پنڈت اور جنات - پارٹ 5 آخری

  horror stories

Sublimegate Urdu Font Stories

پنڈت اور جنات - پارٹ 5

بالمپور میں اج جیسے ہولی کا دن تھا، مہاویر چالیس دن
کا چلا مکمل کرکے اپنے گاؤں لوٹا تھا اور گاؤں والوں نے
اس کا والہانہ انداز میں استقبال کیا
مندر میں لوگوں کا ہجوم جمع ہوچکا تھا جو مہاویر کی
ایک چھلک دیکھنے کے لیے بیتاب تھے
اور مہاویر بڑے پجاری شنکرلال کے ساتھ مندر کے چپوترے
پرا کھڑا لوگوں کی مسکراہٹوں کا جواب دے رہا تھا
"تجھے تمہاری دنیا مبارک ہو مہاراج" ایک مانوس سی آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی تو وہ مسکرایا اور اسے یقین
ہوگیا کہ اس پاس ہی کہیں منگلا اسے دیکھ رہی ہے
پھر وہ اپنی معمول کی زندگی پر لوٹ آیا اور مندر میں
پروہت کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں سنبھالنے لگا
منگلا کے مشورے پر اس نے مندر کے تہہ خانے کی صفائی
کروائی اور اسے اپنے لئے مخصوص کرلیا جہاں اس نے
دیوی دیوتاؤں کے ساتھ کالی کا ایک چھوٹا سا مجسمہ رکھوا دیا تھا مندر کا بڑا پجاری شنکرلال اب اس کے معاملات میں دخل نہیں دیتا تھا کیونکہ وہ وہ خوش تھا کہ اب مہاویر دیوتاؤں کے راستے پر چل پڑا ہے

ایک رات تہہ خانے میں کالی کا جاپ کرنے کے بعد وہ واپس
اپنے حجرے کی طرف بڑھا تو اچانک اس کی نظر کسی لڑکی پر پڑی جو مندر کی راہداری پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی
وہ لڑکیوں کی اسی نگاہوں کا عادی تھا اس لئے ۔
جواباً مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور اپنے کمرے میں اکر سونے کے لئے لیٹا تو اسے وہ رقاصہ یاد آئی
جس کے ساتھ اس نے اپنی زندگی کی حسین رات بیتائی تھی وہ بستر پر کروٹیں بدلنے لگا
اس کے ذہن میں گرم آندھیوں کے جھکڑ چل رہے تھے
اس کے اندر کے انسان اور شیطان میں جنگ ہونے لگی
لیکن اب وہ انسان کمزور پڑ چکا تھا اور وہ ہار گیا
وہ ضبط نہ کرسکا۔ آہستہ سے اپنے بستر سے اٹھا
اور بڑی دلیری کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا اور
متلاشی نگاہوں سے راہداری کی طرف دیکھنے لگا۔
"پرنام مہراج۔۔۔۔۔" اس کے عقب سے نسوانی آواز ائی
مہاویر نے پلٹ کر دیکھا وہ وہ لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی اور بڑی معصومیت سے اسے دیکھ رہی تھی
اس کے دل میں ہلچل شروع ہوگئی
لڑکی نے اس کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے بڑے ہی
معنی خیز لہجے میں پوچھا
"کیا آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟"
"ہاں ۔۔ ہاں" مہاویر نے بےخودی عالم میں جواب دیا
"آپ کی سیوا کرنا میری خوشی قسمتی ہوگی"
وہ اسے مسلسل گھورے جارہا تھا ۔۔
پھر پاپ اور پن کا تصور اس کے ذہن سے مٹ گیا کیونکہ
اپنے ساتھ ساتھ اسے دیوی کو بھی تو خوش کرنا تھا
"کون ہو تم ؟ اور کہاں سے آئی ہو؟"
"میرا نام پریما ہے اور رام گڑھ سے منت کے لیے آئی ہوں"
"تم بہت خوبصورت ہو" مہاویر نے آہستہ سے کہا تو اس نے شرما کر نظریں چھکالیں

"تم نے برا تو نہیں مانا"
پریما نے نفی میں سر ہلایا "نہیں"
مہاویر نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا جو اس نے چھڑانے کی کوشش نہ کی۔ یونہی کھڑی رہی
مہاویر نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگا لیا اور کہا
"مجھے آج تک کوئی لڑکی اچھی نہیں لگی لیکن اب محسوس ہوتا ہے تم مجھے پسند آگئی ہو"
مہاویر اسے چھوٹ بول رہا تھا
کیونکہ آج چھوٹ بولنا ضروری ہوگیا تھا اور اس چھوٹ
کا احساس پریما کو نہ بلکل نہ ہوسکا وہ یونہی مسحور
کھڑی رہی۔ مہاویر نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے
اپنے قریب کیا تو وہ گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگی
"کوئی نہیں ہے سب سو چکے ہیں" مہاویر نے مسکرا کر کہا
اس کا پورا بدن ہولے ہولے لرز رہا تھا
وہ اسے اپنے کمرے میں لے گیا
اور اپنی ہوس کی آگ بجھالی
وہ جھکی جھکی نظروں سےکپڑے پہن نے لگی
تو مہاویر نے اس کی زلفوں میں اپنی انگلیاں الجھا کر کہا " پریما ۔ تم نے کبھی کسی سے
محبت کی ہے؟
"محبت " وہ اہستہ سے بولی " ہاں ۔۔۔۔ کی ہے"
"کس سے؟"
اس نے افسردہ نگاہوں سے مہاویر کی طرف دیکھا
"میں نے صرف ایک ہی شخص سے محبت کی ہے
اور وہ میرا پتی (شوہر) ہے

مہاویر اچھل پڑا اور وہ ایسے پیچھے ہٹ گیا جیسے اس کا ہاتھ بجلی کے تار پر آگیا ہو
پریما نے اس کے قدموں میں گر کر اس کے پیر پکڑ لئے
اور روتے ہوئے کہا "مہاراج میں ایک غریب عورت ہوں
مجھ پر دیا کیجیے۔ میرا شوہر پانچ سال سے ایک چھوٹے
کیس میں اندر ہے اس کی رہائی کے لئے پراتھنا کیجیے"
"تم نے یہ سب مجھے پہلے کیوں نہ بتایا"
مہاویر نے لرزتی آواز میں کہا
"آپ نے موقع ہی نہیں دیا اور میرا مدعا سن نے سے پہلے
ہی اپنی اچھا (خواہش) بتائی تو میں کیسے رد کرسکتی تھی۔ " پھر وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی

" میں نے آپ کا بہت نام سنا ہے مہاراج آپ کے در سے کوئی کھالی نہیں لوٹتا مجھ ابھاگن پر بھی کجھ دیا کیجے"
مہاویر کو جیسے اپنے اپ سے نفرت سی محسوس
ہونے لگی غلاظت کے جس دلدل میں وہ سرتاپا لتھڑ چکا تھا
اس کے داغ مٹانا اس کے لئے آسان نہ تھا
وہ اتنا گر چکا تھا کہ کسی غریب کی مجبوریوں
سے فائدہ اٹھا لیا اب اس میں اور کالی چرن میں کوئی فرق نہیں تھا
وہ ندامتوں کے بوجھ تلے سسکتا ہوا
پریما کو مہمان خانے تک چھوڑنے کے بعد وہ واپس پلٹا
تو ٹھٹک کر رک گیا کیونکہ سامنے شنکرلال کھڑا تھا
جو غصیلی نظروں سے گھور رہا تھا
"کیا ہورہا ہے یہ سب"
مہاویر نے گھبرا کر نظریں چھکالیں
"ہم نے پوچھا ہے کیا ہورہا ہے یہ سب" شنکرلال دھاڑا
مہاویر کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
اور روتے ہوئے کہا " مہاراج ۔۔۔۔میں تو آپ کے خاطر
دیوی دیوتاؤں کا دان حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلا تھا
لیکن ۔۔۔ وہاں جاکر بتا چلا کہ دیوتا کچھ بھی دینے سے
پہلے ہم انسانوں سے بلیدان مانگتے ہیں
میرے پاس ان دیوتاؤں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہ تھا
اس لئے میں نے اپنی پاکیزگی اور سچائی کا بلیدان دے دیا ہے اب میں وہ مہاویر نہیں رہا ہوں۔"
وہ دھاڑیں مار مار رونے لگا
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا روتا رہا
شنکرلال نے حقارت سے اسے گھورا پھر اپنا مونہہ دوسری سمت پھیر لیا مہاویر نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو شنکرلال جاچکا تھا اس نے مہاویر سے بات کرنا بھی گوارا نہ کیا اور اپنے حجرے میں جاکر دروازا بند کرلیا
مہاویر کا سینہ اس وقت بےکسی اور بے چارگی سے پھٹا جارہا تھا اس سے رہا نہ گیا
اور وہ غصے میں مندر سے باہر نکل آیا
چاندنی رات تھی اور اس رات چاندنی کچھ زیادہ ہی روشن تھی اس نے متلاشی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا
اب اسے زندگی کی خواہش نہ رہی تھی
اس نےکجھ نہ اوڑھا تھا چنانچہ جسم میں سرد لہر دوڑ گئی
لیکن اس تاریکی میں اس کی ویران آنکھیں آگے کو دیکھ رہی تھی وہ دیوانوں کی طرح اس تاریک راہوں پر نکل پڑا تھا کوئی قوت تھی جو اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی۔" تم انسانیت سے گر چکے ہو
تمہیں اب جینے کا کوئی ادیکار نہیں ہے
تم اس عالم سے ناتا توڑ لو
آگے بڑھو کسی کھائی میں خود کو مٹادو
یہ بہت اچھا وقت ہے ۔۔۔ اور۔
کسی کو کچھ پتا نہ چلے گا"
اس کے اندر کے آدمی نے سرگوشی کی
وہ آگے بڑھا اور پھر چلتے چلتے وہ رک گیا
اسے محسوس ہوا جیسے کوئی ان دیکھا وجود اس کے ساتھ
چل رہا ہے وہ تیزی سے قدم بڑھائے لگا اور پھر ٹھٹک کر رک گیا کیونکہ سامنے منگلا کھڑی تھی
اس نے غصے سے ایک نظر منگلا کی طرف دیکھا اور پھر اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنے لگا
"کیا مرنے جارہے ہو؟" منگلا نے اس کے پیچھے آواز دی
"ہاں ۔۔ میں مرنے جارہا ہوں" مہاویر نے تیز لہجے میں کہا
"ہاں آج ہی رات میں اپنا خاتمہ کرلوں گا
اب میں زیادہ برداشت نہیں کرسکتا
میں شدید کرب بلکہ عزاب میں مبتلا ہوں منگلا
مجھے کسی پل چین نہیں میں پاگل ہو جاؤں گا"
منگلا غصے سے اس کی طرف گھوم گئی اور کہا
"لیکن میں تمہیں اس کی اجازت نہیں دے سکتی"
" لیکن ۔۔۔۔کیوں " مہاویر نے چیخ کر کہا
یہ زندگی میری اپنی ہے، اگر میں نے اسے ختم کرنے کا
فیصلہ کیا ہے تو تم کون ہوتی ہے روکنی والی"
جواب میں منگلا مسکرادی

"میں اور تم جدا تو نہیں ہیں ۔۔۔ میں تم ہوں اور تم میں ہوں ۔۔۔۔ اتنی جلدی مرنے کی خواہش کے آگے سر چھکادیا
مہاویر ۔۔۔۔ اب تم میری نظروں میں ہو ۔۔
اب کوئی تمہاری زندگی کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
۔۔۔۔ نہ دنیا کا کوئی اور شخص اور نہ خود تم۔"
مہاویر حیرت سے اسے دیکھنے لگا اب اسے منگلا سے خوف
محسوس ہورہا تھا وہ اپنے آپ کو ایک بےبس شخص محسوس کر رہا تھا۔ ایک قیدی جو نہ ہنس سکتا تھا
اور نہ رو سکتا تھا جو نہ فیصلہ کر سکتا تھا
اور نہ ارادہ رکھ سکتا تھا
"مہاویر ۔۔ تم نے کوئی پاپ نہیں کیا ۔۔ بلکہ ۔
ایک بےمراد عورت کو با مراد کر دیا۔ وہ ایک منت لے کر
تمہارے پاس آئی تھی اور آج اس کی منت پوری ہوئی"
"کیا مطلب؟" مہاویر نے اسے سوالیہ نظروں سے پوچھا
"وہ اپنے پتی (شوہر) کی رہائی کے لئے تمہارے پاس آئی تھی اور کل اس کا شوہر رہا ہوجائے گا کیونکہ اصل مجرم
کل پکڑا جائے گا" منگلا نے کہا
"کیا تم اسے رہائی دلاؤ گی؟"
"ہاں ۔۔۔ " وہ معنی خیز انداز میں مسکرائی "کیونکہ ۔۔
پریما نے تمہیں خوش کیا تھا اور جو تمہیں راضی رکھے گا،
میں اس کی منت پوری کروں گی" پھر وہ اس کے قریب آئی
"زرہ سوچو مہاویر، جب اس کا شوہر اس کے پاس لوٹ ائے گا تو وہ کتنی خوش ہوگی۔
یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا اس لئے وہ تمہیں اپنا دیوتا اور خدا مان لے گی وہ تمہارے چرن دھوکر پینا چاہے گی
وہ تمہاری پوجا کرنا شروع کردے گی
اس کا من کرے گا کہ وہ ایک بار پھر تمہیں اپنا جسم پیش کرے تاکہ وہ یونہی ہمیشہ با مراد ہوتی رہے"
مہاویر نے غور کیا تو اسے احساس ہوا کہ منگلا اور ابلیس کی پراسرار قوتیں اسے گھیر گھار کر گناہوں کی طرف
لانا چاہتی ہیں۔ اس نے بےبسی سے منگلا کی طرف دیکھا
"ٹھیک ہے، میں تیار ہوں۔ لیکن ۔۔
میری ایک شرط ہے"
کیسی شرط؟
"مجھے اپنے جیسا شیطان بنادو، ختم کردو میری انسانت کو
تاکہ اس غیر انسانی عمل پر مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہو" اس نے بھرائی آواز میں کہا
"اوہ مہاویر , اس پاپ اور پن کی الجھنوں کو اپنے ذہن سے مٹا دو۔ تم اب تک بے کیف زندگی گزار رہے تھے اس لئے تمہیں یہ سب نیا اور عجیب محسوس ہوتا ہے بھول جاؤ اپنی پچھلی سادہ زندگی کو اب دنیا کی تمام روشنیاں تمہارے سامنے جل اٹھیں گی اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ اور ان سارے سامانوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لو"
بہرحال تم ابھی مندر واپس جاؤ شنکرلال تمہیں کچھ نہیں کہے گا اور تمہارا دل بہلانے کے لیے کل ہم ایک سفر پر نکلے والے ہیں"
"کیسا سفر ۔۔۔" مہاویر نے پوچھا
کل چاند کی آخری رات ہے اور اس آخری منگل کی
سیاہ رات کو جن بھوت پریت آزاد ہوتے ہیں جشن مناتے
ہیں اور صرف بھوت پریت ہی نہیں عامل لوگ بھی اس رات
کو سب سے زیادہ ٹونے ٹوٹکے اور جادو کرتے ہیں
اور پوری رات عمل پڑھتے ہوئے جادو کی ہنڈیاں اڑائی جاتی ہیں۔" پھر وہ مسکرا کر مہاویر کی طرف دیکھ کر بولی
" ہم دونوں وہ رات تبت میں گزارے گے
تبت، یاد ہے نہ جہاں جانے کی تمہاری بھی اچھا تھی"
اس سے قبل کہ وہ اس سے کچھ پوچھتا وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی


وہ دونوں تبت کے انتہائی حدود سے گزر چکے تھے
اور اب جو سامنے سر زمین تھی اس پر مشکل سے کسی
آدم زاد نے قدم رکھا ہوگا برف پوش چوٹیوں کا ایک جنگل سا تھا سیکڑوں ہزاروں برف پوش چوٹیاں
قریب ہی ایک میدان کے بیچ میں ایک اکیلا پہاڑ کھڑا تھا
جو دوسرے تمام پہاڑوں سے، جو اس کے عقب میں تھے بلند تھا وہ دونوں اس پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہر گئے
جہاں سے ایک شہر نظر آرہا تھا
اور ساتھ ہی ایک بڑا قافلا نظر آیا جو پہاڑوں پر قطار بنائے
اس شہر کی طرف رواں دواں تھا
مہاویر حیرت سے پہاڑوں کے درمیان اس چھوٹے سے شہر کو دیکھ کر پوچھا " یہ کون سی جگہ ہے منگلا؟"
"یہ آقا ابلیس کے طلسمات کی سرزمین ہے
یہاں دیوس کی حکومت ہے جو آقا کے چہیتے بیٹے
آقا ہفاف کی اولادوں میں سے ہے۔
پھر اس نے سیاہ چغہ مہاویر کی طرف بڑھایا
"تم یہ سیاہ لباس اوڑھ لو
مہاویر نے کالے رنگ کا چغہ اوڑھ لیا اور منگلا کی رہنمائی میں آگے بڑھتے ہوئے اس قافلے میں شامل ہوگیا
اب ان کے گرد سیاہ لبادوں میں ملبوس مکروہ و مہیب چہروں والی مخلوق آتش کندے کی جانب بڑھ رہی تھی

"یہ کون لوگ ہیں؟" مہاویر منگلا کے کان میں سرگوشی کی
"انہونے ابھی جنم لیا ہے" منگلا نے جواب دیا
"کیا مطلب؟" مہاویر نے سوالیہ نظروں سے پوچھا
"ہر انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس پر ایک ابلیس
مسلط ہو جاتا ہے جو اسے برائی کی ترغیب دیتا ہے
انسان جب مرجاتا ہے تو وہ ابلیس آزاد ہوکر اپنے آقا کے پاس
آتا ہے تاکہ اسے نیا مشن سونپا جائے"
فضا میں خوشبویات کا تسلط قائم ہورہا تھا بھینی بھینی
مدھر سروں نے فضا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا
اور وہ دونوں سر جھکائے بدی کی مخلوق کے ساتھ
آتش کندے کی جانب رواں دواں تھے
مہاویر نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک ہجوم بے کراں تھا
جو ابلیس کی مدح و ثنا مست بھجن گاتے ہوئے
آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا بد مست بد حال شر پسندوں کا
گمراہ ہجوم آگے ہی آگے سمندر کی لہروں کی طرح رواں دواں تھا مہاویر نے تشویش بھری نظروں سے منگلا کی
طرف دیکھا تو وہ بھی ابلیس کی مدح سرائی میں گنگنا رہی تھی اس نے آنکھ کے اشارے سے مہاویر کو کہا کہ
وہ اسے مخاطب نہ کرے۔ مہاویر نے نظریں چھکالیں
شیطانوں کی دنیا میں اس کے لیے ہر قدم پر حیرت کے چشمے چھوٹ رہے تھے
راہداریوں سے گزرتے ہوئے مہاویر کی نظر اس میدان پر پڑی
جہاں ابلیس کے گیارہ بیٹوں کے فلک بوس بت دکھائی دے رہے تھے جن کی شکلیں بھی کچھ عجیب سی تھی
اور ہجوم باری باری ان گیارہ بتوں کو سجدہ کرتا ہوا آگے گزر رہا تھا۔ وہ دونوں بھی اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔
"تم نے تو بتایا تھا کہ ابلیس کے بارہ بیٹے ہیں ۔لیکن ۔۔۔
یہ بت تو گیارہ ہے" مہاویر نے پھر سرگوشی کی تو منگلا نے اسے کہنی مار کر خاموش رہنے کے لئے کہا
منگلا سجدے میں گری تو اس کے ساتھ مہاویر نے بھی باری باری ان گیارہ بتوں کو سجدہ کیا
بدی کی مخلوق اپنی اس عبادت پر انتہائی مسرور دکھائی دے رہی تھی یکایک فضا میں نقارے کی آواز گونجی
اور ساتھ ہی مدھر سروں سازوں میں تیزی آگئی
ابلیسی نغموں کے ساتھ ساتھ خوبصورت دوشیزاؤں کا رقص شروع ہوگیا
مہاویر کو ایک پل ایسے لگا جیسے وہ بالمپور کے مندر میں
ہو کیونکہ وہاں پر بھی تو ایسا ہی کچھ ہوتا تھا
وہ بار بار بتوں کی طرف دیکھنے لگا کیونکہ اس کی
نگاہیں ہامہ کے بت کو تلاش کر رہی تھی
جو ابلیس کی طرح انسانوں کا دشمن نہیں بلکہ
وہ خدا اور اس کی بنائی ہوئی مخلوق سے محبت کرتا تھا ابلیسی کے مشن کو ٹھکرا کر وہ خدا کا سچا پیروکار بن گیا
"اب بولو کیا کہہ رہے تھے تم؟" منگلا نے اسے آواز دی
اگر اس وقت میں تمہارے سوالوں کا جواب دیتی تو یہ
میری پوجا کی خلاف ورزی ہوتی۔ ہمیں آقا ابلیس اور اس کے بیٹوں کے جاہ جلال کی سلامتی کے نغمے گاتے ہوئے
ان راہداریوں سے گزرنا پڑتا ہے"
"نہیں ۔۔۔ میں ۔۔۔ وہ۔۔ " مہاویر بوکھلا گیا
"اچھا چھوڑو ۔۔ او میرے ساتھ" وہ اس کا ہاتھ تھامے
راہداری سے گزر کر ایک اور میدان میں لے آئی
جہاں ایک بہت بڑا انسانی شکل کا بت ایستادہ تھا
اب سارا ہجوم اس میدان کی جانب بڑھ رہا تھا ہر ایک نے
ہاتھوں میں پتھر اٹھا رکھے تھے اور جوں جوں اس کے قریب پہنچتے اس پر سنگ باری کرتے ہوئے گزر جاتے
"یہ ہامہ کا بت ہے"

منگلا کے الفاظ اس کے کانوں پر دھماکے سے گرے
"یہی ہے وہ آقا ابلیس کا بیٹا جس نے ابلیس کے دھرم کو
چھوڑ دیا اور جنات کہلایا۔ ہمارا یہ قانون ہے کہ جب بھی
آقا ابلیس و ہفاف کی سلطنت میں حاضری دیتے ہیں تو
ہامہ کے بت پر سنگ باری کرتے ہیں ایک پتھر تم بھی اٹھالو
اور ہامہ کو مارو"
مہاویر ہامہ کے بت کے قریب گیا اور اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ پتھروں کی بارش سے اس کے خدو خال
بکھر گئے تھے مگر آنکھیں ابھی تک قائم تھیں
پتھروں نے اس کے ہر عضو کو توڑ کر رکھ دیا تھا
لیکن یہ آنکھیں شاید وہ کہیں دیکھ چکا تھا
یہ سراہا اس کی نظروں سے گزر چکا ہے لیکن کہاں؟
"شاید ستاروں میں، منگلا ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ
وہ جن زاد نور کا سمندر ہوتے ہیں"
اس کے من میں اتھل پتھل ہونے لگی
اس کے اندر گناہوں اور شیطانی علوم سے نفرت کا ادارک
بڑھنے لگا

"پتھر اٹھاؤ اور اسے مارو" منگلا نے کہا
مہاویر کے اندر غصے کی لہر اٹھی اور وہ پتھر نہ اٹھانے کا عزم کر چکا تھا " میں اسے پتھر نہیں مارسکتا"
"مہاویر تم خود بھی مروگے اور ساتھ میں مجھے بھی
مروا دوگے، یہ لو پتھر اور مارو اسے" منگلا نے غصے سے
اس کے ہاتھ میں پتھر دیتے ہوئے کہا
"وہ ہم انسانوں کا خیر خواہ تھا اور تم چاہتی ہو کہ میں اس کی بےحرمتی کروں تو میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا"
مہاویر نے غصے سے پتھر دور پھینک دیا
مہاویر کی زوردار آواز نے میدان میں ہلچل مچادی
سب منگلا اور مہاویر کی طرف گھورنے لگے
منگلا کے چہرے کا رنگ بھی بدل گیا
یکلت فضا پھٹ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان کے
وسط میں ایک بڑا تخت نمودار ہوگیا
ہیرے جواہرات سے مرصع تخت پر کراہت زدہ چہرے کا مالک ابلیس کا چہیتا دیوس بیٹھا ہوا تھا اس کے دائیں بائیں
قد آور اس کے غلام بھیرون کھڑے تھے
اسے دیکھتے ہی ابلیس کے پجاری سجدہ ریز ہوگئے
اپنی ساری مخلوق کی اطاعت پر اس نے غرور سے قہقہہ
لگایا اور اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر سلامی کا جواب دیا
اسی لمحے اس کی نظر مہاویر پر پڑی جو ہامہ کے سامنے
کھڑا تھا جبکہ منگلا سجدے میں گر چکی تھی
"آہے گستاخ ۔۔۔۔۔ تو کون ہے؟ تو جانتا نہیں کہ سجدہ نہ کرکے تم نے ہمارے غضب کو للکارا ہے" دیوس کی آواز گونجی تو سجدے میں پڑی مخلوق نے یک لخت سر اٹھایا
منگلا نے بھی سر اٹھایا اور ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی
دیوس نے منگلا کی طرف دیکھا تو دھاڑا
"آہے فرزندان ابلیس کے محافظوں کی محافظ بتا
یہ تیرے ساتھ کون ہے"
منگلا نے آگے بڑھ کر اسے مہاویر کے بارے میں سب کچھ بتادیا تو دیوس کے چہرے پر قہر اور غصہ عود آیا اس نے منگلا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا " منگلا تم ایک معمولی
انسان پر غلبہ نہ پاسکی تم پر ابلیس کی پھٹکار ہو"
"میں شما چاہتی ہوں اے عظیم آقا میں نے اس آدم زاد
پر اپنے سارے گر آزمائے شراب پلائی زنا کروائی
لیکن یہ نا جانے کس مٹی سے بنا ہوا ہے کہ بار بار اس پر
انسانیت کی سوا کا بھوت سوار ہوجاتا ہے
مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے ختم کر دوں
میں دوبارہ کالی چرن کی غلامی قبول کرلوں گی
لیکن اسے سزا ضرور دوں گی"
"نہیں منگلا ۔۔۔۔" دیوس نے گرجدار آواز میں کہا
"اس کے من میں آقا ابلیس کی طرف سے کھوٹ ہے۔
مگر پھر بھی ہم اسے ژندہ رکھیں گے کیونکہ اگر یہ اس حالت میں مر گیا تو اس کا شمار حق کے لیے مرنے والوں میں ہوگا اور یہ بات آقا ابلیسی کو بلکل پسند نہیں۔
مگر اسے ہمارے استھان اور ابلیسی کا اپمان کرنے کی سزا اوش ملے گی اس کی زندگی کو ایسا بد تر بنا دیا جائے گا
یہ اپنے ہاتھوں سے اس کا خاتمہ کرے گا ہم نے اس کے مقدر
اتما ہتھیا (خودکشی) لکھ دی ہے۔

پھر اس نے قہر آلود نگاہوں سے مہاویر کی طرف دیکھا
جو بےحس کھڑا اپنی زندگی کا فیصلہ سن رہا تھا۔
پھر اچانک دیوس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی طاری
ہوگئی جیسے سب کچھ بدل گیا ہو وہ عجیب انداز میں
مہاویر کی طرف دیکھ رہا تھا اس کے بعد اچانک اس نے
دونوں ہاتھ سر سے بلند کئے اور اپنے سر کو زور سے چھٹکا
اس کے ساتھ ہی مہاویر کو یوں لگا جیسے لاتعداد سوئیاں
اچانک اس کے جسم میں اتر گئی ہوں وہ زمیں پر گر کر
تڑپنے لگا اس کے حلق سے بلند ہونے والی چیخیں
آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اس کے جسم میں جیسے
آگ لگ رہی تھی اس کرب کی کیفیت میں اس کی نظر
ہامہ کے پت پر پڑی تو اندر سے عجیب سی خوشی ابھر رہی تھی کہ "ساری تکلیف اور باتیں اپنی جگہ
لیکن میں نے خدا کے اس نیک بندے کی بےحرمتی نہیں کی شاید خدا بھی میرے اس عمل سے خوش ہوا ہوں"
اس کے زخموں پر شدید ٹیسیں آٹھ رہی تھی اس کے
ذہن پر موت کی ہولناک غنودگی طاری ہونے لگی
اور اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا


ہوش میں آیا تو اس نے خود کو نیم مردہ حالت میں پتھریلی زمین پر پڑے ہوئے پایا اس کے جسم پر جابجا گہری
خراشیں موجود تھیں۔اسے اپنے بدن کی ہڈیاں
ایسے تکلیف دے رہی تھیں جیسے اندر سے سارا بدن سڑ گیا ہو دماغ بری طرح دکھ رہا تھا قریب و جوار میں اندھیرا
پھیلا ہوا تھا کچھ لمحے تو اسے احساس رہا کہ کہیں اس کی بینائی تو نہیں جاتی رہی پھر مدھم مدھم سی روشنیاں
دیکھ کر احساس ہوا کہ بینائی نہیں گئی ہے بلکہ رات کا
منظر ہے وہ گزرے ہوئے واقعات یاد کرنے کی کوشش کرنے
لگا آہستہ آہستہ ہر واقعہ اس کے ذہن میں اجاگر ہوگیا
کہ وہ بالمپور کے مندر کا پروہت تھا اور وہ دکھی انسانیت
کی سیوا کرنا چاہتا تھا پھر اس کی نیکی اور پاکیزگی سے متاثر ہوکر ایک مسلم جن زاد اس کی زندگی میں آیا جس کے آشیرباد سے اس نے کالی طاقتوں سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا لیکن بدی کے گماشتوں نے اس کے ساتھ چال چلی اور اسے گناہوں کی دلدل میں دھکیل کر اس کی پاکیزگی چھین لی جس وجہ سے وہ نیک جن زاد بھی اسے چھوڑ کر چلا گیا اب وہ ابلیسی کے رحم و کرم پر ہے
اس کا دل گناہ آلود شب و روز کو یاد کرکے تڑپنے لگا
وہ اپنی بےبسی پر نوحاں کناں تھا
ابھی وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے اس کے جسم پر چیونٹیاں رینگ رہی ہیں گھبرا کر اس نے اپنے جسم پر نظر ڈالی تو خوف سے چیخ پڑا ۔ چھوٹی چھوٹی سرخ چیونٹیاں جسم سے چمٹی اس کا گوشت کھانے میں مصروف تھیں
بوکھلا کر اس نے اچھلنا کودنا شروع کردیا جلدی جلدی
وہ ان موزی چیونٹیوں کو مارنے لگا جو سیون کی طرح
اس کے رگ و ریشے میں چبھ رہی تھیں
اس کی کیفیت بلکل اس دیوانے جیسی تھی جو شریر لڑکوں کے غول میں گھر گیا ہو اور اپنے بچاؤ کے لیے
اچھل کود کر رہا ہو۔
اچانک اسے قہقہہ سنائی دیا اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس
کے عقب میں منگلا کھڑی تھی
جو اس کی بے بسی پر قہقہے لگا رہی تھی
"کیا تمہیں دیا نہیں آتی"
"دیا کا وقت گزر چکا ہے مہاویر، تمہاری تقدیر اب لکھی جاچکی ہے۔ تم نے ہماری محنت ضائع کردی ہے
اے بدبخت ذلیل انسان ۔۔۔ تونے فرزندان ابلیس کی تعلیمات
سے انحراف کیا تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی
اب میں تمہارے لئے اتنا کرسکتی ہوں کہ اگر تم مرنے کی
اچھا کروں گے تو میں تمہیں نہیں روکوں گی
"لیکن ۔۔۔ مم ۔۔۔ منگلا ۔۔" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا
وہ دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہوگئی
اب وہ تنہا ان سنگلاخ اور ناہموار پہاڑوں پر تھا
پہلے بھی کالی چرن نے اسے ان پہاڑوں پر مرنے کے لئے
چھوڑ دیا تھا لیکن اس وقت منگلا نے اسے پچا لیا مگر اب اسے یہاں بچانے والا کوئی بھی نہ تھا
وہ اس تاریکی میں گرتا پڑتا آگے بڑھتا رہا
"تم تنہا رہ گئے ہو مہاویر، یہ دنیا ظالموں کی آماجگاہ بن
چکی ہے یہاں کوئی کسی کا نہیں ہوتا تم بھی ٹھوکر مارو اس دنیا کو یہ تمہارے رہنے کی جگہ نہیں ہے"
چلتے چلتے وہ ایک پہاڑی پر رک گیا اور نیچے چھانکا۔
بہت گہری کھائی تھی اتنی گہری کہ اس میں چھلانگ
لگانے کے بعد اس کے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی
کسی بھی پتھریلی پہاڑی سے جسم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے
ہوجاتا۔ وہ ھمت کر کے اونچائی پر چڑھا
اس نے بےبسی سے آسمان کی طرف دیکھا
وہ اپنے قادر مطلق کو تو پہچان چکا تھا ۔۔ لیکن
ابھی اس کی تعلیمات سے نا آشنا تھا
"اے سچائی اور نیکی کے پیدا کرنے والے
اے ہامہ جیسے نیک کاروں کے خدا
میں خود کو تیرے سپرد کرتا ہوں

میرے گناہوں کو بخش دینا"
اس نے آخری بار آسمان کی طرف دیکھا اور پھر
آنکھیں موند لیں کہ کہیں خوف غالب نہ اجائے
پھر اس نے دونوں ہاتھ چھوڑ کر چھلانگ لگادی
وہ فضاؤں میں تیر رہا تھا دل بری طرح دھڑک رہا تھا
وہ تیزی کے ساتھ نیچے جارہا تھا
کچھ ہی لمحوں میں وہ مرجاتا
اس کے اعضاء گہری کھائی میں بکھر جاتے
لیکن اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ رک گیا ہو
فضا میں ٹھہر گیا ہو پھر وہ نیچے جانے کے بجائے
اوپر جارہا تھا کیونکہ میں اسے تھام کر اوپر کی طرف لے
جارہا تھا پھر ھم پہاڑوں سے گزرے سمندر سے گزرے
پھر خشکی سے گزرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے


"اے نجم الرجال ! پھر کیا ہوا؟"
جب میں خاموش ہوگیا تو میرے ہم عمر دوست طالوس اور مارج تجسس بھری نظروں سے میری طرف دیکھنے
لگے " پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔" پھر میں نے مہاویر کو بالمپور کے
مندر میں چھوڑ دیا اور پہلے کی طرح اسے اپنے حسار میں لے لیا تاکہ کوئی شیطانی قوت اسے نقصان نہ پہنچا سکے
اب وہ کھل کر ابلیس کے بھگتوں کی مٹی پلید کرتا ہے
"لیکن تم نے ایک ھندو لڑکے کے لیے یہ سب کیوں کیا؟
چلو مان لیا کہ وہ نیک ہو گا ۔ مگر۔ وہ بت پرست تھا
اور بت پرستی اللہ کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے" مارج بولا
"تم ٹھیک کہتے ہو مارج "
میں نے مارچ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
" لیکن یہ بات شاید کوئی نہیں جانتا اور خود مہاویر بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ برہمن نہیں بلکہ اس کی رگوں میں ایک مسلمان باپ کا خون تھا۔ جسے بلوائیوں نے شہید کرکے
اس کے پورے خاندان کو ختم کردیا۔
اور اسے مندر کے یتیم خانے میں چھوڑ دیا
مسلمان کے گھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں
اذان کہی جاتی ہے۔ دنیا سمجھتی ہے کہ وہ اذان بے مقصد ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس اذان کا ایک ایک لفظ اسی
کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے کتنی ہی برائیوں کے راستے پر نکل جائے۔ جب اسے خدا یاد کرتا ہے
تو اس کے بعد اسے کچھ یاد نہیں رہتا
یہ اس اذان کی ہی آواز تھی جو مہاویر کو ہمیشہ بیکل اور بے قرار رکھتی تھی اور وہ فجر کو مندر کی چھت پر اجاتا
اور ستاروں کی طرف دیکھتا رہتا تھا
اسے لگتا تھا کہ شاید یہ آواز آسمان سے آتی ہے
"سبحان اللہ۔۔" مارچ کے مونہہ سے بے اختیار نکلا
کیا مہاویر اپنے بارے میں جان چکا ہے؟ طالوس نے پوچھا
" نہیں ۔۔ لیکن وہ دن ضرور آئے گا۔
میں اسے اس کا اصل مقام دلا کر رہوں گا"
ختم شد۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

 آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں