بہوؤں پر میں اپنا زور نہیں چلا سکتا ، وہ تو پرائی ہیں مگر بیٹی پر تو مجھے پورا پورا حق حاصل ہے۔ ریحان اور فرمان کی بیویوں کو اجازت دے دینے کا مطلب نہیں کہ میں اس سب پر خوش ہوں اگر میں منع کردیتا تو بہوؤں کے ساتھ بیٹے بھی ناراض ہو جاتے۔ ویسے بھی آج کل کے لڑکے زیادہ زن مرید ہوگے۔ ہماری طرح تھوڑی کہ بیوی کو اس کی اوقات یاد دلا دیں۔ یہ تو بات بھی بیوی کا موڈ دیکھ کر کرتے ہیں کہ کس وقت کون سی بات بیگم صاحبہ کو ناگوار گزرسکتی ہے۔"
اپنی اس تاویل سمیت مجھے اور بھی زہر لگے تھے۔ نجمہ بھابھی اور سیما بھابھی اپنی اپنی شاپنگ اپنی مرضی سے کرتیں۔ بازاروں میں پھرتیں۔ آبی کچھ نہیں کہتے یہاں تک کہ شیما بھابھی چھ سالہ حنان کو بھی اس کی پسند کی شاپنگ کرواکر لانے لگیں.
جب تک خریداری آبی کے ہاتھ میں تھی چاہے رنگ اور پرنٹ اچھا نہ لگے مگر کپڑا کی کوالٹی تو اچھی ہوتی تھی.
یہ کیسی زندگی تھی مجھے اپنی زندگی جہنم محسوس ہوتی تھی۔ میری زندگی کا یہ وہ مقام ہے جہاں میں حجستہ میں اپنا عکس دیکھتی ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں غیر شادی شدہ تھی۔ اچھا کھاتے پیتے گہرانے سے تعلق رکھتی تھی اور وہ شادی شدہ پر غریب تھی۔ ان تمام حالات سے نالاں ہو کر جو کچھ میں نے کیا میں نہیں چاہتی تھی۔ حجستہ بھی اپنے لے ایسا ہی کوئی چور دروازہ تلاش کرے۔ اسے بھی چودہ سال کی عمر میں پچاس سال کے بڈھے سے بیاہ کر یہ کہا گیا تھا کہ اب تم چودہ کے سن سے نکل کر پچاس کے سن میں داخل ہو جاؤ اور مجھے سے بھی بچین کی معصومیت اور بے سرر خواہشات چھین کر بڑھاپا طاری کرنے کو کہا گیا.
پھر ان دنوں جب میں اپنی زندگی سے مکمل طور پر مایوس ہو چکی تھی اچانک ہی بہت بڑی تبدیلی آگئی۔ رمیز ناصر نام تھا اس کا۔ میری پہلی دفعہ اس سے اتفاقاً ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی۔ وہ فون کہیں اور کر رہا تھا لیکن غلطی سے فون ہمارے گھر مل گیا تھا۔ اس وقت تو اس نے شائستگی سے معذرت کرکے فون بند کر دیا تھا مگر اگلے روز جب اس کا دوبارہ فون آیا اور اتفاق سے میں نے ہی اٹینڈ کیا تو وہ مجھ سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا.
"کل آپ سے بات کرنے کے بعد سے میں مسلسل ڈسٹرب رہا ہوں۔
ایسی مدھر اور کانوں میں رس گھولنے والی آواز تو میں نے آج تک نہیں سنی۔ اب چاہئے آپ کو میرا دوبار فون کرنا برا ہی لگا ہو مگر میں خود کو روک نہیں پایا"
میں جوانی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھ رہی تھی. ساڑھے چودہ سال کی عمر میں مرد اور محبت دونوں میری سمجھ سے باہر کی چیزیں تھیں مگر پھر بھی اس کی باتیں سن کر کچھ مختلف سے محسوسات پیدا ہوتے محسوس ہوئے تھے. مجھے جتنے گھٹے ماحول میں رکھا گیا تھا وہاں اپنی اور بھابیوں کے علاوہ کسی مرد کا میری زندگی میں کہیں کوئی گزر نہیں تھا مگر اپنی دوستوں سے ان کے کزنز اور دیگر رشتے داورں کے حوالے سے ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ نے اتنا تو سمجھا دیا تھا کہ ماں باپ اور بہن بھائیوں سے محبت کے علاوہ ایک اور محبت بھی ہوتی ہے؟اور شاید وہ سب محبتوں سے زیادہ خوب صورت ہوتی ہے۔
میں اس کی بات کے جواب میں کچھ بول تو نہ پائی تھی مگر لائن بھی ڈس کنیکٹ نہیں کی۔ میری خاموش کو میری رضا مندی جان کر اس نے اس سے اگلے روز اور پھر اس سے اگلے روز یعنی کہ روز فون کرنا شروع کر دیا۔
اس کا مخصوص ٹائم تھا جو میں نے ہی اسے بتایا تھا۔ دوپہر میں آبی ریحان بھائی اور فرمان بھائی تو گھر پر ہوتے نہیں تھے۔ شیما بھابھی اور نجمہ بھابھی بھی اپنے اپنے کمروں میں سو رہی ہوتی تھیں۔ باقی رہے بچے تو وہ اپنا ہوم ورک کرنے یا کھیل کود میں مصروف ہوتے اور اس طرف توجہ ہی نہ دیتے کہ میں لاؤنج میں بیٹھ کر اتنی آہستہ آواز میں کس سے باتیں کر رہی ہوں۔ شروع شروع میں مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں پکڑی نہ جاؤں مگر آہستہ آہستہ میں اس روٹین کی عادی اور بے خوف ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار خود بھی اسے فون کرنے لگی۔ وہ لاہور کا رہنا والا تھا اور کراچی میں جاب کی وجہ سے رہ رہا تھا۔ اس کی فیملی وہیں تھی اور وہ یہاں احساس تنہائی کا شکار تھا۔ اس کے بھی میری طرح زیادہ دوست وغیرہ نہیں تھے۔ وہ مجھ سے اپنے گھر والوں کی باتیں کرتا۔ اپنے بہن بھائیوں کے قصے سناتا اور میں اسے اپنے متعلق چھوٹی چھوٹی باتیں بتاتی- وہ تمام باتیں جو مجھے دن رات احساس تنہائی اور گھٹن کا شکار کیے رکھتی تھیں وہ سب میں اس سے شئیر کر کے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتی تھی۔
وہ میری دوستوں کی طرح میرا مذاق نہیں اڑاتا تھا بلکہ مجھ سے ہمدردی کرتا۔ امی اور گھر والوں کے رویے پر ان لوگوں کو ظالم اور مجھے مظلوم قرار دیتا اور کہتا کہ میرا حوصلہ ہے جو میں اتنے جبر و استدار میں زندگی گزار رہی ہوں- ہفتے بھر میں ایک چھٹی والا دن ایسا ہوتا تھا جب ہم بات نہ کر پاتے تھے اور اس ایک دن بات نہ کرنے پر مجھ پر جھنجھلاہٹ سوار ہوتی سو ہوتی مگر وہ مجھ سے بڑھ کر بے تاب نظر آتا.ل۔
"ایک دن تمہاری آواز نہ سنو تو دل بے چین ہو جاتا ہے'کچھ اچھا نہیں لگتا اگلے روز آفس آ کر بھی سب سے لڑنے کو دل چاہتا ہے۔ بلا وجہ غصہ آتا ہے۔ اف زوبیہ تم نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا-"
وہ انتہائی بے بسی سے یہ جملے بولتا تو مجھے کسی اور ہی دنیا کی سیر کروانے لگتا۔
کیا میں زوبیہ خلیل کسی کے لیے اتنی اہم بھی ہو سکتی ہوں جس سے کوئی دوستی کرنا بھی پسند نہیں کرتا، جس کا سب مذاق اڑاتے اور اس سے دور دور رہتے ہیں۔ ایسی لڑکی کے لیے وہ ایک شخص اتنی بری طرح دیوانہ ہو رہا ہے."
میں اپنی خوش بختی پر ناز کرنے لگی تھی۔ اب گھر والوں کے رویے میرا دل نہیں دکھاتے تھے۔اسکول اور پڑھائی پہلے کونسی مجھے بہت پسند تھی-اب تو اور بھی ان سب سے دھیان ہٹ گیا تھا-
پھر اس نے مجھ سے ملنے کے لیے اصرار کرنا شروع کر دیا۔ شروع شروع میں نے انکار کیا اس لیے نہیں کہ میں اس سے ملنا نہیں چاہتی تھی بلکہ اس لیے کہ میرے اوپر گھر والوں کا خوف سوار تھا مگر اس کا اصرار بڑھتا چلا گیا-یہاں تک کہ وہ ناراض ہونے لگا تو میں نے اس سے ملنے کا فیصلہ کر لیا-شیمہ بھابھی سے میں نے اپنی ایک کلاس فیلو کے گھر جانے کی بات کی۔ جس کا گھر ہم سے اگلی ہی گلی میں تھا-
میرا فزکس کا جرنل مصباح کے پاس رہ گیا ہے اگر اس سے لا کر پریکٹیکل نہیں اتارا تو کل میم سے بہت ﮈانٹ پڑے گی-
جھوٹ بولتے ہوئے میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے مگر حیرت انگیز طور پر انہوں نے نہ تو کسی حیرت کا اظہار کیا اور نہ ہی کوئی اور سوال جواب اور بڑے اطمینان سے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔گھر کے قریب بنے اس پارک میں بھری دھوپ میں کسی سے سامنا ہونے کا خوف نہیں تھا۔ سخت ترین گرمیوں میں کس کا دماغ خراب تھا کہ پارک میں لوکے چھبرے کھانے آتا-وہ بینچ پر بیٹھا میری راہ تک رہا تھا۔ میں نے خیالوں ہی خیالوں میں اس کے جیسا خاکہ بنایا تھا وہ اس سے بھی بڑھ کر ہینڈسم تھا-مجھے اس سے بہت جھجھک محسوس ہو رہی تھی اور وہ مسلسل میری تعریفیں کر رہا تھا-
'میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ خوبصورت آواز والی یہ لڑکی دیکھنے میں بھی اتنی حسین ہو گی۔" وہ والہانہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور میں شرماتی لجاتی اس کی تعریفیں سن رہی تھی مگر اس سب کے ساتھ ساتھ ﮈر بھی بہت لگ رہا تھا اس لیے اس کے بہت روکنے کے باوجود بھی جلدی اٹھ گئی تھی-گھر آ کر سارا دن اسی منظر کو سوچتی رہی تھی۔ اس کی والہانہ نگاہیں پیار بھری تھیں-
تم سے ملنے کے بعد تو میں اور بھی تمہارا دیوانہ ہو گیا ہوں.سچ زوبیہ اب تہمارے بغیر جیا نہیں جاتا۔ اب کی بار لاہور جاؤں گا تو امی سے تمہارے بارے میں ضرور بات کروں گا-تمہارے ابی تو ہماری شادی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ناں۔کہیں ایسا نہ ہو امی ابو آئیں اور تمہارے ابی انہیں ٹکا سا جواب دے دیں-"
وہ فون پر مجھ سے مختلف خدشات کا اظہار کر رہا تھا-
"ابی کو ماننا پڑے گا۔ضروری تو نہیں کہ میں ساری زندگی ان کے ظلم سہتے ہوے گزار دوں-"
میرے اندر ایک باغی لڑکی پیدا ہو گئی تھی-جو مجھے ابی سمیت سارے زمانے سے ٹکرا جانے کا حوصلہ دے رہی تھی-
ہاں پھر میں بھی نجمہ بھابھی کی طرح اپنی پسند سے شاپنگ کیا کروں گی۔ٹی وی دیکھوں گی۔فلمیں دیکھوں گی-اپنی مرضی کی کتابیں پڑھوں گی۔کوئی صبح شام مجھ پر تنقیدیں نہیں کیا کرے گا-میں اپنی مرضی سے زندگی گزاروں گی اور وہ بھی رمیز کے ساتھ۔ وہ بے حد خوبرو بندہ جو مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اس کی سنگت میں زندگی کتنی خوشگوار گزرے گی۔ وہ تو مجھ سے کبھی اونچی آواز میں بات تک نہیں کرے گا۔ بس ہر وقت مجھ سے پیار کی، خشیوں کی، محبت کی باتیں کیا کرے گا۔
"کیا بات ہے زوبی پھپھو آپ اکیلے اکیلے کیوں ہنسی جا رہی ہیں؟" حنا کی آواز پر میں چونک گئی۔ رمیز کے بارے میں سوچتے سوچتے شاید میرے لبوں پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی اور میرے برابر میں بیٹھی حنا نے ناجانے یہ بات کیسے نوٹ کرلی تھی۔
"بیٹا! آج کل لگتا ہے آپ کی پھپھو اسکول میں روزانہ ایک پریڈ لطیفوں کا اٹینڈ کر کے آتی ہیں۔ بس گھر آکر بھی ان پر ہنستی رہتی ہیں۔" شیما بھابھی معنی خیز مسکراہٹ چہرے پر لیے بڑے گھرے لہجے میں بولی تھیں۔ میں فوری طور پر تو ان کی بات پر ڈر گئی تھی۔ ایسا لگا تھا کہ انہیں شاید کسی بات پر شک ہو گیا ہو مگر آنے والے دنوں میں نہ انھوں نے ایسا کچھ پوچھا اور نہ اپنی کسی بات یا رویے سے کچھ ظاہر کیا تو میں اپنے وہم کو نظر انداز کر گئی۔
"میں پندرہ بیس دنوں کے لئے لاہور جا رہا ہوں پلیز جانے سے پہلے ایک بار مجھ سے مل لو دیکھو انکار مت کرنا۔" وہ باقاعدہ میری منتیں کر رہا تھا اس کی محبت نے مجھے بہت بہادر بنا دیا تھا مگر میں پھر بھی اپنےاندر اتنا حوصلہ نہیں پا رہی تھی کہ اس سے مل لوں وہ بھی اس کے گھر پر۔ بہت اصرار کے جواب میں، میں نے پارک میں ملنے کی بات کی تو اس نے مسترد کردی۔
"پارک میں ملنا بھی کوئی ملنا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی چوری کر رہے ہیں۔کہیں کوئی دیکھ نہ لے کی تلوار سر پر لٹکی رہتی ہے، گھر پر ملیں گے تو ٹھیک سے بات تو کر سکیں گے۔"
میں اسے ناراض کرنا نہیں چاہتی تھی، پھر وہ اتنے سارے دنوں کے لیے چلا جائے گا وہ بھی میرے خلاف دل میں شکوہ اور ناراضی لیے، مجھے نیم رضامند دیکھ کر اس نے خود ہی آنے کی لیے مناسب وقت یعنی جس میں مجھے گھر میں آبی وغیرہ کا خوف نہ ہو اور شیما بھابھی سے کیے جانے والا بہانا بھی بتا دیا۔ بات کرتے کرتے مجھے کچھ آہٹ سی سنائی دی تو میں اسے ہولڈ کرا کر لاؤنج سے اٹھ کر ڈائننگ روم کی طرف آئی۔ لاؤنج اور ڈائننگ روم کے بیچ کوئی دروازہ نہیں تھا بلکہ بہت خوب صورت سفید جالی دار پردے کے ذریعے دونوں کو الگ کیا گیا تھا۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ڈائننگ روم سے آگے بنے کچن میں ماسی برتن دھو رہی تھی۔ میں مطمئن ہوکر واپس آگئی تھی۔
مقررہ وقت پر میں پارک پہنچ گئی تھی جہاں سے وہ مجھے بائیک پر بٹھا کر اپنے گھر لے گیا تھا۔ اس کا گھر ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ روڈ کے دوسری طرف جو اپارٹمنٹس بنے ہوئے تھے وہ ان میں ہی رہتا تھا۔ اس کا سو کمروں کا فلیٹ مجھے اپنے عالیشان گھر سے کئی زیادہ اچھا لگا تھا۔ وہ ایک کمرہ ڈائننگ کے طور پر اور دوسرا بیڈ روم کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ مجھے لے کر وہ سیدھا اپنے بیڈروم میں آگیا تھا۔مجھے بیٹھنے کا کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آیا تو ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹرے تھی۔ جس کے بیچو بیچ بڑا سا کیک رکھا ہوا تھا۔ ٹرے کو ٹیبل پر رکھ کر وہ صوفے پر میرے برابر آکر بیٹھ گیا تھا۔خوبصورتی سے سجے سجائے کیک پر لکھا "ہیپی برتھ ڈے ٹو زوبیہ" پڑھ کر تو کتنی دیر تک میں سکتےکی کیفیت میں بیٹھی رہی تھی۔ اس نے میری سالگرہ کا دن یاد رکھا، نہ صرف یہ کہ یاد رکھا بلکہ اسے سیلیبریٹ کرنے کا اہتمام بھی کیا۔ ساری زندگی میں کبھی میری کوئی سالگرہ نہیں بنائج گئی تھی۔ آبی تو دوسروں کے گھر ہونے والی برتھ ڈے پارٹیز میں شرکت کرنا پسند نہ کرتے تھے۔
"کیک کاٹو۔" وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ مجھے مارے خوشی کے رونا آنے لگا تھا۔ میں نے کیک کاٹا تو اس نے خوبصورت سی ریپینگ پیپر لپٹا گفٹ اور محبتوں کے بھر پور اظہار میں ڈوبا کارڈ مجھے دیا۔ زندگی کے چودہ سال تو واقعی قید بس مشقت کاٹی تھی۔ یہ پندرہواں سال واقعی مختلف تھا۔ میری پندرویں سالگرہ جو میں اس کے ساتھ منا رہی تھی۔ میں اس سب میں اتنی خوش تھی کہ مجھے ایک بار بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ میرے اتنے قریب کیوں بیٹھا ہے؟ اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر کیوں رکھا ہوا ہے؟ وہ مجھے اتنی بدلی ہوئی نگاہوں سے کیوں دیکھ رہا ہے۔
میں تو خوشی خوشی اسکا دیا ہوا کارڈ پڑھ رہی تھی کبھی وہ پرفیوم اور سوٹ ہاتھوں میں لے لے کر بچوں کی سی خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔
"آؤ آرام سے بیڈ پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں" اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا تو میں بغیر کوئی اعتراض کیے اٹھ گئ تھی۔ مجھے یہ پتہ تھا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، وہ مجھ سی شادی کر لے گا مگر اس سے زیادہ مرد اور عورت کا رشتہ کیا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں جانتی تھی۔ مگر پھر بھی مجھے اس کے اتنے قریب بیٹھنے پر اچانک گھبراہٹ ہونی شروع ہوگئی تھی مجھے کچھ سمجھ میں تو نہیں آرہا تھا مگر مجھے اس کی نگاہوں سے ایک دم خوف آنے لگا تھا۔
"میں گھر جاؤں گی۔" میں گھبراہٹ میں کھڑی ہو کر بول اٹھی تھی۔
"ابھی۔۔۔ ابھی تو ہم لوگ بہت ساری باتیں کریں گے۔ اور یہ تم مجھ سے اتنا ڈر کیوں رہی ہو؟ میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں اور تم مجھے یہ احساس دلا رہی ہو کہ تھمیں مجھ سے بلکل بھی پیار نہیں۔"
وہ مخمور نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا مجھے۔بد ستور دور بیٹھا گھبرایا ہوا دیکھ کر وہ اسی جادوئی لہجہ میں بولا۔
"میرے قریب بیٹھو زوبیہ"
اسی وقت دھاڑ سے دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا تھا۔ہم دونوں نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا تھا۔ ریحان بھائی اور فرمان بھائی کو وہاں دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ وہ دونوں غیر آلود نگاہیں مجھ پر ڈال کر رمیز پر پل پڑے تھے۔ وہ بمشکل خود کو ان سے چھڑا پایا تھا۔
"تیری جان لے لوں گا۔" فرمان بھائی آگے بڑھے تو وہ دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا۔
میں زبردستی نہیں اٹھا کر لایا تمھاری بہن کو وہ اپنی مرضی سے آئی ہے۔ بڑے غیرت والے بنتے ہو۔ اپنی بہن تو سنبھالی نہیں جا رہی۔ جو چوری چھپے مجھ سے ملتی ہے۔ ارے اس کو تو یہ کہتا کہ میرے ساتھ گھر سے بھاگ چلو یا کوٹ میرج کر لو تو یہ وہ بھی کر لیتی۔ ایک غیر مرد کے گھر سے لڑکی برآمد ہو اور وہ بھی جو چیخ چلا نہیں رہی ہو تو اسکا مطلب ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے۔"
وہ استہزایہ انداز میں بول کر اپنے منہ پہ لگا خون صاف کر رہا تھا۔
"یہ رمیز میرے بارے میں کس طرح سے بول رہا ہے۔"
میں بھائیوں کو دیکھ کر ڈر گئی تھی مگر رمیز کے منہ سے تمھاری بہن ، مرضی، زبردستی کے الفاظ سن کر ساکت کھڑی رہ گئی تھی۔ وہ ہاتھوں سے قمیص کی شکنیں درست کر رہا تھا جبکہ ریحان بھائی اور فرمان بھائی ڈھیلے پڑ گئے تھے۔
راستے بھر ان دونوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ مگر گھر پہنچتے ہی ریحان بھائی مجھے کھینچتے ہوئے اندر لے آئے تھے۔ لاؤنج میں بیٹھے آبی کو دیکھ کر میرے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے ۔ آبی اس وقت کبھی گھر نہیں آتے تھے بلکہ ریحان بھائی فرمان بھائی کوئی بھی اس وقت گھر پر نہیں ہوتا تھا پھر آج کیسے؟ مجھے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ انھوں نے دھکا دے کر مجھے آبی کی طرف پٹخا تھا۔
"کیا کر رہے ہیں ریحان۔" شیما بھابھی فورا آگے بڑھی تھیں مجھے اٹھانے کے لیے۔
"دفع ہو تم یہاں سے آج کوئی میرے سامنے آیا تو میں اسے قتل کردوں گا۔"
وہ ہذیانی انداز میں چلائے تھے۔ وہ دونوں مل کر مجھے مار رہے تھے لاتیں، گھونسے، تھپڑ میں آنکھیں بند کئے چپ چاپ پٹ رہی تھی۔
"ہماری عزت کو داغ لگا کر آئی ہے یہ بےغیرت۔ آبی! میں اسکا خون کردوں گا۔" شاید فرمان بھائی چلائے تھے مگر مجھے ان کی آواز ہی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میرے کانوں میں تو کچھ اور آوازیں گونج رہی تھیں۔
"تم میری زندگی میں آجاؤں تو کہیں کوئی کمی نہیں رہےگی۔ ہم ایک ساتھ خوش رہیں گے۔"
ایک غیر مرد کے گھر سے لڑکی برآمد ہو اور وہ بھی جو چیخ چلا نہیں رہی ہو تو اسکا مطلب ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے۔"
"وہ گھر تمھارے رہنے لائق ہو، دیکھ لینا میں بہت جلد تمھیں ان سنگدل لوگوں کی قید سے نکال لاوں گا۔"
"اس کو تو اگر میں یہ کہتا کہ بھاگ جاؤ یا کوٹ میرج کرلو۔"
اچانک اتنی دیر میں میرے منہ سے چیخ نکلی تھی، ریحان بھائی نے اٹھا کر مجھے زور سے لات ماری تھی۔ اور میرا سر میز کے نوکیلےکونے سے ٹکرایا تھا۔ خون کا فوارہ نکلا تھا،اتنا زیادہ خون دیکھ کر بھی دونوں نہیں روکے تھے۔ بند ہوتی آنکھوں سے میں نے کسی کی آواز سنی تھی شاید نجمہ بھابھی کی جو انہیں روک رہی تھیں۔
ہوش آیا تو میں اپنے کمرے میں تھی، میرے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، سر میں درد کے مارے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ پورا جسم پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ مگر اس تکلیف سے زیادہ شدید وہ درد اور تکلیف تھی جو میری روح جھیل رہی تھی، اور اس سب سے بڑھ کر ابی کا خوف، بھائیوں کا خوف شاید اب وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ ہوسکتا ہے زہر دے دیں، سوتے میں گلا دبا دیں۔ دونوں بھابھیاں میرے پاس بیٹھیں تھیں شاید ڈاکٹر کو بھی انہوں نے ہی بلوایا تھا۔
ڈر کے مارے آنکھوں سے آنسو بھی نہیں نکل رہے تھے۔ وہ دونوں مجھ سے جس جس طرح کے سوال کر رہی تھیں، انہوں نے چند گھنٹوں میں مجھے پندرہ سے نکال کر پچیسویں سال میں پہنچا دیا تھا۔
" پتہ نہیں کب سے ملاقاتیں چل رہی ہیں میں سیدھی سادھی گھریلو عورت، مجھے کیا پتہ کہ مصباح کے گھر جانے کے بہانے کر کے کہاں جایا جاتا ہے۔ اور آج تو حد ہی ہوگئی مجھے سوتا دیکھ کر مجھے بتائے بغیر ہی اس سے ملنے چوری چھپے گھر سے نکل گئی۔وہ تو شکر ہوا ماسی نے کام کرتے ہوئے اس کی باتیں سن لی تھیں۔ اس نے مجھے بتایا، میں نے گھبرا کر فورا ریحان کو فون کیا۔ بس نجمہ! اس واقعہ کا کسی سے ذکر مت کرنا۔ اپنا تو منہ کالا کر کے آئی ہے کم ازکم بھائی بےچارے تو سر اٹھا کر دنیا کا سامنا کر سکیں۔ اگر کسی کو بھنک بھی پڑ گئی اس بات کی تو ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہیں گے۔"
وہ آنکھوں میں آنسو لیے نجمہ بھابھی کو سمجھا رہی تھیں ۔ میں خاموشی سے خود پر لگنے والا ہر الزام سن رہی تھی۔ کھڑکی کے پاس سے گزرتے ابی کو دیکھ کر مجھے مزید ذلت کا احساس ہوا تھا۔ انہوں نے بھی شیما بھابھی کی ساری باتیں سن لیں تھیں، مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی بولوں، آبی اور دونوں بھائیا میری شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ میں نے شدت سے خدا سے اپنے لیے موت مانگی تھی، نجمہ بھابھی اور شیما بھابھی کھانا یا دوا دینے میرے پاس آتیں اور پھر جس جس طرح کے سوال کرتیں وہ مجھے ذلت کے اندھیرے غار میں دکھیل دیتے۔
" اتنی ذلت، میرے اللہ اتنی ذلت، بس تو امجھے اپنے پاس بلالے۔ مجھے میری امی کے پاس بھیج دے۔"
میں سارا دن بستر میں منہ چھپائے روتی رہتی تھی۔
مجھے احساس تھا کہ میں کیا کرنے والی تھی۔ دن، ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہورہے تھے۔ میرا میٹرک کا رزلٹ آگیا تھا جس میں ، میں بمشکل ڈی گریڈ لے کر پاس ہو پائی تھی۔ سارا دن کمرے میں پڑی رہتی تھی۔ کوئی مجھ سے بات کرنا، میرے پاس آنا پسند نہیں کرتا تھا۔ رزلٹ والا اخبار بھی حنا نے مجھے لا کر دکھایا تھا۔ رزلٹ دیکھ کر میں زاروقطار رونے لگی تھی ۔ آج رزلٹ دیکھ کر ابی مجھے ڈانٹے گے نہیں۔ابی کی وہ ڈانٹ جس سے میں چڑا کرتی تھی آج اس کی خواہش مند تھی۔
"آبی پلیز مجھے ڈانٹیں، ماریں ، گالیاں دیں مگر اس طرح نظر انداز تو نہ کریں۔"
وقت نے اتنے سے دنوں میں مجھے جو سمجھ داری دی تھی۔ اس کی بدولت میں بہت کچھ سمجھ گئی تھی یہی کہ اپنے تیئں میں شیما بھابھی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر رمیز سے فون پر باتیں کیا کرتی تھی مگر وہ شروع وقت سے اس بات سے آگاہ تھیں۔سب کچھ جانتی تھیں، مگر انہوں نے پھر بھی مجھے روکا نہیں تھا۔
میں نے مصباح کے گھر سے جرنل لانے کا بہانا کیا انہوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے اجازت دے دی۔ میں نا تجربہ کاری کے ہاتھوں کچھ سمجھ نہ سکی ، پھر اس روز انہوں نے ساری باتیں سن لی تھیں. انہیں پتا چل چکا تھا کہ میں اس کے گھر جانے والی ہوں مگر انہوں نے کچھ ظاہر نہیں کیا اور بڑے آرام سے اجازت دے دی تھی۔ میں سمجھ ہی نہیں پائی تھی کہ وہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہیں؟ انہوں نے ریحان بھائی فرمان بھائی اور ابی سب کو خود فون کرکے بلایا تھا.
وقت کی اس دلدل سے اب میں کیونکر نکل پاؤں گئی۔ میں اتنی نیک عورت کی بیٹی جس کی ساری زندگی محرم اور نا محرم میں گزر گئی جو اتنی عفات ماب اور حیا دار تھی کہ گھر میں بھی شادو نادر ہی دوپٹہ اس کے سر سے ہٹتا ہوگا اور کیا کرنے چلی تھی میں؟ کیا ماں کے دودھ میں تاثیر نہیں تھی یا میں ہی اپنے خمیر میں بے غیرتی لگا کر پیدا ہوئی تھی. مجھے خود سے نفرت ہو گئی تھی۔ بے اندازہ اور بے تحاشا نفرت۔ میرا دل چاہتا میں خود کشی کر کے اس زندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر ڈالوں۔
پھر ایک رات نجانے رات کا کون سا پہر تھا میرے کمرے میں گلابوں اور کافور کی ملی جلی سی مہک محسوس ہوئی. کوئی میرے سرہانے بیٹھ گیا اور میرے ماتھے پر بڑی نرمی اور محبت سے ہاتھ رکھا۔ وہ کتنا مانوس سا لمس تھا میں نے ہڑبڑاکر آنکھیں کھول دی تھیں.
"امی! میں بے اختیار اٹھ کر بیٹھ گئی تھی.
زوبی!! اپنی امی کے گلے نہیں لگو گی۔ امی سے پیار نہیں کرواؤ گی؟ انہوں نے بانہیں پھیلائی تھیں اور میں بالکل بچین کی طرح ان کے سینے میں منہ چھپا کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی تھی.
امی مجھے اپنے ساتھ لے چلیں . کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا۔ سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ا مجھ سے غلطی ہوگئی ہے بہت بڑی غلطی اور ابی تو میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔ بے ربط جملے میرے منہ سے نکل رہے تھے وہ پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں.
" تم اپنے ابی سے معافی مانگ لو۔
انہوں نے اپنے مخصوص نرم ملائم لہجے میں کہا تھا.
وہ کبھی بھی مجھے معاف نہیں کریں گے. کیا آپ ابی کو جانتی نہیں ہیں وہ تو بغیر قصورکے سزا دیا کرتے ہیں جبکہ اب کی بار تو واقعی میرا قصور ہے. میں عورت ہوئے ان کی بات کی نفی کر رہی تھی..
زوبی میری بات سنو .. "انہوں نے مجھے خود سے الگ کرتے ہوئے پہلی بار سخت لہجہ اختیار کیا تھا. میں دھندلی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے کیا کوشش کرنے لگی.
"تم بیٹی ہو نا، ماہ طلعت کی بیٹی . تمہیں خود کو ثابت کرنا ہوگا کہ تم ماہ طلعت کی بیٹی ہو. اتنی ہی اچھی اتنی ہی نیک اور اتنی ایثار پیشہ . نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے اور تمہیں ایسی ہی بیٹی بن کر دکھانا ہے تمہیں سب کو بتا دینا ہے کہ تم ایک شریف ماں کی شریف بیٹی ہو۔
وہ اپنے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کرتے ہوئے حکمیہ انداز میں بول رہی تھیں. اور میں بس ان کا چمکتا نورانی چہرہ تکے جا رہی تھی.
َاب زندگی میں کبھی ڈگمگانا نہیں ہے۔ کبھی راہ سے نہیں بھٹکنا نہیں ہے۔ تمہیں ایسا بننا ہے زوبی کہ میں تم پر فخر کر سکوں۔ تم اپنی امی کا مان رکھوگی نہ؟؟وہ سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں
" ماں. "میرے جسم کے روئیں روئیں سے صدا بلند ہوئی تھی.
میں نے اپنی بیماری کے سخت ترین دنوں میں اکثر خدا سے ایک ہی دعا مانگی تھی جو میرے ساتھ ہوا وہ میری بیٹی کے ساتھ نہ ہو. اس کی زندگی میں ایسا شخص آئے جو اس سے محبت نہیں کرے اور اس کی عزت بھی کرتا ہو اور ایسا شخص تمہاری زندگی میں ضرور آئے گا یہ راہ میں آئے پتھر تمہیں ان سے ٹھوکر نہیں کھانی۔ خود کو بچا کر سنبھال کر اس کے لئے رکھنا ہے. تم دیکھنا وہ ضرور آئے گا. "
آنکھ کھلی تو امی میرے پاس سے جا چکی تھی مگر ان کی آواز وہ میٹھا شہد آگیں لہجہ وہ پیار بھرا لمس وہ سب میرے پاس چھوڑ گئی تھیں۔ اچانک مجھے کیا ہوا تھا میں بستر سے اٹھ گئی تھی. اپنے کمرے سے نکلی تو مجھے خود نہیں معلوم تھا میں کہاں جا رہی ہوں۔ چند لمحوں بعد خود کو ابی کے کمرے میں پایا
ابی مجھے معاف کر دیں پلیز مجھے معاف کر دیں۔ ابی میں بھٹک گئی تھی۔ مجھ سے غلطی ہوگئی مگر آپ مجھے معاف کر دیں. میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ زندگی بھر آپ کو کبھی ناراض نہیں کروں گی۔ ایسا کچھ نہیں کروں گی جس سے آپ کو تکلیف ہو۔“
میں آبی کے پاؤں پکڑ کر چیخ چخ کر روتے ہوۓ بول رہی تھی وہ نیند سے بیدار ہوۓ تھے، تکیے سے سر ذرا سا اونچا کر کے وہ مجھے خاموشی سے دیکھ رہے تھے وہ اپنے پاٶں کھینچ کر ہٹانے لگے تو میں ان کے پاٶں پر سر رکھ کر روئی تھی۔
”آبی میرا یقین کریں میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے میں اپنی مری ہوئی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ آپ کا دامن داغ دار نہیں کیا۔“ وہ کچھ نہیں بولے تھے بہت دیر تک رونے کے بعد میں خود ہی چپ ہوگٸ تھی۔
”صبح ہونے میں تھوڑی سی دیر رہ گٸی ہے جاؤ جا کر سو جاؤ۔“
وہ مجھ پر نظر ڈالے بغیر دیوار پرنظر مرکوز کیے عجیب سے لہجے میں بولے تھے۔
”آپ کے کہنے پر گٸ تھی میں آبی کے پاس۔ آپ سے کہا تھا نا، وہ کبھی بھی مجھے معاف نہیں کریں گے اور کیوں کریں گے وہ مجھے معاف، زندگی میں پہلی دفعہ تو وہ مجھ سے کسی جائز بات پر ناراض ہوۓ ہیں۔“ میں خود کو بمشکل گھسیٹ کر اپنے کمرے تک لاٸی تھی اور آتے ہی بیڈ کے اس جگہ جہاں ابھی ابھی امی بیٹھ کر گٸ تھیں،ہاتھ پھیرتے ہوۓ بڑبڑاٸی تھی۔ لہجہ میں شکوہ تھا، نا امیدی تھی اور گہری مایوسی بھی۔ اگلی روز میں نے کمرے مں لیٹے ابی ریحان بھائی اور فرمان بھاٸی کے لڑنے کی آوازیں سنی تھیں۔ پتہ نہیں وہ لوگ کس بات پر جھگڑ رہے تھے مگر آوازیں بہت بلند تھیں۔ آبی کی آواز ان دونوں کے مقابلے ہلکی تھی شاید وہ لوگ لاٶنج میں تھے۔
”آپ اس بے غیرت کو پھر آزمانے جا رہے ہیں، انسان وہ جو ٹھوکر کھا کر سنبھل جاۓ مگر آپ اس پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔“
فرمان بھاٸ چیخے تھے۔
”ہمیں اسے ایک موقعہ دینا چاہیے فرمان“ آبی کی دھیمی سی آواز آٸی تھی۔
”آپ موقعہ کی بات کر رہے ہیں میرا بس چلے تو میں اس کی لاش کے اتنے ٹکڑے کروں کہ کوئی پہچان نہ سکے۔ آپ اسی لڑکے سے یا کسی کے بھی ساتھ دو بول پڑھوا کر اسے یہاں سے دفع کریں۔ سچ کہتا ہوں ابی ! اس کی شکل دیکھوں تو خون کھولنے لگتا ہے۔ صرف آپ ہی کی وجہ سے وہ زندہ سلامت یہاں موجود ہے۔“ وقفہ وقفہ سے ایسے جملے میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے۔
”میں فیصلہ کر چکا ہوں ریحان اب تم لوگ راضی ہو یا نہیں۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
یہ آخری جملہ تھا جو آبی نے اس رات بولا تھا۔ ان کی اس بات کے جواب میں شدید طیش کے عالم میں ریحان بھائی نے فوراً کہا تھا۔ ”ٹھیک ہے پھر میں یہ گھر چھوڑ دوں گا۔ میں اپنے بیوی بچوں کو لے کر کل ہی یہاں سے چلا جاٶں گا ۔“ آبی نے انھیں روکنے یاسمجھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ میں اپنے کمرے میں ساکت پڑی تھی۔ مجھے پتہ تھا آبی بیٹوں اور خاص طور پر ریحان بھائی کو کتنا چاہتے ہیں۔ شیما بھابھی اور ان کے بچوں میں آبی کی جان ہے، مگر جب گزرتے کئی دنوں میں بھی وہ لوگ کہیں نہیں گئے تو میں نے سکون کا سانس لیا تھا۔ مجھے لگا تھا کہ شاید آبی نے انہیں منالیا ہے اور جانے سے روک دیا ہے مگر یہ بات بہت سالوں بعد میری سمجھ میں آئی تھی کہ آبی نے انھیں روکنے یا منانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ریحان بھائی تو سخت ترین غصہ کی حالت میں گھر چھوڑنے پر تلے ہوۓ تھے مگر سیما بھابھی نے انہیں سمجھا بجھا کر ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ ریحان بھاٸی ان ہی کے دماغ سے سوچتے تھے، ان ہی کی زبان بولتے تھے، پتہ نہیں شیما بھابھی نے ان پر ایسا کیا جادو کیا ہوا تھا۔ وہ آنکھیں بند کرکے جو کچھ وہ کہتیں وہ کیے جاتے اور سیما بھابھی بہرحال اتنی عقل مند تو تھیں کہ آبی کی دولت جائیداد میں سے اپنا اور اپنے بچوں کا حق محض کسی خودساختہ انا، ضد اور غیرت کے نام پر قربان نہ کرنے دیتیں۔ آبی نے میرا کالج میں داخلہ کروا دیا تھا۔ بات وات انہوں نے مجھ سے کوٸی خاص نہیں کی تھی۔ بس فارم لا کر دے دیا پھر خود ساتھ لے جا کر ایڈمیشن سے متعلق تمام کاروائی نبٹا دی، آبی کو بہت شوق تھا کہ ان کا کوئی بچہ ڈاکٹر بنے،
اسی لیے انہوں نے انٹر میں فرمان بھائی کو پری میڈیکل گروپ میں ایڈمیشن دلوایا تھا مگر ان کو پڑھاٸی میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔ میں نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ مجھے آبی کی نظر میں سرخرو ہونا ہے۔ امی سے کیا وعدہ نبھانا ہے او یہی سوچ مجھے پری میڈیکل کی طرف لے گٸ تھی۔ پھر میں جو کتابوں، پڑھاٸی اور اسکول کے نام پر بےزار رہا کرتی تھی، ایک دم بدل گٸی۔ پڑھائی پڑھائی بس پڑھائی۔ میری زندگی کا محور بس اس کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں۔ کالج میں میں نے کسی سے بھی دوستی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی، گھر پر ابھی بھی کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا۔ بھائیوں کے سامنے جانے سے تو میں گریز کرتی تھی۔ مجھے ان کی اپنی سمت اٹھتی لال انگارہ آنکھیں دہلا دیا کرتی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر خون اتر آیا کرتا تھا۔ شیما بھابھی اور نجمہ بھابھی ضرورتاً بات کرتیں تھیں اور آبی کبھی کبھار کمرے میں آکر ”کچھ چاہیے تو نہیں؟“ ” پڑھاٸی کیسی جا رہی ہے؟“ قسم کے سوالات کر کے دو چار منٹ میں ہی چلے جایا کرتے تھے۔ اب ابی کے پیسے دینے پر شیما بھابھی میرے لیے جیسے بھی کپڑے لاتیں ، مجھ ان میں کوٸی عیب نظر نہیں آتا تھا۔ وہ لوگ اپنے اپنے بچوں کو لے کر گھومنے جاتےہیں یا ٹی وی دیکھ رہے ہیں مجھے اس سے بھی کوٸی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میرے لیے تو زندگی کا مقصد صرف پڑھاٸی تھی۔ ”تم ماہ طلعت کی بیٹی ہو تمھیں ایسا بننا ہے زوبی میں تم پر فخر کر سکوں۔“ یہ جملے مجھے مسلسل اور پیہم جدوجہد پر اکساتے رہتے تھے۔ ہر رات میں پڑھتے پڑھتے ہی رإٹینگ ٹیبل پر سر رکھ کر سو جایا کرتی تھی۔ بستر پر باقاعدہ سونے کے ارادے سے لیٹنا بھی بھول گئی تھی۔ دنیا میں کیا ہورہا ہے، لوگ کا کہہ رہے ہیں،کون کیا کر رہا ہے، کون کیا کہہ رہا ہے؟ میں نہیں جانتی تھی۔ جس روز میرے انٹر کا رزلٹ آیا اور میں ٨٤% لے کر پاس ہو گٸی تو بے اختیار میں نے امی کی تصویر کی طرف دیکھا تھا مجھے ایسا لگا تھا جیسے ان کے سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸ تھی۔ میرے کچھ کہے بغیر ابی نے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کے لیے فارم لا دیا تھا۔ ان کے دو ٹوک انداز کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹِک سکتا تھا، تو ریحان بھاٸی اور فرمان بھاٸی تھوڑا بہت کہہ سن کر چپ ہو گئے تھے۔ ان دونوں کا خیال تھا کہ میری شادی کر دینی چاہیے میں قابل بھروسہ نہیں ہوں۔ کو ایجوکیشن میں پڑھ کر میں کیا گل کھلاؤں گی۔ میں نے کالج جانا شروع کر دیا۔ سر سے لے کر پاٶں تک چادر لپیٹ کر، کالج کے مقابلے میں میڈیکل کالج میں بہت گہما گہمی اور متحرک زندگی تھی مگر میں انداز یہاں بھی ویسا ہی تھا۔ پڑھائی کے حوالے سے میری دو چار لڑکیوں سے بات چیت تھی، وہ بھی اس لیے کہ مختلف اسائمنٹ اور پریکٹیکلز کے لیے گروپس میں کام کرنا پڑتا تھا۔ مگر اس میں دوستی کا رنگ شامل نہیں تھا، اکثریت کے نزدیک میں ایک مغرور لڑکی تھی، لڑکوں سے تو ضرورتاً بھی بات چیت نہیں تھی۔ لڑکے تو لڑکے، لڑکیاں بھی میری غیر موجودگی میں مجھ پر کمنٹس دیا کرتی تھیں، پیٹھ پیچھے میرا مذاق اڑایا جاتا۔ اپنے اس رویے کے سبب اکثر مں نقصان اٹھایا کرتی تھی۔ لڑکے اور لڑکیاں گروپس میں کمبائن اسٹڈیز کیا کرتے تھے اور میں اپنی ڈیرھ اینٹ کی مسجد بناۓ سب سے الگ تھلگ امتحان کی تیاری کرتی۔ اکثر تھیوری او وائیوا میں میرے نمبر دوسروں کے مقابلے میں کم اسی لیے ہوتے تھے کہ میں لیکچرز، بکس اور نوٹس پر اکتفا کرتی تھی۔ جبکہ سب ساتھ بیٹھ کر ڈسکس کر کے تیاری کیا کرتے تھے او ڈسکشن میں ہی ان کا کانسپٹ کلیئر ہو جایا کرتا تھا۔ اس سب کے باوجود جب میں حنا یا مہرین کے منہ سے یہ جملہ سنتی ” زوبی پھپھو ! امی نے آپ سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تو بہت ناراض ہوں گی۔ وہ سونے لیٹ جائیں پھر میں آپ کے پاس آؤں گی۔“ تو بہت ضبط کرنے کے باوجود میری آنکھیں چھلک پڑتی تھیں۔ فرخ اور ارسلان مجھ سے پڑھائی میں جب چاہے مدد لینے آجایا کرتے تھے اور میں خوشی خوشی ان کی مدد کر دیا کرتی تھی مگر حنا اور مہرین پر ان کی ماؤں کی طرف سے سخت ترین پابندی تھی۔
__________
ایک دو بار کمرے میں آکر حنا کو ڈانٹتے ہوئے وہاں سے اٹھاتے ہوئے سیما بھابھی نے بڑی بے چارگی سے مجھ سے کہا تھا۔" مجھے تو کوئی اعتراض نہیں مگر ریحان ناراض ہوتے ہیں۔" اور ایک دو مرتبہ کے بعد ہی میں سمجھ بھی گئی تھی مگر وہ دونوں شیما بھابھی اور نجمی بھابھی کی نظروں سے بچ کر آہی جایا کرتی تھیں۔
ابی کا شروع سے ہی سب پر ایسا رعب و دبدبہ رہا تھا کہ پوتے پوتیاں بھی ان سے سنبھل کر اور محتاط ہوکر بات کیا کرتے تھے۔ حالانکہ اب ابی کو غصہ نہیں آتا تھا۔انہوں نے بات بات پر چیخنا چلانا بند کر دیا تھا اور اب تو شوروم بھی بس تھوڑی دیر کے لیے جاتے تھے۔ ان کا زیادہ وقت عبادت کرتے یا اسٹڈی میں کتابیں پڑھتے گزرتا تھا۔ مجھے پتہ تھا ابی کی خاموشی کا سبب میں ہوں۔ میں نے ان کا اٹھا ہوا سر جھکا دیا ہے۔ وہ وقت سے پہلے بوڑھے اور اتنے نڈھال میری وجہ سے ہو گئے ہیں۔ مگر یہ سب جاننے کے باوجود میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ ہمیشہ ان سے اتنے فاصلے پر رہی تھی کہ اب ان کے ہاں جاتے جھجک ہوتی تھی۔ میرا دل چاہتا میں ابی کی خوب خدمت کروں۔ ان کے جوتے خود پالش کروں، بالکل امی کی طرح ، ان کے کپڑے اور کھانے پینے کا خیال رکھوں، ان سے پوچھوں کہ آپ نے کھانا پینا کیوں اتنا کم کر دیا ہے؟ اب جب میں انہیں آدھی پون روٹی کھا کر اٹھتا دیکھتی ہو تو میرا دل رو پڑتا ہے۔
پھر میری یہ خواہش کہ میں آبی کی خدمت کروں، قدرت نے بڑے تکلیف دہ انداز میں پوری کی تھی۔وہ شوروم سے گھر واپس آرہے تھے جب راستے میں ان کا گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اس ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ان کا آدھا جسم مفلوج ہو گیا تھا۔ وہ قدم جن کی چاپ سن کر سہم کر ہم لوگ چھپ جایا کرتے تھے آج وہیل چیئر پر تھے۔ ہر وقت ان کی خدمت کے لیے ایک آدمی درکار تھا۔ وہ کوشش کرتے کہ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے اپنا جتنا کام خود کر سکتے ہیں کرلیں۔ شروع شروع میں سب بڑی تندہی سے ان کی خدمت اور تیمار داری میں لگے رہے۔ مگر آہستہ آہستہ سب بیزار ہونے لگے ابی وقت بے وقت آواز دیتے تو شیما بھابھی کا منہ بن جاتا۔ ابی کے سامنے تو وہی چاپلوسانہ مسکراہٹ لے کر جاتی تھیں مگر میری نگاہوں سے ان کی ناگواری چھپ نہیں پاتی تھی۔
"بھابھی آپ رہنے دیں میں کرلوں گی۔"
میرا فائنل ایئر چل رہا تھا ، کبھی کالج کبھی ہاسپٹل مگر پڑھائی کے مشکل ترین دنوں میں بھی ابی کی طرف سے غافل نہیں ہوتی تھی۔ انھیں نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کو میرا دل نہیں مانتا تھا۔ نوکر بھی تو اسی وقت خیال رکھتے ہیں جب گھر والے رکھیں۔
"ابی چلیں تھوڑی دیر لان میں چل کر موسم کا لطف اٹھاتے ہیں۔"
میں ہاسپٹل میں نائٹ ڈیوٹی کا سخت ترین شیڈول بھگتا کر گھر واپس آتی تو کمرے میں اکیلے لیٹے آبی سے مخاطب ہوتی۔
"تھکی ہوئی آئی ہو تھوڑی دیر آرام کرلو۔" وہ اب مجھ سے باتیں کرنے لگے تھے میں انہیں کالج اور ہاسپٹل کے قصے سناتی، وہ مجھے اپنی کسی نئی پڑھی کتاب سے اقتباس سناتے۔
"میں بلکل بھی تھکی ہوئی نہیں ہوں۔" میں مسکراتے ہوئے ان کی وہیل چیئر دھکیلتی ہوئے لان میں لے آتی۔ لان میں موسم انجوائے کرتے میں ان سے بہت سی لایعنی باتیں کرتی۔
" یہ وائٹ لیلی کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔"
" مالی نے گیندے کے پھول اب تک کیوں نہیں لگائے۔"
"کراچی میں تو دسمبر کے مہینے میں بھی پنکھے اور اے سی چلانے پڑتے ہیں۔"
ہم بہت دیر تک ایسی باتیں کرتے رہتے۔ میں ان کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتی۔ کئی بار میرے پکائے کھانے کی تعریف کرتے ہوئے ابی کہتے۔" زوبی تمھارے ہاتھوں میں اپنی ماں کا ذائقہ ہے۔"
میں تعجب سے دیکھتی، جس عورت سے وہ ساری زندگی شاکی رہے آج بہت شکستہ لہجہ میں اسی عورت کی تعریف کر رہے تھے۔ وہ اپنی کوئی بھی کیفیت مجھ سے شئیر نہیں کرتے تھے مگر مجھے پتا تھا کہ بیٹوں کا اجنبی انداز انہیں کتنا دکھ دیتا ہے۔ ریحان بھائی تو پھر بھی دن بھر میں ایک مرتبہ انہیں سلام کرنے اور خیریت پوچھنے ان کے کمرے میں آجاتےتھے مگر فرمان بھائی ایسی زحمت کبھی کبھار ہفتوں میں کیا کرتے تھے۔ وہ جس کے جاہ وجلال کے سامنے ایک دنیا کانپتی تھی. آج بے بسی کی تصویر بنا زمانہ دیکھتا.
میں نے برسوں سے خاندان کی تقریبات میں آنا جانا چھوڑ رکھا تھا۔ ابی کے رویے کی وجہ سے خاندان میں بہت کم لوگوں سے ہمارا میل ملاپ تھا اور ان میں سے بھی کسی کے گھر سے بلاوا آتا تو میں جانے سے معذرت کر لیا کرتی تھی. ایسے ہی ایک مرتبہ میری فرسٹ کزن کی شادی کا بلاوا آیا. شیما بھابھی نے مجھ سے بڑے اصرار سے ساتھ چلنے کے لیا کہا. مجھے ان کے اصرار پر تعجب تھا اگر میں جاتی نہیں تھی تو کوئی بھی مجھ سے چلنے کے لیے نہ کہتا تھا. ان کے بضد ہونے پر میں جانے کے لیے تیار ہو گئج تھی. ان دنوں میں ویسی بھی بہت خوش تھی. میں نے اتنے برسوں میں پہلی دفعہ ریحان بھائی کی ناراضی کچھ کم ہوتی محسوس کی تھی۔ انہیں بہت تیز بخار ہوگیا تھا اور میں اب اس قابل تو ہو چکی تھی انہیں ملیریا کی دوا دے سکوں۔ میں نے خوب دل لگا کر ان کا علاج اور تیمارداری کی تھی وہ بغیر کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ٹھیک ہوگئے تھے اگرچہ انہوں نے منہ سے کچھ نہیں کہا تھا مگر ان کی نظروں میں مخصوص نفرت اور مجھے زندہ دفن کر دینے کی خواہش بھی نظر نہیں آتی تھی. میں نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ شیما بھابھی سے یہ بات برداشت نہیں ہورہی تھی. وہ ہم دونوں بھائی بہن کو ساتھ بیٹھا دیکھ نہیں پائی تھیں اور اسی لئے مجھے خاص طور پر شادی میں لے کر گئی . میں بہت سالوں سے رشتے داورں سے دور تھی مگر اس روز مجھ وہاں دیکھ کر جس طرح لوگوں نے سرگوشیوں میں باتیں کرنی شروع کی تھیں وہ مجھے یہ بات سمجھانے کے لئے کافی تھی کہ میرے مہربانوں کے توسط سے میری کردہ اور نا کردہ سب غلطجاں طشت اڑنا ہو چکی ہیں.
لوگوں کی نظریں ان کی سرگوشیانہ باتیں میرا دل ریزہ ریزہ کر رہی تھیں میں اپنے آنے پر پچھتا رہی تھی مگر گھر واپس آتے ساتھ ہی شیما بھابھی کو ریحان بھائی اور فرخ کے سامنے رو رو کر واویلا کرتے دیکھ کر میں سکتے کی کیفیت میں کھڑی رہ گئج تھی.
کتنا دل دکھا ہے آج میرا وہاں سب کی باتیں سن کر. میں کس کو سمجھاؤں کہ بچی تھی نادانی میں ایک بھول ہو گئی اب اسے معاف بھی کردیں.
زوبی کو دیکھ کر سب نے مجھ سے ایسی ایسی باتیں کیں کہ میرا دل چاہ رہا تھا ان لوگوں کا منہ توڑدوں. اور ریحان بھائی کی آنکھوں میں دوبارہ وہی غصہ وہی نفرت اور وہی خون اتر آیا۔ میرا دوا پلانے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ انہوں نے غصہ سے جھٹک کر سب ہی کو اپنے کمرے سے نکال دیا تھا۔ اگلے روز انہوں نے حنا کو صرف اتنی سی بات پر تھپڑ مار دیا تھا کہ اس نے اسکول کے سالانہ فنکشن میں ڈرامہ میں حصہ لے لیا تھا.
رات میں ابی کے لئے کمرے میں کھانا لے کر گئی تو انہوں نے بہت غور سے میری طرف دیکھا تھا.
تم روئی تھیں زوبی ؟؟ بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اچانک. انہوں نے سوال کرکے مجھے بوکھلا دیا تھا.
وہ برسوں پہلے کے اس واقعے کے حوالے سے یا کسی اور بات کے حوالے سے کبھی بھی مجھ سے کوئی بات نہیں کرتے تھے بات کی تو صرف پڑھائی کے حوالے سے.
ابی !اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جائے اور پھر بعد میں اپنی غلطی کا احساس بھی ہو جائے اور ہم اس پاک ذات سے اپنی غلطی کی معافی بھی مانگیں تو کیا وہ معاف کر دیتا ہے ؟ میں نے سر جھکائے سوال پوچھا تھا .
بے شک وہ اپنے بندوں کے گناہ معاف کر دیا کرتا ہے. وہ پر یقین لہجے میں گویا ہوئے تھے۔
اور لوگ ؟؟؟ میں نے ان کی طرف ایک پل کے لئے نظر اٹھا کر دیکھا تھا۔ وہ میرے سوال پر چونک گئے تھے .
" لوگ نہیں معاف کرتے ناں ابی ؟" میرا لہجہ بہت ٹوٹا ہوا تھا .
"اتنی صابر ماں کی بیٹی ہو کر ایسی باتیں کر رہی ہو. " وہ میرے ہاتھ تھام کر ٹوکنے والے انداز میں بولے تھے اور پتا نہیں ابی کا رویہ ایسا کیوں تھا مجھ سے کچھ پوچھ بھی نہیں رہے اور امی کا نام لے کر نصیحت کر دی.
پھر جس روز میں ایم بی بی ایس کا رزلٹ ہاتھ میں لیے ابی کے سامنے گئی تو اتنے برسوں میں پہلی بار انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا تھا۔ ان کے گلے لگانے کی دیر تھی میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی . وہ پیار سے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے خود بھی رو پڑے. میں نے انہیں اس روز سے پہلے کبھی روتے نہیں دیکھا تھا.
"تم واقعی ماہ طلعت کی بیٹی ہو، بالکل اسی کی طرح ہوبہو اس کے جیسی۔"
انکے بھیگے ہوۓ لہجے پر میں نے چونک کر سر اوپر اٹھایا تھا
"ابی آپ رو رہے ہیں؟"
"نہیں یہ خوشی کے آنسو ہیں۔"وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ مسکراۓ تھے۔امی کی نظروں میں سرخرو ہونے کے احساس کیساتھ ساتھ اس روز مجھے پہلی بار اس بات کا ادراک ہوا تھا کہ زندگی ہر قدم پر ابی کے آگے جھکتی اور مسلسل شکست کھاتی امی'مرنے کے بعد اپنی ہر شکست کا بدلہ لیں گئی تھیں۔وہ دراصل پچھتاؤں میں گھرے زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے امی کا صبر ابی کے ہر ظلم پر حاوی ہوگیا تھا۔
ابھی میں اپنی اس خوشی کو ڈھنگ سے منا بھی نہ سکی تھی کہ اسی روز میرے کلاس فیلو شعیب احمد کی والدہ اور بہنیں ہمارے گھر میرا رشتہ لے کر آگئی تھیں۔ وہ ہماری کلاس کا سب سے جینئس لڑکا تھا۔ فائنل ایئر میں بھی اس نے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔کلاس فیلو ہونے کے ناتے تو میں اسے جانتی ہی تھی اور اسکی ذہانت کی وجہ سے دیگر کلاس فیلو بھی اس سے مرعوب بھی رہا کرتی تھی۔ وہ کلاس میں موجود ہوتا تو پروفیسرز کی حالت قابل رحم ہوا کرتی تھی۔ اسکے مشکل مشکل سوالات کے جواب دینا اچھے اچھوں کے بس کی بات نہیں تھی۔میرے علاوہ دوسری کئی لڑکیاں جو مجھ سے زیادہ ذہین اور حسین تھیں، اتنی بہت سی لڑکیوں کو چھوڑ کر اس نے ایک ایسی لڑکی کا انتخاب کیا تھا جس سے کالج کے پانچ سالوں میں کبھی دعا سلام تک نہ ہوئی تھی۔مجھے اس بات پر فخر ہونا چاہیۓ تھا۔ اس نے اتنے سالوں تک میرا خاموش تجزیہ کیا تھا اور یقینا میں اسے اس قابل لگی تھی کہ وہ مجھے اپنی زندگی میں شامل کرنے کی خواہش کر بیٹھا تھا مگر اپنے حالات بخوبی جانتے ہوۓ میں انکی آمد کا مقصد جان کر پوری جان سے کانپ گئی تھی۔ابی نے ان سے بہت اچھی طرح بات کی تھی۔ بڑی خندہ پیشانی سے ملے تھے'مگر میں شیما بھابھی اور نجمہ بھابھی کی نگاہوں میں لکھے شکوک و شبہات اور معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کر دل ہی دل میں ڈر رہی تھی۔
ابی!میری اس سے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔پڑھائی کی حد تک بھی نہیں۔پتہ نہیں اس نے اس طرح کیوں۔۔۔۔۔۔۔" ابی کے سامنے یہ وضاحت کرتے ہوۓ بھی میں شرم سے زمین میں گڑ رہی تھی۔
"اب کی بار کلاس فیلو سے چکر چلایا ہے'پتہ نہیں ایسی لڑکیوں میں کیا گٹس ہوتے ہیں جو مرد اس طرح انکی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔"
نجمہ بھابھی کسی کو فون پر بتا رہا تھی تو شیما بھابھی ریحان بھائی کو میرا تازہ ترین کارنامہ مکمل سیاق و سباق کیساتھ سنا رہی تھیں۔۔میں بغیر سنے بھی جانتی تھی کہ مجھ پر کیا کیا الزامات لگائے گئے ہونگے۔اگلے روز ابی کو ریحان بھائی سے اس رشتے کے بارے میں بات کرتا سنا تھا۔
"مجھے وہ لوگ اچھے لگے ہیں' لیکن تم پھر بھی لڑکے کے بارے میں چھان بین کروا لو۔" ریحان بھائی جواباً "خاموش رہے تھے" شاید انہوں نے یہ سوچا ہوگا کہ شادی ہوجاۓ گی تو انکو میری منحوس شکل سے تو کم از کم چھٹکارا تو نصیب ہو ہی جاۓ گا۔مگر کسی چھان بین کی نوبت آئی ہی نہیں تھی۔ 'ابی'شعیب کے گھر والوں کی طرف سے کسی فون کال کے منتظر تھے اور وہاں سے پھر دوبارہ کوئی کبھی نہیں آیا تھا۔
رشتہ لے کر آتے وقت اتنا جوش وخروش اور جلدی اور اسکے بعد اتنی خاموشی اور سناٹا' میں نے محسوس کیا تھا کہ ابی لاشعوری طور پر سارا دن فون کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔ شاید اسی لیے کہ انہیں پتا تھا خاندان میں اور قریبی جاننے والوں میں سے تو کسی گھر سے میرا رشتہ آنے والا نہیں تھا۔ یہ واحد رشتہ ہی میری شادی کی آخری امید تھی مگر ان لوگوں تک جو میرے کارناموں کی مفصل رپوٹ پہنچی تھی اسکے بعد وہ ہمارے گھر کیوں آتے؟
مجھے ان لوگوں کے نہ آنے کا کوئی ملال نہیں تھا مگر اس سب کے نتیجے میں جو مزید ذلت اور رسوائی میرے حصے میں آئی تھی وہ ناقابل برداشت تھی۔
"کلاس فیلو سے عشق لڑا لیا، ساتھ پڑھتے تھے ، پانچ سال سے چکر چل رہا ہوگا " ایسی ہی کئی باتیں مجھے لہولہان کرتیں اور میں چپ بیٹھی رہتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس روز ابی کی طبیعت کافی خراب تھی۔ میں بیڈ پر ان کے پاس بیٹھی انکا سر دبا رہی تھی۔ وہ آہستہ آواز میں مجھے پتہ نہیں کیا بتا رہے تھے؟
طارق روڈ کی ایک دکان میرے نام ہے، لاکر میں رکھا امی کا سارا زیور میرا ہے، ابی نے اپنے اکاؤنٹ میں موجود سارا پیسہ میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروادیا ہے،.
میں نے اکتاۓ ہوۓ انداز میں انھیں ٹوک دیا..
"ابی مجھے یہ سب نہیں چاہئے".
"پھر کیا چاہیے؟ " وہ تھوڑا سا مسکرائے تھے.
"آپ کی دعائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ یقین دہانی کہ آپ مجھ سے خفا نہیں ہیں "
انہوں نے اپنے ماتھے پر رکھا میرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا۔" میری سب دعائیں تمھارے ساتھ ہیں اور میں کیوں تم سے خفا ہونگا؟ " وہ میری طرف دیکھ کر محبت سے بولے.
"واقعی آپ مجھ سے خفا نہیں ہیں؟" میں نے دوبارہ پوچھا تو انہوں نے میرا ہاتھ پیار سے چومتے ہوۓ گردن ہلادی.
"اچھا آپ میرے لئے کیا دعا کرتے ہیں؟" میں نے لاڈ سے انکے گلے میں بانہیں ڈال کر پوچھا تھا اور وہ ہنستے ہوۓ بولے.
"تمھیں کیوں بتاوں؟ یہ میرا اور میرے اللہ کا بڑا ہی پرسنل تعلق ہے. "
زندگی میں پہلی بار وہ مجھے اس طرح پیار کر رہے تھے، کبھی میرے ہاتھ چومتے، کبھی ماتھے پر بوسہ دیتے، میں اس پل بہت خوش تھی مگر مجھے پتا نہیں تھا کہ یہ پہلی بار ہی آخری بار بھی ہے. مجھ سے باتیں کرتے کرتے انہوں نے اپنی آنکھیں موندی تھیں. میں نے خود انکی دھڑکنوں کو خاموش ہوتے سنا تھا۔ میرے چیخنے پر سارا گھر وہاں جمع ہوگیا تھا.
امی کے بعد اب ابی بھی. ایک ایک کر کے میرے اپنے مجھ سے چھہنتے جارہے تھے۔ فرمان بھائی کو تو مجھ سے کوئی سروکار نہیں تھا مگر ریحان بھائی کو میں نے ابی کے بعد اکثر اپنی شادی کے متعلق فکرمند ہوتے دیکھا تھا...
ریحان بھائی کو کاروبار میں خاصا بھاری نقصان ہوا تھا، جو پیسہ ڈوبا وہ قرض لیا ہوا تھا۔ قرض کی ادائیگی کے لئے فوری رقم کی ضرورت تھی۔ انھیں الجھا الجھا اور پریشان دیکھ کر میں خود بھی پریشان ہو گئی تھی.
سبب مجھے ریحان بھائی اور فرمان بھائی کی کھانے کی میز پر ہونے والی گفتگو سے پتا چلا تھا ۔میں نے اپنے اکاؤنٹ میں موجود دس لاکھ روپیہ انہیں دیا تو وہ لینے سے انکاری ہو گئے تھے مگر میں زبردستی انہیں وہ چیک دے دیا تھا اور ایسا کر کے مجھے خوشی ہوئی کیا پتہ اسطرح میرے بھائیوں کے دل میری طرف سے صاف ہو جائیں ۔
ان ہی دنوں نجمہ بھابی کے ایک کزن جو ہیوسٹن میں رہتا تھا پاکستان آئے۔ یہاں ان کے قریب ترین رشتہ دار بھابی نجمہ ہی تھی اس لیے وہ ہمارے گھر رکے۔ان کی غیر ضروری گفتگو اور دولت کی نمائش مجھے بہت کوفت دیتی۔وہ آئے بھی شادی کے ارادے سے تھے اور سب کے ساتھ خوب انجوائے کر رہے تھے ۔میری ان سے واجبی سلام دعا ہوئی۔ آگے پیچھے آتے جاتے وہ مجھے دیکھ کر عجیب سی مسکراہٹ دیتا اور نجمہ بھابی کو شاید یہی خوف کہ ان کا کزن مجھے پسند نہ کر لے۔اس رات میں سو چکی تھی جب میرا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اندھیرے کی وجہ سے آنے والے کا چہرہ پہچان تو نہیں پائی مگر اٹھ ضرور گئی تھی۔ وہ میری طرف بڑھا میں گھبراہٹ سے بیڈ سے اٹھ گئی۔
آپکی ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی؟"
میں بغیر لحاظ کے چلائی۔ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دروازہ بند کر کے پلٹا۔
"میں جس جگہ سے آیا ہوں میرے لئے یہ عام سی بات ہے اور یقیناً تمہارے لیے بھی یہ بات عام ہے۔اتنے غصے میں آنے کی کیا ضرورت ہے؟"
میں نے پورے زور سے اس کے چہرے پر تھپڑ مارا وہ لڑکھڑا گیا میں سمجھ گئی اس نے شراب پی رکھی ہے۔ اس کی لڑگھڑاہٹ سے فائدہ اٹھا کر کمرہ کھول کر چلا چلا کر ریحان بھائی اور فرمان بھائی کو آوازیں دینے لگی۔ ایک منٹ میں سب پہنچ آئے۔وہ مجھ سے ایسی توقع نہیں رکھتا تھا اس لیے بری طرح گھبرا گیا تھا۔
کیا ہوا؟
ریحان بھائی کو دیکھ کر مجھے ایک دم رونا آ گیا۔اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ تھی۔ابھی میں نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے۔شیما بھابی طنزیہ انداز میں بول پڑی۔
ہم تو سمجھتے تھے تم بدل گئی ہو بدلنا تو دور کی بات اب گھر میں ہی بھائیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو۔ میں ان کے الزام پر بلبلہ اٹھی۔جب غلطی پر تھی چپ کر کے ہر الزام سہا۔مار بھی کھائی مگر اب بے قصور یہ سب نہیں سہہ پا رہی تھی۔
میں نے کچھ نہیں کیا اگر آنکھوں میں دھول جھونکنی ہوتی تو ایسے نہ بلاتی سب کو۔
میں بلند آواز میں بول رہی تھی۔
وہ تمہارے ہی کمرے میں کیوں گیا؟ حنا کے کیوں نہیں گیا۔
نجمہ بھابی اپنے کزن کو سر جھکائے دیکھ کر دانت پیستے ہوئے بولی۔
صرف اور صرف تم دونوں کی وجہ سے میں۔
جنونی ہو کر ان کو جھنجوڑ ڈالا۔
میں نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا تھا۔
میں ان کو جھنجوڑ رہی تھی کہ فرمان بھائی نے آگے بڑھ کر مجھے روکنا چاہا اور ہاتھ اٹھانے لگے میں نے بے خوفی سے ان کا ہاتھ روک لیا اس پل میں شاید اپنے آپ میں نہیں تھی ۔
ذلیل، بے غیرت ہاتھ روکتے شرم نہیں آئی۔
پھر انہوں نے ہاتھ اٹھایا میں چند قدم پیچھے ہو کر چلائی۔
تم سب ذلیل ہو۔ اب مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو میں اس کے ہاتھ توڑ دوں گی۔
نکالیں اسے ایک چوری اوپر سے سینہ زوری بجائے غلطی ماننے کے ہم پر چڑ رہی ہے۔ وہ دونوں اپنے اپنے بول رہی تھی ۔
"تم لوگ مجھے کیا نکالو گے میں خود یہاں سے جا رہی ہوں جب میں چلی جاؤں تو ایک ایک کو فون کر کے بتانا کے ہماری نند گھر سے بھاگ گئی تم لوگ اس کام میں ماہر ہو نا۔"
میں وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آئی۔ سب پر سکتا طاری ہوگیا۔ بے زبان ایک دم اتنا بول کر سب کو حیران پریشان کر دیا۔میں اپنے گھر محفوظ نہیں چار دیواری میں عزت نہیں محفوظ تو کھلا آسمان برا نہیں ۔دو بھائیوں کو موجودگی میں محفوظ نہیں تو اس گھر میں رہا کیوں جائے؟
رات بھر میں اپنا سامان پیک کرتی رہی میں روئی نہیں عجیب بے کسی نے مجھے لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔
خالہ امی میری امی کی کزن ہیں یہ بہت غریب راشتےدار تھی جن کی امی ساری زندگی مالی امداد کرتی رہی۔
اس معاملے میں امی کو ابی کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امی اپنے رشتےداروں کی بہت خفیہ مدد کرتی تھی ان کے جانے کے بعد ابی نے وہی سلسلہ جاری رکھا مدد کا۔جب تک محسن بھائی کی جاب نہیں لگی وہ باقاعدگی سے انہیں پیسے بھیجتے رہے خالہ امی میرے امی ابی کی بہت احسان مند تھی۔ مجھے بہت پیار کرتی میں نے ان کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا ورنہ ان کے دھکے مار کر نکالنے کا انتظار کرتی۔گھر سے نکلتے وقت میں جب ریحان بھائی کے پاس گئی انہوں نے مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیا ۔
میں خالہ امی کے پاس جا رہی ہوں چاہو تو کنفرم کر لینا فون کر کے ایسا نہ ہو یہ سوچو کے کسی کے ساتھ بھاگ رہی ہوں جھوٹ بول کر ۔اب میں دوبارہ کبھی واپس نہیں آؤں گی۔ لوگوں کو بول دینا ہمیشہ کے لیے چلی گئی یا مر گئی جو دل چاہے بول دینا۔
وہ اسی طرح منہ پھیرے بیٹھے رہے۔ شیما بھابی جو ان کے برابر میں بیٹھتی تھی منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہی تھی۔
گھر سے نکلتے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اپنے گھر کو جی بھر کے دیکھا۔ بے بسی کی کیفیت یک لخت ختم ہو گئی ۔
گاڑی تیز رفتاری سے چل رہی تھی اس سے بھی تیز رفتاری سے میری آنکھوں سے پانی بہہ کر میرا گریبان بھگو رہا تھا۔
اور سب کی طرح خالہ امی بھی میرے بارے میں جانتی تھی مگر انہوں نے پھر بھی مجھے اپنے گھر میں پناہ دی۔ ماہ طلعت کی بیٹی ہونے کے ناتے ان کے احسان کے بوجھ تلے دبے بدلہ چکانا چاہتے تھے۔ وہاں سب نے کھلے دل سے میرا ویلکم کیا۔میں جاب کرنے لگی۔ زندگی سکون سے گزرنے لگی تھی۔ میں نے اپنے آنے کی وجہ خالہ امی کو سب سچ سچ بتا دی۔انہوں نے میرے فیصلے کو درست مانا اور ریحان بھائی اور فرمان بھائی کو غلط کہتی تھی کہ ان سے ایک بہن نہیں سنبھالی گئی۔میرا یہ سکون بھی کچھ ٹائم کا تھا۔میری بدقسمتی میرا پیچھا کرتی ہوئی وہاں آ پہنچی
صرف ایک سال بعد میں دوبارہ گھر بدر ہو گئی۔
میں زندگی سے مایوس ہو گئی تھی مجھے آنے والے وقت سے کوئی امیدیں نہیں تھی۔
پھر میری زندگی کا نیا دور شروع ہوا اور میں یہاں پہنچ آئی۔شروع میں یہاں بہت گھبرائی رہی مگر سب بہت احترام عزت دیتے۔
ان سب میں کسی کو میری اصلیت پتہ چل جائے تو سب کے رویے بدل جائیں گے۔
"میرا کسی خوشی پر کوئی حق نہیں اور آپ جیسے اچھے انسان کی تو میں ہر گز بھی قابل نہیں".
وہ اپنے سے فاصلے پر بیٹھی لڑکی کو دکھ سے دیکھ رہا تھا
جس نے زندگی میں بہت سے دکھ اٹھائے تھے جو بظاہر بہت بزدل اور کمزور تھی لیکن اندر سے بہت بہادر تھی...
"چلیں زوبیہ "..
وہ اتنی دیر بعد بولا بھی تو کیا؟؟
وہ گھٹنوں پر سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی...
اسکے چہرے کے تاثرات نہیں بدلے تھے
مگر زبان پر چپ کی مہر لگ گئی تھی..
وہاں سے اٹھتے وقت اس نے محسوس کیا وہ اس شخص کا بدلنا سہہ نہیں پائیگی۔ اگر یہ شخص بھی بدل گیا اور اسے چھوڑ گیا تو اب کی بار وہ شاید واقعی مرجائیگی...
وہ کبھی کسی کے آگے نہیں کھلی تھی اسکی کوئی دوست نہیں تھی کوئی رازدار نہیں تھا اسکو اس شخص کے سامنے اپنے اوراق زندگی پلٹنے پر کوئی افسوس نہیں تھا..
اس نے خود کو بہت ہلکا محسوس کیا تھا...
حجستہ کی موت کے بعد جس سکتے کی کیفیت میں وہ تھی وہ کیفیت یکسر ختم ہو چکی تھی..ڈیوٹی آف ہونے کے بعد وہ حجستہ کے گھر چلی آئی تھی...اب جب وہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی تو اسے اندازہ ہوا کہ اس پر اک قرض باقی ہے حجستہ کے خون کا قرض ...کیا اس کا خون رائیگاں جائیگا..؟؟
اسے یقین تھا کہ اسکی ساس اور شہباز اس معاملے میں اسکا ساتھ دینگے...انہوں نے بجھے دل سے استقبال کیا اسنے آمد کا مقصد بتایا تو دونوں بوکھلا گئے...ہم پولیس کو بیان دے چکے ہیں گولی غلطی سے پسٹل صاف کرتے ہوئے چلی تھی ..."
شہباز نے ہچکچاتے کہا...
کوئی بات نہیں بیان بدلا بھی جا سکتا ہے سچائی تو بہرحال سچائی ہے تم لوگ سچ بولو دیکھو اس خون کا حساب دینا ہے
زوبیہ نے سمجھایا۔
تو کیا کریں بہو مر گئی اب بیٹے کو خود پھانسی دلوادیں ہم ایسا نہیں کرسکتے ..
سمجھانے کے باوجود وہ آمادہ نہیں ہوئے..
ٹھیک ہے میں آس پاس والوں سے تفتیش کرواؤنگی پھر پولیس تمھارے پاس آکر سب اگلوائےگی...
وہ انہیں دھمکاتی چلی گئی..
لوگوں سے پوچھنے پر اسے اندازہ ہوا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں۔ اسکی بات سنتے ہی برابر والے خان محمد نے جب یہ کہا کہ
انہیں تو اتنے سالوں میں خجستہ اور بہادر کی لڑائی کی کبھی آواز نہیں آئی وہ دونوں بہت پیار محبت سے رہتے تھے...
انہیں اتنے مستحکم لہجہ میں جھوٹ بولتے ریکھ کر وہ دنگ رہ گئی...
مردوں میں سب نے یہی کہا کہ ہمیں کبھی حجستہ کے چیخنے چلانے کی آواز نہیں آئی اور عورتوں کو اس نے جذباتی کرکے اگلوانا چاہا تو انھوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا:
یہاں تمام عورتوں کے ساتھ یہی ہوتا ہےمیری بہن کو تو اسکے شوہر نے جلا کر ماردیا تھا لیکن ہم خاموش رہے اب بھلا مردوں کے خلاف کچھ کہہ سکتے ہیں؟؟؟
میرا آدمی خود مجھے بہت مارتا ہے اب کیا میں پولیس کے پاس پہنچ جاؤں؟؟"
وہ کسی بھی طرح انھیں قائل نہیں کر پا رہی تھی...
حجستہ کےلیے دل میں ہمدردی کے باوجود کوئی بھی اس کے حق میں گواہی دینے کیلیے تیار نہ تھا
اسے تھوڑی بہت سزا ہوگی اور پھر تھوڑے دنوں بعد وہ دوبارہ یہیں اسی جگہ دندناتا پھر رہا ہوگا...
پولیس کو کچھ دے دلا دیا تو شاید معاملہ بہت آسانی سے رفع دفع ہو جائے وہ پاس کے گاؤں کے سردار کا خاص کارندہ تھا اور اتنا بے اختیار اور لاچار نہیں تھا کہ خود کو بچا نہ سکے..
سچائی اپنی تلخ ترین حیثیت میں کھل کر سامنے آئی تو وہ تھر تھرانے لگی...
"آپ ابھی جانتی کیا ہیں ڈاکٹر زوبیہ؟؟
ہمارے اسی معاشرے میں عورتیں جلا کر ماری جاتی ہیں ؟،یہ چولہے پھٹنے کی خبریں تو شاید آپ نے روز سنی ہونگی،کبھی کم جہیز لانے پر ،کبھی اولاد نہ ہونے پر کبھی بیٹی پیدا کرنے پر ..
ہمارے اسی معاشرے میں عورتیں کاری کی جاتی ہیں..اگر آپ نے اس معاملے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی اس حادثے کو قتل ثابت کرنا چاہا اور چلیں مان لیا کہ قتل ثابت ہوجاتا ہے پھر آپ کا مخالف وکیل بہادر کی جانب سے حجستہ کے کردار پر حملہ کرے گا۔وہ آوارہ تھی بد چلن تھی بد کردار تھی۔ اسکے اپنے دیور کے ساتھ نا جائز تعلقات تھےاور کیا ایک غیرت مند شوہر ایسی صورت میں اپنی بیوی کو جان سے نہ مارتا؟؟
اسے ضرور ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ غیرت سے بڑھ کر مرد کا وار کیا ہوسکتا ہے...
وہ بڑی بے رحمی سے کڑوی سچائیاں بیان کر رہا تھا.
زوبیہ آنکھوں میں آنسو لیے خاموشی سے اس کی زبان سے نکلتے تلخ حقائق سن رہی تھی..
اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر وہ اک لمحہ کیلیے خاموش ہوگیا تھا..
وہ شکست خوردہ انداز میں ہاسپٹل پہنچی تو بے اختیار اسکا دل چاہا کہ وہ اسفند یار سے ملے اسے کہے کہ مجھے تسلی دو کوئی ایسی بات کرو کہ میرے دل کو قرار آجائے۔
ریسیپشن سے پتہ چلا کہ وہ کل اور آج سرے سے آیا ہی نہیں تھا..
"اسے کچھ ضروری کام تھا کہہ رہا تھا دو تین روز کیلیے آؤٹ آف اسٹیشن ہوں"..
ڈاکٹر شہزور نے اسکے استفسار پر بتایا۔
تمھیں کچھ کام تھا اسفند سے ؟؟انہیں دھیان آیا۔
نہیں ایسا کچھ خاص کام نہیں تھا .. وہ بوجھل دل لیے کمرے انکے کمرے سے باہر آگئی۔
اتنی جراءت تو آپ میں ہونی چاہیے تھی اسفند یار خان کہ اگر میری سچائی جاننے کے بعد آپ اپنی محبت سے دستبردار ہوگئے ہیں تو یہ بات میرے منہ پر کہتے..
رات کے اس پہر وہ چپ چاپ ہاسٹل کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی...سامنے ہاسپٹل کے پچھلے دروازے سے نکل کر دو ہیولے باغ کی طرف بڑھے تھے۔
وہ اماوس کی رات تھی گھپ اندھیرا رات کے اس پہر آنے والوں کو اس تک پہنچنے کی بہت جلدی تھی۔ وہ دونو بہت تیزی سے اسکے پاس آرہے تھے...
________________
میں اسفند یار خان ہوں...
اس شاندار آفس میں بلیک سوٹ پہنے پختہ عمر کے مرد سے اس نے مصافحہ کرتے ہوئے تعارف کروایا..
تشریف رکھیں..
اس نے چہرے پر پروفیشنل مسکراہٹ سجا کر کہا...
انکے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑا
وہ ایک دم ٹھٹکا..
آپ نے بتایا نہیں…انکے جواب نہ دینے پر بولا..
جی ہاں وہ میری بہن ہیں آپ کیسے جانتے ہیں اسے؟؟
اس نے محسوس کیا کہ بہن کا لفظ انہوں نے بہت سوچ کر ادا کیا...
وہ میرے ہاسپٹل میں پچھلے ڈیڑھ سال سے جاب کررہی ہیں جاننے والی بات کا جواب تو ہوگیا اور دوسرا سوال جو آپ یقیناً مجھ سے پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ میں کس سلسلے میں آیا ہوں..تو اسکا جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے رسم و رواج کے مطابق جب کسی لڑکی سے شادی کرنی ہوتی ہے تو رشتہ لے کر اس کے سر پرستوں کے پاس جایا جاتا ہے،میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں،آپ اس کے بڑے بھائی ہیں اس لحاظ سے آپ اس کے سرپرست ہوئے،چنانچہ میں آپ کے پاس چلا آیا۔،"
وہ بڑے پرسکون انداز میں بول رہا تھا۔اسکی بات سن کر ان کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔آپ کو اس سے شادی کرنی ہے ،ضرور کریں ،اس سلسلے میں میرے پاس آنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی" ان کے انداز میں لا تعلقی اورسردمہری کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
"ایک بار اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا واقعی آپ اس سے نفرت کرتے ہیں یا پھر محض ایک جھوٹی انا اور نام نہاد غیرت ہے،جو آپ کو اس سے لاتعلقی کا اعلان کرنے پر مجبور کر رہی ہے" اس نے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا تھا ۔
"تو اس نے آپ کو اپنی وکالت کے لیے بھیجا ہے آخر اسےاچانک ایسی کیا ضرورت آن پڑی بھائیوں اور سر پرستوں کی؟ وہ تمسخرانہ انداز میں اس سے مخاطب ہوئے ۔
وہ بہت اچھی ہے۔بہت بہادر اور بہت سچی۔اسے میری وکالت،صفائی،گواہی کی ضرورت نہیں ۔میں اپنی مرضی سےیہاں آیا ہوں،مجھے کسی نے یہاں نہیں بھیجا۔اس جیسی اچھی لڑکی کی یہ بہت بڑی توہین ہوگی اگر میں کہیں اس کے لیے رحم یا ہمدردی کی بھیک مانگنے جاؤں۔میں تو بس یہ سوچ کر چلا آیا تھا کہ کیا پتا اتنے سالوں میں کچھ بدل گئے ہوں،ہوسکتا ہے آپ خود بھی اسے یاد کرتے ہوں۔ شادی تو بہرحال مجھے اسی سے کرنی ہے،میں تو بس صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ لڑکی پوری عزت کے ساتھ اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہو۔
اب کی بار وہ کچھ بھی نہ بول پائےتھے،بس خاموشی سےاسے دیکھے چلے جا رہے تھے۔
"اور جس آزاد اور خودمختار زندگی کا آپ ذکر کر رہے ہیں،اسے وہ زندگی گزارنے پر مجبور کس نے کیا؟ کیا آپ نے اتنے برسوں میں کبھی یہ بات سوچنے کی زحمت کی،کوئی بھی انسان اپنا گھر خوشی سے نہیں چھوڑتا اور وہ پاگل لڑکی وہ تو آج بھی اپنے اس گھر کو اور اس کے مکینوں کو یاد کر کے آنسو بہاتی ہے۔وہ گھر جس میں اس نے آنکھ کھولی،جہاں اس کے ماں باپ کی یادیں ہیں،اس کے دو پیارے بھائی رہتے ہیں ۔آپ لوگوں کی اتنی بےتحاشہ نفرت بھی اس کے دل سے آپ لوگوں کی محبت نہیں نکال پائی۔ آج بھی اپنے ریحان بھائی اور فرمان بھائی کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔لیکن آپ کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آئیں گی۔میں اس کی کوئی وکالت کرنے نہیں آیا تھا،وہ جب کہیں غلط ہی نہیں ہے تو پھر اس کی طرف سے صفائی پیش کی جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔میں تو صرف اس لیے۔۔۔۔۔لیکن رہنےدیں اس بات کو، آپ کے نزدیک تو شاید یہ سستی جذباتیت ہو گی،بھائی کا بہن کو رخصت کرتے وقت سر پر ہاتھ رکھ کر خوشیوں کی دعا دینا سستی جذباتیت ہی تو ہے"
اس کے لہجے میں طنزیہ کاٹ کے ساتھ ساتھ بہت سے دکھ بھی ہلکورے لے رہے تھے ۔
"کبھی وہاں میرے چھوٹے سے گاؤں میں میں آکر دیکھئے ریحان خلیل صاحب کہ وہ لڑکی وہاں کتنی ہر دلعزیز ہے،اورسب کو خود سے پیار کرنے پر اسکے سلوک نے مجبور کیا ہے،آپ لوگوں کی اتنی ساری نفرتیں مل کر بھی اس کے دل سے محبتوں کو نہیں نکال پائیں،اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو خود پر اتنے الزامات سہتے سہتے تنگ آکر آخر ایک روز یہ فیصلہ کر لیتی کہ ٹھیک ہے اگر میں بری ہوں تو پھر اب بری بن کر ہی دکھاؤں گی،انسانی نفسیات کی رو سے اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا،مگراس نے ایسا نہیں کیا، پتا نہیں اتنی برداشت اور اتنا حوصلہ اس لڑکی میں کہاں سے آگیا؟
وہ گم صم سے بیٹھے ہوئے تھے،جبکہ وہ اپنی بات مکمل کر کے کرسی سے اٹھ چکا تھا۔
یاد تو آپ اسے ضرور کریں گے ریحان خلیل صاحب! آج نہیں تو دس سال بعد ،پندرہ سال بعد،کبھی نہ کبھی۔آپ بھی اپنی ضمیر کہ عدالت میں ایک روز جوابدہ ہوں گے،مگر تب شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔تب آپ کے پاس صرف ملال ہوں گے،پچھتاوے ہوں گے،بالکل اسی طرح جیسے آپ کے والد نےاپنی عمر کا آخری حصہ پچھتاوؤں کی نذر کردیا تھا اور انہیں کس کس بات کا پچھتاوا تھا۔زوبیہ سمجھتی ہے۔ انہیں بیوی سے برے سلوک پر ملال ھوتا تھا. بے شک انہیں اس بات پر بہت ندامت تھی.مگر ساتھ ہی ساتھ وہ خود کو اپنی اولاد کا بھی مجرم سمجھتے تھے.وہ یہ بات سمجھ چکے تھے کہ ان کی بیٹی سے جو غلطی ہوئی اس کا سبب وہ خود ہی ہیں.وہ سمجھ چکے تھے کہ ان سے حقوق العباد میں کوتاہی ہو چکی ہے.ان کی نمازیں اور ان کی عبادتیں کچھ بھی ان کے کام نہیں آئیں گی.
وہ اپنی بات ختم کر کے ایک پل کے لیے سانس لینے کے لیے رکا تھا.
"معاف کیجیے گا میں نے آپ کا بہت وقت برباد کیا'شاید میں نے آپ کے پاس آ کے غلطی کی-بہر حال میری کوئی بات آپ کو بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ خداحافظ."وہ ایک دم دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا-ان کے ساکت وجود میں اچانک جنبش ہوئی تھی-"رک جائیے اسفندیار" وہ دروازہ کھولتے کھولتے ٹھٹھک کر رک گیا تھا-
____________
"اس کے قدم ایک بار بھٹکے تھے، وہ کم عمر تھی، نادان تھی، آپ لوگ چاھتے تو اس کی اس غلطی کو پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کر سکتے تھے-اپنی بیوی'بہن اور بیٹی کے معاملے میں ہر مرد اتنا ہی حساس اور غیرت مند ہوتا ہے جتنے آپ-لیکن وہ واقعہ جو صرف آپ کے گھر والوں کے درمیان تھا-اس کا چرچا سارے زمانے میں کس طرح ھو گیا-'کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا'اگر بات غیرت کی ہے تو غیرت تو یہ ہوتی کہ گھر کی بات گھر میں ہی دبا لی جاتی-لوگ میرے گھر کے کسی فرد کو بیٹھ کر ڈسکس نہ کریں ۔
وہ ساحل پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے ان سے مخاطب ھوا تھا-
"جن گھروں میں فیصلوں کا اختیار عورتوں کو دے دیا جائے'جن مردوں میں قوت فیصلہ کی کمی ہو'جو رشتوں کو ان کی سہی جگہ پر نہ رکھ سکیں'بیوی کی کیا حیثیت اور مقام ہے'باپ اور ماں کا کیا مقام ہے اور بہن بھائیوں کی کیا جگہ ہے وہاں اسی طرح کے پرابلمز کھڑے ھوتے ھیں؟
اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلتے ہوئے وہ خاموشی سے اس کی بات سن رہے تھے-غروب ہوتا سورج اپنی آخری شعائیں زمین کی نذر کر رہا تھا-
"شام کا یہ وقت دل کو اتنا اداس کیوں کر دیتا ھے"وہ ﮈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے یاسیت سے سوچ رہے تھے-کبھی کبھی کوئی تیز لہر آ کر ان کے پیروں کو بھگو دیتی تھی-
"میں اس کی پچھلی زندگی کا احوال سن کر دنگ رہ گیا-ایک لڑکی اور اتنی بہادر-آپ میری بات کا یقین کریں ریحان صاحب!آپ کی بہن بہت بہادر ہے-اتنے سالوں سے وہ متواتر اور مسلسل اپنے کردار پر لوگوں کے شکوک و شبہات سہہ رہی ہے-وہ تمام گناہ اس سے منسوب کیے گئے جو اس سے سرزد بھی نہیں ھوئے تھے- اور وہ پھر بھی زندگی کی جنگ لڑتی رہی کبھی ہاری نہی'مایوس ہو کر کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا-مردوں کو تو خدا نے عورتوں سے زیادہ مضبوط اور قوی اعصاب کا مالک بنایا ہے مگر میں نے ایک مرد کو اسی بات پر اپنی زندگی ہارتے دیکھا ہے اور وہ مرد کوئی عام مرد نہیں تھا-وہ جس کے قدموں کی دھمک سے زمین لرز اٹھتی تھی-جو اتنا بہادر اور دلیر تھا کہ بڑے بڑے سورما اس کے آگے بھیگی بلی بنے کھڑے ہوتے تھے'جو بات کرتا اس کا لہجہ دو ٹوک اور قطعی ہوتا تھا-اور ایسا شجاعت کا پیکر اپنے کردار پر حرف آتا دیکھ کر زندگی سے بڑی خاموشی کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کر گیا تھا-
جب میں زوبیہ کو بہادری سے زندگی کی جنگ لڑتا دیکھتا ہوں تو بے اختیار مجھے ارد شیر خان یاد آ جاتا ھے'میرا بڑا بھائی-وہ جو مجھے بہت پیارا تھا'باپ کے مرنے کے بعد جسے میں اپنا باپ'بھائی' دوست سب سمجھنے لگا تھا- وہ ایک کامیاب وکیل تھا'بہت قابل اور ذہین۔ اپنی ذہانت اور تمام تر طاقت وہ مظلوموں کی داد رسی میں استعمال کرنا چاہتا تھا-مجھے اس سے بہت اختلاف تھا-بی بی جان اور بھابھی بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کرتیں کہ وہ کیوں خوامخواہ لوگوں سے دشمنیاں مول لیتے ہیں مگر وہ راہ بدلنے کو تیار ہی نہ تھے-
وہ ایک گینگ ریپ کا کیس تھا- کہانی وہی عام سی تھی'ایک غریب لڑکی جو بے تحاشا خوبصورت اور حیا دار تھی اور مقابل امیر ماں باپ کے بگڑے ھوئے رئیس زادے-مخالف پارٹی اثرورسوخ والی تھی ان کا وکیل شہر کا بہترین وکیل تھا تو مقابل ارد شیر خان بھی کچھ کم نہ تھا-انہوں نے اسے خریدنے اور اپنے حق میں ہموار کرنے کی ہر ممکن حد تک کوشش کی'مگر وہ ارد شیر خان! اسے کیا کوئی خرید سکتا تھا؟ تمام گوائیاں اور ثبوت شیرلالہ نے ان لوگوں کے خلاف اکھٹے کر لیے تھے ۔کیس ہر لحاظ سے ان کے حق میں تھا مقدمے کا فیصلہ سنایا جانا باقی تھا ان لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا ملنے کی قوی امید تھی کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔ وہ جو عورتوں کے حق کی بات کر رہا تھا ایک لڑکی کو بے آبرو کرنے والے کو انجام تک پہنچا دیا جائے کہ ایک لڑکی کا الزام اس پر لگ گیا ۔
ایک بکھرے حلیے میں لڑکی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔اپنے ہی آفس میں سب کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک کامیاب وکیل جس کے آگے کوئی ٹک نہیں سکتا تھا وہ گردن جھکائے کھڑا تھا سب ثبوت ان کے خلاف تھے مظلوم لڑکی اپنے اوپر ہوئے ظلم کی داستان رو رو کر سنا رہی تھی۔ میں خبر ملتے ہی پاکستان آ گیا۔ بی جان اور گیتی بھابھی کا رو رو کر برا حال تھا ۔ہمیں ان کی بےگناہی کا یقین تھا میں ان کو حوصلہ دیتا اور سبق پڑھاتا سب سے اچھا وکیل کا ۔۔ان کو تسلی دیتے کہ ہم سب ان کے ساتھ ہیں مگر وہ ثابت کیے بنا اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کے اس طرح خود کشی سے بہت لوگوں کو یقین ہو گیا تھا کہ ان کی بے گناہی کا، کچھ کو نہیں بھی ہوا۔
ان یقین نہ کرنے والوں میں میرے چچا کی فیملی سرفہرست ہے ۔میری بچپن کی منگیتر پلوشہ نے سب کی طرح مجھ سے قطع تعلق کر لیا ۔ہم بہت اچھے دوست تھے۔بہت آپس میں بنتی تھی مگر بڑے آرام سے سب رشتے توڑ گئی کیونکہ میں بدکردار بھائی کا بھائی تھا ۔
میں شیرلالہ سے زوبیہ کا موازنہ کرتا ہوں تو یہ مجھے اس مضبوط مرد سے زیادہ طاقتور لگتی ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہیں وہ بہادری کے سارے تمغے اتار نہ پھینکے اور وہ بھی بزدلانہ فیصلہ نہ کر دے۔انہیں اس کی آواز میں ہلکی سی نمی محسوس ہوئی ۔
بہت سارے لوگ دیکھنے میں کتنے خوش باش لگتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے انہیں کوئی غم نہیں قریب جا کر دیکھو تو پتا چلتا ہے کہ سچائی یہ نہیں ۔دنیا واقعی آزمائش گاہ ہے ۔
انہوں نے گردن موڑ کر اپنے سے بہت پیچھے رہ جانے والے اسفندیار کو دیکھا جو خاموش کھڑا آتی جاتی لہروں کو دیکھ رہا تھا کسی خیال میں گم۔
اندھیرا ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا ۔مگر وہ اس اندھیرے میں بھی روشنی پا رہے تھے ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے انہیں گہری نیند سے بیدار کیا ہو ۔
بہت یادیں اور آنسو کی برسات تھی جس نے وہاں موجود ہر چیز کو دھندلا کر دیا ۔اس سمندر کو بھی ۔
بھائی! ابی نے آپ کو بہت زور سے مارا ہے نا لاؤ میں دوا لگا دوں۔
وہ سترہ سال کا لڑکا بغیر بتائے لڑکوں کے ساتھ سینما چلا گیا۔ آتے ہی باپ نے بہت مارا اور پھر ایک چھوٹی سی بچی اس کو پیار کر کے دلاسہ دے رہی تھی اور بہت افسرده ہو رہی تھی وہ یہ سوچ کر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھری ہوئی تھی ۔
کیا کر رہی تم میرے کمرے میں؟
منظر بدل گیا بچی ذرا بڑی ہو گئی۔
میں آپ کا روم صاف کر رہی ہوں دیکھیں میں نے آپ کے سب کپڑے کیسے رکھے۔
وہ بڑی محبت سے صاف ستھرے طے ہوئے کپڑے دکھا رہی تھی۔
تمہیں میری چیزوں کو ہاتھ لگانے کی جراءت کیسے ہوئی؟ وہ ڈر کے مارے چند قدم پیچھے ہوئی
آئندہ میری کسی چیز کو ہاتھ لگایا تو ہاتھ توڑ دونگا ۔
گیٹ لاسٹ"
وہ دھاڑا تھا اور وہ سہم کر بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی تھی،مگر اسکی آنکھوں میں شکوہ صاف نظر آرہا تھا۔باپ کے رویے سے بد ظن ہو کر وہ دونوں بھائی گھر سے باہر سکون تلاش کرتے تھے
باپ کا رویہ بیٹوں کے ساتھ بھی حاکمانہ تھا
وہ بھی اسکی رعایا تھے،مگر ان کے پاس گھر سے باہر ایک وسیع دنیا تھی۔جہاں ان کے بہت سے دوست تھے،بہت سی مصروفیات تھیں،ان کی زندگی اس چاردیواری تک محدود نہ تھی جو وہ کسی احساس کمتری کا شکار ہوجاتے یا تنہائی محسوس کرتے۔ایسے میں انہیں کبھی اس لڑکی کا دھیان ہی نہیں آیا جو ان کی اکلوتی بہن تھی۔،جس پر زندگی ہر طرح تنگ تھی،ماں کے مرنے کے بعد وہ اور تنہا ہوگئی اور خود وہ شادی کے بعد اپنی نئی زندگی میں بڑے مطمئن اور مگن ہوگئے ۔
ہاں اس سے غلطی ہو گئی تھی،مگر اس کی غلطی سے بھی زیادہ بڑی غلطیاں تو وہ کرتے رہے تھےاور وہ بھی مسلسل۔کبھی انہوں نے سکون سے بیٹھ کر یہ بات سوچنےکی کوشش کیوں نہ کی کہ گھر کے افراد کے مابین ہونے والی ایک بات کا تذکرہ سارے خاندان میں کس طرح ہو گیا،ساتھ رہتے انہوں نے کبھی اپنی بیوی کی بری عاداتوں کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔بیوی کو بیوی بنا کر کیوں نہیں رکھا۔اگر وہ غیرت مند تھے،عزت پر جان دینے والے تھے تو انہیں اس بات کو اپنے گھر سے باہر نکلنے سے روکنا چاہئے تھا،وہ ایک غلطی کے بعد بدل گئی تھی،مگر آگے جو کچھ ہوا اس کے ذمہ داروں میں وہ سب سے آگے تھے۔ ابی اپنے پچھتاوؤں میں کھوئے اور وہ دونوں بھائی نام نہاد غیرت کا راگ الاپنے میں مصروف ۔
"شیما بھابھی! بھائی کو سونے سے پہلے یہ دوا ضرور دے دیجئےگا"
وہ بظاہر بند آنکھوں سے اس کا پر تشویش لہجہ سن رہے تھے۔کیسا عشق تھا اسے اپنے بھائیوں سے،جو اسے منہ نہیں لگاتے تھے،اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے،اس وقت ان کے دل میں اس کے لیے سوئی ہوئی محبت اچانک بیدار ہو گئی تھی۔
وہ اسے ابی کی دن رات ایک کر کے خدمت کرتے ہوئے دیکھتے۔ابی سے لیکر اپنے بھتیجے بھتیجیوں تک۔وہ ہر ایک سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔سب کا خیال رکھنا جیسے اس پر فرض تھا اور وہ جواب میں اسے کیا دے رہے تھے۔صرف نفرت،حقارت اور اس کے اپنے ہی گھر میں اسے تیسرے درجے کے شہری جتنے حقوق۔
وہ اپنے کلاس فیلو کا رشتہ آجانے پر چوروں کی طرح سب سے منہ چھپائے پھر رہی تھی۔کیا اسکا اتنے برسوں کا زندگی گزارنے کا ڈھنگ ان لوگوں کے سامنے نہ تھا۔انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ اتنی محبت سے رشتہ مانگنے والے کبھی دوبارہ ان کے گھر کیوں نہیں آئے۔ان کی آنکھوں سے گرنے والے تمام آنسو اس لڑکی کے نام تھے،جسے وہ بہن کہتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔جس کے ساتھ تعلق اور وابستگی نے انہیں برسوں ندامت میں مبتلا کیے رکھا تھا۔
منظر پھر بدل گیا تھا اب وہ چیخ چیخ کر سب کو برا بھلا کہہ رہی تھی ۔فرمان کا ہاتھ بےخوفی سے پکڑ کر وہ چلا رہی تھی۔
"تم سب ذلیل ہو ،بے غیرت ہو،تم لوگ مجھے کیا نکالو گے میں خود تمہارے اس گھر پر تھوک کر جا رہی ہوں ۔"
وہ چپ چاپ تماشائی بنے کھڑے رہے تھے۔حالانکہ اس لمحہ ان کے دل نے اس کے حق میں گواہی دی تھی،مگر وہ دل کی بات سننے پر آمادہ ہی کب تھے؟ وہ بھائیوں کے ہوتے بےامان ہو گئی تھی۔
" میں آپ لوگوں کو ستانےواپس نہیں آؤں گی،آپ لوگ چاہیں تو سب سے کہہ دیجیے گا کہ زوبیہ ہمیشہ کی لیے چلی گئی ہے یا مر گئی ہے"
" ہم نے تمہیں جیتے جی مار ڈالا زوبی! کبھی پلٹ کر دیکھنے بھی نہیں گئے کہ ہماری بہن کس حال میں ہے۔یہ کیسی انا تھی،کیسی ضد،کس بات کا غصہ تھا۔"
وہ نڈھال ہو کر ساحل کی گیلی ریت پر بیٹھ گئے تھے ۔گزرا ہوا وقت واپس کس طرح لایا جا سکتا تھا،اب جب اپنی ہر غلطی نظر آنی شروع ہو گئی تھی تو دل کو اس ملال نے گھیرے میں لے لیا تھا کہ اپنی زیادتیوں کا ازالہ کس طور ہو..
اپنے کندھے پر ہلکا سا دباؤ محسوس کر کے انھوں نظر اٹھا کر دیکھا تو اسفند یار اپنے برابر میں بیٹھا نظر آیا..."مجھ سے بہت بڑی زیادتی ہوگئی اسفند اس گناہ پر تو شاید خدا مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا"
وہ گلوگیر لہجے میں بولے تھے...
مگر تمھیں پتہ ہے جس روز سے وہ گھر سے گئی ہے میں سکون کی نیند نہیں سویا.
اب تو قدرتی نیند سوئے عرصہ ہوگیا اکثر وحشت سے آنکھ کھل جاتی ہے میری۔ میں اسے کاروباری تھکن سمجھ کر خود کو دھوکا دیتا رہا.
تم نے ٹھیک کہا تھا کہ جب ہم کچھ غلط کرتے ہیں تو ہمارا ضمیر ہمیں کچوکے لگاتا ہے جواب طلبی کرتا ہے ہم نہ سمجھیں وہ الگ بات ہے..
وہ خاموشی سے اس اونچے پورے مرد کو روتا بکھرتا دیکھتا رہا...
__________________
اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ حیران تھی کہ سامنے کھڑا شخص واقعی اسکے سامنے ہے یا دھوکا ہے...اسے لگا وہ شاید اب جاگتے ہوئے خواب دیکھ رہی ہے.اسے اسی طرح گم صم دیکھ کر وہ ایک قدم آگے بڑھ کر بانہیں پھیلائے تھے...
زوبیہ مجھ سے ملوگی نہیں؟؟..یہ آواز کتنی جانی پہچانی تھی مگر لہجہ قطعاً نامانوس..!!
وہ انکی طرف ایسے آہستگی سے بڑھی جیسے اسے پتہ تھا کہ وہ بڑھے گی اور وہ غائب ہو جائیں گے.
مگر نہ وہ غائب ہوئے نہ منظر بدلا۔ اس سے ایک قدم فاصلے پر اسکا بھائی کھڑا تھا اور اس کے پیچھے وہ شخص مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا جسے وہ اپنے تمام کھوئے ہوئے رشتوں کی طرح رو چکی تھی.اپنے حساب سے جس نے اسے کھو دیا تھا...
بھائی..!چیخ کی صورت یہ لفظ اسکے منہ سے نکلا.
اگلے پل وہ انکی بانہوں میں چھپی تھی اور زار و قطار رو رہی تھی اسے چپ کراتے کراتے وہ خود بھی رو پڑے..
چلو زوبی میں تمھیں گھر لے جانے آیا ہوں۔ تمھارا گھر تمھارا انتظار کر رہا ہے..
وہ حیرت سے ان کو تکنے لگی..وہ اس کا سوال سمجھ گئے تھے.
ہم نے تمھارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے.گزرا وقت واپس نہیں آسکتا ..میری جان -!!میں اپنی ہر زیادتی کا ازالہ کروں گا.
اسفند یار بہن بھائی کے اس ملن پر طمانیت محسوس کرتا خاموشی سے چلا گیا...ساری رات جاگ کر وہ دونوں آپس میں بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہے جو کبھی نہیں کی تھیں..
اذان کی آواز پر دونوں چونکے...
جب ہم.اللہ سے شکوہ کرنے میں دیر نہیں کرتے تو شکر میں کیوں..؟؟
وضو کرتے وقت اس نے سوچا..
وہ ہاسپٹل کےتمام وارڈز میں گھومتے وہاں کے لوگوں سے اسکی تعریفیں سن رہے تھے...کسی نہ کسی کے پاس اسکے بارے میں قابل ذکر بات موجود تھی۔
وہ حیرانگی کے ساتھ فخر محسوس کررہے تھے..
وہ جانے سے پہلے اس سے مل کر جانا چاہتی تھی.جس نے اسکی زندگی سے خار ہٹائے تھے.
لیکن جانے کا وقت آگیا پر اس سے بات کا موقع نہ ملا..
کیا کہنا چاہتی ہو...وہ جاتے وقت پیچھے رہ گئی تھی اور وہ دانستہ...سب پارکنگ کی طرف بڑھ گئے تھے جبکہ وہ دونوں کوریڈور میں آمنے سامنے موجود تھے..
"لیکن اس سے پہلے یہ بتاؤ تم نے صرف ان دو دنوں میں میرے بارے میں کتنی منفی سوچیں سوچ ڈالی تھی سچ بتانا؟؟"
خفگی سے پوچھا۔
آپ نے کچھ کہا جو نہیں تھا کوئی بھی تسلی...وہ اعتراف کرتے ہوئے بولی...
مجھے عمل کرنا پسند ہے۔ تمھارے پاس بیٹھ کر تسلی کے بجائے میں سب ٹھیک کر نے چلا گیا تمھیں پتہ ہے مجھے تقریریں پسند نہیں.
آپ نے میرے لئے اتنا کچھ کیا کہ میں....
اسنے زوبیہ کی بات فورا کاٹی۔
اب خدا کیلئے یہ شکریہ کرنے مت بیٹھ جانا میں نے جو کیا صرف اپنے لئے کیا...
اسکو یہ بات سمجھ نہ آئی۔ اسفند اسکی حیرانگی بھانپ گیا
ہو نہ بےوقوف ایسے میری بات سمجھ نہیں آئے گی جب تک تقریر نہ کردوں...
وہ آج اپنے بےوقوف کہے جانے پر ناراض نہیں ہوئی تھی..
میں وہاں اپنے لئے گیا تھا کیونکہ تمھاری عزت میری عزت ہے..تمھارے خوشی غم سب میرا بھی ہے ...اسی لئے میں وہاں اپنے لئے گیا...تم مجھ سے روز یہ سننا چاہتی تھیں ..میں نے تمھارےچہرے پر لکھی خواہش پڑھی تم تسلی چاہتی تھیں مگر تم سے یہ باتیں کہتے ہوئے میں تب اتنا اچھا محسوس نہیں کر سکتا تھا جتنا آج کر رہا ہوں . اب یہ بولتے ہوئے مجھے ایسا نہیں لگ رہا کہ میں کھوکھلے لفظ ادا کر رہا ہوں۔ وہ بس خاموشی سے ایک ٹک ایسے دیکھ جا رہی تھی. اس نے اس کے ہاتھ بڑی محبت سے اپنے ہاتھوں میں لیے اور بہت مستحکم لہجے میں بولی.
"وہ سب لوگ جو مجھ سے پیار کرتے ہیں . میری عزت کرتے ہیں. انہیں تم سے بھی اتنا پیار کرنا پڑے گا جتنا مجھ سے کرتے ہیں تمہاری بھی اتنی عزت کرنی پڑے گی جتنی میری کرتے ہیں. تم چاہو تو اسے میری طرف سے کوئی وعدہ سمجھ سکتی ہو، کوئی عہد کوئی پیمان ."وہ پاس کھڑا اس کی آنکھوں میں جھلملاتے ستارے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی.
تمہارے آنے کی خوش خبری میری امی نے برسوں پہلے مجھے دی تھی. امی آپ نے بالکل سچ کہا تھا واقعی ایسا شخص میری زندگی میں آچکا ہے وہ جو مجھ سے صرف پیار ہی نہیں کرتا بلکہ میری عزت بھی کرتا ہے. "
وہ دونوں ساتھ چلتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھے تھے . اسفندیار آہستہ آواز میں اس سے مخاطب ہوا تھا.
اور یہ بھی یاد رکھو زوبیہ انقلاب کا نعرہ لگا دینے سے انقلاب آ نہیں جاتا. اس کے لئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں. مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے. تمہیں حجستہ کے مرنے کا دکھ ہے مگر یہاں مسلہ ایک حجستہ کا نہیں . ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر عورتوں پر ہونے والے مظالم پر ڈھکا اظہار کرنے سے عورت عورتوں کا دن منانے سے ان کے حقوق کے لیے واک کرنے سے ان کے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہو سکتے . ہم دن منانے اور جذباتی نعرے لگانے والی قوم ہیں لیکن کسی کو تو عملی قدم اٹھنا ہی ہوگا اور وہ کسی میں اور تم کیوں نہیں ہو سکتے۔ ہم اپنے اسی گاؤں سے ہی کیوں نہ شروعات کریں. جس طرح میں نے ہاسپٹل کا خواب دیکھا تھا اسی طرح ہم یہاں ایک سکول بھی بنا سکتے ہیں. ہماری یہ کوشش بہت چھوٹی بہت معمولی سی ہی سہی لیکن یہ اطمینان تو ہوگا کہ ہم نے اچھائی کی طرف ایک قدم تو بڑھایا ہی ہے.
کیا پتا یہ ننھا سا دیا آگے جا کر کتنے چراغ روشن کرنے کا باعث بنے کیا پتا وہ صبح بہار آہی جائے, جب کوئی حجستہ ظلم کی چکی میں پستی اپنی جان سے نہ چلی جائے. میں کتابوں میں لکھی ہر بات سچ کرنا چاہتا ہوں. تم اس کام میں میرا ساتھ دو گی.. ؟
وہ پارکنگ کے پاس پہنچ گے تھے. گاڑی کے پاس کھڑے سب لوگ انہی کے منتظر تھے.
ہاں میں ہمیشہ آپ کا ساتھ دوں گی.. اس نے صدق دل سے اسے اپنی وفاؤں کا یقین دلایا تھا. ڈاکٹر شہروز ، ڈاکٹر آصفہ ، شہاب ، تاجدار ، سسٹر رضیہ سب لوگ اسے خدا حافظ کہنے ریحان بھائی کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے.
آپ کے جانے پر اصولاً تو ہم لوگوں کو افسردہ ہونا چاہیے تھا مگر سنا ہے کہ یہ جانا عارضی ہے. اب ہوسکتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شہروز کا پھیلایا ہوا کوئی پروپیگنڈا ہو مگر سننے میں یہی آیا ہے کہ آپ کچھ ہی دنوں میں واپس آجائیں گی ہمیشہ یہاں رہنے کے لئے. "
شہاب نے بڑی شوخ سی مسکراہٹ سمیت اسے مخاطب کیا تھا. اس بات پر اس کے پیچھے کھڑا اسفندیار بھی ہنس پڑا تھا.
ڈاکٹر شہروز نے آپ کو بالکل ٹھیک بتایا ہے.
اس نے مسکراتے ہوئے اعتراف کیا تو وہاں موجود سب ہی لوگ ہنس پڑے تھے . سب کو خدا حافظ کہتی وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی. گاڑی لمحہ لمحہ اس چھوٹے سے گاؤں سے دور ہوتی چلی جا رہی تھی مگر وہ وہاں سے دور جانے پر بالکل بھی اداس نہیں تھی . اسے پوری عزت اور چاہتا کے ساتھ واپس یہیں ہی آنا تھا . جہاں وہ شخص اس کا بڑی شدت سے منتظر تھا جس سے مل کر اسے کتانوں میں لکھی ہر بات سچ کرنی تھی .کچھ دیے جلانے تھے. کچھ چراغ روشن کرنے تھے کچھ ایسے کام کرنے تھے جہنیں کرنے سے ہی انسان انسانیت کی معراج پر پہنچتا ہے
ختم شد
..............................
0 تبصرے