آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام - پارٹ 5

 Urdu Story


Sublimegate Urdu Font Stories

 آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام اردو کہانی - پارٹ 5


میں سوچتے سوچتے سو گئی۔ صبح مینیجر آیا تو میں نے اسے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ میں اسی ہوٹل میں رہوں گی۔ میں پیشہ ور عصمت فروش تو نہیں تھی اور نہ ہی کبھی پیشہ ور عصمت فروش عورت دیکھی تھی۔ عصمت فروش عورتوں کی کہانیاں سنی ہوئی تھیں جو سب میرے ذہن میں آ گئیں۔ جب میں نے مینیجر کو اپنا فیصلہ سنایا تو مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی جسے میں بیان نہیں کر سکتی۔ مجھے رونا چاہیے تھا مگر میری آنکھیں خشک ہو گئیں تھیں۔ خوش ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا مگر میں حیران اس بات پر تھی کہ غمگین بھی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اس وقت کچھ بھی یاد نہ آیا۔ نہ گھر نہ ماں باپ نہ وہ سہیلیاں جنہیں صرف اس لئے حقیر سمجھتی تھی کہ وہ سرکاری سکولوں میں اور گندے سکولوں میں پڑھتی تھیں۔ مجھے وہ دوست بھی یاد آئے جن کے ساتھ میں نے عیاشی کی تھی۔
"میں کوٹھے والی طوائف نہیں بنوں گی۔" میں نے ایسے لہجے میں کہا جو جذبات سے خالی تھا۔

"تم کس وہم میں مبتلا ہو گئی ہو؟" مینیجر نے کہا۔ "اس ہوٹل میں تمہاری بہت اچھی حیثیت ہو گی۔ تم اونچے درجے کے مہمانوں کی اور غیر ملکی امیر زادوں کی دیکھ بھال کرو گی۔ ان میں سے اگر کوئی تمہارے ساتھ تفریح کرنا چاہے گا تو تم اس سے منہ مانگی قیمت وصول کرو گی۔ لیکن وہ آدمی بہت اونچی حیثیت کا ہونا چاہیے۔ تم اتنی سستی چیز نہیں ہو کہ میں تمہیں ہر کسی کے آگے پھینکتا پھروں۔ تم اس ہوٹل میں شراب اور رقص کی محفلوں میں باعزت طور پر شریک ہوا کرو گی۔"

ان باتوں سے مجھے قدرے اطمینان ہوا۔ اس نے مجھے کچھ اپنی شرائط بتائی جو میں آپ کو نہیں بتاؤں گی۔ میں نے اس کی کچھ شرائط مان لیں اور کچھ نہیں مانیں۔ پھر میں نے اپنی کچھ شرائط اس کے سامنے رکھی۔ اس نے بھی کچھ مان لیں اور کچھ ماننے سے انکار کر دیا۔ میں دراصل اس ہوٹل کی قیدی نہیں بننا چاہتی تھی۔ میں نے اس سے منوا لیا کہ میں برقع میں باہر گھومنے پھرنے جا سکتی ہوں اور اپنی پسند کا گاہک اور دوست اپنے ساتھ لا سکتی ہوں۔ اس نے میری یہ شرط مان لی اور پھر ہم نے باقی شرائط بھی طے کر لیں۔ ہوٹل کے مینیجر نے تفصیل سے بتایا کہ اس ہوٹل میں کس قسم کے لوگ آتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں اور ان کو کس طرح ڈیل کیا جاتا ہے۔ ہوٹل مینیجر نے بتایا کہ یہاں ہم باہر سے لڑکیاں منگواتے تھے۔

میرے لئے اب رونا ، پچھتانا، خود کو اور دوسروں کو کوسنا بیکار تھا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اب خود کو مظلوم نہیں کہوں گی اور نہ ہی کسی سے ہمدردی اور پیار کی بھیک مانگوں گی۔ میں نے ہوٹل کے مینیجر کو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اگر اس کے دل میں یہ بات ہے کہ میں اس کی محتاج ہوں تو اس کی بلا اجرت داشتہ بنی رہوں گی تو یہ خیال دل سے نکال دو۔ اس نے مجھے یقین دلایا کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال نہیں ہے۔ بہرحال مجبور اور بے سہارا ہونے کے باوجود بھی میں نے اس پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میں مجبور ہوں۔ مجھے اپنی قیمت کا اندازہ تھا۔
میں اب مہذب طوائف بن گئی تھی۔ اپنے خوابوں کو کانچ کی چوڑیوں کی طرح توڑ ڈالا تھا۔ شادی کو ذہن سے نوچ کر پھینک ڈالا تھا اور یکسر فراموش کر دیا تھا کہ میں کسی کی بیٹی ہوں یا کسی کی بہن ہوں۔ چند گھنٹوں کے بعد ہوٹل کے مینیجر نے مجھے بتایا کہ میرا ایک دن کا منگیتر واپس چلا گیا ہے۔ میں نے اس کی محبت کو دفن کر دیا تھا۔

چند دنوں میں ہی پاکستان کی سوسائٹی میرے سامنے آ کر ننگی ہو گئی۔ وہ بزرگ بھی میرے سامنے آ کر ننگے ہو گئے جو صبح شام ایک مطالبہ کرتے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یہاں شراب اور عصمت فروشی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ وہ بھی شراب پی کر میرے پاس آئے جو جلسوں میں لوگوں سے وعدہ کرتے رہے کہ ہم پاکستان کو اسلامی ریاست بنائیں گے۔ اگر آپ میں اتنی جرات ہے کہ قوم کے غم کو شراب میں ڈبونے والے سیاسی لیڈروں کے نام شائع کرو تو میں آپ کو بتا دیتی ہوں مگر آپ یقین نہیں کریں گے اور اگر آپ یہ جرآت کر لیں گے تو آپ آزادانہ گھومتے پھرتے نظر نہیں آئیں گے۔ 1965ء کے ایک اخبار میں ایوب خان کی حکومت کے ایک وزیر کا یہ بیان چھپا ہوا تھا۔ "ہم پاکستان میں خلفائے راشدین کا نظام رائج کر کے دم لیں گے۔" اس اخبار کو میں نے بھی پڑھا تھا۔ اس خبر کے چند دن بعد وہی وزیر ہوٹل میں آیا اور ہوٹل کے مینجر سے مطالبہ کیا کہ مجھے تازہ مال چاہیے۔ ہوٹل کے مینجر نے مجھے اس کے پاس بھیجا تھا۔ جب میں اس کے کمرے سے نکلی تو شراب نے اسے بیہوش کر دیا تھا۔ میں اس سے یہ بھی نہ پوچھ سکی کہ "کیا یہ ہی خلفائے راشدین کا نظام ہے؟"

یہ صرف ایک آدمی ہی نہیں ہے۔ اگر میں آپ کو سارے سیاسی لیڈروں کے نام بتاؤں تو آپ مجھ پر یقین نہیں کریں گے مگر میں سچ بیان کر رہی ہوں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا نعرہ لگانے والے دو مذہبی سیاسی لیڈر میرے مستقل گاہک ہیں۔ پہلی بار جب وہ میرے پاس آئے تھے تو میں بھی چونک گئی تھی۔ مجھے پاکستان کی عوام پر ترس آتا ہے جو ان کے ناموں پر"زندہ آباد" کا نعرہ لگاتے ہیں اور اپنی امیدیں ان کے بیانات اور تقریروں سے جوڑ رکھی ہیں۔ زرا تصور فرمائیں کہ یہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ لیڈر پاکستان کو سرمایہ دارانہ نظام سے نجات دلائیں گے جو میرے ہاتھ سے شراب پیتے ہیں اور دولت لٹاتے پھرتے ہیں۔ یہ اسی ملک کی دولت ہے۔ غریب عوام کی دولت ہے جسے وہ لوٹ رہے ہیں۔

کشمیر کو بزور شمشیر آزاد کروانے کا نعرہ لگانے والوں نے بھی میرے ساتھ رات گزاری اور میرے ہاتھ سے شراب پی۔ بلکہ کئی راتیں میرے ساتھ گزاریں۔ قوم کے غم میں گھلنے والے ایڈیٹر بھی میرے پاس آ کر اس طرح ننگے ہو گئے کہ ان کے ضمیر بھی میں نے دیکھ لئے۔ میرے پاس قانون شکن بھی آئے اور قانون کے محافظ بھی۔ ملک اور ملک کے حاکموں کے جو راز میرے سینے میں ہیں وہ کسی کو معلوم نہیں۔ عورت بادشاہ کی بھی کمزوری ہے اور گداگر کی بھی۔ میرا دعویٰ ہے کہ جتنی کامیاب جاسوسی ایک خوبصورت عورت کر سکتی ہے، ایک دلیر اور قوی ہیکل مرد بھی نہیں کر سکتا۔

اب میں جو باتیں آپ کو بتاؤں گی وہ بڑی اختیاط سے بتاؤں گی اور شہروں کے نام نہیں بتاؤں گی۔ کسی آدمی کا نام بھی نہیں بتاؤں گی۔ بس جو کچھ بتانا مناسب سمجھو گی بتاتی جاؤں گی۔ میں ہوٹل میں رہتی تھی۔ اپنے ہوٹل میں آنے والے غیر ملکی اور اپنے ملک کے دولت مند عیاش لوگوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی تھی جیسے میں ہوٹل کے مالک کی بیٹی تھی یا انتظامیہ کی انچارج تھی۔ میں شراب اور رقص کی پارٹیوں میں بھی شریک ہوتی تھی اس دوران کچھ آدمیوں کی فرمائش کو ٹھکرا کر اپنی پسند کا کوئی آدمی پھانس لیتی تھی۔ لیکن یہ سب ایسے ناز و نخرے کے ساتھ کرتی تھی کہ کسی کو شک بھی نہیں ہوتا تھا میں طوائف ہوں اور ہوٹل میں ہی رہتی ہوں۔ مجھ سے کچھ لوگ گھر کا ایڈریس اور فون نمبر مانگتے تو جواب دیتی۔ "ڈیڈی نے منع کیا ہے کہ کسی کو اپنا فون نمبر نہ دینا۔"

اس قسم کی عصمت فروشی وہ لڑکیاں بھی کرتی ہیں جنہیں والدین نے ایڈوانس اور ماڈرن بنا رکھا ہے اور بڑے فخر سے ایسی پارٹیوں میں لاتے ہیں جہاں شراب چلتی ہے اور ڈانس ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب میں ڈوبی ہوئی بیویاں بھی اپنے خاوندوں کی موجودگی میں ایسی عصمت فروشی کرتی ہیں جو میں کالج کے زمانے میں ان یورپی طرز کے ہوٹلوں میں کیا کرتی تھی۔ امیر گھرانوں کی لڑکیاں وہاں کیوں جایا کرتی تھیں، یہ میں آپ کو تفصیل سے سنا چکی ہوں مگر انہیں کوئی طوائف نہیں کہتا کیونکہ ان کے گھر گھاٹ ہوتے ہیں۔ ان کے خاوند اور باپ انہیں باعزت طریقے سے گھر لے جاتے ہیں اور اس بے حیائی کو نئی تہذیب کا نام دیا جاتا ہے۔ میں عصمت فروش تھی کیونکہ میرا کوئی گھر نہیں تھا۔ میرا کوئی خاوند نہیں تھا۔ مجھے کوئی باپ گھر نہیں لے کر جاتا تھا۔

یہ محفلیں میری دیکھی بھالی تھیں۔ مجھے انگریزی بھی اچھی آتی تھی۔ اداکاری بھی سیکھ چکی تھی۔ خدا نے شکل وصورت بھی دے رکھی تھی۔ عمر بھی تھی اور قد بت میں بھی جاذبیت تھی۔ کوئی بھی مجھے بکاؤ مال نہیں سمجھتا تھا۔ پھر بھی میں ان سے منہ مانگے دام وصول کر لیا کرتی تھی۔ تحفے تحائف الگ تھے۔ صرف دو مہینوں میں اس ماحول میں رچ بس گئی اور اپنے فن میں مہارت حاصل کر لی۔ اور مہارت بھی ایسی کہ تیسرے مہینے کے ایک دن ہوٹل کے مینیجر نے پولیس کے بہت بڑے افسر کا نام لے کر کہا۔ "بڑا ہی خبیث انسان ہے۔ جب بھی آتا ہے تو اس ہوٹل میں مفت ٹھہرتا ہے۔ سب سے زیادہ قیمتی شراب پیتا ہے اور ہر بار مفت لڑکی کی فرمائش کرتا ہے۔ ہماری مجبوری ہے کہ وہ پولیس کا سرکاری افسر ہے۔ اگر اس کی بات نہ مانیں تو وہ ہوٹل بند کروا سکتا ہے۔ اس لئے اس خبیث کی ہر خواہش پوری کرنا پڑتی ہے۔ آج رات تمہیں اس کے کمرے میں جانا پڑے گا۔ وہ مفت کا گاہک ہے۔ اس کی فیس مجھ سے لے لینا۔"

وہ واقعی خبیث انسان تھا مگر جسے ہوٹل کے مینیجر نے مفت کا گاہک کہا تھا وہ جاتے ہوئے مجھے سات سو روپے دے گیا تھا۔ میں نے اس سے پیسوں کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ اپنی مظلومیت کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔ صرف اتنا کیا تھاکہ اسے انگلیوں پر نچا لیا تھا۔ اس نے یہ سات سو روپے مجھے میری فیس کے طور پر نہیں دئیے تھے بلکہ یہ کہہ کر دئیے تھے۔ "کل میرے پاس ٹائم نہیں ہو گا ورنہ خود جا کر تمہارے لئے تحفہ خرید کر لاتا۔ یہ سات سو روپے رکھ لو، اپنی پسند کا کوئی تحفہ خرید لینا۔"
مری کا سیزن ختم ہو رہا تھا۔ مری کی شامیں ویران ہونے لگیں۔ مگر میرے ہوٹل کی رونق میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ تیس اور چالیس سال کے درمیان کی عمر کا ایک آدمی ہوٹل میں چند دنوں کے لئے آیا۔ وہ کسی ریاست کا نواب محسوس ہوتا تھا۔ میرا اس سے تعارف ہوا تو وہ زندہ دل آدمی نکلا۔ مینیجر کے ساتھ اس کی بے تکلفی تھی۔ وہ ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے تھے۔ خوش گفتار آدمی تھا۔ میں اس کے ساتھ کُھل گئی۔ کھانے کے بعد وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔ کافی دیر تک گپ شپ چلتی رہی۔میں نے خاص طور پر دیکھا کہ اس کا انداز ان مردوں جیسا نہیں جو مجھے اپنے کمرے میں لے جایا کرتے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ اس میرے حسن اور جوانی میں زرا سی بھی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ میں کاروباری لڑکی ہوں مجھے جلدی فارغ کریں۔ میں اس کی باتوں سے کافی حد تک مطمئن ہو گئی اور محسوس کیا کہ وقت گزارنے کے لئے یہ اچھا ساتھی ہے۔
کوئی دو گھنٹے کے بعد وہ مطلب کی بات پر آیا اور بولا۔ "مینیجر نے مجھے آپ کے کے متعلق بتایا ہے کہ آپ نئی نئی آئی ہو لیکن میں تمہیں تفریح کے کے لئے اپنے کمرے میں نہیں لایا۔ دراصل میں کچھ دنوں کے لئے آپ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ جتنے پیسے مانگو گی دوں گا۔ کار پر لے کر جاؤں گا اور کار پر ہی چھوڑ کر جاؤں گا۔ اپنی داشتہ بنا کر نہیں رکھوں گا۔ "

ظاہر ہے میں فوراً تو راضی نہیں ہو سکتی تھی میں نے پوچھا کہ مجھے کہاں اور کیوں لے کر جاؤ گے؟ اس نے کہا اگر تمہیں مجھ پر اعتبار نہ آئے تو لے جانے سے پہلے 50000 روپے آپ کے بینک میں جمع کروا دوں گا۔ میں نے اس کی ضرورت سمجھ لی اور 50000 کے عوض اس کے ساتھ جانے کے لئے رضا مند ہو گئی۔
اس کا مختصر تعارف یہ تھا کہ وہ پاکستان کا بہت بڑا سمگلر تھا۔ اس کا مال جس کی مالیت 25 لاکھ سے بھی زیادہ تھی، ایک افسر نے روک لیا تھا۔ مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ سمگلنگ صرف افسروں کے تعاون سے ہی نہیں ہوتی بلکہ اس میں وزیروں مشیروں کی پشت پناہی بھی شامل ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ان کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے تو سمگلروں کی جان پر بن جاتی ہے۔ وہ چونکہ مجرم ہوتا ہے اس لئے گرفتاری کا ڈر ہوتا ہے۔ اس سمگلر کے سامنے بھی ایسی ہی مشکل آ گئی تھی۔ اس کا 25 لاکھ کا مال سرحد کے پار ہندوستان میں ہی پکڑا گیا تھا مگر جو سرکاری افسر پاکستان میں تھا وہ یقین نہیں کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم مجھے دھوکا دے رہے ہو۔ پاکستان کا سرکاری افسر گرفتاری کی بھی دھمکی دے رہا تھا۔ یہ سمگلر مجھے اس پولیس افسر کے پاس رشوت کے طور پر بھیجنا چاہتا تھا۔ سمگلر نے بتایا کہ عورت اس کی بہت بڑی کمزروی ہے۔ کوئی عام عورت اس کو رام نہیں کر سکتی۔ مگر تم اتنی خوبصورت اور فنکار ہو کہ اس شیطان کو قابو کر سکتی ہو۔ پھر اس نے مجھے وہ طریقہ بھی سمجھا دیا کہ پولیس افسر کو کس طرح گھٹنوں بٹھانا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ تجربہ بھی کر کے دیکھتے ہیں۔ میں نے سمگلر کو کہہ دیا کہ میں چلوں گی۔ ہمیں باتیں کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ مجھے ہر لمحہ یہ ہی توقع تھی کہ وہ سمگلر یہ کہے گا میرے ساتھ سو جاؤ۔ مگر اس نے کہا۔ "جاؤ اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔" میں اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔

دوسرے دن ہوٹل کے مینجر نے التجا کے لہجے میں مجھ سے پوچھا۔ "کیا تم ہمیشہ کے لئے جا رہی ہو؟" میں احسان تو نہیں جتاؤں گا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ میں نے تمہیں کبھی بدنام نہیں ہونے دیا۔ جس کسی بھی تمہارے متعلق پوچھا تو یہ ہی کہا کہ آزاد خیال لڑکی ہے۔ کبھی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ تم کال گرل ہو۔"
وہ جو کچھ کہہ رہا تھا مجھے اس کا احساس تھا اور میں اس کی ممنون تھی۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ واپس آ جاؤں گی اور اس سے پوچھا کہ جس کام کے لئے جا رہی ہوں اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے کہا۔ "اگر تم اس لائن پر چل نکلو تو ہوٹل والی زندگی سے بہتر ہے۔ بہت اونچے لوگوں سے ملاقات ہو گی۔ مگر خطرہ یہ ہے کہ سمگلنگ خطرناک پیشہ ہے۔ بہت سکینڈل بنتے ہیں۔ قتل تک نوبت جا پہنچتی ہے۔ زندگی پُراصرار ہے مگر شاہانہ ہے۔ وہاں کوئی تمہیں عصمت فروش نہیں کہے گا۔" پھر اس نے کچھ ہدایات دیں۔

جب رات کا اندھیرا گہرا ہو گیا تو میں ایسی کار میں مری سے نکلی جیسی کاریں وزیروں کے پاس ہوتی ہیں۔ سمگلر میرے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا اور اس کے دو ساتھی اگلی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک کار چلا رہا تھا۔ سمگلر نے مجھے کہا۔ "نیند آئے تو بتا دینا." میں نے کہا کہ نیند تو مجھے ابھی سے آ رہی ہے۔ وہ کار کی سیٹ کے سرے پر سرک گیا اور میرا سر اپنے زانوں پر رکھ لیا اور کہا پاؤں اوپر کر لو۔
میں نے ایسا ہی کیا۔ کار کافی چوڑی تھی۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ اب وہ سمگلر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرے گا، میرے جسم پر ہاتھ پھیرے گا۔ جھک کر میرے منہ سے منہ لگائے گا مگر اس نے ایسی کوئی حرکت نہ کی۔ اگر وہ کوئی ایسی حرکت کرتا بھی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ میں کوئی شریف لڑکی نہیں تھی۔ وہ مجھے کسی اور مقصد کے لئے لے جا رہا تھا۔ میری آنکھ لگ گئی۔
جب میری آنکھ کھلی تو میں ایک پر اصرار دنیا میں پہنچ چکی تھی۔ صبح کے چار بج رہے تھے۔ کار سے نکال کر وہ مجھے کوٹھی کے بڑے ہی خوبصورت کمرے میں لے گیا۔ ڈبل بیڈ تھا۔ اے سی چلا کر اس نے کہا۔ "سو جاؤ۔ جب دل کرے اٹھ جانا۔" میرا خیال تھا کہ وہ بھی میرے ساتھ سوئے گا مگر وہ بتی بجھا کر چلا گیا۔ مجھے نیند نے بے حال کر دیا تھا۔ میں بیڈ پر لیٹی اور سو گئی۔
اگلے روز ساڑھے گیارہ بجے میری آنکھ کھلی۔ نہا دھو کر اور ناشتہ کر کے فارغ ہوئی تو وہ میرے کمرے میں آ گیا اور کہا۔ "میری دو باتیں دھیان سے سنو! تمہارے بال بہت نفیس ہیں۔ انہیں کٹوانا مت۔ دوسری بات یہ کہ بالوں میں تیل نہ لگانا۔" پھر وہ پولیس افسر کو پھنسانے کے طریقے سمجھانے لگا۔ آخر میں اس نے کہا۔ "تمہارے سینے پر کوئی پستول بھی رکھ دے تو یہ نہ بتانا کہ تم کون ہو اور کہاں رہتی ہو۔ تم آنکھوں سے اسے قتل کرنا۔ تمہاری آنکھیں اتنی پیاری ہیں کہ آنکھوں کی مسکراہٹ سے پستول کی نالیاں جھک جائیں گی۔"
ہوا بھی ایسے ہی کہ میں نے پتھر کو موم کر لیا۔ کیسے کر لیا اور کہاں کیا؟ ان سوالوں کا جواب نہیں دوں گی۔ بس اتنا بتا دیتی ہوں کہ میری آنکھوں، میرے حسن اور جوانی نے قانون کو جھکا لیا تھا۔ دو دشمن ملکوں کی سرحد مٹ گئی تھی۔ فون پر صرف ایک جملہ بولا گیا تھا اور یہ جملہ بولنے کے لئے میں ساری رات وہاں رہی۔ 25 لاکھ کا مال سرحد سے گزر گیا اور پھر غائب کر دیا گیا۔ یہ صرف عورت اور شراب کا کرشمہ تھا۔ لڑکیاں تو بہت زیادہ تھیں مگر وہ پیشہ ور تھیں۔ ان میں سے جب کوئی لڑکی جاتی تو صاف پتہ چلتا تھا کہ کال گرل ہے۔ میرا انداز کچھ اور تھا۔ میں جب اس کے پاس گئی اور کہا کہ فلاں کی سفارش لے کر آئی ہوں تو اس نے کہا۔ "آپ سے پہلے بھی چار لڑکیاں اس کی سفارش کرنے آ چکی ہیں۔ وہ چاروں طوائف تھیں۔ اب تم آئی ہو۔"

میں بھڑک اٹھی اور گرج دار آواز میں کہا۔ "آپ مجھے طوائف سمجھ رہے ہو۔ اگر آپ کو یہ بتا دوں کہ میں کون ہوں تو آپ میرے پاؤں پکڑ کر معافی مانگو گے۔"
وہ گبھرا گیا کایاں شخص تھا۔ وہ بولا۔ "آپ کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں کون ہوں؟ اور آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آپ ایک ایسے مجرم کی سفارش کرنے آئی ہو جو ملک کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔" میں نے اس کے چہرے پر گبھراہٹ محسوس کی اور یہ بھی نوٹ کیا کہ پہلے وہ مجھے "تم" کہہ کر پکار رہا تھا مگر اب وہ "آپ" کہہ رہا تھا۔ میں نے اس پر مزید رعب جمانے کے لئے مزید اعتماد سے کہا۔ "اگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ ملک کی جڑیں کاٹ رہا ہے تو آپ اسے پکڑتے کیوں نہیں؟ آپ خود بھی اس کے ساتھ مل کر ملک کی جڑیں کاٹتے رہے ہیں، کون نہیں جانتا؟ میرے ڈیڈی بھی یہ سب جانتے ہیں۔ اتنے بڑے افسر ہو کر بھی آپ مجرم ہو۔ وہ اکیلا مجرم نہیں ہے۔"
وہ مزید گبھرا گیا اور بولا۔ "آپ کے ڈیڈی کون ہے؟"
"ابھی نہیں بتاؤں گی۔" میں نے اسی رعب سے کہا۔
ہماری باتیں تلخ سی سنجیدگی سے شروع ہوئی اور پھر بہت سی باتیں ہوئیں۔ اس وقت انگریزی کسی بڑے ہی اچھے ادارے سے پڑھ کر آنے والے کو آتی تھی اور ان اداروں میں بڑے افسروں کے بچے ہی پڑھ سکتے تھے۔ مگر مجھے انگریزی پر مکمل گرفت ہو چکی تھی۔ میں نے کچھ باتیں انگریزی میں کیں تو وہ مزید متاثر ہوا۔ مگر وہ بہت بڑا شیطان تھا جلدی قابو میں نہیں آ سکتا تھا۔ پھر میں نے آخری حربہ بھی استعمال کر لیا اور وہ تھا اسے اپنے جسم کی حرارت سے رام کرنا۔ وہ مجھ پر ڈوریں ڈالنے لگا۔ میں اسے یقین دلانے میں کامیاب ہو گئی تھی کہ میں پیشہ ور طوائف نہیں ہوں بلکہ گھر میں رہنے والی ایک امیر کبیر باپ کی بیٹی ہوں۔ میں صرف آزاد خیال ہوں۔ وہ ڈر ڈر کر مجھے چھیڑنے لگا۔ میں بھی پلو بچانے کی اداکاری کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد شراب کی بوتل بھی آ گئی۔ میں نے آہستہ آہستہ اور ترسا ترسا کر اسے اپنے جسم تک رسائی دی۔ وہ میرے جسم سے انجوائے کر کے سمجھ رہا تھا کہ بہت بڑا معرکہ مار لیا۔ میں نے سیکس سے پہلے اسے کہا۔ "اگر حمل ہو گیا تو میرے ڈیڈی مجھے گولی مار دیں گے۔" وہ منتیں کرنے لگا کہ حمل نہیں ہونے دوں گا۔ مجھے اس کی حالت پر ترس بھی آ رہا تھا مگر اس وقت اتنی کمال کی اداکاری کر رہی تھی کہ مجھے خود کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس کے دفتر سے نکلتے وقت میں نے اسے کہا کہ سمگلر جو پتہ نہ چلے کہ ہم نے سیکس کیا ہے ورنہ وہ میرے ڈیڈی کو بتا دے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں نے اس شیطان کو مار لیا تھا جسے مجھ سے پہلے چار لڑکیاں نہیں مار سکی تھیں۔

لیکن جو بات آپ کو بتانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے پولیس افسر کس طرف چل پڑے ہیں۔ ملک کا مفاد اس میں تھا کہ اس پولیس افسر کے اعصاب لوہے کی طرح مضبوط ہوتے اور ایمان پہاڑ سے زیادہ مضبوط ہوتا مگر ایک خوبصورت لڑکی کے سامنے وہ ریت کی دیوار بن گیا۔
اس کامیابی نے میرا حاصلہ اتنا بڑھایا کہ میں نے اس سمگلر کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے مجھے اپنے گروہ میں بہت اچھی حیثیت دے دی۔ میری خوراک اور میرے لباس کا اہتمام بھی شاہانہ تھا۔ اب میں ہر رات طرح طرح کے گاہکوں کے پاس بکنے والی طوائف نہیں تھی۔ بڑے اونچے رتبے کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا تھا۔ سرکاری اور غیر سرکاری پارٹیوں کے دعوت نامے آتے تھے۔ میں ایک صاحب حیثیت آدمی کی بیوی تھی۔ میرا ایک خاوند بھی بنا دیا گیا تھا جو برائے نام خاوند تھا۔ میرے علاوہ بھی وہاں کوئی تیس کے لگ بھگ عورتیں کام کرتی تھیں مگر وہ اب زیادہ عمر کی ہو گئیں تھیں۔ اس لئے میری قدر بڑھ گئی تھی۔
میں کسی سمگلر کی نشان دہی نہیں کروں گی۔ ان لوگوں سے الگ ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ ان میں سے ایک سمگلر پنجاب کی اسمبلی کا رکن بن گیا ہے۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں بتاؤں کہ سمگلنگ کس طرح ہوتی ہے۔ بس اپنا ایک واقعہ سنا دیا ہے۔ اس کی روشنی میں آپ کے سامنے اس جرم کی واضح تصویر آ جانی چاہیے۔ سمگلنگ صرف ایک فرد یا ایک گروہ نہیں کر سکتا۔ اس جرم میں بہت سارے سرکاری افسر بھی شامل ہوتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کوئی سمگلر سامان سمیت پکڑا گیا اور حوالات میں بند بھی ہو گیا مگر کسی وزیر کا فون آ گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا۔ تھانے دار کسی سمگلر پر ہاتھ ڈالنے کی جرآت ہی نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اپنی نوکری کی فکر ہوتی ہے۔

سمگلر کوئی جن بھوت نہیں ہوتے بلکہ ہماری طرح کے عام انسان ہی ہوتے ہیں۔ ان کی اصل طاقت میرے جیسی خوبصورت اور حسین لڑکیاں ہوتی ہیں۔ دوسری بڑی طاقت ان کی دولت ہوتی ہے۔ مگر میں یہاں سمگلروں کی کہانیاں نہیں سنانا چاہتی۔ میں یہاں ایک بات آپ کو سمجھانا چاہتی ہوں کہ یہ لڑکیاں سمگلروں کے پاس آتی کہاں سے ہیں۔ میں والدین اور معاشرے کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ اصل مجرم وہ نہیں ہوتے جو جرم کرتے ہیں بلکہ اصل مجرم وہ ہوتے ہیں جو ان مجرموں کو پیدا کرتے ہیں۔ یہ مجرم والدین اور معاشرہ خود پیدا کرتا ہے۔ قانون شکنی کی زمین دوز کاروائیوں میں ایک تو مجھ جیسی لڑکیاں جاتی ہیں۔ جس کا پسِ منظر تفصیل سے سنا چکی ہوں۔ اس پسِ منظر میں پرورش پانے والی لڑکیاں اعلیٰ قسم کی طوائفیں بنتی ہیں۔ بعد میں لڑکیاں سمگلروں کے گروہ میں چلی جاتی ہیں یا دشمن ممالک ان کو جاسوسی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان ممالک میں ہندوستان، امریکہ اور روس خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ امریکہ کی سی آئی اے میں اسی قسم کی لڑکیاں جاسوسی کا کام کر رہی ہیں۔ روس بھی پاکستانی لڑکیوں کو ہی پاکستان کی جاسوسی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ مجھ پر سب سے بڑا یہ انکشاف بھی ہوا جسے سن کر میرے ہواس گم ہو گئے کہ سب سے زیادہ ہندوستان ایسی لڑکیوں کو پاکستانی سیاستدانوں اور افسروں کی جاسوسی کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہ لڑکیاں طوائف بن کر سرکاری افسروں کے گھروں میں گھس جاتی ہیں اور راز چوری کر کے ہندوستان کو دیتی ہیں۔ یہ سب لڑکیاں میری ہی طرح کے پسِ منظر کی پیداوار ہوتی ہیں۔

میرے گروہ میں ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی۔ مجھے نہیں معلوم اب کہاں ہو گی۔ وہ ایسے گھرانے سے تھی جہاں پردے کی سختی تھی۔ وہ میٹرک پاس تھی۔ اس کے گھر والوں نے پچیس ہزار روپے نقد لے کر اس کی شادی ایک ساٹھ سال کے بوڑھے سے کر دی۔ وہ پردہ نشیں لڑکی کچھ بھی نہیں کر سکی۔ بوڑھے ماں باپ کے گھر سے بوڑھے خاوند کے پاس چلی گئی۔ اس بوڑھے کے پاس روپیہ تھا، کار تھی، کوٹھی تھی اور مزاج میں عیاشی تھی مگر جسم میں کچھ نہیں تھا۔ اس کی پہلی بیوی مر گئی تھی۔ دوسری بیوی کو بھی طلاق دے چکا تھا۔ اب اس نے آخری عمر میں اٹھارہ سال کی لڑکی سے شادی کر لی۔ اس بوڑھے کی دو بیٹیاں تھیں۔ دونوں کی شادی ہو چکی تھی۔ اس لڑکی پر جو گزری تھی صرف وہی بیان کر سکتی تھی۔ دن بھر تو وہ بچاری شہزادی بنی رہتی تھی اور رات جہنم کی رات ہوتی تھی۔ بوڑھا ساری رات شراب پی کر اسے جھنجھوڑتا رہتا تھا۔ لڑکی پھر بھی کنواری ہی رہی۔ کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی وہ بوڑھا ایک دن بھی سیکس نہ کر سکا۔ لڑکی جوان تھی۔ اس کے خون میں شباب تھا۔ وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی۔

اس بوڑھے کا داماد ان کے گھر آیا کرتا تھا۔ وہ جوان لڑکا تھا۔ وہ سمجھ گیا اور اس لڑکی کے قریب ہونے لگا۔ لڑکی نے شرم و حیا کو خیر باد کہہ دیا اور جو پیاس بوڑھا پیدا کرتا تھا وہ اس کے داماد سے بجھانے لگی۔ راستہ کھل گیا تو لڑکی بھی کھل گئی۔ اس نے پردہ بھی چھوڑ دیا اور کار میں باہر نکلنے لگی۔ بوڑھے کے داماد نے اسے باہر کی دنیا دکھائی تو اس کے پر کھل گئے۔اس نے ایک اور امیر آدمی سے دوستی کر لی۔ اس طرح یہ سلسلہ چل نکلا۔ پھر ایک لڑکا ایسا ملا جو اسے بہت پسند آیا تو لڑکی اس کے ساتھ بھاگ گئی اور کراچی چلی گئی۔ لڑکی اپنے گھر سے بہت سارا سونا اور بہت سے پیسے چوری کر کے لے گئی تھی۔ چند دن کراچی میں کرائے کے گھر میں عیش کی۔ وہ لڑکا اسے شراب بھی پلاتا تھا۔ ایک صبح وہ اٹھی تو دیکھا کہ لڑکا غائب ہے۔ اس کے بعد اس لڑکے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ مگر وہ جاتے ہوئے ایک دوسرے لڑکے کو لڑکی کے پاس بھیج گیا تھا۔ دوسرا لڑکا بھی اچھی شکل وصورت کا تھا۔ لڑکی نے اسے بھی فوراً قبول کر لیا۔ یہ لڑکا سمگلر تھا اس نے لڑکی کو اپنے گروہ میں شامل کر لیا۔ بعد میں اس نے بتایا تھا کہ پہلا لڑکا اس لڑکی کو اٹھائیس ہزار میں فروخت کر کے گیا تھا۔ سمگلنگ کے کاروبار میں وہ اتنی پختہ ہو گئی تھی کہ پتھر سے دودھ نکال لیتی تھی۔

ہمارے گروہ کی ایک اور بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی۔ جب اس کی عمر گیارہ سال تھی تو اس کی ماں مر گئی تھی۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی تھا۔ ماں کے مرنے کے بعد باپ نے دوسری شادی کر لی۔ نئی ماں خوبصورت اور چالاک تھی۔ اسے آتے ہی گیارہ سال کی چھوٹی بچی کے ساتھ نوکرانی جیسا سلوک شروع کر دیا۔ وہ باپ کے کان بھر کر بچوں کو مار بھی پٹواتی تھی۔ ڈیڑھ سال بعد نئی ماں کا بیٹا ہوا تو اس نے اپنا بیٹا بھی اسی لڑکی سے اٹھانا شروع کر دیا اور بچے کی تمام ذمہ داریاں بھی اسے دے دیں۔ رات کو بچہ روتا تھا تو یہ لڑکی اٹھ کر بچے کو فیڈر سے دودھ پلاتی تھی۔ اگر وہ پیشاب یا پاخانہ کر دیتا تو اسی لڑکی کو صاف کرنا ہوتا تھا اور کپڑے تبدیل کرنے ہوتے تھے۔ اگر وہ نہ کرتی تو اسے مارتی تھی۔ یہی سلوک اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ بھی ہوتا تھا۔ ایک دن اس کا بھائی گھر سے بھاگ گیا اور پھر کبھی نہیں ملا۔

جب سوتیلی ماں سو جاتی تو دوپہر لڑکی چھت پر جانے لگی تاکہ جہنم سے کچھ آزادی مل سکے۔ ان کے پڑوس میں ایک لڑکا رہتا تھا جو اس لڑکی کا ہم عمر تھا۔ وہ لڑکی کو دیکھ کر اس چھت پر آ جاتا اور آپس میں محبت کا کھیل شروع ہو جاتا۔ کچھ وقت کے لئے خاوند اور بیوی بن جاتے۔ لڑکی کو سیکس کی لذت محسوس ہوئی تو وہ باقاعدگی سے چھت پر آنے لگی۔ پھر وہ بڑے ہو گئے۔ باپ نے لڑکی کی شادی کی بات کی تو سوتیلی ماں نے کہا ابھی بچی ہے۔ ابھی شادی کی عمر نہیں ہے۔ سوتیلی ماں تو صرف اس لئے کہہ رہی تھی کہ وہ اس سے گھر کے کام کاج کروانا چاہتی تھی۔ اگر کام نہیں کرتی تھی تو اس پر تشدد کرتی تھی۔ اب وہ لڑکے کے ساتھ چھت پر نہیں مل سکتی تھی اس لئے وہ باہر گھومنے کے لئے جانے لگے۔ لڑکی جب باہر گئی تو وہاں بہت سے شکاری مل گئے۔ پھر وہ بھی روز ایک نئے لڑکے سے دوستی کرنے لگی اور عشق ومحبت کے کھیل کھیلنے لگی۔ ایک دن اسے بھی کسی نے سمگلر کو بیچ دیا اور وہ بھی اسی دنیا میں آ گئی۔
اسی طرح ہمارے گروہ کی ایک اور لڑکی تھی۔ اس نے بتایا کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے ماں باپ کو لڑتے ہوئے دیکھا۔ اس لڑکی نے بتایا کہ میں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ والدین آپس میں لڑتے تو غصہ مجھ پر بھی نکال دیتے۔ وہ لڑکی ماں باپ سے تنگ آ گئی اور زیادہ دیر باہر رہنے لگی۔ پھر وہ کالج میں چلی گئی اور زیادہ دیر کالج میں ہی گزارتی۔ کالج میں ایک سہیلی اسے اپنے گھر لے جانے لگی۔ اس سہیلی کا باپ بہت خوش مزاج تھا اور بہت چھیڑ خانی کرنے والا تھا۔ اس لڑکی کو وہ بہت پسند آیا اور وہ اس کے قریب ہونے لگی۔ وہ لڑکی محسوس بھی نہ کر سکی کہ سہیلی کا باپ کیوں قریب کر رہا ہے۔
ایک دن سہیلی کے گھر والے ملتان چلے گئے اور سہیلی کا باپ اکیلا گھر پر تھا۔ لڑکی سہیلی کے گھر چلی گئی اور اس کے باپ کے پاس بیٹھ گئی۔ لڑکی نے اسے اپنے گھر کا سارا حال سنا دیا۔ سہیلی کے باپ نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھا اور ساتھ لگا لیا۔ پھر اپنی گود میں بٹھا لیا۔ لڑکی نے برا نہ منایا۔ پھر اس نے لڑکی کا ماتھا چوما اور پھر گالوں کو چومتا ہوا ہونٹوں پر آ گیا۔ لڑکی سمجھی کہ وہ پیار کر رہا ہے۔ سہیلی کے باپ نے پیار پیار میں ہی لڑکی کو لٹا لیا اور شلوار اتار دی۔ مگر تب تک لڑکی نیم بیہوش ہو چکی تھی۔ وہ کچھ نہ کر سکی۔ وہ پہلی بار سیکس کر رہی تھی اور اسے بہت مزہ آیا تو وہ خود بھی مزہ لینے لگی۔ اس لڑکی کی سہیلی کے خاندان والے ایک ہفتہ ملتان رہے اور ایک ہفتہ یہ لڑکی کالج سے سیدھا سہیلی کے گھر اس کے باپ کے پاس چلی جاتی اور سیکس کرتی رہتی۔

پھر سہیلی کے گھر والے آ گئے اور لڑکی کے لئے یہ سب کچھ ناممکن ہو گیا تو باہر محلے میں ایک لڑکا ڈھونڈنے لگی جو اسے جلدی ہی مل گیا۔ پھر یہاں سے دوستوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ایک دن وہ سمگلروں کی دنیا میں آ گئی۔
یہ چند ایک کہانیاں ہیں۔ اس طرح کی ہزاروں کہانیاں ہیں جن کو لکھا نہیں جا سکتا۔ والدین سے صرف ایک گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش پر دھیان دیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تربیت اور حفاظت ضرور کریں۔ ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔
میں سمگلروں کے گروہ میں دو سال تک رہی اور شہزادیوں کی طرح رہی۔ میرا ایک برائے نام خاوند تھا، کار تھی اور کوٹھی تھی۔ میں وہاں رہ کر تھک گئی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ میں نے اپنے باس سمگلر سے ذکر کیا تو اس نے مجھے ایک سے ڈیڑھ مہینہ مری گزارنے کا مشورہ دیا۔ میرا برائے نام خاوند بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ میں نے اسے دھتکار کر کہا۔ "تم میرے سچ مچ کے خاوند نہیں ہو۔ یہیں رہو۔ میرا پیچھا کرنے کی کوشش مت کرنا۔" میں اکیلی مری آ گئی۔ میں نے خود کو برقع میں چھپا رکھا تھا۔ میں نے اسی ہوٹل میں قیام کیا جہاں سے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ ہوٹل کا مینیجر مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ میں نے اسے بتایا کہ چند دن آرام کرنے آئی ہوں۔ اس نے مجھے بلا اجرت کمرہ دے دیا۔

میں خود کو ایسی عورت سمجھ رہی تھی جس کے اندر کوئی جذبات نہیں ہیں۔ میرے احساسات بھی مر چکے تھے۔ مگر یہ میری خام خیالی تھی۔ میں نے پہلے ہی روز کھڑکی کھولی تو یوں محسوس ہوا جیسے ماضی کے کواڑ کھل گئے ہوں۔ جب پہلی بار مری آئی تھی تو مری کا یہ خطہ مجھے جنت کا ٹکڑا محسوس ہوا تھا۔ مری کے حسن نے مجھ پر جادو کر دیا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ مری کے سبزہ زار اور بادلوں کے ٹکروں میں خود کو گم کر دوں۔ اس وقت مجھ پر محبت کا سحر بھی طاری تھا اور میرے ساتھ وہ مرد بھی تھا جسے میں نے دل سے چاہا تھا۔ مگر یہ سحر بڑی بے رحمی سے توڑ دیا گیا۔ جسے میں نے منزل سمجھا تھا وہ سراب نکلا۔ اب میں نے کھڑکی کھولی تو مری کا حسن مجھے زہر آلود لگا۔ چیل اور دیودار کے لمبے لمبے پیڑ مجھے بھوتوں کی طرح دکھائی دئیے۔ چار پانچ پیڑ میری کھڑکی کے ساتھ ہی کھڑے تھے۔ ان سے ہوا کے جھونکے گزرتے تھے تو ساں ساں کی ایسی آواز آتی تھی جیسے یہ پیڑ بھی میری محبت کی موت پر سسکیاں لے رہے ہوں۔ تین چار سال پہلے کی بات ہے یہ ہی آوز مجھے زمین و آسمان کی موسیقی لگتی تھی۔

میری آنکھوں کے سامنے دھند سی آ گئی۔ یہ میری آنسوؤں کی دھند تھی۔ میں نے آنسو پونچھے۔ کھڑکی میں کہنیاں ٹیک کر مری کی خنکی کو دیکھتی رہی۔ میرا ذہن مجھے ماضی میں بہت پیچھے لے گیا تھا۔ لمحوں کا کارواں پیچھے کو چل پڑا اور مجھے مشرقی پنجاب کے اس سکول میں لے گیا جسے دیکھ کر کوئی نہیں کہتا تھا کہ یہ سکول ہے۔ میں نے اس عمر میں اس کچے سے کوٹھے کی عمارت کو محسوس کیا۔ جب میں بچی تھی تو وہاں اردو اور قرآن پڑھتی تھی۔ بچپن کی اس یاد میں ناجانے کیا جادو تھا کہ مری کے اتنے بڑے ہوٹل کے کمرے میں بھی، جہاں صرف دولت مند ہی قیام کیا کرتے ہیں، میرا دم گھٹنے لگا۔ میں یہاں سے بھاگ کر اسی کچے کوٹھے میں پناہ لینے کو بے تاب ہونے لگی۔ مجھے اس سکول کی عظمت کا احساس اب ہوا جب سب کچھ کھو بیٹھی تھی۔

پھر مجھے اپنا پاکستان کا گھر یاد آنے لگا۔ گھر کے سارے افراد بھی یاد آئے۔ والد صاحب کی یاد نے تو تڑپا کے رکھ دیا۔ مجھے میری ماں بھی یاد آئی جس کی کوکھ میں ایک پاک صاف اور آسمان کے پانیوں سے دھلی ہوئی بچی پیدا ہوئی۔ میرے ماں باپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ پاک بچی بڑی ہو کر سارے معاشرے کو ناپاک کرے گی۔ پھر مجھے اپنا بچہ بھی یاد آیا اور اس کا رونا بھی یاد آیا۔ میں بیان نہیں کر سکتی کہ اس وقت میری کیا حالت ہوئی تھی۔ جی میں آیا کہ عیسائیوں کے پاس جاؤں اور اپنا بچہ چھین لوں اور بہت دور چلی جاؤں۔ مگر میں کچھ نہ کر سکی۔
بچے کی یاد آتے ہی میرے جذبات اور احساسات شعلوں کی طرح بھڑک اٹھے۔ پھر مجھے احساس ہونے لگا کہ میری کوئی بھی حس مری نہیں۔ میرے اندر وہ عورت ابھی زندہ ہے جو محبت کی پیاسی ہے۔ میں اس قدر پریشان ہو گئی تھی کہ کھڑکی سے ہٹ کر ٹیلیفون کے پاس آئی اور ریسیور اٹھایا۔ ہوٹل کا نمبر ڈائل کیا اور شراب منگوا لی۔ میں شراب پی کر خود کو پریشانیوں سے آزاد کرنا چاہتی تھی۔ مگر شراب پینے کے بعد ماضی اور زیادہ واضح ہو کر سامنے آ گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے سینے میں گرم تیل ڈال دیا گیا ہو۔ مجھے بچے کی یاد اس قدر تڑپانے لگی کہ دل میں خیال آیا کسی بھی مرد جو کمرے میں لے آؤں اور اسے کہوں مجھے بچہ چاہیے مگر میں جس شعبے سے تعلق رکھتی تھی وہاں بچہ پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ بچہ پیدا کرنے کے لئے مجھے یہاں سے نکلنا تھا۔ مجھ سے کون شادی کرے گا۔ اس دنیا میں غمخوار ہے ہی کون۔ سبھی تو جسم کی ہوس کے لئے آتے ہیں۔ میں پھر رونے لگی۔ پھر ہوٹل کے مینیجر کے پاس گئی اور اسے کہا مجھے کسی طرح بیہوش کر دو۔ ہوٹل کے مینیجر نے ایک ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر نے مجھے ایک انجیکشن لگایا جس سے میں بیہوش ہو گئی۔

جب ہوش آیا تو اگلے دن کے بارہ بج رہے تھے۔ سر بوجھل تھا۔ گبھراہٹ سی محسوس ہو رہی تھی۔ میں غسل خانے میں گئی اور سر پر پانی بہانا شروع کیا۔ بہت سا پانی بہایا مگر طبیعت سنبھل نہ سکی۔ مجھے تنہائی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ مجھے ایک مرد کی ضرورت تھی۔ جو میرے جذبات اور تشنگی کو سمجھ سکے۔ محبت کے بغیر کون زندہ رہ سکتا ہے۔ میں نے ایک بار پھر شادی کی کوشش شروع کر دی۔
مجھے اس دن یہ بات سمجھ آئی کہ اسلام نے پردہ واجب کیوں کیا ہے۔ کاش ساری لڑکیاں اس بات کو سمجھ جائیں۔

دو روز بعد کا واقعہ ہے۔ دن کا پچھلا پہر تھا۔ میں برقع اوڑھے خراماں خراماں مال روڈ کی طرف نکل گئی۔ بھیڑ کوئی زیادہ تو نہیں تھی۔ لیکن یہ تھوڑے سے لوگ ہجوم کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ لڑکے اور لڑکیاں کپڑوں کی، بالوں کی اور فیشن کی نمائش کرتے پھرتے تھے۔ یہ سب مجھے خالی خالی سے لوگ لگے۔ بے مقصد جینے والے لوگ۔ میں برقعے میں تھی۔ ایک نقاب اوپر تھا۔ دوسرے نقاب سے ناک اور ٹھوڑی کو چھپا رکھا تھا۔ آنکھیں اور پیشانی ننگی تھیں۔ پیشانی پر چند ایک بھورے بھورے بال بکھرے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا تو میں نے محسوس کیا کہ برقعے چھپا ہوا آدھا چہرہ زیادہ دلکش نظر آ رہا تھا۔ میں مال روڈ پر گھومتے پھرتے لوگوں کی بھوکی بھوکی نظروں کو نظر انداز کرتی پوسٹ آفس والے چوک سے بھی آگے نکل گئی۔ زرا آگے جا کر جو راستہ نیچے کو اترتا ہے، اس پر اترنے لگی۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے پیچھے کوئی آ رہا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک پچیس تیس سال کا خوبصورت نوجوان تھا۔ وہ میرے قریب سے گزر گیا۔ اس نے مجھے گہری نظروں سے دیکھا۔ میں نے بھی اسے بڑی اچھی طرح دیکھا۔ اس کے بھرے بھرے چہرے پر معصومیت کا جو تاثر تھا وہ مجھے اچھا لگا۔ اس کی آنکھوں میں بڑی ہی پیاری اور مردانہ چمک تھی۔ اس کے سر کے بال چھوٹے چھوٹے تھے۔ اگر اس کے بال بڑے ہوتے تو میں اس کی صورت بھی دیکھنا گوارا نہ کرتی۔ اس کا جسم پھرتیلا، گھٹا ہوا اور جاذب نظر تھا اور اس کی چال میں تمکنت اور مردانگی تھی۔ مجھے مری میں یہ ایک ہی نوجوان نظر آیا جس کے بال سلیقے سے کٹے ہوئے تھے۔ وہ مال روڈ کی رونق کو چھوڑ کر اس طرف چلا گیا تھا جہاں کوئی رونق نہیں تھی۔ وہاں مصنوعی حسن نہیں تھا۔ وہاں قدرت کا حسن تھا۔ تنہائی ہے مگر وہاں جا کر ساتھی کی ضرورت شدید ہو جاتی ہے۔
وہ آگے نکل گیا۔ میں آہستہ آہستہ اترتی گئی اور اس جگہ پہنچ گئی جہاں تھوڑا سا میدان ہے، پتھر کے بینچ ہیں اور لمبے لمبے درختوں کے جھنڈ کھڑے ہیں۔ میں وہاں ٹہلنے لگی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں گیا تھا۔ اچانک وہ ایک طرف سے نمودار ہوا۔ اس نے مجھے دیکھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔ میرے جذبات ابلے ہوئے تھے۔ مجھے تنہائی کھائے جا رہی تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا بچہ بڑا ہو کر جوان ہو گیا ہے۔ اس کے چہرے مہرے پر ایسا تاثر تھا جو اس عمر کے لڑکوں میں نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے مجھ پر تنہائی کا جو اثر تھا یہ اس کا فتور ہو۔ میں نے اس آدمی کو تنہا پھرتے دیکھا تو وہ مجھے اچھا لگا۔
وہ سامنے سے میری طرف آ رہا تھا اور مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ جب میرے قریب سے گزرا تو دھیمی سی آواز میں کہا۔ "کسی کا انتظار ہے یا اکیلی ہو؟"
میں رک گئی اور کہا۔ "اکیلی ہی نکل آئی ہوں۔"
"معافی چاہتا ہوں۔" اس نے گبھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ "غلط نہ سمجھنا۔ پتہ نہیں کیوں پوچھ لیا۔"
"پوچھنے میں کوئی حرج نہیں۔" میں نے کہا۔

میں نے اسے زیادہ غور سے دیکھا تو اس کے دانت موتیوں کی طرح چمکدار اور خوبصورت تھے۔ اس کے چہرے کی صحت اور دانتوں کی چمک سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ سگریٹ نہیں پیتا۔ اس نے میری پیشانی اور آنکھیں دیکھیں تو نظریں جھکا لی۔ میں نے کچھ اور باتیں کیں تو وہ دائیں بائیں دیکھنے لگا جیسے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر اس نے کہا۔ "آپ گھومیں پھریں میں چلتا ہوں۔"
"جانے کی اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ آئیے زرا اکھٹے گھوم پھر لیتے ہیں۔" میں نے کہا۔ اس نے کچھ سوچا اور پھر ہم اکٹھے ٹہلنے لگے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے؟ کہاں رہتا ہے؟ اس نے بتایا وہ کہاں رہتا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ کیا کام کرتا ہے۔ پھر کہا۔ "چند دن مری گزارنے آیا ہوں۔"
میں نے پوچھا۔ "شادی کر چکے ہو؟"

اس نے جواب دیا۔ "نہیں۔۔۔۔" پھر کہا۔ "آپ اپنے متعلق بھی کچھ بتائیں۔"
میں نے اپنا فرضی نام بتا کر کہا۔ "میں بھی چند دن مری میں گزارنے آیا ہوں۔"
"آپ تو شادی شدہ معلوم نہیں ہوتی؟" اس نے پوچھا۔ "پڑھتی ہو؟"
میں نے دل میں سوچا اس کی نظر کتنی ناقص اور تجربہ کتنا محدود ہے۔ وہ میرے چہرے سے پہچان ہی نہیں سکا کہ میں نے کتنی شادیاں کر لی ہیں۔ میں نے جھوٹ بولا کہ میں نے اس سال بی اے کا امتحان پاس کیا ہے۔ اس نے پوچھا کہاں رہنے والی ہو اور کس کی بیٹی ہو؟ میں نے جھوٹ بول کر مطمئن کر دیا۔ پھر کچھ دیر گپ شپ کرتے رہے۔ اس کی سنجیدگی میں شگفتگی تھی۔ اس کے انداز میں خود اعتمادی تھی۔ مجھے اس سے توقع تھی کہ وہ مجھے کسی ہوٹل میں دعوت کا کہے گا اور پھر اسی خواہش کا اظہار کرے گا جو عام طور پر لڑکے کرتے ہیں۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
"آپ کے ساتھ اور کون آیا ہے؟" اس نے پوچھا۔
"اکیلی آئی ہوں۔" میں نے بتایا۔
"کہاں ٹھہری ہو؟" اس نے پوچھا۔

میں نے ہوٹل کا نام لیا تو وہ چونک پڑا۔ اس نے مجھے گہری نظروں سے دیکھا۔ اس کے چہرے کا رنگ نمایاں طور پر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس نے کہا۔ "مجھے اجازت دیں۔ میں چلتا ہوں۔" میں نے ضد کر کے اسے اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ وہ کچھ بے چین سا ہو گیا تھا۔ اس کی باتوں میں پہلے والا جذبہ نہیں رہا تھا۔ ایک دو باتوں کے بعد اس نے ایک بار پھر جانے کا کہا تو میں نے پوچھا۔ "آپ کو کوئی کام ہے؟" جلدی کس بات کی ہے؟"
"جلدی والی تو کوئی بات نہیں" اس نے کہا۔ "بات یہ ہے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو شک کرے گا۔"
"کرنے دو شک جو کرتا ہے۔" میں نے کہا۔ "اگر آپ پسند کرو تو شام کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ۔"
"نہیں۔۔۔" اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
"کیوں؟" میں نے پوچھا۔
"کیونکہ میں چھوٹا سا آدمی ہوں۔" اس نے کہا۔ "اتنے بڑے ہوٹل میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔"
"میں لے جا رہی ہوں۔" میں نے کہا۔

"لیکن اپنا دماغ خراب نہیں کر سکتا۔" اس نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا۔ "میں کوئی ایسا غریب آدمی تو نہیں ہوں مگر آپ کے مقابلے میں خاصا نادار ہوں۔"
وہ مجھے اس ہوٹل کی وجہ سے اور شکل وصورت اور گورے رنگ کی وجہ سے کسی بڑے ہی امیر باپ کی بیٹی سمجھ رہا تھا۔ میری امیری میں تو کوئی شک نہیں تھا مگر اس وقت کتنی غریب تھی اور کتنی محتاجی محسوس کر رہی تھی یہ اسے بتا نہیں سکتی تھی۔ اس نے اتنی معصومیت سے کہا کہ میں بہت نادار ہوں۔ اس کی یہ معصومیت مجھے اتنی پیاری لگی کہ میں نے بے ساختہ کہا۔ "میں آپ کو اپنے ساتھ لے جا رہی ہوں اور آپ کو چلنا پڑے گا۔"

اس کی بے چینی بڑھ گئی مگر اس نے انکار نہ کیا۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔ ہم اٹھے اور چل پڑے۔ وہ مجھ سے دو تین قدم دور رہنے کی کوشش کرنے لگا جو میں نے کامیاب نہ ہونے دی۔ اوپر چڑھتے ہوئے جب ہم سڑک پر پہنچے تو میرا سانس پھول گیا۔ سڑک پر لوگ آ جا رہے تھے۔ ہر کوئی مجھے گھورتا تھا۔ میں نے آدھے چہرے پر نقاب کیا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے چند قدم آگے چلا گیا تھا۔ سڑک کے کنارے پر دو جوان آدمی جا رہے تھے۔ انہوں نے میرے ساتھی کو دیکھا تو ہاتھ ہلائے اور کہا۔ "ہیلو کیپٹن۔" میرے ساتھی نے بھی ہاتھ ہلائے۔ میں اس سے جا ملی اور پوچھا۔ "آپ فوج میں کیپٹن ہیں؟"

"ایسی قسمت کہاں؟" اس نے کہا۔ "میں راولپنڈی میں ہاکی کی ٹیم کا کیپٹن ہوں۔"
میں اسے اپنے ہوٹل میں لے گئی اور برقعہ اتار دیا۔ وہ کچھ دیر تک مجھے دیکھتا رہا اور پھر بولا۔ "آپ اتنے بڑے ہوٹل میں رہتی ہیں۔ پوری طرح ماڈرن اور سوشل بھی ہو پھر برقع کیوں چڑھا رکھا ہے؟"
"اپنے آپ کو لوگوں سے چھپانے کے لئے۔" میں نے کہا۔
"ایسی بھی کیا ضرورت پیش آئی؟" اس نے پوچھا۔
"پھر کبھی بتاؤں گی۔" میں نے موضوع بدل دیا۔
میں نے کمرے میں ہی کھانا منگوا لیا۔ میں نے اس کے متعلق جاننے کی بہت کوشش کی مگر اس نے کچھ نہ بتایا۔ مجھے اس کی ایک بات بہت اچھی لگی کہ وہ مجھ جیسی لڑکی سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہا تھا جو عام طور پر لڑکوں میں نہیں ہوتی۔
ہم نے کھانا کھایا اور میں اسے کچھ دور تک چھوڑنے گئی۔ جب اس سے جدا ہونے لگی تو کہا۔ "کل ضرور ملنے آنا۔"

جب وہ چلا گیا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میرا اور اس کا کوئی بڑا ہی اہم رشتہ تھا۔ مجھے اس کی یاد زیادہ آنے لگی۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ میں اس کو سوچتی سوچتی سو گئی۔ مجھے خواب آیا کہ وہ چھوٹا بچہ بن گیا ہے اور میں اسے دودھ پلا رہی ہوں۔ اس کے سر کو اور ہاتھوں کو چوم رہی ہوں۔ زور دار بادل گرجا جس سے میری آنکھ کھل گئی تو میں نے دیکھا کہ میری گود خالی تھی۔ بارش بہت تیز ہو رہی تھی۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میں پل کے نیچے کھڑی ہوں اور پل کے اوپر گاڑی چل رہی ہے۔ مجھے اپنی چھاتیوں پر بچے کے منہ کا لمس بھی محسوس ہوا۔ میں نے چھاتیوں کو ہاتھ لگا کر دیکھا جیسے فی الواقع میں بچے کو دودھ پلا رہی ہوں۔ تنہائی کا احساس بڑھنے لگا۔ میرا دل اس کے پاس جانے کو بے تاب ہونے لگا۔ مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ اسے سوچتے سوچتے پتہ نہیں کب آنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو اگلے دن کے دس بج رہے تھے۔ میرا ایک بار پھر دل کرنے لگا کہ اسے جا کر دیکھوں وہ خیریت سے ہے۔

وہ دن میری زندگی کا بہت ہی لمبا دن تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میری جذباتی حالت اتنی بگڑ گئی تھی۔ ایک میرا وہ محسن تھا جو کسی جاگیر دار کا بیٹا تھا۔ اس نے مجھے اس وقت پناہ دی جب میرے پیٹ میں بچہ تھا اور میں گھر سے بھاگ آئی تھی۔ اس کا احسان میں ساری عمر نہیں بھولوں گی لیکن اس کے ساتھ مجھے ایسی والہانہ محبت نہیں تھی۔ اسے میں نے محبت کا دھوکا دے کر اپنے ساتھ شادی کرنے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی مگر وہ اچھا انسان نکلا۔ مگر جو نوجوان مجھے مری میں سر راہ مل گیا تھا وہ میری روح کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ اس کے انتظار میں دن کاٹنا محال ہو گیا۔ میں وقت سے پہلے اس جگہ پہنچ گئی جہاں اس نے آنا تھا۔ بہت دیر تک ٹہلتی رہی۔ یہ جگہ نیچے تھی۔ میں بار بار اوپر کو دیکھتی تھی۔ آخر کار وہ مجھے نظر آ گیا۔ میں دوڑتی ہوئی اوپر کو جانے لگی۔ وہ بھی تیزی سے نیچے کی طرف آیا۔ جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے اس کے دونوں بازو پکڑ لئے۔ وہ بوکھلا گیا۔ اس نے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے دبایا نہیں۔ اس کا ردعمل سرد تھا۔ میں اسے ہر طرف سے یوں دیکھنے لگی جیسے کوئی بچہ گر جائے تو ماں اسے دیکھتی ہے کہ کہیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔
"کیا دیکھ رہی ہو؟" اس نے پوچھا۔

"چلو نیچے چلو۔ بتاتی ہوں۔" میں نے کہا۔ جذبات کی شدت کی وجہ سے آپ کی بجائے تم کہہ دیا۔ "تم ٹھیک تو ہو نا؟"
"ابھی تک تو ٹھیک ہوں۔" اس نے کہا۔
ہم نیچے جا کر بیٹھ گئے اور میں نے اسے رات کا خواب سنایا۔ اور کہا۔ "ہم ایک دوسرے کو جانتے تو نہیں ہیں مگر سچ کہہ رہی ہوں تم میرے دل میں اتر گئے ہو۔"
اس نے خوش ہونے کی بجائے مجھے سمجھانا شروع کر دیا کہ خواب کا اثر نہیں لینا چاہیے۔ اس نے مجھے اپنے تین بڑے ہی ڈراؤنے خواب سنائے اور پھر بات سے بات نکلتی گئی اور سورج غروب ہو گیا۔ میں نے اسے اپنے ساتھ ہوٹل جانے کا کہا تو وہ ٹالنے لگا مگر میں ضد کر کے اسے ساتھ لے ہی گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ اسے کل والی جھجھک ختم ہو گئی ہے تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ میرے ذہن میں خیال آ رہا تھا کہ کیا وہ مجھ سے شادی کر لے گا؟ کیا وہ مجھے قبول کر لے گا؟ کیا وہ مجھے دھوکا تو نہیں دے گا؟ وہ مجھ سے دو تین قدم پیچھے رہ کر چل رہا تھا۔ راستے میں کچھ نوجوان گزرے جنہوں نے ہماری طرف دیکھا۔ کچھ وردی پہنے فوجی جوانوں نے بھی ہماری طرف دیکھا۔ میں چڑھتے ہوئے تھک گئی تھی۔ میں نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اوپر چڑھنے لگی۔

ہم ہوٹل کے کمرے میں جا بیٹھے اور میں نے پوچھا۔ "کیپٹن آپ کی رجمنٹ کون سی ہے؟ اور کہاں ہے؟ آپ پندرہ دن کی چھٹی پر آئے ہیں نا؟"
اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ اٹھا اور میرے پاس آ گیا۔ اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا۔ "تم پاگل ہو یا جاسوس ہو؟" میں بیسوا تھی۔ اس لحاظ سے میرا کوئی کردار نہیں تھا۔ میں زمین دوز دنیا کی شہزادی تھی مگر باعزت معاشرے کی دھتکاری ہوئی تھی۔ میں وہ طوائف تھی جسے آپ لوگ گالی سمجھتے ہیں۔میرا وجود ناپاک اور میری ذات ننگی گالی سے زیادہ ننگی تھی مگر میں جاسوس کا لفظ برداشت نہ کر سکی۔ جاسوس سے مراد ہندوستان کی جاسوس تھی۔ ایک ہی مہینہ پہلے دونوں ملکوں کا رن پڑا تھا۔ میں نے ایک اخبار میں پڑھا تھا۔ ہندوستان کے وزیراعظم شاستری نے کہا تھا ہم اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے۔ اس جنگ کا ہم پر اثر یہ پڑا تھا کہ سمگلنگ رک گئی تھی اور ہم پریشان تھے کہ راستہ کب صاف ہو گا۔ مگر اس آدمی نے مجھے جاسوس کہا تو میرا دماغ اٹھارہ سال پیچھے چلا گیا۔ جب میں پیدل ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی۔ وہ شعلے جو میرے گاؤں کو جلا رہے تھے اب میرے سینے میں بھڑک اٹھے۔ میرے ہونٹ کانپنے لگے اور میں اٹھ بیٹھی۔

"سنو پاک آرمی کے کیپٹن۔۔۔۔" میری آواز رندھیا گئی۔ میں دھاڑیں مار کر رونا چاہتی تھی مگر ہچکی سی آئی اور بڑی مشکل سے اپنی آواز اور اپنے آپ کو سنبھال کر بولی۔ "بیشتر اس کے کہ تمہارے منہ پر تھوک دوں مجھ سے وعدہ کرو آئندہ مجھے جاسوس نہیں کہو گے۔ تمہیں یہ شک کیوں ہوا؟"
"تمہیں کس نے بتایا کہ میں پاک آرمی کا کیپٹن ہوں؟" اس نے کہا۔ "میرا اصلی نام تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ تمہیں مجھ میں کیا کشش نظر آتی ہے جو اتنی بے حیائی سے بے تکلف ہو گئی ہو؟ تم اتنی امیر لڑکی مجھ جیسے عام آدمی کو پھانسنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟ تم یہاں اکیلی کیوں رہتی ہو؟ سب سے پہلے یہ بتاؤ کہ کس کی بیٹی ہو؟"
"میں۔۔۔۔" میں نے چلا کر کہا۔ "میں کسی کی بیٹی نہیں۔۔۔" میں سر ہاتھوں میں لے کر بے قابو ہو کر رونے لگی۔ اچانک میرے آنسو تھم گئے اور میں نے سر جھٹک کر اوپر اٹھایا۔ وہ کھڑکی کھولے باہر دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا۔ "ادھر آؤ میں تمہیں تمہارے سوالوں کا جواب دوں۔"

وہ وہیں کھڑے کھڑے گھوما اور آہستہ سے بولا۔ "کہو میں سن رہا ہوں۔" اس کے چہرے پر ایسا وقار اور ایسا رعب تھا جو میں نے کم ہی اس عمر کے آدمیوں میں دیکھا تھا۔ میں اسے دھتکار دینا چاہتی تھی۔ میری زبان سے یہ الفاظ نکل چلے تھے کہ جاؤ لے آؤ اپنی ملٹری پولیس کو، میں دیکھتی ہوں کون مجھے گرفتار کرنے کی جرآت کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ میرے ہاتھ میں اتنی پاور والے افسر ہیں کہ اگر کوئی مجھے گرفتار کرتا تو اسے نوکری سے نکلوا سکتی تھی۔ مگر جب اس نے گھوم کر مجھے دیکھا تو اس کے چہرے پر جلال اور رعب نے میرے اعصاب پر قبضہ کر لیا تھا۔ میں اس سے اس لئے نہیں دبکی تھی کہ وہ پاک آرمی کا کیپٹن تھا اور مجھے گرفتار کروا دے گا۔ در حقیقت وہ میری شخصیت پر چھا گیا تھا۔
"مجھے اس طرح معلوم ہوا ہے کہ تم کل دو آدمیوں نے تمہیں کہا تھا ہیلو کیپٹن۔ تم نے مجھے بتایا کہ تم ہاکی ٹیم کے کپتان ہو۔ میں نے مان لیا تھا۔ مگر آج جب آپ میرے آگے جا رہے تھے تو دو وردی پہنے جوانوں نے تمہیں سیلوٹ کیا تھا اور آپ نے بھی جواب دیا تھا۔ جب آپ آگے گزر گئے تھے تو ان میں سے ایک نے تمہارا نام لے کر کہا تھا کہ وہ کیپٹن جا رہا ہے۔"

"چلو یہاں تک میں نے مان لیا۔" اس نے کہا۔ "میرے باقی سوالوں کا جواب دو۔ یہ بھی ذہن میں رکھو کہ انڈیا سے ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ صرف رن کچھ کی لڑائی ختم ہوئی ہے۔ میں چاہوں تو پندرہ منٹ میں یہ ہوٹل سیل کروا سکتی ہوں۔ اگر تم انڈیا کی جاسوس ہو تو زندہ واپس نہیں جا سکو گی۔"
میرا ردعمل کچھ اور تھا۔ میں نارمل ذہن کی لڑکی نہیں تھی۔ اب جب ایک بار پھر اس نے مجھے انڈیا کی جاسوس کہا تو میں نے غم اور ملال سے بوجھل آواز میں کہا۔ "میں انڈیا کی جاسوس نہیں، مہاجر ہوں، پناہ گزیں ہوں۔ اٹھارہ سال ہو گئے ہیں پناہ نہیں ملی۔ میں نے جسے منزل سمجھا وہ سراب نکلا۔ تم مجھے دیانتدار معلوم ہوتے ہو۔ فوجی ہو نا؟ میں اپنی کہانی سنانے سے پہلے تمہیں بتا دینا چاہتی ہوں۔ اگر تم پندرہ منٹ میں ہوٹل سیل کروا سکتے ہو تو میں پندرہ منٹ سے پہلے ہوٹل کھلوا سکتی ہوں۔ جس ملک کی آن پر تم جیسے لیفٹیننٹ اور کیپٹن اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، اس ملک کے حکمران میری مٹھی میں ہیں۔ جب تم سرحدوں پر خون بہاتے ہو تو سرحدوں کے اندر حکمران شراب بہاتے ہیں۔ "
"میرے ساتھ سیدھی سیدھی بات کرو۔" اس نے کہا۔ "یہاں فلم کی شوٹنگ نہیں ہو رہی۔ "
"میرے پاس بیٹھ جاؤ۔" میں نے اسے کہا اور میرے آنسو نکل گئے۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اپنی ساری کہانی سنا دی۔ میں کہانی سناتے ہوئے کئی بار روئی اور کئی بار ہنسی۔ وہ بھی میری کہانی سنتے ہوئے تین چار بار رویا۔ کہانی ختم ہونے پر وہ صوفے سے اٹھ گیا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔ وہ گہری سوچ میں کھو گیا تھا۔
"مجھے معلوم نہیں کہ میں تمہارے سوالوں کا جواب دے سکی ہوں یا نہیں۔" میں نے کہا۔ "اگر تم کہو تو میں انڈیا میں جا کر جاسوسی کر سکتی ہوں مگر میں انڈیا کی جاسوس نہیں ہوں۔"

"پاکستان ابھی اتنا بیغیرت نہیں ہوا کہ اپنی عورتوں کو دشمن کے پاس بھیجے ہم ابھی زندہ ہیں۔"
"کیا تمہیں توقع تھی کہ میں تم سے شادی کر لوں گا؟" اس نے پوچھا۔
"میری توقع اور امید اس قدر مجروح ہو گئی ہے کہ میں اس سے دستبردار ہو گئی ہوں۔" میں نے جواب دیا۔ "پھر بھی سینے میں ایک عورت اس امید پر زندہ ہے کہ ایک آدمی آئے گا جو مجھے اس جہنم سے نجات دلائے گا۔ کیا تم مجھ سے شادی کر لو گے؟"
"کر لوں گا۔ کر لوں گا۔۔۔۔۔" اس نے اس طرح کہا جیسے کہا ہو کہ میرے پاس رائفل ہے میں گولی چلا دوں گا۔ وہ آہستہ سے میرے قریب آیا۔ میرے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے میرا چہرہ پکڑا اور اوپر اٹھایا۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ دوسرے ہی لمحے ہم ایک دوسرے کے بازوؤں میں تھے۔ وہ فوجی تھا۔ اس کے بازوؤں کی گرفت اور طاقت سے میری پسلیاں چیخ اٹھی لیکن مجھے ایسا سکون اور نشہ آور قرار ملا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ پھر یوں ہوا کہ میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اور وہ لیٹا ہوا تھا۔ اس کا سر میری گود میں تھا۔ میں اسے بار بار چوم رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ہی میرا وہ بچہ ہے جسے میں نے جنم دیا تھا۔ میں نے لاپرواہی میں کہہ دیا۔ "میں تمہیں خاوند نہیں بنا سکوں گی۔"

"کیوں؟" اس نے بدک کر کہا۔
"ایسے محسوس ہوتا ہے کہ تم میرا وہ بچہ ہو جسے میں پیدا کر کے عیسائیوں کے حوالے کر آئی تھی۔" میں نے کہا۔
وہ فوجی تھا۔ وہ میری طرح فلمی اور ڈرامائی مکالمے تو نہیں بول سکتا تھا مگر اس نے کہا۔ "خدا کے لئے مجھے حرامی بچہ تو نہ بناؤ۔ میں تو حلالی ہوں۔"
میری ہنسی نکل گئی۔ اعصاب پر جو تناؤ تھا وہ سب ختم ہو گیا۔ مجھے یاد آیا کہ ہم نے کھانا تو کھایا ہی نہیں۔ یہ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ یہ ہوٹل ان ہوٹلوں میں سے ایک تھا جو دن کو سوتے اور رات کو جاگتے تھے۔ میں نے فون کر کے کمرے میں کھانا منگوایا۔ پھر اس سے پوچھا کچھ پیؤ گے؟ شراب۔۔۔ سیگریٹ۔۔۔۔؟"
"میں سیگریٹ یا شراب نہیں پیتا۔" اس نے کہا۔ "اگر تم نے پینا چاہو تو منگوا لو۔"
"اب سے میں بھی نہیں پیا کروں گی۔ آپ سے وعدہ کرتی ہوں۔" میں نے کہا۔
ہم نے کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے پوچھا۔ "تمہیں جانا ہو گا؟" ڈیڑھ بج چکے تھے۔
"چھٹی پر ہوں۔" اس نے کہا۔
"یہیں سو جاؤ۔" میں نے اسے کہا۔

وہ مان گیا۔ میرے پاس کوئی پاجامہ نہیں تھا۔ میں نے اپنی چادر اسے دے دی۔ اس نے پینٹ اتار کر میری چادر باندھ لی۔ شرٹ بھی اتار دی اور بنیان پہنی رکھی۔ اس نے الگ سونے کی ضد کی مگر میں نے اس کا بازو پکڑا اور اپنے ساتھ بیڈ پر لٹا لیا۔ اس نے مجھے ایک کہانی سنائی۔ اس کہانی کا خلاصہ یہاں لکھ رہی ہوں۔
نپولین نے جب روس پر حملہ کیا۔ تو بٹالین نے روسی علاقے میں جنگل میں کیمپ لگایا۔ شام کے بعد ایک روسی لڑکی جو بہت ہی خوبصورت تھی ایک کمانڈر کے خیمے میں گئی۔ وہ دیہاتی لگتی تھی۔ اس نے مظلوم بن کر کمانڈر کو اپنی آب بیتی سنائی اور کہا کہ جنگ نے مجھے تباہ کر دیا ہے۔ میرا خاوند، میرے بچے اور میرے مویشی سب مارے گئے ہیں۔ کمانڈر اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ کمانڈر نے ہمدردی کی خاطر اسے پاس بٹھایا اور دلجوئی کرنے لگا۔ تھوڑی سی دیر بعد لڑکی کمانڈر کے ساتھ بے تکلف ہو گئی اور اس طرح کے سوال پوچھنے لگی۔ آپ کی بٹالین کہاں جا رہی ہے؟ نپولین کا اگلا کیا ارادہ ہے؟ کمانڈر سمجھ گیا کہ یہ لڑکی دیہاتی نہیں ہے بلکہ تربیت یافتہ جاسوس ہے۔ کمانڈر نے اسے کہا تم جاسوس ہو میں تمہیں گولی مار دوں گا۔ لڑکی منت سماجت پر آ گئی اور کہا محض شک پر مجھے گولی نہ مارو۔ میں پہلے ہی تباہ ہو چکی ہوں۔ کچھ دیر کی بحث و مباحثہ کے بعد کمانڈر نے لڑکی کو چھوڑ دیا۔ پھر باتیں ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد باتوں سے باتیں نکلتی گئیں اور کمانڈر نے کہا۔ میں ایک سال سے جنگلوں اور پہاڑوں میں رو رہا ہوں۔ میرے اعصاب تھک چکے ہیں۔ مجھے چھٹی نہیں ملتی۔ میں اپنی بیوی کو چھونے کو بھی ترس چکا ہوں۔ میں ایک شرط پر تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ آج رات میرے ساتھ سو جاؤ۔ لڑکی نے کہا۔ ایک کی بجائے دو راتیں آپ کے ساتھ سوؤں گی۔ آپ کو اتنا مزہ دوں گی کہ آپ کو بیوی کی یاد بھول جائے گی۔ مجھے صرف نپولین کے حملے کا نقشہ دکھا دو۔ وہ لڑکی روسی جاسوس تھی۔ جو لینے آئی تھی اسے مل گیا تھا۔ رات اس نے کمانڈر کے ساتھ گزاری۔ صبح ہوئی اور لڑکی جانے لگی تو کمانڈر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ کمانڈر سمجھ گیا کہ یہ لڑکی اہم ترین فوج راز لے کر جا رہی ہے۔ اس نے اسی وقت بندوق نکالی اور اسے گولی مار دی۔

جب اس نے کہانی ختم کی تو میں نے کہا میں آپ سے کوئی راز نہیں پوچھ رہی۔ پھر بھی آپ مجھے گولی مارو گے؟ وہ بھی ہنس پڑا۔ پھر ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے رہے اور کھیلتے رہے۔ ساری رات یوں ہی گزر گئی مگر اس نے ایک بار بھی کوئی فحش حرکت نہ کی۔ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ ایک خوبصورت اور جوان لڑکی اس کے ساتھ لیٹی ہوئی ہے۔ صبح ہوئی تو وہ نہا دھو کر جانے لگا تو میں نے اسے کہا رات کو دوبارا آ جانا میں انتظار کروں گی۔ وہ مسکرایا اور چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد میں کمرے میں بیٹھ گئی اور اس کے بارے میں سوچنے لگی۔ کبھی تو یقین آ جاتا کہ وہ مجھے قبول کر لے گا اور کبھی اس وہم میں الجھ کر پریشان ہونے لگتی کہ نہیں وہ میرے ساتھ کھیل رہا ہے۔ چھٹی کے باقی دن میرے ساتھ گزار کر چلا جائے گا اور پھر مجھے کبھی نہیں ملے گا۔ کبھی خیال آتا کہ وہ محبت کا دھوکا دے کر معلوم کرنا چاہتا ہے کہ میں جاسوس ہوں یا نہیں۔ یہ وہم اس وجہ سے پختہ معلوم ہوتا تھا کہ ایسی لڑکی ہر ایک کیپٹن کیسے یقین کر سکتا ہے جو اتنی چھوٹی عمر میں سمگلر اور شرابی بن گئی تھی۔ لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ میری کہانی سن کر اس کے آنسو نکل آئے تھے۔ مجھے اس پر اعتبار آنے لگا تھا۔ ایسے ہی الٹے سیدھے خیالات مجھے پریشان بھی کرتے رہے اور بہلاتے بھی رہے۔ باقی دن اسی کشمکش میں گزر گیا۔

برقع اوڑھ کے میں اسی جگہ چلی گئی جہاں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اسی جگہ ٹہل رہا تھا۔ ہم بیٹھ گئے۔ میں نے سب سے پہلے بتایا کہ آج سارا دن میں کس کشمکش میں مبتلا رہی۔ یہ بات میں نے اچھے خاصے شگفتہ انداز میں شروع کی تھی مگر بات کرتے کرتے میرے آنسو نکل آئے۔ میں نے بے تابی سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈال کر بھیک مانگتے ہوئے کہا۔ "خدا کے لئے مجھے بتا دو۔ تم میرے ساتھ کیسا کھیل کھیل رہے ہو؟ مجھے گولی مروانا چاہتے ہو تو جلدی کرو۔ اگر میرے ساتھ دل بہلا کر چلے جانا چاہتے ہو تو جلدی چلے جاؤ۔"
"میں نے تمہارے ساتھ دل نہیں بہلایا۔" اس نے کہا۔ "لیکن خدا کی قسم تمہارا دل بہلا لوں گا۔ اسے توڑوں گا نہیں۔ یہ وہم مجھے کرنا چاہیے تھا تمہیں نہیں۔ میں بھی سارا دن اسی کشمکش میں مبتلا رہا ہوں جس میں تم پریشان رہی۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ مجھے تم پر کیوں اعتبار آ گیا ہے کہ تم مجھے دھوکا نہیں دو گی۔ کیا تم پسند کرو گی کہ میں تمہیں زیبی کہوں؟"
"کیوں؟ زیبی کیوں؟" میں نے پوچھا۔

"یہ نام مجھے اچھا لگتا ہے۔" اس نے شگفتہ لہجے میں کہا۔ "میں نے سوچا تھا کہ اگر میری شادی ہوئی تو میں اپنی بیوی کا نام زیبی رکھوں گا۔"
اس کا لب و لہجہ بچوں جیسا تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔ ناجانے کیوں میرے دل میں بیٹھ گیا کہ یہ میرے بچے کا چہرہ ہے۔ اس نے میری فطرت کا خلا پر کر دیا تھا۔
"سنو زیبی۔۔۔" اس نے کہا۔ "ہم فوجی ہیں اور ہماری تربیت اس انداز سے کی جاتی ہے کہ ہماری عادتیں بدل جاتی ہیں۔ فوجی کوئی کام کرتا ہے تو اس کے ہر پہلو پر غور کرتا ہے۔ خوش فہمی ہماری عادت سے نکال دی جاتی ہے۔ ہم خطروں پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔ پلان بناتے ہیں اور پھر اسے ہر زاویے سے دیکھتے ہیں۔ پھر منہ سے بات نکالتے ہیں یا عمل کرتے ہیں۔ ہم جذبات سے مغلوب نہیں ہوا کرتے۔ تم ایک شہزادی ہو۔ تم نے جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلہ کیا ہے۔ تم شادی کے بعد ازدواجی زندگی کی پابندیوں سے اکتا جاؤ گی اور اپنے فیصلے پر پچھتاؤ گی۔ میری تنخواہ محدود ہے۔ میری زندگی ایک حقیقت ہے جو تم جیسی آزاد خیال لڑکیوں کو پسند نہیں آئے گی۔ آج رات تنہا بیٹھ کر ان سب پہلوؤں کو سوچو۔ ہو سکتا ہے تم اپنا فیصلہ تبدیل کر لو۔"

میں نے پھر وہی باتیں کہی جو پچھلی رات کہہ چکی تھی۔ میں نے اسے کہا۔ "مجھے سوچنے کا نہ کہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھٹک جاؤں۔ میرے ماضی کو مر جانے دو۔"
سورج غروب ہو گیا۔ رات تاریک ہونے لگی۔ ہم ابھی تک باتیں کر رہے تھے۔ پھر میں اس کے زانوں پر سر رکھ کر گھاس پر لیٹ گئی اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔ مجھے وہی سکون مل گیا جو تھکے ہوئے مسافر کو منزل پر پہنچ کر ملتا ہے۔ مجھے نیند آنے لگی۔ وہ مجھے کوئی کہانی سنا رہا تھا جو مجھے خواب کی طرح سنائی دے رہی تھی۔ پھر اس نے کہا۔ "چلو اب چھٹی کرو۔" میں اچانک بیدار ہو گئی۔

اس رات وہ میرے ہوٹل پر جانے کے لئے راضی نہیں ہو رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ برا لگتا ہے روز آپ مجھے کھانا کھلاؤ۔ میں نے ابھی اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ میں اس ہوٹل میں مفت رہ رہی ہوں اور کھانا بھی مفت کھا رہی ہوں۔ اگر مجھے ہوٹل کے پیسے دینے بھی پڑتے تو میرے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ بینک بھرے ہوئے تھے۔ بینکوں میں میرا بہت پیسہ تھا۔ مگر مجھے ان پیسوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ اب صرف ایک ہی خواہش تھی کہ شادی کر کے اپنا گھر بساؤں اور واپس پردے کی طرف لوٹ جاؤں۔ اسلام کے مطابق زندگی بسر کروں۔
رات کے کھانے کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔ "تم جب والدین سے میرے ساتھ شادی کی اجازت کو گے تو انہیں میرے متعلق کیا بتاؤ گے؟
"میرے والدین نہیں ہیں۔" اس نے جواب دیا۔
"کیا والدین فوت ہو گئے ہیں؟" میں نے پوچھا۔
"والدہ فوت ہو گئی ہے۔" اس نے آہ بھر کر بڑے ہی اداس لہجے میں کہا۔ "باپ زندہ ہے مگر میں کہا کرتا ہوں کہ وہ بھی مر گیا ہے۔ اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ پھر اس نے رومال نکال کر آنکھیں صاف کی تو مجھے پتہ چلا کہ وہ بے اختیار رو پڑا تھا۔

اس کے آنسو میری برداشت سے باہر تھے۔ میں گیند کی طرح اچھل کر اٹھی، اسکا سر تھاما اور اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کے آنسو تو بے تحاشا بہہ رہے تھے۔ میں نے اپنے دوپٹے سے اس کے آنسو پونچھے اور دیوانگی میں اس کی آنکھیں چومنے لگی۔ وہ مرد تھا جلدی سنبھل گیا مگر میں نہ سنبھل سکی۔ میں تو اس جواں سال آدمی کو ٹھنڈی چھاؤں سمجھتی تھی مگر وہ چھاؤں کسی دکھ سے تپ رہی تھی۔ ایسے مضبوط مرد کے آنسوؤں نے میرے پاؤں تلے سے زمین نکال دی۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ مجھ سے زیادہ دکھی اور کون ہو سکتا ہے؟ میں بھول ہی گئی کہ میں ایک جوان لڑکی ہوں اور یہ میری عمر کا جوان اور غیر محرم مرد ہے۔ میں نے اس کا منہ اوپر کیا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی مگر اس مسکراہٹ میں اس نے آنسوؤں کے دریا سمیٹ لئے تھے۔ میں نے اس کے چھوٹے چھوٹے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ "تم کیوں رو پڑے ہو؟ تم تو مرد ہو۔"

"برسوں بعد آنسو نکلے ہیں" اس نے کہا اور اس کی آہ نکل گئی۔ کہنے لگا۔ "میں نے کبھی کسی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تھی اور نہ ہی سوچا تھا کہ کوئی میرے ساتھ ہمدردی کرے گا۔ میں نے محبت اور پیار کے صرف نام سنے تھے۔ نہ کہیں محبت دیکھی اور نہ کہیں پیار ملا۔ میرے دل میں بے پناہ پیار ہے مگر وہ صرف پاکستان کے لئے ہے۔ خاکی وردی کے لئے ہے اور اپنے ہتھیاروں کے لئے ہے۔ میری زندگی کا صرف ایک ہی مشن ہے کہ پاکستان کا دفاع کرنا اور سرحد پر کہیں اپنی جان دے دینا۔ اگر میرے دل میں یہ مشن اور جذبہ نہ ہوتا تو آج میں جیل میں ہوتا۔ جیبیں کاٹ رہا ہوتا، تالے توڑ رہا ہوتا یا کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر ہائی سٹینڈرڈ کا غنڈہ ہوتا۔ اگر تم مجھے آج پیار کی جھلک نہ دکھاتی تو میرے آنسو نہ نکلتے۔ مرد کی آنکھوں میں آنسو اچھے نہیں لگتے۔ تمہاری خوبصورتی اور جوانی نے مجھے ذرہ بھر بھی متاثر نہیں کیا۔ مجھے صرف تمہارے پیار نے متاثر کیا ہے۔ تم سے اس لئے پوچھا تھا کہ تمہاری عمر کی لڑکیاں اگر مری کی رونق سے دور ویرانے میں نظر آئیں تو کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اور میرا شک صحیح نکلا۔ میں گیارہ سال کی عمر کا تھا جب میری ماں کا انتقال ہو گیا۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں پانچ سال کا تھا جب سکول داخل ہو گیا۔ جب پاکستان بنا تو میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارے محلے میں دس بارہ ہندوؤں کے گھر تھے وہ سب انڈیا چلے گئے۔ محلے کے مسلمانوں نے ان کے گھروں سے سامان اٹھا لیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد یہ گھر پھر آباد ہونے لگے۔ ان گھروں میں وہ لوگ آباد ہوئے تھے جو انڈیا سے ہجرت کر کے آئے تھے۔"

"گلی میں ایک دم شور اٹھا تو میں دوڑتا ہوا باہر گیا۔ باہر ایک قافلہ آ رہا تھا۔ آگے آگے جو لوگ تھے ان میں سے ایک کے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور ایک بازو سلنگ ہوا تھا۔ کلائی سے کندھے تک بازو پٹیوں سے بندھا ہوا تھا۔ اس کی ساری پٹیاں خون سے لال تھیں۔ دوسرے آدمی کے بھی سر پر پٹیاں تھیں اور اس کی دونوں ٹانگیں زخمی تھیں۔ اس سے اچھی طرح چلا نہیں جا رہا تھا۔ ان کے پیچھے تین بچے میری عمر کے تھے اور تین مجھ سے چھوٹے تھے۔ ان میں دو بچیاں بھی تھیں۔ ایک بچی کو دو بچوں نے سہارا دے رکھا تھا۔ اس کی قمیض پھٹی ہوئی تھی اور خون سے لال تھی۔ اس کی ایک ٹانگ گھٹنے سے اوپر پٹیوں سے لپٹی ہوئی تھی۔ وہ رو رہی تھی۔ ان کے ساتھ چھے سات عورتیں تھیں۔ سب رو رہی تھیں۔ صرف دو کے سروں پر دوپٹے تھے۔ سب کے بال مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ جوان لڑکیاں بھی تھیں جن کے چہرے دوپٹوں میں چھپے ہوئے تھے۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ چل نہیں سکتی۔ وہ بھی رو رہی تھیں اور ہچکیاں لے رہی تھیں۔ دو جوان آدمیوں کو دو آدمیوں نے پیٹھ پر اٹھا رکھا تھا۔ ان میں بوڑھے آدمی بھی تھے۔ ان کے پیچھے اور عورتیں تھیں۔ ایک عورت نے ایک بچہ سینے سے لگا رکھا تھا جس کی عمر ایک سال ہو گی۔ بچے کے سر پر ماں نے دوپٹہ لپیٹا ہوا تھا اور سارا دوپٹہ خون سے لال تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ بچہ مرا ہوا تھا۔ سکھوں نے اس بچے کا سر کرپانوں سے کھول دیا تھا۔ ماں مردہ بچے کو ہی اٹھا لائی تھی۔ وہ عورت بین کر کے رو رہی تھی۔ ان سب کی آنکھوں میں دہشت تھی اور چہروں پر خوف تھا۔ لوگوں گھروں سے نکل نکل کر انہیں دیکھ رہے تھے۔ شام کو میرا باپ گھر آیا تو میں نے اس قافلے کے متعلق پوچھا تو باپ نے بتایا کہ ہم نے ایک ایسا ملک حاصل کر لیا ہے جہاں اب صرف قرآن و سنت کی حکمرانی ہو گی۔ یہ ملک مسلمانوں کی جنت ہو گا۔ اب ہم انگریزوں اور ہندوؤں سے آزاد ہو گئے ہیں۔ میرے باپ نے بتایا کہ ان لوگوں پر ہندوؤں اور سکھوں نے ظلم کئے ہیں۔ سکھوں نے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹا اور مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ہے۔ بہت تھوڑے لوگ زندہ بچ کر یہاں پہنچے ہیں۔ اسی وقت سے میرے اندر ایک شعلہ بھڑک اٹھا۔"

وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا تو غصے سے لال تھا۔ اس نے مٹھیاں بند کر لیں اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس نے صوفے پر گھونسہ مار کر دانت پیستے ہوئے کہا۔ "ہندوؤں اور سکھوں نے اس دودھ پیتے ہوئے بچے کو بھی قتل کر دیا۔ زیبی میں چھوٹا تھا۔ میں اس وقت کچھ بھی نہیں کر سکا۔ ہمارے محلے سے ہندو گئے تو ہم نے آرام سے انہیں جانے دیا۔ کسی کو کچھ نہیں کہا۔ مگر ہندوؤں نے ہمارے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں ہندوؤں اور سکھوں سے بدلہ لوں گا۔ زیبی تم بھی اسی طرح انڈیا سے آئی تھی نا؟ تم نے بھی ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم دیکھے تھے۔ مجھے ایک بچے نے بتایا کہ اس کے سامنے اسکی جوان بہن کو سکھ اٹھا کر لے گئے۔ زیبی سکھوں نے مسلمانوں کے گھروں کو جلا دیا۔ پھر وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اپنی ہتھیلی پر زور سے مکا کر کر بولا۔ "دودھ پیتے بچوں کو جلتی ہوئی آگ میں پھینک دیا گیا۔ ننھے ننھے بچوں کے سر چھریوں سے چیر دئیے گئے۔ جوان مسلمان لڑکیوں کو ننگا کر کے امرتسر کے بازار میں جلوس نکالا گیا۔ پھر ان کی عزتیں لوٹی گئیں۔ پھر ان کو بھی قتل کر دیا گیا۔ زیبی پاکستان کی فوج یہ ظلم نہیں بھول سکتی۔ زیبی اس کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔" اس کی پیاری پیاری آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔

وہ کہہ رہا تھا۔ "جب میں ساتویں جماعت میں ہوا تو ایک مہاجر نے مجھے اپنی ہجرت کی کہانی سنائی کہ ان کے قافلے پر بھی سکھوں نے حملہ کیا تھا۔ بے شمار مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ بچے فصلوں میں چھپ گئے تھے۔ عورتوں کی سکھوں نے وہیں آبرو ریزی شروع کر دی تھی۔ اچانک ایک طرف سے پاکستانی فوجیوں کے ٹرک آ گئے اور فوجیوں نے سکھوں پر گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ جو سکھ بھاگ اٹھے تھے ان پر فوجیوں نے مشین گن سے فائر کھول دیا۔ پھر جو مہاجرین زندہ بچ گئے تھے انہیں ٹرکوں میں لاد کر پاکستان لائے۔ مجھے اسی وقت سے ہی فوجی بننے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ میں ہندوؤں اور سکھوں کو کتوں سے بد تر سمجھنے لگا۔ میں نے باپ سے کہا مجھے فوجی بننے کا شوق ہے تو انہوں نے کہا بیٹا شوق سے پڑھو گے تو فوجی افسر بنو گے۔ مگر زیبی وہی باپ بعد میں میرا دشمن بن گیا۔ میری ماں بیمار ہو گئی۔ بیس روز بیمار رہنے کے بعد ماں مر گئی۔ میرا پیار مر گیا۔ میرا بچپن مر گیا۔ میں خلا میں ماں کو ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ میں روتا تھا تو میری ہچکی بندھ جاتی تھی۔ "
وہ ایک دم سے صوفے سے اٹھا اور کھڑکی کی طرف چل پڑا۔ آہستہ آہستہ چلتا کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھتا رہا اور پھر رومال سے آنکھیں صاف کرنے لگا۔ پھر گھوما اور بولا۔ "میں کسی عورت کے سامنے رونا نہیں چاہتا مگر تم نے مجھے ایسا پیار دیا ہے کہ مجھے ماں کا پیار یاد آ گیا ہے۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ آنسو بند توڑ کر نکل رہے ہیں۔"
"ان آنسوؤں کو نکل جانے دو۔" میں نے کہا۔ "میں نے بھی آنسو روکے تھے تو یہ انگارے بن کر مجھے جلانے لگے تھے۔"
"میری زندگی تین چیزوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ گھر سکول اور قبرستان۔ گھر سے تو مجھے وحشت ہوتی تھی۔ مجھے ماں کی بہت یاد آتی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ صبر کسے کہتے ہیں۔"
"ماں کی وفات کے آٹھ مہینے بعد میرے باپ نے دوسری شادی کر لی۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی۔ میری سوتیلی ماں کوئی بہت زیادہ خوبصورت نہیں تھی مگر خود کو بہت زیادہ خوبصورت سمجھتی تھی۔ میرے باپ نے مجھے پہلے دن کہا۔ دیکھو بیٹا تمہارے لئے نئی امی لایا ہوں۔ سوتیلی ماں نے بیگانوں کی طرح میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے اس دن بھی اسے قبول نہیں کیا تھا۔ پہلے میرا باپ گھر آتا تھا تو مجھ سے پیار کرتا تھا مگر جب سے سوتیلی ماں آئی تھی میرا باپ سارا وقت نئی ماں کو دینے لگ گیا۔ ایک دن میں کمرے میں چلا گیا۔ مجھے امید تھی کہ میرا باپ اور ماں مجھے پاس بٹھائیں گے اور پیار کریں گے۔ وہ دونوں بیڈ پر بیٹھے انگور کھا رہے تھے۔ میری سوتیلی ماں نے انگور کے دو دانے مجھے پکڑا کر کہا۔ جاؤ باہر کھیلو۔ زیبی میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ میرے اندر کیسا دھماکہ ہوا۔ میں نے انگور نہ لئے اور وہاں سے ہلا بھی نہیں۔ باپ نے کہا جاؤ بیٹا کھیلو جا کر۔ میں کمرے سے نکل گیا۔ میرا دماغ میرے قابو میں نہیں رہا تھا۔ میں گھر سے بھی نکل گیا اور چلتا گیا مجھے نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں۔ کچھ دیر بعد ماں کی قبر آ گئی تو میں بیدار سا ہو گیا۔ میں رونے لگا۔ روتے روتے ماں کی قبر پر لیٹ گیا اور آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ میں کبھی اتنی دیر باہر نہیں رہا تھا۔ میں دوڑتا ہوا گھر چلا گیا۔ باپ نے ڈانٹ کر پوچھا کہاں تھے؟ میں نے کہا ماں کی قبر پر گیا تھا۔ باپ نے تو کچھ نہیں کہا مگر سوتیلی ماں بول پڑی۔ اتنی دیر ماں کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہے تھے؟ پھر میرے باپ کو کہنے لگی کہ یہ بچہ آوارہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جھوٹ بھی بولتا ہے۔ میں بچہ تھا مگر جھوٹ کا الزام برداشت نہیں کر سکا اور غصے میں کہا۔ جھوٹ تم بولتی ہو۔ بتاؤ میں نے کب جھوٹ بولا؟..... ماں نے باپ سے کہا جب آپ چلے جاتے ہو تو یہ اس طرح میرے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔ باپ نے زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔ یہ باپ کا پہلا تھپڑ تھا۔ اس کے بعد روز تھپڑوں کا سلسلہ چل پڑا۔ جہنم میں شاید کوئی سکون مل جاتا ہو گا مگر میرے گھر میں کوئی سکون نہیں تھا۔ سوتیلی ماں میرے باپ کے اعصاب اور دماغ پر چھا گئی تھی۔ مجھے سوتیلی ماں نے گھر کا نوکر بنا دیا تھا۔ میں گھر میں جھاڑو بھی دیتا تھا اور برتن بھی دھوتا تھا۔ سوتیلی ماں کا بچہ پیدا ہوا تو اس کے گندے کپڑے بھی دھوتا تھا۔ اگر مجھے پیار سے محروم نہ کیا جاتا تو میں یہ سارے کام خوشی سے کرتا مگر مجھ سے کام کروا کر بھی مجھے کام چور کہا جاتا تھا۔ مجھے گالیاں دی جاتیں۔ ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی۔ مجھے ماں کی یاد بہت آتی تھی۔ میں نے ظلم اور تشدد سہتے سہتے دس جماعتیں پاس کر لی۔
میں کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا مگر سوتیلی ماں نے اجازت نہ دی۔ باپ نے بھی صاف انکار کر دیا اور کہا کوئی نوکری تلاش کرو۔ ماں مجھے دانشمندوں کی طرح نصیحت کرنے لگی۔ دیکھو آپ کا باپ بوڑھا ہو گیا ہے۔ تمہیں چاہیے اپنے باپ کا ہاتھ بٹاؤ۔

ایک روز میں نے سوتیلی ماں سے پانچ روپے مانگے تو میری سوتیلی ماں نے مجھے بڑا بیہودہ سا طعنہ دیا۔ الٹا باپ کو جا کر بتایا کہ تمہارے بیٹے نے مجھے ننگی گالی دی ہے۔ مجھے ماں پہلے ہی اچھی نہیں لگتی تھی۔ اب جب اس نے مجھ پر الزام لگایا تو میں باؤلا ہو گیا۔ میں نے سوتیلی ماں کے منہ پر اس قدر زور سے تھپڑ مارا کہ وہ چکرا کر دروازے سے لگی۔ میرا باپ میرے پیچھے کھڑا تھا۔ میرے باپ نے میرے سر کے بال مٹھی میں لے کر گھمایا اور زناٹے دار ایک تھپڑ میرے منہ پر مارا۔ میں نے ایک زور دار مکا اپنے باپ کے منہ پر بھی مارا۔"

وہ بولتے بولتے رک گیا۔ پھر بولا۔ "اب اس گھر میں رہنا ناممکن ہو گیا تھا۔ میں گھر سے نکلا۔ مجھے سوتیلی ماں کی رونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔ میں تیز تیز چلتا خالہ کے گھر چلا گیا۔ میں نے خالہ کو سارا واقعہ سنایا۔ خالہ نے مجھے اپنے گھر میں رہنے کا کہا مگر میں نہیں مانا۔ خالہ نے مجھے پچاس روپے دئیے اور کہا کوئی نوکری تلاش کر کو یا کوئی کاروبار کر لو۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے سٹیشن پر پہنچا اور راولپنڈی جا ٹکٹ لیا اور ٹرین پر بیٹھ گیا۔ جس ڈبے میں بیٹھا تھا، اس میں چار فوجی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک فوجی نے کہا۔ تم سپاہی کیوں بھرتی ہو رہے ہو؟ سیدھا کمیشن لو۔ مجھے اس وقت کمیشن کا نہیں پتہ تھا۔ میں فوجیوں سے باتیں کرتا رہا۔ جب ٹرین سے اترنے لگا تو ایک فوجی نے پوچھا کہاں جاؤ گے۔ میں نے بتایا کہ میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اس نے کہا ریلوے اسٹیشن کے ساتھ جو ہوٹل ہے، اس میں رات گزارو اور کل میرے پاس آ جانا۔ اس نے اپنا پتہ بتایا اور چلا گیا۔ میں نے ہوٹل سے کھانا کھایا اور ایک ہوٹل کے باہر پڑی چارپائی پر سو گیا۔ صبح ہوئی تو میں چھاؤنی میں اسی فوجی کے پاس چلا گیا۔ اس نے ایک افسر سے بات کی۔ اور افسر نے مجھے بھرتی آفس میں بھیج دیا۔ مجھے تین دن بعد ٹیسٹ کے لئے بلا لیا گیا۔ پھر انٹرویو کے لئے بلایا گیا۔ افسر نے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے جو وہ ہر امیدوار سے پوچھا کرتا تھا مگر میں نے اپنے دل کا سارا غبار نکال دیا۔ اس نے مجھ کچھ نصیحتیں کیں۔ پھر سلیکشن بورڈ کی کال آنے تک مجھے راولپنڈی میں ہی رہنا پڑا جو میرے لئے بہت مشکل تھا۔ کبھی سڑک پر سو جاتا تھا۔ کبھی کسی پارک میں سو جاتا تھا۔ چار دن بعد مجھے آرمی کے سلیکشن بورڈ کی کال آ گئی۔ ہم چوبیس لڑکے تھے جن میں سے صرف تین سلیکٹ ہوئے۔

کاکول اکیڈمی میں گئے تو پھر میرے لئے کوئی مشکل نہ رہی۔ ٹریننگ اس قدر مشکل تھی کہ بعض لڑکے رو پڑتے تھے۔ مگر مجھے روحانی سکون ملتا تھا۔ جب میں فوجی افسر بن گیا تو اپنے باپ کو خط لکھا اور پوچھا کہ اگر مجھے معاف کر دیا ہے تو میں گھر واپس آ جاؤں گا۔ اس خط کا بہت ہی تلخ جواب آیا۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ خط ماں کا لکھا ہوا ہے۔ اس خط کا آخری جملہ تھا۔ میرے لئے تم مر گئے ہو۔ اللّٰہ کا شکر ہے میری ٹریننگ پوری ہو گئی اور چند دن ایک ہوٹل میں گزار کر میں اپنی رجمنٹ میں چلا گیا۔ "
اب تک ایک بج چکا تھا۔
میں نے پر سکون سی آہ بھر کے کہا۔ "اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ اگر آپ پسند کرو تو ہم شادی کر لیں؟"
"کر لیں گے مگر جلدی نہیں۔" اس نے کہا۔ "تمہارے ساتھ شادی کرنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ میرا ایک مشن ہے اسے پورا ہونے دو۔ "
"کیسا مشن؟" میں نے پوچھا۔
"ابھی نہیں بتا سکتا۔" اس نے کہا۔ "یہ فوجی راز ہوتا ہے۔"
"مشن پورا کر کے واپس آؤ گے؟" میں نے پوچھا۔ "مجھے کتنا عرصہ انتظار کرنا پڑے گا؟"
"ساری عمر انتظار کر سکو گی؟" اس نے مسکرا کر کہا۔ "میرا مشن ایسا ہے جلدی بھی آ سکتا ہوں۔ دیر بھی لگ سکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم ساری عمر انتظار کرتی رہو۔"

"ساری عمر انتظار کراؤ گے؟" میں نے بجھے بجھے لہجے میں پوچھا۔
"زندہ رہا تو آ جاؤں گا۔" اس نے کہا۔ "اگر نہ آ سکا تو آپ کو اطلاع مل جائے گی۔"
پھر ہم باتیں کرتے کرتے سو گئے۔ دوسرے دن دوپہر کا کھانا کھا کر وہ چلا گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور سو سو کے نوٹوں کا ایک بنڈل میرے سامنے رکھ کر کہا۔ "یہ میری ساری زندگی کی جمع پونجی ہے۔ یہ صرف امانت نہیں، اگر تمہیں ضرورت ہو تو استعمال کر سکتی ہو۔ میں نے رقم دیکھی تو ایک دم سے بدک کر پیچھے ہٹ گئی اور کہا۔ "اٹھا لو اسے، مجھے ان سے نفرت ہے۔"

"تو اور کسے دوں؟" اس نے کہا۔ "کیا تم ان پیسوں کی مالک نہیں بننا چاہتی۔"
میں فوراً سنبھل گئی اور یہ رقم اٹھا لی۔ پھر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسے نے مجھے ساتھ لگا لیا۔ یہ پہلا مرد تھا جسے میرے جسم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے اس کے بازوؤں میں وہ سکون ملا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ پھر ہم باہر چلے گئے اور ٹہلتے ٹہلتے کشمیر پوائنٹ تک چلے گئے۔ میں نے اس سے بات کی مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ کشمیر کی ان پہاڑیوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا جہاں برف جمی ہوئی تھی۔ وہ کسی گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ کچھ دیر میں اسے دیکھتی رہی۔ پھر اسے جھنجھوڑ کر کہا۔ "کہاں گم ہو؟"
"کشمیر کی ان پہاڑیوں میں۔۔۔" اس نے کہا۔
"سفید برف آپ کو بہت پسند ہے؟" میں نے پوچھا۔
"سفید نہیں" اس نے غمگین سے لہجے میں کہا۔ "یہ انسانوں کے خون سے لال ہیں۔ دور سے تو سفید لگتی ہیں مگر میں انہیں قریب جا کر دیکھوں گا۔"

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام  اردو کہانی - پارٹ 5

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں