پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 28

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 28

کپتان زولو کی جو گرل فرینڈ نیگرو عورت تھی وہ اس وقت جب میں کپتان کے کیبن کی صفائی کرنے جاتا تھا تو میری طرف کپتان سے نظریں بچا کر دیکھ لیا کرتی تھی۔ خدا جانے میں اسے پسند آ گیا تھا یا اسے مجھ سے ہمدردی پیدا ہو گئی تھی لیکن اس نے ابھی مجھ سے اپنی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اسی طرح مزید دو مہینے گزر گئے ۔ ایک رات میں جہاز کے عرشے کو دھو رہا تھا کہ کپتان زولو نے میرے قریب آیا ۔۔۔


قریب سے گزرتے ہوئے حکم دیا کہ میں نیچے جا کر اس کے کیبن کی صفائی کروں۔ میں نے فورا یس سر کہا اور اس کے کیبن کی طرف چل دیا۔ اس کا کیبن کھلا تھا۔ میں کیبن میں داخل ہوا۔ میز پر جھوٹے برتن پڑے تھے اور فرش پر پھلوں کے چھلکے بکھرے ہوئے تھے ۔ میں نے صفائی شروع کر دی۔ اتنے میں کیپٹن زولو کی گرل فرینڈ نیگرو عورت کیبن میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں رم کی دو بوتلیں تھیں۔ مجھے بلائے بغیر وہ دیوار کے شیلف کی طرف گئی اور دونوں بوتلیں شیلف میں لگا دیں۔

پھر کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ سلگا لیا اور مجھے صفائی کرتے دیکھنے لگی۔ میں نے بھی اس سے کوئی بات کرنی مناسب نہ سمجھی۔ جب میں صفائی کرتے ہوۓ اس کے قریب سے گزرنے لگا تو اس نے میرا بازو پکڑ لیا۔ میں نے کسی قدر چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ نیگرو عورت میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی۔
کہنے لگی۔ تم یہاں سے بھاگنا چاہتے ہو ؟‘‘ میں نے غیر شعوری طور پر نفی میں سر ہلاتے ہوۓ کہا۔” نہیں۔“ میں اسے کیسے کہہ سکتا تھا کہ میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ وہ کیپٹن زولو کی گرل فرینڈ تھی۔ اگر میں کہہ دیتا کہ ہاں میں اس عذاب سے نکلنا چاہتا ہوں تو کچھ پتہ نہیں کہ وہ یہ بات زولو کو بتا دیتی اور وہ خدا معلوم میرا کیا حشر کرتا۔ نیگرو عورت نے اپنا چہرہ میرے قریب لاتے ہوئے کہا۔ ’’ڈرو نہیں۔ میں کیپٹن سے کچھ نہیں کہوں گی۔ مجھے اپنے دل کی بات بتا دو۔ کیا تم یہاں سے بھاگنا چاہتے ہو ؟“

میں چپ رہا۔ کوئی جواب نہ دیا۔ نیگرو عورت نے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔ " مجھے اپنی دوست سمجھو۔ تم مجھے پہلے دن ہی اچھے لگے تھے۔ اگر میں زولو کے قبضے میں نہ ہوتی تو تم سے شادی کر لیتی مگر اب میں ایسا نہیں کر سکتی لیکن تمہاری جو درگت یہاں بن رہی ہے میں وہ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے بتاؤ کیا تم سچی کے یہاں سے بھاگ جانا چاہتے ہو ؟ کہیں ایسی بات تو نہیں ہے کہ تم بھی اس کام کے عادی ہو گئے ہو اور تمہیں یہاں کی زندگی راس آ گئی ہے ؟ بولو۔“
میں نے زبان سے تو کچھ نہ کہا لیکن نفی میں سر ہلا دیا۔۔ نیگرو عورت نے میرا بازو چھوڑ دیا اور کہنے لگی۔ ٹھیک ہے۔ جاؤ۔“
میں صفائی کر کے کیبن سے نکل آیا۔ دل میں سوچنے لگا کہ یہ عورت دھوکے سے میرے دل کا حال تو معلوم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے فکر لگ گئی کہ اگر اس نے کیپٹن زولو کو اتنا بھی بتا دیا کہ میں یہاں سے بھاگنا چاہتا ہوں تو وہ تو مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ میں سخت پچھتانے لگا کہ میں نے اس عورت کے سامنے اس بات کی حامی کیوں بھری کہ میں اس جہاز سے فرار ہونا چاہتا ہوں۔ ساری رات یہ سوچ سوچ کر میں پریشان رہا۔

دوسرے دن وہ نیگرو عورت مجھے کہیں نظر نہ آئی۔ شاید اپنے کیبن میں سو رہی تھی۔ کیپٹن زولو ایک بار عرشے پر میرے قریب سے گزرنے لگا تو میں ڈر گیا کہ اسے میرے دل کا حال نیگرو عورت نے بتا دیا ہے اور اب یہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا اور اسی جگہ مجھے اپنے پستول سے ہلاک کر کے میری لاش سمندر میں پھینک دے گا لیکن ایسی کوئی بات نہ ہوئی اور زولو خاموشی سے آگے چل دیا۔ شام کے وقت نیگرو عورت سے بھی عرشے پر میرا آمنا سامنا ہو گیا لیکن اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ ایک بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ نیگرو عورت نے کیپٹن زولو کے آگے میری شکایت نہیں لگائی اور اسے کچھ نہیں بتایا۔
اس کا مطلب تھا کہ اس عورت کو واقعی مجھ سے محبت یا ہمدردی ہو گئی تھی اور وہ میری مدد کرنا چاہتی تھی اور شاید کسی موقع کا انتظار کر رہی تھی۔ آخر وہ موقع آگیا۔

خدا معلوم کون سا ملک تھا کہ ہمارے جہاز نے اس کی سمندری حدود کے باہر کھلے سمندر میں لنگر ڈال دیا۔ اس وقت سورج غروب ہو چکا تھا اور سمندر پر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ کیپٹن زولو کا قریبی ملک میں کوئی گودام لوٹنے کا پروگرام تھا۔ جب اندھیرا اور گہرا ہو گیا تو اس نے اپنے مسلح ڈاکوؤں کو ساتھ لیا اور یہ لوگ تیز رفتار کشتیوں میں سوار ہو کر چالیس میل دور ساحل کی طرف روانہ ہو گئے۔ جہاز پر چند ایک ملازم پیشہ لوگ ہی رہ گئے تھے۔

میں اس وقت کچن کی صفائی کر رہا تھا۔ کام ختم کر نے کے بعد میں نیچے سونے کے لئے اپنے کیبن میں آ گیا جہاں آلوؤں کی بوریوں کے پاس میں نے سونے کے لئے ایک دری بچھائی ہوئی تھی۔ میں وہیں رات کو سو جاتا تھا۔ سارے دن کا تھکا ہوا تھا لیٹتے ہی مجھے نیند آگئی۔ مجھے نہیں معلوم مجھے سوۓ کتنی دیر ہوئی ہوگی کہ کسی نے میرے بازو کو ہلایا۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کیبن میں ایک بہت ہی مدھم روشنی واالا بلب ہر وقت جلتا رہتا تھا۔ میں نے اس کی مدھم روشنی میں دیکھا کہ نیگرو عورت مجھ پر جھکی ہوئی تھی۔

مجھے آنکھیں کھولتے دیکھ کر بولی۔” میرے ساتھ آجاؤ۔“ میں نے سنبھلتے ہوئے پوچھا۔ ” کہاں ؟“ نیگرو عورت نے دھیمی آواز میں سختی سے کہا۔’’خاموش! میرے پیچھے چلو۔۔۔۔
میں سمجھ گیا کہ اس نے میرے فرار کا بندوبست کر دیا ہے۔ میں اٹھ کر اس کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ مجھے آخری کیبن کے پاس جو تنگ زینہ اوپر کو جاتا تھا وہاں لے آئی اور سرگوشی میں بولی۔” جہاز کے پیچھے سمندر میں ایک کشتی کھڑی ہے میں نے اس میں تمہارے لئے سب کچھ رکھ دیا ہے۔ اس میں بیٹھ کر یہاں سے نکل جاؤ۔“

وہ آگے آگے زینہ چڑھ کر اوپر جہاز کے عرشے پر آ گئی۔ یہ جہاز کا عقبی حصہ تھا۔ اس طرف کوئی خلاصی سو نہیں رہا تھا یا شاید اس نیگرو عورت نے میری محبت یا ہمدردی کی وجہ سے کسی سے مل کر ایسا انتظام کر دیا تھا کہ اس وقت وہاں آس پاس کوئی

نہ ہو ۔ عرشے کا عقبی حصہ خالی پڑا تھا۔ وہ مجھے جہاز کے کونے کی طرف لے گئی۔ وہاں رسی کی ایک سیڑھی لٹکی ہوئی تھی۔

اس نے آہستہ سے کہا۔ اس سیڑھی کے ساتھ تمہاری کشتی بندھی ہوئی ہے ۔ کشتی میں بیٹھتے ہی رسی کھول کر فرار ہو جاؤ۔ جلدی کرو۔“ میں جلدی میں نیگرو عورت کا شکریہ بھی ادا نہ کر سکا اور جنگلے میں سے نکل کر نیچے لٹکتی ہوئی رسی کی سیڑھی کو پکڑا اور نیچے اترنے لگا۔ نیچے ایک کشتی سمندر کی ۔ لہروں پر ڈول رہی تھی۔ میں اس میں اتر گیا۔ اترنے کے فورا بعد میں نے کشتی کی رسی کھول دی۔ چپو سنبھالا اور تیزی سے کشتی کو جہاز سے دور لے جانے لگا۔ میں نے رات کے وقت زولو کے ساتھیوں کو جہاز سے جاتے وقت دیکھ لیا تھا کہ وہ کس طرف کو جا رہے تھے۔
جس طرف وہ جارہے تھے اس طرف قریبی ملک کا ساحل تھا۔ میں نے بھی کشتی کا رخ اس طرف کر دیا۔ میں پوری طاقت کے ساتھ دائیں بائیں چپو چلا رہا تھا۔ میں کچھ ہی دیر میں جہاز سے کافی دور نکل آیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جہاز کی ساری بتیاں گل کر دی گئی تھیں ۔ صرف ایک مدھم سی بتی جل رہی تھی وہ مجھ سے کافی دور ہو گئی تھی۔

کشتی روک کر سانس لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں اس منحوس جہاز سے جتنی دور نکل سکتا تھا نکل جانا چاہتا تھا۔ میں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ کشتی میں جو ایک تھیلا پڑا ہے اس میں نیگرو عورت نے میرے لئے کیا کچھ رکھ دیا ہوا ہے ۔ کشتی بڑی ہلکی اور چھوٹی تھی اور بڑی تیزی سے ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایک جگہ آکر میں واقعی تھک گیا۔ میں نے چپو رکھ دیا اور سر جھکا کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ یہ کوئی دریا نہیں تھا کہ کشتی اپنے آپ پانی کے بہاؤ پر بہنے لگتی۔ یہ سمندر تھا اور سمندر بھی ساحل سے کئی میل کے فاصلے کا سمندر تھا جہاں سمندر کی موجیں کسی طرف بہنے کی بجائے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں ۔

ایسی حالت میں صرف ایک ہی خطرہ ہوتا ہے کہ کشتی کا رخ نہ بدل جاۓ یعنی آگے جانے کی بجاۓ اس کا رخ پیچھے کی طرف ہو جاۓ ۔ رات کے اندھیرے اور کھلے سمندر میں اتنی چھوٹی کشتی میں سمت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ میں سانس بھی درست کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ کبھی کشتی کے رخ کو اور کبھی آسمان پر ستاروں کو دیکھ لیتا تھا تا کہ میری سمت ٹھیک رہے۔ پھر بھی میں نے زیادہ آرام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کسی بھی وقت مجھے کوئی مغالطہ لگ سکتا تھا اور کشتی کا رخ کسی دوسری طرف ہو سکتا تھا چنانچہ میں دوبارہ چپو چلانے لگا۔
کشتی مخصوص سمت کو آگے بڑھنے لگی۔ کافی دیر تک میں کشتی چلاتا رہا۔ درمیان میں تھوڑی دیر کے لئے ہاتھ روک لیتا اور سانس درست کرتے ہوئے سامنے کی سمت نظریں جماۓ رکھتا کہ کشتی ادھر ادھر نہ ہو جاۓ۔
آخر قدرت نے میری مشکل آسان کر دی اور مجھے دور افق پر ایک روشنی کا نقطہ جگمگاتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ ساحل کی روشنی تھی۔ اسے دیکھ کر میرے جسم میں ایک نئی توانائی آگئی اور میں پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ کشتی چلانے لگا۔ روشنی کا نقطہ قریب آتا جا رہا تھا۔ پھر دائیں بائیں جانب روشنی کے کچھ اور نقطے ٹمٹماتے دکھائی دینے لگے۔ میں کسی ملک کے ساحل پر پہنچنے والا تھا۔ اب مجھے یہ پریشانی تھی کہ اگر ساحلی کوسٹ گارڈر کے سٹیمروں نے گشت لگاتے مجھے دیکھ لیا تو پکڑا جاؤں گا۔
کوسٹ گارڈز کے سٹیمروں پر سرچ لائٹیں لگی ہوتی ہیں جن کی روشنی کو جب سمندر میں پھینکا جاتا ہے تو سمندر دور دور تک روشن ہو جاتا ہے اور سمندر میں اگر کوئی آدمی تیر بھی رہا ہو تو وہ نظر آ جاتا ہے۔
لیکن قدرت میری مدد کر رہی تھی۔ ابھی تک کسی گشتی پارٹی کے سٹیمر کی نہ تو آواز سنائی دی تھی نہ اس کی روشنی ہی نظر آئی تھی۔ میں نے کشتی کا رخ اس طرف کر لیا ساحل پر روشنی کا صرف ایک ہی نقطہ جھلملا رہا تھا۔ یہ لائٹ ہاؤس کی روشنی نہیں تھی کیونکہ لائٹ ہاؤس کی روشنی بڑی تیز ہوتی ہے اور یہ چاروں طرف
جھومتی رہتی ہے۔ پانی میں تیرتی ہوئی کئی جھاڑیاں کشتی سے ٹکرائیں۔ اس کا مطلب تھا کہ میں ساحل کے پاس آ گیا تھا اور یہ ساحل ریتلا نہیں بلکہ وہاں جھاڑیاں اور سرکنڈے اگے ہوئے تھے ۔ میں چپو چلائے جا رہا تھا۔
کچھ دیر کے بعد مجھے اپنے سامنے سیاہ دھبے دکھائی دینے لگے۔ یہ ساحل کے درخت ہی ہو سکتے تھے۔ آہستہ آہستہ ان سیاہ دھبوں نے ایک دیوار سی بنا دی۔ میں دور ہی سے اس دیوار کو بائیں جانب چھوڑ کر جنوب کی طرف کشتی لے آیا جہاں مجھے نیم دائرے میں درختوں کی قطار دکھائی دی۔ رات تاریک تھی۔ سمندر کی طرف سے ہوا چل رہی تھی۔
میں کشتی کو درختوں کے نیم دائرے کے اندر لے گیا۔ یہ سمندر کی کوئی کھاڑی تھی۔ سمندر ساحل کو کاٹ کر یہاں داخل ہو گیا تھا اور وہاں ایک جھیل سی بنا دی ہوئی تھی۔ وہاں کسی طرف کوئی روشنی نہیں تھی۔ میں نے کشتی کھاڑی میں لے جا کر ایک طرف سرکنڈوں کے پیچھے لگا دی۔ کشتی سے اتر آیا۔ کھاڑی کا پانی میرے گھٹنوں تک آتا تھا۔ میں کشتی کو کھینچتے ہوئے ساحل پر لے گیا اور اسے ایک جگہ سرکنڈوں کے ساتھ باندھا اور کشتی میں بیٹھ کر غور سے ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔ کھاڑی کے بائیں جانب دور بہت سی روشنیاں نظر آ رہی تھیں مگر میرے دائیں جانب اور سامنے کی طرف کوئی روشنی نہیں تھی۔
میں اس تھیلے کی طرف متوجہ ہوا جو نیگرو عورت نے میری کشتی میں رکھ دیا تھا۔ میں نے تھیلا کھول کر اس میں ہاتھ ڈالا ۔ میرا ہاتھ ایک ٹارچ سے ٹکرایا۔ میں نے ٹارچ کو باہر نکال لیا۔ یہ چھوٹے سائز کی ٹارچ تھی۔ میں نے اس کا منہ تھیلے کی طرف کر کے ٹارچ کا بٹن دبایا اور اس کی روشنی میں تھیلے کی چیزوں کو دیکھنے لگا۔
تھیلے میں ایک پتلون ، ایک بش شرٹ ، ایک خنجر اور ایک ڈبے میں ابلے ہوۓ چاول تھے۔ ایک لفافہ بھی تھا۔ میں نے اسے کھولا تو اس میں کرنسی نوٹ تھے۔ میں نے ٹارچ ڈالی تو وہ انڈیا کی کرنسی تھی۔ پچاس پچاس اور دس دس کے نوٹ تھے۔ میں نے گنے کل ڈھائی ہزار روپے تھے ۔ نیگرو عورت کو معلوم تھا کہ ان کا جہاز انڈیا کے ساحل کے قریب لنگر انداز ہے چنانچہ اس نے تھیلے میں انڈین کرنسی نوٹ رکھ دیئے تھے ۔ ان لوگوں کے پاس ہر ملک کی کرنسی ہر وقت موجود رہتی تھی۔
میں نے اس وقت جہاز کے خلاصی کی وردی اتار کر پتلون اور بش شرٹ پہنی اور خنجر پتلون کی جیب میں رکھ لیا۔ وہیں بیٹھ کر تھوڑے سے چاول کھائے اور ستاروں کو دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ اگر یہ انڈیا کا ساحل ہے تو مشرقی ساحل ہے یا مغربی ساحل ہے ۔ ستاروں کے مشاہدے سے میں کوئی اندازہ نہ لگا سکا۔ اب وہاں سے آگے جا کر ہی پتہ چل سکتا تھا کہ میں انڈیا کے کون سے علاقے میں ہوں کیونکہ انڈیا کی تینوں جانب سمندر ہے ۔
جس طرف روشنیاں زیادہ نہیں تھیں میں نے اس طرف چلنا شروع کر دیا۔ کرنسی نوٹ میں نے پتلون کی اندرونی جیب میں سنبھال کر رکھ لئے تھے ۔ ان کی مجھے آگے چل کر قدم قدم پر ضرورت تھی۔ رات ڈھلنے لگی تھی۔ کچھ دیر کے بعد آسمان پر سحر کا اجالا پھیلنے لگا اور ساحل سمندر دور تک دکھائی دینے لگا۔ میں ساحل سمندر کو پیچھے چھوڑ کر چل رہا تھا۔ کچھ دور تک ساحل ریتلا تھا پھر ناریل کے جھنڈ نظر آنے لگے۔ ناریل کے درخت انڈیا کے مغربی ساحل پر بھی ہوتے ہیں اور مشرقی ساحل پر بھی ہوتے ہیں ۔ جب سورج طلوع ہوا تو مجھے پتہ چلا کہ میں انڈیا کے مشرقی ساحل پر ہوں ۔
اب یہ دیکھنا تھا کہ یہ انڈیا کے صوبہ کیرالہ کا علاقہ ہے یا صوبہ کر ناٹک کا ساحل آگے ناریل کے درختوں کے نیچے کچھ جھونپڑیاں تھیں۔ ایک عورت سل پر چاول پیس رہی تھی۔ اس کا دبلا پتلا مرد قریب ہی بیٹھا سوکھے ناریلیوں کی چھال اتار رہا تھا۔ میں نے ان کے پاس جا کر آدمی کو پرنام کیا اور اس علاقے کی ہندی زبان میں پوچھا کہ وہاں سے شہر کو سیدھا راستہ کون سا ہے ۔
اس نے ہندی میں ہی اپنے پیچھے اشارہ کر کے کہا۔ ادھر کو آگے پال گھاٹ پہنچ جاؤ گے۔“
میں سمجھ گیا کہ میں بھارت کے صوبہ کیرالہ کے ساحل پر ہوں۔ پال گھاٹ کیرالہ کی اہم بندرگاہ اور ریلوے سٹیشن بھی ہے جہاں سے وایا منگلور ، حویلی ، بلگام ، کولہا پور اور پونا بمبئی کو ٹرین جاتی ہے ۔ میں خوش ہوا کہ میں منزل کے قریب پہنچ گیا ہوں اور بمبئی وہاں سے زیادہ دور نہیں ہے بس ایک دن اور ایک رات کا ٹرین کا سفر تھا۔ خوشی مجھے اس بات کی بھی تھی کہ میں ساحلی حفاظتی گارڈز کی نگاہوں سے بچ کر انڈیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
میں ناریل کے جنگل میں داخل ہو گیا۔ یہ جنگل بڑی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ میں چلتا چلا گیا۔ آخر جنگل ختم ہو گیا اور چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں کی ایک بستی آگئی۔ میں اس سے دور رہ کر آگے نکل گیا۔ دن کافی نکل آیا تھا جب میں کیرالہ کے مشہور ساحلی شہر پال گھاٹ میں آ گیا۔ اس زمانے میں یہ شہر زیادہ وسیع اور ماڈرن نہیں تھا۔ پرانی اونچی عمارتوں والے بازار تھے۔ان بازاروں میں موٹر کاروں کے ساتھ بیل گاڑیاں بھی چل رہی تھیں ۔ لوگ شہر کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک بیل گاڑیوں میں بھی سفر کرتے تھے ۔ میں پانچ روپے دے کر ایک بیل میں سوار ہو کر پال گھاٹ کے ریلوے سٹیشن پر آگیا۔
معلوم ہوا کہ کیرلہ ایکسپرلیں دو گھنٹے بعد بمبئی روانہ ہو گی۔ میں نے وہیں سٹیشن پر تھوڑا بہت ناشتہ کیا اور ٹرین کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ ٹرین نے وہیں سے تیار ہونا تھا۔ اپنے وقت پر ٹرین پلیٹ فارم پر آکر لگ گئی۔ میں نے احتیاط کے طور پر سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے رکھا تھا۔ سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ بالکل خالی تھا۔ میں کونے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ٹرین بمبئی کی طرف چل پڑی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں نے کیپٹن زولو کی ظالمانہ قید سے اتنی جلدی چھٹکارا حاصل کر لیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر نیگرو عورت میری مدد نہ کرتی تو میرا ان ڈاکوؤں کے جہاز سے فرار ہونا ناممکن تھا۔ قدرت نے اس نیگرو عورت کو میری مدد کے لئے بھیج دیا تھا۔ میں دل میں اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہا تھا۔
ٹرین کا نام تو کیرلہ ایکسپریس تھا مگر وہ ہر سٹیشن پر کھڑی ہو جاتی تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھا جب وہ منگلور پہنچی ۔ رات کے وقت حویلی کا سٹیشن آیا۔ میں برتھ پر چڑھ کر سو گیا۔ میرے سوتے میں ہی بلگام اور کولہا پور کے سٹیشن گزر گئے۔ دن کافی چڑھ آیا تھا جب ٹرین پونا پہنچی۔ اب بمبئی زیادہ دور نہیں تھا۔ آخر میں بمبئی پہنچ گیا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے مجھے نئی زندگی مل گئی ہو۔ نتالیا کے آسیب اور ان کی بدروحوں میں سے کسی نے ابھی تک مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔کالے جادوگر کی دی ہوئی انسانی ہڈی اس طرح میرے بازو کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ بمبئی کے سٹیشن سے میں نے ٹیکسی پکڑی اور اپنے دوست کے گیراج میں آگیا۔
جمشید مجھے دیکھ کر بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ کہنے لگا۔ فیروز ! خدا کے لئے مجھے ایک ہی بار بتا دو کہ تم کن چکروں میں پھنسے ہوۓ ہو ۔ اچانک غائب ہو جاتے ہو اور پھر اچانک کسی طرف سے نمودار ہو جاتے ہو ۔ آخر یہ سب کچھ کیا ہے ؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’جمشید ! وقت آنے پر میں سب کچھ بتا دوں گا۔ اس وقت میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔“ جمشید نے کہا۔ ’’اوپر چلے جاؤ۔ میرا بیڈ روم خالی پڑا ہے۔ تم ناشتہ نہیں کرو گے؟“
” ناشتہ میں نے ٹرین میں ہی کر لیا تھا۔ میں نے کہا اور جمشید کے بیڈ روم میں آتے ہی اپنے آپ کو بستر پر گرا دیا اور گہری نیند سو گیا۔ جب سو کر اٹھا بلکہ جب عبدل نے مجھے اٹھایا تو دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ جمشید بھی اوپر آ گیا۔ کہنے لگا۔’’ تمہارے انتظار میں، میں نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ چلو کھانا کھا لیتے ہیں۔
دوسرے کمرے میں بیٹھ کر ہم دونوں نے کھانا کھایا۔ جمشید نے پوچھا۔’’اس وقت تم کہاں سے آرہے ہو ؟ اتنی مدت کہاں غائب رہے ؟ تمہیں معلوم ہے کہ تمہارا ایک مہینے کا ویزا تھا اور تمہیں تھانے میں جا کر واپسی کی رپورٹ بھی کرنی تھی۔ وہ تو میں نے سارا معاملہ اس طرح سنبھالا کہ تھانیدار کو یہ کہہ دیا کہ تم بیمار ہو گئے ہو۔ اپنے اثر و رسوخ سے میں نے کھانڈیکر کو تمہارے خلاف رپورٹ اوپر نہیں بھجوانے دی۔ اب اس وقت میرے ساتھ تھانے چل کر رپورٹ کرو اور کھانڈیکر تمہارے ویزے پر یہ تین چار مہینے کسی طرح بڑھادے گا۔“
میں نے کہا۔’’ مگر میرے پاس تو پاسپورٹ نہیں ہے۔“ ”تمہارا پاسپورٹ کہاں چلا گیا؟‘‘ جمشید نے حیرانی سے پوچھا۔ میں نے کہا۔ ’’گم ہو گیا۔ کیا کرو چار پانچ مہینے عجیب حالات میں پھنسا رہا۔‘‘ جمشید نے پوچھا۔ ” آخر وہ کون سے حالات ہیں؟ میں تمہارا دوست ہوں کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔“
میں نے کہا۔ ”جمشید ! وقت آنے پر میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا۔ اس وقت تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔“
جمشید بولا۔” ٹھیک ہے۔ میں پولیس کا معاملہ جیسے بھی ہوا سنبھال لوں گا۔ لیکن یہ بتاؤ اب تم کب اچانک غائب ہو رہے ہو ؟“ میں نے مسکرا کر کہا۔”کچھ پتہ نہیں۔ لیکن مجھے ایک دو دن کے لئے جے پور جانا ہوگا۔“
” جے پور کس لئے جا رہے ہو ؟ جمشید نے پوچھا۔ میں نے کہا۔ ” یہ بھی میں تمہیں نہیں بتا سکتا۔“ دراصل میں جے پور جا کر قدیم ویران محل میں درگا کی بدروح سے ملاقات کر کے اسے سارے حالات سے باخبر کرنا چاہتا تھا۔ اسے روہنی کی ایک بار پھر گمشدگی کا
بتانا چاہتا تھا۔ صرف وہی مجھے بتا سکتی تھی کہ روہنی کس حال میں ہے اور کہاں ہے ؟ اس کے علاوہ میں اپنے بارے میں اس سے مشورہ لینا چاہتا تھا کہ میں نتالیا کی قید سے تو فرار ہو کر آ گیا ہوں اب مجھے اس آسیب سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے ۔
میں صرف دو دن بمبئی ٹہرا۔ تیسرے دن میں جے پور کی طرف روانہ ہو گیا۔ جے پور، میں شام کے وقت پہنچا۔ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر کھانا کھایا اور اٹھ کر ایک باغ میں آکر بیٹھ گیا اور رات گہری ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب رات کے گیارہ بج گئے تو میں ویران محل کی طرف چل پڑا۔ محل کے خفیہ راستے سے اندر داخل ہو گیا اور اس تہہ خانے میں آکر درگا کی بدروح کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ آدھی رات کے بعد طوفانی ہواؤں اور ڈراؤنی آوازوں کے ساتھ درگا کی بدروح نمودار ہوئی۔ مجھے دیکھ کر بولی۔ "شیروان ! تم بڑی اچھی قسمت لے کر پیدا ہوئے ہو ورنہ اس بار تم نتالیا کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتے تھے ۔“
میں نے کہا۔ ’’درگا! یہ تو تم نے بالکل ٹھیک کہا۔ اگر قسمت میرا ساتھ نہ دیتی تو اس بار میرا فرار ہونا اتنا آسان نہیں تھا لیکن خدا کے لئے یہ بتاؤ کہ روہنی کہاں ہے اور میں اس سے کہاں مل سکتا ہوں کیونکہ اس سے ملے بغیر میں اس منحوس چکر سے باہر نہیں نکل سکتا۔“
درگا کی ہدروح نے کہا۔ " تمہارے بازو پر کالے جادوگر نے جو جادو کی ہڈی باندھ رکھی ہے اس کی وجہ سے نتالیا کا آسیب اور اس کی بدروحیں تمہارا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتیں لیکن تمہارا انتقام وہ روہنی سے لے رہی ہے اور اس نے روہنی کو اپنے قبضے میں کر کے اسے کرسچین قبرستان والی پرانی عمارت کے تہہ خانے میں بند کر کے
دروازے کی جگہ دیوار کھڑی کر دی ہے ۔
روہنی اب وہاں سے نہیں نکل سکتی ۔ " میں نے کہا۔ لیکن روہنی تو اب بدروح نہیں ہے ۔ وہ ایک اچھی روح بن چکی ہے اور اچھی روحیں کسی بھی چار دیواری میں بند نہیں کی جاسکتیں۔وہ بند دیواروں میں سے بھی گزر جاتی ہیں ۔‘‘ درگا بولی۔ "تم نے بالکل ٹھیک کہا۔ لیکن روہنی کی روح کے ساتھ اس کے کچھ گناہوں کا بوجھ ابھی تک چمٹا ہوا ہے جس کو جھڑنے میں کافی وقت لگے گا۔‘‘ میں نے کہا۔ آخر یہ کون سے گناہ ہیں ؟‘‘
درگا نے کہا۔’’اس کا صرف ایک ہی گناہ ہے کہ اس نے اس مادی دنیا کی محبت کو اپنے دل میں بہت زیادہ بسار کھا تھا۔ وہ ابھی روح کی ترقی کی پہلی سیڑھی پر ہے۔ کچھ وقت کے بعد اس کا یہ گناہ بھی اس کی روح سے جھڑ جاۓ گا۔ جب تک اس گناہ کا باقی بچا ہوا تھوڑا بہت بوجھ اس کے ساتھ لگا ہے روہنی کی روح کے راستے میں رکاوٹیں آتی رہیں گی۔“
میں نے کہا۔’’مگر میں نے خود دیکھا ہے کہ روہنی کی روح بند دیواروں میں سے گزر جاتی تھی ۔ “
در گا کہنے لگی۔’’یہاں معاملہ اور ہے ۔ وہ نتالیا کے طاقت ور اور خطرناک آسیب کے قبضے میں ہے ۔ نتالیا نے اسے جس تہہ خانے میں بند کر رکھا ہے اس کی دیواروں میں ایسا طلسم پھونک دیا ہوا ہے کہ جب تک وہ طلسم موجود ہے روہنی اس چار دیواری سے باہر نہیں نکل سکتی۔“
میں نے کہا۔ ” کیا میں روہنی کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ؟“ درگا نے کہا۔’’بلکہ یوں کہو کہ صرف تم ہی اس وقت اس کی مدد کر سکتے ہو ۔“ مگر میں ایک عام انسان ہوں۔‘‘میں نے کہا۔ ”میں کیسے اس طلسمی چار دیواری میں داخل ہو سکوں گا جہاں روہنی قید ہے ۔‘‘
درگا کی بدروح کہنے لگی۔ " یہی تم انسانوں کی بھول ہے ۔ تم لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ قدرت نے انسان کو کتنی زبردست طاقت دے رکھی ہے۔ جن لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو جاتا ہے وہ سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ قدرت کی دی ہوئی غیر فانی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے آپ کو برائی سے بچاتے ہیں۔اپنے دل میں سے اللہ کے خوف کے سوا باقی سارے خوف نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں ۔ جھوٹ نہیں بولتے ، شراب نہیں پیتے ، حلال کی روزی کما کر کھاتے ہیں۔
جب وہ اس راستے پر چل پڑتے ہیں تو پھر وہ خلق خدا کی بھلائی کے لئے ایسے ایسے کام کر جاتے ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کا نام زندہ رہتا ہے اور اگلی دنیا میں بھی انہیں جنت کا اعلی مقام عطا ہوتا ہے۔
میں درگا بدروح کی زبانی یہ باتیں سن کر بڑا حیران ہوا۔ میں نے اس سے کہا۔ ”میں نے پہلے کبھی تمہارے منہ سے ایسی باتیں نہیں سنیں۔ کیا تم ان باتوں پر یقین رکھتی ہو ؟“
درگا نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا۔ ”شیروان ! مجھے مرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ میری سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ میں بتوں کی پوجا کرنے والوں کے گھر پیدا ہوئی ۔ پھر میں بھی ساری زندگی بتوں کی پوجا کرتی رہی۔ کاش میں کسی مسلمان کے گھرانے میں جنم لیتی۔ صرف ایک خدا کی عبادت کرتی پھر میری بخشش ہو جاتی اور مرنے کے بعد میں بدروح کی شکل اختیار نہ کرتی۔ مگر اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ مجھے بدروح بن کر اپنے برے کرموں کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی۔“
درگا کی بدروح کچھ دیر تک بالکل خاموش رہی۔ تہہ خانے کی فضا میں ایک عجیب سا سکوت چھا گیا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔”میں تمہیں بتا رہی تھی کہ صرف تم ہی روہنی کی مدد کر سکتے ہو۔“
میں نے کہا۔ ”کیا نتالیا کا طلسم مجھ پر اثر نہیں کرے گا؟‘‘
درگا نے کیا۔ اس سے بچنے کا طریقہ میں تمہیں بتادوں گی۔“ مگر میں بند چار دیواری میں کیسے داخل ہوں گا ؟“ میں نے پوچھا۔ درگا بولی۔ ’’یہ بھی میں تمہیں بتا دوں گی کہ تمہیں کیا کرنا ہوگا۔ اس مہم پر تم
اکیلے نہیں جاؤ گے ۔ “

میں نے پوچھا۔ ”کیا تم بھی میرے ساتھ جاؤ گی ؟“ درگا کہنے لگی۔" نہیں۔ میں نہیں جاؤں گی۔ میری ایک غلام بدروح تمہارے ساتھ جاۓ گی۔ اس کا نام پاتالی ہے ۔ پاتالی ایک عورت کی شکل میں تمہارے ساتھ جاۓ گی۔ وہی تمہیں اپنے ساتھ اس جگہ لے جاۓ گی جہاں آسیبی نتالیا نے روہنی کو قید کر رکھا ہے ۔ بدروح یاتالی کو سب پتہ کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ وہ تمہیں جو کہے گی تمہیں اس پر عمل کرنا ہوگا۔ میں نے پاتالی کو سب کچھ سمجھا دیا ہے۔ میں نے اس کے اندر اپنی طاقت بھی ڈال دی ہے ۔ پاتالی میں اب اتنی طاقت آگئی ہے کہ وہ روہنی کو نتالیا کی قید سے ضرور نکال لاۓ گی۔ ہاں تم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی چاہئے۔
اگر تم سے کوئی غلطی ہو گئی تو پھر سارا کام خراب ہو سکتا ہے۔ “ میں نے کہا۔ " میں یاتالی کے کہنے پر چلوں گا۔ جیسے وہ مجھے کہے گی میں کرتا جاؤں گا اپنی مرضی سے کچھ نہیں کروں گا۔“ درگا بولی۔’’ ٹھیک ہے ۔اب میں پاتالی کو یہاں بلاتی ہوں۔‘‘ درگا کے حلق سے ایک عجیب چیخ نما آواز نکلی۔ اس کے ساتھ ہی سامنے والی دیوار میں سے سیاہ دھوئیں کا ایک مرغولہ نمودار ہوا اور درگا کے سامنے آکر رک گیا ۔۔۔۔
درگا نے کہا۔ " پاتالی! یہ شیروان ہے۔ تمہیں اس کو اپنے ساتھ لے کر جانا ہوگا۔ میں نے تمہیں سب کچھ سمجھا دیا ہے۔ روہنی میری سہیلی ہے ۔ وہ مجھے بہت پیاری ہے ۔ اس کو ہر حال میں نتالیا کے آسیب کی قید سے نکال کر لانا ہے۔“

پاتالی بدروح کے سیاہ مرغولے میں سے بھاری اور کسی حد تک ڈراؤنی آواز بلند ہوئی۔ ’’درگا میا! تمہارے لئے پاتالی کی جان بھی حاضر ہے۔ میں روہنی کو بڑی جلدی تمہارے پاس لے آؤں گی۔“

درگا کی بدروح نے کہا۔ ’’ یہ شیروان ہے ۔ اس کے بارے میں، میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ یہ کون ہے اور روہنی کے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہے۔ میں نے اسے بھی سمجھا دیا ہے۔ یہ تمہارے علم کے مطابق چلے گا اور وہی کرے گا جو تم کہو گی ۔‘‘ پاتالی بدروح کے مرغولے کی آواز ابھری۔ ’’درگا میا! آدمی کی ذات کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہو گئی تو پھر مجھے کچھ نہ کہنا۔“ درگا نے کہا۔ ”نہیں۔ یہ کوئی غلطی نہیں کرے گا۔ اب تم اسے لے کر اپنی مہم پر
روانہ ہو جاؤ۔“
پاتالی بدروح کے سیاہ مرغولے نے کہا۔ ’’جو حکم درگا میا!‘‘ اس کے بعد دھوئیں کا مرغولہ گھومنے اور چکر کھانے لگا۔ گھومتے گھومتے وہ رک گیا اور اس کے بعد ہی ایک خوبصورت لڑکی کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کا رنگ سانولا تھا۔ چہرے کے نقوش تیکھے تھے ۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ اس بدروح لڑکی نے کالج کی لڑکیوں کی طرح جینز پہنی ہوئی تھی اور اس کے بال بھی کٹے ہوۓ تھے۔ کندھے کے ساتھ پرس لٹک رہا تھا۔
درگا نے مجھ سے کہا۔ ’’شیروان ! اس سے ملو۔ یہ پاتالی ہے۔“
پاتالی نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر انگریزی میں بولی ۔ ” تم سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔“ میں پہلی بار ایک ایسی بدروح کو دیکھ رہا تھا جو انگریزی بولتی تھی۔ میں نے بھی انگریزی میں جواب دیا۔ ” مجھے بھی تم سے مل کر خوشی ہوئی ہے ۔‘‘ درگا نے پاتالی سے کہا۔ ” پاتالی! اس مہم میں اگر کسی وقت میری مدد کی ضرورت پڑ جاۓ تو فورا میرا منتر پڑھ کر پھونکنا میں یہی سے تمہیں بتا دوں گی کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے۔
پاتالی نے کہا۔ ” جو حکم درگا میا‘‘
ایک سوال بار بار میرے دل میں اٹھ رہا تھا۔ میں نے آخر درگا سے پوچھ ہی لیا۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’درگا! میرے بازو پر کالے جادوگر نے جو ہڈی کا تعویذ باندھ رکھا ہے اس کے بارے میں اس نے کہا تھا کہ کوئی بدروح میرے قریب بھی نہیں بھٹک سکے گی۔ لیکن اس بدروح پاتالی نے تو مجھ سے ہاتھ بھی ملایا ہے اور اسے کچھ نہیں ہوا۔ کیا کالے جادو گر کا تعویذ بے اثر ہو گیا ہے ؟‘‘
درگا نے کہا۔” نہیں ۔ کالے جادوگر کا دیا ہوا تعویذ بےاثر نہیں ہوا۔ اس کا طلسمی اثر قائم ہے۔ پاتالی پر اس کا اثر اس لئے نہیں ہوا کہ یہ بدروح اچھی نیت سے تمہارے پاس آئی ہے ۔ یہ تمہیں نقصان پہنچانے کے لئے نہیں آئی۔ بلکہ تمہاری مدد کرنے کے لئے آئی ہے اس طرح یہ اب تمہارے لئے بدروح نہیں رہی۔ یہ تمہاری دوست اور ہمدرد بن چکی ہے اس لئے تعویذ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اگر یہ بری نیت سے آتی تو تم سے ہاتھ ملاتے ہی جل کر راکھ ہو جاتی۔“
درگا کی بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ اس نے پاتالی سے کہا۔’’پاتالی! اپنی مہم پر شیروان کو لے کر روانہ ہو جاؤ۔“ اور اتنا کہہ کر درگا کی بدروح غائب ہوگئی۔ پاتالی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بڑی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔’’چلو مائی ڈیئر شیروان!‘‘ پاتالی ماڈرن لڑکیوں کی طرح بات کرتی مجھے بڑی اچھی لگی مگر میں جانتا تھا کہ آخر یہ بھی بدروح ہی ہے ۔ تہہ خانے سے نکلنے کے بعد میں محل کے پرانے خلفیہ دروازے کی طرف بڑھا تو پاتالی نے کہا۔ ”ہم خفیہ دروازے سے نہیں جائیں گے ۔ ہم اسی دروازے سے جائیں گے جس دروازے سے ٹورسٹ باہر جاتے ہیں۔“
جب میں نے پاتالی کو بتایا کہ یہ قدیم محل انڈیا کے محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں ہے اور گیٹ پر رات کو بھی چوکیدار موجود ہوتے ہیں تو اس نے کہا۔ " مجھے معلوم ہے
ہم محل کے بڑے ہال کمروں میں سے گزرتے ہوۓ محل کے صحن میں آگئے ۔ پاتالی وہاں رک گئی۔ اس نے اپنے پرس میں سے ایک سادہ سی انگوٹھی نکال کر مجھے دی اور کہا۔’’اسے انگلی میں پہن لو۔“ ۔ میں نے انگوٹھی اپنی انگلی میں پہنی تو میں غائب ہو گیا۔ اب جو میں نے دیکھا تو پاتالی بھی غائب ہو چکی تھی مگر غائب ہونے کے باوجود مجھے اس کا دھندلا دھندلا خاکہ سا نظر آرہا تھا۔ کہنے لگی۔ میں جتنا تمہیں نظر آرہی ہوں اتنا صرف تم ہی مجھے دیکھ سکو گے دوسرا کوئی انسان مجھے اتنا بھی نہیں دیکھ سکے گا۔“
ہم محل کے گیٹ کی طرف بڑھے ۔ وہاں خوب روشنی ہو رہی تھی اور رات کو پہرہ دینے والے دو چوکیدار موجود تھے۔ ہم ان کے درمیان سے گزر گئے ۔ ان میں سے کسی نے ہمیں نہ دیکھا۔
پاتالی نے کہا۔ "ابھی کافی رات باقی ہے ۔ میرا دل کافی پینے کو چاہ رہا ہے ۔ جے پور کے ایک ہوٹل میں ٹورسٹوں کے لئے رات بھر کافی کی سروس کھلی ہوتی ہے ۔ چلو وہاں چلتے ہیں۔“
شاید اسے میں غائب ہونے کے باوجود بھی دکھائی دے رہا تھا کیونکہ جب وہ مجھ سے بات کر رہی تھی تو اس کا چہرہ بالکل میرے چہرے کی سیدھ میں تھا اور اس کی نگاہیں میری آنکھوں پر مرکوز تھیں۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ” یہ ہوٹل یہاں سے کتنی دور ہوگا؟“ میں آخر زندہ انسان تھا غائب ہونے کے باوجود اس قسم کے سوال پوچھنے پر مجبور تھا۔
پاتالی نے مسکرا کر کہا۔ اپنا ہاتھ مجھے دو۔ “میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے کہا۔ ’’آنکھیں بند کرو۔ جب تک میں نہ کہوں آنکھیں نہ کھولنا۔“ میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔ آنکھیں بند کرتے ہیں تیز ہوا کا جھونکا میرے جسم سے ٹکرا گیا۔ پاتالی نے کہا۔ ’’آنکھیں کھول دو۔ “ میں نے آنکھیں کھول دیں ۔ میں نے دیکھا کہ میں ایک ماڈرن قسم کے عالی شان ہوٹل کی لابی میں کھڑا تھا اور پاتالی مجھے اپنے پورے جسم کے ساتھ بالکل صاف نظر آ رہی تھی۔
وہ اب غائب نہیں تھی۔ اس نے کہا۔ " انگوٹھی اتار کر جیب میں رکھ لو۔ “ میں نے انگوٹھی اتاری تو میں بھی غیبی حالت سے اپنی زندہ انسانی شکل میں واپس آ گیا۔ کچھ غیر ملکی گورے سیاح تھوڑے فاصلے پر کرسیوں پر بیٹھے مشروب وغیرہ پی رہے تھے اور دھیمی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ ان میں گوری عورتیں بھی تھیں۔ ہم ایک میز کے گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ یہ جے پور کے راجہ کا محل تھا جس کو ریاست چھن جانے کے بعد راجہ نے ہوٹل میں تبدیل کر
دیا تھا۔
ایک سرخ وردی والا بیرہ جس نے سرخ راجستھانی پگڑی باندھی ہوئی تھی ہماری میز پر آگیا۔ پاتالی نے دو کافی کا آرڈر دے دیا۔ میز پر گلدان میں پھول لگے ہوۓ تھے ۔ گلابی رنگ کے ٹشو پیپر بھی ایک مشہری ڈبے میں نظر آرہے تھے ۔ پاتالی نے ایک ٹشو پیپر نکال کر اپنے ہونٹوں پر آہستہ سے پھیرا پھر پرس میں سے اپنا چھوٹا سا وینیٹی کیس نکال کر چھوٹا سا گول آئنہ سامنے کر کے ہونٹوں پر لپ سٹک کی تہہ جمانے لگی۔ میں یہ سوچ کر دل میں ہنس پڑا کہ اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ یہ ایک بدروح ہے تو میں اس کے عشق میں گرفتار ہو سکتا تھا۔
بیرا کافی کا ٹرے رکھ کر چلا گیا۔ میں نے کافی بنائی اور ہم کافی پینے لگے۔ میں نے پاتالی سے کہا۔ " پاتالی! اس وقت ہم بڑے ماڈران اور دوستانہ ماحول میں بیٹھے ہیں۔ کیا میں تم سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں ؟‘‘ پاتالی نے اپنی طلسم زدہ نظروں سے مجھے گھور کر دیکھا اور بولی۔”میں جانتی ہوں تم مجھ سے یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ میں کون ہوں ؟ کہاں پیدا ہوئی اور کہاں میری موت واقع ہوئی ؟ یاد رکھو۔ مجھ سے اور سب کچھ پوچھ سکتے ہو مگر اس قسم کے سوال پوچھنے کا خیال بھی دل میں نہ لانا۔‘‘
میں وہیں سہم کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر تک ہم خاموشی سے کافی پیتے رہے۔ پھر میں نے کہا۔ ’’ آئی ایم سوری پاتالی!‘‘ - پاتالی مسکرائی۔’’اٹ از آل رائٹ شیروان!‘‘ - میں نے گفتگو کا موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوۓ پاتالی سے کہا۔ " مجھے یقین ہے کہ تمہیں معلوم ہوگا کہ ہمارا ٹارگٹ یہاں سے دور انڈیا کے شمالی پہاڑی علاقے میں اس کرسچین قبرستان کا ویران کھنڈر ہے جس کے تہہ خنے میں نتالیا کے آسیب نے روہنی کو قید کر رکھا ہے۔“
پاتالی نے پرس میں سے سگریٹ کیس نکال کر ایک سگریٹ سلگالیا۔ میں پہلی بار کسی بدروح کو سگریٹ پیتے دیکھ رہا تھا۔ واقعی یہ ایک ماڈرن بدروح تھی اور اس سے کسی انسان کا بچنا ناممکن تھا۔ سگریٹ کا ہلکا سا کش لگا کر کہنے لگی۔ ’’ مجھے سب کچھ معلوم
ہے۔“
میں نے کہا۔ ”ہمیں صبح کے وقت جے پور سے دہلی جانے والی گاڑی مل جاۓ گی۔ دہلی سے ہم پنجاب میل کے ذریعے چندی گڑھ پہنچ جائیں گے ۔ وہ کھنڈر چندی گڑھ کی شمالی پہاڑیوں میں ایک جگہ ہے ۔ میں نے وہ جگہ دیکھی ہوئی ہے ۔" پاتالی کہنے لگی۔ میں نے بھی دیکھی ہوئی ہے ۔“ بیرا قریب سے گزرا تو پاتالی نے اسے اشارے سے پاس بلا کر کہا۔ ”دو کافی اور کچھ سینڈوچز لے آؤ۔“
بیرا ادب سے سر جھکا کر چلا گیا۔ پاتالی نے مجھ سے کہا۔ ”صبح ہونے تک ہمیں وقت تو گزارنا ہی ہے اور جے پور میں ٹائم پاس کرنے کے لئے اس سے اچھی جگہ کہیں نہیں ہے۔“
میں نے پاتالی سے کہا۔’’ ایک بار میں روہنی کے ساتھ پرانے کھنڈر کی طرف گیا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ہوا میں اڑا کر لے گئی تھی۔“ پاتالی کے دلکش چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ کہنے لگی۔’’یہ میں بھی بڑی آسانی سے کر سکتی ہوں لیکن ایک عرصہ سے میں نے ٹرین میں سفر نہیں کیا۔ جب میں زندہ تھی تو ٹرین میں سفر کرنا میری ہالبی ہوا کرتی تھی۔ اب مجھے موقع ملا ہے تو میں اسے ضائع نہیں کرنا چاہتی ۔
ہم چندی گڑھ تک ٹرین میں ہی سفر کریں گے ۔“ پاتالی نے ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد سگریٹ کا ہلکا سا دھواں اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’درگا میا نے مجھے بتایا تھا کہ روہنی تم سے بڑی محبت کرتی ہے اور تم بھی اب اس سے محبت کرنے لگے ہو ۔ کیا یہ سچ ہے؟“ ۔ عورت چاہے بدروح بن جاۓ مگر محبت کے بارے میں باتیں کرنا اور دوسروں
کی محبت کی سراغ رسانی کرنا کبھی فراموش نہیں کرتی۔ میں نے کہا۔ ’’ہاں ۔ تھوڑی تھوڑی محبت مجھے اس سے ہو گئی ہے ۔‘‘ پاتالی مجھے بڑی سنجیدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
کہنے لگی۔ "تم زندہ انسانوں کو کیا معلوم کہ ہم بری روحوں کی محبت کیا ہوتی ہے۔ تمہاری محبت صرف تمہاری زندگی تک زندہ رہتی ہے ۔ موت کے ساتھ ہی تم سب محبتیں وغیرہ بھلا دیتے ہو جبکہ ہم بدروحوں کی محبت مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ایسی محبت کبھی نہیں مرتی۔“ میں نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ بہر حال مجھے زندگی سے پیار تھا اور مجھے زندہ انسانوں سے محبت کرنا ہی اچھا لگتا تھا۔ ان بدروحوں اور ان کی دنیا سے تو میں تنگ آ چکا تھا۔ بیرا کافی اور سینڈوچز لے کر آگیا۔
پاتالی نے کہا۔’’شیروان ! تم بھی کچھ کھالو۔“ ۔ میں نے بھی دو ایک سینڈوچز کھاۓ ۔ واقعی بڑے لذیذ تھے۔ پاتالی بھی بڑے سکون سے کھا رہی تھی۔ کہنے لگی۔ " یہ ڈشیں کھانے کا ہمیں کبھی کبھی ہی موقع ملتا ہے ۔ ہم اکثر غیبی حالت میں رہتی ہیں اور تمہیں بھی اس کا تجربہ ہو گیا ہوگا کہ غیبی حالت میں بھوک پیاس نہیں لگتی چاہے ایک ماہ گزر جائے ۔" میں نے کہا۔ " ہاں ۔ یہ تو ہے ۔ لیکن پاتالی تم لوگ تو چپ چپا ہو انسانی شکل میں آ کر یہ چیزیں کھا سکتی ہو ۔“
پاتالی نے کافی بناتے ہوئے کہا۔ ہماری دنیا کے بھی کچھ قانون ہیں اور ہمارے قانون پر بڑی سختی سے عمل کیا جاتا ہے ۔ ہمیں بھی کبھار ہی انسانوں کی دنیا میں آنے کا موقع ملتا ہے ۔“
لابی کے مخلاقی طرز کے اونچے روشندانوں میں دن کا اجھالا جھلکنے لگا تھا۔ بیرا ایک پلیٹ میں بل رکھ کر چلا گیا تھا۔ کافی کا گھونٹ بھرنے کے بعد پاتالی نے اپنی کلائی کی گھڑی پر نگاہ ڈال کر کہا۔ " ساڑھے پانچ بچ گئے ہیں۔ دہلی کی ٹرین ٹھیک سوا چھ بجے جے پور سے روانہ ہوتی ہے ۔“ میں نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ ’’پاتالی! یہ تو ٹرین کے روانہ ہو سفر کا بالکل صحیح ٹائم تم نے بتایا۔‘‘
پاتالی نے نیا سگریٹ سلگاتے ہوۓ کہا۔" ہمیں بہت سی باتوں کا پہلے سے پتہ چل جاتا ہے ۔
اس نے بیرے کو اشارے سے بلایا اور کہا۔ " میں نے پانچ سو کا نوٹ بل کے نیچے رکھ دیا ہے ۔“
بیرے نے بل ہٹا کر دیکھا نیچے واقعی پانچ سو روپے کا بالکل نیا نوٹ رکھا ہوا تھا حالانکہ میں نے پاتالی کو پرس میں سے نوٹ نکال کر بل کے نیچے رکھتے نہیں دیکھا تھا۔ ، ۔
روہنی عام طور پر اپنی مٹھی میں سے نوٹ نکال کر ادائیگی کیا کرتی تھی مگر پاتالی اس سے دو قدم آگے نکل گئی تھی۔ اس نے بل کے نیچے ہی پانچ سو کا نوٹ پیدا کر دیا تھا۔ پاتالی نے پرس اپنے کندھے سے لٹکا کر اٹھتے ہوئے کہا۔ " چلو چلیں ۔ ہم محل نما ہوٹل کے باہر آگئے ۔ باہر صبح ہو چکی تھی۔ ایک طرف پیلو کیب ٹیکسیاں کھڑی تھیں۔ دوسری سمت پرائیویٹ ٹیکسیاں کھڑی تھیں ۔ پاتالی نے کہا۔ ”ہم پرائیویٹ ٹیکسی میں بیٹھ کر سٹیشن جائیں گے ۔“
وہ ایک نئے ماڈل کی ٹیکسی میں پیچھے میرے ساتھ بیٹھ گئی اور ٹیکسی سٹیشن کی طرف روانہ ہو گئی۔ پاتالی نے مجھے انگریزی میں کہا۔ ” کبھی ٹیکسی میں ڈرائیور کی سیٹ کے ساتھ نہ بیٹھنا۔ یہ خاندانی روایات کے خلاف بات ہے ۔“ میں نے سوچا کہ واقعی میں بدروح کسی اعلی ارسٹو کریٹ گھرانے کی لڑکی ہے جو خدا جانے اپنے کس گھناؤ نے گناہ کی پاداش میں ہندو دھرم کے سنسکاروں کے مطابق مرنے کے بعد ایک بدروح کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ درگا نے اور خود پاتالی نے بھی مجھے اس قسم کے ذاتی سوال پوچھنے سے منع کیا ہوا تھا ورنہ میں اس سے ضرور پوچھتا کہ وہ کہاں پیدا ہوئی تھی۔۔
اور اس نے کس کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اور اس سے کون
سا ایسا گناہ سر زد ہو گیا تھا جس کی وہ اتنی سخت سزا بھگت رہی ہے ۔ جے پور کے سٹیشن پر پہنچنے کے بعد میں نے پاتالی سے کہا۔’’تم یہیں ٹھہرو میں ٹکٹ لے آتا ہوں۔“
اس نے کہا۔’’ ٹکٹ میرے پرس میں موجود ہیں۔‘‘ تب مجھے خیال آیا کہ یہ تو بدروح ہے۔ یہ جو چیز چاہتی ہے مہیا کر لیتی ہے۔ ٹکٹ اس کے پاس فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ کے تھے۔ ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ ابھی اس کے روانہ ہونے میں کچھ دیر تھی ۔ وہ میرے آگے آگے جارہی تھی۔ فرسٹ کلاس کی بوگی کے پہلے ڈبے میں داخل ہوتے ہی اسے جیسے کسی نے اندر سے دھکا دیا اور پاتالی باہر پلیٹ فارم پر گر پڑی۔ میں نے جلدی سے اسے اٹھایا۔ وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی۔ بولی۔ جلدی سے آ گے چلو۔“
یہ کہہ کر وہ اگلے ڈبوں کی طرف دوڑ پڑی۔ میں نے فرسٹ کلاس کے ڈبے میں نگاہ ڈالی کہ دیکھوں اس کو اندر سے کس نے دھکا دیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ کمپارٹمنٹ کی کونے والی سیٹ پر ایک سفید داڑھی والے صاحب پنجسورہ دونوں ہاتھوں میں تھامے بڑے خضوع و خشوع سے قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے ۔ ساری بات میری سمجھ میں آگئی۔ جہاں کلام الہی کی تلاوت ہو رہی ہو وہاں بری روح کا گزرنا ناممکن ہے ۔ میں دوڑ کر آگے گیا۔ دیکھا کہ پاتالی ٹرین سے کچھ فاصلے پر پلیٹ فارم کے ایک ستون کے پیچھے چپ کر کھڑی ہے۔ مجھے دیکھتے ہی بولی۔ " ہم اس ٹرین میں سفر نہیں کریں گے۔۔
سٹیشن سے باہر آ جاؤ۔“ ہم پلیٹ فارم کا پل عبور کر کے دوسرے پلیٹ فارم سے ہو کر سٹیشن سے باہر آ کر فرسٹ کلاس ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے۔ نہ میں نے پوچھا کہ اس کے ساتھ کیا واقعہ ہوا تھا اور نہ پاتالی نے ہی مجھے کچھ بتایا۔ کہنے لگی ۔ دوسری ٹرین تین بجے چلے گی ۔ ہم تب تک اس ویٹنگ روم میں انتظار کریں گے ۔“
ہم نے وہیں دوپہر کا کھانا منگوا کر کھایا۔ میں نے محسوس کیا کہ بدروح پاتالی پلیٹ فارم پر اس وقت جانا چاہتی تھی جب دہلی جانے والی ٹرین وہاں آ چکی ہو ۔ تین بجے ٹرین کا ٹائم تھا جو ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی اور چار بجے آئی۔ پاتالی نے مجھے ساتھ لیا اور تیز تیز قدموں سے چلتی فرسٹ کلاس بوگی کے ایک کمپارٹمنٹ کے دروازے پر آئی۔ اندر جھانک کر دیکھا جب اس نے دیکھا کہ سب ٹھیک ہے تو وہ ڈبے میں داخل ہو گئی۔ میں اس کے پیچھے تھا۔ ڈبے میں صرف ایک غیر ملکی ادھیڑ عمر گوری عورت اپنے سامان کے پاس سیٹ پر بیٹھی ٹھنڈا جوس پی رہی تھی۔
اس نے ہمیں ایک نظر دیکھا اور پھر جوس پیتے ہوئے باہر پلیٹ فارم کی طرف دیکھنے لگی۔ ہم نے سامنے والی سیٹ پر ڈیرہ جمالیا۔ سامان ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ جے پور کے سٹیشن پر گرمی تھی۔ فرسٹ کلاس کا وہ کمپارٹمنٹ ایئر کنڈیشنڈ نہیں تھا۔ غیر ملکی عورت نے ہماری طرف دیکھ کر انگریزی میں کہا۔ ”کمپارٹمنٹ کا ایئر کنڈیشنڈ خراب ہے۔ میں نے گارڈ کو رپورٹ لکھوا دی ہے مگر یہ لوگ کچھ نہیں کر رہے ۔“ پاتالی کو گرمی نہیں لگ رہی تھی۔ بدروحوں کو نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس نہ گرمی لگتی ہے نہ سردی۔ میں نے غیر ملکی عورت کو انگریزی میں ہی جواب دیا۔ ’’ آج گرمی بھی زیادہ ہے ۔‘‘
غیر ملکی عورت نے پاتالی کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا۔ ” تم لوگ کہاں جار ہے ہو ؟
پاتالی نے کہا۔’’ ہم دہلی جا رہے ہیں ۔‘‘ غیر ملکی عورت بولی ۔’’ میں بھی دہلی جا رہی ہوں ۔ میر انام مارگریٹ ہے ۔ میں دہلی کے ایک گرلز کالج میں انگریزی پڑھاتی ہوں ۔ تم کوئی جاب کرتی ہو ؟“
پاتالی نے یو نہی کہہ دیا۔ " نہیں۔
غیر ملکی عورت سمجھ گئی کہ پاتالی اس سے زیادہ بات چیت نہیں کرنا چاہتی ۔ چنانچہ وہ تھیلے میں سے ایک کتاب نکال کر پڑھنے لگی۔ کچھ کے بعد ٹرین چل پڑی۔ رات ہو گئی تھی جب ٹرین دہلی پہنچی۔۔۔
میں اور پاتالی فرسٹ کلاس ریفریشمنٹ روم میں جا کر بیٹھ گئے کیونکہ مجھے کھانا کھانا تھا۔ پاتالی یونہی میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو گئی تھی حالانکہ اسے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے پاتالی سے کہا۔ ” یہاں سے اب ہمیں صبح کو ہی چندی گڑھ کے لئے کوئی ٹرین مل سکے گی۔
اس نے کہا۔ کوئی بات نہیں۔ ہم ویٹنگ روم میں ٹرین کا انتظار کریں گے ۔‘‘ باقی رات ہم نے ویٹنگ روم میں گزار دی۔ معلوم ہوا کہ پنجاب میل دن کے نو بجے روانہ ہوتی ہے ۔ ہمیں ٹکٹ خریدنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ پاتالی کے پرس میں اپنے آپ دہلی سے چندی گڑھ کے دو فرسٹ کلاس کے ٹکٹ آگئے تھے۔ بہر حال ہم چندی گڑھ پہنچ گئے ۔ اس وقت وہاں رات کے دس بج رہے تھے۔ وہاں سے ہم نے ایک پرائیویٹ ٹیکسی لی اور شمالی پہاڑی علاقے کے ایک چھوٹے ہل سٹیشن کی طرف چل پڑے۔ اس ہل سٹیشن سے وہ قبرستان والا کھنڈر چند فرلانگ کے فاصلے پر ہی تھا جہاں بقول درگا کے روہنی کو نتالیا کے آسیب نے بند کر رکھا تھا۔
ایک گھنٹے میں ہم ہل سٹیشن پہنچ گئے ۔ ہم نے اپنے آپ کو میاں بیوی ظاہر کر کے ہوٹل کا ایک کمرہ لے لیا۔ اور آدھی رات ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔ جب رات آدھی گزر گئی تو پاتالی نے پرس میں سے انگوٹھی نکال کر مجھے دی اور کہا۔’’اسے پہن لو۔‘‘
میں نے انگوٹھی پہن لی۔ اس کے ساتھ ہی میں غائب ہو گیا مگر میں اس حالت میں بھی پاتالی کے پاس موجود تھا اور صرف پاتالی ہی مجھے دیکھ سکتی تھی ۔ اس نے پرس میں سے کسی درندے کا نوکیلے ناخنوں والا پنجہ نکالا اور کہنے لگی۔’’ یہ ریچھ کا پنجہ ہے۔ میں نے اس پر ایک خاص منتر پھونکا ہوا ہے ۔ اس کے بعد اچانک پاتالی بھی غائب ہو گئی۔ میں اسے غائب ہونے کے بعد بھی دیکھ رہا تھا۔ ریچھ کا نوکیلا پنچہ اس کے ہاتھ میں تھا۔
کہنے لگی۔’’ میرے ساتھ آجاؤ۔“ ہم نے کمرے کے دروازے کو بند کر کے اندر سے چٹخنی لگا رکھی تھی۔ ہم بند دروازے میں سے گزر گئے۔ ہوٹل کے باہر دو تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔ روشنی ہو رہی تھی۔ایک چوکیدار بندوق لئے سٹول پر بیٹھا بیڑی پی رہا تھا۔ ہم اس کے قریب سے گزر گئے۔ اس نے ہم میں سے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ ہوٹل سے ذرا آ گے پہاڑی کی ہلکی سی چڑھائی تھی۔ آگے تھوڑی سی اترائی تھی۔ پھر چڑھ کے اونچے اونچے درختوں میں سے ایک راستہ قبرستان والے کھنڈر کی طرف جاتا تھا۔ ہم خاموشی سے اس راستے پر چل رہے تھے ۔ چاروں طرف سکوت چھایا ہوا تھا۔ رات سرد تھی مگر ہمیں سردی بالکل نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔
پاتالی صحیح راستے پر جا رہی تھی۔ ڈیڑھ دو فرلانگ کا پہاڑی راستہ طے کرنے کے بعد ہم قبرستان کے شکستہ گیٹ پر آگئے۔ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں یہ دو تین سو سال پرانا ایک کرسچین قبرستان تھا جس کی قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھیں۔ قبرستان میں موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میں نے قبرستان کو پہچان لیا تھا۔ جہاں قبرستان کی ٹوٹی پھوٹی دیوار تھی اس کے قریب ہی وہ کھنڈر تھا جس کے تہہ خانے میں روہنی قید تھی اور جہاں نتالیا مجھے اغواء کر کے لائی تھی اور اس نے زبردستی مجھ سے شادی کی تھی۔
کھنڈر کو دیکھ کر مجھ پر ایک خوف سا طاری ہو گیا۔ اگرچہ میں غائب تھا اور میرے بازو پر کالے جادوگر کی دی ہوئی طلسم زد ہڈی کا تعویذ بندھا ہوا تھا اس کے باوجود مجھے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کیونکہ نتالیا کی طاقت آسیبی تھی جس کا مقابلہ کوئی بدروح نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کالے جادو گر کا تعویذ بھی نتالیا کی آسیبی طاقت کے آگے شکست کھا جائے اور روہنی کے ساتھ میں بھی دوبارہ نتالیا کی قید میں چلا جاؤں۔
پاتالی قبرستان کی دیوار کے پاس آکر رک گئی۔ میں اسے دھڑکتے ہوۓ دل کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اندھیرے میں مجھے اس کی شکل صورت اور جسم صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے مجھے دیوار کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میرے پاس ہی وہ بھی بیٹھ گئی ۔۔۔
وہ مسلسل کھنڈر کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ اس کے ہونٹ آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ وہ منہ ہی منہ میں کوئی خفیہ منتر پڑھ رہی تھی۔ پہاڑی علاقے کی رات سرد اور پراسرار تھی ۔ دھند کی ایک لہر نے ویران کھنڈر کے گرد لپٹ کر اسے اور زیادہ پراسرار بنا دیا ہوا تھا۔ اچانک ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔ یہ آواز ایک ایسی گڑ گڑاہٹ کی تھی جیسے زمین کے اندر سے آ رہی ہو ۔ میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ مجھے ہر لمحے نتالیا کے آسیب کا خطرہ لگا ہوا تھا
اور اس وقت تو مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے میں موت کے منہ میں بیٹھا ہوا ہوں۔ اس گڑ گڑاہٹ کا پاتالی پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ اسی طرح بت بنی بیٹھی ویران کھنڈر کی طرف مسلسل دیکھ رہی تھی اور خفیہ منتر پڑھ رہی تھی۔ دوسری بار گڑ گڑاہٹ کی آواز بڑی دور سے آنے لگی۔ اس کے بعد گہری خاموشی چھا گئی۔ پاتالی نے میرے کان میں سرگوشی کی۔’’ یہ پنچہ یہاں زمین میں گاڑ دو۔
میں نے ریچھ کا پنجہ اس کے ہاتھ سے لے کر اسے زمین میں گاڑ دیا۔ گیلی نرم زمین میں پنجے کے ناخن دھنس گئے تھے۔ پاتالی نے میرے کان میں کہا۔ ”روہنی اندر موجود ہے۔ میں اسے لینے جا رہی ہوں ۔ تم یہاں سے مت ہلنا اگر یہ پنجہ زمین سے اچھل کر فضا میں غائب ہو جاۓ تو فورا یہاں سے فرار ہو جانا۔ ایک منٹ کی بھی دیر کی تو مارے جاؤ گے ۔“
یہ کہہ کر پاتالی اٹھی اور بالکل سیدھی ہو کر جیسے کوئی نیند میں چلتا ہو کھنڈر کی طرف چل پڑی۔ میں قبرستان کی فکنہ دیوار کی اوٹ میں بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کھنڈر کے قریب پہنچی تو ڈھند کی لہر نے اسے اپنے اندر چھپا لیا اور وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اب میں اس منحوس آسیبی فضا میں غیبی حالت میں اکیلا رہ گیا تھا۔ کسی وقت مجھے لگتا تھا کہ یہ بدروح پاتالی ماری جاۓ گی اور روہنی کو بھی اپنے ساتھ مروائے گی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نتالیا کی طاقت سے واقف تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ بدروحیں آسیبوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اگر ایک بات ہوتی تو روہنی اب تک نتالیا کے چنگل سے نکل کر واپس آ گئی ہوتی۔ کسی وقت محسوس ہوتا کہ نہیں یہ پاتالی بدروح خاص طاقت درگا بدروح سے لے کر آئی ہے اور اس کے پاس نتالیا کے آسیب پر غالب آنے کا طلسمی منتر موجود ہے ۔
دو تین منٹ گزر گئے۔ خاموشی اور زیادہ گہری اور ڈراؤنی محسوس ہونے لگی تھی۔ کوئی آواز ، کوئی آہٹ تک سنائی نہیں دے رہی تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ مجھے جہاں میں بیٹھا تھا وہاں زمین کے اندر سے آئی ایک گونج سنائی دی جیسے زمین کی گہرائیوں میں کوئی بہت بڑی چٹان ٹوٹ کر کھولتے ہوئے لاوے میں گری ہو ۔ میں گھبرا کر اٹھے کھڑا ہوا اور زمین کی طرف دیکھنے لگا۔ ریچھ کا پنجہ اسی طرح زمین میں دھنسا ہوا تھا۔ ایک دم سے مجھے لگا جیسے میرے پاؤں کے نیچے زمین سخت گرم ہو گئی ہے ۔ میرے پاؤں جلنے لگے۔ میں اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
اسی لمحے ویران آسیبی کھنڈر کی طرف سے ایسی دہشت ناک آواز سنائی دی جیسے کوئی بہت بڑی، ریچھ سے بھی بڑی بلی رو رہی ہو ۔ یہ آواز اتنی ڈراؤنی تھی کہ مجھے یقین ہے اس کے خوف سے سرد رات کی خاموشی بھی لرز اٹھی ہوگی۔ میرے پاؤں کے نیچے زمین زیادہ گرم ہوتی جارہی تھی۔ میں غائب ضرور تھا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ پاتالی کی انگوٹھی پہننے سے میں اس طرح غائب ہوا تھا کہ میرے جسم کا بوجھ بالکل ہلکا نہیں ہوا تھا تھوڑے تھوڑے میرے پاؤں زمین کے ساتھ ضرور لگ رہے تھے ۔ میں قبرستان کی شکستہ دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
میں ایک سیکنڈ کے بعد ریچھ کے پنجھے کو بھی دیکھ لیتا تھا۔ وہ ابھی تک زمین میں دھنسا ہوا موجود تھا۔ پاتالی نے کہا تھا کہ اگر پنجہ غائب ہو جائے تو تم فورا وہاں سے بھاگ جانا۔ میں ویران کھنڈر کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا۔ فضا ایک بار پھر ساکت ہو گئی تھی۔ کسی طرف سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے ویران کھنڈر میں سے ایک چیخ کی آواز آئی۔ اس کے بعد دوسری چیخ کی آواز بلند ہوئی۔ ان آوازوں نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے ۔ پھر ایک ایسی آواز کے ساتھ کہ جیسے راکٹ فائر ہوا ہو رپچھ کا پنجہ زمین میں سے نکل کر اوپر کی طرف اٹھا اور غائب ہو گیا۔
ویران کھنڈر میں سے چیخیں ہی چیخیں بلند ہونے لگی تھیں۔ میں تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگا۔
ایک دم دوڑنے سے مجھے ایک دھکا لگا اور میں زمین سے غبارے کی طرح چار فٹ بلند ہو کر فضا میں اڑتا چلا گیا۔ میں اپنے بازو اس طرح چلانے لگا جیسے کوئی تیراک تیراکی کے مقابلے میں سمندر میں پوری طاقت سے تیرتا جا رہا ہو۔ میں اڑتے اڑتے درختوں کے اوپر آ گیا اور جس طرف کو میرا رخ تھا میں اسی سمت کو پرواز کرنے لگا۔ بازوؤں کو چلانے سے اتنا فرق ضرور پڑا کہ میری رفتار ایک دم تیز ہو گئی اور پھر میں اسی رفتار کے ساتھ پرواز کرنے لگا۔ ہل سٹیشن کی پہاڑی ہوٹل اور مکانوں کی روشنیاں میرے نیچے سے گزر گئیں۔
میں نے ان کو ذہن میں رکھ کر اپنا رخ بدل کر چندی گڑھ شہر کی طرف کر لیا۔ اب میں پہاڑی علاقے میں پہاڑیوں کے اوپر زمین سے دو ڈھائی سو فٹ کی بلندی پر اڑتا چلا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ پاتالی کو بھی نتالیا کے آسیب نے پکڑ لیا ہے ۔ وہ شاید زندہ نہیں بچی ہو گی۔ مجھے پہلے ہی ڈر تھا کہ یہ بدروح نتالیا کے آسیب کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ خدا جانے پاتالی کی حماقت کی وجہ سے روہنی کے ساتھ نتالیا کے آسیب نے کیا سلوک کیا ہوگا۔ شاید میں کالے جادوگر کے طلسمی ہڈی والے تعویذ کی وجہ سے نتالیا کے حملے سے بچ گیا تھا ورنہ وہ مجھے وہاں سے بھی نہ بھاگنے دیتی ۔ بہرحال میں خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ میری جان بچ گئی۔
مگر اب میرا کیا ہوگا؟ میں کہاں جاؤں گا؟ یہی سوال مجھے پریشان کر رہا تھا۔ آخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھے درگا کے پاس واپس جانا چاہئے اور اسے ساری صورت حال سے آگاہ کرنا چاہئے ۔ وہی مجھے بتا سکتی ہے کہ اب مجھے کیا کرنا ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد نیچے کسی نیم پہاڑی شہر کی بے شمار چھوٹی بڑی جھلملاتی روشنیاں نظر آنے لگیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ چندی گڑھ ہی ہے۔اس کے آگے مجھے معلوم نہیں تھا کہ جے پور جانے کے لئے مجھے فضا میں اپنے آپ کو کس رخ پر رکھنا ہوگا۔ یہ میرے لئے بڑا مشکل کام تھا۔ میں اکیلا کبھی فضا میں پرواز کرتے ہوۓ کسی شہر کی طرف نہیں گیا تھا۔
میں نے یہی مناسب سمجھا کہ چندی گڑھ اتر جاتا ہوں اور وہاں سے بذریعہ ٹرین جے پور جاؤں گا۔ میں نے نیچے روشنیوں کی طرف غوطہ لگایا اور تیزی سے نیچے آنے لگا۔ میں ایک چھوٹے سے پارک میں اتر گیا۔ رات کا وقت تھا۔ پارک میں مرکزی لیمپ روشن تھے۔ کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میں غیبی حالت میں آہستہ آہستہ چلتا پارک کے گیٹ سے باہر نکل کر سڑک پر آ گیا۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ سڑک دور تک سنسان پڑی تھی۔ میں اور پاتالی جالندھر تک ٹرین میں آئے تھے اس کے بعد ہم نے ایک پرائیویٹ ٹیکسی میں چندی گڑھ تک سفر کیا تھا۔
پاتالی تو جتنے پیسے چاہے کرنسی نوٹوں کی شکل میں پیدا کر لیتی تھی مگر میں ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ میرے پاس تو کوئی پیسہ نہیں تھا۔ میں نے چلتے چلتے اپنی پتلون کی جیبوں کو ٹٹولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میری پتلون کی پچھلی جیب میں ایک بٹوا پڑا تھا۔ میں نے کبھی بٹوا نہیں رکھا تھا۔ میں نے بٹوے کو کھول کر دیکھا اس میں کافی نوٹ بھرے ہوئے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ پاتالی نے میری جیب میں رکھ دیئے ہوں گے ۔
چندی گڑھ بھارتی پنجاب کا دارالحکومت ہے اور بڑا خوبصورت اور ماڈرن شہر ہے۔ وہاں بڑے بڑے ہوٹل ہیں جو ساری رات کھلے رہتے ہیں۔ میں نے دور سے ایک ہوٹل کا چمکتا ہوا نیوان سائن بورڈ پڑھا تو اس طرف بڑھا۔ قریب آکر میں ایک طرف اندھیرے میں ہو گیا اور میں نے پاتالی کی انگوٹھی اپنی انگلی سے اتار کر جیب میں رکھ لی۔ انگو ٹھی کے اترتے ہی میں اپنی انسانی شکل میں واپس آ گیا۔ میں نے ہوٹل کے کاؤنٹر پر آ کر کاؤنٹر بواۓ سے پوچھا کہ یہاں سے جالندھر کی طرف بسیں کہاں سے جاتی ہیں۔
اس نے کہا۔’’ آپ کو کہاں جانا ہے ؟‘‘ میں نے کہا۔’’ میں دہلی جانا چاہتا ہوں۔“ اس نے کہا۔ ” پھر آپ کے لئے یہی مناسب رہے گا کہ چندی گڑھ سے انبالہ جانے والی کوسٹر میں بیٹھ جائیں۔ وہ آپ کو بڑے آرام سے انبالہ پہنچا دے گی۔ وہاں سے آپ دہلی کی ٹرین پکڑ سکتے ہیں۔
جب میں نے اس سے پوچھا کہ انبالے جانے والے کوسٹر کوچ کب مل سکے گی تو اس نے کہا۔ ’’ابھی رات کے دو بجنے والے ہیں ۔ کوسٹر صبح چھ بجے چلنا شروع ہوتی ہیں۔‘‘
میں نے پوچھا۔ ”کیا میں یہاں آپ کے ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر یہ وقت گزار سکتا ہوں ؟‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ نو پرابلم سر ضرور بیٹھ جائیں۔
میں لابی میں آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک بیرا آ گیا۔ اس نے پوچھا۔ سر کیا پئیں گے ؟“
میں نے کہا۔ ” چائے لے آؤ۔“
بیرا چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دو چائے کے برتن میرے آگے رکھ گیا۔ میں چاۓ بنانے گا۔ میں نے چاۓ بناتے ہوۓ لابی کا جائزہ لیا۔ لابی تقریبا خالی پڑی تھی۔ تین صوفے چھوڑ کر ایک نیلی ساڑھی والی عورت بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی ۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ پہلے ہی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے نظریں دوسری طرف کر لی۔۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 29

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں