Sublimegate Urdu Font Stories
خوف کی لپیٹ ۔ ایک ناقابل یقین سچی داستان
کچھ سال پہلے کی بات ہے بی آر بی نہر کے پاس ایک چھوٹے سے گاؤں اچوگل کے قریب ایک علاقے میں رفیق نامی شخص رہتا تھا جو کہ گائے بھینس کا چارا اپنے ٹرک کے ذریعے لاہور کے مختلف علاقوں میں سپلائی کیا کرتا تھا اس کے گھر میں ٹوٹل پانچ لوگ تھے جس میں رفیق کا بوڑھا باپ حنیف (عرف بابا حنیفہ ) رفیق کی بیوی آمنہ پھر اس کا بیٹا اسلم جو کہ تقریباً پچیس سال کا تھا اور کسی ٹیکسٹائل مل میں کام کرتا تھا اور رفیق کی بائیس سالہ بیٹی سمیرہ جو کہ کسی کالج میں پڑھتی تھی اسلم روز سمیرہ کو اپنی بائک پر کاج چھوڑ کر اپنے کام پر چلے جاتا تھا اور رفیق اپنے کام سے فارغ ہو کر واپسی پر سمیرہ کو چھٹی کے وقت ساتھ لے آتا تھا ۔ ایک دن رفیق کام سے فارغ ہو کر حسب معمول سمیرہ کو کالج سے لینے گیا تو سمیرہ نے ٹرک میں بیٹھتے ہوئے کہا ابو یہ کیا آپ اپنا عجیب سا ٹرک لے کر مجھے لینے آجاتے ہیں مجھے اس میں بیٹھتے ہوئے بہت شرم آتی ہے پتا ہے میری ساری سہیلیاں مجھ پر ہنستی ہیں بولتی ہیں لو سمیرہ تمہیں لوڈ کرنے والا ٹرک آگیا ہے اس وقت مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے ۔۔۔
یہ سنتے ہی رفیق نے کہا ارے بیٹی اس میں شرم والی کونسی بات ہے یہ ٹرک بھی تو گاڑی جیسا ہی ہے بلکہ یہ تو گاڑی سے بھی مہنگا اور مظبوط سواری ہے۔ رفیق کی یہ بات سن کر سمیرہ نے کہا لیکن ابو اب بس بہت ہوا مجھے اب اس ٹرک میں مت لینے آیا کریں یاں تو آپ بھائی کی طرح بائیک لے لیں یاں پھر میرے لیئے کو رکشہ یا وین لگوا دیں تاکہ میں بھی اپنی باقی سہیلیوں کی طرح شان سے گھر جایا کروں۔ یہ سن کر رفیق نے نا میں سر ہلاتے ہوئے کہا بیٹی تمہیں تو سب معلوم ہے میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں اس ٹرک سے جو بھی کماتا ہوں اس سے میں گھر کے اخراجات اور تمہاری فیس کے پیسے بھرتا ہوں اب تم ہی بتاؤ اتنے بجٹ میں اب میں بائیک کیسے لے سکتا ہوں یاں تمہارے لیئے رکشہ وغیرہ کیسے لگوا سکتا ہوں تیرا بھائی جو پیسے لاتا ہے اس میں سے بھی کچھ گھر کے کاموں اور تیرے دادا کہ دوائیوں میں خرچ ہو جاتے اور جو پیسے بچتے ہیں ان سے اسلم اپنی کمیٹی بھی بھرتا جو اس نے اپنی شادی کے لیئے ڈالی ہوئی ہے اور تمہیں اچھی طرح پتا ہے کہ اس کی شادی میں زیادہ وقت نہیں ہے ۔ اس لیئے دنیا کی باتوں کی پرواہ کیئے بغیر وقت کے ساتھ سمجھوتا کرنا سیکھو بیٹی ۔ ویسے بھی تم میرے ساتھ آگے بیٹھ کر جاتی ہو تو اس میں کیا برائی ہے ۔ سمیرہ نے کہا ابو برائی نہیں ہے بس مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اس ٹرک میں گھر جاؤں اگر آپ بائیک یاں رکشہ کا انتظام نہیں کر سکتے تو مجھے اجازت دے دیں کہ میں بس میں سفر کر سکوں یہ سن کر رفیق نے کہا ارے بس کونسا تمہیں گھر تک لے کر جائے گی وہ تو تمہیں باہر اسٹاپ پر ہی اتارے گی تو آگے کیا کرو گی۔۔؟؟ سمیرہ نے کہا ابو آگے سے میں پیدل چلی جایا کروں گی ویسے تھوڑا دور ہی تو ہے اسٹاپ سے ۔۔
اور میری کچھ سہیلیاں بھی کالج بس میں ہی جاتیں ہیں جو کہ اچوگل میں رہتی ہیں تو ان کے ساتھ ہی گھر واپس آجایا کروں گی۔ سمیرہ کی یہ بات سن کر رفیق سوچ میں پڑ گیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد سمیرہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اچھا ٹھیک ہے بیٹی لیکن تم ایسے اکیلے گھر آؤ گی تو دل کو دھجکا ہی لگا رہے گا دراصل زمانہ بہت خراب ہے اور اوپر سے ہمارا علاقہ بھی سنسان ہے ایسے میں تمہارا اکیلے میں یوں گھر سے باہر رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ سمیرہ نے کہا ارے ابو میں اکیلی تھوڑی نا واپس آؤں گی میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تو ساتھ ہوں گی اب بس آپ مجھے اجازت دے دیں۔۔ یہ سن کر رفیق نے کہا اچھا ٹھیک ہے لیکن اس بارے میں ایک بار تمہاری امی سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ سمیرہ نے کہا ٹھیک ہے ابو ویسے بھی امی سے میں پہلے ہی یہ بات کر چکی ہوں وہ تو راضی ہیں۔ ابھی سمیرہ اور رفیق سے یہ باتیں کرتے ہوئے نہر ساتھ ساتھ چل ہی رہے تھے کہ اچانک رفیق کی نظر ایک عورت پر پرڑی جس کا منہ اس کے اجڑے ہوئے بڑے بڑے بالوں میں چھپا ہوا تھا اور وہ سڑک کے ساتھ جھاڑیوں سے نکل کر بنا ادھر اُدھر دیکھے سڑک کراس کرتی ہوئی سیدھی نہر میں جا گھسی ۔ اسے ایسا کرتے دیکھ کر رفیق نے ٹرک کی بریک لگاتے ہوئے کہا ارے یہ کون ہے۔۔۔؟؟
یہ سنتے ہی سمیرہ نے سامنے دیکھا تو ایک عورت نہر میں کھڑی ہوئی دکھائی دی جو کہ اپنے ہاتھوں کو لہراتی ہوئی پانی میں کھیل رہی تھی لیکن اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس دوران رفیق بھی اس عورت کی طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا کہ۔ سمیرہ نے بھی حیرانی سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ابو۔۔۔وہ عورت کہیں پاگل تو نہیں ہے۔۔؟؟ جو اتنی سردی میں نہر میں نہا رہی ہے۔۔؟؟ لیکن رفیق نے سمیرہ کی بات کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اب بھی وہ اسی عورت کی طرف دیکھ رہا تھا کہ سمیرہ نے رفیق کے بازو کو پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا ابو۔۔۔۔؟؟ اسی وقت رفیق نے چونک کر سمیرہ کی طرف دیکھتے ہوئے ڈرے ہوئے انداز میں کہا ہا۔۔۔۔ہاں۔۔ہا۔۔۔۔ں رفیق کو اس طرح چونکتے دیکھ کر سمیرہ نے کہا ابو آپ ٹھیک تو ہیں کیا ہوا آپ کو۔۔۔؟؟ رفیق ڈری ہوئی نظروں سے سمیرہ کی طرف دیکھ رہا تھا سمیرہ نے کہا ابو۔۔۔؟؟ آپ اتنا ڈرے ہوئے کیوں لگ رہے ہیں۔۔۔؟؟ رفیق نے اپنی کانپتی ہوئی انگلی سے اس عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ۔۔۔۔عورت۔۔۔۔۔؟؟ سمیرہ نے دوبارہ اس عورت کی طرف اک نظر دیکھتے ہوئے کہا جی جی ابو۔۔۔ میں اسی عورت کی بات کر رہی تھی کہ اتنی ٹھنڈ میں کیسے پانی میں گھسی ہوئی ہے لیکن آپ تو اسے دیکھ کر ایسے ڈر رہے ہیں جیسے کہ وہ عورت نہیں کچھ اور ہی چیز ہے۔۔۔ رفیق نے کہا مجھے یہی لگ رہا ہے وہ کوئی عورت نہیں ہے۔۔۔
یہ سنتے ہی سمیرہ نے ہنسنے ہوئے رفیق سے کہا۔ ارے ابو۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اگر وہ کوئی عورت نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا پتا نہیں لیکن جس طرح وہ اتنے تیز رفتار پانی میں کھڑی ہوئی ہے کوئی عام انسان ایسے اس نہر میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔۔۔ سمیرہ نے کہا ارے ابو میں نے گرمیوں میں بہت سے لوگوں کو اس نہر میں نہاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ تو آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ اس میں کوئی خاص بات ہے۔ سوائے اس کے وہ سردی میں نہا رہی ہے۔ ؟؟؟ رفیق نے کہا ہاں لوگ گرمی میں نہاتے ہیں کیونکہ وہ تیراکی کرتے ہوئے نہاتے ہیں لیکن ان میں سے آج تک کوئی ایسے نہر میں کھڑا نہیں ہو سکا کیونکہ یہ جس جگا کھڑی ہوئی ہے یہاں کہ گہرائی تقریباً اٹھارہ فٹ ہے اور ایسے میں کسی کے پاؤں زمین پر نہیں لگ سکتے۔ رفیق کی یہ بات سنتے ہی سمیرہ حیرانی سے رفیق کی طرف دیکھنے لگی پھر اس عورت کی طرف دیکھنے لگی تو اچانک سمیرہ نے کہا ارے وہ کہاں چلی گئی۔۔۔۔ یہ سنتے ہی رفیق نے بھی اس طرف دیکھا لیکن وہ عورت کہیں نظر نہیں آئی تو رفیق نے سمیرہ سے کہا لگتا ہے وہ کہیں غائب ہو گئی یہ کہتے ہوئے رفیق ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ سمیرہ نے کہا ارے ابو۔۔۔ وہ کہیں چلے گئی ہو گئی غائب کیسے ہو سکتی ہے آپ بھی نا۔۔۔ بچوں والی بات کر رہے ہیں اب گھر چلیں مجھے بہت تیز بھوک لگ رہی ہے۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا ہاں۔۔ ہاں۔۔ چلو چلتے ہیں یہ کہتے ہوئے رفیق ٹرک چلانے لگا لیکن گھر جاتے ہوئے رفیق پورے راستے اسی عورت کے بارے میں سوچتا رہا اور کچھ ہی دیر میں باپ بیٹی گھر پہنچے تو رفیق بنا کسی سے بات کیئے اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا اتنے میں آمنہ رفیق کے پاس آئی اور بولی اسلم کے ابو کیا ہوا آپ آج بڑے خاموش لگ رہے ہیں کوئی بات ہو گئی کیا۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا نہیں بس طبعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی آمنہ نے رفیق کے ماتھے پر ہاتھ لگایا تو اس کا ماتھا آگ کی طرح تپ رہا تھا تو آمنہ نے کہا آپ کو تو واقعی میں بہت تیز بخار ہو رہا ہے لگتا ہے ٹھنڈ لگ گئی ہے آپ کو ۔ ۔ رفیق نے کہا ہاں شاید۔۔ لیکن یہ اچانک ہو گیا ہے مجھے لگتا ہے کہ یہ بخار اس ڈر کی وجہ سے ہو گیا ہے۔۔ دراصل سمیرہ کو کالج سے واپس لاتے ہوئے میں نے نہر کے پاس کچھ دیکھا تھا جس کی وجہ سے میں بہت ڈر گیا تھا ۔۔۔
یہ سنتے ہی آمنہ نے حیرت سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ کیا۔۔۔۔؟؟ آپ نے کچھ دیکھا۔۔۔ تھا۔۔۔ مگر ایسا کیا دیکھا تھا جو آپ ڈر گئے۔۔۔؟؟ پھر رفیق نے وہ سب کچھ آمنہ کو بتایا جو نہر کے پاس ہوا تھا۔۔ جسے سن کر آمنہ بھی ڈر گئی اور بولی اس کا مطلب ہے کہ کچھ دن پہلے ہماری ہمسائی آنٹی نصرت بھی کسی ایسی ہی چیز کے بارے میں بتا رہیں تھیں لیکن ان کی بات پر کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔ یہ سن کر رفیق نے حیرانی سے کہا کیا۔۔۔انہوں نے بھی اسے دیکھا۔۔۔۔؟؟ آمنہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ تو رفیق نے کہا ذرا مجھے بھی بتاؤ کیا دیکھا تھا انہوں نے۔۔؟؟ آمنہ نے کہا گزشتہ تین روز پہلے شام کے وقت آنٹی نصرت کھیت کے راستے سے واپس آرہی تھی دھند بہت تھی تو آنٹی کو زیادہ دور تک صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا تو وہ بالکل آہستہ آہستہ سے چل رہیں تھیں کہ اچانک آنٹی کو محسوس ہوا کہ ان کے پیچھے پیچھے کوئی اور بھی چل رہا ہے لیکن جب آنٹی نے پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا اور جیسے ہی آنٹی وہاں سے تھوڑا ہی دور آئی تو اچانک انہیں فصلوں میں کوئی ہلچل ہوتی دکھائی دی اس کے ساتھ ہی ایک خوفناک سی آواز سنائی دی جسے سن آنٹی ڈر گئیں ابھی آنٹی وہاں سے بھاگنے کی سوچ ہی رہیں تھی کہ اچانک فصلوں سے گائے کی آواز سنائی دی تو آنٹی نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے سوچا کہ شاید کسی کی فصلوں میں گھس گئی ہے یہ سوچتے ہوئے جیسے ہی آنٹی فصلوں میں گئیں تو آنٹی کو ایک لمبی سی عورت دکھائی دی جس کے بڑے بڑے ہاتھ پاؤں تھے اور وہ فصلوں کے بیچ بیٹھ کر گائے کو پکڑ کر زندہ ہی کھانے کی کوشش کر رہی تھی اسے دیکھتے ہی ڈر کی وجہ سے آنٹی کی چیخ نکل گئی اسی دوران اس عورت نے آنٹی کی طرف دیکھا تو اچانک گائے اس عورت کی پکڑ سے چھوٹ کر بھاگنے لگی تو اس نے جلدی سے اٹھ کر گائے کو اس کی پیچھے والی دونوں ٹانگوں سے پکڑ کر اسے ایسے اوپر اٹھا لیا جیسے کہ گائے کو کسی نے اونچی جگہ پر لٹکا دیا ہو پھر اس نے گائے کے پیٹ میں اپنا ہاتھ گھسا دیا اور گائے کی ساری انتڑیاں نکال کر کھانے لگی یہ منظر دیکھتے ہی آنٹی نے زور زور سے بچاؤ بچاؤ کی آوازیں لگانا شروع کر دیں اسی دوران دو آدمی وہاں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے آنٹی کی آواز سنی تو انہوں جلدی سے آگے بڑھ کر آنٹی کو فصلوں سے باہر نکالا پھر آنٹی نے انہیں اس عورت کے بارے میں بتایا تو انہوں نے اس عورت کو ڈھونڈا شروع کر دیا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئی تو ان آدمیوں نے آنٹی سے کہا کہ جو کچھ آنٹی نے دیکھا وہ آنٹی کا وہم تھا لیکن آنٹی کے مطابق انہیں کوئی وہم نہیں ہوا تھا کیونکہ آنٹی نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
آمنہ کی یہ بات سنتے ہی رفیق نے کہا مجھے لگتا ہے آنٹی سچ کہہ رہیں تھیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی چیز اس گاؤں میں آچکی ہے اور اب وہ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ آمنہ نے کہا مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ رفیق نے کہا تم پریشان نہ ہو میں کسی سے اس بارے میں بات کروں گا اگر واقعی میں وہ چیز یہاں ہے تو اسے بھگانے والے بھی مل جائیں گے۔ اتنے میں سمیرہ بھی رفیق کے پاس آ گئی تو آمنہ نے رفیق سے کہا اچھا میں کھانا لاتی ہوں تب تک اسلم بھی آ جائے گا تو آپ اس کے ساتھ ڈاکٹر کے چلے جانا۔ یہ کہتے ہوئے آمنہ کھانا لینے چلی گئی تو سمیرہ نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو۔۔۔؟؟ کیا ہوا آپ کی طبیعت کو۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا کچھ نہیں بیٹی ذرا سا بخار ہو گیا ہے۔ سمیرہ نے کہا ابھی کچھ دیر پہلے تو آپ ٹھیک تھے پھر اچانک بخار کیسے ہو گیا۔۔۔؟؟ رفیق نے بات گول کرتے ہوئے کہا بیٹی مجھے ٹھنڈ لگ گئی ہے شاید۔۔ اتنے میں آمنہ کھانا لے کر آئی اور رفیق کھانا کھانے لگا تو سمیرہ نے آمنہ سے کہا امی آج میں نے ابو سے بات کر لی ہے وہ آپ کو بتایا تھا نا۔۔۔؟؟ کالج سے واپس آنے کے بارے میں ۔۔ آمنہ نے کہا ہاں ہاں بتایا تھا لیکن بیٹی تیرے ابو رکشہ کیسے لگوا سکتے ہیں ویسے بھی آج کل رکشہ والے بھی بہت عجیب ہوتے ہیں جوان لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں کسی کی نیت کا کوئی بھروسا نہیں ہے آج کل۔۔۔ سمیرہ نے کہا ارے امی میں بس میں واپس آنے کا کہہ رہی ہوں۔ ابو نے مجھے اجازت دے دی ہے۔ یہ سنتے ہی آمنہ نے رفیق کی طرف دیکھا تو رفیق نے حیرانی سے سمیرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے بیٹی تم نے تو کہا تھا کہ تمہاری امی نے تمہیں اجازت دے دی ہے اس لیئے میں نے بھی اجازت دے دی تھی۔ یہ سن کر سمیرہ نے ہنستے ہوئے کہا ارے ابو آپ نے دے دی تو سمجھو امی نے بھی دے دی اب بس میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہی کالج سے واپس آجایا کروں گی آپ پریشان مت ہونا۔ آمنہ نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں اس کا ایسے اکیلے واپس آنا ٹھیک نہیں ہے۔۔
رفیق نے کہا ارے میں کیا کر سکتا ہوں اس کو میرے ساتھ ٹرک پر آنا اچھا نہیں لگتا تو ٹھیک ہے اس کو چار دن بس پر ہی سفر کرنے دو جب بس اسٹاپ سے پیدل چل کر گھر پڑے گا تو خود ہی عقل ٹھکانے آ جائے گی اس کی۔ یہ سن کر سمیرہ نے کہا میرے پیارے ابو جی میں چاہوں تو کالج تک پیدل جا سکتی ہوں آپ کی بیٹی اتنی بھی کمزور نہیں ہے یہ کہتے ہوئے سمیرہ نے رفیق کا بازو پکڑ کر اپنا سر رفیق کے کاندھے سے لگا لیا تو آمنہ نے کہا ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ پیچھے ہٹ اپنے ابو کو کھانا تو آرام سے کھا لینے دو۔۔ یہ سن کر سمیرہ نے کہا امی آج میں بہت خوش ہوں اس لیئے میں اپنے ہاتھ سے ابو کو کھانا کھلاؤں گی یہ کہتے ہوئے سمیرہ اپنے ہاتھ سے رفیق کو کھانا کھلانے لگی پھر اتنے میں اسلم بھی گھر آگیا تو اس نے رفیق سے سلام دعا کے بعد سمیرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے واہ۔۔۔ آج تو ابو کی بڑی خاطر داری ہو رہی ہے لگتا ہے سمیرہ نے پھر کوئی فرمائش رکھی ہے ابو کے آگے۔۔ یہ سنتے ہی سمیرہ نے اسلم سے کہا بھائی آپ بھی پتا نہیں کیا کیا سوچتے ہیں کیا میں اپنے ابو کو کھانا بھی نہیں کھلا سکتی۔ اسلم نے ہنستے ہوئے کہا ضرور کھلا سکتی ہو لیکن اس کے پیچھے تمہارا کوئی نا کوئی مطلب تو ضرور ہو گا ۔۔ کیوں ابو میں نے ٹھیک کہا نا۔۔۔؟؟ رفیق نے بھی ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تو سمیرہ نے کہا کیا۔۔۔ ابو۔۔۔ آپ بھی بھائی کے ساتھ شامل ہو جاتے ہو۔۔ اتنے میں آمنہ نے اسلم سے کہا بیٹا تم بھی کھانا لو پھر اپنے ابو کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ان کو بخار ہو رہا ہے۔ یہ سنتے ہی اسلم نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ ابو آپ کو بخار ہے اور آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں۔۔۔۔ چلیں پہلے ڈاکٹر کے پاس چلیں۔۔
یہ سن کر رفیق نے کہا ارے بیٹا کچھ نہیں ہوا ہلکا سا بخار ہے اور تم بھی کام سے تھکے ہوئے پہلے تھوڑا آرام کر لو پھر تسلی سے کھانا کھاؤ اس کے بعد ڈاکٹر کے پاس بھی چلے جائیں گے تمہاری امی کو تو ایسے ہی میری فکر لگی رہتی ہے تم جا کر کچھ دیر آرام کرلو۔۔ اسلم نے کہا نہیں نہیں ابو پہلے آپ میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلیں باقی سب کام بعد میں اور ویسے بھی ابھی مجھے بھوک نہیں لگی کیونکہ کچھ دیر پہلے دوستوں کے ساتھ میں نے باہر ہی کھانا کھا لیا تھا اس لیئے اب کوئی بحث نہیں اور آپ چلیں میرے ساتھ یہ کہتے ہوئے اسلم نے رفیق کا ہاتھ پکڑ لیا اور آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا امی ابو کو گرم چادر بھی دے دو باہر بہت سردی اور دھند پھیلی ہوئی ہے کہیں راستے میں ابو کی طبیعت اور خراب نہ ہو جائے یہ سنتے ہی آمنہ نے جلدی سے گرم چادر رفیق کو دے دی اور رفیق اسلم کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلا گیا پھر وہاں سے فارغ ہو کر جب اسلم رفیق کے ساتھ گھر واپس آرہا تھا کہ نہر کے پاس سے گزرتے ہوئے اچانک اسلم کی بائیک کی رفتار خودبخود دھیمی ہونے لگی تو اسلم نے ریس دیتے ہوئے کہا۔۔ ارے اب اسے کیا ہو گیا۔۔ اتنے میں رفیق نے کہا کیا ہوا بیٹا۔۔۔ ؟؟ اسلم نے کہا کچھ نہیں ابو۔۔ یہ بائیک کو کچھ ہو رہا ہے سپیڈ ہی نہیں پکڑ رہی۔۔ رفیق نے کہا بیٹا ریس بڑھا کر دیکھو۔۔۔ اسلم نے کہا ابو ریس تو میں فل کی ہوئی ہے لیکن یہ سپیڈ ہی نہیں پکڑ رہی۔۔
یہ کہتے ہوئے اسلم نے بائیک سائیڈ پر کھڑی کی اور رفیق بائیک سے اتر گیا پھر اسلم بھی بائیک سے اتر کر اس کا جائزہ لینے لگا رفیق نے کہا بیٹا لگتا ہے کہ بائیک کے انجن کا مسلہ ہے کہیں انجن آئل تو ختم نہیں ہو گیا۔۔۔؟؟ اسلم نے کہا ابو میں تقریباً ہر ماہ اس کا آئل اور ٹیوننگ وغیرہ چیک کروتا رہتا ہوں مجھے نہیں لگتا ایسا کوئی مسلہ ہے ابھی اسلم یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک نہر سے پانی کے چھلکنے کی آواز سنائی دی۔ اسے سنتے ہی اسلم نے چونک کر نہر کی طرف دیکھا تو نہر کے پانی میں عجیب سی ہلچل تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے کوئی بھاری سی چیز نہر میں پھینک دی ہو لیکن دھند زیادہ ہونے کی وجہ سے صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا اتنے میں رفیق نے کہا یہ کیسی آواز تھی اسلم نے کہا پتا نہیں ابو ایسا لگ رہا ہے جیسے نہر میں کسی نے چھلانگ لگائی ہے لیکن نظر تو کچھ بھی نہیں آرہا۔۔۔ ابھی اسلم یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک اسلم کی نظر پاس ہی میں بنے نہر کے پل پر پڑی تو اس نے چونکتے ہوئے رفیق سے کہا ابو وہ کیا ہے پل کے اوپر۔۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق نے پل کی طرف دیکھا تو اسے کوئی پرچھائی سی دکھائی دی جو کہ اتنی بڑی تھی کہ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی ٹانگیں لٹکائے پل پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کے پاؤں نہر کے اندر ہوں۔ یہ دیکھتے ہی رفیق نے ڈرے ہوئے انداز میں اسلم سے کہا بیٹا جلدی یہاں سے چلو ورنہ ہم کسی مصیبت میں پڑ سکتے ہیں ۔ اسلم نے کہا مصیبت میں۔۔۔۔۔؟؟؟ لیکن کیوں ابو۔۔۔ ؟؟ رفیق نے گھبراتے ہوئے کہا بیٹا ابھی ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے۔۔ بس جلدی نکلو یہاں سے۔۔۔ رفیق کو گھبرایا ہوا دیکھ کر اسلم نے کہا جی۔۔ جی۔۔ ابو۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اسلم نے جلدی سے بائیک سٹارٹ کی اس پر بیٹھ کر بولا چلیں ابو۔۔۔ بیٹھ جائیں اور جیسے ہی دونوں باپ بیٹے وہاں سے نکلے تو اتنے میں خوفناک سی آواز میں کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی تو اسلم نے چونک کر ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا ابو۔۔ یہ کیسی آواز تھی آپ نے سنی کیا۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا بیٹا اسے چھوڑو تم ذرا بائیک تیز چلانے کی کوشش کرو۔۔ اسلم نے کہا ابو یہی تو میں دیکھ رہا تھا لیکن آپ نے ٹھیک سے چیک ہی نہیں کرنے دیا اب ایسے گھر جانا پڑے گا وہاں جا کر تسلی سے دیکھوں گا کیا مسلہ ہے۔ رفیق نے کہا بیٹا بس دعا کرو ہم سہی سلامت گھر پہنچ جائیں۔ یہ سنتے ہی اسلم نے حیرانی سے کہا ابو مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں۔۔؟؟ ہم لوگ اکثر یہاں سے گزرتے ہیں تو آج ایسا کیا ہو گیا۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا کچھ نہیں بیٹا میں گھر جا کر تمہیں سب کچھ بتا دوں گا۔ابھی رفیق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اسلم نے حیرانی سے کہا۔۔ اوہ۔۔۔ شٹ۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے .. ؟؟
14 اقساط |
یہ کہتے ہوئے اسلم نے بائیک روک دی۔۔ رفیق نے چونکتے ہوئے کہا کیا ہوا بیٹا بائیک کیوں روک دی۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے رفیق بائیک سے اتر گیا۔ پھر اسلم نے بائیک سے اترتے ہوئے حیرت انگیز لہجے میں کہا ابو۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ہم اب بھی اسی جگہ پر ہی ہیں۔۔۔ وہ دیکھیں سامنے وہی پل ہے۔۔؟؟ جبکہ ہم تو یہاں سے بہت آگے نکل گئے تھے۔۔؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے آس پاس کی جگہ کو دیکھا تو کہ واقعی میں یہ دونوں اسی جگہ پر ہی تھے جہاں پر وہ پرچھائی نظر آئی تھی ۔ یہ دیکھتے ہی رفیق نے کہا بیٹا یہ سب اسی شیطانی چیز کی وجہ سے ہو رہا ہے جو کہ ہمیں پل پر بیٹھی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ یہ سنتے ہی اسلم نے حیرت انگیز نظروں سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیا۔۔۔ شیطانی چیز۔۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا ہاں بیٹا لگتا ہے وہ یہی آس پاس ہی ہے یہ کہتے ہوئے رفیق نے اسلم کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو رفیق بری طرح کانپ رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے اسلم نے کہا ابو۔۔ آپ ڈریں نہیں اب مجھے کچھ کچھ سمجھ آرہا کہیں یہ کوئی سایہ یاں پھر جن۔ ون ۔ کا چکر تو نہیں ہے رفیق نے کہا ہاں بیٹا ایسا ہی ہے۔ یہ سنتے ہی اسلم نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا بس مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ اچانک یہاں کیسے ہو سکتا ہے جبکہ پہلے بھی میں اس جگہ سے بہت بار گزرا ہوں تب تو کچھ بھی ایسا ویسا نہیں ہوتا تھا ۔ رفیق نے کہا پتا نہیں بیٹا مجھے خود سمجھ نہیں آرہا یہ منہوس چیز یہاں کیسے آ گئی ہے۔ ابھی رفیق نے اتنا ہی کہا تھا کہ اسلم نے چونکتے ہوئے ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے کہا ابو۔۔ وہ دیکھیں ۔۔ جیسے ہی رفیق نے اس طرف دیکھا تو اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی کیونکہ وہ منہوس عورت کسی مرے ہوئے گدھے کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے نہر کے پل کی طرف کر جا رہی تھی۔ ابھی اسلم اور رفیق یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ اس منہوس عورت نے اپنا منہ اس طرح کھولا کہ اس نے گھدے کا پورا سر اپنے منہ میں ڈال کر اس کا سر دھڑ سے جدا کر کے نہر میں پھینک دیا اور پل کے اوپر بیٹھ کر اس کے دھڑ کو غراتے ہوئے کھانے لگی ۔
یہ منظر دیکھ کر اسلم بھی ڈر سے کانپنے لگا اس نے سرگوشی میں رفیق سے کہا ابو چلیں یہاں سے نکلتے ہیں رفیق نے کانپتی ہوئی آواز سے شرگوشی کہا۔۔۔ پ۔۔ پر۔۔ ب۔۔ بیٹا۔۔ و۔۔ وہ۔۔ وہ۔۔۔ اسلم نے کہا ابو اس کی توجہ ہم پر نہیں آپ جلدی سے بائیک پر بیٹھیں یہ کہتے ہوئے اسلم بائیک پر بیٹھ گیا اور رفیق بھی جلدی سے اس کے پیچھے بیٹھ گیا اور جیسے ہی اسلم نے بائیک سٹارٹ کی تو اسی وقت اس منہوس عورت نے ان کی طرف دیکھا کسی بھوکے جانور کی طرح غراتی ہوئی ان کی طرف دوڑ اسی وقت اسلم نے بائیک چلا دی لیکن بائیک کی رفتار بہت کم تھی تو وہ بھاگتی ہوئی ان کے قریب پہنچنے ہی والی تھی کہ اسلم نے جلدی سے اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی اسی وقت بائیک کی رفتار تیز ہونے لگی اور یہ دیکھتے ہوئے رفیق نے بھی آیت الکرسی پڑھنی شروع کی تو بائیک اپنی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہو گئی جس کی وجہ سے بائیک اس منہوس کی پہنچ سے بہت دور نکل آئی اور وہ پیچھے ہی گم ہو گئی اس دوران اسلم یاں رفیق نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور کچھ ہی دیر میں دونوں گھر پہنچ گئے گھر جاتے ہی دونوں باپ بیٹے بالکل خاموش اور ڈرے ہوئے تھے یہ دیکھتے ہوئے آمنہ نے رفیق سے پوچھا اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ڈاکٹر نے کیا کہا۔۔؟؟ رفیق نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلا دیا اور اپنے ماتھے کو دباتے ہوئے آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا ۔ اس دوران اسلم سائیڈ پر بیٹھا کسی گہری سوچ میں پڑا ہوا تھا یہ دیکھتے ہوئے آمنہ نے اسلم سے کہا بیٹا کھانا لگا دوں۔۔۔؟؟ لیکن اسلم نے آمنہ کی بات کا جواب نہیں دیا بلکہ اسی طرح کہیں کھویا رہا۔۔ تو آمنہ نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلاتے ہوئے کہا کیا ہوا بیٹا۔۔۔؟؟ تو اسلم نے اک دم سے چونکتے ہوئے بکھلاہٹ میں کہا ہا۔۔۔۔ ہاں۔۔ جی۔۔ جی ۔۔ امی۔۔۔ک۔۔کیا ہوا۔۔؟؟ یہ دیکھتے ہوئے آمنہ نے کہا بیٹا کیا ہوا ہے تم اتنا گھبرائے ہوئے کیوں ہو تمہارے ابو بھی خاموش ہیں کوئی مجھے کچھ بتا کیوں نہیں رہا سب کچھ ٹھیک تو ہے نا۔۔۔؟؟ اسلم نے ایک نظر رفیق کی طرف دیکھا اور پھر آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔ جی۔۔ جی امی سب ٹھیک ہے۔ میں ایسے ہی کچھ سوچ رہا تھا آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہے یہ کہتے ہوئے اسلم نظریں نیچی کر کے ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔۔
یہ دیکھتے ہی آمنہ نے کہا لیکن بیٹا مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی بات ہے جسے تم باپ بیٹا مجھ سے چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔۔ کیونکہ میں تم لوگوں کو اچھی طرح جانتی ہوں کہ جب بھی تم لوگ مجھ سے کوئی بات چھپاتے ہو تو ایسے ہی نظریں چراتے ہو۔۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا نہیں امی بات دراصل یہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں وہ سب آپ کو کیسے بتاؤں کیونکہ کلینک سے واپس آتے ہوئے جو ہمارے ساتھ راستے میں ہوا وہ سب بہت ہی عجیب تھا یہ کہتے ہوئے اسلم رفیق کی طرف دیکھنے لگا ۔ تو آمنہ نے حیرت انگیز نظروں سے اسلم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ بیٹا میرا دل ڈوبہ جا رہا ہے جلدی سے بتاؤ آخر بات کیا ہے۔۔ کیا ہوا تم لوگوں کے ساتھ۔۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے آمنہ حیرانی سے کبھی اسلم اور کبھی رفیق کی طرف دیکھنے لگی۔ تو رفیق نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ارے وہی جو میں نے تمہیں پہلے بتایا تھا وہی عورت ہمیں پھر سے نظر آئی تھی۔ یہ سنتے ہی آمنہ نے کہا کیا۔۔۔؟؟ وہ تمہیں دوبارہ نظر آئی۔۔۔ ؟؟ تو رفیق نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس دوران اسلم بھی حیرانی سے رفیق اور آمنہ کی طرف دیکھ رہا تھا تو اسلم نے رفیق سے پوچھا ابو دوبارہ نظر آئی۔۔۔؟؟ اس کا مطلب اس کا سامنا آپ سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔۔؟؟ رفیق نے کہا ہاں بیٹا اور مجھے بخار بھی اسی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ کہنے کے بعد رفیق نے پہلے والے واقعے کے بارے میں اسلم کو بتایا پھر اسلم نے کلینک سے واپس آتے ہوئے واقعے کے بارے میں آمنہ کو بتایا تو یہ سب سنتے ہی آمنہ اپنے ڈوپٹے کو پکڑ کر اپنے منہ پر رکھتے ہوئے حیرت سے اسلم کی طرف دیکھنے لگی اتنے میں رفیق نے کہا دیکھو تم لوگ گھبراؤ نہیں میں کل صبح ہی اس بارے میں ابو سے بات کروں گا ابھی تو وہ سو چکے ہیں۔ اتنے میں سمیرہ بھی کمرے میں آگئی اور سب کو پریشان دیکھ کر کہنے لگی کیا ہوا آپ سب لوگ ایسے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔۔؟؟ کچھ ہوا ہے کیا۔۔؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا بیٹی دیکھو میری بات غور سے سنو تم کل سے میرے ساتھ ہی کالج سے واپس آیا کرو گی کیونکہ ابھی ہم تمہیں اکیلے گھر سے آنے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
یہ سنتے ہی سمیرہ نے کہا لیکن کیوں ابو۔۔۔؟؟ آپ ہی نے تو کہا تھا نا کہ ٹھیک ہے چار دن بس میں جا کر دیکھ لو۔۔ تو پھر اچانک آپ ایسے اپنی بات سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔۔؟؟ یہ سنتے ہی آمنہ نے کہا بیٹی اس طرح ضد مت کرو ہم لوگ تمہارے بھلے کے لیئے ہی کہہ رہے ہیں۔ سمیرہ نے کہا لیکن آپ اچانک ایسا کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ۔۔؟؟ تو اسلم نے کہا سمیرہ دیکھو اس علاقے میں ایک بہت ہی خطرناک شیطانی چیز آچکی ہے جس کی وجہ سے یہ پورا علاقہ خطرے کی لپیٹ میں ہے پھر اسلم نے سمیرہ کو بھی وہ سب کچھ بتایا جو کلینک سے واپسی پر ان کے ساتھ ہوا ۔ تو سمیرہ نے کہا پر بھائی۔۔۔؟؟ تو اسلم نے سمیرہ کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا دیکھو ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں اس لیئے جیسا ابو امی کہہ رہے ہیں ویسا ہی کرو۔ سمیرہ نے کہا لیکن بھائی میں نے کونسا اکیلے گھر واپس آنا ہے میرے ساتھ میری دیگر سہیلیاں بھی تو ہونگی ویسے بھی میں تو دن کے اجالے میں ہی گھر واپس آ جاتی ہوں یہ کہتے ہوئے سمیرہ رونے لگی ۔ یہ دیکھ کر رفیق نے کہا اچھا ٹھیک ہے اب یہ رونا دھونا بند کرو اور میری بات غور سے سنو جب بھی تم گھر واپس آؤ تو راستے میں آیت الکرسی پڑھتے ہوئے آنا ۔ یہ سنتے ہی سمیرہ نے کہا جی جی ابو میں ایسا ہی کروں گی۔ اتنے میں آمنہ نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟؟ رفیق نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے آمنہ کو چپ رہنے کا کہا اور بولا ہماری بیٹی سمجھدار اس لیئے وہ خود جانتی ہے اسے کیا کرنا ہے اور ویسے بھی جب یہ آیت الکرسی پڑھتی ہوئی آئے گی تو مجھے یقین ہے کوئی بھی شیطانی چیز اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ اتنے میں اسلم نے کہا ٹھیک ہے اب مجھے اجازت دیں میں سونے جا رہا ہوں آمنہ نے کہا ارے بیٹا کھانا تو کھا لو۔۔ اسلم نے کہا نہیں امی دراصل اُس منہوس عورت کو دیکھ کر میری ساری بھوک اڑ گئی ہے۔ اس لیئے اب میں صبح ہی ناشتہ کروں گا یہ کہتے ہوئے اسلم اپنے کمرے میں چلا گیا باقی لوگ بھی سونے چلے گئے اگلی صبح رفیق اٹھ کر سیدھا اپنے ابو حنیف کے پاس گیا اور اسے اپنے ساتھ ہوئے واقعات کے بارے ساری بات بتائی جسے سن کر حنیف پریشان ہو کر کچھ سوچنے لگا پھر حنیف نے رفیق کو اپنے ایک دوست بابو کے بارے میں بتایا جو کہ ( دم جھاڑے ) کا کام کرتا تھا تو رفیق نے کہا ٹھیک ہے ابو میں آج کام پر جانے سے پہلے بابو چچا کے پاس جاؤں گا اور انہیں یہ سب کچھ بتاؤں گا۔ یہ کہہ کر رفیق ناشتہ وغیرہ کے کے بابو سے ملنے چلا گیا اتنے میں اسلم بھی سمیرہ کو لے کر اس کے کالج گیا اور اسے اتار کر اپنے کام پر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد رفیق بھی راستے میں پوچھتا پچھاتا بابو کے گھر پہنچ گیا تو بابو نے رفیق سے پوچھا تم کون ہو۔۔ اور مجھے کیسے جانتے ہو ۔۔؟؟
رفیق نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا چچا میرے ابو آپ کے پرانے دوست ہیں جو اچو گل پنڈ میں بابا حنیفہ کے نام سے مشہور ہیں تو بابو نے کہا اچھا۔۔۔ اچھا۔۔ یاد آیا تو تم نیفے کے بیٹے ہو۔۔؟؟ رفیق نے کہا جی جی چچا۔۔ پھر بابو نے اسے اپنے گھر میں بیٹھایا پھر رفیق نے وہ سب کچھ بابو کو تفصیل سے بتایا تو بابو بھی پریشان ہو گیا اور کہنے لگا دیکھو جو کچھ بھی تم نے مجھے بتایا اس سے یہی لگتا ہے کہ وہ واقعی میں بہت ہی خطرناک چیز ہے اس لیئے اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو میں اس کے لیئے اپنی جان خطرے میں نہ ڈالتا لیکن تم میرے بچپن کے دوست کے بیٹے ہو اس لیئے میں تمہارے ساتھ چلو گا اور دیکھو گا کہ میں کیا کر سکتا ہوں تم مجھے وہاں لے چلو جہاں تم نے اسے پہلی بار دیکھا تھا یہ کہتے ہوئے بابو نے اپنا ایک تھیلا پکڑا اور رفیق کے ساتھ ٹرک میں بیٹھ گیا اور رفیق اسے لے کر اس نہر کے پل کے پاس پہنچ گیا جہاں اس نے پہلی بار اس منہوس عورت کو دیکھا تھا پھر بابو نے اس پوری جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے کہا اس کا بسیرا اس جگہ پر نہیں ہے بلکہ اس کا بسیرا کسی اور جگہ پر ہے جہاں صرف وہ شکار کے لیئے ہی آتی ہو گی یہ سنتے ہی رفیق نے کہا چچا تو پھر کیسے پتا چلے گا کہ اس کا بسیرا کس جگہ پر ہے۔۔؟؟ بابو نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا جس جگہ دن میں بھی اندھیرا رہتا ہو ایسی کوئی جگہ تو ضرور ہو گی اس علاقے میں۔۔ یہ سنتے ہی رفیق بھی سوچ میں پڑ گیا اور بولا پتا نہیں چچا شاید کوئی جگہ ہوگی لیکن مجھے اس جگہ کا پتا نہیں ہے ۔ بابو نے کہا اس کا پتا لگانے کہ لیئے ہمیں شام کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ پہلے میں اسے دیکھوں گا اس کے بعد میں اس کے بارے میں بتاؤں گا۔ رفیق نے کہا تو ٹھیک ہے چچا پھر آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں ایک تو آپ میرے ابو سے مل لیجیئے گا دوسرا شام تک آپ ہمارے گھر میں ہی رہیئے گا تاکہ شام میں آپ اس منہوس کو ڈھونڈ کر اسے یہاں سے بھگا دیں۔ یہ سنتے ہی بابو نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا ٹھیک ہے کوشش کرتے ہیں دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے ۔ اس کے بعد رفیق بابو کو اپنے گھر لے گیا جہاں بابو نے بابا حنیف سے ملاقات کی اور دونوں دوست بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے لگے اس دوران رفیق اپنے کام پر چلا گیا پھر جب دوپہر کے دو بجے کا وقت ہوا تو سمیرہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کالج سے گھر آرہی تھی تو اچوگل کراس کرتے ہوئے سمیرہ کی سب سہیلیاں اس سے جدا ہو کر اپنے اپنے گھروں کو جانے لگیں تو ایک وقت پر سمیرہ اکیلی رہ گئی اور اپنے گھر کی طرف جانے لگی تو راستے میں سمیرہ کو کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے پیچھے کوئی اور بھی چل رہا ہے تو سمیرہ چلتے ہوئے بار بار اپنے پیچھے دیکھ رہی تھی اتنے میں اچانک سمیرہ کو اپنے بائیں کان کے پیچھے ہوا سی محسوس تو سمیرہ کو لگا کہ کسی نے بالکل سمیرہ کے کان کے پیچھے تیزی سے سانس لیا ہے تو سمیرہ نے چونک کر اپنے بائیں طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا لیکن سمیرہ بری طرح سے ڈر گئی اور تیزی سے گھر کی طرف جانے لگی اتنے میں پھر سے سمیرہ کو محسوس ہوا کہ کوئی تیزی سے سمیرہ کے پیچھے چل رہا ہے کیونکہ اس کے قدموں کی آواز بھی سمیرہ کے قدموں کے ساتھ ساتھ آرہی تھی
لیکن سمیرہ نے جب بھی مڑ کر پیچھے دیکھا تو اسے کوئی نظر نہیں آرہا تھا یہ دیکھتے ہوئے سمیرہ کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اسی وقت سمیرہ نے جلدی سے آئیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی تو آہستہ آہستہ سے سمیرہ کے ساتھ جو قدموں کی آواز آرہی تھی وہ تھم گئی اور سمیرہ جلدی سے گھر پہنچ گئی لیکن سمیرہ نے اس بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہا کیونکہ سمیرہ کو لگ رہا تھا کہ اگر اس نے اس بارے میں کسی سے بات کی تو وہ لوگ اس کو گھر سے اکیلا باہر آنے جانے سے روک دیں گے یہ سوچتے ہوئے سمیرہ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی اور جو اس کے ساتھ راستے میں ہوا اس کے بارے میں سوچنے لگی۔ اتنے میں آمنہ سمیرہ کے پاس آئی اور اس نے سمیرہ سے کہا کیا ہوا بیٹی سب ٹھیک تو ہے نا راستے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی۔۔؟؟ سمیرہ نے دکھاوے کی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا جی جی امی سب ٹھیک ہے اور راستے میں مجھے کیا ہونا تھا میں تو اپنی سہیلیوں کے ساتھ تھی سچ پوچھیں تو سہیلیوں کے ساتھ واپس آنے میں بہت مزہ آتا ہے ہم سب گپیں لگاتے ہوئے آئے تھے۔ یہ سن کر آمنہ نے کہا اچھا ٹھیک ہے چلو کھانا لگ گیا ہے کھا لو اس سے پہلے اپنے دادا ابو اور ان کے دوست سے بھی سلام دعا کر لو آج تو تم نے کسی سے بھی سلام نہیں لیا ۔ سمیرہ نے کہا جی امی دراصل میں بھول گئی تھی ابھی دادا ابو کے پاس جاتی ہوں یہ کہتے ہوئے سمیرہ اپنے دادا کے پاس پہنچی تو اس نے اپنے دادا اور ان کے دوست سے سلام دعا کی تو بابو نے سمیرہ کے سر پر پیار دیتے ہوئے اچانک اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور حیرانی سے سمیرہ کی طرف دیکھنے لگا ۔ یہ دیکھتے ہوئے حنیف نے بابو سے پوچھا کیا ہوا اچانک تم نے بچی کے سر سے ہاتھ کیوں اٹھا لیا۔۔ بابو نے بنا حنیف کی بات کا جواب دیئے سمیرہ سے پوچھا بیٹی تم کہاں سے آئی ہو۔۔؟؟ سمیرہ نے کہا میں تو اپنے کالج سے آئی ہوں لیکن آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ بابو نے کہا تمہاری سب باتوں کا جواب مل جائے گا لیکن تم مجھے اتنا بتا دو کہ تم کس راستے سے گھر تک آئی ہو۔۔؟؟ سمیرہ نے کہا یہ جو گھر کے ساتھ والی گلی ہے وہاں سے آئی ہوں یہ گلی نہر سے سیدھی ہمارے گھر تک آتی ہے۔ یہ سنتے ہی حنیف نے کہا ارے بابو ذرا مجھے بھی بتا دو یہ تم کیا کر رہے ہو۔۔؟؟ بابو نے حنیف کی طرف دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا پھر اس نے اپنے تھیلے سے ایک پاؤڈر سا نکالا اور سمیرہ اے سمیرہ کے اوپر پھینک دیا۔ بابو کو ایسا کرتے دیکھ کر سمیرہ نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟؟ میرے سارے کپڑوں پر مٹی پھینک دی آپ کہیں پاگل تو نہیں ہیں۔۔؟؟ اتنے میں حنیف نے بھی بابو کو ڈانٹتے ہوئے کہا ارے یہ کیا پاگلپن ہے بابو۔۔ لیکن اس دوران بابو سمیرہ کے گرد گھوم رہا تھا اور سمیرہ کے پیچھے سے گزرتے ہوئے بابو کی نظر سمیرہ کے بائیں کاندھے پر پڑی تو بابو نے حنیف سے کہا حنیف ذرا ادھر آکر دیکھو۔ یہ سنتے ہی حنیف اپنی جگہ سے اٹھا اور بابو کے بتائے ہوئے اشارے کے مطابق سمیرہ کے کاندھے کو دیکھنے لگا تو اچانک حنیف چونک کر پیچھے ہٹتے ہوئے بولا یہ کیا ہے ۔۔۔؟؟ بابو نے کہا تم خود دیکھ سکتے ہو۔۔
ایسا لگتا ہے کہ اس بچی کا سامنا ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس چیز سے ہو چکا ہے یہ اسی منہوس عورت کے ہاتھ کا نشان ہے جو کہ اس بچی کے کاندھے پر ہے ۔ بابو کی یہ بات سنتے ہی سمیرہ حیرانی سے مڑ کر اپنے کاندھے کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اسے ٹھیک سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ اس دوران حنیف بھی حیرانی سے اس ہاتھ کے نشان کو دیکھتے ہوئے بولا یہ ہاتھ کا نشان تو بہت بڑا ہے۔۔۔؟؟ بابو نے کہا ہاں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کوئی چھوٹی موٹی چیز نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ خطرناک چیز ہو سکتی ہے۔ یہ سنتے ہی سمیرہ بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی اور وہاں لگے شیشے کے سامنے جا کر اپنی کمر شیشے کی طرف کر کے اپنے کاندھے پر دیکھا تو سمیرہ کے ہوش اڑ گئے کیونکہ سمیرہ کے کاندھے کے پیچھے ایک بہت بڑا سا ہاتھ کا نشان تھا جو کہ سمیرہ کے کپڑوں پر پڑا ہوا تھا اسی وقت سمیرہ نے اپنے کاندھے پر لگے اس نشان کو ہاتھ سے مٹانے کی کوشش کی لیکن وہ نشان نہیں مٹا یہ دیکھتے ہوئے سمیرہ بھاگ کر واپس بابو کے پاس گئی اور بولی انکل۔۔ میرے کاندھے پر یہ نشان کیسے آ گیا۔۔۔؟؟ بابو نے مسکراتے ہوئے کہا بیٹی یہ تو تم اچھے سے بتا سکتی ہو۔۔؟؟ سمیرہ نے کہا میں کیسے بتا سکتی ہوں مجھے تو کسی نے چھوا بھی نہیں تھا تو پھر یہ نشان کیسے آگیا۔۔؟؟ بابو نے کہا دیکھو بیٹی میں اتنا ضرور جان گیا ہوں کہ تمہارا کچھ پہلے ہی اس سے سامنا ہو چکا ہے اس لیئے تو کہہ رہا ہوں بیٹی کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے بتا دو جو بھی تمہارے ساتھ ہوا۔۔ ؟؟ تاکہ میں کوئی حل نکال سکوں۔ یہ سنتے ہی سمیرہ نے بابو کو وہ سب بتا دیا جو کالج سے واپس آتے ہوئے اس کے ساتھ ہوا۔ تو بابو نے کہا اچھا تو یہ بات تھی یہ کہتے ہوئے بابو کچھ سوچنے لگا۔۔ اتنے میں سمیرہ نے کہا جی انکل ۔ اب آپ جلدی سے اس نشان کو غائب کر دیں اسے اپنے کاندھے پر دیکھ کر مجھے وحشت سی ہو رہی ہے۔ بابو نے کہا گھبراؤ نہیں بیٹی یہ ابھی ختم ہو جاتا ہے یہ کہتے ہوئے بابو نے ایک رومال پر کچھ پڑھا اور اس سے سمیرہ کے کپڑے جھاڑ دیئے تو وہ نشان فوراً مٹ گیا پھر بابو نے اس رومال پر دوبارہ کچھ پڑھا اور اسے دور پھینکا تو اس رومال کو خودبخود آگ لگ گئی اور وہ رومال جل کر خاک ہو گیا۔ یہ منظر حنیف اور سمیرہ بڑی حیرانی سے دیکھ رہے تھے اتنے میں آمنہ بھی ان کے پاس آئی اور رومال کی خاک سے نکلتے ہوئے دھوئے کو دیکھ کر بولی یہ کیا جلایا ہے۔۔ کسی نے۔۔؟؟ اتنے میں حنیف نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کچھ نہیں بیٹی یہ پیر صاحب نے کوئی کچھ جلایا تھا۔۔ یہ سنتے ہی بابو نے ہنستے ہوئے حنیف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے یار میں کوئی پیر ویر نہیں ہوں میں تو بس تیرا لنگوٹیا یار ہوں اور تو مجھے پیر صاحب کہہ رہا ہے۔۔
08 اقساط |
Part - 2
یہ سنتے ہی حنیف نے کہا ارے نہیں تم تو واقعی میں کوئی پیر بن گئے ہو اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم اس شیطانی چیز کو یہاں سے بھگا دو گے کافی علم سیکھ لیا ہے تم نے۔ بابو نے کہا کافی تو نہیں سیکھا لیکن جتنا سیکھا ہے اسے اچھے سے کر لیتا ہوں ۔ آمنہ نے بابو سے کہا پیر صاحب گزشتہ رات میرے شوہر اور بیٹے کو اس منہوس نے بہت تنگ کیا تھا آپ کوئی پکا حل کیجیئے گا اس منہوس کا۔ یہ سنتے ہی بابو نے کہا ضرور کروں گا لیکن اس سے پہلے مجھے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ کیا چیز ہے اور کہاں سے آئی اور ایسے ہی لوگوں کو تنگ کیوں کر رہی ہے اس کے بعد ہی اس کا کوئی حل نکلے گا ۔ یہ سنتے ہی آمنہ نے ہاں میں سر ہلایا پھر کہنے لگی اچھا پیر صاحب آپ ابو سے گپ شپ کریں میں آپ کے لیئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔ بابو نے کہا شکریہ بیٹی۔ اس کے بعد بابو حنیف کے ساتھ دوبارہ گپ شپ کرنے لگا اور سمیرہ آمنہ کے ساتھ کچن میں چلی گئی پھر کچھ دیر گزری تھی کہ رفیق بھی ٹرک لے کر آگیا اور حنیف نے رفیق کو سمیرہ کے کاندھے پر پڑے نشان کے بارے میں بتایا تو رفیق نے کہا ابو میں تو پہلے ہی اس نادان لڑکی کو اکیلے بھیجنے کے حق میں نہیں تھا پھر بھی یہ ضدی میری بات نہیں سنتی ابھی میں پوچھتا ہوں جا کر اسے۔ یہ کہتے ہوئے رفیق سمیرہ کی طرف جانے لگا تو بابو نے کہا رک جاؤ رفیق۔۔ اس میں اس بچی کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ قصور اس منہوس چیز کا ہے جو کہ یہاں وہاں گھوم کر لوگوں کو پریشان کر رہی ہے۔ یہ سن کر رفیق رک گیا اور بابو سے کہنے لگا چچا کچھ بھی کر کے بس اس منہوس عورت سے ہماری جان چھڑا دیں کیونکہ کچھ ہی دنوں میں میرے بیٹے کی شادی ہی اور ایسے میں اگر شادی میں شامل ہونے والے لوگوں میں کسی کے ساتھ بھی ایسا ویسا کچھ ہو گیا تو لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔
یہ سنتے ہی بابو نے رفیق سے کہا بیٹا تم اطمینان رکھو بس کچھ ہی دیر میں شام ہونے ہی والی ہے پھر میں کچھ کرتا ہوں اس بارے میں۔ اتنے میں رفیق نے حنیف سے کہا ابو چچا نے کھانا وغیرہ کھایا ہے ۔۔؟؟ یہ سنتے ہی بابو نے کہا ہاں بیٹا ہم نے کھانا بھی کھا لیا اور چائے بھی پی لی ہے تو رفیق نے بابو سے کہا ٹھیک ہے چچا اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی کھانا کھا لوں۔۔۔؟؟ بابو نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں تم کھانا کھاؤ اور آرام کرو تب تک میں تمہارے ابو سے گپ شپ کر رہا ہوں۔ یہ سن کر رفیق کھانا کھانے چلا گیا اور بابو پھر سے حنیف کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہو گیا پھر کچھ دیر بعد شام ہو گئی تو رفیق بابو کے پاس آیا تو بابو نے کہا چلو رفیق چل کر ذرا اس علاقے کا معائنہ کرتے ہیں رفیق نے کہا ٹھیک ہے چچا یہ کہتے ہوئے رفیق بابو کے ساتھ گھر سے باہر نکل آیا اور علاقے میں چکر لگانے لگا اتنے میں بابو نے کہا رفیق ہمیں ویرانے کی طرف جانا چاہیئے تو رفیق نے کہا چچا دھند بہت زیادہ ہو رہی ہے اگر آپ کہیں تو میں موبائل کی لائٹ جلا لوں۔۔ یہ سنتے ہی بابو نے کہا ہرگز نہیں ہمیں ایسے اندھیرے میں ہی گھومنا ہے تاکہ وہ ہمارے سامنے آسکے یہ کہتے ہوئے بابو رفیق کے ساتھ کھیتوں کے راستے پر چل رہا تھا کہ اچانک بابو نے رفیق سے کہا رک جاؤ بیٹا۔ یہ سنتے ہی رفیق نے پوچھا کیا ہوا چچا۔۔؟؟ تو بابو نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ وہ دیکھو کیا یہ وہی ہے۔۔؟؟ یہ سن کر جیسے ہی رفیق نے اس طرف دیکھا تو وہ منہوس عورت کھیت میں لیٹی ہوئی دکھائی دی جو کہ ہاتھ میں بکرے کا دھڑ پکڑ کر اسے لیٹے ہو ہی کھا رہی تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے اچانک رفیق کے پورے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی اسی وقت رفیق کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے اور وہ تھر تھر کانپنے لگا جس کی وجہ سے رفیق کے منہ سے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی اتنے میں بابو نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا میں جانتا ہوں تم اس وقت بہت ڈرے ہوئے ہو اور سچ کہوں تو میں بھی پوری طرح سے ڈرا ہوا ہوں کیونکہ آج سے پہلے میں نے کبھی اتنی بڑی اور خطرناک چیز نہیں دیکھی اس کو دیکھتے ہی اندازا ہو رہا ہے ضرور یہ آدمخور بھی ہو سکتی ہے اس لیئے اگر تم چاہو تو تم گھر واپس چلے جاؤ۔۔ کیونکہ اسے دیکھنے کے بعد مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ میں اپنے ساتھ تمہاری جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ اس لیئے میرا خیال ہے تمہیں چپ چاپ گھر واپس چلے جانا چاہیئے۔ باقی میں اس کا تعاقب کر کے دیکھتا ہوں کہ اس کا بسیرا کس جگہ پر ہے ۔ اس کے بعد ہی میں اس کا کچھ کر سکتا ہوں۔ لیکن ایک بات تو صاف ہے یہ کوئی عام ہوائی چیز نہیں ہے بلکہ یہ میرے اندازے سے کہیں زیادہ الگ اور خطرناک ہے اس کے پیچھے جانا مطلب موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ بہرحال مجھے یہ کرنا ہی ہو گا اس لیئے اب تم جاؤ۔۔۔ بابو کی یہ بات سنتے ہی رفیق نے کہا نہیں نہیں چچا میں آپ کو ایسے اکیلے چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔۔
میں ڈرا ہوا ضرور ہوں لیکن آپ کے ساتھ ہوں ابھی رفیق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ وہ منہوس عورت اٹھی اور عجیب سی آواز میں غراتے ہوئے نہر والے راستے کی طرف جانے لگی ۔ یہ دیکھتے ہی بابو اور رفیق پاس ہی میں پانی کے ٹیوب ویل کے پیچھے چھپ گئے اتنے میں بابو نے رفیق سے سرگوشی میں کہا وہ ادھر سے ہی گزرنے والی ہے جیسے ہی وہ اس ٹیوب ویل کے پاس آئے گی تو تم کچھ دیر کے لیئے سانس روک لینا۔۔ جب تک وہ ہم سے سات قدم دور نا چلی جائے سانس مت چھوڑنا۔ ورنہ وہ ہمیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دے گی ۔ یہ سنتے ہی رفیق نے اپنی کانپتی ہوئی گردن کو ہاں میں ہلایا۔ اور دونوں چھپ کر اسے اپنی طرف آتا ہوا دیکھنے لگے اور جیسے ہی وہ منہوس غراتی ہوئی ٹیوب ویل کے پاس آئی تو اسی وقت رفیق اور بابو نے اپنی سانس روک لی۔ اس دوران وہ عورت اپنی بھیانک سی شکل کو ٹیوب ویل کے پاس لائی اور کچھ سوگھنے کی کوشش کرنے لگی جبکہ اس دوران بابو اور رفیق کی حالت بری طرح خراب ہو رہی تھی کہ اتنے میں اچانک دور چونک سے کوئی بائیک نہر کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دی تو اس منہوس عورت نے بھی بائیک کی طرف دیکھا اور جلدی سے اپنے بڑے بڑے الٹے پیروں سے بھاگتی ہوئی اس بائیک کے پیچھے چلی گئی یہ دیکھ کر بابو بھی بری طرح سے کانپ رہا تھا اور اس منہوس کے جاتے ہی رفیق نے تیزی سے سانس چھوڑتے ہوئے کہا چچا اس کی شکل تو بہت ہی ڈراؤنی تھی مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی بڑا سا خونخوار جانور سونگھتے ہوئے ہمیں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔ سچ میں اس کا قد بہت بڑا ہے اور چچا اس کے پاؤں دیکھے آپ نے اس کے پیروں کی ایڑیاں الٹی طرف تھیں اور پنجے پیچھے کی طرف تھے ۔ یہ سنتے ہی بابو نے کہا ہاں تم سہی کہہ رہے ہو ۔۔ پر پتا نہیں کیا ہوا ہے میری طبیعت اچانک خراب ہو رہی ہے۔ رفیق نے کہا تو چچا چلیں پھر واپس گھر چلتے ہیں۔ بابو نے کہا نہیں میں ابھی گھر نہیں جا سکتا مجھے لگتا ہے وہ اس موٹرسائیکل والے کو اپنا شکار بنانے گئی ہے اس لیئے مجھے اس کی مدد کرنی ہو گئی یہ کہتے ہوئے بابو نہر کی طرف بھاگنے لگا تو رفیق نے کہا چچا رک جائیں آپ کی طبیعت پہلے ہی خراب ہو رہی ہے۔ بابو نے رکتے ہوئے کہا بیٹا تم گھر جاؤ میری فکر نہیں کرو میں ابھی جا کر واپس آتا ہوں کہیں وہ منہوس کسی کو نقصان نہ پہنچا دے۔ یہ کہتے ہوئے بابو نہر کی طرف بڑھنے لگا تو رفیق نے کہا ٹھیک ہے چچا آپ آہستہ آہستہ چلو تب تک میں ٹرک لے آتا ہوں جلدی پہنچ جائیں گے ۔
یہ کہتے ہوئے رفیق گھر کی طرف بھاگا اور وہاں سے ٹرک لے کر بابو کے پاس آیا اور بابو سے کہا آجاؤ چچا یہ سنتے ہی بابو جلدی سے ٹرک میں بیٹھ گیا اور دونوں نہر کی طرف چلے گئے نہر کے پاس جاتے ہی دھند کی شدت میں مذید اضافہ ہو گیا تو رفیق نے ٹرک کی رفتار کم کر لی اس دوران بابو اس بائیک والے کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک بابو کی نظر نہر کے کنارے پر پڑی تو اچانک بابو کو نہر کے کنارے پر چمتکی ہوئی آنکھیں دکھائی دیں جو کہ ٹرک کی طرف دیکھ رہیں تھیں اسی وقت بابو نے رفیق سے کہا بیٹا اسے ہمارے آنے کا پتا چل گیا ہے ابھی بابو یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک ٹرک کی رفتار بالکل کم ہو گئی اسی دوران رفیق ٹرک کی ریس پر بار بار پاؤں مارتے ہوئے بولا۔۔ ارے اب اس کو کیا ہو گیا ہے۔۔ یہ دیکھتے ہوئے بابو نے رفیق سے پوچھا کیا ہوا بیٹا کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے اس میں۔۔؟؟ رفیق نے کہا پتا نہیں چچا ٹرک رفتار ہی نہیں پکڑ رہا۔ ابھی رفیق یہ کہہ رہا تھا کہ اچانک ٹرک کے پیچھے والے حصے پر دھمک کی آواز سنائی دی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے ٹرک میں کوئی بھاری بھرکم چیز پھینک دی ہو۔ اسی وقت رفیق نے حیرت سے بابو کی طرف دیکھا تو بابو نے اپنے منہ پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا کہا اس دوران ٹرک کے پیچھے سے کسی کے بھاری قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی اسی وقت بابو نے کہا وہ ٹرک پر آگئی ہے یہ سنتے ہی رفیق ڈر سے کانپتے ہوئے بولا اب ہم کیا کریں گے۔۔؟؟
بابو نے کہا اب تم سب مجھ پر چھوڑ دو یہ کہتے ہوئے بابو نے اپنے تھیلے سے ایک پانی کی بوتل نکالی اور اسے کھول کر اس میں موجود پانی پر کچھ پڑھنے لگا پھر بابو نے اس پانی پر پھونک ماری اور بوتل بند کر کے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے بولا دیکھو بیٹا میں اس منہوس کا سامنا کرنے جا رہا ہوں لیکن میں تم سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں چاہے کچھ بھی ہو جائے تم میرے قریب مت آنا بلکہ جیسے ہی تمہیں موقع ملے یہاں سے نکل جانا یہ کہتے ہوئے بابو پوری طرح سے ڈرا ہوا تھا اس کے چہرے پر خوف کی لہر صاف دکھائی دے رہی تھی یہ دیکھتے ہوئے رفیق نے کہا چچا اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو ۔۔۔؟؟ بابو نے کہا بیٹا اگر مجھے کچھ ہو بھی جائے تو کوئی پرواہ نہیں لیکن میں اپنے سامنے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچنے دوں گا اب ٹرک روک دو کیونکہ جب تک وہ ٹرک پر موجود ہے ہم اس کے چنگل سے نہیں نکل سکتے ۔اس لیئے میں اسے ٹرک سے نیچے اتارنے کی کوشش کرتا ہوں اور جیسے ہی وہ میرے پیچھے جانے لگے تو اسی وقت تم ٹرک چلا کر یہاں سے نکل جانا اور یاد رہے آیت الکرسی پڑھتے رہنا ۔یہ سن کر رفیق نے ہاں میں سر ہلایا اور ٹرک روک دیا پھر بابو نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے دھیرے دھیرے ٹرک کا دروازہ کھولا اور جیسے ہی بابو ٹرک سے نیچے اترا تو اسی وقت ایک زوردار خوفناک سی غراہٹ کی آواز سنائی دی تو بابو جلدی سے ٹرک کے پیچھے والی سائیڈ کی طرف بھاگا کہ اتنے میں اچانک پھر سے دھمک کی آواز آئی اسے سنتے ہی رفیق نے فوراً ٹرک کے دروازے کی طرف سے بابو کو دیکھنا چاہا تو وہ منہوس عورت بالکل ٹرک کے ساتھ کھڑی بابو کی طرف دیکھ رہی تھی اس دوران اس کے پاؤں کے بڑے بڑے پنجے رفیق کی طرف تھے یہ منظر دیکھتے ہی رفیق کی حالت بری طرح خراب ہونے لگی تو رفیق نے جلدی سے آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی اور اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے ٹرک سٹارٹ کیا اور فوراً وہاں سے گھر کی طرف جانے لگا تو اسی وقت اس منہوس عورت نے ٹرک کو پیچھے سے پکڑ لیا اور دوبارہ اس پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگی تو اسی وقت بابو نے آیت الکرسی پڑھتے ہوئے بوتل کا پانی اس منہوس پر پھینکا تو اس منہوس عورت کی چیخیں نکل گئیں اسی وقت اس منہوس نے ٹرک کو چھوڑ دیا اور غراتی ہوئی بابو کی طرف بڑھی تو بابو نے بوتل میں باقی بچا پانی بھی اس پر پھینک دیا تو وہ بابو سے دور ہٹنے لگی بابو مسلسل آیت الکرسی پڑھتا ہوا اس کی طرف بڑھنے لگا تو وہ غراتے ہوئے بابو کی طرف دیکھ کر اپنا خوفناک منہ کھولنے لگی جیسے جیسے بابو اس کی طرف بڑھ رہا تھا ویسے ہی وہ بھی بابو کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ سے پیچھے ہٹ رہی تھی کہ اسی دوران اس منہوس کے پیچھے سے ہلکی سی لائٹ نظر آئی۔ ابھی بابو اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک موٹرسائیکل والا کہیں سے آتے ہوئے دھند کی وجہ سے اس منہوس عورت سے ٹکرا کر گر گیا اور جیسے اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس منہوس عورت نے اسے گردن سے پکڑا لیا۔
یہ دیکھتے ہوئے بابو اس بائیک والے کو بچانے کے لیئے آگے بڑھا ہی تھا کہ وہ منہوس عورت اس بائیک والے کو گھسیٹتے ہوئے نہر کی طرف بھاگی ابھی بابو اس سے کچھ ہی قدم دور تھا کہ اس منہوس عورت نے بائیک والے کو نہر پھینکا اور خود بھی اس کے پیچھے نہر میں کود پڑی اسی دوران بابو بھی بھاگ کر نہر کے کنارے پر پہنچا تو وہاں کوئی نہیں تھا ابھی بابو نہر کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس منہوس نے نہر سے اپنا سر باہر نکالا تو اس کے منہ میں اس بائیک والے کا سر تھا اور وہ اپنی چمکتی ہوئی خوفناک آنکھوں سے بابو کو گھور رہی تھی یہ دیکھتے ہی بابو جلدی سے وہاں سے دور ہٹ گیا اور رفیق کے گھر کی طرف بھاگنے لگا ابھی بابو کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایک اور بائیک والا بابو کے پاس سے گزرا اور کچھ قدم آگے جا کر رک گیا اور مڑ کر بابو کی طرف دیکھنے لگا ۔ بابو بھاگ کر اس بائیک والے کے پاس گیا تو اس بائیک والے نے بابو سے پوچھا کیا ہوا بڑے میاں اس وقت کہاں بھاگ رہے ہو ۔۔؟؟ بابو نے ہانپتے ہوئے اپنے پیچھے دیکھا پھر لمبی لمبی سانس لیتے ہوئے اس بائیک والے سے کہا ب۔۔۔بیٹا۔۔م۔۔مجھے تھوڑا ہی دور جانا ہے م۔۔۔میں بب۔۔بہت مشکل میں ہوں مجھے کیا تھوڑا آگے تک لے چلو گے۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے بابو کانپتے ہوئے بار بار نہر والے راستے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔
16 اقساط |
۔تو یہ دیکھتے ہوئے بائیک والے نے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے بیٹھ جاو یہ سنتے ہی بابو جلدی سے بائیک پر بیٹھ گیا اور بائیک والا بابو کو لے کر چل پڑا راستے میں اس بائیک والے نے بابو سے پوچھا ویسے بڑے میاں آپ کہاں سے آئے ہیں میرا مطلب ہے میں نے آپ کو یہاں پہلے کبھی نہیں دیکھا اور آپ نے جانا کہاں ہے ۔۔؟؟ بابو نے کہا بیٹا دراصل میں یہاں اپنے بچپن کے دوست ملنے آیا تھا پھر اسی کے ایک ضروری کام کے لیئے میں گھر سے نکلا اور اب وہ کام نمٹا کر واپس دوست کے گھر جا رہا تھا ۔ یہ سنتے ہی بائیک والے نے پوچھا ویسے آپ کے بچپن کے دوست کون ہیں کہاں رہتے ہیں۔۔ ؟؟ میرا مطلب ہے میں بھی اسی علاقے کا رہنے والا ہوں اس لیئے یہاں جتنے بھی گھر ہیں تقریباً میں سبھی کو ہی جانتا ہوں آپ کے دوست کا نام کیا ہے؟؟۔ بابو نے کہا میرے دوست کا نام حنیف عرف بابا حنیفہ ہے ۔یہ سنتے ہی بائیک والے نے مڑ کر بابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا۔۔۔۔بابا حنیفہ۔۔۔؟؟ بابو نے کہا ہاں کیوں تم جانتے ہو انہیں ۔۔۔؟؟ بائیک والے نے ہنستے ہوئے کہا جی جی کیونکہ وہ میرے دادا جی ہیں ۔ یہ سنتے ہی بابو نے کہا ارے ماشاء اللّه۔۔ اس کا مطلب پھر تو تم میرے پوتے ہی ہوئے اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو تمہارا ہی نام اسلم ہے ۔؟؟ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا جی جی۔۔ میں ہی اسلم ہوں لیکن آپ کو کیسے پتا چلا۔۔؟؟ بابو نے کہا بیٹا رفیق نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تھا کیونکہ تم نے بھی اس شیطانی چیز کو دیکھا تھا۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا جی جی وہ بہت ہی خطرناک چیز تھی لیکن اب وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ اب میں آیت الکرسی پڑھتا ہوا گھر واپس آرہا تھا یہ سنتے ہی بابو نے کہا بیٹا تم بالکل ٹھیک کہتے ہو جب تک اللّه کا پاک کلام زبان پر ہو تب تک کوئی بھی شیطانی چیز تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی بشرطِ اللّه کا کلام بالکل سہی الفاظ میں پڑھا جائے۔
اسلم نے کہا جی سہی کہا آپ نے۔ اتنے میں اسلم بابو کو لے کر گھر پہنچ گیا۔ پھر بابو نے رفیق کو وہ سب بتایا جو اس کے جانے کے بعد ہوا تو رفیق کے ساتھ اسلم اور حنیف بھی وہ سب سن کر حیران رہ گئے اتنے میں رفیق نے بابو سے کہا چچا اب ہم کیا کریں گے۔۔؟؟ بابو نے کہا بیٹا جو پانی میں نے اس منہوس پر پھینکا تھا اگر وہ کوئی چھوٹی موٹی چیز ہوتی تو اسی وقت جل کر خاک ہو جاتی لیکن یہ شیطانی چیز بہت ہی زیادہ طاقتور ہے اس لیئے مجھے آج رات مجھے تمہارے اس صحن میں بیٹھ کر ایک عمل کرنا ہے جس کی وجہ سے ہم اس منہوس پر قابو پا سکتے ہیں یہ عمل میرے استاد مرحوم نے مجھے سکھایا تھا لیکن یہ عمل بہت ہی مشکل اور خطرناک ہو سکتا ہے اسی لیئے میری آپ سب سے گزارش ہے کہ عمل کے دوران مجھے آپ میں سے کوئی بھی آواز نہ دے اور نا ہی کوئی میرے قریب آئے ورنہ میرا عمل وہیں ختم ہو جائے گا اور ہماری ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔ یہ سنتے ہی حنیف نے رفیق سے کہا بیٹا بابو جیسا چاہتا ہے ویسا ہی ہونا چاہیئے اور گھر کے باقی لوگوں کو بھی اس بارے میں بتا دو تاکہ بابو کے عمل میں کسی قسم کا خلل نا پڑے۔ رفیق نے کہا ٹھیک ہے ابو۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق کمرے میں چلا گیا اور آمنہ کو بھی بابو کے عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ سمیرہ کو بھی سمجھا دینا۔ یہ سب سن کر آمنہ نے کہا جی ٹھیک ہے پھر کچھ دیر میں سب لوگوں نے رات کا کھانا وغیرہ کھایا۔ اور بابو نے گھر سے صحن میں جا کر رفیق سے کہا بیٹا کیا ٹائم ہو رہا ہے۔۔؟؟ رفیق نے جلدی سے موبائل میں دیکھ کر کہا چچا نو بج کر تیراں منٹ ہو چکے ہیں یہ سنتے ہی بابو نے رفیق سے کہا جلدی سے کوئی چٹائی یاں چادر لا کر صحن کے درمیان میں بچھا دو اور سب لوگوں کو لے کر اندر چلے جاؤ اور کمرے کو اندر سے بند کر لینا لیکن جب تک میں نہ کہوں کوئی بھی کمرے سے باہر نہ آئے ۔ کیونکہ اس عمل میں ایک بات ہے جو اگر میں نے تمہیں بتا دی تو ہو سکتا ہے اسے سنتے ہی تم سب لوگ ڈر جاؤ اور اسی ڈر کی وجہ سے تم میں سے کوئی کسی قسم کی غلطی کر بیٹھے بس اتنا سمجھ لو کہ ایک ہلکی سی غلطی سے یہ میری زندگی کا آخری عمل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عمل کے دوران آپ کو طرح طرح کی آوازیں آسکتی ہیں یاں کوئی دروازے پر دستک دے سکتا ہے
یہاں تک کہ میں بھی آپ لوگوں کو آواز دوں تو آپ نے اس پر کان نہیں دھرنے ۔ پھر صحن میں چاہے جتنی بھی چیخوپکار کیوں نا ہو جائے لیکن کوئی باہر مت آئے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ اب جلدی کرو وقت نکلا جا رہا ہے یہ سن کر رفیق نے جلدی سے ایک چادر لا کر صحن میں بچھا دی اور ایک کمبل بھی چٹائی پر رکھتے ہوئے کہا چچا اس کھلے آسمان کے نیچے آپ ٹھنڈ سے بیمار بھی ہو سکتے ہیں اس لیئے عمل کرنے سے پہلے آپ یہ کمبل بھی اُڑھ لیجیئے گا۔ یہ سنتے ہی بابو نے کہا تمہارا بہت بہت شکریہ بیٹا اب تم سب لوگ کمرے میں چلے جاؤ۔۔ رفیق نے ہاں میں سر ہلایا اور سب کے ساتھ کمرے میں چلا گیا اور کمرے کو اندر سے لاک کر لیا۔۔ پھر بابو نے اپنے تھیلے سے ایک پاؤڈر سا لے کر چادر کے گرد ایک دائرہ سا لگا لیا پھر چادر پر بیٹھ کر اپنے تھیلے میں سے کچھ عجیب سی چیزیں نکالی جس میں اگر بتیاں ایک لال کپڑا ایک مٹی سے بنا مرتبان اور جانوروں کی مختلف ہڈیاں اور کچھ طرح طرح کے موتی سے بنی ہوئی تسبیح بھی نکالی پھر اس تسبیح کو پکڑ کر آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھنے لگا اس رات دھند پوری طرح سے پورے صحن میں اتر چکی تھی اس دوران بابو مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں خوفناک سی غراہٹ کی آواز آئی اسی وقت بابو نے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تو وہ منہوس عورت گھر کے باہری دیوار پر لیٹی ہوئی اپنی خوفناک آنکھیں پھاڑے بابو کو گھور رہی تھی اس دوران اس کے بال گھر کے صحن کی زمین پر بکھرے ہوئے تھے ابھی بابو اس کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک وہ دیوار سے نیچے اتر کر صحن میں داخل ہو گئی اور آہستہ آہستہ سے اپنے الٹے پیروں سے چلتی ہوئی بابو کی طرف غراتے ہوئے بڑھنے لگی لیکن اس دوران بابو مسلسل پڑھائی کرتا ہوا اس کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے ہی وہ بابو کے پاس آئی تو اس کا پاؤں اس دائرے پر آگیا اور اس کا پاؤں بری طرح سے جلنے لگا اور وہ غراتے ہوئے بابو سے دور ہٹ گئی اور اپنا گندا سا منہ کھول کر عجیب سی آواز میں غراتے ہوئے بابو کو ڈرانے کی کوشش کرنے لگی اس دوران اس کے خونخوار دانتوں سے خون ٹپک رہا تھا کہ اتنے میں باہری دروازے پر دستک ہوئی اور کسی عورت نے آمنہ کو آواز دیتے ہوئے کہا ارے دروازہ کھولو ۔
اس کی آواز سنتے ہی یہ منہوس عورت فوراً دیوار پر چڑھی اور دروازے کے باہر کھڑی عورت اس عورت کو دیکھ کر غرانے لگی اسی وقت باہر سے چیخوں کی آواز سنائی دی تو بابو جلدی سے اٹھ کر اس عورت کو بچانے کے لیئے باہر گیا تو باہر آمنہ کی ہمسائی آنٹی نصرت تھی جو کہ اس منہوس عورت کو دیکھتے ہوئے چیخ رہی تھی کہ آنٹی نصرت کی نظر بابو پر پڑی تو وہ جلدی سے دوڑ کر بابو سے لپٹ گئی اور کہنے لگی بچاؤ مجھے بچاؤ۔۔ اسی دوران بابو نے آنٹی کو دھکا دے کر خود سے دور کرتے ہوئے کہا مجھے سے دور ہٹو غیر محرم۔۔لیکن آنٹی بار بار بابو ڈرتے ہوئے بابو سے لپٹ رہی تھی تو بابو نے آنٹی نصرت کو خود سے دور کرتے ہوئے گھر کے اندر دھکیل دیا باہر سے دروازہ بند کرنے لگا لیکن اس دوران وہ منہوس بابو کے بہت قریب پہنچ چکی تھی اس بکھلاہٹ میں بابو کے منہ کلام پڑھتے ہوئے غلطیاں ہونے لگیں تو اتنے میں اس منہوس نے بابو کے سینے میں اپنا ہاتھ مارا جو کہ بابو کے سینے میں دھنس گیا اسی وقت بابو کے منہ سے خون کی الٹی نکلی پھر اس منہوس نے اپنا ہاتھ بابو کے سینے سے نکالتے ہوئے بابو کا دل بھی اس کے سینے سے نکال لیا اور اسے چباتے ہوئے بابو کے مردہ جسم کو اپنے ساتھ لے کر کہیں چلی گئی ۔
پھر کافی دیر گزر جانے کے بعد جب رفیق اسلم کے ساتھ کمرے سے ڈرتے ہوئے باہر صحن میں آیا تو بابو کی تمام چیزیں اسی جگہ ویسے ہی پڑی ہوئیں تھیں لیکن بابو وہاں موجود نہیں تھا اتنے میں اسلم کی نظر آنٹی نصرت کی طرف پڑی جو کہ صحن میں بیہوش پڑی تھی تو اس نے آنٹی نصرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رفیق سے کہا ابو وہ دیکھیں۔۔۔وہ تو آنٹی نصرت ہیں۔۔ یہ کہتے ہوئے اسلم اور رفیق جلدی سے نصرت کے پاس گئے تو رفیق نے جلدی سے آمنہ کو آواز دے کر بلایا اور سب لوگ آنٹی نصرت کو اٹھا کر کمرے میں لے گئے اور نصرت کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے اس دوران رفیق نے حیرت سے اسلم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بابو چچا کہاں چلے گئے۔۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے رفیق جلدی سے واپس صحن میں آیا اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بابو کو آواز دینے لگا لیکن بابو کہیں نظر نہیں آیا اتنے میں رفیق کی نظر باہر گیٹ پر پڑی تو گیٹ تھوڑا سا کھلا ہوا لگ رہا تھا یہ دیکھتے ہوئے رفیق جلدی سے گیٹ کے پاس پہنچا تو اچانک اس کی نظر گیٹ سے باہر زمین پر پڑی تو اسے زمین پر پانی جیسا کچھ گرا ہوا نظر آیا اسی وقت رفیق موبائل کی ٹارچ آن کر کے جیسے ہی اس پانی کی طرف دیکھا تو وہاں پانی نہیں بلکہ بہت سارا خون زمین پر گرا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی یہاں کسی جانور کو ذبح کر کے گیا ہے یہ دیکھتے ہی رفیق گیٹ سے اندر آیا اور اس نے گیٹ کو لاک کرتے ہی واپس اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی اور کمرے میں جاتے ہی گھبراہٹ میں باہر گیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا وہاں خون۔۔ ہے۔۔ و۔۔ وہاں۔۔ خ۔۔ خ۔۔ خون ہے ۔ یہ سنتے ہی سب لوگ رفیق کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔ اتنے میں اسلم نے کہا ابو۔۔۔ یہ آپ کیا۔۔ کہہ رہے ہیں۔۔؟؟
رفیق نے کہا بیٹا مجھے لگتا ہے بابو چچا کو کسی نے نقصان پہنچا دیا ہے۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا ابو پھر تو ہمیں باہر جا کر انہیں ڈھونڈنا چایئے۔۔رفیق نے کہا بیٹا بات تو سہی ہے لیکن اس کام میں بہت خطرہ ہے ۔ ابھی رفیق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ آنٹی نصرت کو ہوش آگیا اور وہ گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی پھر اچانک اٹھ کر بولی وہ خوفناک عورت کہا گئی۔۔ یہ کہتے ہوئے نصرت بری طرح ڈر رہی تھی نصرت کی یہ بات سن کر سبھی لوگ اس کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے پھر آمنہ نے کہا آنٹی کونسی ڈراؤنی عورت۔۔؟؟ نصرت نے کہا وہی عورت جو مجھے تمہارے دروازے پر ملی تھی اس کا منہ کسی خونخوار جانور کی طرح لگ رہا تھا یہ وہی عورت تھی جو کچھ دن پہلے مجھے فصلوں میں نظر آئی تھی۔ یہ سنتے ہی آمنہ نے ڈرتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اور نصرت کی طرف دیکھنے لگی اتنے میں رفیق نے کہا آنٹی کیا وہ منہوس عورت ہمارے دروازے پر تھی۔۔۔؟؟ نصرت نے اپنی کانپتی ہوئی گردن کو ہاں میں ہلایا اور پھر نصرت نے وہ سب کچھ بتایا جو اس کے ساتھ دروازے پر ہوا تھا ۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا تو آنٹی کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ جس نے آپ کو بچایا تھا وہ َانسان کہاں چلا گیا۔۔۔؟؟ یہ سن کر نصرت نے کہا نہیں میں نہیں جانتی کہ وہ شخص کہاں گیا کیونکہ جب اس آدمی نے میری جان بچانے کے لیئے مجھے تمہارے دروازے سے اندر دھکا دیا تھا تو مجھے اتنے یاد ہے کہ میں زمین پر گر گئی تھی لیکن اس کے بعد کہا ہوا تھا مجھے کچھ پتا نہیں۔ لیکن اگر آج وہ شخص مجھے بچانے کے لیئے وہاں نہیں آتا تو شاید وہ خوفناک عورت مجھے مار دیتی۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا آنٹی دراصل وہ میرے ابو کے دوست تھے۔ یہ کہنے کے بعد رفیق نے آنٹی نصرت کو بابو کے بارے میں سب کچھ بتایا تو آنٹی نصرت نے کہا رفیق مجھے لگتا ہے کہ تمہیں ان کو جا کر تلاش کرنا چاہیئے کہیں وہ کسی مصیبت میں نہ ہوں۔
27 اقساط |
Part-3
یہ سنتے ہی رفیق نے ہاں میں سر ہلایا اور اسلم کے ساتھ بابو کو تلاش کرنے کے لیئے گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ اسلم نے زمین پر گرا ہوا خون دیکھ کر کہا ابو کیا آپ کو لگتا ہے یہ بابو دادا کا ہی خون ہے۔۔؟؟ رفیق نے کہا پتا نہیں لیکن جس طرح یہ ہمارے دروازے پر گرا ہے اور جیسے کہ آنٹی نصرت نے بتایا کہ بابو چچا نے آنٹی کو بچاتے ہوئے گھر میں دھکا دیا اور خود اس منہوس کے سامنے چلے گئے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ ضرور بابو چچا کا ہی خون ہوگا کیونکہ وہ منہوس بہت خطرناک اور غصیلی ہے بس دعا کرو کہ بابو چچا سلامت ہی ہوں۔ یہ سن کر اسلم نے جلدی سے بائیک سٹارٹ کی اور رفیق سے کہا چلیں ابو پھر انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سن کر رفیق نے ہاں میں سر ہلایا اور بائیک پر بیٹھ گیا پھر اسلم نے آیت الکرسی پڑھتے ہوئے بائیک چلانی شروع کر دی اور آس پاس دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے لگا کافی دیر ادھر اُدھر تلاش کرنے کے بعد اسلم نے رفیق سے کہا ابو۔۔۔ ہر جگہ تو ہم نے دیکھ لیا اب آپ بتائیں کس طرف چلیں۔۔؟؟
یہ سن کر رفیق کچھ سوچتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگا پھر اچانک رفیق نے کہا بیٹا ذرا واپس گھر کی طرف چلو۔۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا کیا ہوا ابو۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا بیٹا ہم گھر سے کافی دور نکل آئے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم نے ایک چیز پر غور نہیں کیا۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا کس چیز پر ابو۔۔۔ رفیق نے کہا جو خون ہمارے دروازے پر تھا اگر ہم اسے غور سے دیکھنے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے ہمیں کچھ اور نشانات مل جائیں ۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا لیکن ابو میں نے دیکھا تھا وہ خون صرف ہمارے دروازے پر ہی تھا مجھے تو کوئی نشان دکھائی نہیں دیئے۔ رفیق نے کہا بیٹا مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو شاید کچھ مل ہی جائے گا ورنہ ہمیں پولیس سے رابطہ کرنا پڑے گا اور تمہیں تو پتا ہی ہے پولیس والے ان ، جن، بھوت، وغیرہ پر یقین نہیں کرتے ۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا جی ٹھیک ہے ابو اگر آپ کہتے ہیں تو ایک بار پھر سے دیکھ لیتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اسلم بائیک واپس گھر کی طرف لے گیا اور جیسے ہی اسلم گھر کے دروازے پر پہنچا تو رفیق نے موبائل کی لائٹ آن کر کے اس خون پر ماری تو خون کے کچھ قطرے کھیتوں والے کچے راستے کی طرف طرف گرے ہوئے تھے ابھی رفیق یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ اسلم نے کہا ابو ان نشانات کے مطابق تو ہمیں اس کچے راستے پر ہی جا کر دیکھنا چاہیئے۔ رفیق نے کہا زرا رکو۔۔ یہ نشان اس سے آگے نہیں ہیں اب پتا نہیں ہمیں کس طرف جانا چاہیئے ابھی رفیق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک کھیتوں کی طرف سے ایک خوفناک چینخ کی آواز سنائی دی۔۔
جسے سنتے ہی رفیق اور اسلم چونک گئے پھر اسلم نے رفیق کی طرف حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا یہ کیسی آواز تھی ابو۔۔؟؟؟ رفیق نے کہا پتا نہیں بیٹا لیکن آواز کھیتوں کی کی طرف سے آئی ہے یہ کہتے ہوئے رفیق کھیتوں کی طرف دیکھنے لگا اتنے میں اسلم نے کہا ابو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کھیتوں میں جا کر دیکھنا چاہیئے۔۔ یہ سن کر رفیق نے ڈرتے ہوئے کہا لیکن بیٹا وہاں خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔۔ کہیں وہ منہوس ان کھیتوں میں ہی نا ہو۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے رفیق کھیتوں کے راستے سے پیچھے ہٹنے لگا۔ تواسلم نے کہا ابو آپ اتنا ڈر کیوں رہے ہیں۔؟؟ ہم آیت الکرسی پڑھتے ہوئے جائیں گے کچھ نہیں ہوگا چلیئے ابو۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا بیٹا مجھے اپنی فکر نہیں ہے بلکہ یہ میں اس لیئے کہہ رہا ہوں کہ کہیں تمہیں کوئی نقصان نہ ہو جائے۔ اسلم نے کہا ابو کچھ نہیں ہو گا مجھے ویسے بھی بابو دادا نے ہم لوگوں کے لیئے ہی خود کو مشکل میں ڈال لیا اور اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انہیں ڈھونڈ کر واپس لائیں پتا نہیں وہ بیچارے کس حال میں ہونگے۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا چلو بیٹا اب ہم انہیں واپس لے کر ہی آئیں گے۔ یہ کہتے ہوئے رفیق اسلم کے ساتھ بائیک پر بیٹھ گیا اور دونوں کھیتوں کی طرف جانے لگے۔ ابھی وہ دونوں کچھ ہی دور پہنچے تھے کہ اسلم کو محسوس ہوا کہ اس کی بائیک کے پیچھے کوئی اور بھی آرہا ہے یہ سوچتے ہوئے جیسے ہی اسلم نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو وہ منہوس عورت ان کی بائیک کے پیچھے بھاگ رہی تھی یہ دیکھتے ہوئے اسلم نے اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھنی شروع کی تو اسی وقت رفیق نے بھی پیچھے دیکھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اس نے اسلم سے کہا بیٹا جلدی چلاؤ وہ ہمارے قریب آرہی ہے۔ اسلم نے کہا ابو آپ بھی آیت الکرسی پڑھیں یہ سنتے ہی رفیق نے بھی اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھتے ہوئے دوبارہ پیچھے دیکھا تو منہوس بھاگ کر وہاں سے فصلوں کے اندر چلی گئی ۔
اتنے میں اسلم نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کے پیچھے کوئی نہیں تھا تو اسلم نے بائیک کی رفتار کم کر لی اور آہستہ آہستہ بائیک چلاتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگا اس دوران رفیق بھی آس پاس کی فصلوں کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک رفیق نے ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے کہا بیٹا وہ دیکھو کوئی فصلوں کے قریب گرا ہوا ہے یہ سنتے ہی اسلم نے بائیک روک لی اور رفیق آہستہ آہستہ سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس شخص کی طرف بڑھنے لگا اور جیسے ہی رفیق اس شخص کے پاس پہنچا تو رفیق کے ہوش اڑ گئے کیونکہ وہاں بابو کی لاش پڑی ہوئی تھی جو کہ بہت بری حالت میں تھی کیونکہ لاش کو کسی نے بہت بری طرح نوچہ ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے بابو کے پورے جسم سے گوشت نوچ کر کھا لیا ہے ۔ یہ دیکھتے ہی رفیق نے اسلم سے کہا بیٹا یہ تو بابو چچا ہیں۔ یہ سنتے ہی اسلم دوڑ لاش کے پاس پہنچا تو اسے اس حال میں دیکھ کر اسلم بھی چکرا گیا۔ اتنے میں رفیق نے کہا بیٹا جلدی کرو اسے اٹھانے میں میری مدد کرو۔۔۔ یہ سنتے ہی اسلم نے رفیق کے ساتھ مل کر بابو کی لاش کو بائیک پر سوار کیا پھر رفیق لاش کو پکڑ کر اسلم کے پیچھے بیٹھ گیا اس دوران لاش اسلم اور رفیق کے درمیان میں تھی اور رفیق نے لاش کے بغلوں اپنے ہاتھ نکال کر اسلم کو پکڑ رکھا تھا اسلم بائیک چلاتے ہوئے مسلسل آیت الکرسی پڑھ رہا تھا اور رفیق آنکھوں میں آنسوں لیئے کسی سوچ میں گم تھا کہ اتنے میں شدید غراہٹ کی آواز سنائی دی ۔ اسی وقت اسلم نے چونک کر ایک سائیڈ پر دیکھا وہ منہوس مصلوں میں اسلم کی بائیک کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی۔
لیکن وہ اسلم کے قریب نہیں آرہی تھی اتنے میں اسلم نے رفیق سے کہا ابو مجھے مظبوطی سے پکڑے رہیں میں رفتار بڑھانے لگا ہوں۔ یہ سنتے ہی رفیق نے ویسا ہی کیا اور مظبوطی سے اسلم کو پکڑے رکھا اسی وقت اسلم نے اس کچے راستے پر اندھادھند بائیک چلانی شروع کر دی اس دوران بار بار بائیک گرتے ہوئے بچ رہی تھی رفیق نے کہا بیٹا ذرا احطیاط سے چلاؤ کہیں ہم گر نہ جائیں اسلم نے کہا ابو وہ ابھی تک ہمارے ساتھ ساتھ بھاگ رہی ہے یہ کہتے ہوئے اسلم نے پوری رفتار سے بائیک بھگانی شروع کر دی اور جیسے ہی بائیک اس کچے راستے سے باہر نکلی تو اسلم نے فوراً مڑ کر دیکھا تو وہ منہوس کہیں نظر نہیں آرہی تھی اسی وقت اسلم نے بائیک گھر کے دروازے کے پاس جا کر روک دی اور دونوں باپ بیٹا باو کی لاش اٹھا کر گھر کے اندر لے گئے۔ تو اسی وقت گھر میں سف ماتم بچھ گئی۔ پھر رفیق نے گھر والوں کو وہ سب کچھ بتایا جو کہ بابو کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے ساتھ ہوا۔ تو سارے گھر والے بہت بری طرح ڈر گئے اتنے میں حنیف نے روتے ہوئے بابو کی لاش کی طرف دیکھا اور بولا میرے جگری دوست تونے میرے خاندان کو بچاتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے دی میں تیرا یہ احسان کیسے چکاؤں گا کاش تیری جگہ میں مر جاتا۔۔۔ یہ کہتے ہوئے حنیف ظاروقطار رونے لگا۔۔
اتنے میں اسلم نے جلدی سے فون نکالا اور پولس کو اطلاع دی تو پولیس نے کہا ہم کچھ ہی دیر میں پہنچتے ہیں۔ اس دوران رفیق نے روتے ہوئے اپنے ابو کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔۔ ابو آپ کے دوست ہمیں بچاتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں آپ خود کو سمبھالیں۔اگر آپ ہی اس طرح روئیں گے تو ہمیں حوصلہ کون دے گا۔ حنیف نے کہا بیٹا میرا دوست جو کچھ دیر پہلے میرے ساتھ مل کر کھانا کھا رہا تھا وہ اچانک اس طرح دنیا سے رخصت ہو جائے گا میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا بیچارا میرے بلاوے پر یہاں آیا اور اپنی جان گنواں بیٹھا اگر مجھے پتا ہوتا تو میں اسے کبھی یہاں آنے کا نہیں کہتا۔۔۔ یہ کہتے ہوئے حنیف اور زیادہ رونے لگا اور باقی گھر والے بھی بابو کی لاش کو دیکھ کر بار بار رو رہے تھے پھر کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی تو اسلم نے باہر جاکر دیکھا تو باہر پولیس کی گاڑی کھڑی تھی پھر اسلم پولیس والوں بابو کی لاش کے پاس لے آیا پھر رفیق اور اسلم نے پولیس کو سب کچھ بتایا تو پولیس والے نے رفیق سے کہا دیکھیں جناب آپ ہمیں غلط مت سمجھیئے گا پہلے ہمیں بابو کا پوسٹ مارٹم کرونا ہے اس کے بعد ہم آپ لوگوں سے مذید پوچھ تاچھ کریں گے دراصل آپ لوگوں نے ہمیں جو کچھ بھی بتایا ہے وہ قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ قانون صرف ثبوتوں کی روشنی میں فیصلے کرتا ہے اور آپ لوگوں کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ قتل کس نے کیا ہے ۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا لیکن انسپکٹر صاحب ہم نے اس منہوس عورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ جب سے یہاں آئی ہے تب سے ہی لوگوں کو تنگ کر رہی ہے یہ پکا اسی عورت کا کام ہے۔
یہ سنتے ہی انسپکٹر نے اپنے ہی ایک پولیس والے بندے خالد کی طرف عجیب طریقے سے دیکھا تو خالد نے انسپکٹر سے کہا سر جی میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا تھا نہ کہ ایسی ہی ایک عورت میں نے بھی دیکھی تھی جو کسی کو پکڑ کر نہر میں ڈبو رہی تھی لیکن آپ نے مجھے پاگل کہہ کر خاموش کروا دیا تھا تو دیکھ لو آج یہ لوگ بھی ویسی ہی عورت کے بارے میں آپ کو بتا رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی انسپکٹر نے خالد کو( شٹ اپ) کال دیتے ہوئے کہا اگر ایسی ہی کوئی عورت ہے تو پھر ہم پورے آٹھ دن اسے یہاں تلاش کرتے رہے ہیں تو وہ کہیں نطر کیوں نہیں آئی تھی اور نہ ہی تم اسے ڈھونڈ پائے ہو اب تک۔۔ اس لیئے تم خاموش ہی رہو تو بہتر ہے۔۔ یہ کہنے کے بعد انسپکٹر نے رفیق سے کہا دیکھیں آپ لوگوں نے جو بھی دیکھا اور بتایا میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن فلحال مجھے بابو کا پوسٹ مارٹم کرونا ہے اس کے بعد میں آپ سے بات کروں گا اور اگر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق بابو کا قتل ٹھیک ویسے ہی ہوا ہے جیسا آپ لوگ بتا رہے ہیں تو پھر ہم اس معاملے میں کوئی چارہ جوئی کریں گے اس لیئے اب ہمیں اجازت دیں اس کے بعد انسپکٹر نے بابو کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیئے بھیج دی اور چلا گیا۔
انسپکٹر کے جاتے ہی آمنہ نے کہا یہ کیسے پولیس والے ہیں انہیں ہماری باتوں پر یقین ہی نہیں ہو رہا۔۔۔ اگر انہوں نے اب بھی اس منہوس عورت کو نہیں پکڑا تو وہ پتا نہیں مزید اور کتنی جانیں لے گی۔۔ یہ سن کر حنیف نے کہا یہ پولیس والوں کا کیس نہیں بلکہ عاملوں کا کیس ہے پولیس اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ پولیس والے صرف قانون اور آئین کی بالادستی کے لیئے کام کرتے ہیں اور یہ جن بھوتوں کا کام تو پولیس کی پہنچ سے بہت دوری کا کام ہے اس لیئے اکثر پولیس اس معاملے میں بے بس ہوتی ہے ۔ کیونکہ وہ صرف قانون کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔ حنیف کی یہ بات سن کر رفیق نے کہا جی ابو مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ اتنے میں حنیف دوبارہ بابو کے بارے میں سوچتے ہوئے رونے لگا اور رفیق پھر سے اسے دلاسہ دینے کی کوشش کرنے لگا ۔ کہ اتنے میں صحن سے دمھک کی آواز سنائی دی تو سب لوگ چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تو رفیق نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی انگلی اپنے منہ پر رکھتے ہوئے خاموش رہنے کا کہا تو سب خاموش ہو گئے پھر رفیق نے سرگوشی میں کہا چاہے کچھ بھی ہو جائے کوئی بھی کمرے سے باہر مت نکلے ورنہ ہم سب خطرے میں پڑ جائیں گے میں دیکھ کر آتا ہوں باہر کیا ہوا ہے۔
آمنہ نے رفیق کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بنا بولے نہ میں سر ہلایا تو رفیق نے اپنا ہاتھ آمنہ کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے کہا ارے کچھ نہیں ہوگا مجھے باہر جا کر دیکھنے تو دو ویسے بھی وہ منہوس کہیں دفعہ ہو چکی ہے ۔۔ اتنے میں حنیف نے کہا بیٹا اپنا خیال رکھنا اگر ذرا بھی خطرہ محسوس ہو تو اسی وقت واپس کمرے میں آجانا میں اپنے پیارے دوست کو کھو چکا ہوں اب مجھ سے اور کچھ برداشت نہیں ہو پائے گا ۔۔رفیق نے کہا ابو آپ اطمینان رکھیں سب ٹھیک ہو گا بس میرے پیچھے کوئی نہ آئے۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق کمرے سے باہر نکلا اور اس نے آہستہ آہستہ سے آگے بڑھتے ہوئے دور سے ہی صحن کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا یہ دیکھتے ہوئے رفیق صحن میں گیا تو اچانک رفیق کو خوفناک سی غراہٹ کی سنائی دی جیسے کوئی سوتے ہوئے خراٹے مار رہا ہو اسے سنتے ہی رفیق ڈر سے لرز گیا اور اسے ٹھنڈ میں ہی پسینے آنے لگے رفیق نے کانپتے ہوئے چہرے کو آہستہ سے اپنے دائیں بائیں گھما کر دیکھا لیکن کوئی نظر نہیں آرہا تھا اتنے میں اسلم بھی کمرے سے باہر صحن کی طرف آرہا تھا کہ اچانک اسلم رفیق کی طرف دیکھ کر وہیں رک گیا اور رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے ڈر سے کانپنے لگا اسی دوران رفیق نے اسلم کی طرف دیکھتے اشارے سے پوچھا کیا ہوا۔۔؟؟ لیکن اسلم مسلسل ڈرتے ہوئے رفیق کے سر سے اوپر دیکھ رہا تھا۔ اسی دوران اچانک رفیق کو اپنے پیچھے سے غراہٹ کی آواز سنائی دی تو رفیق نے فوراً چونکتے ہوئے اپنے پیچھے دیکھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ وہ منہوس بالکل رفیق کے پیچھے کھڑی رفیق کو گھورتے ہوئے اپنا منہ کھول رہی تھی اور اپنی ٹیڑھی میڑھی انگلیوں والے بڑے بڑے ہاتھوں کو آپس میں مسل رہی تھی۔
یہ دیکھتے ہوئے رفیق آہستہ آہستہ سے پیچھے ہٹنے لگا اور جیسے ہی اس منہوس نے اپنا قدم رفیق کی طرف بڑھایا تو رفیق کی ٹانگیں بری طرح کانپنے لگیں اس کی حالت بری طرح خراب ہونے لگی اور رفیق وہیں کھڑا ہو کر چکرانے لگا ۔ یہ دیکھتے ہوئے اسلم جلدی سے اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھتے ہوئے رفیق کی طرف بھاگا اتنے میں اس منہوس کی نظر اسلم پر پڑی تو اس نے رفیق کو اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر اسے گھسیٹ کر دیوار کو پھلانگنے لگی تو اسلم نے جلدی سے آگے بڑھتے ہوئے پاس میں پڑا ہوا ایک ڈنڈا اٹھایا اور آیت الکرسی پڑھتے ہوئے رفیق کو کمر سے پکڑ لیا اسی وقت اس منہوس نے غراتے ہوئے اسلم کی طرف دیکھا اور رفیق کی ٹانگ کو کھینچنے کی کوشش کی تو اسلم نے جلدی سے اس منہوس کے ہاتھ پر ڈنڈا مارتے ہوئے رفیق کی ٹانگ کو اس کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کی تو اسی وقت اچانک وہ منہوس کہیں غائب ہو گئی اور اسلم کا وار خالی رہ گیا ۔ پھر اسلم نے جلدی سے رفیق کو سمبھالتے ہوئے دیکھتے ہوئے جلدی سے ادھر اُدھر دیکھا پھر رفیق کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا ۔
اور کمرے میں موجود سب لوگ ان دونوں کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے پھر آمنہ نے کہا کیا ہوا تھا باہر۔۔ اور یہ آوازیں کیسی تھیں۔۔؟؟ رفیق نے بنا بولے تیزی سے سانسیں لیتے ہوئے نا میں سر ہلایا پھر اسلم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تمہارا شکریہ بیٹا اگر تم وقت پر نا آتے تو شاید میرا بھی بابو چچا جیسا حال ہو جاتا۔۔ یہ سنتے ہی آمنہ نے رفیق کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ آپ کی جان خطرے میں تھی۔۔۔۔؟؟؟ یہ سنتے ہی سمیرہ نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو۔۔ آپ باہر کیوں گئے تھے اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو۔۔۔؟؟ آپ نے ایک بار بھی ہمارے بارے میں نہیں سوچا۔۔۔۔؟؟ آپ کو پتا بھی ہے آپ نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔۔ یہ کہتے ہوئے سمیرہ رونے لگی اور روتے ہوئے سمیرہ نے رفیق کی زندگی کے لیئے دعا کی تو۔ یہ سن کر رفیق نے سمیرہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ارے میری پیاری بیٹی جب تک تم جیسے بچوں کی دعائیں میرے ساتھ مجھے کچھ نہیں ہو سکتا اور دیکھو تمہارا بھائی شیر کی طرح آیا اور مجھے اس منہوس کے شکنجے سے چھڑا کر واپس لے آیا۔ یہ کہتے ہوئے رفیق نے اسلم کو تھپکی دی تو اسلم نے کہا ابو ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تو بس الله کی مہربانی آیت الکرسی پڑھتے ہوئے میں اس شیطان کی طرف بڑھا تو اچانک مجھ میں اک خاص طاقت آگئی اسی لیئے میں اسے بھگانے میں کامیاب ہو گیا۔۔ ورنہ ڈر تو مجھے بھی لگ رہا تھا کیونکہ وہ منہوس ہے ہی بہت بھیانک۔۔ رفیق نے کہا ہاں یہ تو ہے جب بھی میں اسے دیکھتا ہوں تو پتا نہیں مجھے کیا ہو جاتا ہے مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے میرا دل و دماغ کام کرنا چھوڑ گیا ہے ایک عجیب سی دہشت ہے اس منہوس کے چہرے پر اسے دیکھتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں بہت ڈر جاتا ہوں میں۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا پر ابو اگر آپ بھی میری طرح آیت الکرسی پڑھتے ہوئے اس کا سامنا کریں گے تو مجھے پورا یقین ہے آپ بھی بہادری سے اس کا سامنا کر سکتے ہیں اور وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔
15 اقساط |
۔ رفیق نے کہا ہاں بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو الله کے کلام میں سب سے زیادہ طاقت ہے ۔ اتنے میں حنیف نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا رام گڑھ کے قریب درس بڑے میاں دربار ہے وہاں میں نے ایک بار ایک بزرگ کو دیکھا تھا جو کہ کسی کے اندر سے جن نکال رہے تھے اور میری آنکھوں کے سامنے اس بزرگ نے اس بندے کو ٹھیک کر دیا تھا جس پر سایہ تھا اس لیئے مجھے لگتا ہے کہ اگر تم اس بزرگ کا پتا لگا لو تو شاید وہ اس بارے میں تمہاری کوئی مدد کر سکے گا۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا لیکن ابو ان بزرگوار کا نام کیا ہے۔۔؟؟ حنیف نے کہا میں ان کا نام تو نہیں جانتا لیکن کچھ مہینے پہلے جب میں بابو کے پاس گیا تھا تو بابو نے مجھے اتنا بتایا تھا کہ وہ بزرگ بابو کے استاد ہیں اور وہ مجھے ان سے ملوانے کے لیئے لے گیا تھا لیکن میری ان بزرگ سے بات چیت نہیں ہو سکی کیونکہ وہ بہت مصروف تھے اور کافی لوگ ان کے مرید بن کر ان کے پاس آئے ہوئے تھے اس لیئے میں بس ان سے سلام دعا ہی کر پایا ۔ یہ سنتے ہی اسلم نے کہا پر دادا ابو وہاں موجود ان کے مرید تو ان کو کسی نام سے بلاتے ہوں گے۔۔؟؟ حنیف نے کہا ہاں بابو کے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگ بھی ان کو صرف شاہ جی کہہ کر سلام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا پورا نام میں نے نہیں سنا تھا ۔ یہ سن کر رفیق نے کہا اس کا مطلب کہ اگر ہم اس دربار میں جا کر شاہ جی کا پتا کریں تو شاید کوئی نا کوئی ہمیں ان تک پہنچا دے۔ حنیف نے کہا ہاں یہ ہو سکتا ہے۔ اسلم نے کہا پھر تو ہم وہاں ضرور جائیں گے دادا ابو۔۔۔ اتنے میں آمنہ نے کہا رات بہت ہو چکی ہے اب آپ لوگوں کو آرام کرنا چاہیئے کل تک بابو چچا کا پوسٹ مارٹم بھی ہو جائے گا تو ہمیں ان کا کفن دفن بھی کرنا ہوگا۔ اتنے میں سمیرہ نے رفیق سے کہا ۔۔ابو آپ بابو دادا کے گھر والوں کو کیسے بتائیں گے۔۔ ان بیچاروں کو تو پتا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے گھر کا فرد اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا بیٹی ان کے گھر کوئی ہوتا تو میں بتاتا نا۔۔۔ یہ سنتے ہی سمیرہ نے حیرت انگیز نظروں سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا۔۔۔ کوئی۔۔۔ نہیں تھا۔۔۔؟؟ ابو اس بات کا کیا مطلب ہے۔۔۔؟؟ اتنے میں حنیف نے سمیرہ کہا ہاں میری بچی رفیق ٹھیک کہہ رہا ہے بابو کے ماں باپ بھی میرے ماں باپ کی طرح کب کے اس دنیا سے پردہ کر چکے تھے بس ایک بڑا بھائی تھا وہ بھی ایک اکسیڈنٹ میں فوت ہو چکا تھا اور بابو نے تو پیری فقیری کی لائن میں آکر شادی ہی نہیں کی تھی اس لیئے اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا ہاں ایک اس کا مرید تھا اسی نے بابو کو اپنے گھر میں ایک کمرہ دے رکھا تھا بس۔۔ یاں اس کے علاوہ میں تھا جو اس کے قریب تھا بس۔۔ لیکن آج وہ بیچارا مجھ سے بھی دور چلا گیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے حنیف پھر سے رونے لگا۔ پھر رفیق نے حنیف کو دوبارہ دلاسہ دیتے ہوئے کہا ابو صبر کریں ہم ہیں نا۔۔۔ ہم ان کے کفن دفن کی رسومات اچھے سے ادا کریں گے۔ اور ان کے ایثال ثواب کے لیئے پڑھائی کریں گے۔ یہ سنتے ہی حنیف نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے آنسوؤں کو صاف کرتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا اور گھر کے باقی لوگ بھی سوگوار انداز میں آرام کرنے چلے گئے۔ اس رات رفیق کو نیند نہیں آرہی تھی وہ بار بار کروٹ بدل رہا تھا کبھی اٹھ کر اپنے کمرے میں ٹہلنے لگتا جبکہ گھر کے باقی لوگ سو چکے تھے اتنے میں ٹہلتے ہوئے اچانک رفیق نے اپنے کمرے کی کھڑی کھول کر باہر صحن کی طرف دیکھا تو رفیق کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی بڑے سے جانور جیسی چیز گھر کے آنگن میں ادھر سے اُدھر جارہی ہے ابھی رفیق اس کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک وہ چیز باہری دس فٹ کی دیوار کو ایسے پھلانگ کر باہر چلے گئی جیسے کوئی ایک فٹ کی دیوار کو پھلانگ کر جاتا ہے یہ دیکھتے ہی رفیق بہت زیادہ ڈر گیا اور اس نے آہستہ سے کھڑکی بند کی اور کمبل میں چھپ کر لیٹ گیا اس دوران رفیق بری طرح سے کانپتے ہوئے آیت الکرسی پڑھ رہا تھا اور آیت الکرسی پڑھتے ہوئے رفیق کب سو گیا پتا نہیں چلا اگلے دن جب رفیق اٹھا تو اس کو گھر کے آنگن سے کچھ آوازیں آتی ہوئیں سنائی دیں یہ سنتے ہی رفیق نے کھڑی کھول کر دیکھا تو گھر کے آنگن میں پولیس والے کھڑے ہوئے رفیق کے گھر والوں سے کچھ بات کر رہے تھے یہ دیکھتے ہوئے رفیق جلدی سے ان کے پاس گیا تو انسپکٹر نے نے رفیق سے سلام دعا کرتے کہا رفیق صاحب بابو کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق یہ پتا چلا ہے کہ بابو کی موت بہت ہی پرسرار طریقے ہوئی تھی کیونکہ اس کے سینے میں دل ہی موجود نہیں تھا ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی نے بھاری ہتھوڑے سے اس کے سینے پر وار کر کے اس کا سینہ پھاڑ دیا اور پھر اس کے دل کو آنتوں کے ساتھ باہر کھینچ لیا تھا کیونکہ اس کے سینے کے ایک سائیڈ کی زیادہ تر پسلیاں ٹوٹی ہویں تھیں اور سینے میں بہت بڑا شگاف پڑا ہوا تھا۔ یہ سنتے ہی رفیق نے حیرانی سے انسپکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ کیا۔۔۔۔؟؟ بابو کے سینے میں سے دل غائب تھا۔۔۔۔؟؟ اس کا مطلب اس منہوس عورت نے بابو کا دل نکال کر کھا لیا ہو گا۔۔ یہ سنتے ہی انسپکٹر نے کہا دیکھیں رفیق صاحب ہم یہ تو نہیں جانتے یہ عورت نے کیا یاں کسی مرد نے کیا لیکن جس نے بھی یہ کیا ہے وہ کوئی نارمل انسان نہیں ہو سکتا یا تو قاتل بہت ہی سائیکو پیشنٹ تھا یاں بہت زیادہ درندا صفت انسان تھا باقی تو بابو کے جسم سے جگہ جگہ سے گوشت غائب تھا جو کہ کھیتوں میں موجود جنگلی جانوروں کا کام ہو سکتا ہے کیونکہ کھیتوں میں ایک دو بار پہلے بھی لوگوں کے جسم کھائے ٹکڑے ملے ہیں اور بہت بار لوگوں نے اپنے جانوروں کے کھو جانے کی رپورٹ بھی کروائی ہے ۔ یہ سن کر رفیقِ نے کہا ارے انسپکٹر صاحب آپ میری بات سمجھ کیوں نہیں رہے یہ اسی منہوس عورت نے کیا ہے اور ہماری فصلوں میں کوئی بھی اتنا خطرناک جانور نہیں ہے جو جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو کھا جائے ۔ انسپکٹر نے کہا فلحال ہم انویسٹی گیشن کر رہے ہیں آخر کار پتا چل ہی جائے گا یہ کیا ڈرامہ چل رہا ہے اس علاقے میں اس سے پہلے مجھے آپ لوگوں سے بابو کے بارے میں پوری معلومات چاہیئے تاکہ ہم اپنی تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کر سکیں ۔ یہ سنتے ہی رفیق نے انسپکٹر کو بابو کے بارے میں سب کچھ بتایا پھر کچھ حنیف نے بابو کے بارے میں پولیس کو بتایا تو انسپکٹر نے کہا آپ کو کیا لگتا ہے کہ مرحوم بابو واقعی میں جن بھوت کو قابو کرنا جانتا تھا۔۔؟؟ حنیف نے کہا جی وہ ایسے ہی کام کرتا تھا اور کافی لوگ اس کے کام سے متاثر تھے کیونکہ کافی لوگ اس کے علم کی بدولت فیضیاب ہوئے تھے۔ یہ سن کر انسپکٹر نے کہا چلو۔۔ دیکھتے ہیں آگے تحقیقات میں کیا سامنے آتا ہے آج سے میرے لوگ یہاں رات میں گشت کریں گے اور جاننے کی کوشش کریں گے کہ آپ لوگوں کی باتوں میں کتنی سچائی ہے لیکن اس سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ لوگ چاہیں تو اس کی ڈیڈ باڈی ہسپتال سے لے جا سکتے ہیں میں ہسپتال میں فون کر دیتا ہوں۔ اگر نہیں تو بابو کا کفن دفن پولیس کی دیکھ ریکھ میں ہو جائے گا ۔ یہ سن کر رفیق نے کہا نہیں نہیں انسپکٹر صاحب اس کی ضرورت نہیں ہے بابو لاوارث ضرور تھا مگر لاوارث فوت نہیں ہوا کیونکہ جب سے وہ ہمارے گھر میں آیا تھا تب سے ہی وہ ہمارے گھر کا ایک اہم فرد تھا جو ہماری جان بچانے کے لیئے اپنی جان کی قربانی دے گیا ۔ ہم بابو کی ڈیڈ باڈی ضرور لینے جائیں گے۔ یہ سن کر انسپکٹر نے کہا ٹھیک ہے میں فون کر دیتا ہوں یہ کہتے ہوئے انسپکٹر نے ہسپتال میں فون کیا اور پھر رفیق سے کہا اب آپ بابو کی باڈی لے کر آسکتے ہیں۔ اس لیئے اب مجھے اجازت دیں مجھے بہت کام ہیں اور ہاں آج رات میں خود ہی اس ایریا میں گھوم کر دیکھوں گا اور اگر واقعی میں ایسی کوئی عورت ہوئی تو وہ جلد ہی ہماری گرفت میں ہو گی یہ کہتے ہوئے انسپکٹر گیٹ کی طرف جا ہی رہا تھا کہ حنیف نے انسپکٹر کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا بیٹا یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے اس لیئے کوئی نقصان نہ اٹھا لینا۔۔۔ میرے اندازے کے مطابق اس منہوس کو ایک ہی بندا قابو کر سکتا ہے اور وہ تمہیں رام گڑھ کے علاقے میں ملے گا اس لیئے اگر تم نے اس منہوس کو ختم کرنا ہے تو درس بڑے میاں دربار جا کر شاہ جی کا پتا کریں وہ ضرور آپ کی مدد کرے گے۔ حنیف کی یہ بات سنتے ہی انسپکٹر نے ہنستے ہوئے نہ میں سر ہلایا اور بنا حنیف کی بات کا جواب دیئے ہی وہاں سے چلا گیا۔ پھر رفیق اور اسلم بابو کی لاش گھر لے آئے اور انہوں نے اس کا کفن دفن کیا اس دوران محلے کے باقی لوگوں نے بابو کی موت کے بارے میں سنا تو پورے علاقے میں خوف کی لہر دوڑ گئی لوگ جلدی ہی گھروں میں چلے جایا کرتے تھے اور رات گئے تک کوئی بھی گھر سے باہر نہیں جاتا تھا ایسے ہی ایک دو دن گزرے تو ایک رات انسپکٹر اپنی پرائیوٹ گاڑی میں اکیلا گھومتا ہوا اسی ایریا سے گزر رہا تھا کہ اچانک انسپکٹر کی گاڑی خراب ہو گئی تو انسپکٹر نے خود کہا کیا۔۔ یار۔۔۔۔ اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا یہ کہتے ہوئے انسپکٹر نے فون نکال کر اپنے عملے کو اپنے پاس پہنچنے کا کہا اور خود گاڑی کا بونٹ کھول کر اپنے موبائل کی لائٹ کی مدد سے گاڑی کا انجن چیک کرنے لگا اس دوران انسپکٹر کا سر بالکل بونٹ کے نیچے تھا اور انسپکٹر کوئی گانا گنگناتے ہوئے انجن کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں اچانک کہیں سے خوفناک سی آواز میں کوئی چیخا تو انسپکٹر اک دم سے چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا اور خود سے کہنے لگا اب یہ کیسی آواز تھی۔۔ یہ کہتے ہوئے انسپکٹر اپنے آس پاس دیکھنے کے بعد دوبارہ گاڑی کا انجن دیکھنے لگا تو اتنے میں کسی زور جھٹکے سے گاڑی کا بونٹ بند کر دیا اور انسپکٹر کا سر گاڑی کے بونٹ کے نیچے پھنس گیا انسپکٹر چلاتے ہوئے اپنا سر گاڑی کے بونٹ کے نیچے سے نکالنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا لیکن بونٹ بہت وزنی ہو چکا تھا انسپکٹر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کسی نے جان بوجھ کر گاڑی کے بونٹ کے نیچے انسپکٹر کا سر پھنسا کر اس پر بیٹھ گیا ہے۔ اس دوران انسپکٹر بری طرح چلاتے ہوئے گالیاں دیتا ہوا اپنا سر بونٹ کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بونٹ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا اتنے میں انسپکٹر کی کمر پر کسی نے زور کا ہاتھ مارتے ہوئے اپنے ناخن انسپکٹر کی کمر میں گڑھا دیئے جس سے انسپکٹر کی چیخیں نکل گئیں پھر اسی وقت کسی نے انسپکٹر کی کمر کو چیرتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچا تو انسپکٹر کی کمر بری طرح لہولہان ہو گئی اور انسپکٹر شدید درد کی وجہ سے چیختے ہوئے ٹڑپنے لگا اتنے میں دوبارہ کسی نے اپنا پنجا انسپکٹر کی کمر میں گاڑھ کر اس کی کھال کھینچ دی جس کی وجہ سے انسپکٹر ٹڑپتے ہوئے رونے لگا اتنے میں اچانک گاڑی کا بونٹ خودبخود ڈھیلا ہوا اور انسپکٹر اس کے نیچے سے نکل کر زمین پر گر گیا اتنے میں انسپکٹر کی نظر بڑے بڑے پاؤں والی ایڑھیاں پر پڑی جو کہ انسپکٹر کے چہرے کے سامنے تھیں انہیں دیکھتے ہوئے جیسے ہی انسپکٹر نے اوپر دیکھا تو ایک بھیانک شکل والی عورت بالکل انسپکٹر کے سر پر کھڑی اپنی خوفناک ناخنوں والی خون آلود انگلیوں کو چاٹتے ہوئے انسپکٹر کی طرف دیکھ رہی تھی کہ اچانک دور سے کسی گاڑی کی لائٹیں انسپکٹر کی آنکھوں میں پڑی تو انسپکٹر اسی وقت بیہوش ہو گیا اسی دوران اس منہوس عورت نے بھی مڑ کر گاڑی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو اس نے جلدی سے انسپکٹر کی ٹانگ کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ گاڑی تیزی آکر اس منہوس کو لگی جس کی وجہ سے یہ منہوس انسپکٹر سے دور جا کر گری اور اچانک غراتے ہوئے کہیں غائب ہو گئی اور وہ گاڑی انسپکٹر سے کچھ دور جا کر رک گئی پھر اس میں سے کافی سارے پولیس والے نیچے اترے اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے انسپکٹر کی طرف بڑھے۔ اتنے میں ایک پولیس والا دوڑ کر انسپکٹر کے پاس گیا اور اس نے انسپکٹر کی گردن پر ہاتھ لگاتے ہوئے کہا یہ زندہ ہیں جلدی اٹھاؤ انہیں اس دوران ایک حوالدار نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے گاڑی کے ڈرائیور سے پوچھا وہ بڑی سی کیا چیز تھی کہاں گئی وہ۔۔؟؟ ڈرائیور نے کہا پتا نہیں لیکن وہ جو بھی تھی خطرناک لگ رہی تھی مجھے لگ رہا تھا کہ وہ انسپکٹر صاحب کو نقصان پہنچانے والی ہے اس لیئے اسے اڑا دیا میں نے ۔ یہ سنتے ہی حوالدار نے ہاں میں سر ہلایا اور جس طرف وہ منہوس جا کر گری تھی اس طرف دیکھنے لگا تو ایک پولیس والے نے حوالدار سے کہا ارے تم کیا ادھر اُدھر دیکھ رہے ہو جلدی ادھر آکر مدر کرو باقی یہ سنتے ہی حوالدار جلدی سے باقی لوگوں کے ساتھ جا کر انسپکٹر کی کو اٹھانے میں مدد کرنے لگا پھر وہ سب انسپکٹر کو ٹھا کر ہسپتال لے گئے وہاں ڈاکٹر نے انسپکٹر کی کمر کو دیکھتے ہوئے کہا ان کا بہت خون بہہ چکا ہے جس کی وجہ سے ان کی حالت خطرے میں ہے آپ لوگ جلدی خون کا انتظام کریں پھر کافی دیر کی جدوجہد کے بعد آخر کار انسپکٹر کی جان بچ گئی پھر اس نے ہوش میں آنے کے بعد خود کو الٹا لیٹے دیکھ کر ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد ایک پولیس والے سے کہا میں یہاں کیسے آیا وہ ڈراؤنی عورت کون تھی یہ کہتے ہوئے انسپکٹر سیدھا ہونے لگا تو پاس بیٹھے پولیس والے نے کہا نہیں نہیں سر آپ الٹے ہی لیٹے رہیں آپ کی کمر پر بہت ٹانکے لگے ہوئے ہیں ۔۔۔؟؟ یہ سن کر انسپکٹر واپس الٹا ہی لیٹ گیا اتنے میں باقی پولیس والے بھی وارڈ میں آگئے اور انسپکٹر سے اس کا حال چال پوچھنے لگے اس دوران ایک دلاور نامی پولیس والا بھی انسپکٹر کے پاس آیا جو کہ اسی کے رینک کا لگ رہا تھا اس کو دیکھتے ہی انسپکٹر نے کہا دلاور تم یہاں کیسے۔۔؟؟ یہ سن کر دلاور نے کہا یار مجھے کانسٹیبل ستار نے فون کر کے بلایا تھا کیونکہ تمہاری جان خطرے میں تھی اس لیئے میں خون دینے آیا تھا تو اتنے میں کانسٹیبل ستار نے انسپکٹر سے کہا سر آج آپ کی جان دلاور سر کی وجہ سے بچی ہے کیونکہ ان کے خون کا گروپ آپ کے خون سے میچ کر گیا اور انہوں نے خون دیا تھا۔۔ یہ سنتے ہی انسپکٹر نے دلاور کا شکریہ ادا کیا پھر دلاور نے انسپکٹر کے زخمی ہونے کی وجہ پوچھی تو انسپکٹر نے دلاور کو وہ سارا واقع بتایا جو اس علاقے میں ہو رہا تھا پھر جو اس کے ساتھ ہوا ۔ پھر باقی پولیس والوں نے بھی وہ سب کچھ بتایا جو انسپکٹر کے بیہوش ہونے کے بعد ہوا۔ تو انسپکٹر نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں اس منہوس عورت کو نہیں چھوڑوں گا اب بہت ہوا۔۔۔ یہ سنتے ہی دلاور نے انسپکٹر سے کہا نہیں سلطان یہ تمہارے ہمارے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر واقعے میں کوئی ایسی چیز اس علاقے میں موجود ہے تو یہ بہت ہی خطرے والی بات ہے اس لیئے مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیئے ہمیں کسی عالم یاں عامل کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ سلطان نے کہا یار یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ میرا مطلب ہے ہم لوگوں کو جھوٹے پیروں عاملوں کے پاس جانے سے روکتے ہیں اور اگر ہم ہی عاملوں کی مدد لیں گے تو لوگ کیا سوچیں گے۔۔ دلاور نے کہا سلطان تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔ ہم لوگوں کو روکتے ہیں لیکن ہم جھوٹے پیروں فقیروں کے پاس جانے سے روکتے ہیں لیکن اگر ہم کسی سہی الله کے بندے کے پاس جائیں گے جس کو پیسوں کی حوس نا ہو تو لوگ کچھ نہیں سوچیں گے اور ویسے بھی ہم یہ سب لوگوں کو اس شیطانی چیز سے بچانے کے لیئے ہی تو کریں گے نا۔۔۔ تو اس میں غلط کیا ہے۔۔۔؟؟ دلاور کی یہ بات سن کر سلطان نے کہا پر ہمیں سہی عالم یاں عامل کہاں سے ملے گا اور بنا پیسوں کے کوئی ہماری مدد کیوں کرے گا۔۔؟؟ دلاور نے کہا دنیا بہت بڑی ہے مل جائے گا کوئی نا کوئی اور میں نے یہ کب کہا کہ ہم اس سے بالکل مفت میں کام کروائیں گے بلکہ کام پورا ہونے پر اس کا جو ہدیہ بنتا ہوگا وہ ہم اسے ضرور دیں گے۔ سلطان نے کہا ٹھیک ہے تو پھر تم بھی ایسا بندا تلاش کرو میں بھی کروں گا دیکھتے ہیں ایسا بندا ہمیں کہاں ملتا ہے یہ کہتے ہوئے سلطان کچھ سوچنے لگا پھر اچانک اس نے دلاور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا درس بڑے میاں دربار۔۔۔ ہاں۔۔۔یاد آیا۔۔۔ہمیں درس بڑے میاں دربار میں جانا چاہیئے۔۔۔ یہ سنتے ہی دلاور نے حیرت سے سلطان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا درس بڑے میاں دربار۔۔۔؟؟ پر کیوں۔۔؟؟ پھر سلطان نے دلاور کو حنیف کی کہی ہوئی بات بتاتے ہوئے درس بڑے میاں میں کسی شاہ جی کا بتایا تو دلاور نے کہا کیا تمہیں پورا یقین ہے وہ اس کام کو کر سکتے ہیں ۔۔؟؟ سلطان نے کہا پتا نہیں لیکن بابا حنیف کے مطابق صرف شاہ جی ہی اس کام کو کر سکتے ہیں یہ سنتے ہی دلاور نے کہا تو پھر دیر کس بات کی میں کل ہی جا کر ان سے مل لوں گا۔ سلطان نے کہا کل نہیں آج ہی اور اس کے لیئے میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔ یہ سنتے ہی دلاور نے کہا نہیں یار یہ کام میں اکیلا ہی کر لوں گا تم اپنی صحت کا خیال رکھو ابھی تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ سلطان نے کہا نہیں دوست جب تک وہ منہوس عورت اس علاقے سے نہیں جاتی تب تک آرام مجھ پر حرام ہے۔ اتنے میں ایک ڈاکٹر کمرے میں آیا تو سلطان نے کہا ڈاکٹر صاحب کیا میں یہاں سے جا سکتا ہوں ڈاکٹر نے کہا بالکل نہیں کیونکہ تمہاری حالت ابھی ایسی نہیں ہے کہ تم چل پھر سکو کیونکہ تمہاری کمر کے ٹانکے ٹوٹ سکتے ہیں پہلے ہی بہت مشکل سے تمہاری جان بچی ہے ۔ سلطان نے کہا ڈاکٹر صاحب ایک پولیس والے کے لیئے سب سے پہلے اس کا فرض ضروری ہوتا ہے اس لیئے مجھے اپنی جان کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن جس شیطانی چیز نے میرے ساتھ یہ کیا ہے وہ اس علاقے میں کھلی گھوم رہی ہے اور اگر اسے ابھی روکا نہ گیا تو پتا نہیں وہ کتنے لوگوں کی جان لے سکتی ہے۔
۔ یہ سن کر دلاور نے سلطان سے کہا یار تمہیں اتنی جلدی کس بات کی ہے ویسے بھی رات وقت ہے پتا نہیں وہ شاہ جی کون ہیں کہاں رہتے ہیں ابھی وہ ہمیں ملتے بھی ہیں کہ نہیں۔ سلطان نے کہا دوست اس علاقے کے لوگ پہلے ہی خوف کی لپیٹ میں ہیں اور وہاں کے علاقے کا انسپکٹر ہونے کے ناطے میں نہیں چاہتا کہ اب اس علاقے میں کسی اور کے ساتھ کچھ ایسا ویسا ہو جائے اور آج جب میرے ساتھ یہ ہوا ہے تو میرا ضمیر مجھے بتا رہا کہ اس علاقے کے لوگ سچے تھے لیکن میں ان کی باتوں کو قانونی پہلو سے دیکھتا رہا جبکہ بات کچھ اور ہی تھی اس لیئے میرا ضمیر اب مجھے یہ بتا رہا ہے کہ یہی وقت ہے اپنا فرض نبھانے کا کیونکہ آج کی رات ہی اس منہوس کی آخری رات ہو سکتی ہے یہ کہتے ہوئے سلطان اٹھ کر کھڑا ہو گیا جبکہ ڈاکٹر اور باقی لوگ اسے منع کرتے رہے لیکن سلطان نے کہا دیکھیں آپ لوگ مجھے میرا فرض نبھانے سے نہیں روک سکتے اس لیئے میری آپ سب سے گزارش ہے کہ مجھے میرا کام کرنے دیں۔ سلطان کی یہ بات سن کر دلاور نے کہا تو چلو پھر سلطان آج ہم اس شیطانی چیز کا خاتمہ کر کے ہی گھر واپس جائیں گے۔ اس کے بعد سب پولیس والے گاڑی میں بیٹھے اور درس بڑے میاں دربار پہنچے تو وہاں سے پوچھتے ہوئے شاہ جی تک پہنچ گئے پھر انہوں نے شاہ جی کو سب کچھ بتایا شاہ جی نے کہا دیکھیں انسپکٹر صاحب میں جانتا ہوں کہ آپ پولیس والے ہیں لیکن میرے بھی کچھ اصول ہیں یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ اس وقت مجھے لینے آگئے ہیں ہم کل چلیں گے یہ سن کر سلطان نے اپنی کمر کے ٹانکوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا شاہ جی میں اس حالت میں بھی آپ کے پاس صرف اس لیئے آیا ہوں کہ اب ہمیں مزید دیر نہیں کرنی چاہیئے ورنہ بہت سے لوگوں کے ساتھ برا ہو سکتا ہے ۔ سلطان کی یہ بات سنتے ہی شاہ جی نظریں جھکا کر کچھ سوچنے لگے پھر شاہ جی نے سلطان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ کا اس وقت مجھے لینے کے لیئے آنا مجھے برا ضرور لگا تھا لیکن میں دیکھ سکتا ہوں کہ آپ اس حالت میں بھی لوگوں کی بھلائی کے لیئے اپنا فرض نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو اب میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ میں بھی اسی وقت آپ کے ساتھ چلوں ماشااللہ ایک پولیس والے کو ایسا ہی ہونا چاہیئے شاباش انسپکٹر صاحب یہ کہتے ہوئے شاہ جی نے سلطان کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہلکی سی تھپکی دی اور بولے آپ صرف ایک منٹ رکیئے میں بس اپنا کچھ سامان لے لوں پھر چلتے ہیں۔ شاہ جی کی یہ بات سنتے ہی سلطان نے مسکراتے ہوئے باقی پولیس والوں کی طرف دیکھا تو دلاور سمیت سب لوگوں نے سلطان کی فرض شناسی کی داد دیتے ہوئے کہا( ویل ڈن سر) اتنے میں شاہ جی ایک بیگ ہاتھ میں لیئے سلطان کے پاس آئے اور بولے چلو برخردار۔ اس کے بعد شاہ جی پولیس کے ساتھ اس جگہ پر پہنچنے جہاں سلطان کی گاڑی خراب ہوئی تھی وہاں جاتے ہی شاہ جی نے وہاں زمین پر سے تھوڑی سی مٹی ہاتھ میں لی اور اسے سونگھنے کے بعد منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں پھر آنکھیں کھولتے ہوئے بولے وہ شیطانی چیز یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے اس کے بعد شاہ جی نے سلطان سے کہا ہمیں یہاں سے تھوڑا آگے جانا ہو گا لیکن باقی لوگ پیچھے ہی رکیں گے اور ہمیں بنا گاڑی کے ہی آگے جانا ہو گا یہ سنتے ہی دلاور نے کہا شاہ جی کیا میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں۔۔؟؟ شاہ جی کہا ہاں ضرور لیکن صرف آپ دو لوگ ہی میرے ساتھ چل سکتے ہیں باقی لوگ یہیں گاڑی میں ہی انتظار کریں۔
Part - 4 - Last
یہ سنتے ہی دلاور نے باقی پولیس والوں سے کہا تم سب لوگ یہیں ہمارا انتظار کرو میں سلطان اور شاہ جی کے ساتھ آگے جا رہا ہوں۔ یہ سنتے ہی باقی پولیس والے گاڑی میں بیٹھ گئے اور شاہ جی چلتے ہوئے دلاور اور سلطان کے ساتھ گاڑی سے دور نکل آئے اتنے میں دلاور نے پیچھے مڑ دیکھا تو صرف دھند ہی نظر آرہی تھی اتنے میں شاہ جی ایک جگہ رک گئے اور انہوں نے دوبارہ زمین سے مٹی اٹھا کر اسے سونگتے ہوئے کہا بس ہماری منزل یہیں ہے۔ لیکن جیسا میں نے سوچا تھا وہ اس سے کہیں زیادہ غصیلی طاقتور اور خطرناک ہے اب ہم یہاں سے آگے نہیں جائیں گے کیونکہ اب وہ خود ہمارے پاس آئے گی ۔ شاہ جی کی یہ بات سنتے ہی دلاور اور سلطان ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے اس دوران دونوں کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے ۔ اتنے میں شاہ نے بیگ سے ایک چادر نکالی اور اس پر کچھ پڑ کر اسے زمین پر بچھا دیا پھر سلطان اور دلاور کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔ دیکھو اب ہم جو کرنے جا رہے ہیں اس میں ہو سکتا ہے ہماری جان بھی چلی جائے لیکن اس سے پہلے میں آپ دونوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم دونوں یہاں سے واپس جانا چاہو تو جا سکتے ہو کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ تم لوگوں کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان پہنچے۔ یہ سنتے ہی سلطان نے کہا شاہ جی تو کیا آپ اکیلے ہی اس کا مقابلہ کریں گے۔۔؟؟ شاہ جی نے کہا ہاں میں کوشش کر سکتا ہوں کیونکہ یہاں آنے سے پہلے مجھے اس کی طاقت کا پوری طرح سے اندازہ نہیں تھا اور نا ہی مجھے اس کو سمجھنے کا وقت ملا ہے لیکن یہاں آنے کے بعد مجھے اس کی طاقت کا اندازہ ہو چکا ہے اس لیئے یہ کام خطرے سے خالی نہیں ہے اور ہو سکتا ہے اس عمل کے دوران میری جان بھی چلی جائے پر اب میں اپنے فرض سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اس لیئے آپ دونوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ چاہو تو یہاں سے ابھی واپس جا سکتے ہو کیونکہ عمل کے دوران اگر آپ یہاں سے جانے کی کوشش کرو گے تو وہ پکا آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گی۔ یہ سنتے ہی دلاور نے سلطان سے کہا یار میں یہاں آ تو گیا ہوں لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے سلطان نے کہا ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے لیکن شاہ جی بھی تو ہمارے لیئے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اس لیئے میں ان کے پاس ہی رکوں گا یہ سن کر دلاور نے ڈرتے ہوئے کہا مم۔۔۔ میں۔۔ میں۔۔ بھی ان کے پاس ہی رکوں گا کیونکہ پیچھے دیکھو مجھے تو ابھی سے لگ رہا ہے کہ وہاں کوئی کھڑا ہے وہ دیکھو۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی شاہ جی اور سلطان نے اس طرف دیکھا تو انہیں صرف دھند کے علاوہ کچھ نہیں نہیں آیا۔ یہ دیکھتے ہوئے شاہ جی نے کہا وہاں کوئی نہیں ہے تم وہاں جا سکتے ہو دلاور نے کہا نہیں۔۔ میں۔ نہیں جاؤں گا شاہ جی۔۔ مجھے تو وہاں کوئی کھڑا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ شاہ جی نے کہا وہ بس تمہارا وہم ہے کیونکہ تم ڈرے ہوئے ہو اور ویسے بھی جس چیز کے لیئے ہم یہاں آئے ہیں وہ پیچھے سے نہیں یہاں آگے سے آنے والی ہے۔ یہ سن کر دلاور نے کہا شاہ جی آپ کو کیسے پتا چلا وہ اس طرف سے آئے گی شاہ جی نے بیگ سے ایک پاؤڈر سا نکال کر زمین پر پھینکا تو زمین پر بڑے بڑے قدموں کے نشان بن گئے جو کہ اسی طرف جا رہے تھے جہاں سے شاہ جی چل کر آگے آچکے تھے۔ یہ دیکھتے ہوئے دلاور نے گھبراتے ہوئے کہا یہ۔۔یہ۔۔یہ اتنے بڑے بڑے پاؤں شاہ جی یہ۔۔ دیکھا نا۔۔ شاہ جی یہ نشان بھی اسی طرف گئے ہیں جہاں میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ وہاں کوئی کھڑا ہے۔۔ یہ سنتے ہی سلطان نے بھی کہا ہاں شاہ جی یہ نشان بھی اسی طرف ہی جا رہے ہیں جہاں سے ہم لوگ چل کر آئے یہاں ہیں ۔ یہ سنتے ہی شاہ جی نے مسکراتے ہوئے کہا سلطان سے تمہیں پکا یقین ہے کہ یہ قدموں کے نشان اسی طرف جا رہے ہیں۔۔۔؟؟ سلطان نے کہا جی شاہ جی۔۔ یہ اسی طرف جا رہے ہیں۔ شاہ جی نے کہا پھر سوچو اور مجھے بتاؤ تم مجھ سے کیا کہا تھا کہ جب اس نے تم پر حملہ کیا اور تم گاڑی کے پاس گرے ہوئے تھے تو تم نے سب سے پہلے کیا دیکھا تھا سلطان کہا ہاں مجھے یاد آیا سب سے پہلے میں نے اس کے بڑے بڑے پاؤں دیکھے تھے جن کی ایڑیاں میری طرف تھیں۔۔۔ ارے ہاں۔۔۔ اس کے پاؤں الٹے تھے ۔ ۔ جی شاہ جی اس کے پاؤں الٹے تھے۔۔ اس کا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی سلطان نے اتنا ہی کہا تھا کہ شاہ جی نے سلطان کی بات پوری کرتے ہوئے مسکرا کر کہا ہاں اس کا مطلب ہے کہ وہ اس طرف نہیں بلکہ اس طرف گئی ہے۔ یہ سنتے ہی دلاور نے کہا شاہ جی ایسا کیوں ہے۔۔؟؟ شاہ جی نے کہا کیونکہ اس کے پاؤں انسانوں سے مختلف ہیں جیسے کہ انسانوں کے پاؤں کے پنجے آگے کی طرف ہوتے ہیں ویسے ان چیزوں کے پاؤں کے پنجے پیچھے کی طرف ہوتے ہیں اور ایڑھیاں آگے کی طرف ہوتی ہیں۔ یہ سنتے ہی دلاور اور زیادہ ڈر گیا اتنے اچانک کہیں سے خوفناک غراہٹ کی آواز سنائی دی اسی وقت سلطان اور دلاور چونک گئے اتنے میں شاہ جی نے کہا وہ ادھر ہی آرہی ہے اب تم دونوں میری بات غور سے سنو جلدی سے اپنے جوتے اتارو اور اس چادر پر بیٹھ جاؤ لیکن جب تک میں نا کہوں تم چادر سے اٹھنا نہیں اگر تم میں سے کسی نے بھی ایسا کیا تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اب جلدی کرو ہمارے پاس اور وقت نہیں ہے یہ کہتے ہوئے شاہ جی نے دوبارہ اپنے بیگ سے ایک پاؤڈر نکالا اور اس سے چادر کے گرد زمین پر چھڑک دیا پھر دلاور اور سلطان اس چادر پر بیٹھ گئے اتنے میں شاہ جی نے ایک بڑی سی تسبیح نکالی اور سلطان سے کہا دیکھو جب تک تم اس دائرے میں رہوں گے تب تک تم اس شیطانی چیز سے محفوظ رہو گے اس دوران چاہے کچھ بھی ہو جائے لیکن تمہیں کسی بھی حال میں اس چادر سے اٹھ کر اس دائرے سے باہر نہیں جانا ورنہ اسی وقت وہ تمہیں مار دے گی۔ اتنے میں سلطان نے کہا پر شاہ جی آپ دائرے سے باہر کیوں ہیں ۔۔؟؟ شاہ جی نے کہا اگر میں بھی دائرے میں رہوں گا تو پھر ہم اس منہوس کو ختم کیسے کریں گے ۔ اب میں دوسری جگہ جا رہا ہوں یہ سنتے ہی سلطان نے کہا شاہ جی آپ کہا جارہے ہیں ہمیں چھوڑ کر۔۔؟؟ وہ ہمیں مار دے گی شاہ جی نے کہا وہ ایسا کچھ نہیں کر سکے گی بس تم لوگ آیت الکرسی پڑھتے رہنا اور دائرے سے باہر قدم مت رکھنا باقی میں دیکھ لوں گا۔ اتنے میں دھند میں دھمک کی آوازیں سنائی دینے لگیں تو شاہ جی نے کہا لو اب ہمارا امتحان شروع ہو چکا ہے یہ کہتے ہوئے شاہ جی وہاں سے ایک سائیڈ پر چلے گئے۔ اس دوران دلاور اور سلطان ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک دلاور کے پاس کسی نے تیزی سے سانس لیا تو دلاور بری طرح سے کانپنے لگا اسے ایسا کرتے دیکھ کر سلطان بھی ڈر سے کانپتے ہوئے دلاور کا ہاتھ دبانے لگا اتنے میں سلطان نے دلاور کے پیچھے دیکھا تو اس کی حالت خراب ہونے لگی جس کی وجہ سے سلطان کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی یہ دیکھتے ہوئے دلاور نے سلطان سے کہا کیا ہوا ۔۔؟؟ لیکن سلطان اسی جگہ جیسے جام ہو گیا تھا اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں کیونکہ دلاور کے کاندھے کے پاس بہت ہی بڑی سی بھیانک شکل دکھائی دے رہی تھی اتنے میں دلاور نے سلطان کا جھنجھوڑتے ہوئے کہا یار تو بول کیونکہ نہیں رہا اسی وقت سلطان نے اپنا کانتا ہوا ہاتھ اٹھا کر دلاور کے کاندھے کی طرف اشارہ کیا تو دلاور نے جیسے ہی مڑ کر پیچھے دیکھا تو تو دلاور کی چیخیں نکل گئیں کیونکہ وہ منہوس دلاور کے بالکل پیچھے بیٹھی ہوئی دلاور کو گھورتے ہوئے اپنی زبان نکال رہی تھی اسے دیکھتے ہوئے دلاور جلدی سے پیچھے ہٹتا ہوا سلطان کی گود میں جا کر بیٹھ گیا اور دونوں بری طرح سے کانپتے ہوئے شاہ جی کو بلانے لگے۔ اس دوران وہ منہوس دائرے کے باہر بیٹھی ہوئی انہیں غراتے ہوئے دائرے سے باہر بھگانے کی کوشش کر رہی تھی اتنے میں دلاور نے کہا سلطان یہ ہمیں نہیں چھوڑے گی چلو بھاگتے ہیں یہاں سے سلطان نے کہا یار ہم یہاں سے بھاگ کر کہاں جائیں گے یہ ہمیں پکڑ لے گی شاہ جی نے کہا تھا کہ دائرے سے باہر نکلے تو یہ ہمیں مار دے گی۔ دلاور نے کہا مجھے اس کو دیکھ کر وحشت ہو رہی ہے اس کے دانت کسی بھیڑیئے کی طرح ہیں یہ ہمیں چبا ڈالے گی چل بھاگتے ہیں ۔۔؟؟ سلطان نے کہا یار شاہ جی ہمیں پھنسا کر پتا نہیں کہاں چلے گئے ہیں میری تو حالت اتنی خراب ہو رہی ہے کہ بھاگنا کیا میں تو ہل بھی نہیں پا رہا ۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا کیا کروں۔۔ اتنے میں دلاور نے اپنا منہ سلطان کی بغل میں چھپا لیا اور دبی ہوئی آواز میں شاہ جی کو بلانے لگا۔ اس دوران وہ منہوس اٹھی اور دائرے کے گرد گھومتے ہوئے عرانے لگی اور جیسے ہی اس نے سلطان کی طرف ہاتھ بڑھا تو اچانک دائرے سے نیلی سی آگ نکلی اور اس کے ہاتھ پر لگی اور وہ منہوس چلاتے ہوئے دائرے سے پیچھے ہٹ گئی اور دوبارہ دائرے کے پاس بیٹھ کر خوفناک آواز نکالتے ہوئے غرانے لگی پھر اچانک وہ منہوس اپنا گلا پکڑ کر زمین پر ٹرپتے ہوئے چیخنے لگی اسی وقت سلطان نے اس منہوس کی طرف دیکھا تو شاہ جی نے وہ بڑی سی تسبیح اس منہوس کے گلے میں ڈال کر اس کے گلے کو جکڑ رکھا تھا یہ دیکھتے ہوئے سلطان نے کہا شاہ جی آپ آگئے۔۔ شاہ جی نے بنا بولے ہاں میں سر ہلایا اور تسبیح کو بل دیتے ہوئے اس منہوس کے گلے کو گھوٹنے لگے اس دوران اس منہوس کا قد بھی دھیرے دھیرے کم ہونے لگا وہ زمین پر لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے بری طرح چلا رہی تھی لیکن خود کو تسبیح سے چھڑا نہیں پا رہی تھی کیونکہ جیسے ہی وہ منہوس تسبیح کو پکڑنے کی کوشش کرتی تو اس کے ہاتھ جل رہے تھے اتنے میں شاہ جی نے سلطان سے کہا جلدی میرے بیگ سے پانی کی بوتل نکالو۔۔ یہ سنتے ہی سلطان نے جلدی سے شاہ جی کا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک بوتل نکال کر اسے دیکھتے ہوئے بولا شاہ اس میں پانی نہیں بلکہ سیاہی سی لگ رہی ہے۔۔ شاہ جی نے کہا ہاں ہاں جلدی لاؤ یہی ہے سلطان جیسے ہی بوتل لے کر شاہ جی کے پاس گیا تو شاہ جی نے کہا اس بوتل کو کھولو اور اس کا سارا پانی اس منہوس کے جسم پر گرا دو۔ یہ سنتے ہی سلطان بوتل لے کر جیسے ہی اس منہوس کی طرف بڑھا تو وہ سلطان کو دیکھ کر عجیب عجیب سی شکل بنا کر سلطان کو غراتے ہوئے ڈرانے لگی۔ تو سلطان اسے دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا تو شاہ جی نے کہا ارے بیوقوف کیا کر رہے ہو جلدی کرو میں اسے زیادہ دیر تک روک نہیں سکتا اگر یہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئی تو بھاگ جائے گی ۔ سلطان نے کہا شاہ مجھے اس سے ڈر لگ رہا ہے میں آپ کو بوتل دیتا ہوں آپ خود پھینک دو اس پر شاہ جی نے کہا تم دیکھ نہیں رہے میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کو پکڑ رکھا ہے یاں پھر تم اس کو پکڑ لو میں پانی ڈالتا ہوں۔۔ یہ سنتے ہی سلطان نے نہ میں سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں نہیں میں پانی ڈالتا ہوں یہ کہتے ہوئے سلطان ڈرتا ہوا اس منہوس کے پاس گیا اور اس نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس منہوس کے پورے جسم پر وہ پانی ڈال دیا اور واپس بھاگ کر دلاور کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔۔ اتنے میں شاہ جی نے کچھ پڑھا اور اس منہوس پر پھونک مار کر تسبیح اس کے گلے سے اتار دی اور تسبیح کے اترتے ہی اس منہوس نے دلخراش چیخیں مارنا شروع کر دیں اور اس کے جسم سے دھواں اٹھنے لگا اسی دوران شاہ جی نے اپنے بیگ سے ایک مٹی سی نکال کر اس منہوس پر چھڑک دی جس سے اس منہوس کا جسم جلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا پورا جسم گل سڑ گیا اور کچھ دیر میں صرف اس کی راکھ ہی رہ گئی پھر شاہ جی نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی پانی کی بوتل نکالی اور اس کا پانی اس کی راکھ پر گرا دیا تو اچانک اس کی راکھ بھی دھواں بن کر اڑ گئی۔ اس کے بعد شاہ جی نے اپنا سامان بیگ میں ڈالتے ہوئے سلطان اور دلاور کی طرف دیکھا تو وہ اب بھی اسی راکھ کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے تو شاہ جی نے کہا ارے تم لوگ کیا دیکھ رہے ہوں وہ تو کب کی ختم ہو چکی۔ یہ سنتے ہی سلطان نے کہا شاہ جی مجھے یقین نہیں ہو رہا اتنی خطرناک اور طاقتور چیز کو آپ نے اتنی آسانی سے ختم کر دیا ہے کہیں وہ غائب تو نہیں ہو گئی۔۔۔؟؟ شاہ جی نے ہنستے ہوئے کہا ارے تم نے دیکھا نہیں اس کا پورا طلسمی وجود ہی ہم نے خاکستر کر دیا ہے تو غائب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ سمجھ لو کہ ہم نے اسے غائب کر کے جہنم واصل کر دیا ہے۔ اتنے میں دلاور نے کہا شاہ جی وہ تو چھوٹی ہی ہوتی جا رہی تھی جبکہ ہم نے اسے پہلی بار دیکھا تو وہ کافی بڑی لگ رہی تھی۔ شاہ جی نے کہا یہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں کہ کسی کو ڈرانے کے لیئے جب چاہیں اپنا وجود چھوٹا بڑا کر سکتی ہیں اسی لیئے جب میں نے اس کے گلے کو پکڑا تو وہ اپنے اصلی وجود میں آگئی تھی ۔ سلطان نے کہا لیکن شاہ جی مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اتنی طاقتور تھی پھر وہ خود کو چھڑا کیوں نہ پائی جبکہ تسبیح کا دھاگا تو باریک سا تھا۔۔ یہ سنتے ہی شاہ جی نے ہسنتے ہوئے کہا۔ بیٹا تسبیح کا دھاگا باریک ضرور ہوتا ہے لیکن اس پر جڑے ہوئے موتیوں پر پڑھا جانے والا اللّه کا کلام بہت طاقتور ہوتا ہے اسی لیئے تو وہ شیطانی چیز بے پناہ طاقت رکھنے کے باوجود بھی اس باریک دھاگے سے خود کو چھڑا نہیں پائی جبکہ اگر تم اسے کسی موٹے رسسے سے بھی باندھ دیتے تو وہ اسے تور پر خود کو چھڑا لیتی یا غائب ہو جاتی لیکن اس تسبیح کے باریک سے دھاگے نے اسے نا تو بھاگنے کا موقع دیا اور نا ہی غائب ہونے کا کیونکہ سب سے زیادہ طاقت اللّه کے کلام میں ہوتی ہے کیونکہ لازوال صرف اللّه کی زات ہے اس کے آگے کوئی بھی طاقت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
۔ اس تسبیح کے ساتھ جو پانی اور مٹی اس منہوس پر ڈالی تھی ان دونوں چیزوں پر اللّه کے پاک کلام سے ہی دم کیا ہوا تھا اسی لیئے اس منہوس کی طاقت اللّه کے کلام کے سامنے بے بس ہو گئی اور وہ جہنم پہنچ گئی۔ یہ سن کر سلطان نے کہا واہ شاہ جی واقعی میں آج آپ نے میرا ایمان تازہ کر دیا ۔ شاہ جی نے کہا ایمان تازہ صرف باتیں سن کر ہی نہیں بلکہ ان باتوں پر عمل کرنے سے ہوتا ہے ابھی تمہارے سامنے میں نے اس منہوس کو اللّه کے فضل سے ختم کر دیا یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا یہ تم بھی کر سکتے تھے بلکہ یہ کوئی بھی کر سکتا ہے۔ یہ سنتے ہی دلاور نے کہا شاہ جی یہ کیسے ممکن ہے۔۔ بھلا اتنی ڈراؤنی چیز کو دیکھ کر تو ہماری جان ہی نکل گئی تو ہم یہ کیسے کر سکتے تھے۔۔۔؟؟ شاہ جی نے کہا اگر تم پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے ادا کرو اور روزانہ اللّه کے نام کی تسبیح کرو تو تمہیں کوئی بھی شیطانی چیز کبھی نہیں ڈرا سکے گی پھر وہ چاہے کتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہو۔
لیکن تمہارے منہ سے نکلنے والے اللّه کے پاک کلام کی وجہ سے وہ تمہارے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی بس دل میں ایک بات کا یقین رکھو کہ ڈرنا صرف اللّه کی ذات سے ہے ہم اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کے حکم پر ہمیں اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ اس یقین کے بعد اس فانی دنیا کی کوئی بھی شیطانی طاقت تمہارا کچھ بگاڑ نہیں پائے گی ۔ یہ سن کر دلاور نے کہا شاہ جی بے شک آپ نے بالکل سہی کہا میں آج سے ہی نماز کی پابندی کروں گا اور تسبیح بھی کروں گا۔ یہ سن کر شاہ جی نے کہا ماشااللّه اگر تمہاری طرح اس علاقے میں رہنے والا ہر شخص نماز کی پابندی کرے اور اللّه کے نام کی تسبیح کرے تو ایسی شیطانی چیزیں دوبارہ پھر کبھی اس علاقے کا رخ نہیں کریں گی۔ یہ کہتے ہوئے شاہ جی نے سلطان سے کہا چلو بیٹا اب تم مجھے میرے گھر چھوڑ دو۔ یہ سنتے ہی سلطان نے کہا جی جی چلیئے شاہ جی۔ اس کے بعد سلطان نے شاہ جی کو ان کے گھر چھوڑا اور انہیں کچھ پیسے دینے لگا تو شاہ جی نے منع کر دیا لیکن سلطان نے ضد کرتے ہوئے انہیں پیسے دے ہی دیئے جو شاہ جی نے سلطان کی خوشی کے لیئے رکھ لیئے اس کے بعد اگلے دن سلطان دوبارہ اس علاقے میں گیا اور اس نے رفیق اور دوسرے لوگوں کو شاہ جی کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ رات کا سارا واقع بتایا تو سب نے سلطان کا شکریہ ادا کیا اور سلطان نے سب کو شاہ جی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میں بھی نماز کی پابندی کر رہا ہوں اور اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ دوبارہ کوئی ایسی منہوس چیز اس علاقے میں نہ آئے تو آپ لوگ بھی نماز کی پابندی کے ساتھ تسبیح ضرور کیا کریں اس کے بعد سلطان وہاں سے چلا گیا اور رفیق نے اپنے گھر کے تمام لوگوں سے کہا کہ آج سے ہم سب لوگ نماز کی پابندی کیا کریں گے اس دوران سمیرہ نے رفیق سے معافی مانگتے ہوئے کہا ابو میں آج سے آپ کے ساتھ ٹرک پر ہی واپس آیا کروں گی گاڑی نہیں تو کیا ہوا میں آپ کے ساتھ محفوظ تو رہوں گی نا۔۔ یہ سنتے ہی رفیق نے سمیرہ کے سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس دن کے بعد سمیرہ روزانہ خوشی سے گپ شپ لگاتی ہوئی رفیق کے ساتھ ہی گھر آنے لگی اور پورے گھر والے نماز کی پابندی کرنے لگے ان کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں کافی لوگ نماز کی پابندی کرنے لگے اور اس علاقے میں دوبارہ کبھی کوئی منہوس چیز نظر نہیں آئی ۔۔
واقع ختم۔۔۔
تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں
آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے