پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 29

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 29

میں لابی میں آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک بیرا آ گیا۔ اس نے پوچھا۔ سر کیا پئیں گے ؟“
میں نے کہا۔ ” چائے لے آؤ۔“
بیرا چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دو چائے کے برتن میرے آگے رکھ گیا۔ میں چاۓ بنانے گا۔ میں نے چاۓ بناتے ہوۓ لابی کا جائزہ لیا۔ لابی تقریبا خالی پڑی تھی۔ تین صوفے چھوڑ کر ایک نیلی ساڑھی والی عورت بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی ۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ پہلے ہی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے نظریں دوسری طرف کر لی۔۔۔

نظریں دوسری طرف کر لیں۔ چائے بنائی اور خاموشی سے پینے لگا۔ میں سوچ رہا تھا کہ دہلی سے بھی میں ٹرین کے ذریعے ہی جے پور در لگا کے پاس جاؤں گا۔ اب مجھے ہوا میں اڑ کر کسی جگہ جانے کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس کافی پیسے آگئے ہیں ۔ میں ٹرین میں سفر کر سکتا ہوں۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ وہی نیلی ساڑھی والی عورت اپنے صوفے سے اٹھ کر میرے سامنے والے صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ وہ جوان تھی اور خوبصورت بھی تھی۔ مگر مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اس سے پہلے کہ میں اس سے پوچھتا کہ وہ کس لئے میرے پاس آئی ہے ۔اس عورت نے کہا۔ ” میں ایک عجیب مصیبت میں مبتلا ہو گئی ہوں۔ پلیز میری مدد کیجئے۔“ وہ بڑی صاف اردو زبان میں بول رہی تھی۔ میں نے اس عورت کو غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر معصومیت کے ساتھ کچھ گھبراہٹ بھی تھی۔ میں نے پوچھا۔ ” میں خود یہاں اجنبی ہوں۔ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں ؟“ عورت نے کہا۔’’مجھ سے ایک بڑی بھول ہو گئی ہے۔ ایک پاپ ہو گیا ہے ۔ بھگوان نے مجھے اس کی سزا دی ہے ۔ “
مجھے پوچھنا ہی پڑا کہ اس سے کیا گناہ ہو گیا؟ اس عورت نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔ " میرا نام انجلی ہے ۔ میں دہلی میں اپنے خاوند کے ساتھ رہتی تھی کہ ایک آدمی سے مجھے محبت ہو گئی۔ وہ بھی مجھ سے بڑا پریم کرنے لگا۔ اس نے کہا چلو دہلی سے بھاگ کر چندی گڑھ چلے جاتے ہیں۔ وہاں ہم شادی کر لیں گے ۔ میں اس کی باتوں میں آگئی اور اپنے خاوند کو چھوڑ کر اپنے پریمی کے ساتھ یہاں چندی گڑھ بھاگ آئی۔ وہ آدمی بڑا دھوکے باز نکلا۔ اس نے مجھے اس ہوٹل میں اپنے ساتھ بیوی ظاہر کر کے رکھا مگر اس نے مجھ سے شادی نہ کی۔

میں اپنے ساتھ جو زیور اور پیسے لائی تھی وہ جب ختم ہو گئے تو وہ دھوکے باز مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اب میں یہاں پر یشان حال بیٹھی ہوں۔ میرے پاس ہوٹل کا بل ادا کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔“
میں نے کہا۔ ” آپ ٹیلی فون کر کے اپنے خاوند کو یہاں کیوں نہیں بلوا لیتی ؟" اس نے کہا۔ ” میں نے اپنے خاوند کو فون کیا تھا۔ اس نے یہ کہہ کر فون بند کیا کہ میں اسے آئندہ فون نہ کروں۔ وہ میری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا۔ اب میں دہلی اپنے ماتا پتا کے پاس جانا چاہتی ہوں مگر میرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں ہے ۔ ہوٹل کا بل بھی ادا کرنا ہے۔ پلیز آپ میری مدد کیجئے ۔ آپ مجھے اچھے آدمی لگے ہیں۔ میں نے کہا۔ ”
شریمتی جی! میں آپ کا ہوٹل کا بل بھی ادا کر دیتا ہوں اور آپ دہلی تک کا ریل گاڑی کا کرایہ بھی دے دیتا ہوں۔ آپ اپنے گھر چلی جائیں۔‘‘ عورت نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ” مجھے اکیلی جاتے ہوۓ ڈر لگتا ہے ۔ پلیز آپ مجھے دہلی تک چھوڑ آئیں۔ میں آپ کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھلاؤں گی۔ میں نے کہا۔’’ ٹھیک ہے۔ مجھے بھی دہلی جانا ہے۔ آپ میرے ساتھ جاسکتی ہیں۔ آپ کا ہوٹل کا بل کتنا ہے ؟" - اس نے پرس میں سے بل نکال کر مجھے دیا۔ یہ ایک ہزار دو سو پچاس روپے کا تھا۔۔۔

میں نے بٹوے میں سے پوری رقم نکال کر اسے دی اور کہا۔ ’’ آپ یہ بل ادا کر دیں۔
عورت نے کہا۔ ” آپ نے میری زندگی کو تباہ ہونے سے بچا لیا ہے ۔ آپ
انسان نہیں دیوتا ہیں ۔ “ میں نے کہا۔ ”بی بی ! میں کوئی دیوتا وغیرہ نہیں ہوں۔ معمولی انسان ہوں ۔ میرے پاس پیسے تھے آپ کو ضرورت تھی میں نے آپ کی ضرورت پوری کر دی۔ انسان اگر کسی ضرورت مند کی مدد کر سکے تو اسے ضرور مدد کرنی چاہئے ۔ جائیں بل ادا کر دیں۔
عورت اٹھ کر کاؤنٹر کی طرف چلی گئی۔ میں نے سوچا کہ بے چاری مجبور عورت ہے۔ ایک بدمعاش کے جھانسے میں آ گئی ہے۔ اچھا ہوا میرے پاس پیسے تھے اور میں نے اسے مصیبت سے نکال دیا۔ میں اسے اپنے ساتھ دہلی لئے چلتا ہوں وہاں اسے ٹیکسی میں بٹھا دوں گا کہ جاؤ بی بی اپنے ماتا پتا کے گھر جاؤ اور پھر کبھی گھر سے قدم باہر نہ نکالنا۔
عورت بل ادا کر کے میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور بار بار میرا شکریہ ادا کرنے لگی۔ میں نے کہا۔ ”بی بی میرا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے ایک انسانی فرض ادا کیا ہے اور میں اتفاق سے یہ فرض ادا کرنے کی پوزیشن میں تھا۔‘‘ ” آپ مجھے مسلمان لگتے ہیں۔ عورت نے کہا۔ میں نے کہا۔ " جی ہاں! الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں ۔“ ” آپ دہلی میں کہیں ملازم ہیں ؟‘‘ اس نے پوچھا۔ میں نے کہا۔ ”بی بی! اس قسم کے کسی سوال کا جواب دینا پسند نہیں کروں گا۔ آپ کو دہلی جانا ہے میں آپ کو دہلی پہنچا دوں گا۔“ عورت خاموش ہو گئی۔ اتنی دیر میں باہر صبح کا اجالا نمودار ہو چکا تھا۔
میں نے عورت سے کہا۔ "ہم یہاں سے ایک کوچ میں بیٹھ کر انبالے تک جائیں گے ۔ انبالے سے ہم دہلی کے لئے ٹرین پکڑیں گے ۔‘‘ وہ بولی۔ جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ وہ میری طرف اس طرح دیکھتی تھی جیسے کوئی پجاری عورت ، اپنے کسی دیوتا کی مورتی کی طرف دیکھتی ہے ۔
میں نے کہا۔ تھوڑا سا ناشتہ یہی کر لیتے ہیں۔ راستے میں شاید کہیں موقع نہ ملے “
میں نے اپنے اور اس عورت کے لئے ناشتے کا آرڈر دے دیا۔ ہم ناشتہ کرنے لگے ۔ عورت کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا کہ یہ گھریلو قسم کی سیدھی سادھی عورت ہے ۔ زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں لگتی تھی ۔ ایسی عورتیں بڑی جلدی بدمعاش قسم کے مردوں کے جھانسے میں آجاتی ہیں ۔ ناشتہ کرتے کرتے ہیں پانچ بچ گئے ۔
وہیں سے ہم بسوں کے اڈے پر آگئے۔ وہاں سے ایئر کنڈیشنڈ بسیں اور کوسٹرز چلتی تھیں ۔ میں نے انبالے کے دو ٹکٹ لئے اور ہم ایک آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ کوسٹر میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد کوسٹر انبالے کی طرف روانہ ہو گئی۔ لمبا سفر تھا مگر بڑا آرام دہ تھا۔ ہم انبالے پہنچ گئے۔ وہاں ایک ہوٹل میں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا اور ریلوے سٹیشن پر آگئے۔ وہاں سے ہم دہلی جانے والی گاڑی میں سوار ہو کر دہلی روانہ ہو گئے ۔ ٹرین دہلی رات کے ایک بجے پہنچی۔
اس عورت نے کہا۔ ’’اتنی رات گئے میں ماتا پتا کے گھر نہیں جانا چاہتی ۔ پلیز مجھے صبح صبح پہنچا دینا۔‘‘
جے پور کی گاڑی بھی مجھے دن کے وقت ہی مل سکتی تھی۔ میں نے سوچا کہ صبح اسے اس کے گھر روانہ کر کے خود جے پور چل دوں گا۔ میں نے کہا۔ ” ٹھیک ہے ۔ صبح چلے جانا لیکن اتنا وقت ہمیں ویٹنگ روم میں ہی گزارنا پڑے گا۔‘‘
وہ بولی۔”کوئی بات نہیں۔ ہم ویٹنگ روم میں بیٹھ جائیں گے ۔“ ہم سیکنڈ کلاس کے ویٹنگ روم میں آگئے ۔ عورت کہنے لگی۔’’ میرا سر درد کر رہا ہے ۔ پلیز میرے ساتھ ریفریشمنٹ روم تک آ جائیں۔ میں چائے پینا چاہتی ہوں۔" مجھے خود چاۓ کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ میں اسے لے کر سیکنڈ کلاس کے ریفریشمنٹ روم میں آ گیا۔ رات کے ایک بجے ریفریشمنٹ روم خالی پڑا تھا۔ میں نے چاۓ منگوالی ۔ عورت کہنے لگی۔’’ آپ کے لئے میں چاۓ بناؤں گی۔‘‘ اس نے بڑے اہتمام سے چاۓ کی خالی پیالیاں اپنے سامنے رکھ لیں اور مجھ سے چینی پوچھی ۔ میں نے کہا۔ ” ایک چمچ۔ “
میری پیالی میں اس نے چینی کا ایک چمچ ڈالا۔ پھر قہوہ ڈالا اور دودھ ڈالنے کے بعد چمچہ ہلاتے ہوۓ بولی ۔ آپ سچ مچ میرے لئے دیوتا بن کر آگئے تھے۔ آپ نہ آتے تو خدا جانے میرا کیا حال ہوتا۔‘‘
وہ اسی طرح کی باتیں کرتی رہی اور ساتھ ساتھ میری پیالی میں چمچ بھی ہلاتی گئی۔ میں نے کہا۔’’اتنا نہ ہلاؤ۔ چاۓ ٹھنڈی ہو جاۓ گی۔“ ’’ شما کیجئے گا۔ مجھے خیال نہیں رہا۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے پیالی میرے آگے کر دی۔ پھر اپنی چائے بنانے لگی۔ میں نے چائے کا ایک گھونٹ پیا۔ مجھے چائے پھیکی لگی مگر میں نے کوئی خیال نہ کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ میری طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔ میں نے سوچا کہ یونہی دیکھ رہی ہوگی۔ چائے کے تین چار گھونٹ پینے کے بعد مجھے چکر سا آ گیا۔ میں نے پیالی میز پر رکھ دی اور سر کو ایک ہاتھ سے دبانے لگا۔ عورت نے پوچھا۔ ” کیا ہوا؟‘‘
میں نے کہا۔ "یونہی چکر سا آ گیا تھا۔" وہ بولی۔’’ پلیز آپ لیٹ جائیں۔‘‘ اور وہ اٹھ کر میرے پاس آ گئی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے بازوؤں کو تھام لیا۔ اس وقت میرا جسم تقریبا سن ہو چکا تھا۔ میں نے کچھ بولنا چاہا مگر میری زبان جیسے پتھر بن چکی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ عورت میرے اس بازو کو ٹٹول رہی تھی جس بازو پر میں نے کالے جادو گر کا دیا ہوا ہڈی کا تعویذ باندھ رکھا تھا۔ میں فورا سمجھ گیا کہ عورت بدروح ہے جسے نتالیا نے میرا تعویذ چرانے کے لئے بھیجا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے کلمہ پاک کا دل میں ورد کیا اور پورے جوش اور جذبے کے ساتھ اپنے جسم اور اپنی روح کی پوری طاقت کو ایک جگہ مرکوز کرتے ہوۓ گرج کر کہا۔’’ دفع ہو جا بدروح! دفع ہو جا بدروح!‘‘
میرے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ عورت کی شکل ایک دم بدروح کی شکل بن گئی۔ وہ چیخ مار کر مجھ سے الگ ہوئی ۔ اس کا جسم شعلوں میں بھڑکا اور وہ چیختی چلاتی غائب ہو گئی۔ اگر ریفریشمنٹ روم خالی نہ ہوتا تو وہاں نہ جانے کیسا ماحول پیدا ہوجاتا۔ ریفریشمنٹ روم خالی تھا اور اس بدروح کی چیخوں کی آواز بھی شاید کسی نے نہیں سنی تھی کیونکہ دوسرے کمرے میں سے نہ کوئی ملازم باہر نکلا تھا اور نہ باہر سے کوئی آدمی معلوم کرنے اندر آیا تھا کہ یہ چیخوں کی آواز کیسی ہے ۔۔۔
بدروح کے غائب ہوتے ہی میرے جسم کی طاقت واپس آگئی اور میرے سر کے چکر بھی غائب ہو گئے۔ میں نے بازو کو ٹٹول کر دیکھا۔ تعویذ اسی طرح میرے بازو کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ اللہ تعالی نے مجھے اس بدروح کے حملے سے بچا لیا تھا۔ اتنے میں بیرا آگیا۔ سر آپکو کچھ اور چاہئے ؟ اس نے پوچھا۔ میں نے کہا۔” نہیں ۔ کتنا بل ہے ؟“ اس نے بل نکال کر میرے آگے پلیٹ میں رکھ دیا۔ میں نے بٹوے میں سے پچاس روپے کا انڈین نوٹ نکال کر پلٹ میں رکھا اور باہر آگیا۔ میرا دل اپنے رب کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہا تھا۔ اگر اللہ پاک کی مدد میرے شامل حال نہ ہوتی تو نتالیا کی بدروح کے اس حملے سے میرا بچنا ناممکن تھا۔ اس بدروح نے میری پیالی میں چمچ ہلاتے ہوئے کوئی منتر چاۓ میں پھونک دیا تھا جس کا مجھے احساس نہیں ہوا تھا۔
اس وقت میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں کسی اجنبی عورت یا اجنبی مرد کا اعتبار نہیں کروں گا خواہ وہ کسی بھی قابل رحم حالت میں میرے پاس کیوں نہ آجائے۔
میں صبح تک ویٹنگ روم میں ہی بیٹھا رہا۔ جے پور جانے والی گاڑی مجھے صبح سوا آٹھ بجے ملی۔ میں اس میں بیٹھ کر جے پور پہنچ گیا۔ جے پور میں ادھر ادھر پھرنے یا کسی باغ میں بیٹھنے کی بجاۓ میں نے اس وقت ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیا اور کمرے میں آکر دروازہ بند کر کے انتظار کرنے لگا کہ کب آدھی رات ہو اور میں درگا کی بدروح سے ملاقات کرنے پرانے محل میں جاؤں۔ میں نے کمرے میں ہی رات کا کھانا کھایا ۔ جب رات کے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت ہوا تو میں نے جیب سے پاتالی کی انگوٹھی نکال کر انگلی میں پہن لی۔ انگوٹھی کے پہنتے ہی میں غائب ہو گیا۔ اب مجھے دروازہ کھول کر باہر نکلنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ میں بند دروازے میں سے ہی باہر نکل گیا۔
وہاں سے سیدھا ویران تاریخی محل میں آ گیا اور تہہ خانے میں بیٹھ کر درگا کی بدروح کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ درگا کی بدروح ٹھیک آدھی رات کو نمودار ہوئی۔اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ کہنے لگی۔’’پاتالی نے تمہیں نتالیا کے آسیب سے بچا لیا لیکن خود پھنس گئی۔‘‘
میں نے پوچھا۔ ” کیا اسے بھی نتالیا نے روہنی کے ساتھ قید کر لیا ہے ؟‘‘ اس نے کہا۔ " نہیں ۔ نتالیا میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ پاتالی کے داؤ کا مقابلہ کر سکے ۔ پاتالی میری تمام غلام بدروحوں سے زیادہ ہوشیار اور طاقتور بدروح ہے ۔اسے عین وقت پر نتالیا کے آسیب کے حملے کا پتہ چل گیا اور اس نے وہ منتر پڑھ کر اپنے اوپر پھونکا جو بدروحیں اس وقت پھونک سکتی ہیں جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اگر انہوں نے منتر نہ پھونکا تو دشمن انہیں مار ڈالے گا۔ پاتالی نے بھی ایسا ہی کیا اور اس کی جان بچ گئی ۔۔۔
میں نے پوچھا۔ ”لیکن پھر وہ مجھے ملی کیوں نہیں ؟ کیا وہ تمہارے پاس بھی نہیں آئی؟“
درگا نے کہا۔ ’’وہ اس حالت میں ہے کہ نہ تمہارے پاس آ سکتی ہے اور نہ میرے پاس آسکتی ہے ۔ “
میں نے حیران ہو کر کہا۔’’ایسی کون سی انہونی بات ہو گئی ہے ۔ کیا مجھے نہیں بتاؤ گی؟
درگا کی بدروح نے کہا۔’’ وہی انہونی بات بتانے کے لئے تو میں یہاں تمہارے پاس آئی ہوں۔ کیونکہ اس وقت پاتالی کی صرف تم ہی مدد کر سکتے ہو اور اسے اس مصیبت سے نکال سکتے ہو جس میں وہ اپنے اوپر منتر پھونکنے کے بعد پھنس گئی ہے ۔“ میں نے درگا سے کہا۔ ’’آخر بات کیا ہوئی ہے۔ کچھ بتاؤ تو سہی۔“ درگا کی بدروح کہنے لگی۔ ’’شیروان ! تمہیں یاد ہے روہنی ایک بار تمہیں بدروحوں کی دنیا میں اپنی سہیلی مالینی کے پاس لے گئی تھی ؟“
میں نے کہا۔ ’’ہاں ! مجھے یاد ہے ۔“ درگا بولی ۔’’ اور تمہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ مالینی نے تمہیں ایک خطرناک منتر بتایا تھا جس کے صرف چار لفظ تھے ۔ “منتر اس وقت بھی مجھے یاد آ گیا۔ میں نے کہا۔’’ہاں مجھے وہ چار لفظی منتر اس وقت بھی یاد ہے۔ میں یہی چار لفظوں والا منتر پڑھ کر چمگادڑ بن گیا تھا اور چمگادڑ بن کر وہاں گیا تھا جہاں مالینی مجھے بھیجنا چاہتی تھی۔“
”تم نے بالکل ٹھیک کہا۔‘‘درگا بولی۔’’اور تمہیں یہ بھی ضرور یاد ہوگا کہ مالینی نے تمہیں کہا تھا کہ یہ چار لفظوں والا منتر صرف اس وقت پڑھ کر اپنے اوپر پھونکنا جب موت تمہارے سامنے کھڑی ہو اور بچنے کا کوئی راستہ نہ ہو کیونکہ یہ منتر پڑھنے کے بعد تم صرف غائب نہیں ہو گے بلکہ غائب ہوتے ہی کسی بھی جانور کی شکل اختیار کر سکتے ہو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کسی دوسرے انسان کی شکل اختیار کر لو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کوئی جنگلی درندہ بن جاؤ۔ اس کے بعد ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تمہیں منتر بھول جاۓ اور تمہیں ساری زندگی جنگلی درندہ بن کر ہی گزارنی پڑے ۔
“ میں نے کہا۔ ”لیکن جب میں یہ منتر اپنے اوپر پھونک کر چمگادڑ بن گیا تھا تو مجھے یہ منتر یاد تھا اور میں اسے دوبارہ اپنے اوپر پھونک کر ہی اپنی انسانی شکل میں واپس آگیا تھا ۔۔
درگا نے کہا۔ ” تمہیں اس حالت میں یہ منتر اس وجہ سے یاد آگیا تھا کہ تمہارے پیچھے مالینی کا ہاتھ تھا جو بدروحوں کی سردارنی ہے اگر اس کا ہاتھ تمہارے پیچھے نہ ہوتا تو ممکن ہے تمہیں منتر یاد نہ آتا اور تم اس وقت تک چمگادڑ ہی بنے رہتے جب تک کہ دوبارہ تمہیں منتر یاد نہ آتا۔ یہ بدروحوں کی سردارنی کا سب سے خطرناک منتر ہے۔ اس کی یہی ایک بات خطرناک ہے کہ اگر یہ منتر شکل بدلنے کے بعد یاد نہ آۓ تو وہ عورت یا مرد یا بدروح جس شکل میں ظاہر ہوئی ہوگی کچھ پتہ نہیں کب تک اسے اس شکل میں زندہ رہنا پڑے۔
میں کچھ کچھ سمجھ گیا تھا کہ درگا مجھے پاتالی کے بارے میں کیا بتانے والی ہے۔ میں نے پوچھا۔ ” کیا پاتالی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ ہوا ہے ؟“ درگا نے کہا۔ ’’ہاں ! اب میں تمہیں بتاتی ہوں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ جب وہ تمہیں قبرستان کی دیوار کے پاس چھوڑ کر روہنی کو قید سے نکالنے ویران کھنڈر کے تہہ خانے کی بند دیوار کے پاس آئی تو نتالیا کا آسیب و ہیں گھات لگاۓ اس کے انتظار میں تھا۔ اس نے فورا اس پر حملہ کر دیا۔ مگر پاتالی بڑی ہوشیار تھی۔ اسے ایک سیکنڈ پہلے احساس ہو گیا کہ اس پر حملہ ہونے والا ہے ۔ وہ جانتی تھی کہ یہ حملہ کسی بدروح کا نہیں بلکہ ایک خطرناک آسیب کا حملہ ہے جس سے وہ اپنا بچاؤ نہیں کر سکے گی۔
چنانچہ اس نے فورآ چار لفظی منتر پڑھ کر پھونکا اور پھر . . . . . " درا خاموش ہو گئی۔ میں نے بے چین ہو کر پوچھا۔ اور پھر کیا ہوا؟‘‘ درگا بولی۔ " چار لفظوں والا خطرناک منتر پڑھنے کے بعد پاتالی غائب ہو کر ایک ایسی عورت کے جسم میں داخل ہو گئی ہے جس کی جان ہر وقت خطرے میں رہتی ہے ۔ چوبیس گھنٹے جس کے پیچھے پولیس بندوقیں ، رائفلیں لے کر اسے ہلاک کرنے کے لئے لگی رہتی ہے ۔ اس طرح وہ کسی بھی وقت پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہو کر ہلاک ہو
سکتی ہے یا پھر پولیس اسے پکڑ کر پھانسی کے تختے پر پہنچا سکتی ہے جہاں اس کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے ایک سیکنڈ میں ہلاک کیا جا سکتا ہے ۔
چنانچہ اب نتالیا کے آسیب نے پاتالی کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ جان گیا ہے کہ پاتالی اپنے آپ موت کے منہ میں چلی گئی ہے جہاں کسی بھی وقت موت اسے نگل جاۓ گی۔‘‘
میرے ذہن میں خود بخود ایک سوال آگیا۔ میں نے درگا سے کہا۔ "اگر پاتالی کو مارنا ہی تھا تو کیا نتالیا کا آسیب خود اسے نہیں مار سکتا تھا؟‘‘ ڈرگا کہنے لگی ۔ نتالیا کے آسیب نے پاتالی کو ہلاک کرنے کے لئے ہی اس پر حملہ کیا تھا۔ لیکن جب پاتالی بدروحوں کی سردارنی مالینی کا چار لفظی منتر پڑھ کر غائب ہو گئی تو وہ نتالیا کے آسیب کے ہاتھ سے نکل گئی تھی لیکن یہ دیکھ کر نتالیا کے آسیب نے پاتالی کو خود ہلاک کرنے کا خیال چھوڑ دیا تھا کہ وہ خود بخود ایک ایسی عورت کے جسم میں داخل ہو گئی ہے جس کو کسی بھی وقت پولیس گولیوں سے چھلنی کر سکتی ہے یا پھانسی کا پھندا اس کی گردن میں ڈال سکتی ہے ۔“
میں نے پوچھا۔ ” پاتالی تو تمہاری خاص بدروح ہے ۔ پھر اسے مالینی کا خطرناک منتر یاد کیوں نہ رہا۔ وہ اسے پڑھ کر اپنی شکل میں واپس آ سکتی تھی۔“ درگا کی بدروح کہنے لگی۔ تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکو گے ۔ یہ بدروحوں کی دنیا کی باتیں ہیں اور تم انسانوں کی دنیا میں رہنے والے ایک سیدھے سادھے انسان ہو۔ پاتالی اگر چہ میری خاص بدروح ہے اور سب سے زیادہ چالاک اور خطرناک ہے لیکن اس کے باوجود اسے بدروحوں کی سردارنی مالینی کا آشیر باد یعنی اس کی توجہ حاصل نہیں ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو پاتالی کو غائب ہونے کے بعد منتر یاد رہتا جس طرح تمہیں چمگادڑ بنے کے بعد منتر یاد رہا تھا۔ اب کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پاتالی کو منہ یاد آۓ یا نہ آۓ ۔ جہاں تک میرا خیال ہے اسے یہ منتر یاد نہیں آۓ گا اور وہ بہت جلد یا تو پولیس مقابلے میں ماری جائے گی اور یا پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر پھانسی چڑھ جاۓ گی۔“
میں نے کہا۔ ”تم نے مجھے تجسس میں ڈال دیا ہے ۔ یہ عورت کون ہے جس کے جسم میں پاتالی کی بدروح داخل ہو گئی ہے ۔ اس کا نام کیا ہے ؟ وہ کہاں رہتی ہے ؟“ درگا بولی۔’’اس کا نام خنجری ہے ۔ خنجری بھارت کی سب سے خونخوار ڈاکو ہے۔ لوگ اس کا نام سن کر ڈر جاتے ہیں۔ اس وقت تک وہ سینکڑوں انسانوں کا خون کر چکی ہے۔ اس کی رائفل جس بد نصیب کی طرف اٹھ جاۓ گولی اس کا سینہ پھاڑ ڈالتی ہیں ۔۔۔۔
خنجری ڈاکو کا نام میں نے بھی سنا ہوا تھا اور اس کی کچھ خونی وارداتوں کا حال بھی سن رکھا تھا۔ میں نے کہا۔ اگر پاتالی اس خنجری ڈاکو کے جسم میں داخل ہو گئی ہے تو یہ ڈاکو عورت تو بدروح بن کر بدروحوں کی دنیا میں چلی گئی ہوگی۔" ” نہیں۔ ایسا نہیں ہوا۔‘‘درگا نے کہا۔ "پاتالی بدروح کے اس کے جسم میں داخل ہونے کے بعد خنجری پہلے سے زیادہ خونخوار ہو گئی ہے۔ " کیا اسے علم نہیں ہوا کہ اس کے جسم میں کسی عورت کی بدروح داخل ہو گئی
ہے ؟“
میرے سوال پر درگا نے کہا۔ " نہیں۔ خنجری کو اس کا احساس تک نہیں ہے ۔ وہ یہی سمجھ رہی ہے کہ وہ پہلے ایسی ڈاکو خنجری ہے اور دیوتاؤں نے اس کی طاقت میں اضافہ کر دیا ہے۔“ ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ”لیکن میں اس سلسلے میں پاتالی کی کیا مدد کر سکتا
ہوں ؟“
درگا نے کہا۔ " تم اس کے ڈاکوؤں کے گروہ میں شامل ہو جاؤ گے اور پھر اس کے جسم میں ایک خاص طریقے سے مالینی کا خطرناک چار لفظی منتر داخل کرنے کی کوشش کرو گے تاکہ پاتالی کو جو خنجری کے جسم میں ہے منتر یاد آ جاۓ اور وہ اسے دوبارہ پڑھ کر اپنی اصلی حالت میں واپس آ جاۓ۔‘‘
میں نے کہا۔’’اس کے جسم میں منتر داخل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اس کے پاس جا کر اس کو چار لفظوں والا منتر بتا دوں گا۔ وہ فورا سے پڑھ کر اپنی اصلی شکل میں واپس آ جاۓ گی۔‘‘
درگا نے کہا۔ ” پہلی بات تو یہ ہے کہ پاتالی ، ڈاکو خنجری کے روپ میں تمہیں بالکل نہیں پہچانے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم زبانی اگر اسے منتر بتاؤ گے تو وہ اس کے کانوں میں منتر کی شکل میں نہیں پڑے گا بلکہ اس کے کانوں تک جاتے جاتے بدل جاۓ گا۔ لفظ بدل جائیں گے ۔ ہو سکتا ہے تم وہ منتر خنجری کے سامنے پڑھو اور وہ یہ سمجھے کہ تم اس سے کہہ رہے ہو خنجری آج بڑا اچھا موسم ہے ۔ یا یہ کہ خنجری تم بڑی خوبصورت ہو ۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ چار لفظی منترا یک گالی بن کر خنجری ڈاکو کے کان میں داخل ہو جاۓ ۔
اس کے بعد وہ تمہیں کبھی زندہ نہیں چھوڑے گی۔ اس لئے خنجری کے سامنے اپنی زبان سے یہ منتر پڑھنے کی غلطی کبھی نہ کرنا۔‘‘ میں نے پوچھا۔ " تو پھر میں اس کے جسم میں منتر کیسے داخل کروں گا ؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔“ درگا کی بدروح بولی۔ ’’وہ میں تمہیں بتاؤں گی کہ تمہیں کیا کرنا ہوگا۔ پاتالی میری سب سے چہیتی غلام بدروح ہے۔ میں اسے اس حالت میں اکیلی نہیں چھوڑ سکتی۔ اگر اس پر مالینی کے منتر کا اثر نہ ہو چکا ہوتا تو میں خود اسے اس مصیبت سے نکال لیتی ۔
لیکن مالینی بدروحوں کی سردارنی ہے ۔ اس کے منتر کا توڑ میرے پاس بھی نہیں ہے۔ اس کے منتر کے توڑ کے لئے کسی زندہ انسان کی مدد لینی ضروری ہے اور زندہ انسانوں میں سے تم ہی ایک ایسے انسان ہو جو اتفاق سے اس وقت میرے پاس موجود ہے اور جس پر میں پورا بھروسہ کر سکتی ہوں۔ اب سنو! سب سے پہلے تم خنجری ڈاکو کا اعتماد حاصل کر کے اس کے گروہ میں شامل ہو گے اس کے بعد تم اسے اپنا گرویدہ بناؤ گے۔“
” میں ایک خونخوارنی ڈاکو کو اپنا گرویدہ کیسے بنا سکتا ہوں ؟‘‘ میں نے کہا۔ درگا بولی۔’’اس کی تم فکر نہ کرو۔ میں اس مہم میں تمہارے ساتھ ہوں گی۔ جہاں جہاں تمہیں مدد کی ضرورت ہوگی تمہاری مدد بھی کروں گی اور تمہیں کیا کرنا ہے یہ بھی بتاتی رہوں گی۔“
میں نے ایک اور سوال پوچھا جو بہت ضروری تھا۔ میں نے کہا۔’’یہ خونخوار ڈاکو خنجری ہوتی کہاں ہے ؟‘‘
درگا کہنے گئی ۔ بھارت کے صوبہ مدھیہ پردیش کے گھنے جنگلوں کو اس عورت نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے ۔ وہ اپنے گروہ کے ساتھ انہی جنگلوں میں ہوتی ہے مگر اس کے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن میں تمہیں جنگل کے اس حصے میں پہنچا دوں گی جہاں ان دنوں اس ڈاکو عورت نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے ۔ میں نے کہا۔ " تو کیا میں وہاں پہنچ کر اپنے آپ خنجری ڈاکو کے سامنے حاضر ہو جاؤں گا اور کہوں گا کہ مجھے اپنے گروہ میں شامل کر لو۔‘‘
درگا کہنے لگی ۔ ” نہیں ۔ اس طرح جا کر کہو گے تو وہ تمہیں پولیس کا جاسویں سمجھ کر وہیں گولی مار دے گی۔“
"پھر مجھے کیا کرنا ہوگا ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
درگا نے کہا۔ ”میں تمہیں اس وقت جنگل میں خنجری ڈاکو کے ڈیرے کے قریب پہنچاؤں گی جب وہ درختوں کے درمیان بہنے والی ایک ندی میں نہا رہی ہوگی۔ اس وقت میں ایک شیر کو اس کی طرف بھیج دوں گی۔ یہ شیر اس وقت میرے جادو کے اثر میں ہوگا۔ تم یوں سمجھ لو کہ میں شیر کے سر پر بیٹھی ہوں گی۔ تم قریب ہی ایک جھاڑی میں چھپے ہوئے ہو گے۔ جیسے ہی وہ خنجری ندی سے نہا کر باہر نکلے گی ۔
شیر میرے جادو کے اثر سے اس پر حملہ کر دے گا۔ عین اسی وقت تم جھاڑی میں سے نکل کر خنجر سے شیر پر حملہ کر دو گے ۔ عام حالات میں کوئی بھی انسان شیر کو خنجر سے ہلاک کرنے کی بھول کر بھی جرات نہیں کر سکتا لیکن تم ایسا ہی کرو گے ۔ شیر تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔ وہ اس وقت میرے کنٹرول میں ہوگا۔ تم اس کی گردن میں خنجر پیوست کر دو گے اور شیر زخمی ہو کر بھاگ جائے گا۔ خنجری ڈاکو تمہاری بہادری پر حیران رہ جاۓ گی۔اس کے گروہ کے آدمی بھی رائفلیں لے کر آجائیں گے ۔ وہ تم سے پوچھے گی کہ تم کون ہو اور اس جنگل میں کیا کر رہے ہو ؟
تم کہو گے کہ میں نے اپنے دشمن کو مار ڈالا تھا۔ پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی تھی۔ میں فرار ہو کر آ گیا ہوں۔ اس کے بعد وہ جو کہے گی اس کے جواب میں تمہیں کیا کہنا ہوگا وہ میں تمہیں ساتھ ساتھ بتاتی جاؤں گی کیونکہ میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ اب خنجری ڈاکو کے جنگل میں جانے کے لئے تیار ہو جاؤ۔“
میں نے کہا۔ ”ابھی تو رات کا اندھیرا ہے ۔ اس وقت وہ ندی پر کہاں نہا رہی ہو گی۔۔
درگا نے کہا۔ میں تمہیں بھی اٹھا کر نہیں لے جا رہی۔ تمہیں صبح کی پہلی گاڑی سے بھوپال روانہ ہو جانا ہوگا۔ بھوپال کے سٹیشن سے جب تم باہر نکلو گے تو میں تمہیں بتاتی جاؤں گی کہ آگے تمہیں کس طرف جانا ہے ۔ اب جاؤ اور ریلوے سٹیشن پر جا کر بھوپال جانے والی گاڑی کا انتظار کرو۔ اس کے ساتھ ہی درگا کی بدروح غائب ہو گئی۔
یہ مصیبت کے اندر ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ ابھی روہنی کو بھی میں نتالیا کی قید سے نہیں چھڑا سکا تھا اور پہلے پاتالی کو خنجری ڈاکو کے جسم سے باہر نکالنے کی مشکل آن پڑی تھی۔ لیکن یہ بھی بہت ضروری تھا کیونکہ درگا نے بتا دیا تھا کہ صرف پاتالی ہی ایک ایسی بدروح ہے جو روہنی کو نتالیا کی قید سے آزاد کرا سکتی ہے اور روہنی وہ عورت تھی جس کی مدد سے مجھے نتالیا کی قید سے ہمیشہ کے لئے نجات پانی تھی اس لئے سب سے پہلے پاتالی کو واپس اپنی اصلی حالت میں لانا ضروری ہو گیا تھا۔ میں اس وقت غیبی حالت میں تھا۔
میں نے پاتالی کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔اسی حالت میں ،میں تاریخی ویران محل سے نکل کر جے پور کے ریلوے سٹیشن پر آ گیا اور بھوپال جانے والی گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ سٹیشن میں داخل ہونے سے پہلے میں نے پاتالی کی انگوٹھی اپنی انگلی سے اتار کر جیب میں رکھ لی تھی اور زندہ انسانی حالت میں تھا۔ پیسے میرے پاس کافی تھے ۔ میں نے بھوپال تک کا ٹرین کا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ لے لیا تھا۔ میرے کون سے اپنے پیسے تھے کہ مجھے یہ خیال ہوتا کہ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لوں۔ فرسٹ کلاس کے ڈبے میں مجھے یہ سکون بھی ملتا تھا کہ ڈبے میں ایک دو مسافر ہی ہوتے تھے اور میں آرام سے سوچ بچار کرتا اپنی منزل پر پہنچ جاتا تھا۔ صبح منہ اندھیرے دہلی کی طرف سے ایک ٹرین آگئی۔
یہ ٹرین بھوپال سے ہوتی ہوئی بمبئی جاتی تھی۔ میں اس کے فرسٹ کلاس کے ڈبے میں بیٹھ گیا۔ جے پور سے بھوپال کافی دور واقع ہے ۔ ڈبے میں ایک لالہ جی بھی سوار تھے ۔ میں نے انہیں کہہ دیا کہ بھوپال کا سٹیشن آۓ تو مجھے جگا دینا اور خود آرام دہ سیٹ پر لیٹ گیا۔ ساری رات کا جاگا ہوا تھا لیٹتے ہی سو گیا۔ راستے میں ایک دو جگہ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ابھی بھوپال نہیں آیا تھا۔ ایک جگہ مجھے لالہ جی نے جگا دیا۔ کہنے لگے ۔ مہاراج! بھوپال آ گیا ہے ۔“
میں اٹھ بیٹھا۔ ٹرین بھوپال کے سٹیشن میں داخل ہو رہی تھی۔ میں نے سٹیشن پر کھانا کھایا اور یہ انتظار کرنے لگا کہ کب درگا کی بدروح آکر مجھے یہ بتاتی ہے کہ مجھے آگے کس طرف جانا ہے۔ کیونکہ بھوپال مدھیہ پردیش کا شہر ہے اور اس کے ارد گرد گھنے جنگل پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہی وہ جنگل تھے جن کے اندر کسی جگہ خونخوار ڈاکو خنجری نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ میں پلیٹ فارم پر چاۓ کے سٹال پر کھڑا چاۓ پی رہا تھا۔
اس وقت میرے قریب دوسرا کوئی گاہک نہیں تھا۔ جب درگا کی طرف سے اس کی موجودگی کا کوئی اشارہ نہ ملا تو میں نے آہستہ سے سرگوشی میں کہا۔ "درگا کیا تم آگئی ہو؟“
میرے کان میں درگا بدروح کی سرگوشی سنائی دی۔ میں آگئی ہوں شیروان !‘‘ ” مجھے یہاں سے کس طرف جانا ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ درگا نے کہا۔ ”سٹیشن سے باہر ایک ٹیکسی سٹینڈ ہے ۔ وہاں آ کر ایک ٹیکسی لو اور اسے کہو دھار اوائی لے چلے۔ آگے میں تمہیں وہاں پہنچ کر بتاؤں گی۔ میں ٹیکسی میں تمہارے ساتھ ہی رہوں گی۔“
میں نے چاۓ کے پیسے ادا کئے اور سٹیشن سے باہر آکر ٹیکسی سٹینڈ کی طرف آ گیا۔ ایک اچھی حالت کی ٹیکسی نظر آ گئی۔ میں ڈرائیور کے پاس گیا تو اس نے پوچھا۔ کہاں جاؤ گے بابو ؟‘‘
میں نے کہا۔ ” دھار اوائی لے چلو گے ؟“
وہ بولا۔” بابو! وہ تو جنگل کے کنارے گاؤں ہے ۔ کیا تم شکاری ہو ؟“ ۔ میں نے کہا۔ بھائی ! وہاں میرا دوست شکار کی پارٹی لے کر گیا ہوا ہے ۔ میں اس کے پاس جا رہا ہوں۔“ ۔ ڈرائیور نے کہا۔ پچاس روپے لوں گا ۔“ اس زمانے میں پچاس روپے آج کے پانچ سو روپے کے برابر ہوتے تھے ۔
میں نے کہا۔ ”میں تمہیں سو روپیہ دوں گا ۔ مگر مجھے جلدی پہنچنا ہے ۔“ ڈرائیور گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ بولا۔ ” بابو ! بڑی جلدی پہنچا دوں گا ۔ بیٹھ جاؤ۔“ میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ درگا نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ ’’دھار اوائی کے گاؤں پہنچ کر میں تمہیں ایک خنجر دوں گی۔ تم اس خنجر کو شیر کی گردن پر مارو گے ۔“
میں نے دل میں کہا۔ یا اللہ ! اس نئی مشکل سے خیر و عافیت سے نکال لینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیر پر درگا بدروح کا جادو اچھی طرح سے اثر نہ کرے اور شیر مجھے ہڑپ کر جاۓ ۔ ٹیکسی دھار اوئی کی طرف جا رہی تھی۔ کچھ وقت کے بعد بھوپال کا شہر پیچھے رہ گیا اور اونچے نیچے کھیت اور پہاڑی ٹیلے شروع ہو گئے ۔ ڈیڑھ دو گھنٹوں کے بعد ہماری ٹیکسی ایک جنگلاتی سلسلے میں داخل ہو گئی۔ سڑک کی دونوں جانب درخت ہی درخت تھے۔ کہیں کھلا ہوا میدان آجاتا، کہیں چڑھائی اترائی شروع ہو جاتی۔ درگا نے اس دوران مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی شاید وہ میرے پاس نہیں تھی۔ وہ مجھے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
ہو سکتا ہے وہ ٹیکسی کے آگے آگے جارہی ہو یا ہو سکتا ہے وہ غیبی حالت میں ٹیکسی کے اندر ہی بیٹھی ہو۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے کانوں میں درگا نے سرگوشی کی۔ ’’دھار اوائی کا گاؤں آرہا ہے۔“ اس کی تصدیق ٹیکسی ڈرائیور نے بھی کر دی۔ کہنے لگا۔ ’’ بابو جی! آپ کا گاؤں آ گیا ہے۔‘‘
جنگل میں سڑک کے کنارے میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ میں ٹیکسی سے اتر کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ درگا نے میرے کان میں کہا۔ "اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالو۔ وہاں میں نے ایک خنجر رکھ دیا ہے ۔‘‘
میں نے بڑی احتیاط کے ساتھ جیب میں ہاتھ ڈالا اور خنجر باہر نکال لیا۔ یہ ایک درمیانے سائز کا خنجر تھا جس کا پھل بالکل سیدھا اور دو دھاری تھا۔ میں نے کہا۔ ” یہ تو بڑا تیز خنجر ہے درگا!‘‘ درگا نے کہا۔ "تمہیں ایسے ہی خنجر کی ضرورت تھی۔ اسے سنبھال کر رکھ لو ۔ “ میں نے خنجر پتلون کی پہلی جیب میں رکھ لیا۔ ’’اب مجھے کس طرف جانا ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
درگا نے کہا۔ ” آگے سڑک میں سے ایک پک ڈنڈی جنگل کی طرف نکلتی ہے اس پر چل پڑو۔ یہ تمہیں وہاں پہنچا دے گی جہاں میں تمہیں لے جانا چاہتی ہوں۔“ میں نے درگا سے کہا۔ ”تم خوامخواہ مجھے پیدل کیوں چلا رہی ہو ؟ تم مجھے غائب کر کے بھی وہاں پہنچا سکتی ہو ۔‘‘
درگا نے جواب دیا۔ ’’ میں ایسا کر سکتی ہوں لیکن میرا اپنا دل جے پور سے بھوپال تک ٹرین میں سفر کرنے اور پھر ان جنگلوں میں پیدل چل کر سیر کرنے کو چاہ رہا تھا ۔ ایک لمبے عرصے بعد مجھے ویران محل سے نکل کر ان علاقوں میں آنے کا موقع ملا ہے ۔ میں اس علاقے کی رہنے والی ہوں۔ اگر تم یہی چاہتے ہو تو آنکھیں بند کرو۔ میں تمہیں اس جگہ لئے چلتی ہوں جہاں تھوڑی دیر بعد خنجری ڈاکو نہانے آۓ گی۔“ میں نے کہا۔ ’’ میں جنگلوں میں پیدل پھر پھر کر تنگ آگیا ہوں ۔ تم مجھے جلدی سے غائب کر کے پہنچا دو۔ “
درگا نے کہا۔ ’’آ نکھیں بند کرو ۔ جب تک میں نہ کہوں آنکھیں نہ کھولنا۔‘‘ میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔ مجھے ہلکا سا دھچکا لگا اور پھر تیز ہوا میرے جسم کو چھونے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد درگا کی آواز آئی ۔ آنکھیں کھول دو۔“ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ میں گھنے جنگل میں گنجان درختوں کے نیچے ایک ندی کے کنارے کھڑا ہوں۔ درگا کی آواز آئی۔ ’’یہی وہ ندی ہے جہاں تھوڑی بعد خنجری ڈاکو نہانے کے لئے آرہی ہے ۔ اس جگہ کھڑے رہنا۔ میں تمہارے پاس ہی ہوں۔“
جنگل میں دن کا وقت تھا مگر درخت اتنے گنے تھے کہ ندی پر دن کی روشنی بہت دھیمی پڑ رہی تھی بلکہ ہلکا ہلکا اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ میں ایک درخت کی اوٹ میں خاموشی سے کھڑا تھا اور جس طرف سے ندی بہتی ہوئی آرہی تھی اس طرف دیکھ رہا تھا۔ درگا نے کہا تھا کہ خنجری ڈاکو اسی طرف سے آئے گی۔
درگا کی دھیمی آواز آئی۔ ” خنجری اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ آتی ہے مگر باڈی گارڈ پیچھے ایک جگہ پہرہ دیتے ہیں اور خنجری یہاں آکر ندی میں نہاتی ہے ۔ “ میں نے آہستہ سے پوچھا۔’’اور وہ میری جان کا دشمن شیر کس طرف سے نمودار ہو گا ؟“
درگا نے کہا۔ ”میں خود اسے لے کر آؤں گی اور وہ میرے کنٹرول میں ہوگا۔ تم کیوں فکر کر تے ہو ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ تمہیں کچھ کہے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس دل میں خدا سے دعائیں مانگنے لگا کہ یا خدا تو ہی میری حفاظت کرنا۔ کچھ دیر کے بعد مجھے ندی کے اس کنارے پر جہاں میں کھڑا تھا ایک عورت درختوں میں آتی نظر آئی۔
درگا نے میرے کان میں سرگوشی کی۔” یہی ڈاکو خنجری ہے ۔ درخت کے پیچھے ہو جاؤ۔ میں شیر کو لینے جارہی ہوں ۔ ڈرنا بالکل نہیں۔ شیر تمہیں کچھ نہیں کئے گا۔ میں جارہی ہوں اور وہی کرنا جیسا میں نے تمہیں کہا ہے ۔‘‘ میں ہکا بکا سا ہو کر اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ میں نے جنگل میں چھوٹے جانوروں کا شکار ضرور کیا تھا مگر آج تک کسی شیر سے سامنا نہیں پڑا تھا اور وہ بھی اس طرح سے کہ مجھے خنجر سے اس پر حملہ کرنا پڑ جائے۔ ایسا تو میں کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔
خنجری ڈاکو قریب آتی جا رہی تھی ۔ وہ ایک دراز قد مضبوط جسم کی عورت تھی۔ اس نے فوجی کمانڈو ٹائپ کی بش شرٹ اور اسی طرز کی پتلون پہن رکھی تھی۔ ایک کندھے سے میگرین بیلٹ اور دوسرے کندھے پر رائفل لگی ہوئی تھی۔ سر کے بالوں کا جوڑا بنا کر پیچھے گردن پر سیاہ رومال سے باندھا ہوا تھا۔ رنگ سانولا تھا اور اس کی چال میں بڑی خود اعتمادی اور وقار تھا۔ میں اس عورت سے واقعی بڑا متاثر ہوا۔ اس عورت کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے جسم میں پاتالی بدروح نے قبضہ کیا ہوا ہے اور میں اس کے جسم سے پاتالی کو نکالنے کے لئے آیا ہوں ۔
پاتالی کی وجہ سے خنجری ڈاکو پر تو کوئی خاص اثر نہیں پڑا تھا صرف اس کی طاقت میں تھوڑا اضافہ ہو گیا تھا مگر پاتالی اس کے جسم میں قیدی بن کر رہ گئی تھی اور بقول درگا بدروح کے میری مدد کے بغیر باہر نہیں نکل سکتی تھی اور اس کو باہر نکالنا بے حد ضروری تھا۔
میں ڈر رہا تھا کہ اگر اس خونخوار عورت کی مجھ پر نظر پڑ گئی تو وہ تو مجھے فورآ گولی ماری دے گی۔ یہ عورت سینکڑوں انسانوں کا خون کر چکی ہے۔ اس وقت تو درگا بھی میرے پاس موجود نہیں تھی کہ میری کوئی مدد کر سکتی۔ بس یہی ہو سکتا تھا کہ میں جلدی سے انگوٹھی نکال کر پہن لوں اور غائب ہو جاؤں مگر خنجری ڈاکو کی گولی شاید مجھے اتنی مہلت نہیں دے گی۔
اتنے میں میرے کان میں درگا کی سرگوشی سنائی دی۔ ’’شیروان! میں نے ایک شیر پر اپنا منتر پڑھ کر پھونک دیا ہے ۔ وہ اس طرف آرہا ہے ۔“ میں نے کہا۔ ” میری ماتا ! اگر تمہارے منتر نے کام نہ کیا تو میں غریب تو مارا جاؤں گا۔‘‘
درگا نے سرگوشی کی۔ ”میں کتنی بار تمہیں کہوں گی کہ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ میرے ہوتے ہوۓ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ تمہیں ہمت سے کام لینا ہوگا۔ اگر نہیں لو گے تو نہ تم پاتالی کو آزاد کر اسکو گے اور نہ پاتالی تمہاری روہنی کو آزاد کرا سکے گی اور نہ روہنی تمہیں اس بدروحوں کے چکر سے نکال سکے گی۔ میں نے کہا۔’’ ٹھیک ہے۔ میں اب کچھ نہیں کہوں گا۔“ درگا نے سرگوشی کی۔’’ خنجر نکال کر ہاتھ میں پکڑ لو۔“ میں نے ایسا ہی کیا اور خنجر پتلون کی پچھلی جیب سے نکال کر سیدھے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس دوران خنجری ڈاکو میگزین بیلٹ ، جوتے اور رائفل ندی کے کنارے رکھنے کے بعد کپٹروں سمیت ندی میں اتر چکی تھی اور ندی میں بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے پانی اپنے اوپر ڈال رہی تھی۔
درگا نے میرے کان میں کہا۔ "شیر اس وقت درخت کی بائیں طرف سے آۓ گا۔ جس وقت میں تمہیں کہوں فورا خنجر سے شیر پر حملہ کر دینا۔ یہ یقین رکھنا کہ اس وقت میں شیر کے سر پر موجود ہوں گی اور وہ میرے کنٹرول میں ہوگا ۔‘‘ ابھی درگا کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ جنگل شیر کی دھاڑ سے گونج اٹھا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ ایک زرد رنگ کا شیر خنجری ڈاکو کی طرف دوڑتا ہوا آ رہا تھا۔ درگا نے کہا۔ ”شیر پر حملہ کر دو۔“
میں خنجر لے کر شیر کی طرف دوڑ پڑا۔ اس دوران خنجری ڈاکو ندی میں سے کنارے کی طرف بڑی تیزی سے بڑھی۔ شیر نے مجھے دیکھا تو مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں نے آگے بڑھ کر خنجر اس کی گردن میں پیوست کر دیا۔ شیر جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ اتنے میں خنجری ڈاکو کے باڈی گارڈ نے تین چار فائز کر دیئے اور دوڑ کر جہاں خنجری نہا رہی تھی وہاں آۓ۔ میں اس طرح ندی کے کنارے کھڑا تھا۔ خنجری ڈاکو نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ میں نے اس کی جان شیر سے بچائی تھی۔
اس کے باڈی گارڈز میں سے ایک نے رائفل مجھ پر تان دی۔ خنجری نے بلند آواز میں کہا۔ ’’اسے کچھ نہ کہنا۔ اس نے میری جان بچائی ہے ۔ پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘
میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ باڈی گارڈ ڈاکو پیچھے ہٹ گئے ۔ خنجری اپنی کمر کے گراد میگزین کی بیلٹ باندھتے ہوئے میرے پاس آ گئی۔ اس نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا اور پوچھا۔ " تم کون ہو ؟ ادھر کیا کر رہے ہو ؟" ایک ڈاکو بول پڑا۔ " بائی یہ پولیس کا جاسوس معلوم ہوتا ہے ۔ “ خنجری نے اسے ڈانٹ کر کہا۔ " تم چپ رہو ۔ “
وہ میری طرف متوجہ ہوئی اور اپنا سوال دہرایا۔ " تم کون ہو ؟ ادھر کیا کر رہے تھے ؟“
میں نے کہا۔ بھوپال میں اپنے دشمن کا خون کر کے بھاگا ہوں ۔ اگر تم ہی خنجری ڈکیت ہو تو مجھے پناہ دے دو۔ پولیس مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی۔“ خنجری نے مشین گن کندھے سے لٹکائی اور اپنے ایک آدمی سے کہا۔ گولی! اسے ڈیرے پر لے جا کر اس کی تلاشی لو اور اسے کہیں مت جانے دو۔“ گولی نے مجھے بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔ ”چلو ۔‘‘
یہ لوگ مجھے اپنے ڈیرے پر لے گئے۔ یہ ان کا عارضی ڈیرہ تھا۔ جنگل میں ایک جگہ درختوں کے نیچے انہوں نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا۔ ایک طرف ان کے گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ ایک گھنے درخت کے نیچے جھونپڑی تھی جس کے باہر ایک ڈاکو رافل لئے پہرہ دے رہا تھا۔ دوسری جانب ایک اور جھونپڑی تھی۔ مجھے اس جھونپڑی میں بند کر کے پہرہ لگا دیا گیا۔ میں جھونپڑی میں چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اتنے میں میرے کان میں درگا کی سرگوشی سنائی دی۔
’’گھبرانا بالکل نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم خنجری کے سامنے اس خواہش کا اظہار کرنا کہ تم اس کے گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہو۔ میں نے کہا۔’’ ٹھیک ہے۔‘‘
میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘درگا بولی۔ باہر جو ڈاکو پہرہ دے رہا تھا شاید اس نے میری آواز سن لی تھی۔ اس نے جھونپڑی میں جھانک کر میری طرف دیکھا اور بولا ۔’’کس سے باتیں کر رہے ہو ؟“ میں نے کہا۔ " میں کسی سے باتیں کروں گا؟ یہاں تو میرے سوا کوئی نہیں ہے۔
ڈاکو نے جھونپڑی کا بھر پور جائزہ لیا اور پیچھے ہٹ گیا۔ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد مجھے خنجری ڈاکو کے آگے پیش کیا گیا۔ ڈاکو خنجری کو رانی کے لقب سے پکارتے تھے ۔ وہ بڑی جھونپڑی میں چارپائی پر بیٹھی تھی سٹین گن اس کے گھٹنوں پر رکھی ہوئی تھی۔ وہ سگریٹ پی رہی تھی۔ یہ ڈاکو عورت واقعی بڑی دلکش شخصیت رکھتی تھی۔
خنجری ڈاکو مجھے مسلسل گھور رہی تھی۔ کہنے لگی۔ ”تم بہادر آدمی ہو ۔ میں تمہاری قدر کرتی ہوں۔ تم نے میری جان بچائی ہے ۔ میں اسے یاد رکھوں گی لیکن میرے گروہ کے آدمی بڑے قیمتی اور پرکھے ہوۓ ہیں ۔ میں ابھی تمہیں اپنے گروہ میں شامل نہیں کروں گی ۔ لیکن تم میرے ساتھ رہو گے ۔ جب میری تسلی ہو جاۓ گی تو میں تمہیں اپنے گروہ میں شامل کر لوں گی ۔ اب جاؤ۔“
میں جھونپڑے سے نکل آیا۔ خنجری سے باتیں کرتے وقت میں اس کا پورا جائزہ لے رہا تھا کہ شاید اس میں پاتالی کی کوئی جھلک نظر آ جائے مگر پاتالی کا ذرا سا اثر بھی خنجری ڈاکو کے لب و لہجے اور شخصیت میں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مجھے تو خیال آنے لگا کہ شاید پاتالی اس عورت کے جسم میں داخل ہی نہیں ہوئی اور درگا کو مغالطہ لگا ہے۔ باہر گولی ڈاکو میرا انتظار کر رہا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ درختوں کے نیچے جہاں داری بچھی ہوئی تھی لے گیا۔ وہاں میں نے اس کے ساتھ روٹی اور چاۓ کا ناشتہ کیا۔ گولی کہنے لگا۔ ’’
رانی کے ساتھ تمہاری جو باتیں ہوئی ہیں وہ میں نے سن لی ہیں ۔ ہم سب ہندو ہیں تم مسلمان ہو ۔ تمہارا ہمارے ساتھ گزارہ نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ تم رانی بائی سے کہہ کر یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘ میں نے کہا۔ "تم ٹھیک کہتے ہو گولی ! لیکن میں یہاں سے چلا گیا تو مجھے کہیں پناہ نہیں ملے گی ۔ پولیس مجھے تلاش کر لے گی اور میں جب تک اپنے باقی دو شمنوں سے بدلہ نہیں لے لیتا مرنا نہیں چاہتا۔
‘‘ گولی بولا۔” میں نے تو تمہیں سمجھا دیا ہے ۔ اب آگے تمہارے بارے میں رانی بائی ہی فیصلہ کرے گی۔“
مجھے ایک جھونپڑی میں یہ کہہ کر بٹھا دیا گیا کہ تم ابھی یہاں سے بغیر اجازت باہر نہیں نکلو گے ۔ جس چیز کی ضرورت ہو باہر ہمارا آدمی موجود ہوگا۔اسے بتا دینا۔ میں اس جھونپڑی میں ایک طرح سے قید کر دیا گیا تھا۔ جب میں جھونپڑی میں اکیلا رہ گیا تو میں نے اس خیال سے کہ درگا میرے پاس ہی ہوگی آہستہ سے کہا۔
درگا۔۔۔۔
درگا کی سرگوشی سنائی دی۔ ” میں سب کچھ دیکھ رہی ہوں ۔ سب کچھ سن رہی ہوں۔ وقت آنے پر سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔ “ میں نے دھیمی آواز میں کہا۔ ”درگا! مجھے تو اس ڈاکو عورت میں پاتالی کی ایک چیز بھی نظر نہیں آرہی ۔ کہیں تمہیں غلطی تو نہیں لگی ؟
درگا نے کہا۔ ’’ تم اس ڈاکو عورت کا صرف جسم دیکھ رہے ہو میں اس عورت کے جسم کے اندر پاتالی کو دیکھ رہی ہوں۔ تمہیں پاتالی کی کوئی نشانی اس لئے دکھائی نہیں دیتی کہ پاتالی اس عورت کے جسم میں داخل ہونے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں ہے۔ نتالیا کے آسیب نے پاتالی سے یہی انتقام لیا ہے کہ اسے اس ڈاکو عورت کے جسم میں داخل کر کے بے ہوش کر دیا ہے تا کہ اگر خنجری ڈاکو کا پولیس سے مقابلہ ہو جاۓ اور خنجری پولیس مقابلے میں ماری جائے تو پاتالی اپنا بچاؤ نہ کر سکے اور خنجری کے ساتھ ہی مر جائے ۔
جب تم اس عورت کے جسم میں مالینی کا چار لفظی منتر داخل کرو گے تو اس کے اثر سے سب سے پہلے پاتالی کو ہوش آ جاۓ گا اور وہ اس ڈاکو عورت کے جسم سے باہر آنے میں ہماری مدد کر سکے گی۔ “
میں نے پوچھا۔ ”لیکن میں یہ منتر کب اس خونی بلا کے جسم میں داخل کروں گا اور کیسے داخل کروں گا ؟“
درگا نے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’دھیرج رکھو شیروان دھیرج رکھو۔ یہ کام بڑا ضروری بھی ہے اور بڑا نازک بھی ہے۔ جیسے میں کہتی ہوں ویسے کرتے رہو ۔ باقی میں سنبھال لوں گی ۔
میں نے سرگوشی میں کہا۔ ”لیکن اس خونی رانی بائی نے تو مجھے قید میں ڈال دیا ہے ۔ میں نے شیر سے اس کی جان بچائی ہے مگر اس پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔‘
‘ درگا نے سرگوشی میں ہی جواب دیا۔ " یہ لوگ یونہی کسی پر اعتبار نہیں کرتے اور خنجری ڈاکو تو وہ قاتل عورت ہے کہ جس کے پیچھے مدھیہ پردیش کے علاوہ مہاراشٹر کی ساری پولیس بھی لگی ہوئی ہے ۔ اس عورت کو تو کسی اجنبی کو اپنے گروہ میں شامل کرنے سے پہلے ایک ہزار بار سوچنا پڑتا ہے ۔ اگر تم نے شیر سے اس کی جان نہ بچائی ہوتی تو وہ تمہیں ندی کنارے دیکھتے ہی گولی مار دیتی۔“
میں نے تنگ آکر کہا۔’’یہ بتاؤ کہ اب مجھے کیا کرنا ہوگا ؟“
درگا نے دھیمی آواز میں کہا۔ ” مجھے صرف آج اور کل کا دن دے دو۔ اس کے بعد تم خود دیکھ لو گے کہ تمہارے بارے میں خنجری ڈاکو کا ذہن کیسے بدل جاتا ہے ۔ “ میں اپنی ایک حماقت کی وجہ سے ان بدروحوں کے چنگل میں پھنس چکا تھا۔ مجھے صبر کرنا ہی تھا۔ جھونپڑی میں قید وہ دن بھی گزر گیا۔ دوسرے دن دوپہر کے وقت اچانک جھونپڑی کے باہر مجھے شور سنائی دیا۔ ڈاکو ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ میں سمجھا کہ پولیس آگئی ہے ۔ میں اٹھ کر باہر دیکھنے ہی لگا تھا کہ درگا کی آواز آئی ۔ تمہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جو کچھ ہوا ہے میں تمہیں بتاتی ہوں ۔
‘‘ درگا نے مجھے بتایا کہ خنجری ڈاکو کو ایک سانپ نے ڈس لیا ہے اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔
میں نے کہا۔ ” وہ مر گئی تو پاتالی بھی اس کے ساتھ ہی چتا کی آگ میں جل جاۓ گی۔
درگا نے کہا۔ ” تم دوسرے کی بات سننے سے پہلے ہی بول پڑتے ہو ۔ سانپ نے میرے جادو کے اثر سے خنجری کو ڈسا ہے اور اس نے اس کے جسم میں صرف اتنا زہر داخل کیا ہے جس کے اثر سے وہ بے ہوشی کی حالت میں ہی رہے گی مرے گی نہیں ۔ میں نے تمہارے لئے اس ڈاکو عورت کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ایک کارگر موقع فراہم کیا ہے ۔“
میں نے کہا۔’’ میں کیا کر سکتا ہوں ؟‘‘
درگا بولی ۔ ” تم فورا خنجری کی جھونپڑی میں جاؤ اور کہو کہ میں خنجری کو ٹھیک کر سکتا ہوں ۔۔
میں کیسے ٹھیک کروں گا ؟‘‘ میں نے کہا۔
درگا نے ترش لہجے میں کہا۔ ” تم کہاں سے ٹھیک کرو گے ؟ اسے میں ٹھیک کروں گی۔ تم صرف وہی کرو گے جو میں تمہیں بتاؤں گی۔“ اس کے بعد درگا بدروح نے مجھے سب کچھ بتا دیا کہ مجھے خنجری کے پاس جا کر کیا کرنا ہوگا۔ جب وہ پوری تفصیل بیان کر چکی تو میں نے کہا۔ "
دیکھ لینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سانپ الٹا مجھے ڈس دے۔“ ’’ایسا نہیں ہو گا۔ اب فورا جھونپڑی سے باہر نکلو۔“ میں اٹھ کر جھونپڑی سے باہر آ گیا۔ جھونپڑی کے باہر جو ڈاکو پہرہ دیا کرتا تھا وہ بھی نہیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ خنجری ڈاکو کی جھونپڑی کے باہر ڈاکو سخت افراتفری کی حالت میں کھڑے تھے۔ ایک ڈاکو اندر جاتا تو دوسرا اندر سے باہر نکل آتا تھا۔ مجھے وہاں گولی نظر آگیا۔ میں دوڑ کر اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا۔ ” کیا ہوا ہے گولی؟“
گولی نے کہا۔’’ رانی بائی کو سانپ نے ڈس لیا ہے ۔ وہ مر رہی ہے ۔ " میں نے کہا۔’’گولی ! مجھے رانی بائی کے پاس لے چلو۔ مجھے سانپ کے کاٹے کا منتر آتا ہے۔“
اس نے ایک لمحہ کے لئے میری طرف حیرانی سے دیکھا اور بولا۔”بھگوان کے لئے جلدی سے آجاؤ۔“
اور وہ مجھے بازو سے پکڑ کر جھونپڑی کے اندر لے گیا۔ اندر نقشہ یہ تھا کہ خنجری ڈاکو کو ذرا ذرا ہوش آ چکا تھا مگر اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ جسم کا رنگ نیلا پڑ گیا تھا۔ وہ چارپائی پر بے حال پڑی تھی اور ایک بوڑھا ڈاکو اس کی پنڈلی پر جہاں سانپ نے کاٹا تھا کسی تیل کی مالش کر رہا تھا۔ دو ڈاکو چارپائی کے پیچھے سر جھکاۓ کھڑے تھے۔ خنجری نے نیم کھولی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ بوڑھے ڈاکو نے کہا۔ ’’اسے یہاں کیوں لے آئے ہو گولی ؟‘‘
گولی نے کہا۔ کاکا! یہ کہتا ہے مجھے سانپ کے کاٹے کا منتر آتا ہے۔ خنجری نے یہ جملہ سن لیا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں رحم کی التجا تھی۔
بوڑھا ڈاکو کہنے لگا۔ یہ تو مسلمان ہے۔ مسلمان منتروں کو نہیں مانتے۔ پھر اسے ناگ کے کاٹے کا منتر کہاں سے معلوم ہو گیا ہے ؟‘‘ گولی نے کہا۔ "کاکا ! یہ وقت باتیں کرنے کا نہیں ہے ۔ تم پیچھے ہٹ جاؤ اور اسے اپنا کام کرنے دو۔“
بوڑھا ڈاکو ایک طرف ہٹ گیا۔ میں ڈاکو عورت خنجری کی چارپائی کے قریب سٹول پر بیٹھ گیا اور جو درگا نے مجھے بتایا تھا اس پر عمل شروع کر دیا۔ میں نے کہا۔ " تم سب لوگ پیچھے ہٹ کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو جاؤ۔“
گولی ، دونوں ڈاکو اور بوڑھا ڈاکو خاموشی سے جھونپڑی کی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے ۔ خنجری کو ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے۔ میں نے خنجری کی پنڈلی پر وہاں انگلی رکھ دی جہاں سانپ کے کاٹنے کا نشان پڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنے ہونٹ ہلانے شروع کر دیئے ۔ میں کوئی منتر ونتر نہیں پڑھ رہا تھا۔ میری بلا جانے کہ سانپ کے کاٹے کا کیا منتر ہوتا ہے ۔ بس درگا کی ہدایت کے مطابق اپنے ہونٹ ہلا رہا تھا۔ تھوڑی دیر ہونٹ ہلانے کے بعد میں نے اونچی آواز میں کہا۔
اے مرگ ناگ! جس نے رانی بائی کو کاٹا ہے ۔ تم جہاں بھی ہو فورا حاضر ہو جاؤ۔“
ڈاکو حیران ہو کر میری طرف دیکھ رہے تھے ۔ خنجری بھی اپنی بوجھل پلکیں اٹھا کر ایک دو بار مجھے دیکھا۔ میں نے جو کچھ کہا تھا اس نے سن لیا تھا۔ میں دل میں دعا مانگنے لگا کہ یا خدا! اب میری لاج رکھ لینا۔ اس درگا بدروح کا مجھے کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اتنے میں جھونپڑی کے باہر کسی سانپ کی پھنکار سنائی دی۔ یہ آواز سن کر میں بھی اندر سے کانپ اٹھا۔ ڈاکو جلدی سے ایک طرف ہوگئے ۔ جھونپڑی کا پردہ ہٹا ہوا تھا۔ باہر سے دن کی روشنی اندر آرہی تھی ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سیاہ رنگ کا پانچ فٹ لمبا سانپ پھن پھیلاۓ بل کھاتا جھونپڑی میں داخل ہو رہا ہے۔
یقین کریں اس وقت میرے دل نے مجھ سے کہا کہ فیروز ! بھاگ جاؤ۔ یہ سانپ خنجری کا کچھ کرے یا نہ کرے لیکن تمہیں ضرور ڈس لے گا۔ کافی خوفناک سانپ تھا اور اس نے پھن کھول رکھا تھا اور بار بار اپنی دو شانه زبان باہر نکال کر پھنکاریں مار رہا تھی ۔
درگا نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ خبردار ! اپنی جگہ سے مت ہلنا۔ ‘‘ میں اپنے اوپر جبر کر کے اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ سانپ قریب آکر چار پائی پر چڑھ گیا۔ سب ڈاکو حیرت زدہ ہو کر سانپ کو دیکھ رہے تھے ۔ رانی بھی نیم بے ہوشی کی حالت میں یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ سانپ چارپائی کی پائنتی کی طرف سے ہوتا ہوا ڈاکو عورت کی پنڈلی کے پاس آکر کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔ درگا کی ہدایت کے مطابق میں نے سانپ کو حکم دیا۔ ’’مرگ ناگ! جو زہر تم نے رانی بائی کے بدن میں داخل کیا ہے اسے واپس کھینچ لو۔
سانپ نے اپنا منہ خنجری کی پنڈلی پر اس جگہ پر رکھ دیا جہاں اس نے خنجری کو کاٹا تھا۔ مجھے خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ۔ سانپ خنجری کے جسم زہر چوس رہا تھا۔ سانپ میرا خیال ہے ایک منٹ تک زہر چوستا رہا۔ جب اس نے اپنا پھن ہٹایا تو خنجری نے پوری آنکھیں کھول دیں تھیں۔
میں نے سانپ سے کہا۔ ”مرگ ناگ! اب یہاں سے دفع ہو جیا اور آئندہ کبھی۔اس طرف کا رخ نہ کرنا۔“
سانپ جس طرف سے آیا تھا چارپائی سے اتر کر اس طرف چلا گیا۔ سانپ کے جانے کے بعد بوڑھا ڈاکو اور دوسرے ڈاکو جلدی سے خنجری کے پاس آگئے ۔ ڈاکو عورت کا نیلا رنگ معمول پر آرہا تھا۔ بوڑھے ڈاکو نے کہا۔ ’’رانی بائی! بھگوان نے بڑی کرپا کی ہے ۔ “
خنجری نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں تشکر کے تاثرات تھے ۔ میں نے بھی آگے ہو کر خنجری سے پوچھا۔ ’’رانی بائی ! اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟“
خنجری ڈاکو نے کمزور آواز میں کہا۔ "اچھی ہے ۔ " اور اس نے آنکھیں بند کر لیں ۔ دیکھتے دیکھتے خنجری ڈاکو کا چہرہ بالکل نارمل حالت میں واپس آ گیا۔ اس کے منہ کا جھاگ بھی خشک ہو گیا۔ بوڑھے ڈاکو نے کپڑے سے اس کا منہ صاف کیا اور بولا۔ " بھگوان نے میری پرارتھنا سن لی ۔ “ خنجری نے بوڑھے ڈاکو کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوۓ کمزور آواز میں کہا۔ ”
شیروان ! تم نے دوسری بار میری جان بچائی ہے ۔ " اور اس نے نقاہت کے باعث آنکھیں بند کر لیں۔ گولی ڈاکو مجھے باہر لے گیا۔ کہنے لگا۔ اس وقت اگر تم یہاں نہ ہوتے تو رانی ہائی کا زندہ بچنا ناممکن تھا۔ اسے بڑے موذی سانپ نے کاٹا تھا۔‘‘
رات بھر آرام کرنے کے بعد اگلے روز خنجری ڈاکو کو بالکل آرام آ گیا۔ اس نے مجھے اپنی جھونپڑی میں بلایا۔ اس کا خاص باڈی گارڈ گولی میرے ساتھ تھا۔ خنجری چار پائی پر ایک تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ میں اس کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا۔’’ میرے پاس بیٹھ جاؤ۔‘‘ میں سٹول پر بیٹھنے لگا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے پاس چار پائی پر بٹھا لیا۔ کہنے لگی ۔’’شیروان! مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ تم کتنی خوبیوں والے آدمی ہو ۔ یہ منتر تم نے کہاں سے سیکھا تھا؟‘‘
میں نے یونہی کہہ دیا کہ سندر بن کے ایک سپیرے نے مجھے بتایا تھا۔ وہ بولی۔”تم نے دوسری بار مجھے موت کے منہ سے نکال کر مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ میں ساری زندگی اسے نہ بھلا سکوں گی۔“
میں نے کہا۔ ”میں نے کوئی احسان نہیں کیا رانی بائی ! یہ تو میرا انسانی فرض تھا ۔۔
اس واقعے کے بعد میں اس ڈاکو عورت کے بہت قریب ہو گیا۔ تیسرے روز انہوں نے وہاں سے ڈیرہ اٹھایا اور جنگل میں کسی دوسری طرف چل دیئے ۔ مجھے بھی ایک مشین گن دے دی گئی تھی اور خنجری مجھے ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی تھی۔ ان ڈاکوؤں نے راستے میں ایک گاؤں میں ڈاکہ ڈالا۔ گاؤں کے دو بڑے ساہو کاروں کو قتل کر کے ان کے گھر کا سارا سونا چاندی لوٹا اور آگے چل دیئے ۔ میں ان کے ساتھ تھا مگر میں نے کسی پر گولی نہیں چلائی تھی نہ کوئی مال لوٹا تھا۔ دو دن تک یہ لوگ جنگل میں پھرتے رہے۔ آخر ایک ٹیلے کے دامن میں انہوں نے ڈیرہ ڈال دیا۔ -
جس دن ڈاکو نئے جنگل میں آۓ اس رات درگا مجھ سے ہم کلام ہوئی۔ میں نے اس سے کہا۔ ” تم اتنے دن کہاں رہیں درگا؟‘‘ کیونکہ اس دوران درگا سے میری کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ کہنے لگی۔ ” میں ایک خاص کام سے اپنی بدروحوں کی دنیا میں گئی ہوئی تھی۔ وہاں سے سیدھی تمہارے پاس آرہی ہوں۔‘‘
میں نے کہا۔ ” میں نے خنجری ڈاکو کا اعتماد تو حاصل کر لیا ہے اور اس نے مجھے اپنا خاص باڈی گارڈ بھی بنالیا ہے ۔ یہ بتاؤ کہ اب مجھے اس کے جسم میں چار لفظی خفیہ منتر کس طرح اور کب داخل کرنا ہوگا ؟“
درگا کہنے لگی ۔ " تم نے دیکھ لیا ہوگا کہ منگل کی شام کو خنجری ڈاکو دیوی دیوتاؤں کی پوجا پاٹھ کرتی ہے اور ناریل کا پانی پیتی ہے ۔‘‘ میں نے کہا۔ ” ہاں ! میں نے دیکھا ہے ۔“ درگا بولی۔ پرسوں منگل وار ہے ۔ شام کو پوجا پاٹھ کرنے کے بعد وہ تمہارے ہاتھ سے ناریل کا پانی پئے گی کیونکہ اسے تم سے عقیدت ہو گئی ہے۔ بس یہی موقع ہوگا جب تم چار لفظی خفیہ منتر اس کے جسم میں داخل کرو گے۔“
”وہ کیسے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ درگا کہنے لگی ۔ ”وہ ایسے کہ ناریل کا گلاس جب خنجری تمہارے ہاتھ سے پینے لگے گی تو تم اس کی نظر بچا کر منہ ہی منہ میں منتر پڑھ کر ناریل کے پانی میں پھونک مارو گے ۔ بس اس کے بعد جو کچھ کرنا ہوگا وہ یہ چار لفظی منتر خنجری کے جسم میں پہنچنے کے بعد اپنے آپ کر دے گا۔‘‘
میں بے چینی سے منگل کی شام کا انتظار کرنے لگا۔ آخر منگل کی شام بھی آگئی۔ خنجری ڈاکو نے اپنی جھونپڑی کے اندر پوجا پاٹھ کا
انتظام کیا اور مجھے بھی اپنے پاس بلا لیا۔ کہنے لگی۔ ’’شیروان! تم مسلمان ہو ۔ میں جانتی ہوں تمہارے دھرم میں یہ چیزیں منع ہیں مگر میں تم سے صرف ایک خواہش کروں گی کہ اس بار تم اپنے ہاتھ سے مجھے ناریل کا پانی پلاؤ۔“ ۔
میں جانتا تھا کہ یہ خیال اس کے ذہن میں درگا نے ڈالا ہے۔ میں نے کہا۔ ’’رانی بائی ! اگر تم چاہتی ہو اور یہ تمہاری خواہش ہے تو میں اپنے ہاتھ سے تمہیں ناریل کا پانی پلاؤں گا۔“
خنجری ڈاکو بڑی خوش ہوئی ۔۔ میں نے کہا۔ "مگر میں تمہاری پوجا پاٹھ کی محفل میں شریک نہیں ہوں گا۔ میں باہر رہوں گا۔ جب تم ناریل کا پانی پینے لگو تو مجھے بلا لینا۔“
یہ کہہ کر میں جھونپڑی سے نکل کر باہر درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اندر پوجا پاٹھ شروع ہو گئی۔ کچھ دیر کے بعد بوڑھے ڈاکو نے باہر آ کر مجھ سے کہا۔ ” بیٹا! رانی بائی نے تمہیں بلایا ہے ۔‘‘

میں فور اندر چلا گیا۔ خنجری ڈاکو ایک چوکی پر بیٹھی تھی۔ گلے میں پھولوں کی مالا تھی۔ سامنے چوکی پر خدا جانے کیا کیا رکھا ہوا تھا۔ دو ناریل بھی پڑے تھے ۔ دیا جل رہا تھا۔ خنجری نے ناریل کے پانی والے گلاس کی طرف اشارہ کیا۔ بوڑھے ڈاکو نے گلاس اٹھا کر مجھے دیا اور کہا۔ بیٹا! اب یہ ناریل کا پانی تم رانی ہائی کو دے دو۔“ جیسے ہی ناریل کے پانی کا گلاس میرے ہاتھ میں آیا میں نے منہ ہی منہ میں مالینی کا چار لفظی خطرناک خفیہ منتر پڑھ کر آہستہ سے گلاس میں پھونک دیا اور گلاس خنجری کو تھما دیا۔

خنجری ڈاکو نے گلاس منہ سے لگایا اور سارا پانی پی گئی۔ میں بڑے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ خفیہ منتر اس کے جسم میں چلا گیا ہے ۔ اب خنجری ڈاکو کے اندر سے پاتالی باہر نکل کر میرے سامنے آن کھڑی ہوگی۔ مگر ایک منٹ ، دو منٹ گزر گئے اور کچھ بھی نہ ہوا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے خنجری ڈاکو پر اس منتر کا کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 30

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں