شکر ہے تمہارا ٹمپریچر تو نارمل ہوا۔ تکلیف سے کراہتے اس نے آنکھیں کھولیں تو ڈاکٹر آصفہ اس کے پاس تھیں۔
خود پر کام کا بوجھ نہیں ڈالا کرو طعبیت ٹھیک نہیں تھی تو چھٹی کر لیتی۔
ان کی اپنائیت اسے حیرانی میں مبتلا کر رہی تھی۔
اب آنکھیں کھولو اور ہمت کر کے تھوڑا دودھ پی لو تاکہ دوا دی جا سکے۔
انہوں نے پیچھے تکیہ رکھ کر اسے بٹھایا اور پاس کھڑی سسٹر کو دودھ لانے کا بولا۔ نظریں سامنے لگی گھڑی پر پڑی تو شام کے پانچ بج رہے تھے۔اسے بخار کب ہوا؟ بس اتنا یاد تھا کہ اس کے سر میں بہت درد تھا۔ آنکھیں کھل نہیں رہی تھی اور شاید کوئی زور سے اسکے کمرے کا دروازہ پیٹ رہا تھا۔ سوتے جاگتے شاید سسٹر رضیہ اور ساتھ کسی کی آوازیں تھی۔
رات تک سب ڈاکٹر کے علاوہ کئی لوگ عیادت کو آتے رہے ہر کوئی اس کے لئے فکر مند تھا۔اس کے سراہنے پھولوں پھلوں اور دوائیوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ڈاکٹر آصفہ رات تک اس کے پاس رہی۔اگلے روز صبح سویرے حجستہ چلی آئی۔اسے یقیناً شہباز نے بتایا ہوگا۔
آپ اپنا خیال نہیں رکھتی۔ دیکھیں رنگ کیسے پیلا ہو رہا ہے؟ میں آپ کے لیے حلوہ بنا کر لائی ہوں دیسی گھی کا۔ کھا کر آپ کو طاقت آ جائے گی۔
وہ اپنے ہاتھ سے چمچ بھر کے اس کے منہ میں ڈالنے لگی۔پھر گل خان اور اس کی بے بے آئی وہ اپنے آپ سے ایک ہی سوال کر رہی تھی کہ کیا میں اتنی اہم ہوں کہ سب کو میری فکر لگ گئی۔ اس کی نظروں میں بہت منظر گھومے کہ اس کے خونی رشتوں نے بیماری میں اس کا ساتھ نہیں دیا۔ اسے نظرانداز کیا۔ کبھی نہیں پوچھا کھانا کیوں نہیں کھا رہی؟ اندر کیوں پڑی ہے؟ یہ انجان لوگ کس طرح چاہت نچھاور کر رہے تھے۔
ڈاکٹر شہزور اور ڈاکٹر آصفہ دونوں نے آکر آج پھر خیر خیریت پوچھی۔ سارے اسٹاف کی طرف سے Get well soon
کا کارڈ اور پھول یہ چار دن اس کے بھر پور چاہت کے تھے۔ کسی کی آنکھیں نہیں بدلی، لہجہ نہیں بدلہ، بہت فکر خیال رکھا گیا مگر وہ ڈاکٹر اسفند یار اس نے کئی بار سوچا شاید وہ یہ بات کسی کو بتانا نہیں چاہتے لیکن یقیناً اب تک میرے بارے میں کوئی فیصلہ کر لیا ہو گا۔بہتر ہو گا ان کے کہنے سے پہلے خود استعفیٰ دے دوں۔ کم سے کم نکالے جانے کی ذلت سے تو بچ جاؤں گی۔وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی کہ یہاں سے جا کر کرے گی کیا؟
وہ اپنا استعفیٰ لکھنے میں مصروف تھی جب اسے ڈاکٹر اسفند کے ٹیلی فون کی اطلاع ملی۔وہ کامن روم میں آ گئی۔
السلام وعلیکم!
بہت بجھے بجھے الفاظ میں سلام کیا۔
وعلیکم السلام طبیعت کیسی ہے اب؟
بڑے خشک انداز میں دریافت کیا ۔
ٹھیک ہے۔
ٹھیک ہے تو ڈیوٹی کیوں نہیں آ رہی؟ آپ کی وجہ سے ڈاکٹر آصفہ پر بہت بوجھ ہے۔
میں کل سے آ جاؤں گی۔اس کے ذہن میں اپنا ادھورا لکھا استعفیٰ گھوم رہا تھا۔
دوسری طرف ٹھیک ہے کہہ کر لائن کٹ کر دی۔
کمرے میں آ کر استعفیٰ پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال کر پرسکون ہو گئی ۔ایسے جیسے کسی پھانسی والے مجرم کی اچانک سزا معاف ہو جائے۔اسے زندگی میں کبھی معافی نہیں ملی تھی۔ آج جہاں سے امید نہیں تھی وہاں سے معاف ہوئی۔زندگی اچانک مہربان ہو گئی اس نے خود سے سوال کیا۔
جب اسپتال آئی سب نے اچھے سے خیر مقدم کیا۔ایسے جیسے بہت وی آئی پی ہے۔ اسفند کے اسٹائل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔وہی روکھا غلطی پر ڈنٹ ڈپٹ کچھ نہیں بدلہ تھا۔
اسے دوبارہ جوائن کیے کافی دن ہوئے تھے۔اسفند نے کبھی اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔بہت بار اس کے کمرے میں کام کے لئے گئی۔ بہت دل کرتا خود ذکر چھیڑ دے مگر ہمت ہار جاتی۔آصفہ سے باتوں باتوں میں سلطان کے بارے میں پوچھا وہ سوچ کر بولی۔
وہ تو بہت دن پہلے ڈسچارج ہو کر چلا گیا ۔تم بیمار تھی اس لیے نہیں پتہ ویسے وہ کچھ خاص بیمار بھی نہیں تھا۔ بڑے لوگ تھے دل تو ان کا تھا اب یہی رہے میں نے بھی اسفند سے بولا رہنے دو۔ ہمارا کیا جاتا ہے؟ وہ مسکرائیں زوبیہ مسکرا نہیں سکی۔ ہر طرف سے اطمینان تھا سوائے اسفند کے ۔ایک شخص تو ایسا تھا جس کی نظروں میں وہ گر گئی تھی۔
_______________
ڈاکٹر اسفند آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔
اس کے ساتھ کوریڈور چلتے آہستہ سے کہا۔وہ ایک مہینے سے اس اذیت سے گزر رہی تھی۔ نجات پانا چاہتی تھی۔
بات تو مجھے بھی آپ سے کرنی ہے۔
وہ اپنے کمرے کے سامنے رکے بغیر چونک کر بولا۔
وہ جلدی سے سوچنے لگی انہوں نے کیا بات کرنی ہے؟
اگر آپ برا نہ مانے تو پہلے میں بات کر لوں؟
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا وہ بھی پیچھے پیچھے ابھی بات شروع نہیں ہوئی۔اس کی ہارٹ بیٹ تیز ہو گئی ۔کتنی مشکل سے اس نے ہمت جمع کی تھی اب وہ پتہ نہیں کیا کہنے والا ہے۔ پتہ نہیں اس کی بات کے بعد بولنے کی ہمت رہے گی کہ نہیں ۔اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ بیٹھ گئی۔
بی جان پوچھ رہی تھی کے آپ کی یہ پھر کب آئے گی۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
جی؟
اس کی بات اس کے سر سے گزر گئی تھی۔
سنا ہے آپ ان سے پھر کبھی آنے کا وعدہ کر کے آئی تھی وہی پھر کب آئے گی پوچھ رہی تھی۔
وہ اتنی حیران ہوئی کہ کچھ بول نہیں پائی۔ ہسپتال میں گھریلو بات وہ بھی جونئیر سے۔
اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو آپ کہہ کر آئی تھی نا؟
اس کے بے وقوفوں کی طرح گردن ہلا دینے پر بولا۔
ٹھیک ہے پھر آج آپ وہاں آ رہی ہیں۔ آٹھ بجے آپ کی ڈیوٹی آف ہو جائے گی۔ میں ڈرائیور بھیجوں گا۔
وہ انٹر کام اٹھا کر ڈاکٹر شہاب کو اندر آنے کا کہنے لگا اسے بیٹھا دیکھ کر حیرانی سے بولا۔
اب آپ جائیں اپنا کام کیجئیے۔
ڈاکٹر اسفند! یہ رہی ساری رپورٹیں۔
ڈاکٹر شہاب اندر داخل ہوتے ہوئے بولے۔وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ انہیں پتہ نہیں میں نے بھی بات کرنی تھی شاید اسی لیے گھر بلوایا ہے۔ یہاں وہ بات کسی کو نہیں بتائی۔یقیناً چھپانا چاہتے ہیں اسی لیے گھر کا بولا۔
ٹھیک آٹھ بجے ڈرائیور اسے لینے آ گیا ملازم کے ساتھ اندر داخل ہوئی گیتی آرا نے استقبال کیا۔
اسفی نے تمہارے آنے کا بتایا تو بہت خوشی ہوئی کشمالہ تو اسفی سے جھگڑا کر چکی کہ آپ کی وجہ سے ہماری زوبیہ آپی یہاں نہیں آتی۔
اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا ۔
تھوڑی دیر میں بی جان بھی آ گئی۔ ان کی گفتگو کا موضوع کشمالہ صائم اور اسفند تھے۔
آرام سے بیٹھو سردی تو نہیں لگ رہی؟ اسے بلا کر خود پتہ نہیں کدھر گم ہو گیا۔وہ اسکی غیر موجودگی سے بدمزہ ہوئی۔ملازم نے کھانا لگ جانے کی اطلاع دی۔
گیتی بولی۔
اسفی کو بھی بلا لو۔
اس پر نظر پڑی تو وضاحت دینے لگی کے اسکے کچھ مہمان آئے تھے وہی کمپیوٹر پر بیٹھ گیا کہہ رہا تھا کھانا لگ جائے تو بلا لینا۔
وہ اندر داخل ہوا۔ زوبیہ نے اسے سلام دیا، اس نے کھانے کے ٹیبل پر کرسی کھینچتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔وہ کھانے میں ایسے مگن ہوا جیسے دن بھر کچھ کھایا نہیں تھا۔ بی جان اور گیتی اس کی تواضع میں مصروف تھیں۔
یہ چکن ٹرائی کرو۔اسفی کو بہت پسند ہے میرے ہاتھ کی۔
یہ فروٹ سلاد۔
اسفند نے کھانے کے دوران ایک دو بار سر اٹھایا وہ بھی بی جان کی بات کا جواب دینے کے لیے۔ اس کا یہ رویہ اسے بہت برا لگا۔
_________
خود بلا کر ایسے ظاہر کر رہا ہے جیسے میں منہ اٹھا کر خود چلی آئی ہوں۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب لاؤنج میں آ گئے۔ کافی ختم کرتے ہی وہ جانے کو کھڑی ہو گئی۔ وہ فون میں کسی سے بات کر رہا تھا۔اسے جاتا دیکھ کر ایک دم خدا حافظ کر کے ریسیور رکھ دیا۔
آئیں میں آپ کو باہر تک چھوڑ دوں۔
بی جان رکنے کا اصرار کر رہی تھی اور بیٹا بھیجنے پر تیار تھا۔ان سے دوبارہ آنے کا بول کر اس کے ساتھ باہر نکل آئی۔چپ چاپ دونوں مرکزی گیٹ سے باہر آئے۔
آپ کیا کہنا چاہتی تھی؟
دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے لاپرواہ انداز میں بولا۔
وہ جو اب تک مکمل مایوس ہو چکی تھی ایک دم چونکی۔
میں وہ اس دن کے بارے میں بڑی مشکل سے الفاظ ڈھونڈ رہی تھی۔ آپ پتہ نہیں کیا سمجھے کیا سوچا کیا ہو گا؟
وہ رک کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا وہ اسکی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔
میں تو ہر وقت ہی کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہوں ، ہر نارمل آدمی سوچتا ہے۔
پلیز ڈاکٹر اسفند!
وہ کچھ دیر اسے خاموشی سے دیکھتا رہا ۔
آپ بہت اچھی ہیں زوبیہ۔ آپ کو کوئی بات ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سب آپ کو جانتے ہیں۔ اچھائی کو کسی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سنجیدگی کے ساتھ نامحسوس اپنائیت تھی لہجے میں۔
آپ کو یہاں اپائنٹ کا فیصلہ میرا تھا۔ میں اپنے فیصلے سے مطمئن ہوں۔
وہ آنسو بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو اس کے سامنے کھڑا ہمیشہ سے مختلف تھا۔ڈاکٹر آصفہ اور ڈاکٹر شہزور آپ کے مقابلے میں ایک اور کو چن رہے تھے مگر آج وہ میرے فیصلے کو داد دیتے ہیں۔
آپ میں مجھے ہمدرد، اچھا انسان نظر آیا تھا جیسا سوچا آپ ویسی ہی ہو۔ آپ میں کچھ خامیاں تھیں۔ادھر مریض کی حالت بگڑی، ادھر آپ کے ہاتھ کانپ رہے مگر یہ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جاتا ہے مگر آپ کی خوبیاں آپ کے بہت کام آئیں گی۔آپ کا خلوص بھرا رویہ آپ کے کامیاب ہتھیار ہیں۔
وہ اتنے کھلے دل سے تعریف کر رہا تھا جو بڑے سے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔
آپ اچھی ڈاکٹر، اچھی انسان اور اچھی کک بھی ہیں گلاب جامن قورمہ بہت اچھا بناتی ہیں۔
دونوں بہت آہستہ چل قدمی کر رہے تھے وہ حیران۔ ظاہری بات ہے الله نے مکمل کسی کو نہیں بنایا سب میں کچھ نا کچھ کمی ہے۔ آپ میں دو بڑی خامیاں ہیں جو خوبیوں پر بھاری پڑ جاتی ہیں وہ یہ ہیں ایک عقل سے کام نہیں لیتی دوسرا جلد بازی سے کام لیتی ہو۔ان پر قابو پا لو تو آپ جیسا انسان ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔
ڈرائیور نے ان کو آتا دیکھ کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔آپ دوبارہ مجھے رات کو اکیلی مردوں کے وارڈ میں نظر آئی تو میں بھی عقل سائیڈ پر رکھ دوں گا۔ ڈرائیور کو گاڑی اسٹارٹ کا اشارہ کر کے اسے بیٹھنے کا کہا۔
آپ بہت اچھی ہیں زوبیہ سب جانتے ہیں۔
کتنے پرانے زخموں کو مرہم لگ گئی ان الفاظ سے۔کتنے سالوں بعد کسی نے اسے اچھا کہا تھا۔ کتنے عرصے بعد آج سکون سے سوئی۔ جیسے بوجھ اتر گیا ہو۔صبح اچھل کر اٹھی۔کمبل پھینکتے ہوئے آئینے کے سامنے:
آپ بہت اچھی ہیں زوبیہ.
اپنی حرکت پر خود ہی ہنس پڑی۔
جلدی سے تیار ہو کر نکلی تو شہباز نے گھاس کاٹنا چھوڑ کر اس سے مخاطب ہوا۔
امی کے جوڑوں میں درد تھا۔
وہ شہباز سے بات کر کے اندر داخل ہوئی تو ڈاکٹر آصفہ، ڈاکٹر شہزور اور اسفند وہاں موجود تھے۔ وہ دس منٹ لیٹ تھی اس پر اسفند نے اچھی خاصی کلاس لی وہ بھی ان دونوں کے سامنے ڈانٹ کر وہ کمرے میں چلا گیا ۔
شہاب ڈاکٹر نے حیران ہو کر پوچھا۔
آج آپ ڈانٹ کھا کر پرسکون ہیں۔ پہلے تو کئی گھنٹے موڈ آف رہتا تھا۔ لگتا ہے آپ کو بھی اب عادت ہو گئی ہے۔
وہ ہنس پڑی۔
____________
خالہ امی کا خط آیا تھا شہلا کی شادی ہو رہی ہے۔لڑکے کی دبئی جاب ہے۔اسے شادی کا سن کر بہت خوشی ہوئی ۔کتنی فکر مند تھی خالہ انہوں نے شادی میں شرکت کی دعوت دی۔وہ اوپر سے لکھ تو دیا مگر دل میں ہو گا نہ آئے۔بہو بیٹے کے رویے کی وجہ سے یہ سب سوچ کر جواب میں اس نے رقم بھجوا دی۔ اس کا اور تھا کون جس پر خرچ کرتی۔
ڈاکٹر آصفہ اور ان کے شوہر امریکہ بیٹی سے ملنے چلے گئے ۔وہ آئے تو اسفند امریکہ چلا گیا۔________________
اس روز صائم کا فون آیا وہ خوش کے ساتھ حیران بھی ہوئی۔ کہاں سے فون کر رہے ہو؟
جناب یہی سے بات کر رہا ہوں اگزامز کے بعد لمبی چھٹی پر آیا ہوں۔
اس نے صائم سے تو کچھ نہیں کہا۔ڈیوٹی ختم ہوتے ہی ان کے گھر آ گئی ۔کشمالہ کے بغیر عجیب سا لگ رہا تھا۔وہ بی جان اور گیتی کے پاس بیٹھنے لگی تو صائم اسے اپنا میوزک سسٹم دکھانے اپنے کمرے میں لے گیا۔
لالہ نے گفٹ کیا ہے برتھ ڈے کا۔کشمالہ بھی جلد نازل ہونے والی ہے۔بول رہی تھی جلد آئے گی۔
یہ تمہارے پاپا کی تصویر ہے؟
دیوار پر لگی فیملی فوٹو میں پوچھا وہ مختصر بولا۔جی۔۔
دیوار پر ایک اور تصویر تھی اسفند اور شیر خان کی دونوں بھائی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ زوبیہ آپی لالہ اور پاپا میں بہت پیار تھا۔ پاپا پولو کھیلتے تھے۔ لالہ اب مجھے بھی سکھا رہے ہیں۔میں بالکل لالہ جیسا بننا چاہتا ہوں ان کی طرح بے خوف، پر اعتماد، نڈر۔
وہ اسے دیکھنے لگی پاپا اچھے تھے مگر لالہ جیسے بہادر نہیں تھے میں لالہ جیسا بہادر بننا چاہتا ہوں۔ایسا لگ رہا تھا کہ صائم اپنے باپ سے کسی بات سے خفا ہے وہ پوچھ کر اسے دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اچھا غصہ میں بھی ان کی طرح بننا چاہتے ہو؟
وہ بولا ہاں
پھر تو ہماری دوستی کچھ ہی عرصہ چلے گی۔پھر تو صائم صاحب غصے والے ہوں گے۔
وہاں جا کر بنا کھانے کے واپس سوال نہیں پیدا ہوتا۔بی جان کے اصرار پر کھانا کھا کر اس بار اس کے دل میں ڈر نہیں تھا کوئی بھی۔
حجستہ اور اس کی ساس اسپتال آئی۔ ان کا چیک اپ کر کے فارغ ہوئی تو ڈاکٹر آصفہ وہی آ گئی۔ پتہ نہیں اس کی کس بات سے انہیں لگا کہ وہ خوش ہے۔
آپ کو کیسے پتہ؟
تمہارے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی ہے۔
صحیح پہچانا۔ آپ نے اصل میں حجستہ کی وجہ سے خوش ہوں۔ ابھی چیک اپ کیا وہ امید سے ہے۔ ساس بھی اب اس کا خیال کر رہی تھی۔
تو تم اس کی خوشی میں خوش ہو۔
اس کی ساس کو سمجھایا تو وعدہ کر گئی کے اب بیٹے کو بھی نہیں مارنے دے گی۔وہ اپنی کوشش سے اس کی ساس کو موم کرنے میں کامیاب ہوئی تھی اپنی کامیابی پر خوش تھی۔
اسفندیار واپس آ گیا تھا اس کے ساتھ ڈاکٹر کی ایک ٹیم بھی تھی۔انکو اسفندیار نے اپنے گھر مہمان رکھا۔وہ آتے ہی لوگوں کی معلومات اکھٹی کرنی شروع کر دی۔ یہ معزور بندہ میری کلاس سے ایک سال آگے تھا۔ ہیلینا نے خود ہی اسکی حیرت دور کر دی وہ اس کو علاقے کی عورتوں سے ملوانے لے گی جبھی رستے میں اس نے بتایا۔
بہت لڑکیاں مرتی تھی مگر مجال ہے کسی کو منہ لگائے۔اب ہینڈسم اوپر سے پراؤڈ، لڑکیاں پاگل تو ہوں گی۔اسکی ایک کلاس فیلو اس کے لیے مسلمان ہونے کو تیار تھی جب اس نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اس نے مارے دکھ کے نیند کی گولیاں کھا لی تھی۔قسمت اچھی تھی بچ گئی۔ہماری لڑکیاں مشرقی لڑکے پسند کرتی ہیں اور اسفند کی طرح ہو تو کیا ہی بات ہے مگر یہ میرے علاوہ کسی سے بات نہیں کرتا مگر حیرت ہے اسکی ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔اس وقت تک تو انگیجمنٹ ہوئی تھی۔ اس نے مجھے بتایا تھا اس کی منگنی ہو چکی ہے اپنی کزن سے اسے پسند بھی کرتا ہے اور یہ کہ اسے کسی فارنر لڑکی میں کوئی دلچسپی نہیں پھر میں پڑھائی کے بعد سوئزرلینڈ چلی گئی پھر رابطہ نہیں ہوا اب پوچھا تو ٹال گیا۔
وہ چپ کر کے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ اسفندیار کا ذکر کرتے اس کے چہرے پر جو رنگ آ رہے تھے اس کا بے ساختہ دل چاہا اس سے پوچھے۔
ڈاکٹر ہیلینا آپ نے اب تک کیوں نہیں کی شادی؟
ان لوگوں کے آنے سے سب روٹین بدل گئیں تھی وہ جو شوق سے کام کرتی اب بوجھ لگنے لگ گیا تھا۔ ان لوگوں کے جانے کے آخری روز سب کو ڈنر پر اہتمام کیا۔جس میں سب ڈاکٹر بھی تھے وہ پچھلی بار کی طرح خاص انوائٹ کی منتظر نہیں تھی اس سے ایسی امید نہیں کی جا سکتی مگر اسے حیرت کا جھٹکا تب لگا جب اسفند خود اس کے کمرے میں آیا۔ رات کو ہونے والی دعوت کا بلاوا دیا۔
سنا ہے آپ میری انویٹیشن پر آنا چاہتی ہیں۔ بی جان کی ہو آپ بیمار پڑ جاتی ہیں۔ وہ دیکھتی رہ گئی وہ کمرے سے چلا گیا۔
وہ ڈاکٹر تاجدار اور رضیہ سسٹر کے ساتھ ان کے گھر آئی تھی ۔سب سے سلام دعا کے بعد وہ ایک کونے میں بیٹھ گئی ۔سب خوش گپیوں میں لگے وہ بے دلی سے کھانا کھا رہی تھی۔
آپ بہت خاموش ہیں ، لگتا ہے بور ہو رہی ہیں۔
وہ اچانک ہی اس کے پاس آ گیا۔شاید میزبانی نبھانے کی خاطر۔
نہیں بور نہیں ہو رہی۔
وہ بہت غور سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔
کچھ پریشان ہیں؟
وہ اس بات پر بے اختیار چونک گئی۔اب جواب میں کچھ بول بھی نہیں پائی تھی کہ ڈاکٹر آصفہ وہاں آ گئی۔ بی جان کے کھانوں کی تعریف شروع کر دی۔گفتگو کا رخ خودبخود بدل گیا ۔ان لوگوں کے جانے کے بعد بھی وہ الجھی ہوئی تھی ۔کوئی بات تھی جو اسے مسلسل ڈسٹرب کر رہی تھی۔
________________
صبح وہ ہاسٹل سے تیز رفتاری سے نکلی۔ باغ سے گزرتی ہوئی جیسے ہی وہ دروازے میں داخل ہونے والی تھی کے کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر پڑی اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ہاتھ سے خون بہتا دیکھ کر جلدی اٹھ گئی۔کشمالہ کی پہنائی چوڑیاں اسے خاصا زخمی کر چکی تھی۔اس کا دل رکھنے کے لئے پہنی تھی اب تقریباً ساری ٹوٹ چکی تھی۔
کوریڈور میں ڈاکٹر اسفندیار اور ڈاکٹر شہزور باتیں کر رہے تھے وہ اپنی کلائی تھامے چلتے چلتے انہیں سلام کیا۔ ڈاکٹر شہزور تو مگن تھے مگر اسفند کی نظر اس کی کلائی پر پڑ گئی۔
معاف کیجئیے گا میں ابھی آتا ہوں۔
وہ اس کے پیچھے آیا۔وہ جلدی فرسٹ ایڈ کا سامان جمع کر رہی تھی۔
کیا ہوا ہے ہاتھ میں؟
اس نے ایک دم ہاتھ نیچے کر لیا۔
ادھر آئیں مجھے دکھائیں کیا ہوا ہے؟
وہ اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
کہاں سے چوٹ لگی ہے؟
کلائی کی بڑی فکر مندی سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
پیر سلپ ہو گیا تھا۔
اس کے جواب سن کر کاٹن سے صاف کرنے لگااور کانچ بھی چبھے ہوئے نکال رہا تھا۔تکلیف کی شدت سے آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔ دانت دبا کر برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
شکر ہے زخم گہرا نہیں ہے۔
اسکی طرف دیکھ کر بولا۔
بہت تکلیف ہو رہی ہے۔
آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھا۔
اس نے تکلیف کے باوجود نفی میں سر ہلا دیا۔وہ اس کے سر ہلانے پر ہنس پڑا۔
اس کے اس طرح آ جانے پر حیرت ہو رہی تھی۔ وہ اس کے جھکے سر کو دیکھے جا رہی تھی۔وہ بینڈیج کر کے سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔
اور تو کہیں چوٹ نہیں لگی؟
اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
آپ اتنی ویک کیوں ہو رہی ہیں؟
لگتا ہے کھانا پینا ٹھیک سے نہیں کھا رہی؟
ناشتہ کیا تھا؟
اگر سچ بول دیتی تو مزید شامت آجاتی۔
ناشتے کے نام پر ایک کپ چائے پیا ہو گا۔
وہ اس کے بولنے سے پہلے بول پڑا۔
پڑھے لکھے جاہل ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اسے پتہ نہیں کیسے پتہ چل گیا کے ناشتہ خاص نہیں کر کے آئی۔
کیا خانساماں کھانا اچھا نہیں بناتا؟
نہیں کھانا اچھا ہوتا ہے۔
وہ جلدی سے سر اٹھا کر بولی کہ بے چارے خانساماں کی کھنچائی نہ ہو جائے۔
اگر کچھ اچھا نہیں لگتا تو مرضی سے بنوا کر الگ کھا لیا کرو۔اپنے پسند کے حساب سے اسے سمجھا دو۔
وہ اس کے اسطرح بولے جانے پر بہت حیران تھی۔اس نے اتنی دیر سے ابھی تک اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔اسے عجیب سی گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔گھبراہٹ میں اپنا ہاتھ گھیسٹا تو اس نے فوراً چھوڑ دیا۔
آپ آرام کرو مگر پہلے کچھ کھا لو۔
میں ٹھیک ہوں بالکل۔
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے بولی۔آپ کو بہت شوق ہے ہسپتال کا بوجھ کندھوں پر اٹھانے کا۔ہم سب ظالم ہیں۔بیماری تکلیف میں بھی کام کروانے لگے ہیں۔
یا الله آج ان کو کیا ہوا ہے؟
دل تیز دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا۔
جا کر اپنے کمرے میں آرام کریں۔لیٹ کر اچھا سا میوزک سنے۔اور آنکھیں بند کر کے وہ سوچیں جس سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔ میں جب بھی ٹینشن میں ہوتا ہوں، یہی کرتا ہوں۔ساری ٹینشن منٹوں میں غائب ہو جاتی ہے ۔کبھی کبھی خواب دیکھنے میں حرج نہیں۔وہ چوٹ کا تعلق کیا ہے ٹینشن سے وہ سوچ رہی تھی۔اس کا دل چاہ رہا تھا جلدی سے بھاگ جائے ۔
کہاں رہ گئے اسفند؟
ڈاکٹر شہزور کی طرف سے آنے والی آواز غیبی مدد لگی تھی ۔وہ اتنی نروس پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔جیسے آج ہوئی۔
وہ بغیر کسی گھبراہٹ کے بولا۔
ڈاکٹر زوبیہ کو چوٹ لگ گی تھی۔وہی دیکھ رہا تھا چلیں۔
چوٹ سن کر انہوں نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا اور خیریت دریافت کی۔وہ شرمندہ ہوئے جا رہی تھی۔معمولی چوٹ ہے۔وہ گھبرا کر بولی۔
اسفند ڈاکٹر شہزور سے بھی پہلے نکل گیا۔وہ بھی دھڑکن سنبھالتی ہوئی ہاسٹل میں آ گئی۔ بیڈ پر گرتے ہوئے اس کے کانوں میں آواز گونجی۔آنکھیں بند کر کے ایسا سوچیں جو آپ کو خوشی دے۔کبھی کبھی خواب دیکھنے میں حرج نہیں۔وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگی تو اٹھ بیٹھی۔مجھے ایسی بات سوچتے بھی شرم آنی چاہیے لیکن ڈاکٹر اسفند کو آج ہوا کیا تھا۔انہیں کیسے پتہ چلا میں الجھن کا شکار ہوں۔وہ بات جان گئے جو وہ خود سے کہتےڈرتی تھی۔
اگلے دن دنیا کا مشکل کام اس کو ڈاکٹر اسفند کا سامنا کرنا لگ رہا تھا۔وہ ہر اس جگہ سے بچ رہی تھی جہاں اسکی موجودگی کا امکان ہو۔ایک جگہ رہتے سامنا نہ ہو ممکن نہیں۔وہ ایک بچے کو بہلا کر کیپسول کھلا رہی تھی، جو کسی سے نہیں کھا رہا تھا۔تب اسفند وہی داخل ہوا۔ وہ اسے نظر انداز کیے اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ وہ جلدی سے نکل گئی وہ وہی تھا دوبارہ بھی سامنا ہوا وہ اس بدلے شخص کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
ڈاکٹر آصفہ نے ہاسٹل فون کر کے اسے اور ڈاکٹر تاجدار کو اپنے گھر دعوت دی تھی۔
حلیم پکا رہی ہوں تم لوگ بھی آ جاؤ۔
کوئی ایمرجنسی نہیں ہوتی تو وہ دونوں میاں بیوی گھر میں اتوار کا دن آرام کرتے۔ جب وہ دونوں وہاں پہنچے تو ڈاکٹر شہاب پہلے سے موجود تھے۔ ڈاکٹر آصفہ ان کی جلدی واپسی کا سوچ کر جلدی کھانا لگانے لگی۔انہیں واپس ڈیوٹی جوائن کرنی تھی ۔وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ ان سب کو بلایا اسفند کو نہیں۔ اتنی دیر میں گیٹ کی بیل ہوئی۔اسفند اندر داخل ہوا
میں کام سے جا رہا تھا ڈاکٹر آصفہ کا مسیج ملا تو چلا آیا ۔
جب بھی یہ لوگ ایک ساتھ ہوتے تو شاعری مقابلہ کرتے اب بھی جاری تھا ڈاکٹر شہزور اور ڈاکٹر شہاب آپس میں کر رہے تھے اور شعر ر سے ڈاکٹر شہاب کو نہیں مل رہا تھا ۔ڈاکٹر شہزور نے کہا بس اب ہار مان لو اتنے میں صوفے پر بیٹھے اسفند نے شہاب کی مشکل آسان کر دی ر سے شعر پڑھ کر :
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
ارے آپ کی یہ خوبی تو آج پتہ چلی۔ آپ بھی دلچسپی رکھتے ہو۔ ڈاکٹر شہاب خوشی کے ساتھ حیران بھی ہوا۔
ڈاکٹر شہروز اسے بغور دیکھ رہے تھے۔اس نے محسوس کر کے بولا۔
اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو میں شعر واپس لے لیتا ہوں۔
نہیں بھئی ایسی بات نہیں۔
وہ خوش دلی سے بولے۔اسی وقت ڈاکٹر آصفہ نے کھانا لگنے کی اطلاع دی۔سب کھانا کھانے چل پڑے وہاں کھانے کے دوران ڈاکٹر شہزور نے ایک شعر اسفند کی طرف دیکھ کر بولا
وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے تم نام نہ لو ہم جان گئے
وہ جس کے لائے گیسو ہیں پہچان گئے پہچان گئے
وہ جن نظروں سے اسفند سے جواب مانگ رہے تھے آنکھوں کے اشارے سے کہا۔
کیسا؟؟؟
بہت اچھا وہ تعریف کرتا بولا۔
اچھا نہیں اچھی۔ڈاکٹر شہزور نے اسے ٹوکا
لیکن آپ تو شعر کی بات کر رہے ہیں۔وہ پر اعتماد مسکراہٹ سے بولا۔
یہ آپ لوگ کیا کوڈ ورڈز میں بات کر رہے ہیں۔اچھا اچھی کیا ہے ۔ڈاکٹر آصفہ نے مداخلت کی۔
کچھ نہیں یہ ہماری آپس کی بات ہے۔وہ ہنستے ہوئے بولے۔
انہوں نے سر اٹھا کر اسفند کو دیکھا جو بڑے سکون سے بیٹھا مسکرا رہا تھا ۔اتنے میں شہاب شعر سنانے لگے سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے ۔آج ہمیشہ سنجیدہ رہنے والے اسفند کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ تھی آنکھیں پرشرارت اور شوخ نظر آئیں۔
گہری سی چمک…
وہ صرف اک پل کے لیے اس سمت دیکھ پائی تھی۔
"کیا ہوا زوبیہ تم تو کچھ لے ہی نہیں رہیں؟؟"
ڈاکٹر آصفہ نے ڈش اسکی طرف سرکاتے ہوے خالی پلیٹ دیکھ کر ٹوکا۔
میں لے چکی آپ نے بہت مزے کا حلیم بنایا ہے۔
یہ مختصر سا فقرہ وہ اسوقت کتنی دقتوں سے بول پائی تھی یہ اسکا دل جانتا تھا...
اپنا احمقانہ انداز میں سر جھکانا اور اسفند یار سے نظریں چرانا اسے جتنا بھی برا لگ رہا ہو مگر اسوقت وہ خود کو اس کیفیت سے نکال نہیں پا رہی تھی...
سر جھکائے بھی وہ محسوس کر سکتی تھی کہ بظاہر سب سے باتیں کرتے ہوئے وہ مسلسل اسے فوکس کیے ہوئے ہےاور اسکے چہرے پر بکھرے رنگوں اور گھبرائے انداز کو انجوائے کررہا ہے...
کھانا کھاتے ہی اسفند یار فورا چلا گیا وہ اور تاجدار بھی قہوہ پیتے ہی اٹھ گے.
کہیں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی دونوں کے رویے میں کوئی تغیر نہیں تھا مگر پھر بھی اک ان کہی سی بات انکے درمیان میں تھی جو اگر اسے مسرت دے رہی تھی تو خوش تو وہ بھی تھا...
بظاہر معمول کے انداز میں کام کرنا، روٹین نبھانا مگر جو دل خوش گمانیوں کے حصار میں آچکا تھ اوہ عام سی بات میں سے بھی خاص معنی نکالتا تھا..
حجستہ اپنا معمول کا چیک اپ کروانے آئی تھی۔
"یہ جوڑا مجھے شہباز نے لاکر دیا ہے. شہر گیا تھا کام سے۔ میرے لیے یہ جوڑا اور چوڑیاں لایا ہے..."
اسنے خوشی خوشی اپنے سرخ رنگ کے ریشمی سوٹ کی طرف اشارہ کیا..
عام گاؤں کی لڑکیوں کی طرح وہ بھی سلکی کپڑوں کو قیمتی اور کاٹن کے کپڑوں کو سستا سمجھتی تھی...
اسے حجستہ کی معصومیت پر پیار آیا تھا..
اگر وہ کراچی لاہور اسلام آباد کی مختلف بوتیکس میں سےلڑکیوں کو کاٹن کے سوٹ آٹھ دس ہزار میں خریدتے ہوئے دیکھ لے تو شاید پاگل سمجھے گی...
وہ اپنے نئے سوٹ اور چوڑیوں پر بے حد خوش نظر آرہی تھی...زوبیہ اسکا خوشی سے دمکتا چہرا دیکھ کر خود بھی مسکرا رہی تھی...
" میں اچھی لگ رہی ہوں ناں ؟؟"
اسکے بچکانہ انداز پر وہ کھل کر ہنس پڑی...
"بہت پیاری بالکل نازک سی گڑیا لگ رہی ہو... "
اسنے سچے دل سے تعریف کی...
وہ شادی شدہ تھی ماں بننے جا رہی تھی مگر تھی تو کم عمر لڑکی ،،اسے اسکی خوشی بڑی فطری لگی...
اسکی خوب تعریف کرنے کے بعد وہ اس سے بہادر کے سلوک کے بارے میں پوچھنے لگی....
"آپکی وجہ سے میرا اتنا تو بھلا ہوگیا کہ اب وہ جب مجھے مارتا ہے تو اماں بچانے آجاتی ہیں"..
میرے لیے تو یہ بھی بہت ہے۔اماں کہتی ہیں کہ جب تو ماں بنے گی وہ بھی بہادر کے بیٹے کی تو وہ بدل جائیگا...
وہ سنجیدگے سے بولنے لگی...
بس آپ دعا کریں ،اللہ مجھے بیٹا دےدے... "
چلتے وقت وہ اسکے ہاتھ تھام کر بولی...
"میں دعا کرونگی حجستہ... لیکن بیٹیاں بھی تو پیاری ہوتی ہیں..."
اس نے سمجھانا چاہا...
"نہیں مجھے بیٹا چاہیے .. بیٹی ہوئی تو میری طرح خاوند کے جوتے کھائے گی...روٹی ملے نہ ملے مگر صبح شام خاوند کے جوتے پیٹ بھر کر کھانے کو ملیں گے... ".
وہ بڑے ضدی اور ناراض انداز میں بولی تو وہ خاموش ہوگئی تھی...
______________
بہت دنوں سے اسکا خالہ امی سے کوئی رابطہ نہ ہوسکا تھا۔ پیسے وہ پابندی سے بھیج رہی تھی مگر وہاں سے کوئی خط نہ کوئی فون...
اس سے پہلے بھی دو مرتبہ خالہ امی کا فون ملانے پر بھی بات نہ ہوسکی...
اسنے انہیں فون کرنے کا سوچا...
مگر فون کرنے پر جو اطلاع اسے ملی ، وہ اسکے حواس کو درہم برہم کرنے کیلیے کافی تھی...وہ کتنی دیر تک سکتے کی کیفیت میں سر تھامے بیٹھی رہی...
وہ عورتوں کے وارڈ سے ہوکر واپس آرہی تھی جب اسے کوریڈور میں پیرا میڈیکل اسٹاف کے چار پانچ افراد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر آصفہ بھی اک سٹریچر کے پاس کھڑی ملی۔
ان لوگوں کو اسطرح جمگھٹا لگائے دیکھ کر پہلے تو اسے کوئی تعجب نہیں ہوا مگر ذرا قریب آنے پر اسکے نظر کونے میں کھڑے چند علاقائی لوگوں کے ساتھ ساتھ شہباز پر پڑی تووہ بری طرح چونکی...
اسے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا...
اسکا وجدان کسی خطرے کی نشان دہی کررہا تھا...
وہ انتہائی تیز رفتاری سے چلتے ہوئے ان سب کے پاس آئی...
"کیا ہوا ڈاکٹر آصفہ؟؟".
سراسیمگی کے عالم میں اس نے پوچھا..مگر انکے جواب دینےسے پہلے ہی اسکی نظر اسٹریچر پر پڑے وجود پر پڑچکی تھی...
"حجستہ"...
وہ چلائی تھی.. کیا ہوا اسے؟؟؟..
خون میں لت پت بیہوش حجستہ وہ لڑکی لگ ہی نہیں رہی تھی جو اسےدوپہر میں خوشی خوشی اپنا سرخ جوڑا اور سر سبز و سرخ چوڑیاں دکھا کے گئی تھی...
کپڑے تو اب بھی اسکے تن پر وہی تھے مگر کس حال میں...؟؟؟
"اسکے پیٹ میں گولی لگی ہے"...
ڈاکٹر آصفہ نےاسکی کیفیت دیکھتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے آہستگی سے بتایا...
"گولی"
اسکا دل اندر ہی اندر ڈوبا...کیسے؟؟ کس نے ماری اسے گولی" ؟
وہ اسکی نبض چیک کرتے ہوے ہذیانی انداز میں چیخی تھی...
"اور آپ نے اسے یہاں کیوں رکھا ہوا ہے؟؟؟ آپریٹ کریں... گولی نکالیں"..
"حجستہ آنکھیں کھولو دیکھو میں تمھارے پاس ہوں میں تمھیں بچالونگی ... تمھیں زندہ رہنا ہے حجستہ... ہمت سے کام لو"...
سب لوگ اسے چیختے چلاتے تعجب سے دیکھ رہے تھے ...
ڈاکٹر شہزور کو وارڈ بولتے بلا کر لے آیا تھا جبکہ اسفند یار کو ڈاکٹر آصفہ نے خود فون کر کے فوراً آنے کے لیے کہا تھا..
"ہٹیں اک طرف"..
ڈاکٹر شہزور لوگوں کو ہٹاتے بولے...
سخت ترین بے بسی کے عالم میں اسکے نظر سامنےسے تیز قدم اٹھا کر اسطرف آتے اسفند یار پر پڑی تو وہ بھاگتی ہوئی اسکے پاس آئی تھی...
"حجستہ کو بچالیں پلیز"
وہ التجائیہ انداز میں اس کا بازو پکڑ کر بھرائی آواز میں بولی تھی...
وہ بےلچک اور مضبوط انداز میں بولتا آپریشن کی تیاری کا حکم دیتا فورا وہاں سے چلا گیا تھا...
اسٹریچر آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ خود بھی وہاں کی طرف بڑھی...
وہ تینوں مخصوص گاؤنز اور گلوز پہن کر آپریشن شروع کرنے لگے اردگرد نرسیں اور اسٹاف بھی موجود تھا...
اسکے لب تیزی سے ہل رہے تھے ہر وہ دعا جو اسے یاد آرہی تھی وہ پڑھ رہی تھی..
اچانک سے ڈاکٹر شہروز اور اسفند یار کے ہاتھ رک گئے...ڈاکٹر آصفہ نے اک دکھ بھری نگاہ حجستہ پر ڈالی تھی...
اور ہاتھ لٹکا کر یوں کھڑی تھیں جیسے اب کچھ نہیں ہو سکتا...
ڈاکٹر شہزور آہستہ آواز میں شاید اسفند یار سے بولے... "گولے جس اینگل سے لگی اور پھر جتنا خون بہ گیا اتنی دیر بھی یہ زندہ رہ لیں یہ معجزہ ہی ہے...
ورنہ موت تو پہلے ہوجانی چائیے تھی...
اسکےکان سائیں سائیں کرنے لگے "موت"
ڈاکٹر آصفہ اسکی طرف بڑھی تھیں ابھی وہ اسکے پاس آکر کہیں گی خجستہ مر گئی۔۔۔
وہ کیسے سنے گی؟
ان کو آتا دیکھ کر وہ تیزی سے باہر کی طرف بھاگی تھی...
وہ سب کے درمیان راستہ بناکر لوگوں کو چیرتی ہوئی اندھا دھند بھاگ رہی تھی...
بے دھیانی میں بھاگتے اسے ٹھوکر لگی اور وہ بے اختیار گری تھی..
"زوبیہ"
کوئی اسے آواز دے رہا تھا...
پتہ نہیں وہ کتنی ہی دیر کوریڈور کے فرش پر اپنا سر گھٹنوں میں چھپائے روے جا رہی تھی...
زوبیہ بچے صبر کرو اسے اسی طرح جانا تھا جلد یا بدیر مگر جانا تو ہے... ،ہمیں بھی جانا ہی ہے...
ڈاکٹر شہزور اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سمجھا رہے تھے..
منجمد آنکھوں سے وہ ان کی طرف دیکھے جارہی تھی.
ان لوگوں کے پاس سے اسٹریچر پر سفید چادر سے ڈھکا ہوا وجود گزرا تو اس نے اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کر لی تھیں.
"میں نے آپ سے کہا تھا نا میں ایسی جگہ چلی جاؤں گی جہاں کبھی بھی کوئی مجھ پر ظلم نہیں کر سکے گا ، دیکھیں میں جارہی ہوں" اس وجود سے آواز آئی تھی.
"خجستہ ،رک جاو میری بات سنو ". وہ اسکے پیچھے بھاگنا چاہتی تھی مگر ڈاکٹرشہروز نے اسے مضبوطی سے ہاتھ پکڑ کر روک لیا تھا. اگلے لمحے وہ ان کے سینے پر سر رکھے دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔
"صبر کرو بیٹا! " وہ اسکا سر تھپک رہے تھے.
"آپ کچھ نہیں جانتے ڈاکٹر شہزور! کچھ بھی نہیں ، وہ میرے لیے کیا تھی. میں اسے زندگی سے پیار کرنا سکھا رہی تھی. اس کی کھوئی ہنسی لوٹانے کی کوشش کررہی تھی مگر سب ختم ہوگیا۔"
اسے نہیں پتا تھا کون اسے دیکھ رہا ہے، کون وہاں ہے ، کون نہیں. اسے بس خود اپنی چیخوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
زوبیہ! تمھیں وہاں جانا ہے. کیا آخری بار اسے نہیں دیکھو گی۔ ڈاکٹر آصفہ بیڈ پر اسکے سرہانے بیٹھی مسلسل اسے سمجھا رہی تھیں. وہ کسی سے کچھ نہیں بول رہی تھی. بس آنسو تھے کے متواتر بہے چلے جارہے تھے.
چارپائی پر بے جان پڑے اس جسم کو کل اس نے سرخ لبادے میں ہنستے کھلکھلاتے دیکھا تھا.
"گولی مارتے ہی بھاگ گیا تھا بہادر! پتا نہیں کہاں سے اسکے دوست اسے واپس بلا کر لاۓ ہیں کہ اگر بھاگے گا تو قتل کا الزام ثابت ہو جاۓ گا، پولیس سے تو یہ کہا ہے کہ پستول کی صفائی کر رہا تھا ، غلطی سے پستول چل گئی اور سامنے بیٹھی خجستہ کو لگ گئی. ویسے لگتا ہے چکر کچھ اور ہی ہے ،شاید اسکا شہباَز سے کچھ چکر تھا اور یہ بات بہادر کو پتا چل گئی تھی. "
"بند کرو بکواس ".
وہ ان عورتوں پر چلائی تو آس پاس بیٹھے تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے.
ڈاکٹر آصفہ نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر کسی جارحانہ عمل سے روکا تھا.
"اگر وہ جماعت کی وجہ سےالٹی سیدھی باتیں کررہی ہیں تو تم تو سمجھداری سے کام لو. " انہوں نے اسے ٹوکا تھا.
... اس کے ماں باپ، بہن بھائی آنسو بہا رہے تھے ،اسکا دل چاہا کہ اسکے باپ کو دھکے دے کر وہاں سے نکال دے اور کہے" تمھیں اسکی موت پر ایک آنسو بہانے کا بھی حق نہیں صرف دس ہزار روپوں کے لیے تم نے بیٹی ایک ظالم کو سونپی تھی، اب ٹسوے بہا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو."
بہادر پولیس کی تحویل میں تھا ، پولیس اس کا بیان، ڈاکٹری رپورٹ اور اس وقت گھر پر موجود لوگوں کے بیان قلم بند کر رہی تھی.
"مجھے کیا پتا تھا ، میرا لایا ہوا جوڑا اس کی موت کا سبب بن جاۓ گا، وہ اسکے کردار پر شک کرتا تھا، ہم لوگ اچھی طرح بولتے تھے تو اسے غصہ چڑھتا تھا. اسے اپنی زیادہ عمر کا بہت احساس تھا اسی لیے وہ اسے دبا کر رکھتا تھا، لیکن وہ یہ سب کر جاۓ گا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا. اگر پتا ہوتا تو کبھی اسکے لیے کوئی تحفہ نہ لاتا. بس اسکے نئے کپڑے دیکھ کر اسے آگ لگ گئی تھی، مجھ سے بھی لڑا تھا کہ میں اپنی بھابھی پر گندی نظر رکھتا ہوں بات بڑھتے بڑھتے زیادہ بڑھ گئی تھی کہ خجستہ بھی چیخنے لگی تھی. میں اور اماں تو دیکھتے ہی رہ گئے اور بہادر نے نیفے میں پھنسی ہوئی ریوالور نکال کر اس پر فائر کر دیا...
شہباَز سرگوشی میں آہستہ آہستہ کل کا سارا واقعہ سنا رہا تھا اسے اور ڈاکٹر آصفہ کو۔
" کاش میں نے اسے اپنے پاس روک لیا ہوتا. بس چار گھنٹے اور اسے اپنے پاس روکے رکھتی. وہ گھڑی ٹل جاتی تو اسے واپس گھر بھجوادیتی. لیکن نہیں اسے واپس ہی نہ بھجواتی۔اپنے پاس ہی رکھ لیتی اسے وہاں کبھی بھی نہیں جانے دیتی" وہ خود سے کہہ رہی تھی...
اسکے اندر زندہ رہنے کی خواہش ہی دم توڑ گئی۔
اس روز کے بعد اس نے خجستہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی. اندر ہی اندر وہ خود بھی ختم ہورہی تھی..
اب زندگی میں کبھی کوئی روشن پل نہیں آۓ گا. اب زندگی کبھی کوئی مدھر گیت نہیں گائے گی...
چوتھے روز وہ خود کو زبردستی گھسیٹ کر ہاسپٹل لے آئی تھی.
کسی نے براہ راست اس بارے میں اسے کوئی بات نہیں کی تھی ، مگر سب اسے ترحم بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے. آج بچوں کو کہانیاں سناتے ہوۓ اسکا دل کررہا تھا کہ آخر میں کہانی کا اختتام ہی بدل دے.
"پھر سنڈریلا آخر میں اکیلی رہ جاتی ہے. کوئی شہزادہ اسے لینے نہیں آتا".
" سنو وائٹ زہریلا سیب کھا کر مر جاتی ہے پھر شہزادے کے جگانے پر بھی نہیں اٹھتی"
بچے اس جادوگرنی کےمکان پر پہنچتے ہیں جس پر بڑے بڑے کیک، چاکلیٹس اور خوب ساری آئس کریمز لگی ہوتی ہیں تو جادوگرنی انھیں اندر بلا کر کھولتے تیل والی کڑھائی میں ڈال دیتی ہےاور وہ دونوں بہن بھائی جل کر مر جاتے ہیں. "
" ہاں یہی زندگی کی سچائی ہے، زندگی بہت بے رحم اور ظالم ہے، اس سے خوش امیدی وابستہ کرنا بےکار ہے. "
وہ سست قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی ، جب چوکیدار اسے ڈھونڈتا ہوا اسی طرف آیا تھا..
" آپ کو ڈاکٹرصاحب بلارہے ہیں "مردہ قدموں سے چلتی ہوئی چوکیدار کے پیچھے گیٹ تک آگئی تھی...
اسفندیار جیپ میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا..
"بیٹھیں".. اسے دیکھ کر دوسری طرف کا دروازہ کھولتے ہوۓ وہ عام سے انداز میں بولا،
"کہاں جانا ہے. ؟".. اس نے بے دلی سے پوچھا تھا.
" اِک ضروری کام سے جانا ہے، آپ جلدی سے بیٹھیں "...
وہ اگنیشن میں چابی گھماتا ھوا اس کی طرف دیکھے بغیرگویا ہوا تھا ،وہ مزید سوال جواب کیے بغیر جیپ میں بیٹھ گئی۔
"کوئی پوچھے تو کہنا کسی ضروری کام سےگئے ہیں ، واپسی پر تھوڑی دیر ہوجائے گی". وہ گاڑی فرسٹ گئیر پر ڈالتے ہوۓ چوکیدار سے بولا..
خاموشی سے ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے ایک بار بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تھا..
اس نے ایک دو بار الجھی نظریں اس پر ڈالی تھیں آخر وہ اسے کہاں لے کر جارہا تھا..
.... ایک گھنٹے کی تیز ترین ڈرائیو کے بعد اس نے جیپ درختوں کے جھنڈ کے نیچے روکتے ہوئے اسے نیچے اترنے کے لیے کہا تھا. وہ اتر تو آئی تھی مگر اب حیرت سے اس ویران جگہ کو دیکھ رہی تھی.
وہ آگے بڑھا تو وہ بھی اسکے پیچھے چلنے لگی تھی.. سامنے بہتی جھیل کے پانی اور ہوا سے ہلتے درختوں کے پتوں کے سوا وہاں دور دور تک کوئی آواز نہیں تھی. جھیل کے کنارے پہنچ کر وہ درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ گیا تھا اسے بھی اشارے سے بیٹھنے کا کہا گیا تھا ، وہ بے دلی سے اس سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر وہ یوں ہی پاس پڑے چھوٹے چھوٹے پتھر پانی میں اچھالتا اور بھنور بنتے دیکھتا رہا..
"کیا بات ہوئی ہے زوبیہ؟؟" اس نے اچانک اسکی طرف رخ کر کے سوال کیا تھا۔
سوال میں چھپے معنی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔
خجستہ کے مرنے کے علاوہ کوئی بات ہوئی ہے۔تمہاری بات تمہاری اپنی زندگی کی کوئی بات۔
وہ اپنے مستحکم انداز میں کہہ رہا تھا کہ وہ دھک سی رہ گی تھی۔
تم مجھے نہیں بتاو گی مجھ سے شئیر کرو گئی۔زوبیہ کیا ہوا ہے پلیز مجھے بتاؤ۔ وہ اس کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ کر بڑے اصرار سے بول رہا تھا۔وہ جواب میں اس سے بولنا چاہتی تھی۔
آپ کو غلط فہمی ہو رہی ہے .میرے ساتھ کچھ نہیں ہوا کوئی پرابلم نہیں ہے میرے ساتھ مگر بجائے یہ کہنے کہ اس کے منہ سے ایک مختلف جملہ نکلا تھا "میری خالہ امی مر گئی۔" جملہ مکمل کرتے کرتے وہ رو پڑی تھی.جواباً اس نے ایک گہری سانس لے کر آہستگی سے پوچھا تھا
کب؟
پانچ مہینے ہو گے اور مجھے چار روز پہلے پتا چلا کہ مجھ سے تھوڑی بہت مصلحت آمیزی سہی محبت کرنے والی واحد ہستی تھیں اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔
وہ گھٹنوں پر سر رکھ کر روتے ہوئے بول رہی تھی.اس نے تسلی دینے والے انداز میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا مگر اسے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی تھی
میں ہر مہینہ انھیں پیسے بھیجا کرتی تھی کبھی ﮈاکٹر تاجدار سے منی آرﮈر کرواتی۔ کبھی اسٹاف کے کسی اور بندے سے کہہ کر۔ سب کو پتا رہے کہ میں بے آسرا اور بے ٹھکانا نہیں۔ پیچھے میرا ایک گھر ہے کچھ لوگ ہیں میرے اپنے جنہیں میری پرواہ ہے. پچھلے پانچ مہینوں سے اس طرح میرے بھیجے ہوئے پیسے موصول ہوئے جا رہے تھے.خالہ امی پڑھی لکھی نہیں تھی وہ شہلہ سے خط لکھواتی تھی اس کی شادی کے بعد ان کے خط آنا بند ہو گے تو میں حیران نہیں ہوئی.میں نے اس دوران دوبارہ فون کیا تو بھابی نے کہا۔ نہا رہی ہیں یا بازار گئی ہیں اور میں نے ان کی بات سچ مان لی پھر اس روز جب میں نے فون کیا تو بھائی کے بجائے ملازمہ نے فون اٹھایا اور میرے پوچھنے پر مجھے یہ خبر سنائی تھی۔
وہ زار وقطار روتے ہوئے اسے بتا رہی تھی اس نے مزید کوئی سوال نہیں کیا تھا بلکہ اپنا ہاتھ بھی واپس ہٹا لیا تھا۔ بہت دیر تک روتے روتے وہ خود ہی چپ ہو گئی تھی۔ گھٹنوں پر سے سر اٹھا کر چہرہ ﮈوپٹے سے خشک کرتی وہ اپنے سچ بولنے سے زیادہ اس کے صحیح بات کھوج لینے پر حیران تھی۔
تمہیں حیرت ہو رہی ہے ک مجھے یہ کیسے پتا چلا بات یہ ہے زوبیہ خلیل کہ جن کی ہمیں بہت پرواہ ہوتی یے ہم ان کے چہرے پر لکھی ہر تحریر پڑھ لیتے ہیں۔ تم خجستہ سے بہت پیار کرتی تھی مجھے پتا ہے مگر اس روز تمہارا ابنارمل رویہ دیکھ کر مجھے لگا شاید تم پہلے ہی کسی صدمے کے زیر اثر ہو اور دوسرا صدمہ تم سہہ نہیں پا رہی۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ کوئی دو دکھ ہیں جو آپس میں مل گئے ہیں اور جنھوں نے تمہیں اس طرح تور پھوڑ دیا ہے۔ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے رسانیت سے کہہ رہا تھا ل۔
ہاں دو دکھ تو ہیں ایک خجستہ کے مرنے کا اور دوسرا زوبیہ خلیل کے مرنے کا اور وہ پہلی بار نہیں مری اس سے پہلے بھی کئی بار مر چکی ہے۔ آپکو پتا ہے زوبیہ مر گئی اس دن خجستہ کی لاش دفن ھوئی اور اس کی ہر آس ہر امید ہر خواہش سب دفن ھو گئی۔ اب میرا کوئی گھر نہیں میں اکیلی ہوں۔ میرا کوئی نہیں بلکل تنہا میں سوچتی تھی کہ کوئی مشکل پڑی کوئی الجھن آئی تو کم از کم خالہ امی کا گھر تو مجھے ضرور پناہ دے گا وہ بھی ختم ہو گئی اور کسی نے بتایا تک نہیں میں اتنی قابل نفرت تھی اتنی بیکار ہستی تھی کہ مجھے کسی نے اطلاع دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ وہ تاحد نگاہ پھیلی ہوئی جھیل پر نظریں مرکوز کیے عجیب سی بے بسی میں گھرے بول رہی تھی۔
تم اکیلی نہیں ہو زوبیہ۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اس کا ہاتھ تھامے ھوئے اس نے یقین دلایا تھا.آپ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے ﮈاکٹر اسفند کچھ نہیں اگر میری سچائی جان لیں تو دوبارہ شاید کبھی۔۔۔۔م
اس نے بات کاٹ دی۔
تم کل کیا تھی؟ تمہارا کیا ماضی تھا؟مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اسے خامیوں خوبیوں سمیت قبول کر لیتے ہیں محبت میں سودے بازی نہیں ہوتی۔وہ بے چینی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔اتنا اندھا اعتماد اتنا اندھا بھروسہ اس کے دل کی عجیب کیفیت تھی۔
آپ بس مجھے پچھلے ڈیرھ سال سے جانتے ہیں پھر بھی یہ سب کہہ رہے ہیں ۔آپ کو کیا معلوم میری زندگی کے پیچھے کتنے باب سیاہ تھے میں نے آپ لوگوں سے کیا کیا جھوٹ بولے۔آپ کو پتہ چلے تو حیران رہ جائیں ۔بظاہر ایماندار سچی لڑکی کتنی دھوکے باز ہے ۔میں نے آپ لوگوں سے کہا میرے ماں باپ مر چکے ہیں ساری دنیا میں ایک خالہ کے علاوہ کوئی نہیں مگر نہ وہ میری سگی خالہ تھی نہ میں کراچی تنہا رہنے کے ڈر سے ان کے پاس پشاور گئی۔کیا آپ سوچ سکتے ہیں میرا کراچی میں ایک گھر ہے جہاں میرے دو بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
وہ گھر جہاں پیدا ہوئی، پلی بڑھی، جوان ہوئی ایسا کیا ہوا کے باپ کا گھر چھوڑ کر خالہ کے پاس آ گئی ۔وہ بہت بے رحمی سے بول رہی تھی ۔
میں یہ بات بہت پہلے سے جانتا ہوں ۔وہ اطمینان سے بولا وہ اسکی طرف دیکھتی رہ گئی۔
تم نے گھر کیوں چھوڑا وجہ نہیں پتہ مگر جب سے تم نے جوائن کیا تب سے سب جانتا ہوں کہ تمہارے دو بھائی اچھے گھر میں ہیں۔ باپ کی گاڑیوں کا شو روم تھا۔جسے اب تمہارے بھائی چلا رہے ہیں ۔انٹرویو کے وقت جیسے کہ بتا چکا ہوں آپ بہت پرخلوص لگی۔ تمہارا اس بات پر گڑبڑا جانا کہ تم کیوں یہاں جاب کرنا چاہتی ہو؟ میں کھٹکا ایسے جیسے بہت کچھ چھپا رہی ہو ۔تمہارے ڈاکومنٹس سے کراچی کا لینا کوئی مشکل نہیں تھا ۔تمہارے بارے میں درست معلومات لینا چاہتا تھا اور لی بھی ایک لڑکی اپنا گھر چھوڑ کر اپنی باتیں چھپاتی ہے پھر بھی میں نے تمہیں اپائنٹمنٹ میں رہنے کی اجازت دی۔اتنے ٹائم میں جو میں نے جانا میرا انداز غلط ثابت نہیں ہوا۔
وہ شروع دن سے اس کے جھوٹ کو جانتا تھا۔
اس سے زیادہ تو آپ یقینا کچھ نہیں جانتے ۔میرے ماضی کے بارے میں۔اس نے سر اٹھا کر سنجیدگی سے کہا۔اسفندیار خاموش بیٹھا رہا ۔
پھر آج آپ زوبیہ خلیل کا ماضی جان لیں اور میں سب سچ بتاؤں گی اس لیے نہیں کہ آپ مجھے جرأت مند سمجھیں اس لیے کے کوئی اگر بتائے گا، کن الفاظ میں بتائے وہ میں سہہ نہیں پاؤں گی…
میرے گھر میں ابو بہت پیاری امی تھی میرے ابا کراچی یونیورسٹی میں پڑھے۔ایم اے کیا ہوا تھا مگر تعلیم ہونے کے باوجود انتہا پسند تھے۔ بہت سخت ظالم شوہر تھے ۔امی ہر وقت ڈرتی کہ کوئی بات ان کے مزاج کے خلاف نہ ہو جائے۔
ان کے مزاج کے خلاف بات ہو جاتی زمین آسمان ایک کر دیتے ۔امی کا کسی کے گھر جانا ملنا خاص کر مرد رشتہ داروں کا آنا جانا برداشت نہیں ہوتا تھا۔ان کے رویے سے خائف ہوکر لوگوں نے خود ہی ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا ۔امی بازار نہیں جاسکتی تھیں ۔وہ امی کی اور ہم بہن بھائیوں کی ساری خریداری خود کرکے لے آیا کرتے تھے۔ہمارے گھر میں روپے پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ابی کا شوروم بہت اچھا چل رہا تھا اس کے علاوہ ان کی طارق روڈ پر تین دوکانیں تھیں۔ جہاں سے ہر ماہ ٹھیک ٹھاک کرایہ آجایا کرتا تھا ۔گھر میں تین تین گاڑیاں تھیں مگر اس کے باوجود امی بہت چپ چپ اور بجھی ہوئی رہتی تھیں ۔ انہوں نے شوہر کی خدمت میں خود کو مٹا ڈالا تھا مگر ابی پھر بھی معمولی سی بات پر انہیں ذلیل کر کے رکھ دیا کرتے تھے ۔ہم بہن بھائیوں کے سامنے، کسی آئے گئے کے سامنے ، جب وہ کسی کے سامنے شدید طیش کے عالم میں چیخ چیخ کر امی کو برا بھلا کہتے تو وہ مجھےبہت برے لگتے تھے۔
امی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ صرف ہم تینوں بہن بھائیوں کی وجہ سے ہی آیا کرتی تھی ۔وہ ہم لوگوں سے بہت پیار کرتی تھیں ، مجھ سے تو بہت ہی زیادہ۔میں اپنے بھائیوں سے بہت چھوٹی تھی۔ میں سات سال کی تھی جب ابی نے ریحان بھائی کی شادی طے کردی تھی،امی ان دنوں بہت بیمار رہنے لگی تھیں.
جب شیما بھابھی رخصت ہو کر ہمارے گھر آگئی تھیں۔ابی کے لئے ان کی بیماری ڈرامہ بازی اور ڈھکوسلہ تھی۔ وہ ابی سے چوری چھپے کبھی ریحان بھائی ،
کبھی فرمان بھائی کے ساتھ ڈاکٹر کو دکھا آتیں۔ڈاکٹر مختلف ٹیسٹ بتاتا،دوائیں دیتا وہ دوائیں تو کھالیتیں مگر ٹیسٹوں وغیرہ کیطرف توجہ نہ دیتیں۔شاید ابی کے نظر انداز کرنے کی سزا وہ اپنے آپ سے لی رہی تھیں مگر پھر ایک روز ایسا آیا جب ابی کو بھی یہ ماننا پڑا کہ وہ ڈرامہ نہیں کر رہی ہیں،ل مگر جب انہوں نے یقین کیا اس روز میری ماں سفید کفن اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر جا چکی تھی۔
چند دن ابی کے ندامت میں گزرے۔انہیں تھوڑا بہت ملال ہوا کہ بیوی کے علاج معالجے پر مناسب توجہ کیوں نہ دی۔ امی سے جو خدمتیں کروانے کی عادت ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ سے بھی ان کی کمی بہت محسوس ہوئی مگر پھر آہستہ آہستہ انہوں نے اس ماحول میں ایڈجسٹ کرلیا۔
شیما بھابھی جنہیں بیاہ کر آئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے،امی کے بعد گھر کا سارا نظم ونسق ابی نے ان کے ہاتھ میں سونپ دیا تھا۔وہ ابی کے خوب آگے پیچھے پھرتی تھیں ۔انکا بہت خیال رکھتی تھیں اسی لیے کچھ ہی عرصے میں ان کی پسندیدہ ترین شخصیت بن گئی تھیں ۔
امی کی جن خدمتوں کو وہ درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے، بھابھی انکا نصف بھی کرتیں تو وہ تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے۔شایداس لئے کہ وہ تو بیوی تھیں، بیوی جو پیر کی جوتی ہوتی ہےاور شیما بھابھی تو انکا خون تھیں۔ ان کی سگی بھانجی۔ لاڈلی بہن کی اولاد۔ ابی گھر کا ہر کام شیما بھابھی کے مشورے سے کرنا پسند کرتے تھے۔میرے ساتھ شیما بھابھی کے تعلقات نارمل سے تھے۔میرا اپنا لگا بندھا روٹین تھا ۔جس سے ہٹنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔میں ان کے لیے کسی بھی قسم کی تکلیف کا باعث نہیں تھی۔ساڑھے سات،آٹھ سال کی بچی سے انہیں پرخاش ہو بھی کیا سکتی تھی۔
ابی کا ہم لوگوں پر غیر معمولی احسان یہ تھا کہ ہم بہن بھائیوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی تھی،مگر ریحان بھائی اور فرمان بھائی دونوں ہی کو پڑھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا۔اس لیے گریجویشن کر کے ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئےتھے۔میں بھی کوئی بہت اچھی ذہین طالبہ نہیں تھی،بس گزارے لائق پاس ہو جایا کرتی تھی۔ہر بار رپورٹ کارڈ دیکھتے ہوئے ابی کا پارہ آسمان پر چڑھ جایا کرتا تھا۔
ساری کی ساری اولاد کندذہن ہے،کسی ایک کو بھی تعلیم کا شوق نہیں۔
میں بڑی ہو رہی تھی،ابی کےخوف ک باوجود میرے اندر بہت سی معصوم معصوم سی خواہشیں جنم لینے لگی تھیں۔میرا دل چاہنے لگا تھاکہ میں بھی اپنی دوستوں کی طرح اپنی شاپنگ اپنی پسند سے کیا کروں؟ میری وارڈروب کپڑوں سے بھری ہوئی تھی مگر ان میں میری پسند کا ایک بھی کپڑا نہیں تھا۔سارے کے سارے ابی اور شیما بھابھی کے پسند کے کپڑے تھے،اسکول کے علاوہ مجھے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔میری کسی دوست کے گھر کوئی فنکش ہوتا یا اسکول میں کوئی پکنک،پارٹی ہوتی میرے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ایک بار میری بیسٹ فرینڈ کرن کی برتھ ڈے پارٹی تھی۔اس نے بڑے اصرار اور خلوص سے مجھے انوئیٹ کیا۔میں نے اس کے اصرار سے مجبور ہو کر جب اسے یہ بتایا کہ مجھے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تو میرے پیچھےلگ گئی کہ وہ ابی سے خود بات کر کے مجھے اجازت دلوائے گی۔جب وہ ہمارے گھر دعوت دینے آئی اپنی ممی ڈیڈی کے ساتھ تو ابی ان لوگوں سےجتنے روکھے پھیکے اور سردانداز میں ملے اسے دیکھتے ہوئے وہ لوگ تھوڑی دیر ہی ٹھہرے تھے۔ان کے جاتے ہی ابی جو میرے اوپر چیخے چلائے اور برا بھلا کہا تو جب تک شیما بھابھی نے آکر بیچ بچاؤ نہیں کرایا چپ نہیں ہوئے۔ماں کی طرح سیرسپاٹوں کی شوقین ہے۔اسکول پڑھنے بھیجتا ہوں یا رشتےداریاں کرنے۔ آج کے بعد کسی دوست کے گھر جانے کی بات کی یا کوئی ہمارے گھر آیا تو گھر بٹھالوں گا۔"انہوں نے وارننگ دینے والے انداز میں کہا تھا۔
مجھے اس سب کا پہلے ہی اندازہ تھا۔اگلے روز میں اسکول گئی تو کرن نے بات چیت تو درکنار مجھ سے ہاتھ تک نہیں ملایا تھا۔اس کی اور اس کے والدین کی ہمارے گھر جو عزت افزائی ہوئی تھی اس کے بعد اس کا ناراض ہونا بالکل جائز تھا۔ میرےبہت معذرت کرنے پر بھی اسکا دل صاف نہیں ہوا تھا۔ مجھے چھوڑ کر اس نے دوسری فرینڈز بنالی تھیں ۔
تب زندگی میں پہلی مرتبہ میرے دل میں ابی کے لیے نفرت پیدا ہوئی تھی ۔ابی اپنا گھر اور گھر کا ماحول مجھے سب سے سخت نفرت محسوس ہونے لگی تھی ۔
مجھے ایسا لگتا میں کسی قید خانے میں زندگی گزار رہی ہوں ۔جس سے چند گھنٹوں کے لیے چھٹکارا مجھےصرف اسکول جاکر ہی نصیب ہوتا تھا۔میری دوستیں فلموں،ڈراموں،فیشن،کپڑوں،کرکٹرز،فلم ایکٹرز اور ان کے اسکنڈلز کے بارے میں باتیں کرتیں اور میں ایک طرف خاموش بیٹھی انہیں دیکھتی رہتی۔
"کیوں زوبیہ! تمہیں عامرخان کیسا لگتا ہے؟" ایک کلاس فیلو پوچھتی تو دوسری اسے ٹہوکا دیتے ہوئے کہتی۔
"ارے اس سے کیا پوچھ رہی ہو،وہ سمجھ رہی ہوگی کہ شاید عامرخان تمہارے کسی کزن کا نام ہے۔"
اس کے کومنٹس پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑتیں۔میرے ایک دفعہ کے بتا دینے پرکہ ہمارے گھر ٹی وی نہیں،اب وہ لوگ اسی طرح میرا مذاق اڑاتی تھیں،کافی کچھ انہیں کرن نے بھی بتادیا تھا۔وہ لوگ پیٹھ پیچھے تو میرا اور بھی مذاق اڑایا کرتی تھیں ۔میں دن بدن احساس کمتری کا شکار ہوتی جا رہی تھی،ٹین ایج میں انسان یوں بھی اتنا با شعور تو ہوتا نہیں اس لیے میں کلاس فیلوز کے معمولی معمولی مذاق کو لے کر بھی گھنٹوں کڑھا کرتی ۔
کورس کی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب اگر ابی کو غلطی سے بھی میرے ہاتھ میں نظر آجاتی تو وہ شاید مجھے قتل کر دیتے۔ایک مرتبہ انہوں نے مجھے کامک بک پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تھا،جو میں اسکول کی لائبریری سے ایشو کروا کے لائی تھی تو انہوں نے کتاب تو اٹھا کر دور پھینکی ہی تھی۔میرے منہ پر بھی ایک زوردار تھپٹر مارا تھا۔تب سے ہی میں نے کورس کی کتابوں کے علاوہ کسی دوسری کتاب کو ہاتھ لگانے سے توبہ کر لی تھی۔
فرمان بھائی کی شادی ہوگئی اور نجمہ بھابھی ہمارے گھر آگئیں تو میرے ان تمام احساسات کو اور ہوا ملی۔وہ ہمارے رشتے داروں میں سے نہیں تھیں،بلکہ ابی کی دوست کی بیٹی تھیں ۔اور انکے آتے ہی ہمارے گھر کےرنگ ڈھنگ میں بہت سی تبدیلیاں آگئی تھیں۔وہ ٹی وی جہیز میں لائی تھیں جو ان کے کمرے میں چلتا تھا۔اور ابی نے اس بات پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا تھا۔میرا دل چاہتا تھا میں بھی ابی سے چوری چھپے ان کے کمرے میں جا کر ٹی وی دیکھوں ۔مگر وہ مجھے جینا اور فرخ کو بکل منہ نہیں لگاتی تھیں ۔شیما بھابھی کو دیکھ کر بھی ان کی تیوری پر بل ہی پڑے رہتے تھے۔شیما بھابھی یہ کیسے برداشت کر سکتی تھیں کہ دیورانی سے پیچھے رہ جائیں فوراً ہی انہوں نے ابی کو پتا نہیں کس طرح رام کیا تھا کہ ریحان بھائی ان کے لیے بھی ٹی وی لے آئے تھے۔اب وہ اپنے بچوں اور ریحان بھائی کے ساتھ آرام سے کمرے میں بند ہو کر فلمیں دیکھتیں،گانے سنتیں یعنی ساری پابندیاں اور تمام اصول صرف میرے لیے تھے۔ہماری ایک رشتے کی پھپھو جو ذرا منہ پھٹ قسم کی تھیں انہوں نے یہی بات ابی کے منہ پر بول کر میرا دل خوش کر دیا تو ابی بڑے مطمئن انداز میں بولے۔
..........................
...........................
0 تبصرے