خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 1

اردو کہانی - پارٹ 1
 

Sublimegate Urdu Font Stories

 خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 1


یہ گھر بہت اچھا ہےاور نہایت معقول قیمت پر آپ ک مل جائے گا پراپرٹی بروکر نے احمر کو کنوینس کرتے ہوے بتایا جو احمر کو کوئی چوتھا گھر دیکھا رہا تھا
احمر ایک ملٹی نشنل کمپنی میں بطور مینجر کام کرتا تھا کمپنی شہر سے دور ایک قصبے میں فرم لگا رہی تھی لینڈ خرید لی گئی تھی احمر کی کارکردگی اور ایمان داری ریکھ کر کمپنی نے اسے وہاں جاکر اپنی ناگرانی میں کام کروانے کی لیے بیھجااس لیے احمر اس قصبے میں کوئی اچھا سا گھر دیکھ رہا تھا تاکہ شہر سے اپنے بیوی بچوں سمیت یہاں شفٹ ہوسکے اس نے ایک پراپرٹی ڈیلر سے رابطہ کیا کہ وہ اسے کوئی اچھا سا کم قیمت میں مکان۔دلا دے پر احمر کو کوئی گھر پسند نہیں آرہا تھا لوکیشن۔اچھی ہوتی تو قیمت بہت ہوتی قیمت کم۔ہوتی تو گھر اچھا نہ ہوتا لیکین یہ گھر احمر کو۔پسند آیا تھا فلی فرنشڈ گھر تھا قیمت بھی کم تھی اور آبادی سے تھوڑا دور تھا جہاں فل پرئوسی کا احساس ہوتا تھا اور احمر چونکہ تنہائی پسند تھا اس لیے اس نے یہ گھر خریدنے کا آرادہ کر لیا ۔۔

ٹھیک ہے مسٹر کمال مجھے یہ گھر پسند ہے ۔ آپ کاغزات ریڑی کروا لیں احمر نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر طیرانہ نگاہ پورے گھر پر ڈال کر کہا ۔۔۔
او دیٹس گریٹ تو پھر میں ایک دو دن میں کاغز ریڑی کروا کر آپ کو انفام کر دوں گا بروکر نے جلدی سے ہاتھ ملایا اور احمر کو لے کر باہر آگیا

احمر خوش تھا کہ اسے اس کے مطلب کا گھر مل گیا ہے وہ بھی انتہائی کم قیمت پر
وہ یہ خوش خبری۔اپنی بیوی کو جلدی سےسنانا چاہتا تھا جو پریگنٹ تھی یہاں کی آب وہوا بھی سازگار تھی یہ قصبہ پہاڑی سلسلے میں واقع تھا چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے چاروں اطراف سے گھیرا ہوا تھا قصبے کے بازار سے گزرتے ہوے اس نے محسوس کیا کہ یہاں کہ لوگ خوش اخلاق نہیں ہیں انکے چہروں پر عجییب سی کراہتگی نمایاں ہے جو اسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے احمر نے دل میں سوچا شاید یہ لوگ اجنبی شخص کو دیکھ کر پریشان ہوگئے ہیں۔اس لیے اسے دل۔میں بدگمانیوں کو جگہ نہیں۔دینی چاہیے وہ واپس شہر آگیا گھر آکر اپنی بیوی صلہ آٹھ سالہ بیٹی ستارہ اور چھ سال کے عماد کو بتایا کہ میں نے نیا گھر خرید لیا ہے بہت جلد ہم۔وہاں شفٹ ہوجائیں گے جسے سن کر صلہ اور عماد تو بہت خوش ہوئے لکین ستارہ کا موڈ آف ہوگیا وہ یہاں سے نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ یہاں۔اسکے بہت سے دوست تھے اور نئی جگہ پر جانا اسے پسند نہیں تھا ۔۔۔کیا ہوا تارہ بیٹا آپ خوش نہیں ہوئی یہ سن کر احمر نے بڑے پیار سے پوچھا ۔۔

نہیں باپا مجھے نہیں جانا کہیں اور میرا سکول۔یہاں ہے اور میرے سارے فرینڈ بھی میں۔انکو چھوڑ کر کہی بھی نہیں جاوں گی دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر حفگی سے کہا ۔۔
بیٹا وہ جگہ آپ کو بہت پسند آئے گی دیکھ لینا نیا سکول ہوگا اور نئے دوست بنا لینا وہاں آپ کا الگ سے کمرہ بھی ہوگا احمر نے لالچ دیا ۔۔

کیا سچ میں میرا الگ سے کمرہ ہوگا تو پھر ٹھیک ہے ہم۔وہاں۔ضرور جائیں۔گے ستارہ نے اپنی بڑی بڑی پلکیں جپکا کر کہا ۔۔
گھر کے کاغز مکمل ہوچکے تھے اور احمر نے پیمنٹ بھی کر دی تھی آج وہ لوگ گھر میں۔شفٹ ہو گئے تھے صلہ اور ستارہ کو نیا گھر بہت پسند آیا تھا یہ تین کمروں پہ۔مشتمل گھر تھا ایک کمرہ نیچے ایک ہال اور ساتھ کچن دو کمرے اوپر احمر اور صلہ نے نیچے والا کمرہ سیٹ کرلیا کیونکہ وہ زیادہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی تھی اور ستارہ اور عماد کو اوپر والا ایک کمرہ سیٹ کردیا اور ایک کمرے میں فالتو سامان رکھ کر لاک کر دیا اگلے دن صبح ناشتے پر احمر نے بچوں کو بتایا کہ آج وہ فیکٹری کی سائٹ دیکھنے جائے گا وہ گھر میں رہیں اور ماما کو زیادہ تنگ نہ کریں تھوڑے دنوں میں وہ انہیں کیسی اچھے سکول میں داخل کروا دے گا وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اس جگہ پہنچا جہاں فیکٹری بنا تھی آرکیٹکٹ اور ٹھیکیدار اس کا پہلے سے وہاں انتظار کررہے تھے ۔
احمر۔گاڑی سے اترا سب نے گرم جوشی سے اسکا استقبال کیا سب نے باری باری اپنا تعارف کرایا میرا نام آصف ہے اور اس جگہ کا نقشہ میں نے تیار کیا ہے اور یہ ہمارے ٹھیکیدار صاحب ہیں چوہدری فاروق صاحب ایک موٹے آدمی کی طرف اشارہ کیا جس نے سفید کلف لگا سوٹ پہنا ہوا تھا اور یہ فارسٹ آفیسر سلمان صاحب ایک خوش شکل اور وجیہہ پچیس چھبیس سالہ نوجوان کی طرف اشارہ کیا یہ ہم۔پر نظر رکھیں گے کہ کہیں ہم جنگل کے قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہے اس بات سے سب قہقہہ لگا کر۔ہنسے
نہیں ایسی کو ئی بات نہیں ہے میں۔بس اس لیے یہاں ہوں کہ۔آپ قانون کے دایرے میں راہ کر درخت کاٹیں بے مقصد درخت نہ کاٹے جائیں اپنے سر سے ٹوپی اتارتے ہوے اس نے کہا ۔۔
آپ۔بے فکر رہیں یہاں کوئی بھی کام۔غیر قانونی نہیں ہوگا احمر نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوے مسکرا کر کہا کہا۔۔۔
یہ جگہ پہاڑی جنگلات سے متصل تھی وہاں بہت بڑے بڑے اور گھنے قداور درخت تھے جنہیں کاٹ کر فیکٹری بنا تھی ۔۔
میں ایک بار جگہ کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں احمر نے آرکیٹک آصف سے کہا
جی کیوں نہیں آیے وہ۔احمر کو اپنی جیپ میں بیٹھا کر جنگل کے اندرونی حصے میں لے آیا اوبڑ کھابڑ راستوں پر جیپ دوڑتی آگے بڑھتی جارہی تھی ایک جگہ احمر نے جیپ روکنے کو کہا ۔۔
کیا ہوا سر آصف نے احمر سے پوچھا
یہ باقیات کس چیز کی ہیں ایک عمارت کا کھنڈر جس کے بنیادیں ہیں باقی راہ گئی تھی اس کے اوپر ایک بہت بڑا دیو ہیکل جنگلی پیپل اُگا ہوا تھا اسکی جڑیں کھنڈر کےملبے پر ایسے پھیلی ہوئی تھیں جڑوں نے بنیادوں کو مظبوطی سے ایسے پکڑا ہوا تھا کہ کہیں وہ بکھر ہی نہ جائیں
پتہ نہیں۔سر یہ تو مقامی لوگ۔ہی بتا سکتے ہیں اس حصے میں بھی آج پہلی بار آیا ہوں آصف نے گردن اٹھا کر پیپل کی اٹھان کو دیکھتے ہوے کہا
احمر کو لگا اسے کوئی دیکھ رہا ہے وہ جب سے یہاں آیا ہے کیسی کی نظروں کے مسلسل حصار میں ہے نظروں کی تپش اپنے اپر محسوس کر رہا تھا پر کوں یہاں ایسے دور دور تک کوئی زی روح نظر نہیں آرہا تھا احمر۔تھوڑا آگے گیا وہ گھوم پھر کر اس جگہ کو دیکھنا چاہتا تھا کوئی چیز احمر کے پیروں سے ٹکرائی اس نے جھک کر دیکھا وہ بہت پرانااور پیاراصلیبی کراس تھا جیسے احمر نے اٹھا کر جیب میں رکھ لیا اور پیپل کے تنے کو دیکھنے لگا وہ کوئی ساٹھ ستر سال پرانا درخت لگتا تھا جس کا۔پھیلاو بہت زیادہ تھا
مجھے لگتا ہمیں چلنا چاہیے بہت دیر ہورہی ہے اور اندھیرا بھی بڑھ رہا ہے آصف نے جیپ میں بیٹھتے ہوے احمر سے کہا جو کیسی نادیدہ چیز کو گھور رہا تھا احمر نے چونک کر آصف کو دیکھا جو جیپ میں بیٹھا اسے بلا رہا تھا ہاں چلو اور وہ واپس جانے کیلئے مڑ گئے انکے وہاں سےجاتے ہی پیپل کے نیچے ہوا کے بگولے چلنے لگے ۔۔
احمر اپنی گاڈی میں بیٹھ کر اپنے گھر واپس آگیا بچے اسکا انتظار کر رہے تھے
احمر نے وہ کراس ستارا کو دے دیا جیسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی
واو پاپا کتنا خوبصورت ہے یہ آپ کو کہاں سے ملا ستارا نے کراس کو الٹ پلٹ کر دیکھا یہ مجھے آج سائٹ کی انسپکشن کرتے ہوے ملا ہے مجھے پتہ ہے کہ تمہیں پرانی چیزیں اکٹھی کرنے کا شوق ہے اس لیے تمہارے لیے لے آیا ؛؛
اس بات سے انجان کہ وہ۔اپنے ساتھ اور کتنی مصیبتیں لے آیا ہے ؟
ستارا نے وہ صلیبی کراس اپنی الماری میں۔رکھ دیا اور سونے کے لیے۔لیٹ گئی
رات کا کوئی پچھلا پہر ہوگا جب صلہ کی کھٹا ک سے آنکھ کھل گئی اس نے اپنی دائیں۔جانب دیکھا رخ۔موڑ احمر گہری نیند میں تھا صلہ۔نے پھر آنکھیں موند لیں تھوڑی دیر بعد صلہ۔کو۔لگا کوئی کچن میں۔ہے اسے آہٹ محسوس ہورہی تھی وہ سمجھی بچے ہونگے کچن میں وہ ہمت کرکے اٹھی سلیپر پہنا اور کچن کی طرف چلد دی کچن میں لائٹ جل رہی تھی اور کھٹ پٹ ابھی بھی ہورہی تھی صلہ دروازے کے پاس پہنچی کھٹ پٹ بند ہوگئی اس نے لاک۔گمایا اور دروازہ کھول کر اندر دیکھا پر اندر کوئی نہیں۔تھا اچانک کیسی نے صلہ کے کندھے پر۔ہاتھ رکھ دیا وہ۔چونک کر۔سیدھی ہوئی اسکی جان۔حلق میں آگئی تھی
احمر آپ۔آف آپ۔نے تو میری۔جان۔نکال دی تھی اس نے سینے پر۔ہاتھ رکھ کر سانس بحال کی ۔۔۔
تمہیں۔بستر پر۔نہ پاکر میں۔پریشان ہوگیا تھآ پر تم یہاں کیا کررہی ہو احمر نے اپنی جمائی۔روکتے ہوے پوچھا
مجھے کچن میں برتنوں کے آواز آئی تو میں سمجھی بچے ہونگے تو میں۔ان کو چیک کرنے یہاں گئی پر یہاں۔آکر۔دیکھا تو کچن۔خالی تھا خالانکہ کے کھڑاک کی آواز میں نے دروازہ کھولنے سے پہلے تک سنی تھی ۔۔۔
ہوسکتا ہے تمہارا وہم ہو یاں کوئی بلی وغیرہ وہ دیکھو کھڑکی کھلی ہے احمر نے کھڑکی کی طرف اشارہ کرکے بتایا اور آگے بڑھ کر کھڑی بند کردی ۔۔۔
ان کے جانے بعد دیوار پر ایک عجیب وغریب شہ کا سایہ پڑ رہا تھا جو تھوڑی دیر بعد غائیب ہوگیا ۔۔
ابھی وہ آکر لیٹے ہی تھے اوپر۔والے کمرے میں سامان گرنے کی آواز سے اٹھ بیٹھے تم یہاں۔رکو۔میں۔دیکھ کر آتا ہوں احمر باگتاہوا اوپر۔گیا چیں چیں کی آواز بند۔کمرے سے آرہی تھی ستارہ۔اور عماد بھی اپنے کمروں۔سے باہر آگئے پاپا یہ کس چیز کی آواز ہے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے عماد نے ستارہ کا ہاتھ پکڑتے ہوے کہا مجھے نہیں پتہ۔بیٹا تم لوگ اپنے کمرے میں جاو جب تک میں نہ کہوں باہر نہیں۔آنا میں دیکھتا ہوں چلو شاباش اندر سے دروازہ لاک کر لو احمر نے انہیں اندر بیجا اور چابی لاکر لاک کھولا اندر سامان درہم برہم ہوا پڑا تھا اور کاٹھ کا گھوڑا جھول۔رہا تھا جس سے چیں چیں کی آوازیں پیدا ہورہی تھیں احمر نے آگے بڑھ کر لکڑی کے گھوڑے کا منہ۔پکڑا جس سے وہ ساکت ہوگیا اور آوازیں۔آنا۔بند ہوگئی شاید یہ روشن دان سے آتی ہوا سے ہل رہا ہو اس نے خود کو۔تسلی دی ۔۔
کیا ہوا احمر نیچے سے صلہ کی آواز آئی
کچھ نہیں۔یہاں۔سب ٹھیک ہے احمر نے اوپر۔سے ہی چلا کر۔کہا اور بچوں کے کمرے میں جاکر۔انہیں۔بھی تسلی دی اورسونے کا کہا ۔۔۔
کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی میں گھوڑے کا سایہ دیوا پر منعکس ہورہا تھا جس کے اوپر وہ ہی عجیب سایہ بیٹھا ہوا تھا ۔۔
صبح احمر ناشتہ کے بیٹھا تھا کہ اوپر سے صلہ کے چیخنے کی آواز آئی احمر باگتا ہوا اوپر گیا کیا ہوا بیٹا ۔۔۔
ستارا اپنی وارڈ روب کھولے کھڑی تھی اور چلا رہی تھی احمر نے وارڈ روب میں جھانکا ستارہ کے سارے کپڑے لیرو لیر ہوے پڑے تھے
یہ سب عماد کا کام۔ہے اس نے ہی میرے کپڑے پھاڑے ہیں ستارہ عماد پر جھپٹی احمر نے اسے کمر سے پکڑا وہ کیسی بلی کی طرخ اس پر جھپٹ رہی تھی اور اپنے ناخنوں کے وار سے عماد کو۔زخمی۔کرنا چاہتی تھی ۔۔
میں نے نہیں پھاڑے پاپا یہ جھوٹ بول رہی ہےآپ میرا یقین کریں میں کیوں پھاڑوں گا تمہارے کپڑے عماد نے روہانسا ہوکر کہا ۔۔
صلہ شور سن کر مشکل سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپرآگئی کیا ہوا کیوں۔چلا رہے ہو تم۔لوگ ۔۔
ماما دیکھیں نہ ستارہ مجھ پر الزام۔لگا رہی ہے کہ میں نے اس کے کپڑے پھاڑ دیے عماد باگتا ہوا صلہ کے پاس گیا ۔۔
صلہ نے کپڑے دیکھے جو سارے کے سارے ایسے پھٹے ہوے تھے جیسے کیسی خونخوار جانور نے اپنے نوکیلے دانتوں سے پھاڑے ہوں عماد بیٹا یہ آپ نے کیسے پھاڑے ہیں مجھے بتاو صلہ نے پیار سے پوچھا ۔۔
ماما آپ بھی مجھ پر شک کر رہی ہیں میں نے بتایا نہ میں نے نہیں پھاڑے اور منہ پہ ہاتھ رکھ کر رونے لگا ۔۔
احمر نے عماد کو گلے لگا یا چلو کوئی بات نہیں غلطی ہوجاتی ہے انسان سے آپ رونا بند کرو اور ستارہ آب آپ بھائی کو کچھ نہیں کہے گی ہم۔آپ کے لیے نئے کپڑے لے آئیں گے چلو سب نیچے آجاو ناشتہ کرتے ہیں پھر میں نے کام۔پر۔بھی جانا ہے ۔۔
ناشتے کے بعد احمر فیکٹری والی جگہ پہنچ گیا آج جنگل کی کٹائی کا کام ہونا تھا تاکہ کام جلداز جلد شروع کیا جاسکے
فارسٹ آفیسر سلمان بھی وہاں پہنچ گیا تھا انکا ورک پرمنٹ دیکھ کر نشاندہی کردی کہ آپ یہاں سے درخت کاٹنا شروع کرسکتے ہیں ٹھیکیدار نے بیس پچیس گاوں کے آدمی بلوا لیے تھے اس کام کے لیے جو درخت کاٹنے میں ماہر تھے انکے پاس چین سہ مشینیں تھیں جس سے وہ دس پندرہ منٹ میں ایک درخت کاٹ دیتے تھے
ٹھیک ہے آپ لوگ اپنا کام۔شروع کریں آرکیٹک آصف احمر اور سلمان کو کاروان میں بنے اپنے کیبن میں بیٹھایا اور انکو۔نقشہ سمجھانے لگا
تارہ دروازہ کھولو دیکھو باہر کون ہے صلہ نے ستارہ کو آواز دی پر وہ دونوں وڈیو گیم کھیلنے میں مشغول تھے آخر۔صلہ۔کو۔ہی دروازہ کھولنا پڑا باہر ایک ادھیڑ عمر بزرگ کھڑے تھے ہاتھ میں کشکول لیے پیوند لگے کپڑے پہنے لمبے بال لمبی داڈھی
منہ پہ جُھریاں ۔۔۔۔
اللہ کے نام پہ دے بچہ ۔۔۔۔ حق ہو
تمہاری مشکلیں آسان کرے ۔۔۔ حق ہو
اپنی مشکلیں مجھے دے بچہ۔۔۔۔۔ حق ہو
جاو بابا معاف کرو بڑے دیکھے تمہارے جیسے ڈونگی بابے پہلے اپنی مشکل تو حل کر۔لو پھر کیسی دوسرے کا سوچنا ۔۔
پر ملنگ اسکی باتیں نہیں سن رہا تھا وہ تو بس اندر دیکھ رہا تھا صلہ کے پیچھےجو وہ دیکھ رہا تھا کوئی اور نہیں دیکھ سکتا تھا
آپ آب بھی یہاں کھڑے ہیں ملنگ کو ٹکر ٹکر اندر دیکھتے ہوے کہا صلہ۔کو۔شک ہوا کہیں۔یہ چور ہی نہ ہو ۔۔جاتے ہو کہ بلاوں پولیس کو ڈرتے ہوے کہا
پر ملنگ پر اسکی کیسی بات کا اثر نہیں ہورہا تھا ۔۔۔
بیٹی میری۔بات سنو تمہارہ گھر آصیب زدہ ہے ۔۔ صلہ۔نے اسکی بات سنے بغیرٹھک سے دروازہ بند کر دیا آف توبہ کیسے کیسے ڈونگ رچاتے ہیں یہ لوگ ۔۔۔اور کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دیکھا
باہر وہ ملنگ واپس مڑ گیا تھا اور جاتے جاتے اونچی آواز میں کہہ رہا تھامیں۔جارہا ہوں۔آب میں نہیں۔آوں گا تم خود مجھے ڈھونڈتی ہوئی آو گی ۔۔۔
. . . . . . *********
آصف احمر۔اور سلمان چائے پی رہے تھے اچانک باہر شور کی آواز آنے لگیں وہ۔سب اٹھ کر باہر آئے آدھے سے زیادہ جنگل کٹا پڑا تھا ایک ملنگ ٹائپ بندہ سب مزدوروں کے پاس جا جا کہ کہہ رہا تھا یہ درخت نہ کاٹو یہ درخت نہ کاٹو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا اور سب لوگ اس کی باتوں پر۔ہنس رہے تھے اور پیڑ کاٹتے جارہے تھے
میں دیکھتا ہوں۔سلمان اپنی ٹوپی سنبھالتا ہوا ان کی جانب بڑھا آصف اور احمر بھی۔اُس کے پیچھے ہو لیے
کیا ہوا ہے چوہدری صاحب سلمان نے ٹھیکدار سے پوچھا ۔۔
کچھ نہیں باو سلمان یہ پاگل فقیر کہہ رہا ہے کہ پیڑ نہ کاٹو نہیں تو اانجام۔اچھا نہیں۔ہوگا
وہ ملنگ بھاگتا ہوا احمر کے پاس آیا یہ زنجیریں نہ۔کاٹو نہی۔ تو اس کا انجام۔تم۔سب کو بھگتنا پڑے گا میری۔بات مانو چلے جاو یہاں۔سے تم سب کے لیے یہی بہتر ہے ابھی بھی وقت ہےٹھیکیدار نے ایک جوان۔مزدور کو اشارہ کیا وہ ملنگ کو بازو سے پکڑ کر لے جانے لگا وہ جاتے ہوے بھی چلا رہا تھا میری بات مان لو چلے جاو یہاں سے
کون ہے یہ ملنگ احمر نے ٹھیکدار سے پوچھا آو باو کیا بتاوں آپ کو جب سے ہوش سنبھالا ہے اس کو دیکھ رہے ہیں پتہ نہیں کہاں سے آتا ہے کہاں جاتا ہے کیسی ایک گھر چلا جاتا ہے اگر ادھر سے کچھ ملا تو کھا لیا نہیں ملا تو پھر کیسی اور کے گھر نہیں جاتا پیسے نہیں لیتا بس کھانے کی چیزیں ہی قبول کرتا ہے اس میں سے بھی تھوڑی حود کھاتا ہے تھوڑی جانوروں اور پرندوں کو کھلا دیتا ہے بچپن سے ہم اسے ایسا کرتے دیکھتے آئے ہیں نہ ہی ہم نے اسے کیسی مزار پر دیکھا ہے نہ کیسی حانکاہ پر اس کے ٹھکانے کا کیسی کو پتہ نہیں بہت سے منچلوں نے ان کا سراغ لگانے کیلیے پیچھا بھی کیا پر جب وہ واپس آتے ہیں سب کچھ بول چکے ہوتے ہیں انہیں کچھ بھی یاد نہیں ہوتا اور وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہم ملنگ کا پیچھا کرنے کبھی گئے بھی تھے ۔۔
آپ کو کیسے پتہ کہ وہ لوگ واقعی ملنگ کا پیچھا کرتے تھے سلمان نے ٹھیکیدار سے پوچھا ۔۔۔
مجھے اس لیے پتہ ہے کہ میرا بھائی بھی اُن۔سراغ رساں منچلوں میں شامل تھا وہ ہر دفعہ جاتے ملنگ کے پیچھے جاتے پر میں جب بھی ان سے پوچھتا کہ کچھ پتہ چلا وہ آگے سے انکاری ہوجاتے اور مجھے ایسے دیکھتے جیسے میں شیدائی ہوں
پھر ان لوگوں نے بھی پیچھا کرنا چھوڑ دیا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں۔نے اسکو غائیب ہوتے بھی دیکھا ہے ان کے متعلق بہت سی کہانیاں ہیں لیکین سچ کیا ہے کیسی کو نہیں پتہ
اسی اثناء میں احمر کی فون کی گھنٹی بجتی ہے جسے سن کر احمر کا رنگ اڑ جاتا ہے وہ گاڑی کی طرف بھاگتا ہے

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 2

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں