیں رکھے جائیں ادارے چل نہیں سکتے۔
کافی کا سپ لیتے ہوئے انہوں نے کہا۔
ڈاکٹر اسفند یار کو جانتی ہو؟ وہ اس دن انٹرویو کے وقت موجود تھے۔
اس کے ذکر کے ساتھ ہی اسے اس بندے کا پراسرار سا انداز بھی یاد آ گیا۔
اسفند یار ہی اس ہسپتال کا مالک ہے۔ چھ سال پہلے اسفند ، میں اور شہزور ہم تینوں نے اس ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی ۔ شروع میں ہمارے پاس سہولت کم تھی۔ ڈاکٹر اور دیگر اسٹاف بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہم محنت تو کرتے تھے مگر اتنے پر امید نہیں تھے کہ ہمارے مقصد کی کامیابی بھی ہو جائے گی مگر اسفندیار انتھک محنت پر یقین رکھتا تھا، بہت مشکل پسند ہے وہ۔ ہم تھکنے لگتے ، ہارنے لگتے وہ اپنے ارادوں میں مضبوط تھا۔ اب دیکھ لو اتنے سالوں میں ہمارا ہسپتال ترقی کر چکا ہے۔ ایکسرے، الٹراساونڈ دیگر بے شمار ٹیسٹ وغیرہ اب ہم سب اپنے ہاں ہی کر لیتے ہیں۔ یہاں آپریشن تھیٹر بھی تین سال سے شروع ہو چکا ہے۔ پہلے مریضوں کو معمولی ٹیسٹ کے لیے شہر جانا پڑتا تھا۔ اب الله کا شکر ہے۔ یہاں سب سہولتیں موجود ہیں۔ ڈاکٹر آصفہ کے چہرے پر خوشی کے رنگ نظر آ رہے تھے۔
آپ لوگ یہی کے رہنے والے ہیں؟
ان دونوں کے سرخ سفید رنگت سے اس نے یہی اندازہ لگایا تو پوچھ بیٹھی۔ انگلش دونوں بالکل درست تلفظ میں بول رہے تھے مگر اردو صاف نہیں تھی۔
ہاں میری پیدائش یہی کی ہے۔ آصفہ البتہ ایبٹ آباد کی رہنے والی ہیں۔ میرے بچپن میں ہی ہماری فیملی امریکہ سیٹل ہو گئی تھی۔ تعلیم مکمل ہوئی پھر وہیں آصفہ سے ملاقات ہوئی اور پھر شادی بھی ہو گئی ۔ یہاں کوئی تھا ہی نہیں جس کے لیے واپس آتے ۔ ساری زندگی امریکہ میں بیتا دی۔ شادی کے بعد بھی ہم پڑھتے رہے۔خوب ڈگریاں لیں۔ بہت علم حاصل کیا۔ بہت دولت کمائی۔ کبھی بھولے سے بھی وطن کو یاد نہیں کیا۔
میں فلوریڈا یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔ اسفند یار میرا اسٹوڈنٹ بہت اچھا اور بہت جئنیس اسٹوڈنٹ تھا اور ساتھ میرا ہم وطن بھی۔ اسی حوالے سے ہماری اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی۔ اس نے وہاں پوسٹ گریجویشن کیا، وہ بھی اعزازی نمبروں کے ساتھ۔ وہ جتنا قابل اور اچھا سرجن تھا ، اسی حساب سے اسے بہت جگہوں سے جاب آفر ہوئی مگر اس نے کسی آفر کو قبول نہیں کیا اس وقت مجھے لگا اسفندیار پاگل ہے۔اسے اپنے فیوچر کیریئر کسی کی دلچسپی نہیں۔ میرے سمجھانے پر دوٹوک انداز میں بولا۔
میں یہاں غیروں کو زندگی کی نوید سناؤں جبکہ ان کے پاس بہترین معالج کی کمی نہیں اور وہاں میرے چھوٹے سے گاؤں میں وقت پر علاج نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سسک سسک کر مر رہے ہیں ۔سوری سر ایسی دنیا، دولت مجھے نہیں کمانی۔ یہاں کیریئر ہو گا، پیسہ ہو گا، نام ہو گا ، جو میرے اندر رہتا ہے شخص وہ مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
تب میں پہلی بار چونکہ تھا۔ کتنا مختلف تھا وہ کم سن لڑکا۔ اس روز مجھے پچھتاؤں نے گھیرا۔ وہ ینگ تھا۔ وہاں کی بھاگتی دوڑتی زندگی کتنی ساری کشش وہ سب کو ٹھکرا کر واپس وطن آگیا اور میں ساری زندگی غیروں کی دل جوئی میں لگا رہا۔
وہ بہت سنجیدگی سے بول رہے تھے۔ اسفندیار کا ذکر کرتے ان کے لہجے میں بے پناہ شفقت تھی جو اس نے محسوس کی۔
جب اسفندیار پاکستان لوٹ رہا تھا تب ہم سوچ چکے تھے یہاں کہ ہسپتال کا۔ خواب اسفندیار نے دیکھا تھا۔ ان دونوں میاں بیوی نے وعدہ کیا تھا اس کی تعبیر میں وہ اس کا مکمل ساتھ دیں گے۔ چھ سال پہلے اسفند نے اس ہسپتال کی عمارت تعمیر کی نوید دی۔ یہاں آنے کی دعوت دی۔ ہم لوگوں نے فورا رخت سفر باندھ لیا۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کر چکے تھے۔ اب کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ وہاں سب کچھ چھوڑ کر بقیہ تمام عمر یہی بتانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس پر دونوں بہت مطمئن تھے۔
لمبے چوڑے مضبوط قد والے ڈاکٹر شہزور اسے بہت اچھے لگے تھے۔ ان کے چہرے پر داڑھی، نماز کے نشان، ان کی شخیصت، ایک نورانی تاثرات پیدا کرتے۔
آئیے میں آپ کو باقی اسٹاف سے تعارف کروا دوں ۔کافی پی کر فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر آصفہ نے بتایا۔
یہاں لیڈی اسٹاف بہت کم ہے اور سب سے متعارف بھی کروایا ۔یہاں عورتوں کا کام کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے ۔کہیں دور سے عورتیں آکر کام کریں یہ بھی بہت مشکل کام ہے ۔یہاں خاتون ڈاکٹر میرے علاوہ کوئی نہیں تھی اور پردے کی اتنی پابند ہیں عورتیں مرد ڈاکٹر سے علاج نہیں کرواتیں۔
آپ کو اپائنٹ کرنے کی ضرورت اسی لیے پیش آئی۔ میں اکیلی لیڈی ڈاکٹر دن رات کام آرام کا ٹائم نہیں ملتا۔ اسفند نے کہا ہم لیڈی ڈاکٹر کو اپائنٹ کر لیتے ہیں تاکہ آپ پر برڈن کم ہو سکے۔
وہاں دو ڈاکٹر اور بھی تھے جن میں ایک کو مل چکی تھی۔ ڈاکٹر شہاب سوات کے رہنے والے تھے۔ فیملی ان کی منگوہ میں رہتی تھی۔ دوسرے ڈاکٹر تاجدار خان جن سے ابھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ سب نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔
صبع وہ اذان کے ٹائم اٹھ گئی تھی۔ نماز کے بعد بہت دیر تک دعا مانگتی رہی۔ آج اس کی جاب کا پہلا دن تھا۔ اپنے رب سے بہتری کی دعا مانگ رہی تھی۔ناشتہ کر کے تیار ہو کر ہسپتال آگئی۔ سر پر دوپٹہ اسکارف یا چادر کچھ نا کچھ ضرور لیتی تھی۔
اسی لیے اسے یہاں کے ماحول سے گھٹن نہیں ہوئی کوریڈر میں اس کی ملاقات شہزور سے ہو گئی تھی ۔
کیسی ہیں آپ؟
ہسپتال میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟
اپناکمرہ پسند آیا؟
اور کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟
اس کے سلام کے جواب کے بعد انہوں نے یکے دیگر کئی سوال کر ڈالے۔
انہوں نے کچھ اور کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا سامنے سے آتے اسفندیار کو دیکھ کر چپ ہو گئے۔ وہ تیز قدم کے ساتھ اسی طرف آ رہا تھا۔ وہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ان کا انتظار کر رہی تھی۔
السلام عیلکم!
شہزور نے سلام کرتے ہوئے اس نے اس سے ہاتھ بھی ملایا۔
اسے ایسا لگا اس نے اسے پہچانا ہی نہیں ہے۔ اس لئے سر سری نظروں سے بھی اسے نہیں دیکھا تھا ۔
السلام علیکم!
اس نے خود ہی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ وہ ڈاکٹر شہزور کی باتوں میں مصروف تھا اچانک سلام پر چونکا۔
وعلیکم السلام!
بڑا مختصر سا جواب دیا بس، ایک نظر اسے دیکھا پھر گفتگو کا سلسلہ وہی سے جاری کر لیا۔وہ دونوں باتوں میں مصروف تھے اس کے چلے جانے کو شاید وہاں محسوس بھی نہیں کیا گیا ہو۔ وہ اسلام آباد کے بارے میں آگاہی کر رہے تھے۔ باقی سب بہت اخلاق والے مگر جس کا اس ملازمت وہ بد اخلاق۔ گزارہ کافی مشکل ہے۔ ڈاکٹر آصفہ کے آجانے تک بہت سوچتی رہی۔
ڈاکٹرآصفہ آ گئیں۔ سلام دعا کے فوراً بعد مریضوں کے نفسیات کے بارے میں سمجھایا ۔
آپ کو اسفندیار بلا رہے ہیں۔
ریسیور واپس رکھتے ہوئے انہوں نے اس سے کہا۔
مرد شادی سے پہلے محبت محبت کرتا ہے اور شادی کےبعد بدل جاتا ہے کیوں؟ اسکی ایک وجہ فطرت ہے..
عورت کو ہمیشہ مرد سے ضرورت سے زیادہ محبت کی خواہش ہوتی ہے جبکہ اسکے برعکس مرد کو اگر عورت سے بے پناہ ضرورت سے زیادہ محبت مل جائے تو وہ فطرتاً اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر ایک ہی وقت میں اسکا پیٹ محبت سے بھر دیا جائے تو اسے دوبارہ محبت کی بھوک نہیں لگتی۔ اسے قطرہ قطرہ محبت دی جائے تو وہ خوش رہتا ہے۔
دوسری اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جب عورت شادی سے پہلے ہی مرد کا خیال بیوی کی طرح رکھے گی اور ایسی کوئی بات چھوڑے گی ہی نہیں جو شادی کے بعد آپس میں شیئر کی جاسکے تو یہ جوڑا شادی کے بعد ایک دوسرے سے بیزار ہی ہوگا۔ شادی سے پہلے آپ منگیتر ہوں یا محبوبہ ہوں۔ بیوی بننے کی کوشش نہ کریں۔ جب ایک دوسرے کو شادی سے پہلے ہی جان لیں گے تو بعد میں جاننے کے لیے گفتگو کے لیے کچھ رہے گا ہی نہیں.۔
یہاں وہ تنہا نہیں، پیچھے کوئی ہے جو اس کے لیے دعا کرے گا۔ وہ اولاد کے ہاتھوں مجبور ہو گئی ہوگی۔
وہ ایک دم ہلکی پھلکی اور بہت خوش تھی ڈاکٹر آصفہ کو بہت فخر سے بتایا کہ میری خالہ امی کا فون تھا ایسا کر کے اس کی انا کو کتنی تسکین ملی تھی کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ لاوارث ہے اس کا کوئی گھر نہیں اس کے دل سے منوں بوجھ ہٹ گیا تھا۔
_______________
اسے جوائن کیے ایک مہینہ ہونے والا تھا۔ کسی حد تک اس نے خود کو اس ماحول میں ایڈجسٹ کر لیا تھا۔ اب تو لیٹتے ہی اسے نیند آ جاتی۔ بہت بے معنی سوچوں سے اس کا پیچھا چھوٹ گیا تھا۔
اس روز اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی۔ ڈاکٹر شہاب اور ڈاکٹر تاجدار کی ایک نائٹ ڈیوٹی لگا کرتی تھی۔ آج اس کو ڈاکٹر شہاب کے ساتھ نائٹ ڈیوٹی پر ہونا تھا مگر رات جب اس کے گھر اس کے والد کی بیماری کی اطلاع آئی تو وہ ڈاکٹر شہزور سے اجازت لے کر فوراً روانہ ہو گئے ۔وہ سسٹر رضیہ اور باقی جونیئر نرس کے ساتھ تھی رات کو مشکل کیس نہیں آتے تھے۔ وہ سب جگہ راؤنڈ لگا کر بچوں کے وارڈ میں آ گئی۔
کیا ہوا سسٹر آپ کو؟
سسٹر رضیہ کو سر پکڑے بیٹھا دیکھ کر پوچھا۔ا
کچھ نہیں بس وہی سر درد۔ اسے پتہ تھا وہ مگرین کی پرانی مریضہ ہیں۔
ایسا کریں آپ جا کر آرام کریں۔ میں یہاں ہی ہوں۔ ویسے بھی صبح ہونے میں کچھ دیر ہے۔
اس نے گھڑی دیکھ کر کہا جو چار بجا رہی تھی۔ وہ جانے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی
آپ اکیلی ہو جائیں گی ڈاکٹر شہاب بھی نہیں ہیں۔ڈاکٹرز کے بعد سب سے زیادہ وہی تجربہ کار تھی۔ اس سے پہلے بھی بڑے بڑے ہسپتالوں میں اس کا وسیع تجربہ تھا۔ تھی نرس مگر فلحال زوبیہ سے زیادہ تجربہ رکھتی تھی۔
آپ بے فکر ہو کر جائیں کوئی پرابلم نہیں ہو گی۔
انہیں اطمینان دلا کر رخصت کر کے وہ سکون سے بیٹھی بھی نہیں کہ نرس بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
ڈاکٹر جلدی آئیں ایک پیشنٹ آئی ہے۔ کافی سیریس حالت لگ رہی ہے۔
وہ اسٹیھتسکوپ اٹھا کر اس کے ساتھ بھاگی۔ مریضہ کی حالت بہت خراب تھی۔ فوراً اسٹریچر پہ ڈال کر اس کے خون کی طرف متوجہ ہوئی۔تھوڑی کوشش کے بعد خون بہنا رک گیا مگر مریضہ کو ہوش نہیں آ رہا تھا ۔اس نے اپنے سارے جتن کر لیے مگر اسے ہوش نہیں آیا تو پہلی بار اس شخص کی طرف متوجہ ہوئی جو اسے لے کر آیا تھا ۔
کیا ہوا تھا اسے؟
سیڑھوں سے گر گئی تھی۔
وہ گڑبڑا کے بولا۔ اس کے پاس اس وقت انکوائری کا ٹائم نہیں تھا، نہ اس لڑکی کی ہارٹ بیٹ نارمل تھی نہ ہی ہوش آ رہا تھا۔اس نے فوراً فون کر کے تاجدار ڈاکٹر یا رضیہ کو بلوانے کا سوچا۔ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اسفندیار سسٹر کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔وہ اکثر رات کو چل لگا کرتا تھا بقول ڈاکٹر شہاب کے چھاپہ مارا کرتا تھا۔ یقیناً سسٹر نے انہیں ایمرجنسی کیس کا بتایا ہو گا۔وہ تیزی سے مریضہ کے پاس پہنچا جلدی جلدی معائنہ کر رہا تھا، ساتھ پوچھ رہا تھا ۔اب تک کیا کر چکے ٹریٹمنٹ۔
اکیلے کسی ایمرجنسی سے نبٹنے سے اسے پسینہ آگیا تھا۔ کسی سینئر کے ساتھ اور اکیلے سنبھالنا کتنا مشکل ہے۔ اسے پہلی بار اندازہ ہوا اور اپنی کمزوری کا بھی پتہ چلا اسے۔ وہ لڑکی اچانک شاک میں چلی گئی تھی، یقیناََ زوبیہ خاموشی سے اسفند کو ٹریمنٹ کرتے دیکھ رہی تھی۔
کافی کوشش کے بعد لڑکی کو ہوش آیا۔ہوش میں آتے ہی تکلیف سے کراہنے لگی۔ خون سر سے بہہ رہا تھا مگر وہ اپنے پیٹ کمر کو پکڑ کر رو رہی تھی۔ اس کے جسم پر نیل پڑے ہوئے تھے۔ آنکھ بھی سوجی ہوئی تھی۔ کچھ دیر میں دواؤں کے اثر سے غفلا ہوئی تو وہ کمرے سے نکل گیا ۔
آپ ذرا میرے روم آئیں۔
زوبیہ اس کے پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں آگئی۔
ڈاکٹر شہاب کہاں ہیں؟
کافی سخت لہجے میں پوچھا۔
ان کے گھر سے فون آیا تھا ان کے والد کی حالت ٹھیک نہیں تھا، ڈاکٹر شہزور سے چھٹی لے گئے۔
وہ نروس ہو کر بولی۔
اور سسٹر رضیہ؟
سر ان کو مگرین کی تکلیف ہو گئی تھی میں نے انہیں آرام کا کہا تھا۔
وہ دل میں سوچ رہی تھی ایسا نہ ہو راضیہ بےچاری کو تھوڑے آرام کے لیے بہت سننا پڑے۔
آپ کو یہ اتھارٹی کس نے دی کے آپ کسی کو چھٹی دیں۔
بہت گہرا کاٹ دار طنزیہ لہجہ تھا۔
آپ کو پتہ ہے نا ابھی آپ جونئیر ہیں۔کسی ایمرجنسی کو اکیلے ہینڈل نہیں کر سکتی مگر پھر بھی آپ نے رسک لیا۔ آپ کی ناتجربہ کاری سے کوئی جان سے جا سکتا تھا۔ آپ کی انسانی ہمدردی ہو گئی تھی۔ ہسپتال کا ریپوٹیشن خراب ہو جاتا۔
ان کی آواز تیز ہو گئی تھی۔ وہ سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑی تھی وہ گہری سانس لے کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے