قسط نمبر 01
آج پھر سکندر اپنی سوچوں کے سمندر میں چلتے چلتے گھر سے بہت دور نکل آیا تھا۔۔۔یہ سکندر کا روز کا کام ہو گیا تھا جیسے ہی دفتر سے گھر پہنچتا ۔۔بائیک کھڑی کرتا اور گھر کو لاک کرکے باہر ایویں ہی چل پڑتا ۔۔۔اس کی کوئی سمت کوئی منزل نہیں ہوتی۔۔۔جیسے سیلابی پانی میں بہتے جسم کا منزل کا تعین پانی کرتا ہے ویسے ہی سکندر کی منزل کا تعین اس کی سوچیں کرتی۔۔۔جب وہ سوچوں کے سمندر سے نکلتا تو اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا اور پھر کوئی مناسب جگہ بیٹھ کر اپنی تھکن اتارتا ۔۔۔جب شام کو سورج خود کو تاریکی میں چھپا لیتا تو دوبارہ اپنے گھر کی جانب چل پڑتا ۔۔کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ سکندر راستہ بھٹک جاتا اور پوچھتے پچھاتے وہ گھر پہنچ جاتا لیکن اس میں بھی سکندر کا وقت ضائع ہو جاتا لیکن وقت کا ضائع ہونا اس کے لیے کوئی اہم بات نہیں ہوتی کیونکہ وہ چاہتا یہی تھا کہ وقت گزرے اور اتنی تیزی سے گزرے کہ اس کی موت کا وقت آ جائے۔۔۔
_______________________________________________
چند سال پہلے سکندر ایک خوش باش انسان ہوا کرتا تھا جس کی مسکراہٹ ہر اس انسان کی زندگی بن جاتا تھا جو اس سے مل لیتا تھا۔۔۔۔
سکندر ایک نجی فرم میں کام کرنے والا ایک ایماندر ، ہونہار اور نہاہت ہی قابل ملازم تھا جس کی قابلیت کے چرچے پورے فرم میں مشہور تھے ۔۔وہ فرم کی ہر ملازم کی دل عزیز شخصیت ہوا کرتا تھا ۔۔وہ تھا تو ایک کلرک لیکن جب کبھی کسی کو بھی فرم میں کوئی مشکلات پیش آتی ۔۔سکندر اس مشکل کو حل کرنے کے لیے موجود ہوتا ۔۔چاہے وہ مشکل فرم کے کام کے سلسلے میں ہوتی یا پھر کوئی نجی مسلئہ ۔۔۔کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ فرم کے ملازمین کو مالی مشکلات کا سامنا ہوا لیکن سکندر نے دوسرے کو دکھ اور پریشانی کو اپنا دکھ سمجھ کر لوگوں کی مالی امداد کی ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ سکندر کے گن نہ صرف فرم کا عملہ گاتا تھا بلکہ اس کے جان پہنچان کے جنتے بھی لوگ تھے وہ سب سکندر کو دل سے چاہتے تھے۔۔۔
لیکن پھر ایسا ہوا کہ ایک کار ایکیسیڈنٹ میں پوری فیملی کے چلے جانے کے بعد اس کی زندگی میں تاریکی نے ڈیرے ڈال لیے۔۔۔اب فرم کے کاموں میں نہ اس کا دل لگتا اور نہ ہی گھر کا ماحول اسے سکون دے پا رہا تھا۔۔جس کی وجہ سے وہ اپنے کام اور لوگوں سے بھاگتا پھر رہا تھا۔۔۔۔
_______________________________________________
آج جب سکندر کو ہوش آیا تو ہمیشہ کی طرح گھر سے بے سمت نکل آیا تھا لیکن اس بار بارش نے اس کا ساتھ دینے کی ٹھان لی تھی۔۔۔سکندر کو ہوش آیا تو اس کا پورا لباس بارش کے پانی میں بھیگ چکا تھا۔۔۔اب وہ کوئی ایسا ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا جہاں وہ خود کو بارش سے محفوظ رکھ سکے لیکن پتا نہیں یہ کونسی جگہ تھی کہ جہاں دور دور تک ایک میدان تھا جس کی سڑک پر چل پڑا تھا ۔۔۔کہیں کوئی ایسی چھت نظر نہیں آ رہی تھی کہ جہاں وہ کچھ دیر رک سکے۔۔۔آخر لاچار ہو کر اس نے سڑ ک چھوڑ دی اور اپنے قدم قریب کے ایک گھنے درخت کی جانب بڑھا دیے۔۔اب یہ درخت ہی ایک ایسی چھت تھی جس کے نیچے وہ خود کو کسی حد تک بارش سے بچا سکتا تھا۔۔۔۔درخت کے نیچے پہنچ کر اس نے اپنی جیکٹ اتار دی اور پھر ایک بڑے پھتر پر بیٹھ گیا ۔۔۔بیٹھے ہی اس کو سوچوں نے دوبارہ اپنے جال میں پھنسا دیا۔۔۔کبھی وہ سوچتا ہے کہ آخر وہ کیوں اتنا سوچتا ہے کیا ہے جو اسے سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور کیوں وہ خود کو سوچنے سے نہیں روک پا رہا ہے۔۔۔اس کے دماغ میں عجیب سی سوچوں چل رہی ہوتی ہیں۔۔کبھی وہ اپنے ماں باپ کے غم میں کھو جاتا ہے تو کبھی اسے اکلوتی بہن کی شرارتی اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔۔کبھی وہ لوگوں کے مطلبی رویوں سے عاجر آ جاتا ہے تو کبھی اللہ سے شکوہ کرتا ہے کہ آخر اللہ نے اسے ایسی زندگی کیوں دی ہے۔۔۔
کیا ہوا بالک ۔۔۔یہاں اس ویرانے مین بارش میں کیوں بھیگ رہے ہوں۔۔گھر نہیں ہے کیا تمہارا؟ ایک انجانی سی آواز نے سکندر کو سوچوں کے سمندر سے نکال کر حقیقی زندگی میں لا کھڑا کیا۔۔۔ اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ایک عجیب و غریب کا انسان اس کی دائیں جانب کھڑا تھا۔۔جس کے جسم پر لباس نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔وہ اپنے شکل و صورت اور حلیے سے ہندو لگ رہا تھا۔۔۔قریب قریب کوئی آبادی بھی نہیں تھی جس سے لگتا کہ وہ یہاں کا باسی ہے لیکن اس ویرانے میں اس انسان کا موجودگی نے سکندر کو چند لمحوں میں سوچنے میں مجبور کر دیا۔۔لیکن اس نے سوال کا جواب دینا مناسب سمجھا۔۔۔۔
ایسی ہی گھومتے پھرتے یہاں تک آ گیا لیکن بارش کی وجہ سے رکنا پڑا اور اب بارش کے تھم جانے کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔آپ کون ہو؟
میرے بار ے میں جان کر تم کیا کرو گے بالک لیکن میں تمہیں اپنا نام بتا دیتا ہوں ۔۔میرا نام مدھور ہے اور میں یہاں سے گزر رہا تھا تو تمہیں دیکھ لیا ۔۔سوچا کہ تم سے پوچھ لوں کہ یہاں کیوں بیٹھےہو۔۔۔۔
آپ کو بتایا تو صحیح کہ گھومتے پھرتے یہاں تک آ گیا۔۔۔۔سکندر نے بیزاری سے جواب دیا۔۔۔وہ اب اس ہندو انسان کی موجودگی سے عاجز ہونا شروع ہو گیا۔۔۔اس کا دل کر رہا تھا کہ یہ انسان جلد سے جلد یہاں سے چلا جائے۔۔۔تاکہ وہ اپنے گھر کی راستہ تلاش کرکے چل پڑے۔۔۔
ایک بات کہوں بالک اگر بُرا نہ لگے تمہیں؟
جی کہو۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر کی نگائیں اب سڑک کی جانب دیکھ رہی تھیں اور اس نے جواب بھی بنا اس کی جانب دیکھے دیا تھا۔۔۔۔
مجھے لگ رہا ہے کہ تم پریشان ہو۔۔۔اگر تم برا نہ سمجھو تو میں تمہاری کوئی مدد کروں۔۔۔پنڈت نما اس ہندو انسان نے سکندر کو مدد کی پیشکش کی۔۔۔
آپ میری کیا مدد کر سکتے ہو۔۔۔سکندر نے سوال کیا
کوئی بھی مدد ۔۔۔کچھ بھی ۔۔۔۔تم بتاو تو ذرا ۔۔۔تمہیں کیا مسلئہ ہے ۔۔۔دولت چاہیے ۔۔۔لڑکی کا مسلئہ ہے یا پھر نوکری ۔۔کچھ بھی بس تم مجھے بتاو کہ تم کیوں پریشان ہو۔۔۔
پنڈت کی آٖفر سن کر سکندر دل ہی دل مین مسکرا دیا ۔۔۔اس نے دوبارہ ایک بھرپور نگاہ اس پنڈت پر ڈالی جس کے پیروں میں کوئی جوتے نہیں تھے اور کپڑے بھی نہ ہونے کے برابر لیکن وہ پیشکش کچھ ایسے کر رہا تھا کہ کسی سلطنت کا بادشاہ ہو۔۔۔
بابا مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے بس گھومتے پھرتے یہاں تک آ گیا تھا اب رات ہوتی جا رہی ہے اور مجھے چلنا ہے اسی لیے مجھے اجازت دیں۔۔سکندر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا۔۔۔
دیکھو بالک ۔۔۔میں جانتا ہوں تم پریشان ہو اور ٹھیک ہے تم مجھے اپنے پریشانی نہین بتا رہے لیکن اگر بتا دو تو میں اوش تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔۔۔
لیکن سکندر نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔۔۔اور درخت کی چھت چھوڑ کر اپنے قدم سڑک کی جانب بڑھا لیے ۔۔۔سڑک پر پہنچ کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ پنڈت درخت کے نیچے موجود نہیں تھا۔۔اس نے ایسے ہی چاروں جانب مڑ کر دیکھا لیکن دور دور تک بس یہ سڑک تھی اور کچھ نہیں تھا۔۔۔۔
شکر ہے چلا گیا ۔۔۔سکندر نے یہ سوچ کر اللہ کا شکر کیا۔۔لیکن جیسے ہی اس نے کچھ قدم بڑھائے وہ اچانک رک سا گیا۔۔ایک خیال اس کے ذہن میں اچانک سے آ گیا ۔۔۔ جب وہ پنڈت کو دیکھ رہا تھا تو اس کے پاوں میں جوتے نہیں تھے لیکن اس کے پاوں خشک تھے۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟؟؟ اس نے خود سے سوال کیا۔۔لیکن پھر اس کے ذہن سے خود سے جواب بنا لیا۔۔شاید وہ بارش کے شروع ہونے سے پہلے ہی درخت کے نیچے آ گیا ہو گا۔۔۔لیکن بارش کا پانی تو درخت کے نیچے بھی آ رہا تھا تو اس پنڈت کے پاوں گیلے کیوں نہیں ہوئے۔۔ ذہن کے سوال جواب نے سکندر کو ماوف کر دیا اور پھر اس نے سر جھٹک کر سڑک پکڑ لی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیطان اعظم نے روز کی طرح آج بھی اپنا تخت سمندر پر لگا رکھا تھا اور اس کا قابل چیلا ایموڈیس اسے آج کی اپنی رپورٹ پیش کر رہا تھا۔۔ایموڈیس شیطانی دنیا کا سب سے خطرناک مہرہ ہے جس کا کام لوگوں میں زنا اور بے حیائی پھیلانا ہے ۔۔آج کے جدید دور میں ایموڈیس کا کام بہت بڑھ چکا تھا اور اس کے کارناموں کی تعداد کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں ہے ۔۔۔کوئی ایسا دن نہیں جس دن ایموڈیس نے لوگوں کو گمراہ نہ کیا ہو۔۔۔
مانا کہ تمہارے کارناموں کی تعداد اربوں میں ہے لیکن مجھے میرا مطلوبہ کام ابھی تک تم نہیں دے رہے ہو۔۔مجھے کام چاہیے کام۔۔۔سمجھے تم۔۔۔۔۔۔شیطان اعظم نے قہر برساتے لہجے میں کہا
ایموڈیس کو شیطان اعظم کے غلیظ منہ سے جھاگ نکلتی نظر آ رہی تھی لیکن وہ جانتا ہے کہ شیطان اعظم کو خوش کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہے لیکن وہ کر بھی کیا سکتا ہے اس لیے روز کی جھڑکیاں سننا اس کا معمول تھا
تم نے سنا نہیں میں نے تم سے کیا کہا ہے۔۔۔شیطان اعظم نے اپنی چھڑی کو تخت پر مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔
شیطان اعظم میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ میں نیک اور شادی شدہ لوگوں کو گمراہ کروں ۔۔۔ان کو نکاح جیسے عظیم رشتے کا تقدس مجروع کراؤں ۔۔۔لیکن اول تو شادی شدہ لوگ بہت کم ہیں جو زنا اور بے حیائی کے کام کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں ان میں سے بہت راہ راست پر آ جاتے ہیں۔۔۔
مجھے یہ سب نہیں سننا ۔۔۔۔مجھے لوگوں کو اور مسلمانوں کو جہنم میں اپنا ساتھی بنانا ہے۔۔۔۔مجھے اچھا لگتا ہے جب کسی اہل کتاب کے گھر میں طلاق ہوتی ہے۔۔۔مجھے خوشی ہوتی ہے جب لوگ اپنے خونی رشتوں کے ساتھ زنا کرتے ہیں ۔۔۔مجھے خوشی ہوتی ہے جب لوگ اپنے رب سے کیے گئے وعدہ کو بھول جاتے ہیں۔۔۔۔سمجھے تم
جی جی سمجھ گیا۔۔۔ایموڈیس نے بوکھلاتے ہوئے کہا۔۔۔
اب دفع ہو جاؤ میری نظروں سے۔۔اگلی دفعہ یہ پرانی بکواس نہیں سنانا۔۔۔جو میں نے کہا ہے وہ یاد رکھنا۔۔یہ کہہ کر شیطان اعظم سمندر کی اڑتی لہروں کو دیکھنا لگا اور ایموڈیس سر جھکائے الٹے قدم لوٹ آیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ جنات کی سواری اس وقت عقبر کے جنگلات سے نکل کر انسانی آبادیوں کے اوپر سے گزر رہی تھی ۔۔۔ایک ہجوم تھا جنوں کا جو قطار در قطار شاہ جنات کی سواری کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں اڑ رہے تھے ۔۔۔۔
آج شاہ جنات کے بیٹے کا نکاح ہےاور یہ سب اسی سلسے میں جا رہے ہیں۔۔۔سب جنوں اور جنیوں نے چمکیلے لباس پہن رکھے تھے اور خوشی ان سب کے چہرےپر نظر آرہی ہے۔۔۔آخر کیوں نا خوش ہوتے ۔۔انکے شہزادے الباس کا نکاح ہے اور شہزادہ الباس شروع دن سے سب کی آنکھوں کا تارا تھا ۔۔۔کوئی ایسا جن نہیں تھا جس کی آنکھوں کا تارا شہزادہ الباس نہ ہو۔۔۔کوئی ایسا نوجوان جن نہیں تھا جس کی دوستی شہزادے سے نہ ہو۔۔۔کوئی ایسی جننی نہیں تھی جس کی آہیں شہزادے کے لیے نہ نکلی ہوں۔۔۔۔لیکن وہ سب جانتی تھیں کہ شہزادے کی دوستی اور قربت صرف اس کے دوست جن اور اس کی ہونے والی بیوی ہی حاصل کرے گی۔۔۔۔
آسمانوں کی بلندیوں پر ایک ہجوم تھا جو روشنی کی تیزی سے سفر کر رہا تھا۔۔۔اچانک مغرب کی جانب سے ایک روشنی چمکی جسے ہر جن اور جننی نے دیکھا۔۔۔اور دیکھتے ہی پورا قافلہ جہاں تھا وہیں رک گیا۔۔۔۔کیونکہ شاہ جنات بھی یہ دیکھ کر رک گئے تھے۔۔۔۔وہ کالے چغے میں چہرے پر سفید داڈھی سجائے اپنے ہم سفر کے ساتھ ساتھ اڑ رہے تھے کہ روشنی چمکی تھی۔۔۔شاہ جنات کو رکھتے دیکھ کر وزیر کرکوس آگے بڑھا۔۔۔۔
کرکوس یہ تھا ۔۔۔کیا تم نے بھی دیکھا ؟
جی شاہ جنات ۔۔۔۔میں بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔آسمان میں ایسی روشنی کا نظر آنا بہت عجیب بات ہے۔۔۔۔
ایسا کرو ۔۔۔جلد سے جلد شاطر کو بھیجو اور معلوم کرو کہ یہ کیا ہے۔۔۔
جی شاہ جنات ۔۔ ابھی شاطر کو بھیجتا ہوں معلوم کرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔وزیر کرکوس نے آداب بجا لاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
_____________________________________________
اگلی قسط میں جانیے
* کیا ہندو پنڈت کی دوبارہ سکندر سے ملاقات ہوگی؟
*کیا وہ سچ میں کوئی انسان تھا؟
کیا سکندر اس سے مدد کے لیے سوال کرے گا؟
کیا وہ سکندر کی کوئی مدد کر سکے گا؟
سکندر کہیں ذہنی دباو کی وجہ سے موت کو گلے نہیں لگا لے گا؟
آسمان سے چمکتی روشنی کا کیا چکر تھا؟
کیا شاطر روشنی کا راز معلوم کر پائے گا؟
انسان ، جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک خطرناک مگر چالاکیوں میں گھری سکندر اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر
0 تبصرے