پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 22

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 22


آدم خور قبیلے والے جب بھوکوں مرنے لگے تو انہوں نے ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیا۔ یہ آسیبی لڑکی ان سب میں بڑی چالاک اور عیار تھی۔ وہ جنگل میں چپ گئی اور چپ کر رات کو قبیلے کی جھونپڑیوں کی طرف آتی اور کسی نہ کسی بچے کو پکڑ کر لے جاتی اور اسے کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتی۔ لیکن آخر ایک رات وہ خود قابو میں آ گئی۔ وہ رات کے اندھیرے میں قبیلے کے کسی بچے کو اٹھا کر لے جانے کے لئے جھونپڑیوں ?
روہنی نے جواب دیا۔ ”لیکن میں آسیبی لڑکی کی کھوپڑی توڑ کر اس کی طاقت کو تو ختم کر دوں گی۔ پھر میں واپس آکر اپنے شیروان کو آسیبی لڑکی کی قید سے بڑی آسانی سے آزاد کرالوں گی اور وہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔“
درگا کی بدروح نے کہا۔ ” آسیبی لڑکی تمہارے ہاتھ آۓ گی تو تم شیروان کو اس سے چھین سکو گی۔ ٹھیک ہے اس کی آسیبی طاقت ختم ہو جاۓ گی مگر وہ آسیب سے ایک بدروح بن چکی ہوگی اور بدروح کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ آسیبی لڑکی کی بدروح شیروان سے محبت کرتی ہے وہ اسے اٹھا کر ایسی دنیا میں لے جاۓ گی کہ تم ہزاروں سال تک بھی اسے تلاش نہ کر سکو گی۔“ دونوں بدروحیں میری قسمت کے فیصلے کر رہی تھیں اور میں بے بسی کے عالم میں ان کی باتیں سن رہا تھا۔
یہ ایک طرح سے مجھے میرے کسی گناہ یا میری کسی حماقت کی سزا مل رہی تھی۔ روہنی پریشان ہو گئی تھی۔ وہ ہر حالت میں مجھے اس آسیبی لڑکی سے بچانا چاہتی تھی۔ اس نے درگا کی بدروح سے پوچھا۔ ”تو پھر تم ہی بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہے؟“
درگا کی بدروح نے ایک لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ”ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ تم شیروان کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ جس وقت تم کھوپڑی والے درخت کے قریب پہنچو تو میرا اگنی منتر پڑھ کر پھونک دینا۔ تمہیں میرا اگنی منتر یاد ہے نا ؟“

”ہاں۔ مجھے یاد ہے۔ روہنی نے کہا۔ درگا بولی۔ اس اگنی منتر کے اثر سے درخت پر بیٹھی پہرہ دیتی بدروح وہاں سے غائب ہو جائے گی۔ اس کے بعد تمہیں بڑی تیزی سے اور بڑی جلدی سے اپنا کام کرنا ہوگا۔ شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی کے بغیر تم آسیبی لڑکی کی کھوپڑی کو ہاتھ نہیں لگا سکو گی۔ اگر ہاتھ لگاؤ گی تو جل کر وہیں راکھ ہو جاؤ ۔ اس سے پہلے کہ اسیبی لڑکی کو خبر ہو تمہیں بڑی تیزی سے زمین کے اندر سے کھوپڑی نکال کر اس کے دو ٹکڑے کر دینے ہوں گے۔
اس دوران میں اگر تمہاری بد قسمتی سے آسیبی لڑکی نتالیا کا آسیب وہاں پہنچ گیا تو پھر تمہاری اور شیروان دونوں کی خیر نہیں ہوگی۔ وہ نہ صرف شیروان کو غائب کر کے اپنے قبضے میں کرلے گی بلکہ تمہیں بھی جوالا مکھی منتر پھونک کر کھولتے ہوئے لاوے کی طرح پگھلا کر ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گی۔“ روہنی نے کہا۔ ”لیکن میری انگلی میں تو شیش ناگن کی انگوٹھی ہوگی۔ پھر وہ مجھ پر کیسے حملہ کر سکے گی؟“

درگا کی بدروح نے کہا۔ ” وہ تمہارے قریب نہیں آئے گی۔ وہ تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گی لیکن تم پر اپنا جوالا مکھی منتر پھونک سکے گی۔ یہ منتر جوالا مکھی کا کھولتا ہوا لاوا ہے بلکہ کھولتے ہوئے لاوے سے بھی زیادہ آتش ناک ہے۔ تم ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں پگھل کر بہہ جاؤ گی۔“

روہنی بت بنی درگا بدروح کی باتیں سن رہی تھی۔ درگا کی بدروح نے کہا۔ روہنی! یہ تمہاری چالاکی ، عیاری اور تمہاری بدروحوں والی بدی کی طاقت کا امتحان ہے۔ تم نے کھوپڑی والے درخت کے پاس پہنچ کر میرا اگنی منتر پھونک کر پہرہ دینے والی بدروح کو غائب کر دینے کے بعد بدروحوں والی حیرت انگیز پھرتی اور برق رفتاری سے کام لیا اور کھوپڑی کو زمین کے نیچے سے نکال کر اسے پتھر مار کر پاش پاش کر دیا تو سمجھ لو کہ پھر اگر آسیبی لڑکی کا آسیب وہاں آ بھی گیا تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا کیونکہ تم اس کے فورا بعد شیروان کو لے کر وہاں سے غائب ہو چکی ہو گی۔

یہ کام تمہیں ایک لمحے کے ہزارویں حصے کے اندر اندر کرنا ہوگا ۔ کیا تم ایسا کر سکو گی ؟“ روہنی نے کہا۔ ” میں اپنے شیروان کے لئے سب کچھ کر سکتی ہوں۔“ درگا کی بدروح نے اس کے جواب میں کہا۔ " تو پھر تم اپنی مہم میں ضرور کامیاب ہو جاؤ گی۔ اب میں تمہیں بتاتی ہوں کہ وہ جزیرہ کہاں ہے اور جزیرے میں وہ درخت کہاں ہے جس کے سائے میں آسیبی لڑکی نتالیا کی کھوپڑی دفن ہے۔اپنی آنکھیں بند کرو۔۔۔۔

دیوانی لڑکی کی شادی

روہنی نے آنکھیں بند کر لیں۔ درگا کی بدروح نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے بعد شاید ان دونوں میں کوئی وائرلیس سسٹم قائم ہو گیا تھا جس کے ذریعے درگا کی بدروح کھوپڑی والے درخت اور اس آدم خور جزیرے کا حدود اربع اور نقشہ روہنی کے ذہن میں نقش کر رہی تھی۔ یہ کام ایک سیکنڈ میں ہو گیا۔ درگا نے آنکھیں کھول کر کہا۔ ”آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھو۔“ روہنی نے آنکھیں کھول دیں اور درگا کی بدروح کی طرف دیکھنے لگی۔
درگا نے پوچھا۔ ”جو میں تمہیں سمجھانا چاہتی تھی کیا تم سمجھ گئی ہو ؟“ روہنی بولی۔ ” مجھے ساری سمجھ آگئی ہے کہ آدم خور جزیرہ افریقہ کے کس ملک کے پاس واقع ہے اور اس جزیرے میں کھوپڑی والا درخت کہاں ہے۔“ درگا کی بد روح نے کہا۔ ”تو پھر ابھی شیروان کو لے کر روانہ ہو جاؤ تمہیں دیر نہیں کرنی چاہئے ۔ آسیبی لڑکی نتالیا کا آسیب کسی بھی وقت تم پر حملہ کر سکتا ہے۔“ روہنی نے درگا کی بدروح کا شکریہ ادا کیا ، درگا کی بدروح غائب ہو گئی۔ روہنی میرے پاس آکر کہنے لگی۔ ”شیروان! اب تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ تم نے سب کچھ سن لیا ہوگا۔“
میں نے کہا۔ ”میں نے اتنا کچھ سن لیا ہے کہ کچھ اور سننے کی گنجائش ہی نہیں۔۔۔۔
” آؤ یہاں سے باہر چلتے ہیں۔ روہنی نے کہا۔ ہم ویران محل سے باہر آگئے ۔اس وقت رات ڈھلنا شروع ہو گئی تھی اور آسمان پر ستاروں کی چمک پھیکی پڑنے لگی تھی۔ دور جے پور کے کسی مندر سے گھنٹیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ روہنی نے کہا۔ ” مندر میں اماوس کی پچھلی رات کی پوجا ہور ہی ہے۔
ویران محل کی سیٹرھیاں اتر کر ہم گیٹ کی طرف آنے کی بجاۓ محل کے احاطے کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھے اس لئے کہ ہم غائب نہیں تھے اور گیٹ پر چوکیدار موجود تھے۔ مجھے یہ تجربہ ہوا تھا کہ روہنی صرف اسی وقت غائب ہوتی تھی جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ وہ خواہ مخواہ کبھی غائب نہیں ہوتی تھی۔ ہم پچھلے دروازے سے گزر سکتے تھے کیونکہ اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ چنانچہ ہم محل کے احاطے سے باہر آگئے ۔

روہنی مجھے ساتھ لے کر محل سے دور ایک باغ میں آگئی۔ رات کا پچھلا پہر تھا۔ باغ سنسان پڑا تھا۔ ہم ایک جگہ بیٹھ گئے ۔ روہنی نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کہنے لگی۔ ”شیروان ! میری اور درگا کی جو باتیں ہوئی ہیں وہ تم نے بھی سنی ہیں۔ تمہیں ضرور تشویش ہوئی ہوگی۔ میں تمہیں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھ پر بھروسہ رکھو۔ میں کسی حالت میں بھی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچنے دوں گی۔“ میں نے کہا۔ روہنی ! مجھے تم پر نہیں بلکہ اپنے اللہ پر بھروسہ ہے کہ وہ میرے گناہ معاف کر دے گا اور مجھے اس اذیت سے ضرور باہر نکال لے گا۔
باقی جہاں تک فکر مند ہونے کی بات ہے تو آخر میں ایک انسان ہوں۔ مجھ میں کمزوریاں بھی ہیں۔ مجھے تشویش ضرور ہے کیونکہ جس مہم پر ہم جار ہے ہیں یہ کم از کم میری زندگی اور موت کی مہم ہے لیکن میرا ایمان ہے کہ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔“ روہنی کہنے لگی۔ تو تم کیا سمجھتے ہو کہ میرا یہ ایمان نہیں ہے ؟ میں نو مسلم سہی لیکن مسلمان ہوں اور میں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا تھا۔ اگر تم اپنی کسی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہو تو میں بھی اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہی ہوں۔ تمہاری طرح مجھے بھی یقین ہے کہ خدا میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے گا اور تمہارے ساتھ مجھے بھی نجات مل جاۓ گی۔
“ میں نے کہا۔ ”میں جانتا ہوں روہنی کہ تم ایسا ہی سوچتی ہوں۔ یہ بتاؤ کہ اب تمہارا کیا پروگرام ہے ؟“ روہنی بولی۔ ”ہم یہاں سے سیدھے افریقہ کے ملک ایتھوپیا کی طرف روانہ ہو جائیں گے تاکہ سب سے پہلے آسیبی لڑکی نتالیا سے چھٹکارا حاصل کیا جاۓ اس کے بعد اپنے مشترکہ دشمن پجاری رگھو سے بھی نمٹ لیں گے ۔ میرے پاس شیش ناگن کا مہرہ ہے ۔ پجاری رگھو اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ “ پھر اس نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ ”کیا تم میرے ساتھ افریقہ جانے کے لئے تیار ہو ؟“
” میں کیوں تیار نہیں ہوں گا۔“ میں نے بے دلی سے کہا۔ روہنی بولی۔ ”میں جانتی ہوں تم بھی ان حالات سے تنگ آ چکے ہو۔ لیکن پیارے شیروان ! مشکلات انسان کی زندگی میں آتی ہی رہتی ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ تم ان مشکلات کا مردوں کی طرح مقابلہ کر رہے ہو ۔ اب اٹھو ہمیں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ نتالیا تمہاری تلاش میں ہے ۔ میں حیران ہوں کہ ابھی تک اس نے تم پر حملہ کیوں نہیں کیا۔“
میں نے کہا۔ ”شاید اسے علم ہو گیا ہے کہ میرے ہاتھ میں شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی ہے۔“

اک جن زادے کی خوفناک کہانی

روہنی نے کہا۔ ”لیکن وہ اپنا آپ تمہیں دکھا تو سکتی تھی۔اس نے ایسا بھی نہیں کیا۔ وہ انتہائی خطرناک ہونے کے ساتھ انتہائی عیار آسیبی لڑکی بھی ہے ۔ وہ تمہیں یہی احساس دلانا چاہتی ہے کہ اسے تم نہیں مل رہے اور پھر اچانک تمہیں غافل پا کر تمہیں جھپٹ کر لے اڑے گی۔“ ”خدا مجھے اس سے محفوظ رکھے۔“ میں نے جواب دیا۔
روہنی نے کہا۔ ”اب ہم چل رہے ہیں۔“ پہلے وہ غائب ہوئی ۔اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں بھی غائب ہوگیا۔ پھر ہم معمول کے مطابق آہستہ سے زمین پر سے بلند ہوۓ اور آہستہ آہستہ بلند ہوتے چلے گئے ۔ جب میں نے دیکھا کہ باغ کے درخت پچھلی رات کے دھندلکے میں دور نیچے دھبوں کی طرح نظر آنے لگے ہیں تو روہنی نے پرواز کی رفتار تیز کر دی۔ میں نے روہنی سے پوچھا۔ ” کیا تمہیں یہاں سے افریقہ تک کا راستہ معلوم ہے ؟
میرا مطلب ہے فضائی راستہ ۔“ مجھے روہنی کے ہلکے سے قہقہے کی آواز سنائی دی۔ کہنے لگی۔ ”ہم فضاؤں میں بھٹکنے والی بدروحیں ہیں۔ ہمیں فضائی راستوں کا ہوائی جہازوں کے ہوا بازوں سے زیادہ علم ہوتا ہے ۔
میں نے پوچھا۔ ”ہم کس وقت افریقہ پہنچیں گے ؟“ روہنی نے جواب دیا۔ ” یہ بڑا لمبا سفر ہے مگر جتنی دیر میں ہوائی جہاز وہاں پہنچتا ہے ہم اس سے پہلے پہنچ جائیں گے ۔“
ہم جے پور سے اڑے تھے ۔ ہم اتنی بلندی پر تھے کہ مجھے نیچے زمین دکھائی دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد صبح ہو گئی اور نیچے پہاڑیاں ، کھیت ، گاؤں اور شہر اور چھوٹے چھوٹے مکان نظر آنے لگے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہم کافی تیزی سے جار ہے ہیں۔ ہم کئی شہروں کے اوپر سے گزر گئے ۔ پھر ایک بہت بڑا شہر آگیا۔ روہنی نے کہا۔ ”ہم اس وقت تمہارے دوست جمشید کے شہر بمبئی کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔“ پھر بمبئی بھی گزر گیا اور سمندر شروع ہو گیا۔ روہنی نے کہا۔ ”ہم بصرہ ، کویت اور عراق کے ممالک سے گزرتے ہوئے قاہرہ اور پھر قاہرہ سے افریقہ پہنچیں گے ۔

ایتھوپیا شمالی افریقہ میں مصر کے ساتھ ہی واقع ہے۔“ یہ سب کچھ مجھے الف لیلی کی کوئی طلسمی داستان کی طرح لگ رہا تھا۔ میں نے کبھی زندگی میں سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اس طرح ہوا میں اڑ تا ہوا ان ملکوں کی سیر کروں گا۔ اس زمانے میں ابھی جیٹ ہوائی جہاز چلنا شروع نہیں ہوۓ تھے ۔
چار پنکھوں والے ٹرانڈنٹ جہاز ایک ملک سے دوسرے ملک میں پرواز کیا کرتے تھے اور ان کی رفتار ہلکی ہوتی تھی۔ ہم ابھی سمندر کے اوپر ہی تھے کہ میں نے نیچے نگاہ ڈالی تو مجھے ایک ہوائی جہاز اڑتا دکھائی دیا اس کا رخ بھی بصرے کی طرف تھا۔ میں نے روہنی سے کہا۔ ”لگتا ہے یہ جہاز بھی بصرے جارہا ہے۔“
ہماری منزل شمالی افریقہ کا ملک ایتھوپیا تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا جب ہم ایتھوپیا کے پہاڑی سلسلے کے آسمان پر پہنچے۔ روہنی نے کہا۔ ”ہم اپنی منزل پر آگئے ہیں۔
میں نے پوچھا۔ ” وہ جنگل یہاں سے کس طرف ہے جہاں ہمیں جانا ہے ؟“
روہنی نے کہا۔ ” جب میں وہاں پہنچوں گی تمہیں بتادوں گی۔" نیچے رات کا اندھیرا گہرا ہو رہا تھا۔ کہیں پہاڑی سلسلہ تھا اور کہیں ریتلا میدان تھا۔ ایک دریا بھی ہم نے دیکھا۔ ہم شہری آبادیوں سے کافی آگے نکل آۓ تھے اور اب جنگلات شروع ہو گئے تھے۔ ایک جگہ آکر روہنی کے اڑنے کی رفتار بہت مدھم ہو گئی۔ پھر اس نے ایک طرف کو غوطہ لگایا۔ وہ بڑی تیزی سے آگے نکل گئی۔ میں اس کے ساتھ ہی پرواز کر رہا تھا۔ چونکہ میں غیبی حالت میں تھا اس لئے مجھے اندھیرے میں بھی سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔
ہمارے نیچے اس وقت سمندر تھا۔ روہنی نے کہا۔ ” وہ جزیرہ آنے والا ہے
جس کے جنگل میں ہمیں اترنا ہے ۔ جب تک میں نہ کہوں بالکل مت بولنا۔“ میں خاموش رہا۔ ہم اب بہت مدھم رفتار کے ساتھ اڑ رہے تھے۔ روہنی اڑتے اڑتے کسی وقت مجھ سے کوئی بات کر لیتی تھی مگر مجھے بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ سمندر میں ایک بہت وسیع و عریض جزیرہ نظر آنے لگا۔ روہنی اب سرگوشی میں بات کرتی تھی۔ کہنے گئی ۔ "آسیبی لڑکی کی کھوپڑی والا جزیرہ آ گیا ہے ۔ بالکل خاموش رہنا۔“
ایک مقام پر آکر ہماری اڑنے کی رفتار اتنی ہلکی ہو گئی کہ مجھے احساس ہونے لگا کہ ہم رات کی تاریکی میں فضا میں لٹکے ہوۓ ہیں۔ روہنی مجھے لے کر جزیرے کے ایک کونے میں آہستہ آہستہ نیچے آرہی تھی۔ جہاں ہم اترے وہاں جنگلی جھاڑیوں سے ڈھکے ہوئے ٹھیلے تھے۔ روہنی مجھے لے کر ایک ٹیلے کے چھوٹے سے غار میں آگئی۔ اس نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا اور سرگوشی میں کہنے گئی۔ ”شیروان ! ہم کھوپڑی والے درخت سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے آسیبی لڑکی نتالیا کے آسیب کو ہمارے آنے کی اطلاع مل چکی ہو۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر وہ کسی بھی لمحے وہاں نمودار ہو سکتی ہے ۔۔۔
میں نے بڑی دھیمی سرگوشی میں کہا۔ ”میرے پاس شیش ناگن کی انگوٹھی ہے ۔“ ’’ہاں۔‘‘ روہنی نے کہا۔’’وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی لیکن اگر میں اس کے سامنے آ گئی تو وہ اپنا جوالا مکھی منتر پھونک کر مجھے ہلاک کر سکتی ہے ۔“ میں نے کہا۔ ” میری انگوٹھی تم پہن لو۔‘‘
روہنی بولی۔’’ابھی نہیں۔ ابھی یہ انگوٹھی تم ہی پہنے رہو ۔ میں عین وقت پر تم سے شیش ناگن والی انگوٹھی لوں گی ۔ تمہارے پاس انگوٹھی نہ ہوئی تو مجھے ڈر ہے کہ نتالیا کا آسیب تمہیں اٹھا کر لے جائے گا۔ اس وقت مجھے دو محاذوں پر جنگ کرنی ہے۔ ایک تو تمہیں آسیب سے بچانا ہے دوسرے آسیبی لڑکی کی کھوپڑی پاش پاش کرنی ہے.

پھر وہ کہنے لگی۔ ’’تم اس جگہ چپ کر بیٹھے رہو ۔ میں اس درخت کی نشاندہی کرتی ہوں جس کے نیچے آسیبی لڑکی نتالیا کی کھوپڑی دفن ہے۔“ میں نے کہا۔ ’’اپنا خیال رکھنا۔‘‘
میرے اس فقرے پر روہنی نے مجھے پلٹ کر دیکھا اور بولی۔ ’’یہ جان کر میرا حوصلہ بلند ہو گیا ہے کہ تمہیں میری فکر ہے ۔“
میں نے آگے سے کوئی جواب نہ دیا۔ روہنی غائب ہو گئی۔ اس وقت میں غائب نہیں تھا ظاہر حالت میں تھا اور ٹیلے کے غار میں اندھیرے میں ایک طرف سمٹ کر بیٹھا ہوا تھا۔ جنگل میں ہر طرف اندھیرا تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔
اچانک اس سناٹے کو چیرتی ہوئی ایک چیخ کی آواز سے جنگل کی خاموشی گونج اٹھی۔ میں اپنی جگہ پر کانپ سا گیا۔ اس کے بعد پھر سناٹا چھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد روہنی غار میں داخل ہوئی۔ وہ غیبی حالت میں تھی اور کچھ گھبرائی ہوئی بھی تھی۔ آتے ہی کہنے لگی۔’’ تم ٹھیک ہو ناں ؟‘‘ میں نے کہا۔ " یہ چیخ کی آواز کیسی تھی؟“ روہنی نے کہا۔ ” میں نے اس بدروح کو ختم کر دیا ہے جو کھوپڑی والے درخت پر بیٹھی آسیبی لڑکی کی کھوپڑی کی حفاظت کر رہی تھی۔ اب ہمیں دیر نہیں کرنی چاہئے ۔ میرے ساتھ آؤ۔“
میں اٹھ کر اس کے ساتھ گیا۔ روہنی خود بھی غائب تھی اور اس نے مجھے بھی غائب کر دیا ہوا تھا۔ ہم زمین پر چل نہیں رہے تھے بلکہ زمین سے کوئی سات فٹ کی بلندی پر ہوا میں بڑی آہستہ آہستہ جس طرح فلموں میں دکھایا جاتا ہے سلو موشن میں تیر رہے تھے۔ درختوں اور جھاڑیوں میں گہرا اندھیرا تھا مگر ہمیں دھندلا دھندلا سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔
فضا میں تیرتے تیرتے روہنی نے میرے بالکل قریب آکر ایک درخت کی طرف اشارہ کیا۔ یہ ایک بہت بڑا گھنا درخت تھا۔ روہنی نے زبان سے کچھ نہ کہا۔ میں سمجھ گیا کہ یہی وہ درخت ہے جس کے نیچے آسیبی لڑکی نتالیا کی کھوپڑی دفن ہے۔ جب یہ درخت کوئی پندرہ بیس فٹ دور رہ گیا تو ہم ایک جگہ گھنی جھاڑیوں میں اتر گئے اور وہیں دبک کر بیٹھ گئے۔ اب ہم بالکل زمین کے ساتھ لگ کر سلو موشن سے بھی کم رفتار کے ساتھ آگے کو جارہے تھے ۔
جب درخت تین چار قدموں کے فاصلے پر رہ گیا تو روہنی نے اپنے ساتھ مجھے بھی روک دیا۔ اس نے زبان سے کوئی لفظ نکالے بغیر میرے ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ سے ٹٹولا اور میری انگلی سے شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی اتارنے لگی۔ میری انگلی میں پڑھے پڑھے انگوٹھی سخت ہو گئی تھی اور انگلی سے نکل نہیں رہی تھی۔ ہم آپس میں بات نہیں کر سکتے تھے۔ روہنی انگوٹھی میری انگلی سے اتارنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ انگوٹھی اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہل رہی تھی۔
عین اسی وقت اچانک ہمارے سروں کے اوپر سے ہیبت ناک گونج کے ساتھ کوئی چیز آگے کو نکل گئی جیسے کوئی ہوائی جہاز ہمارے سروں کے قریب سے ہو کر گزر گیا ہو۔ روہنی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اس کے ساتھ ہی جنگل دہشت ناک چیخوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ روہنی مجھے لے کر ایسے ایک جانب اوپر کو پرواز کر گئی جیسے کوئی راکٹ چھوٹ گیا ہو ۔ ایک سیکنڈ کے اندر اندر ہم خدا جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ دہشت ناک آوازیں اب بھی ہمارے ساتھ ساتھ تھیں۔ روہنی نے گھبرائی ہوئی آواز میں مجھے کہا۔ ”شیروان ! نکل جاؤ . . . . . نکل جاؤ۔“ اور اس نے مجھے پوری طاقت سے ایک جانب دھکا دیا۔

میرا ہاتھ روہنی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں اکیلا اپنے آپ رات کی تاریک فضا میں بڑی تیزی سے اڑنے لگا۔ خدا جانے یہ روہنی کے دھکیلنے کا اثر تھا کہ میں فضا میں پستول کی گولی کی رفتار سے
اڑتا چلا جا رہا تھا۔ میرے چاروں طرف جیسے کوئی شے ، شاں شاں کی آواز سے جھپٹے مار رہی تھی۔ میری رفتار اتنی تیز تھی کہ مجھے لگتا تھا جیسے میں فضا میں تحلیل ہو کر ہوا کے جھونکے میں تبدیل ہو گیا ہوں۔ مجھے اوپر نیچے ، دائیں بائیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
پھر جھپٹنے کے شرائے اور چیخوں کی آوازیں غائب ہو گئیں۔ میں ابھی تک ہوا میں نا قابل تصور رفتار سے اڑتا چلا جارہا تھا۔
میں آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر میری آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں۔ مجھ پر جیسے کسی کا دباؤ پڑا ہوا تھا۔ میرے ہاتھوں کی مٹھیاں اپنے آپ بند ہو گئی تھیں۔ اتنی تیز رفتاری بلکہ برق رفتاری سے پرواز کرنے کا مجھے روہنی کے ساتھ پہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ پہلی بار پرواز کرتے ہوئے مجھے اپنا جسم بے حد بوجھل محسوس ہونے لگا تھا۔ مجھے یاد آ گیا میں نے سائنس کی کتاب میں ایک جگہ پڑا تھا کہ فضا میں جیسے جیسے کسی پرواز کرتی مادی شے کی رفتار تیز ہوتی جاتی ہے اس کا وزن بڑھتا چلا جاتا ہے۔
میرا وزن بڑھ گیا تھا کہ لگتا تھا میں کوئی چٹان ہوں جو ہوا میں اڑ رہی ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ میں آواز کی رفتار سے بھی کئی سو گنا تیز رفتاری کے ساتھ اڑ رہا تھا۔ یقینا یہ روہنی کے دھکے کا اثر تھا۔ شاید اس نے مجھے فضا میں کسی خاص رخ پر ڈال دیا تھا کیونکہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں ایک سمت کو پرواز کر رہا ہوں۔ پھر آہستہ آہستہ سب سے پہلے میرے جسم کا وزن کم ہونا شروع ہوا۔ کچھ ہی دیر بعد میرے جسم کا وزن غائب ہو گیا اور میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ میری آنکھیں اور میری ہاتھوں کی مٹھیاں بھی اپنے آپ کھل گئی تھیں۔ میں نے نیچے جھانک کر دیکھا۔ مجھے نیچے کسی شہر کی روشنیاں چھوٹے چھوٹے نقطوں کی طرح جھلملاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ خدا جانے یہ کون سا شہر تھا، کون سا ملک تھا۔ مجھے کچھ خبر نہیں تھی۔ میرا اڑنا اور میرا غائب ہونا میرے اختیار میں نہیں تھا۔
اس سے پہلے جب روہنی میرا ہاتھ چھوڑ دیتی تھی تو میں غیبی حالت سے ظاہری حالت میں آ جاتا تھا اور نظر آنے لگتا تھا۔ مگر اب روہنی کا ہاتھ چھوڑنے کے باوجود میں ابھی تک غائب تھا اور فضا میں اڑ رہا تھا۔ جبکہ پہلے روہنی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ اڑایا کرتی تھی۔

یہ میرے ساتھ ایک نئی بات ہوئی تھی۔ کوئی طاقت مجھے اپنے آپ کسی طرف لئے جارہی تھی۔ پہلے میرا وزن کم ہو کر غائب ہو گیا تھا اب اپنے آپ میری رفتار کم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ابھی رات ہی تھی۔ اوپر آسمان پر تارے چمک رہے تھے۔ نیچے سے کوئی آبادی گزرتی تو اس کی ٹمٹماتی روشنیاں نظر آجاتی تھیں ۔ ابھی تک مجھے یہ علم نہیں تھا کہ میں کس ملک میں ہوں۔ میری رفتار ضرور کم ہو گئی تھی لیکن میں نیچے نہیں آرہا تھا۔ پھر جیسے اپنے آپ کسی نے مجھے آہستہ آہستہ نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ ایک جگہ پر آکر میں بالکل سیدھا ہو کر اڑنے لگا۔ اس وقت میرے نیچے اندھیرے میں پہاڑوں کے دھندلے دھندلے خاکے دکھائی دے رہے تھے۔ پھر یہ پہاڑ پیچھے رہ گئے اور دور سے شہر کی روشنیاں قریب آنے لگیں۔ میں اپنے آپ نیچے ہوتا گیا۔
زمین سے کوئی سو ڈیڑھ سوفٹ کی بلندی پر آکر میں ایک بار پھر سیدھی پرواز کرنے لگا۔ میں شہر کی روشنیوں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ ابھی تک میں نے اس شہر کو بالکل نہیں پہچانا تھا۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ جو غیبی قوت مجھے اڑاۓ لئے جارہی ہے وہ مجھے اس شہر میں کسی جگہ اتارنا چاہتی ہے۔ میری رفتار کبھی آہستہ ہو جاتی کبھی ذرا تیز ہو جاتی ۔ میری کیفیت بالکل ایسی تھی جیسے کوئی ہوا جہاز لینڈ کرنے والا ہو ۔
میں درختوں کے ایک جھنڈ کے اوپر سے گزر گیا۔ سامنے ایک قلعہ نما محل دکھائی دیا جس کی چار دیواری کے احاطے میں بجلی کے بلب روشن تھے۔ میں نے فورا اسے پہچان لیا۔ یہ وہی قدیم محل تھا جہاں آدھی رات کو روہنی کی سہیلی درگا کی بدروح آیا کرتی تھی۔
اس کا مطلب تھا کہ میں راتوں رات برق رفتاری سے پرواز کرتا ہوا افریقہ کے ملک سے اڑ کر بھارت کے شہر جے پور پہنچ گیا تھا۔ یہ کام روہنی کی طلسمی طاقت نے انجام دیا تھا۔ روہنی چاہتی تھی کہ میں اپنے آپ کو بچا کر درگا کے پاس چلا جاؤں۔ روہنی ہی کی طلسمی طاقت نے مجھے غیبی حالت میں رکھتے ہوۓ راتوں رات اڑا کر درگا کے محل پر پہنچا دیا تھا۔ میں محل کی چھت کے اوپر آ گیا اور پھر اپنے آپ چھت پر اتر گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی ہیلی کاپٹر اترتا ہے ۔ میں ابھی تک غیبی حالت میں تھا۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی میری انگلی میں موجود تھی۔۔

اک لڑکی کا خوفناک سفر 

خدا جانے روہنی پر کیا گزری ہوگی۔
لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ بھی اپنے آپ کو بچا کر کسی طرف نکل گئی ہوگی ۔ وہاں ہوا یہ تھا کہ عین اس وقت جب روہنی میری انگوٹھی اتار کر اپنی انگلی میں ڈالنے کے بعد آسیبی لڑکی کی کھوپڑی زمین سے نکالنے والی تھی تو آسیبی لڑکی نتالیا کا آ سیب سر پر پہنچ گیا تھا۔ وہ مجھ پر تو حملہ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میرے ہاتھ میں شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی تھی۔ لیکن روہنی نہتی تھی۔ اس کے پاس آسیب کے خوفناک حملے سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے کوئی طاقت نہیں تھی۔ وہ یہی کر سکتی تھی کہ مجھے وہاں سے نکال کر خود کسی طرف کو فرار ہو جاۓ۔
ظاہر ہے کہ آسیب پتہ چل گیا تھا کہ روہنی اس کی دفن شدہ کھوپڑی توڑ کر اس کی طاقت کو ختم کرنے آئی ہے ۔ روہنی کے ساتھ کیا بیتی تھی اس کا مجھے کچھ علم نہیں تھا۔ اس کا حال اگر کوئی بتا سکتا تھا تو وہ درگا کی بدروح ہی تھی شاید اسی لئے روہنی نے مجھے اس کے پاس بھیج دیا تھا۔
میں چھت پر سے اتر کر ویران محل کے تہہ خانے میں آگیا۔ میرا خیال تھا کہ میں آدھی رات کو افریقہ کے ملک سے چلا تھا اور جس قیامت خیز رفتار کے ساتھ اڑتا ہوا میں جے پور پہنچا تھا اس کے پیش نظر ابھی آدھی رات کا ہی وقت ہونا چاہئے تھا۔ تہہ خانے میں آکر میں غیبی حالت میں ہی ایک ستون کے پاس کھڑے ہو کر سامنے والے
ستون کے پیچھے جو دیوار تھی اس کو دیکھنے لگا۔
درگا کی بدروح اس دیوار پر ظاہر ہوتی تھی۔ مجھے وہاں آۓ دو تین منٹ ہی گزرے تھے کہ دور سے ہلکی ہلکی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ میں سمجھ گیا کہ درگا کی بدروح آ رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد چیخوں کی آواز غائب ہو گئی۔ دیوار پر ایک روشنی سی چمک کر بجھ گئی اور پھر درگا کی بدروح نمودار ہو گئی۔
میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ درگا کی بدروح اپنی لال انگارہ آنکھوں سے مجھے مسلسل تکتی رہی ۔ میں بالکل خاموش رہا۔ درگا کی بدروح نے گہرا سانس بھرا۔ جیسے کسی سانپ نے دھیمی سی پھنکار ماری ہو ۔ اس نے مجھ سے کہا۔ ”شیروان ! تم خوش قسمت ہو کہ نتالیا کے آسیب کے حملے سے بچ گئے ۔ اگر تمہارے پاس شیش ناگن کی انگوٹھی نہ ہوتی تو اس وقت یہاں نہ ہوتے۔“
میں نے کہا۔’’درگا! مگر مجھے روہنی کے بارے میں تشویش ہے ۔ اس نے مجھے تو آسیب کی مصیبت سے نکال دیا تھا مگر معلوم نہیں اس کے ساتھ کیا گزری ہوگی اور وہ اس وقت کہاں ہوگی۔ کس حالت میں ہوگی۔“
درگا کی بدروح کہنے لگی۔ ’’آسیب کی دنیا ہم بدروحوں کی دنیا سے بالکل مختلف اور الگ ہوتی ہے ۔ کوئی بدروح آسیب کی دنیا میں داخل ہونے کی جرات نہیں کر سکتی اس لئے مجھے خود معلوم نہیں ہے کہ روہنی اس وقت کہاں ہوگی۔ تم مجھے یہ بتاؤ کہ جس وقت تم اس سے الگ ہوئے تھے کیا تمہیں روہنی کی کوئی چیخ وغیرہ سنائی دی تھی؟“

میں نے کہا۔ کوئی چیخ سنائی نہیں دی تھی۔ روہنی گھبرائی ہوئی ضرور تھی۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ شیروان یہاں سے نکل جاؤ . . . . . نکل جاؤ۔“ ”اس کے بعد کیا ہوا تھا؟‘‘درگا نے پوچھا۔
میں نے کہا۔’’اس کے بعد روہنی نے مجھے بڑے زور سے ایک طرف دھکیل دیا تھا اور میں ایک راکٹ کی طرح فضا میں اڑ گیا تھا۔“ درگا کی بدروح کچھ دیر کے لئے کسی سوچ میں پڑ گئی۔ پھر کہنے لگی۔ ’’اگر روہنی کی کوئی چیخ سنائی نہیں دی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ اسے کچھ نہیں ہوا اور وہ اپنے آپ کو بچا کر لے گئی ہے ۔ "
مگر وہ کہاں گئی ہوگی ؟“ میں نے پوچھا۔ ” وہ میرے ساتھ کیوں نہیں بھاگی ؟“ درگا نے کہا۔ ”روہنی نے تمہارے ساتھ اپنی محبت کا ثبوت دیا ہے ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ بھاگتی تو اگرچہ تمہارے پاس شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی تھی لیکن اس بات کا خطرہ تھا کہ آسیبی لڑکی نتالیا کا آسیب تم پر بھی حملہ نہ کر دے کیونکہ آسیبی لڑکی نتالیا تمہیں بھی اغوا کر کے واپس لے جانا چاہتی تھی۔“ میں نے کہا۔ ”لیکن میرے ہاتھ میں تو شیش ناگن کی انگوٹھی تھی وہ مجھے کیسے اغوا کر سکتی تھی؟‘‘
درگا کی بدروح نے اس کے جواب میں کہا۔ ” ٹھیک ہے۔ نتالیا کا آسیب تمہارے نزدیک نہیں آ سکتا تھا لیکن روہنی نہیں چاہتی تھی کہ تالیا کا آسیب اسے چھوڑ کر تمہارے پیچھے لگ جائے۔ اگر آسیب تمہارے پیچھے لگ جاتا تو پھر اس نے تمہیں نہیں چھوڑنا تھا اور کسی نہ کسی طریقے سے تمہارے ہاتھ کی انگوٹھی غائب کر کے تمہیں پکڑ لینا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ روہنی نے آسیب کو اپنے پیچھے لگالیا اور تمہیں بچالیا۔‘‘
میں روہنی کی اس قربانی سے کافی متاثر ہوا تھا۔ مجھے اس سے ہمدردی پیدا ہوگئی تھی۔ اب مجھے اس کی جان کا فکر لگ گیا تھا۔ میں نے درگا سے کہا۔ ’’درگا ! نتالیا کا آسیب تو روہنی کا جانی دشمن بن چکا ہے کیونکہ روہنی اس کی دفن شدہ کھوپڑی کو توڑنے اور اس کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر نے کے لئے وہاں آئی تھی۔“ درگا نے کہا۔’’ہاں۔ نتالیا کا آسیب روہنی کی جان کا دشمن بن چکا ہے ۔ کیونکہ '
نتالیا کی کھوپڑی کے ٹوٹ جانے سے اس کی ساری طاقت اس سے چھن جانی تھی اور پھر کوئی کمزور سے کمزور معمولی بدروح بھی اسے اپنا غلام بنا سکتی تھی اور اسے ہلاک بھی کر سکتی تھی۔“

” پھر تو روہنی کو ہمیں بچانا چاہئے ۔‘‘میں نے درگا سے کہا۔’’اگر روہنی کو کچھ ہو گیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ کیونکہ اس نے یہ سارا خطرہ صرف مجھے اس مصیبت سے نکالنے کے لئے مول لیا تھا۔ مجھے بتاؤ درگا ! روہنی کہاں ہوگی ؟ میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔“ درگا کی بدروح بولی۔” مجھے خود معلوم نہیں کہ روہنی کہاں ہے۔ میں تمہیں کیسے بتا سکتی ہوں؟“
میں نے فکر مندی کے ساتھ کہا۔ ”کیا تم کسی طرح اس کا پتہ نہیں لگا سکتیں درگا؟ تم تو دور کی چیزیں بھی دیکھ لیتی ہو ۔ “ درگا کہنے لگی۔’’اگر روہنی کا مقابلہ کسی بدروح سے ہوتا تو میں ضرور اس کا پتہ لگا سکتی تھی اور اس کی مدد بھی کر سکتی تھی لیکن اس کا مقابلہ ایک آسیب سے ہے۔ میں آسیب کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘‘
پھر وہ کچھ سوچ کر بولی۔’’ایک بات ہو سکتی ہے ۔ ”وہ کیا ؟“ میں نے جلدی سے پوچھا۔ درگا نے کہا۔ ”روہنی کا پتہ صرف مالینی بدروح ہی بتا سکتی ہے۔اس کے لئے مجھے اس کے پاس بدروحوں کی سب سے خطرناک دنیا میں جانا ہوگا۔‘‘ میں نے کہا۔ ”درگا ! روہنی تمہیں اپنی سب سے پیاری اور گہری سہیلی سمجھتی ہے۔ وہ میرے سامنے تمہارا ذکر ہمیشہ بڑی محبت سے کیا کرتی ہے۔ کیا تم اپنی سہیلی کے لئے اتنا سا کام بھی نہیں کروگی؟“
درگا اگرچہ بدروح تھی لیکن میری باتوں کا اس پر اثر ہو گیا۔ کہنے لگی۔ ”کیوں نہیں جاؤں گی۔ میں ابھی مالینی کے پاس جاتی ہوں۔
میں نے کہا۔ ” میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا۔“ وہ بولی۔ ’’وہاں جانے کا پھر بھی نام نہ لینا۔ تم اس محل میں ٹھہرو مجھے وہاں زیادہ
دیر نہیں لگے گی۔“ یہ کہہ کر درگا کی بدروح غائب ہو گئی۔
میں تہہ خانے میں ایک ستون کے پاس بیٹھ گیا۔ درگا بدروح کو گئے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ تہہ خانے کی دیواریں اس طرح ہلنے لگیں جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔ میں غیبی حالت میں ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ دیواریں لرز رہی تھیں۔ ایسے لگتا تھا ابھی ایک دوسری سے ٹکرا جائیں گی۔ میں وہاں سے بھاگنے ہی والا تھا کہ تہہ خانے کی فضا میں ایک خوفناک چیخ بلند ہوئی اور میں وہیں سہم کر بیٹھ گیا۔ چیخ کی آواز دیر تک تہہ خانے میں گونجتی رہی۔

اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔ اچانک مجھے گلاب کے پھولوں کی خوشبو آنے لگی۔ میں چونک گیا۔ یہ خو شبو نتالیا کے لباس سے آیا کرتی تھی۔ وہی نتالیا جو حقیقت میں ایک انتہائی ظالم اور خطرناک آسیبی لڑکی تھی اور جو مجھ سے محبت کرتی تھی اور جس نے زبردستی مجھ سے شادی کر لی تھی اور جواب میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور جس نے روہنی کو ہلاک کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔

میں سمجھ گیا کہ آسیبی لڑکی نتالیا اس تہہ خانے میں آ گئی ہے ۔ میں نے بھاگنا چاہا لیکن غیبی حالت میں ہونے کے باوجود میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہل سکا اور مجھے اپنے پاؤں ایک ایک من کے بھاری محسوس ہونے لگے۔ میں نے جلدی سے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ میرے ہاتھ کی انگلی میں شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی موجود تھی۔ میں مطمئن ہو گیا۔ اگر روہنی کو پاتال کی دلدلی گہرائیوں سے نکال کر باہر لانے والے سفید سانپ کے کہنے کے مطابق شیش ناگن کے مہرے کی وجہ سے کوئی جن بھوت کوئی آسیب میرے قریب نہیں آسکتا تھا ۔۔۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 23

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں