وہ یقین کا ایک نیا سفر ۔ حصہ دوم

 

یہ آپکی پہلی غلطی ہے اس لئے اگنور کر رہا ہوں مگر نیکسٹ ٹائم میں معاف نہیں کروں گا۔ کوئی ایمرجنسی ہے۔کوئی پرابلم ہے۔ مجھے کسی وقت بھی بتایا جا سکتا ہے۔ کوئی اور میسر نہیں تو میں آ سکتا ہوں۔
آئی ایم سوری!
اس نے بری نیت سے کچھ نہیں کیا تھا مگر غلطی تو ہوئی تھی ۔
اب آپ جا سکتی ہیں۔
دراز کھول کر کچھڈھونڈتے ہوئے کہا ۔
اور ہاں ایک اور بات وہ دروازے سے نکلنے والی تھی پیچھے سے آواز پر رکی۔
ایک ڈاکٹر اور عام آدمی میں اتنا فرق تو ہونا چاہیے کہ خون دیکھ کر گھبرا جائے پھر وہ ڈاکٹر کیا ڈاکٹر ہوا۔
وہ اسی مصروف انداز میں بول رہا تھا وہ سن کر چپ سر جھکائے کمرے سے نکل آئی تھی ۔اس نے جو کیا وہ غلط نہیں تھا۔ اسے بھی بہت رونا آ رہا تھا ۔وہ نالائق ثابت ہوئی تھی۔ خود پر شرمندہ تھی۔
___________
اگلے روز سسٹر رضیہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے ڈرتے ہوئے ان کے چہرے کو دیکھا مگر وہاں کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں تھا۔
رات آپ نے مجھے بھیج دیا۔پیچھے ایمرجنسی ہو گئی، بلا لیتی۔
انہوں نے خود ذکر کیا تو وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔آپ کو کچھ کہا ڈاکٹر اسفندیار نے؟
وہ مسکرائی۔ کافی کچھ کہا مگر غلط نہیں کہا۔آپ نیو تھی میں منہ اٹھا کر چلی گئی۔ میرا کام تھا ڈاکٹر اسفندیار کو خبر کرتی۔
وہ ڈانٹ کھا کر بھی سکون میں تھی۔ وہ حیران تھی شاید یہ لوگ ڈانٹ کھا کھا کر عادی ہو گئے۔ جس کی وجہ سے دونوں نے ڈانٹ کھائی اس کی حالت اب کافی بہتر تھی۔
کیا ہوا تھا تمارے ساتھ؟
گر گئی تھی۔
وہ مختصر بولی۔
مگر مجھے یہ سیڑھیوں سے گرنے کی چوٹ نہیں لگ رہی۔ تمہارے جسم پر نیل کیسے پڑے۔
کہہ تو رہی ہوں گر گئی تھی۔
وہ چڑچڑے انداز میں بولی۔مگر لہجہ شکستہ تھا۔
دیکھو مجھے صحیح صحیح بتاؤ۔مجھے ایسا لگ رہا ہے کسی نے تشدد کیا ہے؟ کیا کسی نے مارا تھا؟ وہ جو ساتھ تھا کون تھا؟ تمہارا باپ تھا؟
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دوستانہ انداز میں کئی سوال کر ڈالے۔
وہ میرا شوہر تھا۔
وہ تلخ لہجے میں بولی۔وہ سکتے کی حالت منہ کھولے اسے دیکھتی رہ گئی۔
شوہر۔۔۔۔؟ وہ تو پندرہ سولہ کی تھی، وہ پچاس سے اوپر کا تھا۔
ہاں شوہر بہت شوق ہو رہا آپ کو سننے کا تو سب سنا دوں۔ کل میرے شوہر اور ساس دونوں نے مل کر مارا تھا۔وجہ یہ تھی نماز پڑھنے لگ گئی ساس کو ٹائم سے کھانا نہیں ملا۔ دعا مانگتے ہوئے شوہر نے بال سے گھسیٹے ہوئے ماں کے پاس لے گیا پھر دونوں نے مارا۔ مار تو میں روز کھاتی ہوں کبھی غلطی تو کبھی بے قصور۔ سر میرا سیڑھیوں سے گر کر نہیں پھٹا ساس نے سر پر قینچی ماری تھی۔شوہر نے پیٹ کمر پر لاتیں ماری تھی ۔پھر مار کھاتے بے ہوش ہو گئی۔مجھے نہیں پتہ ہوش آیا تو یہاں تھی۔اسے لگا ہو گا مر جاؤں گی تو یہاں لے آیا۔
وہ آنکھ ٹپکائے اتنے سکون سے بتا رہی تھی جیسے کسی اور کی کہانی ہے۔ وہ بری طرح کانپ گئی۔
اتنی سی بچی اتنے ظلم۔جس کی عمر کھیلنے کودنے کی ہے۔
تمہارے ماں باپ کچھ نہیں کہتے داماد کو ؟ کافی دیر بعد وہ خود کو بولنے پر امادہ کر پائی۔
وہ کیا کہیں گے ان کا قرض چڑھا ہوا ہے بہادر خان کا۔دس ہزار تھا مر کر بھی نہیں چکا سکتے تو مجھے پیش کر دیا بہادر خان کو۔
اس کی آنکھوں کا درد دیکھ کر اس کا دل بھر آیا وہ آخر زارو قطار رو پڑی اور سب سنا دیا اس کو بہت غصہ آ رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا ان ظالموں کا سر کچل دے۔
______________
پرسوں رات جو لڑکی ایڈمٹ ہوئی تھی اس کا کیا حال ہے۔
اس کے پوچھنے پر زوبیہ نے اطمینان محسوس کیا۔
کل جب سے وہ اس سے مل کر آئی تھی اسفندیار سے بات نہیں ہوئی تھی۔ان کو بتانا چاہ رہی تھی سارے زمانے پر رعب رکھتے ہیں ذرا اس کے شوہر کی کھنچائی تو کریں۔
پہلے سے بہت بہتر کافی ریکور کیا اس نے۔
ویری گڈ۔
وہ ریسیور اٹھا کر جواباً بولا تو وہ فوراً بول پڑی۔ مجھے آپ سے اس کے بارے میں ایک بات کرنی تھی۔نمبر ملاتے اس کے ہاتھ بے ساختہ رک گئے۔
کیجیے۔
ریسیور واپس رکھ کر پوری طرح متوجہ ہو گیا ۔
پرسوں جو آدمی اسے لایا تھا وہ اس کا شوہر تھا۔آپ کو معلوم ہے وہ مکار آدمی جھوٹ بول رہا تھا کہ سیڑھوں سے گری۔اصل بات یہ ہے کہ اس کی ماں اور اس نے مل کر اس بے چاری کو مارا ہے۔ آپ نے نوٹ کیا اس کی آنکھ کیسے سوجی ہوئی تھی۔ جسم پر جگہ جگہ نیل پڑے تھے۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر روانی سے بولتی چلی گئی۔
وہ جو بہت سنجیدگی سے سن رہا تھا کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بولا۔
آپ یہ سب مجھے کیوں بتا رہی ہیں۔ یہ ان کا پرسنل معاملہ ہے۔اس سے ہمارا تعلق نہیں۔
تعلق کیسے نہیں ہے۔ ابھی ہم اس کا علاج کریں گے پھر یہاں سے نکل کر اسی جہنم میں جائے گی۔ پھر وہی ظلم ستم ایسے میں تو اس کو علاج کی بھی ضرورت نہیں ہے اچھا ہے وہ بغیر علاج کے مر جائے۔ کم سے کم روز کے ستم سے جان تو چھوٹ جائے گی۔
وہ پہلی بار بغیر نروس ہوئے اس سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی تھی۔ ویسے تو بہت لکچر دیا کرتا ہے۔
اس کا درد اپنے آپ میں محسوس کریں۔
آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں؟
وہ پرسکون انداز میں بولا۔
آپ اس کے شوہر کو بلا کر ذرا ڈانٹ ڈپٹ کریں۔ آپ کو پتہ ہے شوہر کی مار پیٹ کی وجہ سے اس کا دو بار ابارشن ہو چکا ہے۔
وہ جواباً سنجیدگی سے بولی۔
بات یہ ہے ڈاکٹر زوبیہ ہمارا کام ہے مریض کا علاج کرنا۔ مانتا ہوں یہ اسپتال میں نے خدمتِ خلق کے لئے بنایا ہے مگر حقوقِ نسواں بنانے کا کوئی پروگرام نہیں۔ اگر کسی کا شوہر اسے مارتا پیٹتا ہے تو اس کا گھریلو معاملہ ہے اس میں ٹانگ اڑانے کا آپ کو حق ہے نہ مجھے۔ آپ کو میرا یہی مشورہ ہے آپ اپنے پروفیشن پر توجہ دیں۔
اس کو جواب دے کر دوبارہ فون کی طرف لپکا۔ جلتے بھنتے وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
سب کتنی تعریف کرتے ہیں ڈاکٹر اسفندیار یہ سفاک ، بے رحم انسان ہیں نہیں کرتے تو میں خود کرو گی بات اس کے شوہر سے۔
رات کو وہ اس لڑکی حجستہ کے پاس آئی۔اس سے بھی یہی بات کی۔ وہ بہت ڈر گئی۔
آپ اس سے کچھ نہیں بولنا۔وہ مجھے اور مارے گا۔
ارے کیسے مارے گا؟ میں اس کا دماغ درست کر دوں گی تم ایسے ڈرا مت کرو۔ بوڑھا کھوسٹ تو ہے۔ وہ اب مار کے لیے ہاتھ اٹھائے ہاتھ پکڑ لینا۔ وہ جوشیلے انداز میں بول رہی تھی وہ روتے روتے ہنس پڑی۔
میں ایسا نہیں کر سکتی مگر لگتا ہے آپ اپنے شوہر سے کبھی نہیں ڈریں گی۔ وہ بے چارہ آپ سے ڈرے گا۔
وہ بے تکلفانہ انداز میں بات کرنے لگی۔اسکی بے تکلفی سے کی بات اسے ایک منٹ کے لئے سن کر گئی۔
کیا میری زندگی میں کسی شخص کی آمد ہو سکتی ہے۔ کوئی میرے لیے بھی الله نے بنایا ہو گا؟
اس نے اس کے شوہر کو کچھ زیادہ نہیں مگر دبے الفاظ میں بولا۔
یہ بہت کمزور ہے اس کا بہت زیادہ خیال رکھا کریں اتنی خوبصورت اور کم عمر بیوی ملی ہے اس کی قدر کریں۔
وہ اس کی تمام ہدایت سر جھکا کر سنتا رہا۔
_______________
اس نے اپنی پہلی تنخواہ ملنے پر خالہ امی کو پیسے بھی بھیجے تھے۔ایسا کر کے اسے بہت خوشی ہوئی۔ان کے گھر کے حالات اس سے پوشیدہ نہیں تھے۔ان پیسوں سے شہلا کے جہیز کے لیے کچھ نہ کچھ لے لیں گی۔اپنی محنت کی کمائی کسی اپنے پر خرچ کر کے اسے روحانی خوشی ہو رہی تھی۔
کافی دیر وہ بستر پر کروٹیں بدلتی رہی۔تنگ آ کر ہسپتال سے باہر نکل آئی۔اتنے دنوں میں پہلی بار باہر آئی تھی۔ اسے احساس ہوا کے کتنے ٹائم بعد کھلی فضا میں سانس لے رہی ہے۔
موسم انجوائے کرتے ہوئے وہ کافی آگے نکل آئی تھی۔
صائم ان پھولوں کے پاس میری ایک تصویر لو۔
ایک خوبصورت نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا۔اردگرد کوئی نظر نہیں آیا مگر آواز پاس سے آ رہی تھی۔اس نے آگے جھک کر دیکھا.ڈھلان کے نیچے ایک لڑکی لڑکا کھڑے تھے۔
اور کتنی تصویریں کھنچواؤ گی۔میں تھک گیا
لڑکا بے زاری سے بولا۔
تمہاری دوستوں کو یہاں کی فوٹو دیکھنے کا شوق ہے۔ میں تمہاری ماڈلنگ سے تنگ آ گیا ہوں۔اب درخت پر بندروں کی طرح لٹک کر رہ گئی ہے۔باقی پوز سب ہو گئے۔
اچھا تم رہنے دو میں گلِریز سے بنوا لوں گی۔ دو چار تصویریں کیا کھینچ لی، دماغ خراب ہو گیا ہے۔
وہ جواباً بولی۔ وہ جب سیدھی مڑی تو زوبیہ پر نظر پڑی زوبیہ دوستانہ مسکرا دی۔
ہیلو!!
وہ لڑکے کو چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس آ گئی۔
ہیلو!!
مسکرا کر اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ لڑکا تعجب سے دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔
میں کشمالہ ہوں اور آپ؟ بڑے مہذب انداز میں انگلش میں سوال کیا۔
میں زوبیہ خلیل ہوں۔
لڑکا بھی آ پہنچا۔
زوبیہ خلیل۔
وہ نام دوہراتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی۔
آپ کا نام سنا سنا لگ رہا ہے۔
ہاں شاید تم نے کسی سے سنا ہو۔ میں یہاں ہسپتال میں نئی اپائنٹ ہوئی ہوں۔
وہ مسکرا دی۔
اوہ اچھا تو آپ ہمارے علاقے کی نئی لیڈی ڈاکٹر ہیں۔
وہ خوش ہو کر بولی۔اس نے مسکرا کر گردن ہلا دی۔
ویلکم ڈاکٹر زوبیہ۔
بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔
بائی داوے میں صائم۔
لڑکا تھوڑا روکھے انداز میں بولا شاید اتنی دیر نظر انداز کرنا اسے برا لگا۔
ہاں یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ بے چارے کو جلنے کی پرانی بیماری ہے ۔وہ صائم کی طرف دیکھتے مسکرا کر بولی انداز سراسر چڑانے والا تھا۔
ہاں یہ موٹی میری بڑی بہن ہے۔
وہ کھلکھلا کر ہنسے لگی۔
اب تم لوگ لڑنا مت شروع کر دینا۔
کہاں پڑھتی ہو تم؟
میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں پڑھتی ہوں۔ فرسٹ ائیر میں ہوں۔
او ڈی ایم سی میں۔ زبردست میں نے بھی وہیں سے کیا۔
وہ اپنے تعلیمی ادارے کا نام سن کر خوش ہو گئی۔ صائم بھی ان کے پاس بیٹھ گیا ۔
آپ کراچی سے آئی ہیں۔
وہ حیران ہو کر پوچھ رہا تھا۔
نہیں آئی تو پشاور سے ہوں۔ پہلے کراچی میں رہتی تھی ۔میرے پرینٹس کی ڈیتھ ہو گئی ہے تو خالہ کے پاس پشاور رہتی ہوں۔
وہی رٹا رٹ جواب جو لوگوں کو دیا کرتی تھی۔
آپ کو پڑھائی کے لیے بھیجا ہو گا۔
فادر کی ڈیٹھ ہو گئی ہے۔بس امی ہیں لالہ ہیں بی بی جان ہیں۔ان تینوں کو ہمیں پڑھانے لکھانے کا بہت شوق ہے۔
کشمالہ سنجیدگی سے بولی۔
چیونگم کھائیں گی آپ؟
دونوں کو افسردہ دیکھ کر سائم نے معاملہ سنبھالنا چاہا۔کشمالہ شاید اپنے بابا کو بہت مس کرتی تھی ۔
دونوں بہن بھائی زندہ دل ہنس مکھ تھے ۔ زوبیہ کو بہت دن بعد مختلف کمپنی ملی۔اس لیے اسے مزہ آ رہا تھا ۔دو ڈھائی گھنٹے گزار دیے ان کے ساتھ ۔کیسے گزر گئے پتہ نہیں چلا۔
ان سے رخصت ہو کر واپس ہسپتال آئی دیر تک ان بہن بھائی کی شرارتیں سوچ کر انجوائے کرتی رہی۔
________________
اگلے روز ڈاکٹر شہزور کے ساتھ بچوں کی وارڈ کا راؤنڈ لگا کر واپس آ رہی تھی۔جب اسے اطلاع ملی کہ اس سے ملنے کوئی آیا ہے۔
کون آگیا؟
وہ حیران پریشان اپنے کمرے کی طرف آئی۔ڈاکٹر شہزور اپنے روم چلے گئے ۔
ارے تم لوگ؟ سائم اور کشمالہ کو دیکھ کر خوش تو ہوئی مگر ڈاکٹر اسفندیار کا خوف بھی لاحق تھا ۔
لگتا ہے آپ ہمیں دیکھ کر خوش نہیں ہوئی۔
کشمالہ نے اس کے تاثرات کا جائزہ لیتے شکوہ کیا۔
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔تم لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی ہوں مسٔلہ یہ ہے ہسپتال میں ڈسپلن کچھ ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ڈیوٹی ٹائم میل جول پر سخت پابندی ہے۔
اف اتنی سختی!!
ارے یہ تو کچھ بھی نہیں تم ایک دن یہاں گزار کر دیکھو ساری سختیاں بھول نہ جاؤ تو میرا نام زوبیہ نہیں…
وہ مزے سے بولی۔
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔آپ کسی سے مل بھی نہیں سکتی ۔آپ لوگ ایڈمسنیشن کے خلاف پروٹسٹ کیوں نہیں کرتے۔
کشمالہ نے اسے اکسایا۔
بچوں ابھی آپ لوگوں نے ہمارے بگ باس کو نہیں دیکھا اس لیے بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہے ہو۔ ہٹلر کو جانتے ہو؟ دونوں نے گردن ہلادی۔
بس اس سے جا کر سلسلہ نصب ملتا ہے۔ڈاکٹر اسفندیار۔
اس نے ڈرانے والے انداز میں بتایا کشمالہ ہنس پڑی۔
اتنے خطرناک آدمی ہیں؟
صرف خطرناک نہیں۔وحشت ناک، دہشت ناک، بہت کچھ بس سمجھ لو جو بھی ناک ہیں سب وہی ہیں۔اسی لئے تم اب چلتے نظر آؤ۔ دو گھنٹے بعد میری ڈیوٹی آف ہو گی۔اگر تم لوگ فارغ ہو تو کل والی جگہ ملتے ہیں۔
یہاں آنے کے بعد کسی کو اسفندیار کے بارے میں کمنٹس دیے تھے اور اپنی باتوں کو انجوائے بھی کیا۔ان دونوں سے مل کر بچکانہ باتیں کر کے اچھا لگ رہا تھا۔دو گھنٹے بعد دونوں سے ملنے کے اتفاق کرتے مسکرا کر اٹھ گئے۔
آپ کو اسفند یار سے کوئی پرابلم ہے؟
اس نے چونک کر نفی میں نہیں سر ہلایا۔
پھر آپ بار بار گھڑی کیوں دیکھ رہی ہیں۔
وہ لوگ جنرل وارڈ میں کھڑے تھے۔اس نے مریضوں کے سامنے سخت لہجے میں کہا تھا حالانکہ اس نے چپکے سے واچ دیکھی تھی مگر انہوں کیسے پتہ چل گیا تھا۔وہ تو ڈاکٹر شہاب کو کچھ سمجھا رہا تھا رضیہ بھی پاس کھڑی تھی۔
کیا بتایا ہے ابھی میں نے کون سی میڈی دینی ہے رات۔
وہی انداز جو سکول میں سر کرتے ہیں۔ اب خیر وہ اتنی بھی غیر دماغی سے نہیں کھڑی تھی۔ بے شک اسے بچوں سے ملنے کی جلدی تھی مگر اس کی تمام باتیں توجہ سے سنی تھی۔ اس کے منہ سے درست دوا کا نام سن کر اس کا غصہ کم ہوا۔ تینوں چلتے کوریڈور میں آئے۔اسفندیار نے سر گھما کر بولا۔
آپ کی ڈیوٹی ختم تھی مگر پھر بھی مجھے یہ انداز پسند نہیں۔ میرے سامنے بار بار گھڑی دیکھ کر بزی کے تاثرات دیں مجھے غصہ آتا ہے۔ آئی ہوپ کے اب احتیاط کریں گی۔
اس کا موڈ بری طرح خراب ہو گیا۔گھڑی کیا دیکھ لی اتنی باتیں سنا دی۔اس سے پہلے کب اس نے وقت کی پروا کی تھی۔ الٹا وہ دوسروں کے حصے کی ڈیوٹی دے دیا کرتی تھی۔کبھی تعریف نہیں کی۔ان سے وعدہ نہ کیا ہوتا تو کہیں جانے کا موڈ نہیں تھا۔وہ گھنٹہ لیٹ ہو گئی تھی۔اس یقین نہیں تھا وہ لوگ وہاں انتظار کر رہے ہوں گے یا چلے گئے ہوں گے ۔مگر پھر بھی اسے جانا تو تھا۔
بڑی جلدی آ گئی اتنی جلدی آنے کی کیا ضرورت تھی؟ سائم طنزیہ لہجے میں بولا۔وہ وارننگ دینے والے انداز میں انگلی اٹھا کر بولی۔
پہلے ہی تم دونوں کی وجہ سے ڈانٹ کھائی ہے۔
آپ کو ڈانٹ پڑی؟ کس نے ڈانٹا؟
دونوں بضد ہوئے اس نے سب کہہ سنایا۔
اب میری توبہ جو گھڑی پہنوں۔
بہت فضول آدمی ہے۔اتنی سی بات پر طوفان کھڑا کر دیا۔
کشمالہ نے کہا۔
تو وہ منہ بگاڑ کر بولی۔
دفع کرو اس ذکر کو کیوں خون جلائیں۔
کشمالہ گھر سے چیز سینڈوچ اور تھرماس میں کافی لائی تھی باتیں کرتے تینوں نے بھر پور انصاف کیا۔
_______________
حجستہ کو اپنے روم میں پا کر اسے بہت خوشی ہوئی
کیسی ہو تم؟
میں تم سے ملنے آنا چاہ رہی تھی مگر سچ پوچھو تو تماری ساس اور شوہر سے ڈر لگتا ہے۔وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر پاس بٹھاتے ہوئے بولی۔
مجھے سمجھا رہی تھی شوہر سے مت ڈرا کرو مارے تو ہاتھ پکڑ لو خود اتنی ڈرپوک ہیں۔
وہ شکایتی انداز میں بولی۔
میرا دیور یہاں مالی کا کام کرتا ہے۔اسی لیے کھانا دینے کا بہانہ کر کے آئی ہوں۔ورنہ مجھے گھر سے باہر قدم نہیں رکھنے دیتے۔ دیور بہت اچھا ہے ۔ میرا خیال رکھتا ہے اس میں بتا کے آئی ہوں میں آپ سے ملنے جا رہی ہوں۔
تم نے پہلے نہیں بتایا تمہارا دیور یہاں کام کرتا ہے۔ہمت کر کے اسی کے ساتھ آ جاتی۔
وہ شرمندگی سے بولی
ہاں یہ بتانا مجھے یاد نہیں رہا۔
تم آرام سے بیٹھو یہ بتاؤ کیا کھاؤ گی؟
کچھ نہیں بس آپ سے ملنے آئی ہوں آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگتا ہے جو میں کسی سے نہیں کر پاتی آپ سے کر لیتی ہوں آپ بہت پیار سے سن لیتی ہیں۔
اس کے کہنے پر وہ تھوڑی افسردہ سی ہو گئی۔
ہاں بس سن لیتی ہوں یا لمبی تقریر جھاڑ دیتی ہوں۔مزہ تب ہے عملی مدد بھی کروں کچھ۔
میرے لیے یہی بہت ہے میرے پاس تو ایسا بھی کوئی نہیں جس سے دل کی بات کر سکوں۔
اب میں چلتی ہوں دیر ہو گئی تو اماں نہیں چھوڑے گی۔
بس دس منٹ ہی بیٹھ کر اٹھ گئی۔اسے رخصت کرنے وہ ہسپتال کے گیٹ تک آئی۔اس کے دیور سے بھی سلام دعا ہوئی۔ اس کے جانے کے بعد کتنی دیر تک اس کے ذہن میں اسی کی آواز گونجتی رہی۔
دن کو مارتا ہے رات اچانک اسے مجھ پر پیار آ جاتا ہے۔ میرا بس چلے ایسی جگہ چلی جاؤں جہاں اسکی کبھی شکل تک نظر نہ آئے۔ اپنے زخم دکھاتے اسے کس طرح روتے روتے بات کی تھی۔ وہ ہسپتال مریضوں میں مصروف کے باوجود اس کی طرف دھیان رہتا۔ پتہ نہیں کیوں ہر بار حجستہ کو دیکھ کر چودہ پندرہ سال کی زوبیہ کیوں یاد آ جاتی حالانکہ دونوں کے حالات میں زمین آسمان کا فرق تھا شاید ایک بات زوبیہ اور حجستہ میں مشترکہ تھی۔زندگی سے مایوس، اندر ہی اندر مرنا، کسی سے کچھ نہیں کہنا۔حجستہ کا جسم زخمی تھا اس کو لگا اس کی روح زخمی ہو گئی۔
بہادر کو میرے کردار پر شک ہے وہ سمجھتا ہے میں آوارہ بدچلن ہوں۔ صاف کپڑے پہن لوں تو گالی دیتا ہے کہ کسے دکھانے کے لیے سجی ہے
اب کے بار کلاس فیلو کے ساتھ چکر چلایا۔پتہ نہیں ایسی لڑکیوں کی طرف مرد کیسے کھنچے چلے آتے ہیں۔
زوبیہ کے برسوں پرانے زخم پھر سے تازہ ہونے لگے تھے۔اس رات وہ تکیے میں منہ چھپا کر گھنٹوں روتی رہی۔
_______________
تین چار دن ہو گئے تھے اسے کشمالہ اور سائم سے ملے ہوئے شاید وہ لوگ واپس چلے گئے ہوں مگر تھوڑی ہی دیر میں کمرے کی کھڑی سے کشمالہ کو آتا دیکھ کر اس کی سوچ غلط ثابت ہوئی.
اوہ بھئی میں سمجھی تم لوگ چلے گئے ہو گئے۔
وہ باہر نکل کر انہیں دیکھ کر بولی۔
گئے نہیں کل جانے والے ہیں اسی لیے سوچا جانے سے پہلے آپ سے مل لیں۔ پہلے ہسپتال گئی پتہ چلا آپ کی نائٹ ڈیوٹی تھی آپ آرام کر رہی ہیں۔
وہ جلدی جلدی بول رہی تھی جیسے بھاگنے کی تیاری ہو۔
چلو اندر چل کر بیٹھتے ہیں اور آج سائم نظر نہیں آ رہا وہ اس کا ہاتھ تھام کر بولی۔
سائم گھر ہے بول رہا تھا آپ نے آنے سے منع کر دیا ہے۔آج آپ کو ہمارے ساتھ لنچ کرنا پڑے گا۔کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ہم نے امی سے کھانے کا اہتمام کروا لیا ہے اگر آپ اب نہیں آئی تو پوزیشن گرے گی میری اور بی بی جان جو انتظار کر رہی ہیں بولیں گی تمہاری زوبیہ نخریلی ہے۔
مجھے جانے میں اعتراض نہیں مگر ایسے جانا اچھا نہیں لگتا ناں تم لوگ اگلی بار آؤ گے تو ضرور آؤں گی۔کشمالہ اس کا ہاتھ جھٹک کر مڑ گئی۔
ارے بات تو سنو رکو تو سہی۔
وہ اسے آوازیں دے رہی تھی وہ اندھا دھند بھاگی چلی گئی۔
اچھا میں آ رہی ہوں۔ وہ شکت خوردہ لہجے میں بولی۔ کشمالہ اچھل کر یاہو نعرہ لگانے لگی۔
پتہ تھا مجھے آپ کبھی بھی میری بات نہیں ٹال سکتی ۔یو آر سو سویٹ زوبیہ آپی۔
اچھا مکھن لگانے کی ضرورت نہیں۔منہ اٹھا کر کسی کے گھر جانا اسے بالکل پسند نہیں تھا۔
آپ کو ڈریس چینج کرنا ہے تو کر لیں وہ چادر اوڑھ کر نفی میں سر ہلا کر گیٹ سے باہر آ گئی۔دونوں کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
تمہارے گھر کون رہتا ہے؟ اسے نئے لوگوں سے ملنے میں بہت ہچکچاہٹ ہوتی تھی۔ صرف سائم ممی بی بی جان اور لالہ۔ لالہ اس ٹائم گھر نہیں ہوتے۔
اتنے میں گھر پہنچ آیا۔ وہ اس کے ساتھ چلتی گھر کی تعریف کرتی گئی۔گاڑی کی آواز سنتے ہی سائم نا جانے کہاں سے نمودار ہو گیا۔
شکر آپ آ گئی ورنہ امی ، بی جان کے سامنے ہماری انسلٹ ہو جاتی۔
وہ بھی کشمالہ کی طرح اس کے آنے سے بے تحاشا خوش تھا ۔وہ ایسے کر رہے تھے جیسے برسوں سے شناسائی ہو ۔بی جان یہ دیکھیں۔ یہ ہیں آپی زوبیہ ہماری نئی فرینڈ۔ ایک خاتون بھاری جسم والی بی جان تھی۔ کشمالہ کی طرح نیلی آنکھوں والی اس کی امی ڈمپل والی۔بہت تعریف کر رہے تھے۔
بی جان نے پیار سے گلے لگا کر کہا۔
امی بھی گرم جوشی سے مل کر بیٹھنے کو بولا۔اس نے اب تک کتابوں میں پڑھا تھا۔پہاڑوں میں رہنے والوں کے دل بھی پہاڑ جیسے کھلے بڑے ہوتے ہیں۔اب کوئی اتنی محبت سے ملا اسے تجربہ ہو گیا حیران رہ گئی۔
ڈاکٹرنی کہہ کر اسے عزت دی وہ ان لوگوں کی محبت اپنائیت سے بہت متاثر ہوئی۔
اسفی کو بہت شوق ہے اسکی بھتیجی ڈاکٹر بنے ورنہ میں نے تو کہا گھر میں ایک ڈاکٹر کافی ہے۔اتنے میں لاونج کا دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا۔
السلام وعلیکم!
اتنی مانوس آواز اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔دل چاہا کہیں غائب ہو جائے ۔
اچھے وقت پر آئے اسفی۔ لنچ گھر ہی کر جانا۔اسے دیکھ کر جو حیرت ہوئی، اسفندیار نے اسے چھپا بھی لیا تھا ۔پہلے شرمندگی کی لپیٹ میں تھی پھر کشمالہ اور سائم پر بہت غصہ آیا۔
اگر یہ مذاق تھا تو انتہائی بیہودہ تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا ان دونوں کے سر پھوڑ دے۔وہ ہاتھ مل رہی تھی جبکہ اسے نظر انداز کر کے بی جان کی بات کا جواب دینے لگا۔
آپ کھانا لگوائیں۔ مجھے اسٹڈی میں کچھ کام ہے۔وہ کشمالہ کی امی گیتی سے کہہ کر سیڑھیاں چڑھ گیا۔
تم آرام سے بیٹھو میں کھانا لگوا کر آتی ہوں۔
میں لنچ کے لیے ضرور رکتی مگر میری ڈیوٹی شروع ہونے والی ہے۔ یہ تو کشمالہ اچانک آئی اور بضد ہوئی کے اس کے ساتھ چلوں تو کھڑے کھڑے آ گئی۔تکلف کی کوئی بات نہیں میں پھر آؤں گی۔
وہ فورا اٹھ گئی کشمالہ نے اس کے جھوٹ پر کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر خاموش ہو گئی۔
ارے پہلی بار آئی ہو ایسے بنا کچھ کھائے کبھی نہیں جانے دوں گی۔بی جان ناراض ہوئیں۔
تم یہاں مہمان ہو اصولاً سائم کشمالہ سے پہلے تمہیں انوائیٹ کرنا چاہئیے تھا۔
آج اجازت دے دیں پلیز ڈیوٹی کا مسٔلہ نہیں ہوتا تو میں ضرور رکتی۔
سائم کشمالہ خاموشی سے بات چیت سن رہے تھے بی جان نے مزید اصرار نہیں کیا مگر گیتی کو اشارہ کیا جو زوبیہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکا۔
چلو جیسے تماری مرضی۔
اس نے یہ سن کر چین کا سانس لیا۔وہ لاونج کے دروازے سے نکل رہی تھی جب گیتی آرا واپس آئی۔ہاتھ میں ڈبہ تھا اس نے بی جان کو پکڑایا۔
یہ لو ہماری طرف سے چھوٹا سا تحفہ۔
بی جان نے ڈبہ اس کی طرف بڑھایا۔وہ یہاں سے کوئی بھی تحفہ وصول نہیں کرنا چاہتی تھی۔مگر انکار کام نہیں آیا مجبوراً اس نے وہ ان کے ہاتھوں سے لے لیا۔دونوں خواتین مہمانوں نواز خوش اخلاق تھیں مگر اسے اب مزید ایک لمحہ بھی نہیں رکنا تھا ۔سائم اور کشمالہ بھی ساتھ باہر نکل آئے۔ ان کو آتا دیکھ کر ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔وہ تیزی سے گاڑی میں بیٹھ گئی ۔سائم کشمالہ بھی ساتھ بیٹھ گئے ۔اس کی ناراضگی کے تاثرات انہیں کچھ بھی کہنے نہیں دے رہے تھے ۔انہیں اندازہ تھا دونوں سے بری طرح ناراض ہے۔ ڈرائیور کی موجودگی کی وجہ سے خاموشی اختیار رکھی۔گاڑی ہسپتال کے گیٹ پر رکی وہ دونوں بھی ساتھ اتر گئے ۔
زوبیہ آپی آپ۔۔۔
کشمالہ نے کچھ کہنا چاہا اس کی بات سنے بنا سخت لہجے میں بولی۔
تم لوگ مذاق کرتے ہو میں انجوائے کرتی ہوں مگر مزاق اور بدتمیزی میں فرق ہوتا ہے۔ میں تم لوگوں کی بدتمیزی معاف نہیں کر سکتی۔بات مکمل کر کے وہ گیٹ سے اندر گھس گئی۔
پلیز زوبیہ آپی ہماری بات سنیں۔ سچ میں آپ کو ہرٹ کرنا مقصد نہیں تھا۔سائم ان کے پیچھے آیا اور تلخی لہجے میں بولا۔
میرا اور اسفند کا تعلق مالک اور ملازم کا ہے تم لوگوں کی وجہ سے میری عزت کیا رہ گئی۔شاید وہ سوچ رہے ہوں گے میں نے جاب میں فائدے اور آسانیوں کے لیے ان کی فیملی سے تعلق جان بوجھ کر رکھا
It is too much saim۔
میں اتنی انسلٹ برداشت نہیں کر سکتی۔
سخت انداز میں کہہ کر ہسپتال میں چلی گئی۔کمرے میں آنے کے بعد بھی وہ بہت دیر غصے کو کنٹرول کرتی رہی۔خود پر بھی غصہ کہ ان کی باتوں میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ان کا دیا شیشوں والا سرخ جوڑا بے دلی سے الماری میں رکھ دیا۔وہ سرخ پہنتی نہیں تھی اس کے پاس سب ہلکے کلر تھے۔عرصہ ہوا اس نے خود پر توجہ دینی چھوڑ دی تھی۔کئی سالوں سے لپ اسٹک کو بھی نہیں چھوا۔ ابھی بھی اچھی ڈاکٹر بننے کی کوشش کر رہی تھی۔ ان کے فضول مذاق نے پانی پھیر دیا ۔اسے کبھی اندازہ نہیں تھا اس کے بھتیجا بھتجی ہیں۔
رات کو اس کا سامنا اسفندیار سے ہوا وہ ڈرتی ہی رہی۔کہیں وہ کچھ کہہ نہ دیں۔ان ڈائریکٹ کسی اور پر کر ہی بات کہہ دیں مگر وہ بالکل کچھ نہیں بولا۔وہ روٹین کا انداز تھا اسفندیار نے اس بات کو نظر انداز کر دیا مگر اس کی شرمندگی اپنی جگہ برقرار تھی۔
___________
اگلے دن ہسپتال میں کشمالہ کو دیکھ کر اس نے سوائے سلام کا جواب دینے کے کوئی بات نہیں کی۔ وہ اپنے سامنے بیٹھی مریضہ کا بی پی چیک کر رہی تھی۔کشمالہ کرسی پر بیٹھ کر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔دوا کی پرچی پکڑا کر نرس سے دوسری مریضہ کو بلانے کا کہتی بی پی اپیرٹس سائیڈ پر رکھنے لگی۔
آپ ہم لوگوں سے ناراض ہو گئیں۔اب کوئی بات سننے کو بھی تیار نہیں۔بات بس اتنی سی ہے۔شروع میں ہم نے جان کر آپ کو لالہ کے بارے میں نہیں بتایا آپ ان کے بارے میں جو کمنٹس دیتی، ہم انجوائے کرتے مگر کل ہمارا مقصد لالہ کے سامنے آپ کو شرمندہ کرنا نہیں تھا وہ جب صبح گھر سے چلے جائیں تو واپس نہیں آتے۔ اس ٹائم ہمارا دل تھا آپ ہمارے گھر آئیں اور وہیں ہم لالہ کے بارے میں بھی بتاتے مگر بالکل اچانک غیر ارادہ طور پر لالہ آ گئے آپ پتہ نہیں کیوں اتنی کونیٹس ہو رہی۔ لالہ کو ہماری دوستی سے کیا اعتراض ہو گا اور وہ اتنے تنگ نظر بھی نہیں ہیں کہ آپ کو وہاں دیکھ کر کوئی الٹی سیدھی بات سوچی ہو۔وہ بہت ذہین آدمی ہیں اسطرح کی فضول باتیں نہیں سوچتے۔
دوسری مریضہ کے آنے تک وہ جلدی جلدی وضاحت کرنے میں مصروف تھی۔
وہ اسکی بات کا جواب دیے بنا دوسری مریضہ سے مخاطب ہو چکی تھی۔وہ گود میں لیے بچے کی بیماری کا بتا رہی تھی۔اسکو دوائی مشورہ دیتے ہوئے کشمالہ کی طرف دیکھا جو اس کے رویے سے مایوس ہو کر اٹھ گئی تھی ۔
کشمالہ میں تم لوگوں سے ناراض نہیں۔
وہ ایک دم واپس مڑی اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی واقعی ۔۔۔
ہاں لیکن اب تم جاؤ اس وقت مریضوں کا رش لگا ہے۔ وہ خوشی خوشی گردن ہلاتی چلی گئی۔
______________
آپ نے بچوں کو خراب کر دیا وہ بیڈ نمبر سات والا سسٹر سے انجکشن لگوانے کو تیار نہیں۔ ایک ہی رٹ ڈاکٹر زوبیہ سے لگواؤں گا۔
ڈاکٹر تاجدار نے مخاطب کیا۔جو فلحال فارغ تھے۔
جو اچھا انسان نہ ہو وہ اچھا ڈاکٹر کیسے بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر شہزور نے باتوں باتوں میں ایک روز یہ بات کہی تھی ان کی یہ بات انہوں نے گرہ باندھ لی۔ ڈاکٹر خوش اخلاق ہو ہمدرد ہو تو مریض کی آدھی بیماری باتوں سے رفع ہو جاتی ہے۔وہ اسی چیز پر عمل کی کوشش کر رہی تھی۔ پہلی بار گل خان پر کی تھی جس کی ٹانگ کٹ گئی تھی۔ وہ زندگی سے بے زار ہو چکا تھا۔ اس سے بہت پیار سے باتیں کر کے امادہ کیا تھا اب وہ بات سننے لگ گیا تھا وہ بہت دن ہسپتال رہ کر جب جانے لگا تو دوستی کر چکا تھا۔ اس کے ماں باپ بہت شکر گزار تھے۔
جانے سے پہلے اسکی ماں نے اپنے ہاتھوں سے کڑھائی کیا ہوا دوپٹہ اس بطورِ گفٹ دیا جو اس نے یہ سوچ کر رکھ لیا کے ان کا دل نہ ٹوٹ جائے۔ اس کے بعد خاص طور پر بچوں کے ساتھ ایسا کرنا شروع کر دیا۔ بچے سسٹر رضیہ کو نہیں پسند کرتے۔ ڈاکٹر تاجدار کو سخت لب و لہجہ بھی انہوں ناگوار گزرتا تھا۔ زوبیہ ان سب کی پسندیدہ تھی۔ وہ انہیں چاکلیٹ دیتی۔ مزے کی باتیں کرتی اور وہ بدلے میں آرام سے دوا کھا لیتے۔انجکشن لگوا لیتے ڈرپ چڑھوا لیتے۔
وہ وارڈ میں داخل ہوئی۔ کونے والے بیڈ پر ڈاکٹر شہزور اور اسفند کھڑے تھے دونوں کچھ ڈسکس کر رہے تھے وہ ایک اور بچے کو انجکشن لگاتے ان کو بھی دیکھ سن رہی تھی وہ دونوں باتیں کرتے باہر نکل گئے تو بچے کو سننے لگی۔ میں نہیں ہوں گی تو انجکشن نہیں لگواؤ گے یہ تو بہت بری بات ہے۔وہ جب باہر نکلی تو آواز آئی کہ اب بہت دیر ہو چکی کچھ نہیں اس کا ہو سکتا۔شہزور ڈاکٹر اسفندیار کو بول رہا تھا وہ بھی جواباً کچھ بولا
جو سنائی نہیں دیا کسی کو زندگی ہارتا دیکھ کر بہت دکھی ہوتی۔ آج سن کر دکھی ہوئی۔اس نے ڈاکٹر آصفہ سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے تسلی دی کہ آپ نئی ہیں اس لیے بہت احساس ہو کر سوچتی ہو آہستہ آہستہ عادی ہو جاؤ گی۔ یہ ہمارا پیشہ ہے زندگی موت ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے۔ جس کا وقت پورا ہو ہم اسے کیسے بچا سکتے ہیں؟
____________
کافی دن ہو گئے حجستہ کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔ وہ اس کے گھر جانے کا فیصلہ کر کے اس کے دیور کے پاس گئی وہ اس کی بات سے حیران ہوا اور اسے گھر لے آیا۔حجستہ تو خوش تھی ہی ساس بھی اس کی اٹھ کھڑی ہوئی آخر کو ڈاکٹر خود چل کر ان کے گھر آئی تھی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
اس کی ساس اپنی بیماریوں کا بتانے لگی تو اس نے بولا آپ کے بیٹے کے ہاتھ دوا بھج دوں گی ٹھیک ہو جاؤ گے۔ حالانکہ اسکی ساس کو دیکھ کر اس کا بی پی ہائی ہو رہا تھا۔حجستہ بس دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی اکیلے بات کا موقع نہیں ملا تھا مگر ساس سے اچھی بات چیت کی وجہ سے تسلی میں تھی کہ اب جب چاہے حجستہ سے ملنے آ سکے گی۔ہسپتال جاتے ہی اس نے شہباز کو دوائی دی اماں کو دے۔
رمضان شروع ہو چکا تھا۔ زوبیہ کو خالہ امی کے گھر گزارا رمضان اور عید یاد آ رہی تھی۔تھوڑی افسرده تھی۔ ڈاکٹر آصفہ عید کی شاپنگ کے لیے بازار جا رہی تھی اسے بھی ساتھ جانے کی دعوت دی تو اس نے منع کر دیا ۔کافی جوڑے ہیں جو بغیر پہنے رکھے ہیں ۔
تم مجھے کوئی پرانی روح لگتی ہو۔ نہ پہنانے کا شوق، نہ سجنے سنوارنے کا، نہ جیولری کا۔ شادی کا ارادہ بھی ہے کہ نہیں ۔ایسے تو مشکل ہی کوئی پسند کرے۔
کیا پتہ کوئی پسند کر ہی لے۔ کھسکے ہوؤں کی کمی تھوڑی ہے دنیا میں ۔وہ اسے چھوڑ کر چلی گئیں واپسی پر اس کے لیے بھی ایک سوٹ لائی۔
یہ میری طرف سے عیدی کا گفٹ۔ سارے اسٹاف کو عیدی دیتی ہوں تمہیں پیسوں کی جگہ کپڑے دے رہی ہوں۔اس نے رکھ لیا۔
سب سے سن چکی تھی کہ اسفندیار سب کو ایک بار افطاری ڈنر دیتا ہے سال بھر میں یہی اسکی طرف سے دعوت ہوتی تھی۔ وہ بھی اس کے گھر ڈاکٹر آصفہ کسی بات پر اسے ایسے بولی جیسے اسے پہلے سے سب پتہ ہے مگر اس کے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے۔
نائٹ ڈیوٹی کی وجہ سے ڈاکٹر شہاب اور سسٹر رضیہ ہسپتال میں سحری کرتے تھے۔ شہاب رضیہ سے بولا۔
پرسوں افطار پارٹی ہے اسفندیار کے ہاں۔ ویسے تو وہ خود سب کو انوائٹ کریں گے کوئی رہ نہ جائے مجھے بھی یاددہانی کروانے کا بولا تھا ۔ہاں مجھے ڈاکٹر تاجدار نے بتا دیا تھا۔اسی ایک دن ڈاکٹر اسفندیار ہنسی مذاق کرتے ہیں۔وہ چپ چاپ ان کی باتیں سن رہی تھی وہ پچھلے سال کی افطار پارٹی کو یاد کر رہی تھی۔اگلے روز کافی بار اس کی اسفند سے ملاقات ہوئی مگر اس نے انوائٹ نہیں کیا ایک بار بھی۔اسے بہت انسلٹ محسوس ہوئی اگر کسی اور عملے کو بولنا بھول جاتا تو وہ بہت تھے مگر ڈاکٹر تو چھ تھے ان میں خواتین بس دو۔اس نے سوچا ہو گا جو لڑکی میرے گھر بھتیجا بھتیجی سے دوستی کر کے آ سکتی ہے، اسے بلانے کی کیا ضرورت؟ ظاہری بات ہے وہ آ ہی جائے گی بلکہ دن گن کر انتظار کر رہی ہو گی۔
ہفتے کے دن اس نے اکیلے افطار کرتے جل کر سوچا۔ اس نے بیماری کا بہانہ کر کے ہاف ڈے لے لی تھی۔ اس نے رات کھانا نہیں کھایا۔ عشاء تراویح پڑھ کر سونے لگی آنسو چپ چاپ نکل رہے تھے۔
کیسی طبعیت ہے اب آپ کی؟
دوسرے روز شہزور کے روم آئی تو وہاں اسفندیار بھی تھا۔ ڈاکٹر شہزور نے فورا طبعیت پوچھی۔
بہتر ہوں بس اب کھانسی نزلہ ہے۔
کھانسی زکام تو تھا ہی اس لیے آرام سے جھوٹ بول سکی۔تھوڑا اور آرام کر لیتی یہ نہ ہو پھر لمبی پڑ جائیں ۔اسفند ایک نظر ڈال کر پیپر دیکھنے لگا جیسے اس کو کوئی پروا نہیں۔وہ خاموشی سے پلٹ گئی۔وہ توقع کر رہی تھی کل نہ آنے کی وجہ اسفند پوچھے گا اس نے سوچا تھا کہ بول دے گی۔
بن بلائے مہمان جانے کا کوئی شوق نہیں مگر اس کی سوچوں پر پانی پھر گیا۔ کل پیدا ہوئی خود ترسی نے آج ڈپریشن کا روپ دھار لیا تھا۔
عید کے دن ڈاکٹر شہزور نے ڈاکٹر آصفہ نے اپنے گھر میں عید کی دعوت دی تھی مگر جب عید کی نماز کے بعد گل خان اپنے باپ کے ساتھ اس سے عید ملنے آیا اور گھر جانے کا اصرار کرنے لگا تو وہ ان کے گھر چلی گئی۔چھوٹے سے گھر میں ان کی بے بے کے ہاتھ کا کھانا پیٹ بھر کر کھایا۔عید سے پہلے ہی اس نے ڈاکٹر تاجدار سے اس نے گل خان کے لئے سوٹ منگوایا تھا مگر اب گھر آئی تو سب اس کے بہن بھائیوں کو عیدی دی۔وہ ایسا کر کے بہت خوش تھی۔کافی سارا وقت وہاں گزار کر وہ حجستہ کے گھر گئی۔اس کی ساس کو کھانسی سے افاقہ ہوا۔وہ بہت خوش تھیں۔بہت خوشی کا اظہار کیا اور جاتے اس نے حجستہ کے ہاتھ پر ہزار روپے رکھے۔وہ لیتے ہچکچا رہی تھی۔
یہ تمہارے ہیں، کسی کو نہیں دینا جو چیز چاہئیے ہو لے لینا۔
بڑی بہن کی طرح سمجھایا۔رات اس کی ڈیوٹی تھی ایسے میں اسے ڈاکٹر آصفہ کے ہاں جانے کا ٹائم نہیں ملا یہ بھی تھا کہ وہ برا نہ منا جائیں۔ عید کے دوسرے دن اس کے ہاں ڈنر تھا اس نے سوچا ناشتے سے فارغ ہو کر ان کے ہاں چلی جائے گی۔ق
__________
دن کے گیارہ بج رہے تھے جب ہسپتال کے چوکیدار کو لے کر ان کے گھر آ گئی تھی۔ حالانکہ ان کا گھر بالکل پاس تھا مگر پھر بھی پہلی بار گئی تھی کافی بار انہوں نے شکوہ بھی کیا۔شام میں پہننے کے لئے شاپر میں انہی کا دیا ہوا سوٹ لائی تھی۔ کتنے پیار سے انہوں نے آج انوائٹ کیا تھا۔ضروری نہیں ہر پڑھا لکھا معزز ہو۔اس نے ان کے پرخلوص انداز پر اس نے سوچا تھا۔
گیٹ پر بیل دینے کے ساتھ اس نے چوکیدار کو واپس بھیج دیا۔گیٹ کھلتے ساتھ جو اس کو نظر آیا اس کی موجودگی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
السلام علیکم!
وہ بھی تھوک نکلتے وعلیکم السلام بولی۔
دعوت تو شام میں ہے۔
وہ بہت سنجیدگی سے بولا
اس کا موڈ ایک دم خراب ہو گیا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی مگر منہ پر طنزیہ چمک دیکھی جا سکتی تھی دل تو اس کا چاہا بغیر بولے پلٹ جائے مگر دماغ نے دل کو عقل فراہم کی۔
یہ اس کا گھر نہیں جو شرمندگی ہو، یہاں کے لوگوں نے بہت پیار سے بلوایا ہے ایک بار نہیں کئی بار۔
کون ہے اسفند؟
اندر سے ڈاکٹر شہزور کی آواز آئی۔ایک دم گیٹ سے ہٹ کر اسے رستہ دیا۔
آج تو بڑے لوگ ہمارے گھر آئے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر شہزور شطرنج بچھائے بیٹھے تھے۔کھڑے ہو گئے۔آصفہ دیکھو کون آیا ہے؟
وہ شاید کچن میں تھی، فوراً آگئی۔
ارے زوبیہ!
انہوں نے اگے بڑھ کر پر جوش گلے لگایا۔
کل کتنا انتظار کیا ہم لوگوں نے تمہارا؟
اس نے ایک نظر سامنے بیٹھے اسفند پر ڈالی۔کل میں گل خان کے ساتھ گئی تھی۔
اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
تم بیٹھو میں آئی۔چولہے پر پیاز جل نہ جائے۔
میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔
کچن میں پھیلا سامان بتا رہا تھا دعوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ایک ملازمہ ان کی اپنی تھی ، ایک اسفند اپنے گھر سے مدد کے لیے لایا تھا۔
میں آپ کی کچھ ہیلپ کروں؟
ہاتھ پر ہاتھ رکھے کچن میں بیٹھنا اسے عجیب لگ رہا تھا۔وہ کام کرتے اس سے باتیں کر رہی تھی۔
تم بادام کا قورمہ بنا لو گی؟
آپ کو کوئی شبہ ہے میرے ہاتھ کے قورمے کی بہت دور تک دھوم ہے۔
اس نے اپنی تعریف خود کی وہ ہنس پڑی۔قورمے کی باریک پیاز کاٹتے وہ زور و شور سے آنسو بہا رہی تھی۔
کچھ چاہئیے اسفند؟
جو اسی وقت کچن آیا تھا۔
ہاں اگر چائے پلا دیں تو۔
ابھی سارے چولہے بزی ہیں تھوڑی دیر ٹھہرو۔جلدی کس خوشی میں ہے؟
ایک چکر ہسپتال کا لگانا ہے پھر سائم اور کشمالہ کے ساتھ آؤٹنگ کا پروگرام ہے۔
اسے دیکھ کر زوبیہ کا بے تکلف ہونا اور فر فر چلتی زبان دونوں بند ہو چکے تھے۔
وہ گیا کچن سے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔اسے اتنا پتہ تھا ان لوگوں سے اس کی بہت انڈرسٹینڈنگ ہے مگر اتنی زیادہ ہے نہیں پتہ تھا۔
زوبیہ تم ذرا چائے بنا کر دے آؤ۔
وہ ٹرے میں چائے لے کر داخل ہوئی۔آصفہ نے مہمان سے کام کروانا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر شہزور نے افسوس سے کہا۔وہ مسکرا کر کچن چلی گئی۔
چائے پی کر وہ چلا گیا تو اسے اطمینان نصیب ہوا۔سارا دن وہ ان کے ساتھ کھانے میں ہیلپ کرتی رہی۔اسفند کے جانے کے بعد ڈاکٹر شہزور بھی کچن آ گئے۔کافی ہیلپ کی انہوں نے بھی۔
شام میں جب اس نے ان کا دیا بلیک سوٹ پہنا جس پر سرخ ورک ہوا تھا وہ بہت خوش ہوئی۔
واؤ تمہارے بال کس قدر خوبصورت ہیں۔تم ان کو لپیٹ کر ہمیشہ رکھتی ہو کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔
وہ روزانہ کی طرح بال بنانے کا ارادہ رکھتی تھی مگر انہوں نے ٹوکا۔
کھولنا نہیں ہے تو کم سے کم چوٹی بنا لو۔
ان کے کہنے پر چوٹی بنا لی۔
براؤن لپ اسٹک لگاتے اس کے اندر جنگ چھڑ گئی۔
میں نے سوچا نہیں تھا خوبصورت آواز والی لڑکی اتنی خوبصورت بھی ہو گی۔ہم سمجھتے تھے تم بدل گئی ایسی بدکردار کو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دینا چاہئیے۔کئک جملے اس کے اوپر ہتھوڑے برسانے لگے مگر وہ ایک بات سے پر سکون ہو گئی۔ یہاں کوئی اس کا ماضی نہیں جانتا۔کوئی اس کے کردار پر شک نہیں کرے گا۔یہاں کوئی تیار ہونے پر طعنے نہیں دے گا۔ اس کا دل کرتا تھا وہ بھی اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرح سجے سنورے۔ اسے تھپکی دے کر سلا دیتی آج خوش تھی۔
ذرا سے چینج سے کتنا بدل گئی تھی۔انہوں نے دل کھول کر تعریف کی۔
سردی کی وجہ سے اندر ہال میں ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔سب لوگ آنا شروع ہو گئے تھے۔اسفند کے ساتھ بی جان اور گیتی کشمالہ اور سائم بھی تھے ۔ڈاکٹر آصفہ اور شہزور نے بہت پرجوش سے ان کا خیرمقدم کیا۔سب جا جا کر بی جان سے مل کر دعائیں لے رہے تھے۔
آپ کیا ہم لوگوں سے عید بھی نہیں ملیں گی۔
کشمالہ اور سائم نے شکوہ کیا۔
ارے نہیں میں بس آ رہی تھی۔
وہ ان دونوں کے ساتھ وہی بیٹھ گئی۔
میں سوچ رہی تھی عید کرنے تو تم لوگ گھر ضرور آؤ گے۔
جی ہاں تب ہی تو آج شہزور انکل کے ہاں ملی ہیں۔وہ بھی اس دن افطار ڈنر نہیں تھی، کل ہم آئے تو پتہ نہیں کہا گم تھی۔
تم لوگ آئے تھے؟
وہ حیران ہوئی۔
تو کیا ہم جھوٹ بول رہے ہیں؟
گیتی اور بی جان اسے دیکھ چکے تھے ۔اسے اپنی بدتمیزی کا احساس ہوا تو ان سے سلام کرنے گئی۔
کیسی طبیعت ہے بیٹا؟ رسمی جملے کے بعد بی جان نے پوچھا۔وہ حیران کہ میں بیمار کب تھی؟
اس دن میں نے افطاری پارٹی میں بلانے کو فون کیا۔ پتہ چلا تھا تم جلدی چھٹی لے کر چلی گئی۔اس روز بھی مجھے پتہ ہوتا تم اسفی کی وجہ سے جا رہی ہو، ڈیوٹی نہیں ہے تو میں جانے نہیں دیتی۔ہسپتال میں ڈاکٹر اور اوپر نیچے والا کام ہے، گھر میں نہیں۔ اسفی اوپر سے سخت لگتا ہے اندر سے بہت محبت کرنے والا ہے۔مجھے کشمالہ نے بھی کہا کہ شاید تم نہیں آؤ اس لیے فون کیا تھا تمہیں بلانے کے لیے لیکن اسفی سے بات ہوئی اس نے بتایا وہ تو چھٹی لے کر چلی گئی۔
محبت کرنے والا پیارا بیٹا کچھ فاصلے پر کھڑا ڈاکٹر شہزور سے باتیں کر رہا تھا اور یقینا یہ تمام جملے اس نے بھی ضرور سن لیے ہوں گے۔اتنی بری طرح تو وہ ان کے گھر جانے پر شرمندہ نہیں ہوئی تھی جتنی ان کے منہ سے اس وقت باتیں سن کر ہوئی۔
سوبر سا امیج جو بنانے میں کامیاب ہوئی تھی کتنی بری طرح ٹوٹا تھا مگر یہ ان کو بتایا کس نے؟
یہ محترمہ ہیں نا انہوں نے اس دن جب آپ ہم لوگوں سے ناراض ہو گئی تھیں۔میں نے کتنے اشارے کیے کمر چٹکی کاٹی مگر یہ بولتی چلی گئی جو جو آپ نے ہم لوگوں سے کہا تھا سب بول دیا۔ وہ بھی ممی بی جان اور لالہ کے سامنے۔
سائم نے کھانا کھاتے ہوئے کشمالہ کی طرف اشارہ کر کے کہا تو اس کا دل چاہا وہاں سے نکل کر بھاگ جائے۔
آپ مجھ سے ناراض ہو گئی۔
کشمالہ ڈر گئی اسے نادان دوست اور دانا دشمن والی کہاوت یاد آ گئی تھی۔
نہیں آپ سے ناراض ہو کر کدھر جاؤں گی۔
آئندہ کم از کم اس نے کشمالہ کے سامنے سوچ سمجھ کر بات کرنے کا سوچتے ہوئے جواب دیا۔
سسٹر رضیہ کو واپس ڈیوٹی جوائن کرنے کی جلدی تھی۔موقع غنیمت جان کر وہ بھی ان کے ساتھ آ گئی۔ابھی ڈنر چل رہا تھا۔واپس جانے والی وہ دونوں سب سے پہلی مہمان تھیں۔اگلے کئی دن وہ ڈاکٹر اسفند سے کتراتی رہی۔
کشمالہ اور سائم عید کرتے ہی واپس ہو گئے۔ جانے سے پہلے وہ اس سے ملنے آئے تو وہ دونوں کے ساتھ اسی جگہ آ گئی جہاں وہ پہلی بار ملے تھے۔ سائم نے دکھ بھرے انداز میں پوچھا۔
زوبیہ آپی آخر ہم لوگ اس طرح چھپ چھپ کر کب تک ملیں گے؟
اس کا فلمی انداز سے جملہ بولتے سن کر بہت ہنسی آئی ۔
فلمیں ذرا کم دیکھا کرو۔
کشمالہ نے کہا۔
دیکھیں نا اسپتال ہم مل نہیں سکتے، گھر آپ آتی نہیں ہیں یہ سماج کی دیواریں کب تک۔۔۔۔؟
اب میں کچھ بولی تو تماری عقل مند بہن صاحبہ وہاں جا کر سب الم نشرح کر دے گی اس بات کا جواب تمہیں اکیلے میں دوں گی۔
_______________
اس دن اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی۔ وہ فارغ وقت میں اونگھ رہی تھی تو اسے شرافت بابا کا خیال آیا۔بے چاروں کے گردے ناکارہ ہو گئے تھے۔ ہفتے میں تین بار ان کا ڈایالیس ہوتا ہے۔ وہ اپنے گھر کے واحد کفیل تھے رضیہ نے اسے بتایا تھا کہ ایسے مریضوں کی اسفند خفیہ مدد کرتا ہے بلکہ صرف وہ نہیں ڈاکٹر شہزور بھی مگر چرچا نہیں کرتے۔
اسپتال کے اخراجات کے علاوہ بھی ان کی مالی مدد کرتے۔اسپتال میں امیر بندہ داخل ہوتا اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جاتی۔
کسی سردار کا بیٹا آج کل ایڈمٹ تھا وہ آج راؤنڈ پر اسفند کے ساتھ آئی تھی۔وارڈ میں وہ اس کے کمرے تک پہنچنے تو اسفند یار اس سے بولا۔
بس آپ جائیں اب۔وہ اس بات پر توجہ دیے بغیر کے اس نے جانے کا کیوں بولا تو فوراً وہاں سے چل دی۔ اس کے ساتھ تو سر پر تلوار لٹکی محسوس ہوتی ہے ۔
سسٹر سے تھوڑی دیر آنے کا کہتی وہ مردوں کے وارڈ آ گئی۔ وہ شرافت بابا کے پاس بیٹھ گئی ان کی بوڑھی آنکھیں لمحہ بھر کے لئے مسکرائی۔آدھا پونا گھنٹہ ان کے پاس رہ کر اٹھ گئی کوریڈور میں چلتے اس نے آواز سنی۔
ایکسکیوزمی ڈاکٹر۔ وہ پلٹی تو حلیہ سے ہی سمجھ گئی۔ پرسوں داخل ہونے والا جاگیردار کا بیٹا ہے۔گلے میں سونے کی چین قیمتی گھڑی قیمتی لباس۔
جی !!
وہ اس کے پاس آ گئی.
میرا دل بہت بری طرح گھبرا رہا ہے، چکر آ رہے ہیں، ہاتھ پاؤں بے جان سے لگ رہے ہیں۔
وہ ایک دم الرٹ ہو گئی۔
آپ لیٹیں میں چیک آپ کرتی ہوں۔
وہ سنجیدگی سے اس کا معائنہ کر رہی تھی اچانک اسے عجیب سا محسوس ہوا بے اختیار نظریں اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔وہ گہری بے باک نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔اسے اس کی نگاہوں سے خوف آیا۔وہ پیچھے ہٹنے لگی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
آپ کو کبھی کسی نے بتایا ہے ڈاکٹر آپ بہت خوبصورت ہیں۔میں نے اپنی زندگی میں ایسی مکمل حسین لڑکی نہیں دیکھی۔
کیا بدتمیزی ہے؟ آپ ہوش میں تو ہو چھوڑو میرا ہاتھ۔
وہ بلند آواز میں چلائی۔دل خوف کے مارے بند کے قریب تھا اچانک خود ہی اس نے ہاتھ چھوڑ دیا۔ گھبرائی آواز میں بولا
آئیے ڈاکٹر اسفند یار۔
اس کے منہ سے کلمہ شکر نکلا۔ بے اختیار اس نے پلٹ کر دیکھا۔
میں ڈاکٹر صاحبہ سے کہہ ہی رہا تھا کاش ڈاکٹر اسفند آجائیں تو بہتر دیکھ بھال ہو۔
وہ بے غیرتی کی حد پار کرتے پینترا بدل گیا۔وہ سن کھڑی رہ گئی ۔اس کے ہاتھ پاؤں بری طرح کانپ رہے تھے ۔اسے لگ رہا تھا ابھی گر جائے گی۔اسفند اندر آیا ایک بار بھی زوبیہ کی طرف نہیں دیکھا مسلسل سلطان کو دیکھ رہا تھا ۔
مجھے بھی یہی لگ رہا ہے آپ کی ٹریٹمنٹ اب مجھے ہی کرنی پڑے گی۔وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
آپ جا سکتی ہیں۔
ایک سرد کاٹتی ہوئی نظر ڈال کر اسے کہا۔
اتنے سخت اور کراخت الفاظ میں اس نے اس سے پہلے کبھی بات نہیں کی تھی۔
وہ فوراً باہر نکل آئی۔وہ پیر کہیں رکھ رہی تھی پڑ کہیں رہا تھا۔اسے کچھ دکھائی نہیں رہے رہا تھا۔
یا الله یہ کیا ہونے جا رہا تھا میرے ساتھ۔
وہ ابھی بھی کانپ رہی تھی۔کمرے میں آ کر دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر سوچ میں گم سم اتنے میں انٹر کام بجا۔
آپ ذرا میرے کمرے میں آئیے۔
وہی سرد لہجہ وہ بمشکل خود کو گھسیٹتی اس کے کمرے تک پہنچی۔دونوں ہاتھ پیچھے باندھنے وہ کمرے میں گھوم رہا تھا ۔اسے دیکھ کر رک گیا ۔اس کے بالکل سامنے آ کر بولا۔
میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں ڈاکٹر زوبیہ خلیل کہ یہ سب کیا تھا؟ آپ وہاں کیوں گئی؟ کس کی اجازت سے؟ اپ کو تماشا بننے کا شوق ہو تو ہو ، مجھے اپنی نیک نامی عزیز ہے۔
وہ غصے سے چلایا۔
ڈاکٹر تاجدار ڈیوٹی پر نہیں تھے؟ ایسا کون سا کیس تھا جسے آپ ہینڈل کرنے گئی۔
"ہماری عزت کو داغ لگا کر آئی ہے یہ بے غیرت میں اس کا خون کر دوں گا۔"
اسے اسفند کی آواز نہیں بلکہ کچھ اور آوازیں سنائی دے رہی تھی۔
آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں اسطرح کی لڑکی نہیں ہوں۔
آواز بعد میں نکلی آنسو پہلے۔وہ کبھی بھی کسی کے سامنے نہیں روئی تھی اس شخص کے سامنے تو کبھی بھی نہیں رونا چاہتی تھی مگر اس وقت وہ زاروقطار رو رہی تھی ۔
اس کا جملہ اور رونا دونوں غیر متوقع تھے۔تھوڑی دیر وہ اسے آنسو بہتا دیکھتا رہا پھر گہری سانس لے کر آہستگی سے بولا
بیٹھ جائیے ڈاکٹر زوبیہ!
اس بار لہجہ پر سکون تھا وہ ایک دم روتی ہوئی کمرے سے بھاگ کر نکل گئی۔واش روم میں خود کو بند کر کے نل کھول کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میری بدنصیبی کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔یہاں کسی کو میرا ماضی نہیں پتہ میں بہت خوش تھی۔ سب مجھے شریف، پاکباز ، حیادار لڑکی سمجھتے ہیں۔مگر اب نہیں سمجھیں گے۔ ڈاکٹر اسفند کے سامنے میری کیا عزت رہ گئی؟ وہ سوچ رہے میں جان بوجھ کر وہاں گئی۔ مجھے مشکوک کردار قرار دے کر نکال دیں گے پھر سب جان جائیں گے میری اصلیت۔ حجستہ ، گل خان شہزور ، کشمالہ، صائم وہ سب جو مجھے پیار کرتے ہیں مجھ پر تھوکیں گے۔ میرے خدا موت دے مجھے اب مجھے نہیں جینا اب اور کتنی ذلت سہوں؟۔
میری طبیعت ٹھیک نہیں۔کوئی پوچھے تو بتانا میں ہاسٹل میں ہوں۔
پتہ نہیں کتنی دیر بعد وہ واش روم سے نکلی۔تیز چلتی ریسپشن میں آ گئی۔ وہ اس وقت کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ،نہ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر تاجدار کا ، نہ ہی سسٹر رضیہ کا۔ وہ کمرے میں پہنچا چاہتی تھی جلدی۔وہ صبح تک ایسی حالت میں رہی۔
میں اپنے حق میں کچھ نہیں ثابت کر پاؤں گی۔
وہ رات بھر دعائیں مانگتی رہی۔
........................
....................... 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے