پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 32

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 32


سلطانہ بارہ دری میں میرے پہنچنے کے فورا بعد ہی آ گئی۔ کہنے لگی۔ ”ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور اسی وقت قلعہ روہت گڑھ والے محل کی طرف چل پڑنا چاہئے ۔‘‘‘

سلطانہ کو اب میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ساتھ اڑانے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں اپنے آپ پرواز کر سکتا تھا۔ چنانچہ ہم دونوں دہلی کی چاندنی رات میں فضا میں بلند ہو کر جھانسی کی طرف پرواز کرنے لگے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ قلعہ روہت گڑھ جھانسی سے کچھ فاصلے پر روہت گڑھ نامی سٹیشن سے تھوڑی دور جنگل میں واقع ہے ہمیں اپنی منزل پر پہنچے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ جب ہم روہت گڑھ کے اوپر سے گزر رہے تھے تو سلطانہ کہنے لگی۔ ’’شیروان! ہم پرانے محل سے کچھ فاصلے پر ہی ایک جگہ جنگل میں اتریں گے ۔“ میں نے کہا۔” جیسے تمہاری مرضی ۔‘‘
روہت گڑھ قصبے کی ریلوے لائن کے پار تھوڑی دور آگے جا کر جنگل شروع ہو جاتا ہے۔ چاندنی رات میں ہم جنگل کے اوپر سے گزر رہے تھے اور درختوں کی چوٹیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔ پرواز کرتے کرتے سلطانہ ایک جگہ نیچے اتر آئی۔ میں بھی اس کے ساتھ نیچے اتر پڑا۔ جہاں وہ اتری تھی وہاں ایک شکستہ کھنڈر کی چار دیواری باقی رہ گئی تھی ۔۔ اس چار دیواری کے اندر ایک چیوترہ سا بنا ہوا تھا۔ سلطانہ اس چبوترے پر بیٹھ گئی اور مجھے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ کہنے لگی۔” تم اپنی زندگی کی شاید سب سے خطرناک مہم پر جا رہے ہو ۔ اگر چہ میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ رہوں گی لیکن میری مدد اور راہ نمائی صرف ایک حد کے اندر ہوگی اس کے آگے تمہیں اپنی ہمت اور قوت ارادی سے کام لینا ہوگا۔
ایک بات یاد رکھنا تم اگر اس مہم میں کامیاب ہو گئے تو تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدروحوں کے عذاب سے نجات حاصل کر لو گے ۔ کیا تم اس کے لئے تیار ہو ؟“
میں نے کہا۔ ’’سلطانہ! مجھے تیار ہونا ہی پڑ رہا ہے ۔ میرے سامنے دوسرا کوئی راستہ نہیں۔“

سلطانہ نے کہا۔ انشاء اللہ تم کامیاب اور سرخرو ہو کر واپس آؤ گے۔ مجھے تم پر پورا اعتماد ہے۔ تم محل کے خفیہ راستے سے اندر داخل ہوگے۔ یہ خفیہ راستہ تم نے دیکھا ہوا ہے اس کے بعد تم محل کی تاریک سیڑھیاں چڑھ کر محل کے بڑے کمرے کی کی گیلری میں آ جاؤ گے ۔ یہ وہی گیلری ہے جہاں سے تم نے رگھو پجاری کے ہاتھوں میرے قتل ہونے کے پرانے منظر کو ایک بار پھر ابھرتے دیکھا تھا۔ تمہیں یاد ہے نا؟“
میں نے کہا۔ ’’ہاں مجھے یاد ہے ۔“
سلطانہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ کہا۔’’ تم وہاں اس طرح چپ کر بیٹھ جاؤ گے جس طرح تم پہلے دن وہاں چپ کر بیٹھے تھے۔ تمہارے بازو پر بندھا ہوا کالے جادوگر کا ہڈی والا تعویذ اپنے طلسمی اثر سے پجاری رگھو کو تمہاری موجودگی کا علم نہیں ہونے دے گا۔ اس طلسمی تعویذ کی وجہ سے پجاری رگھو تم پر براہ راست حملہ نہیں کر سکے گا۔“
میں نے پوچھا۔” تو کیا مجھے رگھو کی بدروح پر حملہ کرنا ہوگا؟‘‘ سلطانہ نے کہا۔’’ہاں۔ تمہیں رگھو کی بدروح پر حملہ کرنا ہوگا۔ لیکن درگا نے تمہیں جو لفظ بتایا ہے وہ حملہ کرنے کے فورا بعد تمہیں رگھو کی بدروح پر پڑھ کر پھونک دینا ہوگا اس کے بعد تم خود دیکھ لو گے کہ کیا ہوتا ہے ۔“

میں دل میں ڈر رہا تھا۔ ایسا خطرناک کام میں نے زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ میں سلطانہ سے کیا پوچھتا، کیا سوال کرتا۔ اب پوچھنے کو کچھ نہیں رہا تھا۔ وہ تو مجھے بھڑکتے ہوۓ آتش فشاں کے دہانے کی طرف بھیجنے کا فیصلہ کر چکی تھی اور میں بھی مجبور تھا۔ اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
میں نے سلطانہ سے پوچھا۔’’ رگھو کی بدروح پر میں کس چیز سے حملہ کروں گا؟
میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ ایک پستول تھا وہ میں نے راستے میں ہی پھینک دیا تھا۔“ سلطانہ نے کہا۔ ”تمہیں کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تم دل میں کلمہ پاک کا ورد کرتے ہوئے جب میں تمہیں کان میں کہوں گی رگھو کی بدروح پر سامنے سے حملہ کرنے کے لئے بڑھو گے ۔
اور جب میری طرف سے تمہیں اشارہ ملے گا تو تم درگا کا بتایا ہوا لفظ پڑھ کر بدروح پر پھونک دو گے۔ یہ بہت ضروری ہے ۔“ میں بڑی توجہ سے سلطانہ کی ایک ایک بات کو سن رہا تھا اور اسے دل میں بٹھا رہا تھا تاکہ وقت آنے پر مجھ سے کوئی غلطی نہ ہو جاۓ ۔ جب سلطانہ مجھے اچھی طرح سے سمجھا چکی اور اس کی تسلی بھی ہو گئی تو اس نے کہا۔ اب تم ویران محل کی طرف روانہ ہو جاؤ۔ میں اس جگہ بیٹھی تمہیں دیکھ رہی ہوں۔“

میں نے اللہ کا نام لیا اور چپکے سے اٹھ کر روہت گڑھ کے قدیم قلعے کی جانب چل پڑا۔ وہاں سے قلعہ تھوڑے فاصلے پر ہی تھا۔ اس قلعے میں ، میں پہلے بھی آ چکا تھا۔ مجھے اس کے خفیہ راستے کا بھی پتہ تھا۔ میں خاموشی اور دھڑکتے ہوۓ دل کے ساتھ جنگل کے چپ چاپ کھڑے درختوں کے نیچے سے گزر رہا تھا اور دل میں خدا سے اپنی کامیابی کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ آخر مجھے دیو قامت پرانے قلعے کی دیوار نظر آ گئی۔ میں دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا اس جگہ آ گیا جہاں سے ایک خفیہ راستہ قلعے کے اندر ویران محل کو جاتا تھا۔ یہ راستہ ایک غار کی شکل میں تھا جس کا دہانہ جنگلی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ میں جھاڑیوں کو ہٹا کر سرنگ میں داخل ہو گیا۔ غار میں داخل ہونے سے پہلے میں نے کلمہ پاک پانچ مرتبہ پڑھ لیا تھا۔
اس غار میں آگے جا کر ایک زینہ اوپر کو جاتا تھا جو محل کے ایک خفیہ کمرے میں نکلتا تھا۔ اس قسم کے خفیہ راستے شاہی محلات میں ضرور رکھے جاتے تھے کہ اگر دشمن کی فوج محل میں داخل ہو جاۓ تو شاہی خاندان کے افراد محل سے فرار ہو سکیں۔
زینے پر سے ہوتا ہوا میں محل کے خفیہ کمرے میں آگیا۔ یہاں گھپ اندھیرا تھا۔ غائب ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں بھی مجھے سب کچھ نظر آ رہا تھا۔ خفیہ کمرے کے تنگ دروازے میں سے نکل کر میں نے ایک اور زبینہ طے کیا اور بڑے کمرے کی گیلری میں نکل آیا۔

یہ وہ بڑا کمرہ تھا جہاں پجاری رگھو کی بدروح نے رات کو اپنے کسی خاص عمل کے لئے آنا تھا۔ مجھے وہ پہلا دن یاد آ گیا۔ اس کمرے میں ، میں نے سلطانہ یعنی روہنی کے تین سو سال پہلے ہو چکے قتل کے منظر کو دوبارہ دیکھا تھا اور اس جگہ سے میری مصیبتوں کا آغاز ہوا تھا۔ میں گیلری میں سنگ مرمر کی جالی کے پیچھے چپ کر بیٹھ گیا۔ بڑا کمرہ ویران پڑا تھا۔ درمیان میں جو چبوترہ بنا تھا وہ بھی خالی پڑا تھا۔ سلطانہ نے مجھے کہا تھا کہ تم مجھے دل میں بھی آواز دے کر نہ بلانا۔ موقع دیکھ کر میں خود ہی تمہیں ہدایات دیتی رہوں گی ۔
میں خاموش بیٹھا پجاری رگھو کی بدروح کا انتظار کر رہا تھا۔ اندھیرے ویران کمرے میں ایسی خاموشی طاری تھی کہ مجھے اپنے دل کی دھڑکن سنائی دینے لگی تھی۔ مجھے وہاں بیٹھے آدھ گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ کمرے میں پھڑ پھڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ میں نے چونک کر نیچے دیکھا۔ مجھے ایک سیاہ فام بدروح نظر آئی جو کمرے کی فضا میں إدھر ادھر اڑتے ہوۓ جائزہ لے رہی تھی۔ وہ غائب تھی لیکن مجھے نظر آرہی تھی۔ میرے کان میں سلطانہ کی دھیمی سرگوشی کی آواز آئی۔ اس نے میرے کان میں کہا۔ ”شیروان! سانس روک کر اپنی جگہ ساکت ہو کر بیٹھے رہنا۔
یہ پجاری رگھو کی خاص محافظ بدروح ہے۔ اسے رگھو نے یہ معلوم کرنے کے لئے پہلے بھیجا ہے کہ ویران محل میں جا کر دیکھے کہ کسی دشمن نے کوئی جادو کا عمل تو نہیں کر رکھا۔۔ بالکل ساکت ہو کر بیٹھے رہو ۔ اٹھ کر بھاگو گے تو بدروح کو تم نظر آ جاؤ گے اور پھر تمہاری جان خطرے میں گھر جاۓ گی۔“
میں نے سانس روک لیا اور جب سانس کی ضرورت محسوس ہوتی تو میں بہت ہی آہستہ آہستہ سانس لینے لگتا۔ میری نگاہیں غیبی بدروح پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ بہت چمگادڑ کی طرح کمرے کی فضا میں ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی۔ چکر لگاتے ہوئے پھر گیلری کی طرف بھی آگئی۔ میرے کان میں سلطانہ کی سرگوشی سنائی دی۔ ”شیروان! کسی قسم کی حرکت نہ کرنا۔ یہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتی۔“
میں اور زیادہ ساکت ہو گیا۔ بدروح پھڑ پھڑاتی ، غوطے لگاتی میرے بالکل قریب سے ہو کر گزر گئی۔ وہ پھر گیلری کی طرف آئی۔ میں اس طرح پتھر کا بت بن کر بیٹھا رہا۔ بدرورح غوطہ لگا کر سیدھی میری طرف آئی۔ میں کچھ گھبرا گیا۔ وہ تیزی سے آئی اور میرے غیبی جسم میں سے گزر کر دوسری طرف نکل گئی۔ میں اپنی جگہ پر لرز سا گیا جیسے تیز ہوا کا جھونکا درخت کی شاخوں میں سے گزر جائے تو شاخیں لرزنے لگتی ہیں ۔ سلطانہ نے ٹھیک کہا تھا بدروح کو میرے غیبی وجود کا احساس تک نہ ہوا۔
بدروح نے بڑے کمرے کے مزید دو تین چکر کاٹے اور غائب ہو گئی۔ وہاں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ اتنے میں دو سیاہ پوش بدروحیں نمودار ہوئیں۔ ان کے ہاتھوں میں دو پیالے تھے جن میں سلکتے ہوئے لوبان کا دھواں نکل رہا تھا۔ انہوں نے دونوں پیالے چبوترے پر ایک دوسرے کے متوازی رکھ دیئے اور چبوترے سے اتر کر ایک طرف ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئیں۔ اس کے بعد ایک سیاہ فام آدمی نمودار ہوا۔ یہ بھی کوئی بدروح تھی مگر انسانی شکل میں تھی۔ اس کے سر پر بالوں کی لمبی بودی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کوئی کپڑا لپٹا ہوا تھا۔ اس نے چبوترے پر وہ کپڑا بچا دیا۔ یہ کسی جانور کی سیاہ کھال تھی۔
یہ بدروح بھی ایک جانب کھڑی ہو گئی۔ اس کے بعد بالکل اس روز کی طرح پجاری رگھو کی بدروح داخل ہوئی۔ پجاری رگھو ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ دو بدروحوں نے کرسی کندھوں پر اٹھا رکھی تھی اور وہ کچھ منتر پڑھتے ہوۓ آرہے تھے۔ چبوترے کے پاس آکر انہوں نے کرسی فرش پر رکھ دی۔ پجاری رگھو کی بدروح کو میں نے صاف پہچان لیا تھا۔ اسی طرح اس کا سر منڈھا ہوا تھا، کانوں میں مندریاں تھیں ، جسم سیاہ لبادے میں لپٹا ہوا تھا، ہاتھ میں تر شول تھا۔ پچاری رگھو نے کرسی سے اتر کر چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ مجھے ڈر تھا کہ یہ بڑی شیطانی طاقت والی بدروح ہے۔
یہ ضرور مجھے غیبی حالت میں بھی گیلری میں بیٹھا ہوا دیکھ لے گا۔ مگر میں اسے نظر نہیں آیا تھا۔ اس کی نگاہیں گیلری پر سے ہوتی ہوئی واپس چلی گئیں۔ پجاری ر گھو نے کھڑائیں پہن رکھی تھیں ۔ چبوترے کے پاس آکر اس نے کھڑائیںاآتاریں اور چبوترے پر چڑھ کر جانور کی کھال پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ تر شول اس نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ میں اس کی ایک ایک حرکت کا جائزہ لے رہا تھا۔ پجاری رگھو نے منتروں کا جاپ شروع کر دیا۔ اس کے منتر میری سمجھ میں نہیں آ رہے تھے۔
یہ بدروحوں کے منتر تھے۔ وہ منتر پڑھتا جاتا تھا اور سلگتے ہوۓ لوبان کے پیالوں میں کچھ پھینکتا جاتا تھا۔ وہ دیر تک یہ عمل کرتا
رہا۔
پھر ایسا ہوا کہ شاید اس نے فضا میں میری بو محسوس کر لی تھی یا اسے اس کے منتروں کی وجہ سے احساس ہوا تھا، پجاری رگھو منتر پڑھتے پڑھتے رک گیا۔ اس نے اونچی آواز میں کہا۔ ” یہاں کوئی زندہ انسان موجود ہے۔ ایک بدروح جلدی سے سامنے آگئی اور بولی " مہاراج ! میں کونہ کونہ دیکھ گئی تھی یہاں کسی زندہ انسان کی جرات نہیں کہ داخل ہو ۔ “ پجاری رگھو نے بلند آواز میں کہا۔’’ میرے منتر جھوٹ نہیں بولتے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہاں ایک زندہ انسان موجود ہے مگر وہ غیبی حالت میں ہے ۔“ یہ کہہ کر پجاری رگھو اٹھ کھڑا ہوا۔ تر شول اس نے ہاتھ میں پکڑ لیا اور بولا ۔ ”میں خود اس کو تلاش کر لوں گا۔“
میرے کان میں سلطانہ کی سرگوشی سنائی دی۔ ”شیروان! اپنی جگہ سے اٹھ کر چھت کے ساتھ لگ جاؤ۔ گھبرانا نہیں۔ رگھو کو تم نظر نہیں آؤ گے۔“ میں اس وقت گیلری سے بلند ہو کر اوپر چھت کے ساتھ لگ گیا۔ میں نیچے دیکھ رہا تھا۔ پجاری رگھو ایک دم غائب ہو گیا مگر میں اسے دیکھ سکتا تھا۔ غائب ہونے کے بعد وہ کمرے کی فضا میں ادھر ادھر اڑنے لگا۔ وہ پہلی بدروح کی طرح ایک ایک جگہ کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ کبھی اڑ کر ایک کونے میں جاتا کبھی وہاں سے غوطہ لگا کر دوسرے کونے میں چلا جاتا اور پھر وہاں سے دوسری طرف نکل جاتا۔
غلام بدروح اور عورتوں کی سیاہ فام بدروحیں ایک طرف کھڑی پجاری رگھو کی بدروح کو کمرے کی فضا میں غوطے لگاتے دیکھ رہی تھیں۔ پجاری رگھو کی بدروح ایک بار اڑتے ہوۓ میرے قریب سے ہو کر نکل گئی۔ وہ میرے قریب سے غوطہ لگا کر گزرا تو مجھے گرم ہوا لگی۔ تب مجھے خیال آیا کہ یہ آگ سے بنی ہوئی جہنمی مخلوق ہے۔
اس نے بھی مجھے نہیں دیکھا تھا۔ وہ بھی مجھے نہیں دیکھ سکا تھا۔ وہ واپس چبوترے پر آکر انسانی شکل میں ظاہر ہو گیا اور ترشول کو زور سے چھابوترے کے فرش پر مارتے ہوئے بولا۔ ” مجھے میرے دشمن منتروں کا جاپ کرنے سے روک رہے ہیں مگر وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ میں اپنا کیرتن اپنی تپسیا ضرور پوری کروں گا۔ اور اس نے ایک بار پھر منتر پڑھنے شروع کر دیئے ۔اتنے میں میرے کانوں میں سلطانہ کی سرگوشی سنائی دی۔ ”تم نے دیکھ لیا ہے کہ پجاری رگھو کو بھی تم نظر نہیں آۓ۔
اب جس وقت میں کہوں بے خوف ہو کر اس پر حملہ کر دو۔ خدا کی مدد تمہارے ساتھ ہے ۔ تم کامیاب ہو گئے ۔“
میں سلطانہ سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے آواز نکالنے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا چنانچہ میں خاموش رہا۔ سلطانہ کی سرگوشی ایک بار پھر سنائی دی۔ اب نیچے اتر کر چبوترے پر جا کر پجاری رگھو کے بالکل سامنے جا کر کھڑے ہو جاؤ۔
میں دل میں خوف محسوس کر رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر میں پجاری رگھو کی بدروح کے بالکل سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تو وہ ضرور مجھے دیکھ لے گا مگر اس وقت ایک طرح سے میں سلطانہ کے کنٹرول میں تھا اور وہی مجھے گائیڈ کر رہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ چھت سے نیچے اترنے لگا۔ پھر چبوترے کے بالکل اوپر آ گیا۔ اس کے بعد چبوترے پر یہاں رگھو پجاری بیٹھا منتروں کا جاپ کر رہا تھا اس کے بالکل سامنے تین قدموں کے فاصلے پر اتر کر کھڑا ہو گیا۔ میں پجاری رگھو کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے اس کے منڈھے ہوۓ سر پر پسینے کے قطرے تک دکھائی دے رہے تھے۔ مجھے لگا کہ میں موت کے سامنے کھڑا ہوں۔
میرا یقین بڑا پکا تھا مگر پھر بھی میں ایک کمزور انسان تھا کسی وقت شک پڑتا کہ ہو سکتا ہے میرے سارے حربے ناکام ہو جائیں اور یہ بدروحیں مجھے اسی جگہ بھسم کر دیں۔ شاید سلطانہ کو میرے دل کا حال معلوم ہو گیا تھا۔ اس نے میرے کان میں سرگوشی کی ۔ ”شیروان !دل کو مضبوط رکھو۔“ میں نے دل میں کلمہ پاک کا ورد شروع کر دیا۔ میر ا کھویا ہوا یقین اور اعتماد واپس آگیا اور میں اپنی جگہ پر قائم ہو گیا۔
میں دل میں برابر کلمہ پاک پڑھتے جا رہا تھا اور مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ دنیا کی کوئی شیطانی طاقت مجھے شکست نہیں دے سکتی۔اب میں بڑی بے تابی سے انتظار کر رہا تھا کہ سلطانہ مجھے رگھو پر حملہ کرنے کا کب اشارہ کرتی ہے ۔ پجاری رگھو منتر پڑھتے پڑھتے ایک بار پھر رک گیا۔ اس نے آنکھیں کھول کر اس طرف دیکھا جہاں میں کھڑا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا ہے ۔ شاید اس صورت حال کو سلطانہ نے بھی محسوس کر لیا تھا۔ اچانک پجاری رگھو نے غضب ناک ہو کر کہا۔ "تم ..... میرے دشمن..... " عین اسی وقت میرے کانوں میں سلطانہ کی سرگوشی سنائی دی۔" شیروان ! مالینی کا شبد پڑھ کر اس پر پھونک دو۔“
میں نے مالینی کا بتایا ہوا لفظ دہرایا اور زور سے پجاری رگھو کی طرف پھونک ماری۔ میراخیال تھا کہ پجاری رگھو ایک دم جل کر راکھ ہو جائے گا مگر یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ کہ مالینی کے بتائے ہوئے شبد نے پجاری رگھو پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ پجاری رگھو نہ صرف یہ کہ مجھے دیکھ چکا تھا بلکہ اس نے مجھے پہچان بھی لیا تھا۔ اس کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور اس نے ڈراؤنی آواز میں بدروحوں کو حکم دیا۔
اس ملیچھ کو پکڑ لو۔“
اور یہ کہہ کر پجاری رگھو نے ترشول سنبھال کر کوئی خفیہ منتر پڑھ کر ترشول سے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں جلدی سے ایک طرف ہو گیا۔ یہ میں نے بشری کمزوری کے تحت ایسا کیا تھا حالانکہ میں غائب تھا مگر کچھ پتہ نہیں تھا کہ پجاری رگھو کا ترشول میرے غیبی جسم میں سے نکل جانے کی بجاۓ میرے انسانی جسم کو چھلنی کر دیتا۔ میں واقعی اس وقت گھبرا گیا تھا۔ ہر کلمہ گو مسلمان کی طرح مصیبت کی اس گھڑی میں مجھے سوائے خدا کے اور کسی کا خیال نہ آیا۔ میں نے فورا اعوذ باللہ پڑھ کر بلند آواز میں کہا۔ "یا اللہ پاک! مجھے شیطان سے اپنی پناہ میں رکھنا۔“
ان الفاظ کا میری زبان سے نکلنا تھا کہ پجاری رگھو کے جسم کو آگ لگ گئی۔ بھڑکتے شعلوں نے اس کے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ چبوترے پر چکر کھانے لگا۔ اس کے حلق سے بڑی ڈراؤنی آوازیں نکلنے لگیں۔ یہ دیکھ کر اس کی غلام بدروحیں ایک سیکنڈ میں چیختی چلاتی غائب ہو گئیں۔ اب اس ویران محل کے کمرے میں ، میں تھا اور پجاری رگھو کی شعلوں میں لپٹی چکر کھاتی ہوئی بدروح تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے پجاری رگھو کا جسم سیاہ ہڈیوں کا پنجر بن گیا۔ ہڈیوں کا پنجر بھی آگ میں جل رہا تھا۔
پھر ہڈیوں کا پنجر بھی بھسم ہو کر راکھ بن گیا۔ اس کے بعد کمرے میں ہیبت ناک سناٹا طاری ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ کمرہ بالکل خالی ہو چکا تھا۔ نہ بدروحیں تھیں ، نہ وہ کرسی تھی جس پر بیٹھ کر پجاری رگھو آیا تھا اور نہ چبوترے پر سلگتے ہوئے لوبان والے پیالے ہی تھے۔
سب بلائیں دفع ہو چکی تھیں ۔ میرے دل سے اللہ کے خوف کے سوا سارے خوف دور ہو چکے تھے۔ مجھے سلطانہ کی سرگوشی سنائی دی۔ سلطانہ کی سرگوشی بھی جذبہ ایمانی میں سرشار تھی۔ ”سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! سبحان اللہ !‘‘ اس نے تین بار سبحان اللہ کہا اور بولی۔’’شیروان ! تم نے اللہ کے پاک کلام کی مدد سے بدی کی ایک شیطانی طاقت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے ۔‘‘ میں نے کہا۔’’اب تو میں بول سکتا ہوں نا؟“ سلطانہ کی آواز آئی۔ کہو۔ کیا کہنا چاہتے ہو ؟"
میں نے کہا۔ میں تمہارے پاس واپس آ رہا ہوں۔‘‘ سلطانہ کی سرگوشی سنائی دی۔ میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔“ اور میں اس منحوس محل میں سے نکل کر جنگل کے درختوں کے اوپر سے ہوتا ہوا سلطانہ کے پاس آ گیا۔ وہ کھنڈر کی چار دیواری سے باہر نکل کر میرا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولی۔ "شیروان جب مالینی کے شبد نے رگھو پر کوئی اثر نہ کیا تو میں ڈر گئی تھی۔ اب شیطان صفت رگھو کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن عین وقت پر اعوذ باللہ پڑھ کر جو تم نے اللہ کو مدد کے لئے آواز دی تو اللہ کے پاک کلام نے تمہیں اپنی پناہ میں لے لیا ۔۔۔
میں نے کہا۔ ’’سلطانہ اب تو ساری بدروحوں سے ہمارا اور خاص طور پر میرا پیچھا چھوٹ چکا ہے ناں یا اب بھی کوئی بلا باقی ہے ؟ سلطانہ نے کہا۔ ”نہیں شیروان! اب ساری بلائیں دفع ہو چکی ہیں۔ خدا نے تمہاری اور میری غلطیاں اور قصور بخش دیئے ہیں۔“ میں نے شکر الحمد للہ پڑھ کر کہا۔ ” آج میں اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش قسمت آدمی سمجھتا ہوں۔“ سلطانہ کہنے لگی۔ ’’اب ہمیں واپس چلے جانا چاہئے۔
یہ جگہ ہمارے لئے اچھی نہیں ہے اسی وقت ہم روہت گڑھ کے جنگل سے پرواز کر کے دہلی کی سمت روانہ ہو گئے ۔ رات کا پچھلا پہر شروع ہو گیا تھا جب ہم مغلیہ مسجد کے پیچھے ندی کنارے بارہ دری
میں آگئے۔
میں نے سلطانہ سے کہا۔ ’’سلطانہ ! اب میں واپس اپنے وطن پاکستان جانا چاہتا ہوں تاکہ وہاں جا کر ایک نئی زندگی شروع کروں۔“ سلطانہ نے کہا۔ ”شیروان! اب مجھے بھی تم سے جدا ہونا ہوگا۔ میں صرف تمہاری خاطر یہاں ٹھہر گئی تھی لیکن میں تمہیں پاکستان پہنچانے کے بعد نیک روحوں کی دنیا میں جاؤں گی کیونکہ تم اکیلے پاکستان نہیں جاسکو گے اس لئے کہ تمہارے پاس پاسپورٹ نہیں ہے ۔“
میں نے کہا۔ ” میں غائب ہو کر ہوا میں اڑتا ہوا پاکستان چلا جاؤں گا۔
مجھے پاسپورٹ کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟“ سلطانہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ ’’ بدروحوں کا طلسم ٹوٹ چکا ہے شیروان . . . . . سورج کی پہلی کرن کے ساتھ پاتالی کی انگوٹھی کا اثر بھی ختم ہو جائے گا اور تم اپنے آپ ظاہر ہو جاؤ گے اور پھر نہ غائب ہو سکو گے ، نہ ہوا میں اڑ سکو گے ۔ اس طرح کالے جادوگر کی ہڈی جو تم نے اپنے بازو پر باندھ رکھی ہے اس کا طلسم بھی ختم ہو جاۓ گا۔“
میں نے خوش ہو کر کہا۔’’ سلطانہ ! ان لعنتوں سے بھی میرا پیچھا چھوٹ جاۓ گا تو میں خدا کا شکر ادا کروں گا۔ میں اب ایک نارمل مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں .....
سلطانہ نے کہا۔ " تم نے بڑا اچھا فیصلہ کیا ہے ۔ لیکن رات ڈھلنے لگی ہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ اس سے پہلے کہ تم غیبی حالت سے ظاہر ہو کر انسانی شکل میں واپس آجاؤ تمہیں پاکستان پہنچا دوں۔ آؤ میرے ساتھ ۔ میر اہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لو۔“
میں نے سلطانہ کا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے کہا۔ ’’اللہ کا نام لے کر آنکھیں بند کر لو۔“ میں نے ایسا ہی کیا۔ ہوا کا تیز جھونکا میرے جسم کو چھو کر گزر گیا۔ پھر جیسے میں ہوا میں سے گزر رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد سلطانہ نے مجھے آنکھیں کھول دینے کو کہا۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ آسمان پر چاند ڈھل رہا تھا۔ میں ایک خوبصورت روشنوں اور فواروں والے باغ میں چار میناروں والی ایک مغلیہ عمارت کے پاس کھڑا تھا۔ میرے قریب ہی سلطانہ موجود تھی۔ کہنے لگی۔ ” تم نے اس عمارت کو نہیں پہچانا؟‘‘ میں نے عمارت کو غور سے دیکھا اور خوش ہو کر کہا۔ " یہ تو مجھے مقبرہ جہانگیر لگتا ہے۔ اس کا مطلب ہے میں اپنے پیارے وطن پاکستان کے پیارے شہر لاہور میں ہوں۔“
سلطانہ مسکرا دی تھی۔ کہنے لگی۔’’ہاں فیروز ! تم اپنے پیارے اور مملکت خداداد پاکستان کے خوبصورت شہر لاہور میں جہانگیر کے مقبرے میں ہو ۔ “ میں نے تعجب کے ساتھ سلطانہ سے پوچھا۔”تم نے پہلی بار مجھے میرے اصلی نام فیروز سے بلایا ہے۔ تم نے پہلے ہمیشہ مجھے شیروان کے نام سے پکارا تھا۔ یہ تبدیلی کیسے ہوئی؟“
سلطانہ نے کہا۔ ’’فیروز ! شیروان ایک خواب تھا۔ وہ خواب ٹوٹ چکا ہے ۔ کچھ دیر کے بعد میں بھی تم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاؤں گی۔ مجھے بھی ایک خواب سمجھ کر بھلا دینا اور پاکستان میں ایک سچے پاکستانی اور بچے مسلمان کی حیثیت سے نئی زندگی شروع کرنا۔ میں نے بدروح کی حیثیت سے گناہوں کا عذاب بھی دیکھا ہے اور اچھی روح بن کر نیکیوں کا ثواب اور خدا کی رحمت کو بھی نازل ہوتے دیکھا ہے۔ میں تمہیں ، تم سے جدا ہوتے ہوۓ یہی کہوں گی کہ برائی سے ، برے کاموں سے ، برے خیالوں سے بچنا۔ خلق خدا کی خدمت کرنا۔ کوئی تمہارے ساتھ برائی کرے تو اسے معاف کر دینا۔
اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺﷺ کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنا۔ کوئی سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا تمہارے پاس آ جائے تو اسے سیدھی راہ دکھا دینا۔ پانچ وقت نماز پڑھنا۔ نماز دل کے میل کو دھو ڈالتی ہے اور بندے کو اس کے رب کے قریب لے جاتی ہے .....“
سلطانہ کی باتوں نے مجھ پر ایک عجیب رقت کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کی آواز سن رہا تھا۔ وہ بھی غائب تھی اور صرف مجھے نظر آ رہی تھی۔ میں بھی غائب تھا اور صرف وہی مجھے دیکھ سکتی تھی۔ آسمان پر صبح کا در پھیلنے لگا اور پھر سورج کی پہلی سنہری کرن مشرقی افق پر بلند ہوئی تو مجھے اپنا جسم نظر آنے لگا۔ میں نے اپنے جسم کو غور سے دیکھا۔ میں واقعی اب غائب نہیں تھا۔ میں نے سلطانہ سے کہا۔’’سلطانہ ! میں غائب نہیں رہا۔ سلطانہ نے کہا۔’’بدروحوں کا طلسم سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ٹوٹ گیا ہے۔۔۔
فیروز۔ اب تم ایک نارمل انسان ہو ۔ “ میں نے اپنی انگلی کو دیکھا۔ پاتالی کی انگوٹھی غائب ہو چکی تھی۔ میں نے اپنے بازو کو ٹٹول کر دیکھا۔ کالے جادوگر کا ہڈی والا تعویذ بھی غائب تھا۔ میں سلطانہ کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے کہا۔ ” بری بلاؤں اور بدروحوں کے ساتھ ان کی منحوس نشانیاں بھی غائب ہو گئی ہیں فیروز . . . . . خداوند کریم کا شکر ادا کرو۔ خداحافظ !‘‘ اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے سلطانہ بھی غائب ہو گئی۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں ایک خواب دیکھ رہا تھا جو ایک دم ختم ہو گیا ہے۔ دور کسی مسجد کے سپیکر سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز سنائی دی۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں قبلہ رو ہو کر سجدے میں گر گیا۔
اس کے بعد میری زندگی بالکل ہی بدل گئی۔ سلطانہ کی نیک روح نے مجھے جو نصیحتیں کی تھیں میں نے ان پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ میں پانچوں وقت نماز پڑھتا ہوں۔ اپنے وطن پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔ اللہ اور نبی پاک ﷺ کے دکھاۓ ہوۓ راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کوئی برا خیال ذہن میں آجاۓ تو اسے فوراً اعوذ باللہ پڑھ کر ذہن سے نکال دیتا ہوں۔ کبھی کسی بات پر غصہ نہیں کرتا۔ کوئی میرا دل دکھاۓ تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں۔
اپنی محنت کی کمائی سے بازار سے دال روٹی خرید کر کھا لیتا ہوں اور ہر لمحے خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ جن بھیانک واقعات سے میں گزر چکا ہوں انہیں میں نے اپنے ذہن سے بھلا دیا ہے۔ میں غریبی کی زندگی بسر کر رہا ہوں لیکن میرا دل اللہ کے خوف اور خلق خدا کی محبت سے لبریز ہے ۔ یہی میری سب سے بڑی دولت ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو کم نہیں ہوتی بلکہ جتنی خرچ کرو اتنی بڑھتی جاتی ہے۔ جسے یہ دولت مل جاۓ اسے اور کیا چاہئے ..... یہاں اس شخص کی کہانی ختم ہوتی ہے۔
میرے پر زور اصرار کے باوجود اس شخص نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ مجھے اپنی داستان سنا کر وہ چلا گیا اور اس کے بعد اس سے پھر کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ شاید وہ لاہور چھوڑ کر پاکستان کے کسی دوسرے شہر یا کسی گاؤں میں چلا گیا ہے اور وہاں محنت مزدوری کر کے رزق حلال کی روکھی سوکھی کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے خلق خدا کی خدمت میں مصروف ہوگا۔
(ختم شد)

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں