پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 23

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 23


آسیب میرے قریب نہیں آ سکتا تھا تو آسیبی لڑکی نتالیا بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ میں پتھر کا بت بنا اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ گلابوں کی خوشبو گہری ہوگئی۔ پھر مجھے آسیبی لڑکی نتالیا کی محبت بھری آواز آئی۔ میری جان ! تم مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے ؟ میں تمہاری تلاش میں بھٹکتی پھرتی تھی۔ تمہاری خوشبو مجھے یہاں لے آئی ہے ۔ دیوتاؤں کا شکر ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے مجھے دوبارہ تم سے ملا دیا۔ چلو گھر چلیں جہاں ہماری شادی ہوئی تھی۔

میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ” میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ تم یہاں سے چلی جاؤ۔“ نتالیا نے اداس آواز میں کہا۔ ’’میری جان ! تم مجھ سے کس لئے ناراض ہو ۔ کیا تمہیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتی ہوں۔“ میں نے کہا۔ ’’نتالیا! مجھے یہ راز معلوم ہو چکا ہے کہ تم کون ہو۔ میں تمہاری اصلیت جان گیا ہوں۔ اب میں کبھی تمہارے جال میں نہیں پھنسوں گا۔“

نتالیا کی آواز آئی۔ میری جان ! تم کو میرے بارے میں کسی نے غلط بتایا ہے ۔ میں تمہاری داسی ہوں۔ تمہاری کینز ہوں تم سے پیار کرتی ہوں پھر تم کیوں مجھ سے دور بھاگتے ہو ؟“
ابھی تک نتالیا کی مجھے آواز ہی آرہی تھی۔ وہ خود کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے کہا۔ ”میں تم سے اس لئے دور بھاگتا ہوں کہ تم انسان نہیں ہو ۔ ایک چڑیل ہو ۔ بدروح سے بھی بدتر ایک خطرناک آسیب ہو ۔ اب میں تمہاری چال میں آنے والا نہیں ہوں۔“

نتالیا نے کہا۔ اگر میں کوئی چڑیل ہوں ، کوئی آسیب ہوں تو پھر میں تمہیں اٹھا کر بھی لے جاسکتی ہوں۔“
میں نے کہا۔ ”میرے ہاتھ میں شیش ناگن کی انگوٹھی ہے ۔ میں جانتا ہوں تم مجھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی۔“
نتالیا ایک دم ظاہر ہو گئی۔ وہ مجھ سے دس پندرہ گز دور ستونوں کے درمیان کھڑی میری طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے عام عورتوں کی طرح شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ گلے میں ریشمی دوپٹہ تھا۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایک نظر اسے دیکھ کر مجھے یقین سا ہونے لگا کہ نتالیا کوئی چڑیل یا آسیب نہیں ہے بلکہ یہ بڑی ہی درد دل رکھنے والی اور اپنے خاوند کی محبت میں ڈوبی ہوئی عورت ہے اور جتنا یہ مجھ سے پیار کرتی ہے اتنا پیار شاید ہی کوئی مجھ سے کرتا ہوگا۔ لیکن فورا مجھے خیال آ گیا کہ یہ سب دکھاوا ہے۔

یہ عورت کوئی بدروح یا چڑیل ہی نہیں بلکہ اس سے ایک ہزار گنا زیادہ خطرناک آسیب ہے جو کھڑے کھڑے زندہ انسانوں کا خون پی جاتی ہیں اور آدمی ایک سیکنڈ میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر گر پڑتا ہے۔ ٹھیک ہے یہ آسیبی لڑکی مجھے پسند کرتی ہے لیکن اس کی محبت میں بھی میری موت ہے۔ میں نے اسے کہا۔ " نتالیا! میرا پیچھا کرنا چھوڑ دو اور اپنی دنیا میں واپس چلی جاؤ کیونکہ میں کبھی تمہارے قابو میں نہیں آ سکوں گا۔ شیش ناگن کی انگوٹھی اب ساری زندگی میرے ساتھ رہے گی۔“
نتالیا نے آنسو بہاتے ہوۓ کہا۔’’ میرے پیارے! کیا تم بھول گئے ہو کہ ہماری شادی ہو چکی ہے۔ میں تمہاری بیوی ہوں اور تم میرے خاوند ہو۔“ میں نے کہا۔ ”نہ تم میری بیوی ہو نہ میں تمہارا خاوند ہوں۔ میری شادی چڑیلوں اور بھوتوں نے کی تھی۔ میں اسے شادی نہیں مانتا۔ یہ شادی میری مرضی کے خلاف ہوئی ہے ۔"
اچانک ایسا ہوا کہ جہاں نتالیا کھڑی تھی وہاں ایک شعلہ بھڑکا اور ایک ایسی چیخ بلند ہوئی جس سے محل کے در و دیوار لرز اٹھے۔ میرا دل خوف کے مارے ڈوبنے لگا۔
دوسرے لمحے جہاں نتالیا کھڑی تھی وہاں ایک ایسی عورت کھڑی تھی جس کی آنکھوں میں آگ کے شعلے لپک رہے تھے ، چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔ چہرے اور سارے جسم کا رنگ نیلا ..... گہرا نیلا تھا۔ سر کے بال میں سینکڑوں سانپ رینگ رہے تھے ، کلبلا رہے تھے۔اس کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی دوسرے ہاتھ میں نوکیلا ترشول تھا۔ یہ نتالیا کا اصل روپ تھا۔ یہ اس کا آسیب تھا۔ میں خوف سے کانپ رہا تھا۔ بھاگنا چاہتا تھا مگر بھاگ نہیں سکتا تھا۔

میرا سارا غیبی جسم پہاڑ کی طرح بھاری ہو گیا تھا۔ وہ ترشول کو میری طرف کر کے آگے بڑھی۔ شیش ناگن کے مہرے پر میرا یقین غائب ہو گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ مہرہ مجھے اس آسیب ، اس چڑیل سے نہیں بچا سکے گا۔ میں خدا کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے لگا۔ نتالیا کا آسیب مجھے غیبی حالت میں بھی دیکھ رہا تھا۔ وہ میری طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے ترشول کا رخ میرے چہرہ کی طرف تھا۔ اس کے حلق سے ڈراؤنی آوازیں نکل رہی تھیں ۔ اس نے دہشت ناک آواز میں کہا۔ ’’فیروز ! میں جانتی ہوں تمہیں میرے خلاف روہنی نے ور غلایا ہے۔

وہ میری دشمن ہے۔ میں تمہارے ساتھ اسے بھی نہیں چھوڑوں گی۔ اسے تو میں نے ایسی جگہ پہنچا دیا ہے جہاں سے وہ ہزاروں سال تک باہر نہیں نکل سکے گی۔اب میں تم سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لوں گی۔ میں تمہیں اس طرح قتل کر وں گی کہ سب سے پہلے تمہارا خون پی جاؤں گی۔ پھر تمہارے جسم کے ٹکڑے ایک ایک کر کے کھا جاؤں گی۔“

اس نے ایک دل ہلا دینے والی چیخ ماری اور زور سے ترشول میری طرف پھینکا۔ میں نے بے اختیار اپنے اللہ کو پکارا۔ اس کے ساتھ ہی ترشول مجھ سے چار قدم کے فاصلے پر آکر غائب ہو گیا۔ آسیبی چڑیل نتالیا کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے ۔ اس نے دوڑ کر مجھ پر تلوار کا وار کرنا چاہا لیکن ایک جھٹکے کے ساتھ کسی نے اسے اٹھا کر دور پھینک دیا۔ نتالیا کے آسیب کے حلق سے بھیانک آواز بلند ہوئی اور وہ چیختی چلاتی غائب ہو گئی۔

پھر جیسے دور سے اس کی آواز آئی۔ ”فیروز یاد رکھ ۔ میں تیرا پیچھا نہیں چھوڑوں گی۔ آج نہیں تو کل میں تیر اخون پی کر رہوں گی۔‘‘ اور پھر تہہ خانے میں موت کی خاموشی چھا گئی۔ میں ابھی تک خوف سے لرز رہا تھا۔ آسیبی چڑیل کے غائب ہوتے ہی میرا جسم پھول کی طرح ہلکا ہو گیا۔ خدا نے مجھے اس بلا سے محفوظ کر لیا تھا۔ میں سجدے میں گر پڑا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ اتنے میں تہہ خانے کے سامنے والی دیوار پر روشنی ہوئی اور درگا بد روح کا چہرہ نمودار ہوا۔ اس نے آتے ہی مجھ سے کہا۔” مجھے یہاں کسی آسیب اس کی بو آرہی ہے۔ کیا نتالیا کا آسیب یہاں آیا تھا؟‘‘
میں نے درگا کو سارا خوفناک واقعہ سنا دیا۔ وہ بولی۔ "شیروان ! شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی نے تمہیں بچا لیا ہے ۔ اگر یہ انگوٹھی تمہاری انگلی میں نہ ہوتی تو آج تمہارا زندہ بچانا ناممکن تھا۔“

میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ انگوٹھی تو ایک بہانہ تھا۔ اصل میں تو مجھے خدا نے اس منحوس بلا سے بچایا ہے۔ اب مجھے روہنی کی فکر لگ گئی تھی۔ نتالیا کے آسیب نے کہا تھا کہ اس نے روہنی کو اس جگہ پہنچا دیا ہے جہاں سے وہ ہزاروں سال تک بھی باہر نہ نکل سکے گی۔ میں نے یہ بات درگا کو بتائی اور اس سے پوچھا۔’’درگا! آسیبی عورت نتالیا نے روہنی کو کہاں قید میں ڈالا ہوگا۔ میں اسے ہر حالت میں وہاں سے نکالنا چاہتا سے ہوں۔

درگا کہنے لگی۔ ’’نتالیا کے آسیب نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے بالکل صحیح بتایا ہے ۔ اس نے روہنی کو ہلاک تو نہیں کیا لیکن اسے اپنے قبضے میں کر کے ایک ایسی جگہ پھینک دیا ہے جہاں انسان تو کیا کسی بدروح کا پہنچنا بھی مشکل ہے ۔“ میں نے اس سے پوچھا۔ ” مالینی نے تمہیں کیا بتایا ہے ؟“ درگا بولی۔’’مالینی نے بھی یہی بتایا ہے کہ نتالیا کے آسیب نے روہنی کو اپنے قبضے میں کرنے کے بعد ہلاک نہیں کیا مگر اس نے اسے ایسی جگہ پر پھینک دیا ہے جو موت سے بدتر جگہ ہے جہاں روہنی جتنی دیر رہے گی مرتی رہے گی۔“ میں نے پوچھا۔ ”وہ جگہ کہاں ہے ۔ کیا ہم اسے وہاں سے نکال کر نہیں لا سکتے ؟
میں روہنی کو بچانے کے لئے اپنی جان کی بازی بھی لگا سکتا ہوں۔“ درگا کہنے لگی۔’’ ہم دنیا میں جب زندہ حالت میں تھیں، تو ہمیشہ بتوں کی پوجا کی ہے۔ کبھی ایک خدا کی عبادت نہیں کی۔ یہ ہمیں اس شرک کی سزا ملی ہے کہ ہم بدروحیں بن گئی ہیں ۔ تم مسلمان ہو۔ تمہارے سینے میں ایک خدا کے نور کی شمع روشن ہے۔ تمہارے اندر ایمان کی اتنی طاقت ہے کہ تم پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہو لیکن تمہیں اس کا احساس نہیں ہے اگر احساس ہے تو بہت کم احساس ہے۔
تمہارے ایمان کی طاقت کے سامنے شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر تم اپنے اندر ایمان کی پتلی پیدا کر لو تو تم بدروحوں کو تو کیا خطرناک سے خطرناک آسیبوں کو بھی شکست دے سکتے ہو۔
میں نے کہا۔ ’’درگا! یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں مسلمان ہوں اور خداۓ واحد پر ایمان رکھتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیشہ اس نے مجھے ہر مصیبت سے نکالا ہے۔

درگا کہنے لگی۔ ’’ تمہارا خدا اب بھی تمہاری مدد کرے گا بشرطیکہ تم اپنے ایمان کو چٹان سے بھی زیادہ ،اتنا مضبوط بنالو کہ بڑے سے بڑے خوف کے سامنے بھی اس میں ذرا سی بھی لرزش نہ آ سکے۔“ میں نے کہا۔ "میں اللہ کے حکم سے ایسا کر سکتا ہوں لیکن تم ایسا کیوں کہہ رہی؟
درگا کہنے لگی۔ میں یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہی ہوں کہ جہاں روہنی کو نتالیا کے آسیب نے پھینکا ہوا ہے وہاں شیش ناگن کا مہرہ بھی تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔
میرا آتشی منتر بھی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ وہاں اگر کوئی طاقت تمہارے کام آ سکتی ہے اور تمہاری مدد کر سکتی ہے تو وہ صرف ایمان کی طاقت ہے۔ اگر اپنے رب پر تمہارا ایمان چٹان کی طرح پختہ ہے تو پھر تم روہنی کو آسیبی عورت کی قید سے نکال کر لا سکتے ہو۔“

میں نے کہا۔ میرا اپنے اللہ پر ایمان چٹان سے بھی بڑھ کر پختہ ہے۔ تم مجھے بتاؤ کہ روہنی کو لانے کے لئے مجھے کہاں جانا ہوگا؟“ " تم خود وہاں نہیں جا سکو گے ۔" درگا نے کہا۔ "وہاں تمہیں میں پہنچاؤں گی .... یہاں سے جنوب کی جانب بہت دور دھار اوار اور بنگلور کے درمیان ہزاروں سال پرانے بارانی جنگلات ہیں۔ یہ جنگل اتنے گھنے ہیں کہ دن کے وقت بھی یہاں اندھیرا چھایا رہتا ہے ۔ ان جنگلوں میں شاید ہی کبھی انسان کا گزر ہوا ہو ۔ یہاں جنگلی جانور بھی جاتے ہوۓ ڈرتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ آسیبی جنگل ہیں اور رات کو یہاں چڑیلوں کی ڈراؤنی آواز میں آتی ہیں۔ یہاں اونچی اونچی پہاڑیاں اور چٹائیں ہیں جن کے درمیان تنگ و تاریک گلیاں سی بن گئی ہیں۔

ان تنگ پہاڑی گلیوں میں اس قدر جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں کہ یہاں سے بڑی مشکل سے آدمی گزر سکتا ہے ۔ مگر اس طرف کبھی کوئی آدمی تو کیا جنگلی جانور بھی نہیں گزرتا ۔ ان اونچی اونچی چٹانوں اور پہاڑیوں کے درمیان ایک دریا بہتا ہے ۔۔ اس دریا کا پاٹ ان پہاڑی چٹانوں میں زیادہ چوڑا نہیں ہے ایک چھوٹی ندی جتنا ہے مگر پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ اگر اوپر سے کوئی چٹانی پتھر بھی ٹوٹ کر پانی میں گرے تو تیز رفتار موجیں اسے تنکے کی طرح بہا کر لے جائیں گی .....
یہ دریا ان پہاڑی گلیوں اور چٹانوں کے در میان سے پتھروں اور چٹانوں کی دیواروں سے سر ٹکراتا ایک پہاڑی کے پاس آ جاتا ہے جہاں اس کی دو شاخیں ہو جاتی ہیں۔ ایک شاخ چٹانوں کی طرف نکل جاتی ہے اور دوسری شاخ پہاڑی کے اندر غار میں زبردست شور کے ساتھ داخل ہو جاتی ہے۔

غار کے اندر اندر بہتا ہوا یہ تیز رفتار دریا غار کے اندر بنے ہوۓ ایک بہت بڑے اور ڈراؤنی شکل والے اژدھا کے بت کے لمبے دانتوں والے منہ کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ یہاں تمہیں ہمت سے کام لے کر دریا کی تیز رفتار موجوں کے ساتھ ہی اژدھا کے منہ میں داخل ہو جانا ہوگا۔ اژدھا کے منہ کے اندر دریا شور مچاتا ، غراتا ایک تاریک غار میں سے گزر کر ایک جگہ نکل آتا ہے جہاں تمہیں چاروں طرف بڑا ڈراؤنا منظر نظر آۓ گا مگر تمہیں ڈرنا نہیں ہوگا۔ اگر ڈر گئے تو تم وہیں پتھر کا بت بن جاؤ گے “

میں نے پوچھا۔’’وہاں روہنی کہاں ہوگی ؟“ درگا نے کہا۔ ” وہاں سیاہ کالی چٹانوں کے درمیان تمہیں ایک چٹان میں ایک دروازہ بنا ہوا نظر آۓ گا۔ دروازے کی دونوں جانب دو اژدھے بیٹھے ہوں گے جن کے منہ سے شعلے نکل رہے ہوں گے ۔ اگر تم ان اژدھوں کے منہ سے نکلنے والے شعلوں میں سے گزر کر دروازے کے اندر داخل ہو گئے تو وہاں تمہیں روہنی مل جاۓ گی۔ اس سے زیادہ میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتی کیونکہ مجھے خود معلوم نہیں ہے کہ روہنی وہاں کس حال میں ہو گی اور وہاں کسی قسم کی ڈراؤنی مخلوق آباد ہو گی ....."

میں نے کہا۔ ’’ڈدرگا! اپنے خدا پر میرا ایمان بڑا پختہ ہے اور اسے کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتا۔ میں کسی بدروح یا اژدھا سے ڈروں کا نہیں لیکن وہاں آگ کے شعلوں نے دروازے میں سے گزرنے والے راستے کو بند کر رکھا ہوگا اور آگ کا کام ہر شے کو جلا دینا ہے۔ ہو سکتا ہے میں بھی اس آگ میں جل جاؤں کیونکہ میں کوئی پیر اولیا نہیں ہوں بڑا گناہ گار انسان ہوں۔“

درگا یہ سن کر بولی۔ میں جانتی تھی تم یہی جواب دو گے اس لئے میں نے اس کا ایک حل سوچ رکھا تھا۔ یہاں سے تم بنگلور جاؤ گے۔ بنگلور شہر کے باہر دریا کے کنارے ایک پہاڑی پر ایک بزرگ بخاری کی کا مزار ہے ۔ یہ بڑے عبادت گزار ،پرہیز گار اور خلق خدا کی خدمت کرنے والے اور خلق خدا سے محبت کرنے والے بزرگ تھے۔

وہ دکھی انسانوں کی مدد فرمایا کرتے تھے اور ان کے نیک عمل کو دیکھ کر اس علاقے کے ہزاروں بت پرست کفر سے توبہ کر کے مسلمان ہو گئے تھے۔ ان کے مزار شریف سے ہر وقت تلاوت کلام پاک کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ تم بخاری جی کے مزار پر جا کر اپنے طریقے سے خدا کی عبادت کرو گے۔ وہاں تمہیں ایک بزرگ ملیں گے جو تمہاری راہ نمائی فرمائیں گے ۔ بس مجھے یہی کہنا تھا۔ صبح ہونے والی ہے تم یہاں سے اپنے سفر پر روانہ ہو جاؤ۔“
میں نے کہا۔ ” کیا میں اس طرح غائب رہ کر ہی سفر کروں گا؟“ درگا نے کہا۔ بنگلور میں بخاری جی کے مزار شریف تک تم اسی طرح غائب ہو کر سفر کرو گے ۔ وہاں پہنچنے کے بعد تم اپنی انسانی شکل میں واپس آجاؤ گے ۔ بس اب جاؤ میرے جانے کا وقت بھی ہو گیا ہے۔“ اس کے فورا بعد درگا غائب ہو گئی۔

میں تہہ خانے میں ستون کے پاس کھڑا درگا کی بتائی ہوئی ساری باتیں اپنے دل میں دہراتا رہا کہ مجھے کہاں جانا ہوگا اور کیا کرنا ہوگا۔ جب مجھے اس کی بتائی ہوئی ایک ایک بات پوری طرح سے ذہن نشین ہو گئی تو میں تہہ خانے کا زینہ چڑھ کر محل کے بڑے کمرے میں آگیا۔ دیواروں کے شکستہ پرانے محرابی روشندانوں میں سے دن کی روشنی اندر آرہی تھی۔ میں محل کی چھت پر آگیا۔ صبح کی گلابی دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ دور دور تک جے پور شہر کے گلابی مکانوں کی دیواریں چکتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔

مجھے یہاں سے بھارت کے جنوب کی سمت سفر کرنا تھا۔ بنگلور میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ کوئی نہ کوئی غیبی طاقت ضرور پرواز میں میری مدد کرے گی اور میں اپنی سمت کو صحیح رکھ سکوں گا۔ میں نے طلوع ہوتے سورج کی طرف دیکھا۔ سورج مشرق سے طلوع ہو رہا تھا۔ مجھے جنوب کی طرف اڑنا تھا۔ میں نے اپنا منه جنوب کی طرف کر لیا اور پھر ایسا ہوا جیسے کسی نے مجھے ویران محل کی چھت پر سے اٹھا کر جنوب کی طرف اچھال دیا اور اس کے ساتھ ہی میں اپنے آپ ہوا میں پرواز کرنے لگا۔

میں زمین سے کافی بلندی پر چلا گیا اور پھر سیدھا ہو گیا۔ مجھے کوئی طاقت اس طرح آڑا رہی تھی کہ نہ میں اپنی مرضی سے اوپر جا سکتا تھا نہ اپنی مرضی سے نیچے آ سکتا تھا۔ جس نپی تلی رفتار سے اڑ رہا تھا میں اسی طرح اڑتا رہا جیسے کسی نے مجھے ایک خاص رفتار اور ایک خاص سمت کو پابند کر دیا تھا۔ اس سے مجھے اطمینان بھی تھا کہ میں اپنی منزل کی طرف جارہا تھا۔ کئی شہر ، کئی جنگل ، کئی دریا، کئی پہاڑی سلسلے میرے نیچے سے گزر گئے۔ اگر آپ انڈیا کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو بنگلور کا شہر ملک کے جنوبی سرے پر بالکل وسط میں نظر آۓ گا۔ اس کے مغرب کی جانب میسور کا شہر ہے اور مشرق کی طرف مدراس کا مشہور ساحلی شہر ہے ۔

دہلی سے آدمی ٹرین میں سفر کرے تو اسے بنگلور پہنچتے ہوۓ کم از کم تین دن لگ جاتے ہیں ۔ مگر میں ہوا میں پرواز کرتے ہوۓ سفر کر رہا تھا اور میری رفتار اگر چہ زیادہ نہیں تھی لیکن ایک ہوائی جہاز کی رفتار سے کچھ زیادہ ضرور تھی چنانچہ میرا خیال ہے کہ میں ایک ڈیڑھ گھنٹے میں بنگلور پہنچ گیا۔ آپ ضرور سوچیں گے کہ مجھے کس طرح معلوم ہوا کہ میں بنگلور شہر کے اوپر آ گیا ہوں۔ ایسا ہوا کہ جب میں نے نیچے ایک بہت وسیع اور گنجان آبادی والے شہر کو دیکھا تو اچانک میری رفتار اپنے آپ کم ہو گئی اور کسی نے مجھے نیچے کی طرف آہستہ سے دھکیل دیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہی بنگلور شہر ہے۔ ۔

میں ایک پہاڑی کے دامن میں درختوں کے درمیان اترا۔ اترنے کے ساتھ ہی میں اپنی انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہو گیا۔ درگا نے جو جو کہا تھا سچ ثابت ہو رہا تھا۔ میں درختوں میں سے نکل کر باہر آیا تو دیکھا کہ پہاڑی پر اوپر کو کشادہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جن پر لوگ اوپر کو جار ہے تھے معلوم ہوا کہ بخاری جی کا مزار اوپر پہاڑی پر ہے۔۔

اس کا مطلب تھا کہ جو طاقت مجھے وہاں تک لائی تھی اس نے مجھے اس بزرگ کے مزار کے پاس ہی اتارا تھا۔
میں بھی دوسرے زائرین اور عقیدت مندوں کے ساتھ پہاڑی کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ کر دیکھا کہ ایک سفید چار دیواری کے اندر بہت بڑے چبوترے پر گنبد والا ایک مزار ہے جس کے اوپر سبز پرچم لہرارہا ہے۔ مزار کے دروازے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہوا تو مجھے کلام پاک کی تلاوت کی مقدس آواز سنائی دی۔ میں دل ہی دل میں کلمہ پاک کا ورد کرنے لگا۔ دیکھا کہ مزار کی ایک جانب چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی تھی۔ میں نے مزار پر جا کر فاتحہ پڑھی اور مسجد میں آگیا۔

وضو کیا اور مسجد کے صحن میں ایک طرف دو نفل شکرانے کے ادا کئے اور وہیں دوزانو ہو کر بیٹھ گیا اور کلام پاک کی جو آیات مجھے یاد تھیں وہ دل ہی دل میں پڑھنے لگا۔
مجھے مسجد میں ہی دو پہر ہو گئی۔ مجھے بھوک بھی لگ رہی تھی۔ ایک صاحب میرے پاس آئے اور فرمایا۔ بھائی صاحب! چلئے لنگر شروع ہو گیا ہے ۔“ ”میں نے لنگر پر جا کر کھانا کھایا اور واپس مسجد میں آگیا۔ میں نے باجماعت نماز ادا کی اور وہیں بیٹھا رہا۔ رات کو لنگر میں جا کر تھوڑا بہت کھانا کھایا اور وضو کر کے با جماعت عشاء کی نماز ادا کی اور مسجد کے صحن کے کونے میں ایک درخت کے ساۓ میں سر جھکائے بیٹھا خدا کے حضور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا مانگتا رہا۔
ایک مدت بعد نماز پڑھنے کے بعد میرے دل کو اتنا سکون حاصل ہوا تھا کہ اتنے سکون کا احساس مجھے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ آدھی رات تک میں مسجد کے صحن میں بیٹھا خدا کو یاد کرتا رہا۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی کہ کسی نے پیچھے سے آکر میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ یہ ایک نورانی شکل والے سبر لباس میں ملبوس بزرگ تھے جنہوں نے بڑی پر سکون آواز میں کہا۔ ” میرے ساتھ آؤ۔“ میں ان کے ساتھ مسجد سے باہر آ گیا۔ وہ مجھے ساتھ لے کر درختوں کے ایک جھنڈ کی طرف چل پڑے۔ درختوں کے جھنڈ میں ایک چبوترے پر چھوٹی سی پرانی بارہ دری بنی ہوئی تھی۔ وہ بزرگ بارہ دری میں بیٹھ گئے اور مجھے بھی اپنے پاس بیٹھا لیا۔۔۔۔
میں بڑے ادب سے ان کے پاس بیٹھا تھا۔ میں خاموش تھا۔ بزرگ نے بڑی پر سکون اور دل میں اتر جانے والی آواز میں فرمایا۔ ”تم نے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی ہے اور آئندہ سے گناہ نہ کر نے کا دل سے عہد کیا ہے۔ خداوند کریم نے تمہاری توبہ قبول فرمالی ہے اور تمہاری راہ نمائی کے لئے ایک ذریعہ ، ایک سبب پیدا کر دیا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ تم ایک نیک مقصد کو لے کر اس مہم پر جارہے ہو۔ تم ایک ایسی بھٹکی ہوئی روح کو کفر کے اندھیروں سے نکالنے جا رہے ہو جس نے اپنی زندگی میں دل سے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اللہ کی ذات پاک غفور الرحیم ہے۔ اس نے اس عورت کے گناہ بھی معاف فرما دیے ہیں۔ اتنا فرما کر وہ بزرگ خاموش ہو گئے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بزرگ نے میرے آنسوؤں کو دیکھ کر فرمایا۔ ’’ان آنسوؤں نے تمہارے گناہوں کے رہے سہے داغ بھی دھو ڈالے ہیں۔ یاد رکھو! جو شخص اللہ کے بتاۓ ہوۓ راستے پر چلتا ہے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوتا ہے ۔“
مجھ پر رقت کی کیفیت طاری تھی۔ میری زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ میں سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا۔ بزرگ نے اپنے سبز کرتے کی جیب سے سبز رنگ کے کپڑے میں لپٹا ہوا ایک چھوٹا سا تعویذ نکال کر میرے دائیں بازو پر باندھ دیا اور فرمایا۔ اس تعویذ پر اللہ پاک کا اسم پاک لکھا ہوا ہے ۔ یہ تمہیں کافر بدروحوں کے حملے سے محفوظ رکھے گا۔
پھر اس بزرگ نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ ”تم یہاں سے جنوب مشرق کی سمت جاؤ گے۔ وہاں تمہیں سیاہ چٹانوں کے درمیان بہتا وہ دریا ملے گا جس کے ساتھ ساتھ تمہیں سفر کرنا ہوگا۔ خدا تمہاری حفاظت فرماۓ .....“ بزرگ آہستہ سے اٹھے اور مسجد کی طرف چل پڑے۔ میں بارہ دری میں بیٹھا انہیں جاتے دیکھنے لگا۔ جب رات کے اندھیرے نے انہیں میری نظروں سے اوجھل کر دیا تو میں نے اپنی خطرناک مہم کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اس وقت رات تھی۔ مجھے دن کی روشنی میں اپنی مہم کا آغاز کرنا تھا۔ یہ بات مجھے پریشان کرنے لگی کہ میں دشوار گزار اور لمبا سفر اپنی عام جسمانی حالت میں کیسے طے کر سکوں گا ۔۔۔
اور پھر مجھے تو سیاہ چٹانوں کے در میان بہنے والے دریا کا بھی پتہ نہیں تھا۔ میں یہ سوچ کر بارہ دری سے اٹھ کر مسجد کی طرف آ گیا کہ ان بزرگ سے مل کر اس سلسلے میں مدد کی درخواست کرتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔
میں نے مسجد کے اندر اور باہر اور مزار کے آس پاس ہر جگہ ان بزرگ کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر وہ مجھے کہیں نظر نہ آئے۔ میں مسجد کے باہر ایک درخت کے پاس پتھر کے چھوٹے سے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ آخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ دن نکلتے ہی مجھے جنوب مشرق کی جانب اللہ کا نام لے کر چل پڑنا چاہئے آگے جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے دن نکل آیا۔ میں نے مسجد کے غسل خانے میں غسل کیا۔ لنگر پر کھانا کھایا اور اللہ کا نام لے کر مزار شریف کی پہاڑی سے اتر کر جنوب مشرق کی سمت چل پڑا۔
میں پہاڑی علاقے میں سے گزر رہا تھا۔ زمین اونچی نیچی تھی۔ پہاڑی ٹیلے دور دور تھے ۔ کہیں درختوں کے جھنڈ شروع ہو جاتے تھے اور کہیں خالی پتھریلی زمین آ جاتی تھی۔
مجھے یہ بھی خیال آرہا تھا کہ چل تو پڑا ہوں لیکن آگے جا کر بھوک پیاس لگی تو کیا کروں گا کیونکہ مجھے دور دور تک پانی کا نام و نشان نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر سوچا کہ اس علاقے میں ناریل کے درخت عام ہوتے ہیں کہیں سے گرا پڑا ناریل توڑ کر اس کے پانی سے پیاس بجھالوں گا اور اس کی گری کھا کر بھوک مٹالوں گا۔ گری کا لفظ میں نے خاص طور پر استعمال کیا ہے ۔ پنجابی میں ہم ناریل کے گودے کو گری کہتے ہیں ۔ گودے اور کھوپے کا لفظ مجھے پسند نہیں۔
میں ایسی جگہ پر چل رہا تھا جہاں زمین کی چڑھائی تھی۔ میں آہستہ آہستہ جارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں جس مہم پر جارہا ہوں اس میں قدم قدم پر میری جان کو خطرہ ہے۔ میں جس زمانے میں اپنے بمبئی والے دوست جمشید کے ساتھ جنگلوں میں شکار کھیلنے جایا کرتا تھا تو مجھے اپنے اندر ایک ایڈونچر ، ایک خوشی محسوس ہوا کرتی تھی
مگر یہ کوئی جنگلی جانوروں کے شکار کی ایڈونچر سی مہم نہیں تھی۔ میں ایک ایسی عورت کو بدروحوں اور چڑیلوں سے بھی بڑھ کر خطرناک اور دہشت ناک آسیب کی قید سے چھڑانے جارہا تھا جو خود ایک بدروح تھی۔ یہ کام الف لیلی کی طلسمی دنیا کا کوئی حاتم طائی ہی کر سکتا تھا لیکن یہ مجھے کرنا پڑ گیا تھا۔ حاتم طائی تو ایک خیالی کردار تھا مگر میں بیسویں صدی میں رہنے والا ایک زندہ اور حقیقی دنیا کا آدمی تھا۔
میں طاقتور ہونے کے باوجود کمزور بھی تھا۔ اگر مجھے اپنے آپ پر بھروسہ اور زبردست اعتماد تھا تو ساتھ ہی ساتھ یہ وسوسے بھی لگے ہوۓ تھے کہ اگر کہیں ذرا سا کمزور پڑ گیا یا میرا اعتماد کمزور پڑ گیا تو میری موت یقینی ہے۔ میں آپ کے آگے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ مجھے روہنی کو آسیبی لڑکی نتالیا کے آسیب سے بچانے کا اتنا خیال نہیں تھا جتنا خود کو اس آسیب سے نجات دلانے کا خیال تھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ممکن ہے میں درگا بدروح سے ملنے کے بعد جے پور سے سیدھا کسی نہ کسی طرح بھاگ کر پاکستان آجاتا۔ مصیبت یہ تھی کہ جس عذاب میں روہنی مبتلا تھی اس میں ، میں بھی گردن تک پھنسا ہوا تھا۔
جب تک میں نتالیا کے آسیب اور پجاری رگھو سے اپنی جان نہیں چھڑا لیتا میرے لئے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ پتھریلے میدان کی چڑھائی ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ دوسری جانب نشیب میں دور تک چھوٹے بڑے ٹیلے اور ساتھ ساتھ کھڑی اوپر کو اٹھی ہوئی نوک دار چٹانیں ہی چٹانیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہی وہ آسیبی وادی تھی جس کے بارے میں درگا بدروح نے مجھے بتایا تھا کہ ان چٹانوں اور ٹیلوں کے درمیان ایک طوفانی دریا بہتا ہے جس کے ساتھ ساتھ مجھے اس پہاڑی تک سفر کرنا ہوگا جس کے تاریک غار میں یہ دریا خوفناک گڑ گڑاہٹ کے ساتھ داخل ہو جاتا ہے۔
میں نشیب میں اترنے لگا۔ کچھ دور جانے کے بعد نشیب و فراز والی زمین کے جنگل کی جھاڑیاں سرکنڈے اور اکاڈ کے درخت شروع ہو گئے۔ یہ درخت بڑے ٹیڑھے میڑھے ، نیچے کو جھکے ہوئے تھے۔ کسی کسی درخت کی ننگی شہنیاں کسی انسانی پنجر کے ہاتھ کی طرح اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔
ان درختوں کو دیکھ کر ہی خوف آتا تھا۔ میرے دل پر دہشت کا ہلکا سا احساس طاری ہونے لگا تھا۔ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔ میں ایک جگہ بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے دل کو سمجھایا کہ فیروز ! اس طرح کام نہیں چلے گا۔ تمہیں ہمت اور پختہ عزم سے کام لینا ہوگا۔ خدا پر بھروسہ رکھو۔ اللہ کے پاک نام کا تعویذ تمہارے بازو پر بندھا ہوا ہے ۔ اللہ کا پاک نام تمہاری حفاظت کرے گا۔ اٹھو اور اپنے دل کو چٹان کی طرح مضبوط بناؤ۔ اللہ تمہارا مد دگار ہے۔
اس کے ساتھ ہی یقین کریں میں اپنے اندر اتنی طاقت محسوس کرنے لگا تھا کہ اگر میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا تو چٹان ٹکڑے ٹکڑے ہو جاۓ گی۔ ایک فرلانگ چلنے کے بعد ٹیلوں اور چٹانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہلے پہاڑی ٹیلے آگئے۔ یہ بھورے رنگ کے بنجر ٹیلے تھے اور چھوٹی چھوٹی خشک جھاڑیوں سے ڈھکے ہوۓ یہ بالکل ایک دوسرے سے جڑے ہوۓ تھے ۔ ایک ٹیلہ ختم ہوتا تھا تو دوسرا شروع ہو جاتا تھا۔ ان کے درمیان تنگ راستے بنے ہوۓ تھے جن میں اونچی نیچی گھاس اگی ہوئی تھی۔ میں بڑی مشکل کے ساتھ ان راستوں میں سے گزر رہا تھا۔
ٹیلے ختم ہوۓ تو آگے سیاہ فام ڈراؤنی چٹانیں شروع ہو گئیں۔ یہ چٹانیں اوپر جا کر نوکیلی ہو گئی تھیں۔ ان کی سیاہ دیواروں پر سبز زنگ چمٹا ہوا تھا جس میں سے پانی رس رس کر نکل رہا تھا۔ ان چٹانوں کے درمیان بھی تنگ و تاریک گلیاں سی بنی ہوئی تھیں ۔ یہاں دن کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بعض چٹانوں میں سے جھاڑیاں باہر کو نکلی ہوئی تھیں اور انہوں نے تنگ راستے پر سایہ ڈال کر اندھیرا کیا ہوا تھا ۔۔۔
ان چٹانوں میں سے گزر کر میں ایک جگہ آیا تو مجھے شور سا سنائی دینے لگا۔ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا شور کی آواز بڑھ رہی تھی۔ پھر یہ آواز اتنی بڑھ گئی کہ سواۓ شور کے مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ذرا آگے گیا تو سامنے ذرا نیچے تنگ چٹانی اچاروں کے درمیان بڑے زور و شور کے ساتھ ایک دریا بہہ رہا تھا۔ موجوں کی رفتار بے حد تیز تھی اور وہ جھاگ اڑانی ، سر پٹختی چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر ڈراؤنی آوازیں پیدا کرتی طوفانی رفتار کے ساتھ آگے کو جارہی تھیں۔
ایسے لگ رہا تھا کہ اپنے چھ سات میل کے پاٹ میں پھیلے ہوئے کسی دریا کو تھمیں چالیس فٹ قطر کی سرنگ ہیں بند کر کے چٹانوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس طوفان خیز ڈراؤنے دریا کو دیکھتے ہی میں ڈر کر پیچھے ہٹ گیا اور چٹان کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔
یہ سوچ کر ہی میرے دل میں ہول اٹھنے لگے تھے کہ مجھے اس دریا کے ساتھ ساتھ چلنا ہوگا اور پھر اس کے ساتھ کسی پہاڑی غار میں بھی داخل ہونا ہوگا۔ لیکن میں رک نہیں سکتا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا۔ فیروز ! جتنا ڈرتا ہے یہاں بیٹھ کر ایک ہی بار ڈر لے کیونکہ تجھے ہر حالت میں اس دریا کے ساتھ سفر کرنا ہوگا۔ میں کچھ دیر تک ڈرا ہوا بیٹھا رہا اور دریا کے شور کی ڈراؤنی آوازیں سنتا رہا۔ پھر اٹھا اور اللہ کا نام لیا ۔۔۔
اللہ تعالی کا نام لے کر ایک چٹان کے قریب سے باہر نکلی ہوئی جھاڑیوں کو پکڑ کر نیچے اتر گیا۔ دریا کی موجیں مجھ سے تین چار فٹ نیچے چٹانوں کے درمیان سے شاید ایک سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے کو جارہی تھیں ۔
میں دریا کے ساتھ چٹانی پتھروں کے درمیان راستہ بناتا چلنے لگا۔ دریا کو دیکھ کر ہی خدا کی قدرت یاد آ جاتی تھی۔ میں نے اپنے دل اور اعصاب کو مضبوط کر لیا تھا اور اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میرے ساتھ دریا نہیں بلکہ کوئی تیز رفتار نہر بہہ رہی ہے۔ دریا آگے جا کر چٹانوں کی دیواروں کے ساتھ ہی ایک طرف کو مڑ گیا۔ میں بھی اس طرف مڑ گیا۔ اس طرح دو تین موڑ مڑنے کے بعد سامنے ایک بہت بڑا پہاڑ آ گیا۔ دریا اس پہاڑ کی دیوار میں اندر چلا گیا تھا۔
میں نے آگے جاکر دیکھا۔ یہ ایک بہت بڑا غار ۔ تاریک اندھیرا غار جس میں طوفانی دریا ایک ہیبت ناک گڑ گڑاہٹ کے ساتھ داخل ہو رہا تھا۔ میں وہیں رک گیا۔ میں سنبھل سنھل کر قدم رکھتا پہاڑ کی ڈھلان کی جھاڑیوں کے سہارے غار کے دہانے کے پاس آ گیا اور جھک کر اندر دیکھا۔ غار کے اندر سواۓ اندھیرے کے مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ یہ خالی اندھیرا ہی نہیں تھا اس اندھیرے میں دریا کے گرنے کی ڈراؤنی آواز بھی تھی جو ایسی تھی جیسے کسی گہرے کنوئیں میں گر رہا ہو۔ لیکن مجھے بتایا گیا تھا کہ دریا جس غار میں داخل ہوتا ہے وہاں کوئی کنواں نہیں ہے۔
وہ پہاڑ کا ایک قدرتی غار ہے اور اس کے اندر دریا کے کناروں پر چلنے کے لئے پگڈنڈی بھی ہے ۔ مجھے دریا کے کنارے اندھیرے میں کوئی پگڈنڈی نظر نہیں آرہی تھی لیکن مجھے اس پگڈنڈی کو تلاش کرنا تھا۔ میں بھیگی ہوئی جنگلی جھاڑیوں کو پکڑ پکڑ کر غار کے دہانے کی طرف بڑھا۔ اگر میں غائب ہوتا تو میں اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا تھا اور پہاڑ کے اوپر سے اڑ کر بھی جاسکتا تھا۔ لیکن میں غیبی حالت میں نہیں تھا مجھے اندھیرے میں کوشش کر کے راستہ تلاش کرنا تھا۔
آخر اندھیرے میں مجھے غار کی دیوار کے ساتھ دریا کی تیز رفتاری سے آگے کو جاتی موجوں سے تین فٹ کی بلندی پر ایک پگڈنڈی نظر آ گئی۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے یہ خاص طور پر پیدل چلنے والوں کے لئے بنائی گئی تھی۔ میں دیوار کے ساتھ لگ کر اس پھر ملی پگڈنڈی پر چل پڑا۔ میں ایک ایک قدم کر کے چل رہا تھا۔ غار کی چھت کم از کم چار پانچ ہاتھ اونچی تھی۔ مگر غار میں اندھیرا بہت تھا اور دریا ہبتناک شور گونج پیدا کر رہا تھا۔ میں غار کے اندھیرے میں اندھیرا ہی بن گیا تھا۔ دیوار اور پگڈنڈی کو ٹول ٹول کر چل رہا تھا۔
غار بھی دریا کو ساتھ لے کر ایک طرف کو مڑ گیا۔ کچھ دور سیدھا چلنے کے بعد پھر دوسری طرف گھوم گیا۔ تیسری بار دریا موڑ کاٹ کر سیدھا ہوا تو مجھے پہلی بار غار میں دور روشنی کا ایک نقطہ سا دکھائی دیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہاں غار ختم ہو گیا ہے اور دریا پہاڑ کے اندر سے باہر نکل جاتا ہے۔ میرا قیاس غلط نہیں تھا۔ روشنی کا نقطہ جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہا تھا پھیلتا جارہا تھا۔ اب غار کے اندر باہر کی روشنی آنے لگی تھی۔ یہ روشنی بڑی دھندلی اور پھیکی پھیکی تھی جیسے آسمان کو گہرے بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہو۔
میں قدم قدم آگے بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ غار کے دوسرے دہانے پر پہنچ گیا۔ یہاں سے دریا غار میں سے باہر نکل گیا تھا۔ میں غار میں سے باہر آ گیا۔ باہر آکر دیکھا کہ سامنے ایک جنگل تھا۔ دریا دائیں جانب مڑ گیا ۔ آسمان سیاہ بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔ روشنی بڑی مدھم اور پراسرار تھی۔
میرے سامنے بائیں جانب جنگل کے درخت شروع ہو جاتے تھے۔ مجھے اس جنگل میں سے گزرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ میں جنگل میں داخل ہو گیا۔ میں نے اپنی شکاری زندگی میں برصغیر کے کئی جنگل دیکھے تھے مگر ایسا جنگل میں نے کہیں نہیں دیکھا تھا۔ اس جنگل میں درختوں کی گھنی شاخوں نے ایسی چھت ڈال رکھی تھی کہ درختوں کے نیچے ایسا اندھیرا چھایا ہوا تھا کہ لگتا جنگل میں رات پڑ گئی ہے۔
پہاڑی غار کے اندھے اندھیرے میں سے گزر کر آ رہا تھا۔ میں جنگل کے اس اندھیرے میں دیکھ سکتا تھا۔ کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس کے تنے پر کانٹے دار بیلیں اوپر تک نہ چڑھی ہوئی ہوں۔ دوسری حیران کر دینے والی بات یہ تھی کہ جنگل میں قبرستان ایسا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کسی پرندے کی آواز تک نہیں آ رہی تھی۔ درختوں کے نیچے گیلی اور نرم زمین پر گلے سڑے پتوں کا فرش بچھا ہوا تھا جس میں سے ناگوار قسم کی تیز بو اٹھ رہی تھی۔
اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میں بدروحوں اور آسیبوں کی دنیا میں داخل ہو چکا ہوں۔
یہ خیال ہی بڑا وحشت خیز تھا مگر مجھے یقین کرنا ہی پڑ رہا تھا کہ میں بدروحوں اور آسیبوں کی دنیا میں آ گیا ہوں اور اب مجھے ہر مشکل کا مقابلہ اپنی ایمانی طاقت اور اللہ کی مدد کے بھروسے پر کرنا ہے۔ میں نے پانچ مرتبہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر اپنے اوپر پھونکا اور جنگل میں آگے بڑھا۔ اس وقت مجھے اپنے آپ پر حاتم طائی سے بھی بڑھ کر کسی ایسے سپرمین کا گمان ہونے لگا تھا جس کے اندر قدرت نے شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زبردست غیبی طاقت بھر دی ہو ۔
جنگل آگے جا کر زیادہ گھنا اور زیادہ تاریک ہوتا گیا۔ پھر اس کا اندھیرا چھٹنے لگا اور پھیکی پھیکی زرد روشنی ہو گئی۔ یہ روشنی نہیں لگتی تھی بلکہ روشنی کا سایہ لگتا تھا۔ درختوں کے درمیان ایک جگہ باہر جانے کا راستہ سا بنا ہوا تھا میں وہاں سے باہر نکل آیا۔ اب میرے سامنے پھر وہی سیاہ فام ڈراؤنی چٹانیں تھیں۔ یہ چٹانیں ایک دوسری سے فاصلے فاصلے پر تھیں اور زمین سے نکل کر بالکل سیدھی اوپر کو چلی گئی تھیں۔ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی قیامت خیز زلزلے کے بعد زمین میں سے بہت بڑے بڑے اژدھا اوپر کو اٹھے ہیں مجھے درگا نے بتایا تھا کہ جب تم دریا کے غار سے باہر نکلو گے تو سیاہ چٹانوں میں تمہیں ایک جگہ ایک پرانے مندر کا شکستہ دروازہ ملے گا جس کی دونوں جانب اژدھا پہرہ دے رہے ہوں گے ۔
روہنی تمہیں اس دروازے میں داخل ہونے کے بعد کسی جگہ ملے گی۔اب مجھے اس شکستہ مندر کے دروازے کی تلاش تھی۔ میں سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتا ڈراؤنی چٹانوں کے درمیان سے گزر رہا تھا۔ اچانک مجھے ایک ایسی آواز سنائی دی جیسے کوئی مگرمچھ سانس لے رہا ہو ۔ میں وہیں رک گیا اور جس طرف سے آواز آرہی تھی اس طرف دیکھنے لگا اس طرف چٹانوں نے ایک سیاہ دیوار کھڑی کر رکھی تھی۔ میں آگے بڑھا۔
سانس لینے کی آواز اب قریب سے سنائی دے رہی تھی ۔ میں آہستہ آہستہ چل کر ایک چٹان کی دیوار کے پاس آ کر رک گیا۔ کان لگا کر سنا۔ سانس لینے کی آواز چٹان کے پیچھے سے آرہی تھی۔ میں نے چٹان کی اوٹ میں سے سر باہر نکال کر دیکھا۔ سامنے کچھ فاصلے پر ایک پرانی طرز کے مندر کا شکستہ اونچا دروازہ نظر آیا جس کا منہ ایک بہت بڑے اژدھا کا تھا جس کے نوکیلے دانت باہر کو نکلے ہوئے تھے اور دروازے کی دونوں جانب دو زندہ اژدھے گردنیں جھکا کر بیٹھے لمبے لمبے سانس لے رہے تھے جیسے ہانپ رہے ہوں۔ میں غور سے اس خوفناک دروازے کو دیکھنے لگا۔
یہ موت کے منہ میں جانے والی بات تھی مگر مجھے اس کے اندر ہر حالت میں جانا ہی تھا۔ کچھ دیر میں چٹان کی اوٹ میں کھڑا موت کے دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا پھر کلمہ پاک پڑھا۔ دل میں لاحول ولا قوۃ پانچ بار پڑھا اور اللہ کا نام لے کر چٹان کی اوٹ سے باہر نکل آیا۔ میں نے مندر کے خوفناک دروازے کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ دروازے کے قریب پہنچ کر میرے قدم سست پڑ گئے ۔ دل میں اژدھوں کا خوف چھا گیا لیکن میں نے اپنے دل کو مضبوط کیا اور اپنے آپ سے کہا۔ آگے بڑھو یہ اژدھے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔
میں نے نئے عزم کے ساتھ قدم آگے بڑھاۓ۔ جیسے ہی میں آسیبی دروازے کے مزید قریب ہوا دونوں اژدھوں نے اپنے سر اوپر اٹھاۓ اور زبردست پھنکار کے ساتھ مجھے اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھنے لگے مگر میں نہ رکا۔ میرے قدم ایک بار پھر ضرور وزنی ہو گئے تھے لیکن میں رکا نہیں چلتا چلا گیا۔ میں اژدھوں کے درمیان سے گزرا تو اژدھوں کے منہ سے پھنکار کے ساتھ آگ کے شعلے نکل کر مجھ پر گرے۔
میرے حلق سے ایک چیخ نکل گئی۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آگ کے ان شعلوں سے میرے سر کا ایک بال تک نہیں جلا تھا۔ میرا حوصلہ بلند ہو گیا۔ مجھے پہلے سے زیادہ یقین ہو گیا کہ میرے بازو پر اللہ پاک کا نام لکھا ہوا ہے ۔ کوئی بدروح، کوئی اڑدھا مجھے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔اب میں بے دھڑک ہو کر چل رہا تھا۔ دروازے میں سے گزرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ دونوں جانب سوکھی سیاہ ٹہنیوں والے درخت ہی درخت کھڑے ہیں۔ ان درختوں کے درمیان ایک دلدلی میدان سا ہے۔ دلدل اوپر نیچے ہو رہی ہے اور اس میں کہیں کہیں سے زرد گیس نکل رہی ہے ۔
دلدل کے در میان ایک تنگ راستہ بنا ہوا تھا جس پر چوکور پتھر پڑے ہوئے تھے ۔ میں ان پتھروں پر پاؤں رکھ کر آگے چل پڑا۔ عجیب بات تھی یہ پتھر بھی اوپر نیچے ہو رہے تھے جیسے دلدل کے اوپر رکھ کر وہاں راستہ بنایا گیا ہو۔ میں بہت آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ ہر قدم پر ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں دلدل میں نہ گر پڑوں ۔ میری دونوں جانب کالی سیاہ دلدل تھی جو ایسے اوپر نیچے ہو رہی تھی جیسے کوئی عفریت سانس لے رہا ہو ۔
ایک دم سے میری دائیں جانب دلدل میں سے ایک انسان کا آدھا دھڑ باہر نکلا۔ اس کا چہرہ اور آدھا جسم دلدل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے ایک اذیت ناک چیخ کے ساتھ پکار کر کہا۔ مجھے یہاں سے باہر نکالو۔‘‘ اور دوسرے لمحے دلدل نے اسے اندر کھینچ لیا اور وہ دلدل میں غائب ہو گیا۔
یہ عبرت انگیز منظر دیکھ کر مجھ پر ایک لرزہ سا طاری ہو گیا تھا۔ خدا جانے ان لوگوں سے زندگی میں کون سے گناہ سرزد ہو گئے تھے جن کی سزا ان کی روحیں یہاں بھگت رہی تھیں۔ میں نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر خدا سے اپنے گناہوں کی بخشش کی دعا مانگی اور ایک بار پھر عہد کیا کہ میں آئندہ کبھی کوئی گناہ نہیں کروں گا اور اپنی زندگی اللہ تعالی اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھائے ہوئے نیکی کے راستے پر چل کر بسر کروں گا۔ میں دلدلی میدان سے گزر گیا۔
اب میرے سامنے ایک دیو قامت سیاہ پہاڑی تھی۔ اس پہاڑی میں ایک غار تھا جس کے دہانے پر ایک انسانی پنجر اس طرح تلوار ہاتھ میں لئے کھڑا تھا جیسے پہرہ دے رہا ہو ۔ میرے کان میں جیسے کسی نے سرگوشی کی کہ روہنی تمہیں اس غار میں ملے گی۔ میں غار کے منہ کے پاس آیا تو انسانی پنجر میں حرکت پیدا ہوئی۔ یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔۔۔۔
اس کی کھوپڑی نے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے گڑھوں میں مجھے انگارے دہکتے ہوۓ دکھائی دیئے۔ یہ بھی آسیبی خرافات میں سے کوئی شے تھی۔ جیسے ہی میں غار میں داخل ہونے لگا ہڈیوں کے پنجر کے بازو میں حرکت پیدا ہوئی اور اس نے پوری طاقت سے میرے بازو پر تلوار کا وار کیا۔ میرا یہ وہی بازو تھا جس پر اللہ کے پاک نام کا تعویذ بنا ہوا تھا۔ پنجر کا وار اس قدر بھر پور تھا کہ مجھے یقین تھا کہ میرا بازو کٹ کر گر پڑے گا لیکن اس کی بجاۓ تلوار میرے بازو سے ٹکراتے ہی ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو گئی اور ہڈیوں کا پنجر ایک چیخ کے ساتھ غائب ہو گیا۔ میں غار میں داخل ہو گیا۔

 سیاہ رات ایک سچی کہانی

اس غار میں بھی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ میں غار کی دیوار کے ساتھ لگا آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ چند قدم چلنے کے بعد میرے کانوں میں ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے دور کچھ عورتیں اور آدمی کسی میت کے پاس بیٹھے رو رہے ہوں ۔ میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ غار میں وہی پھیکی پھیکی روشنی سی ہونے لگی ۔ غار ایک بہت بڑے دالان میں جا کر ختم ہو گیا۔ دالان میں جگہ جگہ فرش پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے ۔ کونے میں دیوار کے ساتھ آہنی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک انسانی لاش لٹک رہی تھی۔ میں لاش کے قریب گیا تو دیکھا کہ یہ کسی مرد کی لاش تھی۔ اس کا سر منڈا ہوا تھا اور چہرے پر موت کی زردی چھائی ہوئی تھی۔
اچانک لاش کے جسم نے حرکت کی اور اس نے اپنی گردن میں سے زنجیر اتار کر پوری قوت سے گھما کر میری طرف پھینکی۔ زنجیر میرے جسم سے ایک دھماکے کے ساتھ ٹکرائی اور میرے جسم کے ساتھ سانپ کی طرح لپٹ گئی۔
مجھے نہ کوئی چوٹ لگی اور نہ ہی درد محسوس ہوا لیکن زنجیر نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ زنجیر کا ایک سرا لاش کے ہاتھوں میں تھا۔ اس نے مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ لاش کی طرف نہ جاؤں اور کسی جگہ رک جاؤں لیکن میرے قدم اکھڑ رہے تھے اور کوئی طلسمی طاقت مجھے لاش کی طرف لئے جارہی تھی۔

لاش نے زور سے زنجیر کو جھٹکا دیا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے زنجیر کو پکڑا اور جھٹکا دے کر زنجیر اس کے ہاتھوں سے چھڑوانی چاہی۔ میرے جھٹکے میں ایک ایسی قوت آگئی تھی کہ لاش کے ہاتھوں سے زنجیر چھوٹ گئی اور اس پر لرزہ طاری ہو گیا۔

میرے دیکھتے ہی دیکھتے لاش ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر فرش پر بکھر گئی۔ اس کے ساتھ ہی میرے جسم کے ساتھ لپٹی ہوئی زنجیر غائب ہو گئی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور دالان کا جائزہ لیا۔ مجھے یقین تھا کہ روہنی یہیں کہیں ہوگی۔ دالان کے کونے میں ایک چھوٹی کھڑکی پر نظر پڑی جو بند تھی۔ میں کھڑکی کے پاس آ گیا۔ کھڑکی پر خون کا بہت بڑا دھبہ پڑا تھا۔ کھڑکی کے پیچھے سے ایک کمزور سی آواز سنائی دے رہی تھی۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ میں نے کھڑکی کے قریب ہو کر آواز کو غور سے سنا۔ یہ کسی عورت کی آواز تھی۔

وہ ڈراؤنے لہجے میں کسی کو کہہ رہی تھی۔ "تو رگھو کے طلسم سے زندہ بچ کر نکل آئی تھی لیکن میرا طلسم تیری روح کے اندر جذب ہو گیا ہے۔ یہ تیرے جسم کو آہستہ آہستہ دہکتا ہوا انگارہ بنا دے گا۔“ میں نے اس آواز کو پہچان لیا۔ یہ آسیبی لڑکی نتالیا کی آواز تھی بلکہ اس کے آسیب کی آواز تھی۔ اس کے ساتھ ہی میں سمجھ گیا کہ وہ کس سے مخاطب ہے۔ وہ جس سے مخاطب تھی وہ سواۓ روہنی کے اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔

 عشق کا قاف (تحریر: اسلم راہی)

میں کھڑکی کے ساتھ کان لگاۓ سن رہا تھا۔ نتالیا کے آسیب نے روہنی کا نام لے کر کہا۔’’ تو نے اسلام قبول کر کے ہمارے دیوتاؤں کے بتوں کو پاش پاش کر دیا تھا۔ دیوتا تم سے اس کا بھی بدلہ لیں گے ۔“ پھر مجھے روہنی کی آواز سنائی دی۔ یہ آواز جیسے کسی کنوئیں میں سے آرہی تھی۔ روہنی نے کہا۔ ’’ میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں ہی بت پرستی سے توبہ کر کے اسلام کی روشنی سے اپنا سینہ منور کر لیا۔ میں جس عذاب میں مبتلا ہوں یہ میرے اپنے ایک گناہ کی سزا مجھے مل رہی ہے جس کی مدت اللہ کی رحمت کے صدقے بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ پھر میری روح تمام آلائشوں سے پاک ہو جاۓ گی اور میں نیک روحوں کی دنیا کی طرف اپنا سفر شروع کر دوں گی۔

“ نتالیا کے آسیب نے غضب ناک آواز میں کہا۔ " میں دیکھتی ہوں تمہیں یہاں سے کون بچاتا ہے۔اب تو اس کنوئیں میں جل کر راکھ ہو جاۓ گی۔“ پھر ایسا ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے میرے ہاتھ کو بند کھڑکی پر رکھ کر آہستہ سے دبایا۔ کھڑکی کھل گئی۔ میں ڈر کر پیچھے ہٹنے لگا تو میرا جسم پیچھے ہٹنے کی بجاۓ اپنے آپ کھڑکی کی طرف بڑھا اور مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ میں کیسے کھڑکی میں سے گزر گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک نیم روشن بہت بڑے غار میں ہوں جس کی چھت سے جالے لٹک رہے ہیں اور ایک انسانی سایہ غار کے وسط میں ایک گول چبوترے کے پاس کھڑا نیچے دیکھ رہا ہے۔

 خونی عشق کی خوفناک داستان

اب مجھ پر ایک اور حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ کھڑکی میں سے اندر داخل ہوتے ہی میرا مادی جسم غائب ہو گیا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ کوئی طاقت میری مدد کر رہی ہے۔ اب مجھے یہ ڈر تھا کہ اگرچہ میں غائب ہوں لیکن نتالیا کا آسیب مجھے اس حالت میں بھی ضرور دیکھ لے گا۔ میں نے اس غیبی حالت میں ہی ایک کونے کی طرف جا کر چھپنے کی کوشش کی لیکن میرے قدم کونے کی طرف جانے کی بجاۓ چبوترے کی طرف اٹھتے چلے گئے۔ میں اپنے آپ چبوترے کے پاس آگیا۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 24

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں